Saturday 29 July 2023

بچھو کے زہر کا ایک لیٹر ’ایک کروڑ ڈالر‘ میں کیوں بکتا ہے؟

 بچھو کے زہر کا ایک لیٹر ’ایک کروڑ ڈالر‘ میں کیوں بکتا ہے؟

ہم یہ تو جانتے ہیں کہ سانپ کسی انسان کو کاٹے تو یہ جان لیوا ہو سکتا ہے لیکن بچھو بھی خطرناک ہوتے ہیں جو انسان کی جان لے سکتے ہیں۔لیکن کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ بچھو کے ڈنگ میں چھپا ہوا زہر جتنا جان لیوا ہو سکتا ہے اتنا ہی مہنگا بھی ہوتا ہے؟ ترکی کی ایک لیبارٹری میں روزانہ بچھو کے زہر کی دو گرام مقدار جمع کی جاتی ہے۔ اس عمل کے دوران لیبارٹری کا عملہ بچھو کو ایک ڈبے سے نکال کر اس وقت تک انتظار کرتا ہے جب تک بچھو زہر کا ایک قطرہ نہیں نکال دیتا۔ اس قطرے کو منجمد کرلیا جاتا ہے اور پھر محفوظ بنا کر اسے بیچا جاتا ہے۔میڈن اورانلر بچھو پالتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان کے فارم پر 20 ہزار بچھو ہیں۔’ہم ان کو باقاعدہ کھانا ڈالتے ہیں، ان کا خیال رکھتے ہیں اور ان کی پرورش کرتے ہیں۔ ہم ان کا زہر نکال کر منجمد کر لیتے ہیں۔ پھر ہم اس کو یوروپ میں بیچ دیتے ہیں۔‘ بچھو کے ڈنگ میں صرف دو ملی گرام زہر ہوتا ہے۔ میڈن کا کہنا ہے کہ بچھو کے زہر کی ایک گرام مقدار تقریبا 300 سے 400 بچھو سے حاصل کی جاتی ہے لیکن اگر وہ اس زہر کو بیچتے ہیں تو اس کی قیمت کیا ہوتی ہے؟میڈن کے مطابق بچھو کے زہر کا ایک لیٹر تقریبا ایک کروڑ ڈالر کا بکتا ہے۔لاطینی امریکہ میں پائے جانے والے ایک مخصوص بچھو کے زہر سے ’مارگا ٹوکسن‘ نامی مواد حاصل کیا جاتا ہے جو خون کی رگوں میں نئے خلیے بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے اور اسے دل کی سرجری میں استعمال کیا جاتا ہے۔یہ بچھو پانچ سے آٹھ سینٹی میٹر تک کے ہوتے ہیں اور اگرچہ ان کا زہر جان لیوا نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اگر یہ کسی کو کاٹ لیں تو اس شخص کو شدید درد، سوجن اور خارش ہوتی ہے۔



صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا

صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا
-------------------------------
--------------------------------
جمہور صحابہ وتابعین وعلماء امت کے راجح قول کے مطابق اسلامی تقویم کے پہلے مہینے محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو 'عاشوراء' کہتے ہیں. اسلام کی آمد سے قبل زمانہ جاہلیت میں بھی اس دن کی بڑی عظمت وتکریم تھی. قریش مکہ اس دن خوشیاں مناتے، خانہ کعبہ کا غلاف بدلتے اور روزہ رکھتے تھے 
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے دین ابراہیمی کی سنت سمجھ کر روزہ رمضان کی فرضیت (سن ۲ ہجری) سے پیشتر یہ روزہ اہتمام کے ساتھ رکھتے اور اپنے اصحاب کو بھی رکھنے کا امر فرماتے تھے. فرضیت رمضان کے بعد اس کی حیثیت استحباب کی رہ گئی. اور رکھنے نہ رکھنے کے تئیں اصحاب کو اختیار دے دیا گیا. حضرت عائشہ، حضرت عبداللہ بن عمر اور متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روایات صحاح وسنن میں موجود ہیں:
(عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: «كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ» صحيح البخاري. كتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، حديث رقم: (1863، ج7، ص125).
وعنھا: كانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ، في الجَاهِلِيَّةِ وكانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ المَدِينَةَ صَامَهُ، وأَمَرَ بصِيَامِهِ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ كانَ مَن شَاءَ صَامَهُ، ومَن شَاءَ لا يَصُومُهُ. (صحيح البخاري: 3831) .
وسیع تر دعوتی حِکَم ومصالح یا انبیاء سابقین کے ساتھ نبوی اخوت کے اظہار کے پیش نظر غیر منصوص احکام  میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ کتاب کی موافقت فرماتے تھے ؛ لیکن بعد میں یہ بات منسوخ اورختم ہوگئی اوراہلِ کتاب کی مخالفت کا قولاً اور فعلاً اہتمام کیا جانے لگا تھا جو بہت سی وجہ سے ضروری تھا. حافظ فرماتے ہیں:
قَدْ كَانَ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِشَيْءِ وَلَا سِيَّمَا إِذَا كَانَ فِيمَا يُخَالِف فِيهِ أَهْل الْأَوْثَان ، فَلَمَّا فُتِحَتْ مَكَّة وَاشْتُهِرَ أَمْر الْإِسْلَام أَحَبَّ مُخَالَفَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ أَيْضًا كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ ، فَهَذَا مِنْ ذَلِكَ ، فَوَافَقَهُمْ أَوَّلًا وَقَالَ : نَحْنُ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ ، ثُمَّ أَحَبَّ مُخَالَفَتهمْ فَأَمَرَ بِأَنْ يُضَافَ إِلَيْهِ يَوْمٌ قَبْله وَيَوْمٌ بَعْدَهُ خِلَافًا لَهُمْ.(فتح الباري 235/10)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ آتے ہی بلکہ اس سے بھی پیشتر سے عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کے ساتھ نویں کا روزہ رکھنے کا ارادہ نہیں فرمائے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دسویں کا روزہ وفات سے ایک سال پہلے تک رکھا ، جب صحابہ کرام نے ملاحظہ فرمایا کہ ابتدائے بعثت کے احوال کے برعکس اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ کتاب کی موافقت کی بجائے قولاً وفعلاً مخالفت کو پسند فرماتے ہیں تو صحابہ کی جانب سے یاد دہانی کرائی گئی کہ حضور ! آپ تو عبادات میں اب اہل کتاب کی مخالفت کو پسند فرماتے ہیں جبکہ دوسری طرف عاشوراء کاروزہ رکھ کر ان کی موافقت بھی ہورہی ہے ؛ کیونکہ یہودی اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کہا کہ وہ  آئندہ سال سے فی الجملہ مخالفت کی غرض سے نویں کا روزہ (بھی ) رکھیں گے ؛ لیکن اگلے سال کی نویں تاریخ آنے سے پہلے ربیع الاول میں ہی آپ واصل بحق ہوگئے. چونکہ جن حکم ومصالح کے باعث اب تک عاشوراء کے روزے میں یہودیوں کی موافقت کی جاتی رہی اب بظاہر وہ مقاصد حاصل ہوچکے تھے، اسلام کی جڑیں مضبوط ہوچکی تھیں، مکہ فتح ہوچکا تھا، یہودیوں کی ضد آہٹ دھرمی بھی آشکار ہوچکی تھی، اب ان کی موافقت کو مزید باقی رکھنا یہودیوں کی زبان طعن دراز کرنے اور منفی تبصرے کے موقع فراہم کرنا تھا ، اس لئے حکمت متقاضی ہوئی کہ اب عاشوراء کے روزے میں بھی قدر امکان ان کی مخالفت کی جائے. چنانچہ خواہش کا اظہار فرمایا کہ اگر زندگی نے وفاء کی تو آئندہ سال دسویں کے ساتھ نویں کا روزہ بھی رکھوں گا ، تاکہ دسویں کا خیر کثیر بھی حاصل ہوجائے اور نویں کے اضافے سے مخالفت یہود بھی ہوجائے۔ نویں کو دسویں کے ساتھ ملانے کی وجوہات کے تئیں کئی اقوال ہیں، احناف کا موقف یہ ہے کہ یہود صرف دسویں کے روزہ پر اکتفاء کرتے ہیں، نویں کو دسویں کے ساتھ ضم کرلینے سے یہود کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے گی. یعنی دسویں کی ذات میں کوئی خرابی نہیں ہے. خرابی صرف اس لئے در آئی ہے کہ یہود دسویں پر ہی اکتفاء کرلیتے ہیں 
اسی اکتفاء کی مخالفت کے لئے ساتھ میں نویں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم ہے. یوں مخالفت یہود پر بھی عمل ہوجائے گا اور دسویں کے روزہ کی فضیلت بھی حاصل ہوجائے گی۔ بعض ائمہ کے یہاں نویں کو ضم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح خاص جمعہ یا ہفتہ کی ذاتی فضیلت سمجھتے ہوئے قصداً تنہا اسی دن روزہ رکھنا مکروہ وناپسندیدہ ہے ، اسی طرح عاشوراء میں مخالفت یہود کے حکم اور منشاء نبوی سامنے آجانے کے بعد تنہا دسویں کا روزہ رکھنا بھی پسندیدہ نہیں. کیونکہ اس سے دسویں یا تنہا ہفتہ یا جمعہ کی ذاتی فضیلت معلوم ہوتی ہے ؛ جبکہ ذاتی فضیلت صرف شہر رمضان کی ہے ، بقیہ ایام میں یہ خصوصیت نہیں ، اگر سہولت ہو تو دسویں ، جمعہ یا ہفتہ سے آگے پیچھے بھی ایک دن روزہ رکھا جائے 
علامہ عینی نخب الافکار میں تفصیل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
وكذا سائر الأيام إذا أراد أن يصوم فيها لا ينبغي أن يقصد يومًا بعينه لما فيه من التشبيه لأهل الكتاب؛ لأن من عادتهم الصوم في يوم بعينه قصدًا، ولا سيما كانوا يفعلون ذلك في يوم عاشوراء، وكذلك صوم يوم الجمعة بقصد بعينه؛ لما فيه من التشبيه لهم أيضًا، اللهم إلا إذا صام يوما قبله أو يوما بعده، ولكن يستثنى من هذا الحكم شهر رمضان؛ لأن الله تعالى فرض صومه علينا بعينه إلا فيمن كان معذورا بمرض أو سفر، فقصد تعيينه لا يؤثر شيئا في الكراهة؛ لأنه بتعيين الشارع، وذلك لا يوصف بالكراهة، بخلاف غيره من المشهور والأيام حيث يؤثر التعين فيه قصدا في الكراهة لما ذكرنا. (نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار) [بدرالدين العيني 424/8]
بعض علماء کے یہاں عاشوراء کے ساتھ نویں کو ضم کرنے کی خواہش کی حکمت یقینی طور پر عاشوراء کا حصول ہے. کیونکہ آغاز ماہ محرم کی تاریخ میں اشتباہ کی صورت میں حقیقی دسویں تاریخ کو پالینا مشکوک ہوسکتا ہے، حقیقی دسویں کے ادراک کے لئے نویں کو بھی روزہ رکھ لیا جائے تاکہ عاشوراء جیسے افضل ترین دن کی حقیقی تاریخ متیقن طور پر بہر حال ہاتھ آجائے. ان وجوہ متعددہ محتملہ کے باعث حدیث میں دسویں کے ساتھ نویں کو بھی تاکیداً روزہ رکھنے کی خواہش ظاہر  کی گئی ہے. احناف سمیت اکثر علماء نے مخالفت یہود والی علت کو راجح کہا اور اسی کو اختیار بھی کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع حدیث میں تصریح ہے:
«خَالِفُوا الْيَهُودَ , وَصُومُوا يَوْمَ التَّاسِعِ وَالْعَاشِرِ» (شرح معاني الآثار للطحاوي ٣٣٠٢)
لیکن دیگر وجوہ کی سرے سے تردید بھی کسی نے نہیں کی ہے. محتمل وہ بھی ہیں. آثار وروایات سے ان کی تائید بھی ہوتی ہے. مثلاً: سنن ابن ماجہ کی روایت  نمبر 1709 میں "مَخَافَةَ أَنْ يَفُوتَهُ عَاشُورَاءَ" کا اضافہ ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ .. لَأَصُومَنَّ الْيَوْمَ التَّاسِعَ"
قَالَ أَبُو عَليٍّ: رَواهُ أَحْمَدُ بنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ زَادَ: مَخَافَةَ أَنْ يَفُوتَهُ عَاشُورَاءَ.
تنہا جمعہ کو روزہ رکھنے کے تئیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
(لا يَصُومَنَّ أحَدُكُمْ يَومَ الجُمُعَةِ، إلَّا يَوْمًا قَبْلَهُ أوْ بَعْدَهُ) أخرجه البخاري (1985) واللفظ له، ومسلم (1144)
تنہا ہفتہ کو روزہ کے لئے خاص کرنے کے تئیں ممانعت وارد ہے:
لا تصوموا يوم السبت إلا فيما افترض الله عليكم (الترمذي: ج ٣ / كتاب الصوم باب ٤٣/٧٤٤). 
غرض "لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ .. لَأَصُومَنَّ الْيَوْمَ التَّاسِعَ" کی نبوی خواہش کی حتمی طور پر کوئی متعین علت بیان نہیں کی گئی ہے، تشبہ بالیہود من جملہ وجوہ محتملہ میں سے ایک ہے جسے اکثر محدثین نے راجح کہا ہے؛ لیکن ازروئے شرع اس کا تعین نہیں ہوا ہے. بالفرض کسی زمانے میں تشبہ بالیھود والی وجہ کمیاب یا نایاب ہوجائے تو ضم تاسوعاء 
کی دیگر وجوہ محتملہ تو اپنی جگہ بدستور باقی رہیں گی. اور ان علل کے باعث تنہا عاشوراء کے روزہ کو خلافِ افضل وبہتر سمجھا جائے گا. پھر ارشاد نبوی "لَأَصُومَنَّ الْيَوْمَ التَّاسِعَ" منصوص ومؤکد ہے 
عزم مؤکد سے ہی اس کی سنیت ثابت ہوگی. شیخ عبدالحق  لکھتے ہیں:
ثم إنه -صلى اللَّه عليه وسلم- لم يعش إلى قابل ولم يضم، لكن صار صوم التاسع سنة بهذا القول (لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح 472/4)
علامہ طیبی کا کہنا ہے:
"لَمْ يَعِشْ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إِلَى الْقَابِلِ بَلْ تُوُفِّيَ فِي الثَّانِي عَشَرَ مِنْ رَبِيعِ الْأَوَّلِ فَصَارَ الْيَوْمُ التَّاسِعُ مِنَ الْمُحَرَّمِ صَوْمَ سُنَّةٍ، وَإِنْ لَمْ يَصُمْهُ لِأَنَّهُ عَزَمَ عَلَى صَوْمِهِ" (شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن 606/5)
جو امر منصوص طور پہ ثابت ہو اس میں قیاسات کا دخل نہیں ہوتا "لامساغ للاجتهاد مع المنصوص" علامہ نووی المجموع میں لکھتے ہیں:
وذكر العلماء من أصحابنا وغيرهم في حكمة استحباب صوم تاسوعاء أوجها:
أحدهما: أن المراد منه مخالفة اليهود في اقتصارهم على العاشر، وهو مروي عن ابن عباس.
والثاني: أن المراد به وَصْلُ يومِ عاشوراء بصومٍ، كما نهى أن يُصام يومُ الجمعة وحده، ذكرهما الخطابي وآخرون.
الثالث: الاحتياط في صوم العاشر خَشْية نقصِ الهلالِ، ووقوع غلطٍ؛ فيكون التاسع في العدد هو العاشر في نفس الأمر ( المجموع (7/645).
لہٰذا جب رسول کریم کی سنت سے ضم تاسوعاء ثابت ہوگیا اور ابن عباس کی ایک حدیث مرفوع میں بصیغہ امر اسے بیان بھی کردیا گیا. ہزاروں سالوں سے تعامل امت بھی اس پر چلا آرہا ہے. تشبہ بالیہود کے ماسوا  ضم کے دیگر علل محتملہ بھی باقی ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ جس نویں کے روزے کی خواہش کا اظہار تاکیدی طور پہ نبی نے کی ہو اسے بلا عذر ومجبوری 
ترک کرنے کو بہتر سمجھا جائے. بلکہ تشبہ ہو یا نہ ہو ہر زمانے میں تا قیامت ضم تاسوعاء کی افضلیت ثابت رہے گی۔ بلاوجہ اسے ترک کرنا خلافِ اولیٰ (مکروہ تنزیہی) سمجھا جائے گا. ثابت بالنص احکام کو انتفاء علت کے باعث حذف کرنے کا سلسلہ اگر شروع کردیا جائے تو نہ جانے کتنے احکام اس کی زد میں آئیں گے اور کتنوں پہ ہاتھ صاف کردینا پڑے گا اور یوں شریعت کے احکام میں تغیر کی راہ کھل جائے گی. رہ گئی یہ بات کہ کیا یہود اسلامی تقویم کی پیروی کرتے ہیں یا نہیں ؟ 
اگر نہیں کرتے تو عاشوراء کے دن ان کا روزہ رکھنے کا کیا مطلب ہے؟ پھر عاشوراء میں ان کی مشابہت یا مخالفت کیسے ممکن ہوگی؟ تو عرض یہ ہے کہ 
{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ ... سورة البقرة : 189} 
{وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ.{يونس:5}.
{إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ مِنْها أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۔ سورة التوبة (٩): آية ٣٦}. 
جیسی آیات کے عموم مثلاً پہلی آیت میں "مواقيت للناس" میں الناس کا عموم 
اسی طرح تیسری آیت "عدة الشهور" میں الشهور سے مراد قمری مہینے پہ مفسرین کا اجماع واتفاق بتاتا ہے کہ 
قمری حساب وکتاب ہی دنیا کے تمام لوگوں کے لئے مشروع  ہوا تھا ؛ لیکن یہودی اپنی سرشت کے مطابق اس میں تغیر وتبدل کرنے سے کب باز رہنے والے تھے؟ جن کے خرد برد سے ان کی مقدس کتابیں محفوظ نہ رہ سکیں تو قمری تقویم کی کیا مجال ہے کہ محفوظ رہ سکے؟ لہٰذا اصلی قمری مہینے میں انہوں نے اپنی طرف سے کمی بیشی کردی 
تاہم یہودیوں کے یہاں بھی سب سے مشہور تقویم قمری ہی ہے، لیکن اس میں بہت سے اضافے اور ترمیمات کردی گئی ہیں، اور ان کا اس دن کو عید منانا جس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بچایا اور فرعون کو غرقاب کیا تھا، ہمارے وقت (عاشوراے محرم) کے مطابق نہیں ہے۔ الموسوعة العربية العالمية میں ہے: 
تعتمد السنة العبرية على القمر، وهي في العادة مكونة من 12 شهراً. وهذه الأشهر هي : تشْري، مرحشوان، كسلو، طبت، شباط، أدار، نيسان ، أيار، سيوان، تموز، آب، أيلول. تتكون الأشهر من 30 و 29 يومًا بالتبادل. في خلال كل 19 عامًا، يضاف شهر إضافي قوامه 29 يومًا سبع مرات بين شهري أدار ونيسان، ويطلق على هذا الشهر اسم فيادار. وفي الوقت ذاته يصبح أدار 30 يومًا بدلاً من 29 يومًا.  اهــ .
حافظ عسقلانی اپنے زمانہ کے یہودیوں کے بارے لکھتے ہیں کہ وہ لوگ قمری مہینوں کے مطابق ہی اپنے امور صوم انجام دیتے ہیں:
فَإِنَّ الْيَهُود لَا يَعْتَبِرُونَ فِي صَوْمهمْ إِلَّا بِالْأَهِلَّةِ، هَذَا الَّذِي شَاهَدْنَاهُ مِنْهُمْ ، فَيَحْتَمِل أَنْ يَكُون فِيهِمْ مَنْ كَانَ يَعْتَبِر الشُّهُور بِحِسَابِ الشَّمْس لَكِنْ لَا وُجُود لَهُ الْآن، كَمَا اِنْقَرَضَ الَّذِينَ أَخْبَرَ اللَّه عَنْهُمْ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ عُزَيْر اِبْن اللَّه. (فتح الباري 181/7)
علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں : 
وَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّ الشَّرَائِعَ قَبْلَنَا أَيْضًا إنَّمَا عَلَّقَتْ الْأَحْكَامَ بِالْأَهِلَّةِ وَإِنَّمَا بَدَّلَ مَنْ بَدَّلَ مِنْ أَتْبَاعِهِمْ كَمَا يَفْعَلُهُ الْيَهُود فِي اجْتِمَاعِ الْقُرْصَيْنِ، وَفِي جَعْلِ بَعْضِ أَعْيَادِهَا بِحِسَابِ السَّنَةِ الشَّمْسِيَّةِ، وَكَمَا تَفْعَلُهُ النَّصَارَى فِي صَوْمِهَا حَيْثُ تُرَاعِي الِاجْتِمَاعَ الْقَرِيبَ مِنْ أَوَّلِ السَّنَةِ الشَّمْسِيَّةِ وَتَجْعَلُ سَائِرَ أَعْيَادِهَا دَائِرَةً عَلَى السَّنَةِ الشَّمْسِيَّةِ بِحَسَبِ الْحَوَادِثِ الَّتِي كَانَتْ لِلْمَسِيحِ .. (كتاب مجموع الفتاوى 135/25)
علامہ کشمیری کا بھی خیال یہ ہے کہ یہود قمری اور شمسی دونوں تقویموں سے واقف تھے : 
وليعلم أن العرب كانوا عالمي الحساب الشمسي والقمري لآيات: {إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ} [التوبة: ٣٧] إلخ على ما فسر الزمخشري في الكشاف أن النسيء هو العمل بالكبيسة أي جعل العام القمري شمسياً……..فإن العرب كانوا يعلمون الحسابين، في المعجم الطبراني بسند حسن عن زيد بن ثابت أن النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - دخل المدينة يوم عاشوراء اليهود وعاشوراءهم تكون عاشرة شهرهم المسمى بتشرين، وعاشوراء المسلمين منقولة من عاشوراء اليهود فدل على أن العرب كانوا عالمى الحسابين (العرف الشذي شرح سنن الترمذي 58/2)
فیض الباری کے حاشیہ میں اس بابت کافی تفصیل موجود ہے ، جس کا ماحصل یہ ہے کہ یہود کا جو فرقہ حق پر تھا ، جس نے قمری تقویم میں تبدیلی نہ کی تھی ، اس فرقے کے مطابق حضور اپنے زمانے میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے ، پھر نویں کے اضافے کے بعد اس کی مخالفت کا ارادہ ظاہر فرمایا:
ثم تقييد أبي الريحان البَيرُوني قوله: بجَهَلَة اليهود، يَدُلُّ على أن الحساب في الأصل -بحسب كُتُبهم السماوية أيضًا- كان قمريًا، وإنما هم حوَّلوه إلى الشمسيِّ. وقد وُجِدَ في بعض الزِّيج والتقاويم: أن الحسابَ العِبرِيَّ قمريٌّ من لَدُن آدم عليه الصلاة والسلام إلى يومنا هذا، إلَّا عند من بدَّله إلى الشمسيِّ. وحمل بعضُ المفسِّرين قوله تعالى: {إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ} [التوبة: ٣٧] على هذا التحويل، لأن في هذا التحويل تحويلٌ للأوقات الشرعية، وذلك يُنَاقِضُ أوضاعها.
قال في "الكشاف": وربما زَادُوا في عدد الشهور، فَيَجعَلُونها ثلاثة عشر، أو أربعة عشر، ليتَّسعَ لهم الوقت، ولذلك قال عزَّ وعلا: {إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا} [التوبة: ٣٦]، يعني من غير زيادةٍ زادوها. اهـ. وهكذا حديث: "ألَا إن الزمانَ قد استَدَارَ كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض، السَّنةُ اثني عشر شهرًا، منها أربعةٌ حُرُمٌ، ثلاثٌ مُتَوَاليَاتٌ: ذو القَعدة، وذو الحِجَّة، والمُحَرَّم، ورَجَبُ مُضَر، الذي بين جُمَادَى، وشعبان. هـ.
وجملة الكلام: أن النبي - صلى الله عليه وسلم - وَافَقَ في تعيين عَاشُورَاء الطائفةَ التي كانت على الحق منهم، وخالَفَ الذين حَوَّلُوا حسابهم إلى الشمسيِّ، فَضَلّوا وأضلُّوا.(فيض الباري على صحيح البخاري 373/3)
اب رہا یہ مسئلہ کہ کیا یہود کے یہاں دسویں محرم کے روزے کا تصور ابھی بھی ہے یا نہیں؟ تو اس بابت سب سے مضبوط بات یہ ہے کہ راست توریت کی طرف رجوع کرلیا جائے تاکہ حقیقت کا پتہ چل سکے. اہل علم کے علم میں یقیناً یہ ہوگا کہ توریت پانچ کتابوں (اسفار خمسہ) (التكوين، الخروج، اللاويين، العدد، والتثنية) کا مجموعہ ہے. اس میں توریت کا عربی نسخہ اس وقت میرے سامنے ہے جس کے متعدد اسفار کی کئی آیات میں "یوم تذلل" کی تصریح ہے جس کو یوم الکفارہ، یوم الغفران ، یا "یوم کیبور" بھی کہتے ہیں  یہودیت میں اس دن کے روزے کی بڑی اہمیت ہے اور اس کا حکم وجوب والزام کا ہے۔ مفسرین علماء یہود اس تذلل کی تفسیر "صوم" سے کرتے ہیں۔ اس میں عبرانی تقویم کے ساتویں مہینے کی دس تاریخ —جو یہود کا عاشوراء ہے اور عاشوراے محرم کے مقابل ہے — میں روزہ رکھنے کا باضابطہ حتمی اور لازمی حکم دیا گیا ہے:
"«وَيَكُونُ لَكُمْ فَرِيضَةً دَهْرِيَّةً، أَنَّكُمْ فِي الشَّهْرِ السَّابعِ فِي عَاشِرِ الشَّهْرِ تُذَلِّلُونَ نُفُوسَكُمْ، وَكُلَّ عَمَل لاَ تَعْمَلُونَ: الْوَطَنِيُّ وَالْغَرِيبُ النَّازِلُ فِي وَسَطِكُمْ." (لاویین16: 29).
سفر اللاويين 23: 27:
«أَمَّا الْعَاشِرُ مِنْ هذَا الشَّهْرِ السَّابعِ، فَهُوَ يَوْمُ الْكَفَّارَةِ. مَحْفَلاً مُقَدَّسًا يَكُونُ لَكُمْ. تُذَلِّلُونَ نُفُوسَكُمْ وَتُقَرِّبُونَ وَقُودًا لِلرَّبِّ.
سفر اللاويين 25: 9: 
ثُمَّ تُعَبِّرُ بُوقَ الْهُتَافِ فِي الشَّهْرِ السَّابعِ فِي عَاشِرِ الشَّهْرِ. فِي يَوْمِ الْكَفَّارَةِ تُعَبِّرُونَ الْبُوقَ فِي جَمِيعِ أَرْضِكُمْ.
سفر العدد 29: 7:
«وَفِي عَاشِرِ هذَا الشَّهْرِ السَّابعِ، يَكُونُ لَكُمْ مَحْفَلٌ مُقَدَّسٌ، وَتُذَلِّلُونَ أَنْفُسَكُمْ. عَمَلاً مَا لاَ تَعْمَلُوا.
26 : وكلم الرب موسى قائلا.
27: اما العاشر من هذا الشهر السابع فهو يوم الكفّارة محفلا مقدسا يكون لكم تذللون نفوسكم وتقربون وقودا للرب.
28: عملا ما لا تعملوا في هذا اليوم عينه لانه يوم كفّارة للتكفير عنكم امام الرب الهكم.
29: ان كل نفس لا تتذلل في هذا اليوم عينه تقطع من شعبها.
30: وكل نفس تعمل عملا ما في هذا اليوم عينه ابيد تلك النفس من شعبها.
31: عملا ما لا تعملوا فريضة دهرية في اجيالكم في جميع مساكنكم.
32: انه سبت عطلة لكم فتذللون نفوسكم. في تاسع الشهر عند المساء من المساء الى المساء تسبتون سبتكم.
ان تمام آیات میں دس تاریخ کو طلب رحمت اور تذلیل نفس کا حتمی حکم دیا گیا ہے جس کی تفسیر ان کے علماء نے روزے سے کی ہے ۔ ساتویں مہینے "تشری" کی دس تاریخ اسلامی ماہ محرم کی دسویں کے مقابل ہے 
ان کا روزہ چوبیس سے پچیس گھنٹے کا ہوتا ہے ، نویں کی مغرب سے دسویں کے قبیل المغرب ختم ہوتا ہے 
کھانے پینے سے رکنے کے علاوہ بعض دیگر رسم ورواج سے اجتناب بھی ان کے روزے کے مفہوم میں داخل ہے 
کتاب مقدس کی مذکورہ بالا آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ عاشوراے محرم کے موافق عاشوراے یہود ( دوسرے نام سے ) ثابت ہے 
جب ان کی کتاب میں روزے کا حکم موجود ہے تو کسی زمانے میں دین بیزار یہودیوں کے اس پر ترک عمل حکم میں مؤثر نہیں ہوسکتا ۔ توریت میں محمد عربی کی بشارت آئی ہے. خاتم النبیین کی حیثیت سے ان کی بعثت کا تذکرہ موجود ہے آج کے یہودی اس کے انکاری ہیں ، تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ توریت میں حضور کا تذکرہ ہی نہیں ہوا؟ اسی طرح سمجھیں، توریت میں عاشوراء کا روزہ موجود ہے. کسی علاقے کے یہودیوں کا اس پر عامل نہ ہونے سے کیا فرق پڑے گا ؟ کوئی نہ کوئی تو اپنی کتاب پر عامل ضرور ہوگا؟ حکم کتابی تصریحات وتشریعات پہ لگے گا. کسی کے عمل یا ترک عمل پر نہیں. لہٰذا دس محرم کا روزہ یہودیت میں موجود ہے. وہ لوگ آج بھی روزہ رکھتے ہیں. عبرانی مہینے تشری کی دسویں کو یہ روزہ رکھتے ہیں. ان کی خرد برد والی طبعیت کے باعث یہ تاریخ کبھی عاشوراے محرم کے موافق ہوجاتی ہے اور کبھی آگے پیچھے ہوجاتی ہے لیکن ان کے یہاں بھی عاشوراء کا مفہوم موجود ہے جسے ہم عاشوراء یہود کہہ سکتے ہیں۔ چونکہ وہ صرف ایک دن ہی روزہ  رکھتے ہیں. شریعت محمدی نے ایک دن کے ساتھ دوسرے دن کے اضافے کی صورت میں مخالفت کا حکم دیا ہے 
یہ مخالفت نفس روزہ عاشوراء میں نہیں ہے. ایک دن پر اکتفاء میں مخالفت کرنے کا حکم ہے. لہٰذا دسویں کے ساتھ نویں یا گیارہویں کے اضافے سے یہودیوں سے مخالفت ہوجائے گی ۔ یہ حکم ہمیشہ رہے گا. کیونکہ توریت میں تشری کی دسویں کے روزے کا حکم ہمیشہ کے لئے ہے. بلاعذر معقول ترک کرنا بہتر نہیں ہے. اسی کو اکثر فقہاء حنفیہ نے مکروہ تنزیہی (خلافِ اولیٰ) کہا ہے۔ اب رہا یہ خلجان کہ جب حضور نے پوری زندگی تنہا عاشوراء کا روزہ رکھا ، کبھی نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھنے کی نوبت نہ آئی تو بھلا یہ خلافِ اولیٰ (مکروہ) کیسے ہوسکتا ہے؟ حافظ کشمیری رحمہ اللہ نے بھی اس خلجان کا اظہار فرمایا ہے: 
ووقع في بعض كُتُبِ الحنفية أنه مكروه، وكذا يوم عاشوراء منفردًا، مع كونه عبادةً عظيمةً، وكفَّارةً لسنةٍ واحدةٍ. قلتُ: كيف وقد صامه النبيُّ صلى الله عليه وسلّم عشر سنين، فهل يَجْتَرِىءُ أحدٌ أن يَحْكُمَ بالكراهة على أمرٍ فعله النبيُّ صلى الله عليه وسلّم ( فيض الباري 362/3)
تو عرض یہ ہے کہ بموجب وماينطق عن الهوى مخالفت یہود کا حکم نازل ہونے سے پیشتر صرف عاشوراء کا روزہ رکھنا ہی تشریع خداوندی اور مرضی ربانی تھا ، یہی افضل اور بہتر تھا ، اس وقت یہ خلافِ اولیٰ (مکروہ تنزیہی) کبھی ہو ہی نہیں سکتا ، نزول احکام میں تدریجی ارتقاء ملحوظ رہا ہے. وفات سے چند سال قبل مخالفت یہود کا حکم آجانے اور لأصومنّ التاسِع کے ارشاد گرامی کے بعد اب نویں یا گیارہویں کو ملانا تشریع اور مرضی خداوندی قرار پایا. تشبہ بالیہود یا دیگر وجوہ محتملہ کے باعث دسویں کے ساتھ آگے پیچھے بلاعذر روزہ نہ رکھنا لأصومنّ التاسِع جیسی تاکیدی خواہش نبوی کی عدم  رعایت کے باعث خلافِ اولیٰ ہے. جہاں تک علامہ کشمیری رحمہ اللہ کا کراہت تنزیہی کی توجیہ کے ذیل میں "لايحكم بكراهة" فرمانا ہے:
(وحاصل الشريعة أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه، وكذلك في كلام ملتقى الأبحر حيث قال: إن الترجيع مكروه فإن صاحب البحر قد صرح بأن الترجيع في الأذان ليس بسنة ولا مكروه، وكذلك في عبارة النووي حيث قال: إن نهي عمر وعثمان عن القران والتمتع محمول على الكراهة تنزيهاً فلا مخلص في هذه المذكورات من تأويل أنها عبادات مفضولة.( العرف الشذي شرح سنن الترمذي
[الكشميري] 117/2)
تو یہ ان کی اپنی نرالی شان ہے ۔ ان کا مقام بہت بلند ہے. فیض الباری ہو یا عرف الشذی ان کے امالی دروس کی ورق گردانی کرنے والے پہ مخفی نہیں ہے کہ اختلافی مسائل میں اختلاف کی بنیاد اور منشا کو بیان کرنا اور پھر اس کی بنیاد پر فریقین کے دلائل کا بے لاگ محاکمہ کرنا ، اس ذیل میں اپنی دو ٹوک رائے کا اظہار کرنا یا پھر ایسی توجیہ پیش کرنا علامہ کا معمول ہے جو اختلاف کو ختم کرنے یا کم کرنے کا باعث بنے ۔ آپ کے علوم ومعارف کے سچے ترجمان حضرت مولانا سید یوسف بنوری ؒ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
و منها أنه كان عني بمنشاء الخلاف بين الأئمة، ولا سيما في المسائل التي تتكرر علي رؤوس الأشهاد، فكان يذكر في ھذا الصدد أمورا تطمئن بها القلوب. (مقدمہ فیض الباری 16/1)  
چونکہ تنہا عاشوراء کا روزہ رکھنے کو خلافِ اولیٰ ہونے نہ ہونے میں اختلاف مشائخ حنفیہ کو علامہ کاسانی وغیرہ نے بھی بیان کیا ہے ، علامہ کشمیری نے اس اختلاف کی ایسی توجیہ پیش فرمانے کی کوشش کی ہے جس سے احناف کے مابین اس بابت اختلاف ہی ختم ہوجائے. توجیہ یقیناً عمدہ ہے لیکن اس کے علی الرغم اسے محقق ابن الہمام، حصکفی، شامی، ابن نجیم، طحطاوی جیسے اساطین احناف فوقیت نہیں دی جاسکتی. ان تمام فقہاء احناف  نے اسے خلافِ اولیٰ ہی قرار دیا ہے لہٰذا کراہت تنزیہی (خلافِ اولیٰ ) بر قرار رہے گی. جن بنیادوں پر کراہت تنزیہی کی نفی کی جاتی ہے وہ قابل غور ہیں۔  محقق ابن الہمام رحمہ اللہ  نو اور گیارہ کے بغیر تنہا دس محرم کے روزہ رکھنے کو مکروہ گردانتے ہوئے لکھتے ہیں:
ويستحب أن يصوم قبله يوماً وبعده يوماً فإن أفرده فهو مكروه للتشبيه باليهود ( شرح فتح القدير (2/349)
ان کی تبعیت میں ممتاز حنفی محققق علامہ طحطاوی بھی مکروہ تنزیہی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : 
"حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نورالإيضاح" (ص: 640): [(وأما) القسم السادس وهو المكروه فهو قسمان: مكروه تنزيهًا، ومكروه تحريمًا، الأول الذي كُره تنزيهًا كصوم يوم عاشوراء منفردًا عن التاسع أو الحادي عشر] اهـ..
ملک العلماء علامہ کاسانی رحمہ اللہ تنہا صوم عاشوراء کی کراہت کے تئیں اختلاف احناف ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ 
عام فقہاء احناف کے یہاں مکروہ نہیں ہے. جبکہ بعض فقہاء حنفیہ تشبہ بالیہود کے باعث مکروہ کہتے ہیں:
وكره بعضهم صوم يوم عاشوراء وحده لمكان التشبيه باليهود، ولم يكرهه عامتهم، لأنه من الأيام الفاضلة، فيستحب استدراك فضيلتها بالصوم (بدائع الصنائع (2/590)
در مختار میں ہے:
والمکروہ ۔۔۔ وتنزیھا کعاشوراء  وحدہ۔ (الدر المختار : ۳۷۵/۲)
مذاہب اربعہ میں اس مسئلے پہ مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ کریں:
شرح الزرقاني (2/237) وحاشية الدسوقي (1/516) والشرح الصغير (1/446) ومواهب الجليل (2/49) والمجموع (7/645) ومغني المحتاج (1/446) وكشاف القناع (2/339).
مركز البحوث الاسلامية العالمي 
دس محرم الحرام ١٤٤٥ ہجری 
۲۸ جولائی ۲۰۲۳ 


صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا؟

صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا؟
-------------------------------
--------------------------------
جمہور صحابہ وتابعین وعلماء امت کے راجح قول کے مطابق اسلامی تقویم کے پہلے مہینے محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو "عاشوراء" کہتے ہیں. اسلام کی آمد سے قبل زمانہ جاہلیت میں بھی اس دن کی بڑی عظمت وتکریم تھی. قریش مکہ اس دن خوشیاں مناتے، خانہ کعبہ کا غلاف بدلتے اور روزہ رکھتے تھے. نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے دین ابراہیمی کی سنت سمجھ کر روزہ رمضان کی فرضیت (سن ۲ ہجری) سے پیشتر یہ روزہ اہتمام کے ساتھ رکھتے اور اپنے اصحاب کو بھی رکھنے کا امر فرماتے تھے. فرضیت رمضان کے بعد اس کی حیثیت استحباب کی رہ گئی اور رکھنے نہ رکھنے کے تئیں اصحاب کو اختیار دے دیا گیا. حضرت عائشہ، حضرت عبداللہ بن عمر اور متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روایات صحاح وسنن میں موجود ہیں.
(عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: «كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ» صحيح البخاري. كتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، حديث رقم: (1863، ج7، ص 125).
وعنھا: كانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ، في الجَاهِلِيَّةِ وكانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ المَدِينَةَ صَامَهُ، وأَمَرَ بصِيَامِهِ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ كانَ مَن شَاءَ صَامَهُ، ومَن شَاءَ لا يَصُومُهُ. (صحيح البخاري: 3831).
وسیع تر دعوتی حِکَم ومصالح یا انبیاء سابقین کے ساتھ نبوی اخوت کے اظہار کے پیش نظر غیرمنصوص احکام  میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ کتاب کی موافقت فرماتے تھے؛ لیکن بعد میں یہ بات منسوخ اور ختم ہوگئی اور اہلِ کتاب کی مخالفت کا قولاً اور فعلاً اہتمام کیا جانے لگا تھا جو بہت سی وجہ سے ضروری تھا. حافظ فرماتے ہیں:
قَدْ كَانَ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِشَيْءِ وَلَا سِيَّمَا إِذَا كَانَ فِيمَا يُخَالِف فِيهِ أَهْل الْأَوْثَان، فَلَمَّا فُتِحَتْ مَكَّة وَاشْتُهِرَ أَمْر الْإِسْلَام أَحَبَّ مُخَالَفَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ أَيْضًا كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ، فَهَذَا مِنْ ذَلِكَ، فَوَافَقَهُمْ أَوَّلًا وَقَالَ: نَحْنُ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ، ثُمَّ أَحَبَّ مُخَالَفَتهمْ فَأَمَرَ بِأَنْ يُضَافَ إِلَيْهِ يَوْمٌ قَبْله وَيَوْمٌ بَعْدَهُ خِلَافًا لَهُمْ. (فتح الباري 235/10)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ آتے ہی بلکہ اس سے بھی پیشتر سے عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کے ساتھ نویں کا روزہ رکھنے کا ارادہ نہیں فرمایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دسویں کا روزہ وفات سے ایک سال پہلے تک رکھا، جب صحابہ کرام نے ملاحظہ فرمایا کہ ابتدائے بعثت کے احوال کے برعکس اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ کتاب کی موافقت کی بجائے قولاً وفعلاً مخالفت کو پسند فرماتے ہیں تو صحابہ کی جانب سے یاد دہانی کروائی گئی کہ حضور! آپ تو عبادات میں اہل کتاب کی مخالفت کو پسند فرماتے ہیں جبکہ دوسری طرف عاشوراء کا روزہ رکھ کر ان کی موافقت بھی ہورہی ہے؛ کیونکہ یہودی اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کہا کہ وہ  آئندہ سال سے فی الجملہ مخالفت کی غرض سے نویں کا روزہ (بھی) رکھیں گے؛ لیکن اگلے سال کی نویں تاریخ آنے سے پہلے ربیع الاول میں ہی آپ واصل بحق ہوگئے. چونکہ جن حکم ومصالح کے باعث اب تک عاشوراء کے روزے میں یہودیوں کی موافقت کی جاتی رہی اب بظاہر وہ مقاصد حاصل ہوچکے تھے، اسلام کی جڑیں مضبوط ہوچکی تھیں، مکہ فتح ہوچکا تھا، یہودیوں کی ضد ہٹ دھرمی بھی آشکار ہوچکی تھی، اب ان کی موافقت کو مزید باقی رکھنا یہودیوں کی زبان طعن دراز کرنے اور منفی تبصرے کے موقع فراہم کرنا تھا، اس لئے حکمت متقاضی ہوئی کہ اب عاشوراء کے روزے میں بھی قدر امکان ان کی مخالفت کی جائے، چنانچہ خواہش کا اظہار فرمایا کہ اگر زندگی نے وفاء کی تو آئندہ سال دسویں کے ساتھ نویں کا روزہ بھی رکھوں گا، تاکہ دسویں کا خیر کثیر بھی حاصل ہوجائے اور نویں کے اضافے سے مخالفت یہود بھی ہوجائے۔ نویں کو دسویں کے ساتھ ملانے کی وجوہات کے تئیں کئی اقوال ہیں، احناف کا موقف یہ ہے کہ یہود صرف دسویں کے روزہ پر اکتفاء کرتے ہیں، نویں کو دسویں کے ساتھ ضم کرلینے سے یہود کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے گی. یعنی دسویں کی ذات میں کوئی خرابی نہیں ہے. خرابی صرف اس لئے در آئی ہے کہ یہود دسویں پر ہی اکتفاء کرلیتے ہیں. اسی اکتفاء کی مخالفت کے لئے ساتھ میں نویں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم ہے. یوں مخالفت یہود پر بھی عمل ہوجائے گا اور دسویں کے روزہ کی فضیلت بھی حاصل ہوجائے گی. بعض ائمہ کے یہاں نویں کو ضم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح خاص جمعہ یا ہفتہ کی ذاتی فضیلت سمجھتے ہوئے قصداً تنہا اسی دن روزہ رکھنا مکروہ وناپسندیدہ ہے ، اسی طرح عاشوراء میں مخالفت یہود کے حکم اور منشاء نبوی سامنے آجانے کے بعد تنہا دسویں کا روزہ رکھنا بھی پسندیدہ نہیں. کیونکہ اس سے دسویں یا تنہا ہفتہ یا جمعہ کی ذاتی فضیلت معلوم ہوتی ہے؛ جبکہ ذاتی فضیلت صرف شہر رمضان کی ہے ، بقیہ ایام میں یہ خصوصیت نہیں، اگر سہولت ہو تو دسویں، جمعہ یا ہفتہ سے آگے پیچھے بھی ایک دن روزہ رکھا جائے. علامہ عینی نخب الافکار میں تفصیل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
وكذا سائر الأيام إذا أراد أن يصوم فيها لا ينبغي أن يقصد يومًا بعينه لما فيه من التشبيه لأهل الكتاب؛ لأن من عادتهم الصوم في يوم بعينه قصدًا، ولا سيما كانوا يفعلون ذلك في يوم عاشوراء، وكذلك صوم يوم الجمعة بقصد بعينه؛ لما فيه من التشبيه لهم أيضًا، اللهم إلا إذا صام يوما قبله أو يوما بعده، ولكن يستثنى من هذا الحكم شهر رمضان؛ لأن الله تعالى فرض صومه علينا بعينه إلا فيمن كان معذورا بمرض أو سفر، فقصد تعيينه لا يؤثر شيئا في الكراهة؛ لأنه بتعيين الشارع، وذلك لا يوصف بالكراهة، بخلاف غيره من المشهور والأيام حيث يؤثر التعين فيه قصدا في الكراهة لما ذكرنا. (نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار) [بدر الدين العيني 424/8]
بعض علماء کے یہاں عاشوراء کے ساتھ نویں کو ضم کرنے کی خواہش کی حکمت یقینی طور پر عاشوراء کا حصول ہے. کیونکہ آغاز ماہ محرم کی تاریخ میں اشتباہ کی صورت میں حقیقی دسویں تاریخ کو پالینا مشکوک ہوسکتا ہے، حقیقی دسویں کے ادراک کے لئے نویں کو بھی روزہ رکھ لیا جائے تاکہ عاشوراء جیسے افضل ترین دن کی حقیقی تاریخ متیقن طور پر بہر حال ہاتھ آجائے. ان وجوہ متعددہ محتملہ کے باعث حدیث میں دسویں کے ساتھ نویں کو بھی تاکیداً روزہ رکھنے کی خواہش ظاہر  کی گئی ہے. احناف سمیت اکثر علماء نے مخالفت یہود والی علت کو راجح کہا اور اسی کو اختیار بھی کیا ہے کہ ابن عباس کی ایک مرفوع حدیث میں تصریح ہے:
«خَالِفُوا الْيَهُودَ , وَصُومُوا يَوْمَ التَّاسِعِ وَالْعَاشِرِ»( شرح معاني الآثار للطحاوي ٣٣٠٢)
لیکن دیگر وجوہ کی سرے سے تردید بھی کسی نے نہیں کی ہے. محتمل وہ بھی ہیں. آثار وروایات سے ان کی تائید بھی ہوتی ہے. مثلاً: سنن ابن ماجہ کی روایت  نمبر 1709 میں:
"مَخَافَةَ أَنْ يَفُوتَهُ عَاشُورَاءَ" کا اضافہ ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ .. لَأَصُومَنَّ الْيَوْمَ التَّاسِعَ"
قَالَ أَبُو عَليٍّ: رَواهُ أَحْمَدُ بنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ زَادَ: مَخَافَةَ أَنْ يَفُوتَهُ عَاشُورَاءَ.
تنہا جمعہ کو روزہ رکھنے کے تئیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
(لا يَصُومَنَّ أحَدُكُمْ يَومَ الجُمُعَةِ، إلَّا يَوْمًا قَبْلَهُ أوْ بَعْدَهُ.
أخرجه البخاري (1985) واللفظ له، ومسلم (1144)
تنہا ہفتہ کو روزہ کے لئے خاص کرنے کے تئیں ممانعت وارد ہے:
لا تصوموا يوم السبت إلا فيما افترض الله عليكم (الترمذي: ج ٣ / كتاب الصوم باب ٤٣/٧٤٤). 
غرض "لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ .. لَأَصُومَنَّ الْيَوْمَ التَّاسِعَ" کی نبوی خواہش کی حتمی طور پر کوئی متعین علت بیان نہیں کی گئی ہے، تشبہ بالیہود من جملہ وجوہ محتملہ میں سے ایک ہے جسے اکثر محدثین نے راجح کہا ہے؛ لیکن ازروئے شرع اس کا تعین نہیں ہوا ہے 
بالفرض کسی زمانے میں تشبہ بالیھود والی وجہ کمیاب یا نایاب ہوجائے تو ضم تاسوعاء کی دیگر وجوہ محتملہ تو اپنی جگہ بدستور باقی رہیں گی اور ان علل کے باعث تنہا عاشوراء کے روزہ کو خلافِ افضل وبہتر سمجھا جائے گا. پھر ارشاد نبوی "لَأَصُومَنَّ الْيَوْمَ التَّاسِعَ" منصوص ومؤکد ہے. عزم مؤکد سے ہی اس کی سنیت ثابت ہوگی. شیخ عبدالحق  لکھتے ہیں:
ثم إنه -صلى اللَّه عليه وسلم- لم يعش إلى قابل ولم يضم، لكن صار صوم التاسع سنة بهذا القول (لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح 472/4)
علامہ طیبی کا کہنا ہے:
"لَمْ يَعِشْ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إِلَى الْقَابِلِ بَلْ تُوُفِّيَ فِي الثَّانِي عَشَرَ مِنْ رَبِيعِ الْأَوَّلِ فَصَارَ الْيَوْمُ التَّاسِعُ مِنَ الْمُحَرَّمِ صَوْمَ سُنَّةٍ، وَإِنْ لَمْ يَصُمْهُ لِأَنَّهُ عَزَمَ عَلَى صَوْمِهِ" (شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن 606/5)
جو امر منصوص طور پہ ثابت ہو اس میں قیاسات کا دخل نہیں ہوتا "لامساغ للاجتهاد مع المنصوص"
علامہ نووی المجموع میں لکھتے ہیں:
وذكر العلماء من أصحابنا وغيرهم في حكمة استحباب صوم تاسوعاء أوجها:
أحدهما: أن المراد منه مخالفة اليهود في اقتصارهم على العاشر، وهو مروي عن ابن عباس.
والثاني: أن المراد به وَصْلُ يومِ عاشوراء بصومٍ، كما نهى أن يُصام يومُ الجمعة وحده، ذكرهما الخطابي وآخرون.
الثالث: الاحتياط في صوم العاشر خَشْية نقصِ الهلالِ، ووقوع غلطٍ؛ فيكون التاسع في العدد هو العاشر في نفس الأمر ( المجموع (7/645).
لہٰذا جب رسول کریم کی سنت سے ضم تاسوعاء ثابت ہوگیا اور ابن عباس کی ایک حدیث مرفوع میں بصیغہ امر اسے بیان بھی کردیا گیا. ہزاروں سال سے تعامل امت بھی اس پر چلا آرہا ہے. تشبہ بالیہود کے ماسوا ضم کے دیگر علل محتملہ بھی باقی ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ جس نویں کے روزے کی خواہش کا اظہار تاکیدی طور پہ نبی نے کی ہو اسے بلا عذر ومجبوری ترک کرنے کو بہتر سمجھا جائے بلکہ تشبہ ہو یا نہ ہو ہر زمانے میں تا قیامت ضم تاسوعاء کی افضلیت ثابت رہے گی۔ بلاوجہ اسے ترک کرنا خلافِ اولیٰ (مکروہ تنزیہی) سمجھا جائے گا. ثابت بالنص احکام کو انتفاء علت کے باعث حذف کرنے کا سلسلہ اگر شروع کردیا جائے تو نہ جانے کتنے احکام اس کی زد میں آئیں گے اور کتنوں پہ ہاتھ صاف کردینا پڑے گا اور یوں شریعت کے احکام میں تغیر کی راہ کھل جائے گی. رہ گئی یہ بات کہ کیا یہود اسلامی تقویم کی پیروی کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں کرتے تو عاشوراء کے دن ان کا روزہ رکھنے کا کیا مطلب ہے؟ پھر عاشوراء میں ان کی مشابہت یا مخالفت کیسے ممکن ہوگی؟ تو عرض یہ ہے کہ 
{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ ... سورة البقرة: 189} 
{وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ. {يونس: 5}.
{إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ مِنْها أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۔ سورة التوبة (٩): آية ٣٦}. 
جیسی آیات کے عموم مثلاً پہلی آیت میں "مواقيت للناس" میں الناس کا عموم. اسی طرح تیسری آیت "عدة الشهور" میں الشهور سے مراد قمری مہینے پہ مفسرین کا اجماع واتفاق بتاتا ہے کہ قمری حساب وکتاب ہی دنیا کے تمام لوگوں کے لئے مشروع  ہوا تھا؛ لیکن یہودی اپنی سرشت کے مطابق اس میں تغیر وتبدل کرنے سے کب باز رہنے والے تھے؟ جن کے خردبرد سے ان کی مقدس کتابیں محفوظ نہ رہ سکیں تو قمری تقویم کی کیا مجال ہے کہ محفوظ رہ سکے؟ 
لہٰذا اصلی قمری مہینے میں انہوں نے اپنی طرف سے کمی بیشی کردی. تاہم یہودیوں کے یہاں بھی سب سے مشہور تقویم قمری ہی ہے، لیکن اس میں بہت سے اضافے اور ترمیمات کردی گئی ہیں، اور ان کا اس دن کو عید منانا جس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بچایا اور فرعون کو غرقاب کیا تھا، ہمارے وقت (عاشوراے محرم ) کے مطابق نہیں ہے۔
الموسوعة العربية العالمية میں ہے: 
تعتمد السنة العبرية على القمر، وهي في العادة مكونة من 12 شهراً. وهذه الأشهر هي : تشْري، مرحشوان، كسلو، طبت، شباط، أدار، نيسان، أيار، سيوان، تموز، آب، أيلول. تتكون الأشهر من 30 و 29 يومًا بالتبادل. في خلال كل 19 عامًا، يضاف شهر إضافي قوامه 29 يومًا سبع مرات بين شهري أدار ونيسان، ويطلق على هذا الشهر اسم فيادار. وفي الوقت ذاته يصبح أدار 30 يومًا بدلاً من 29 يومًا.  اهــ .
حافظ عسقلانی اپنے زمانہ کے یہودیوں کے بارے لکھتے ہیں کہ وہ لوگ قمری مہینوں کے مطابق ہی اپنے امور صوم انجام دیتے ہیں:
فَإِنَّ الْيَهُود لَا يَعْتَبِرُونَ فِي صَوْمهمْ إِلَّا بِالْأَهِلَّةِ، هَذَا الَّذِي شَاهَدْنَاهُ مِنْهُمْ ، فَيَحْتَمِل أَنْ يَكُون فِيهِمْ مَنْ كَانَ يَعْتَبِر الشُّهُور بِحِسَابِ الشَّمْس لَكِنْ لَا وُجُود لَهُ الْآن، كَمَا اِنْقَرَضَ الَّذِينَ أَخْبَرَ اللَّه عَنْهُمْ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ عُزَيْر اِبْن اللَّه. (فتح الباري 181/7)
علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
وَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّ الشَّرَائِعَ قَبْلَنَا أَيْضًا إنَّمَا عَلَّقَتْ الْأَحْكَامَ بِالْأَهِلَّةِ وَإِنَّمَا بَدَّلَ مَنْ بَدَّلَ مِنْ أَتْبَاعِهِمْ كَمَا يَفْعَلُهُ الْيَهُود فِي اجْتِمَاعِ الْقُرْصَيْنِ، وَفِي جَعْلِ بَعْضِ أَعْيَادِهَا بِحِسَابِ السَّنَةِ الشَّمْسِيَّةِ، وَكَمَا تَفْعَلُهُ النَّصَارَى فِي صَوْمِهَا حَيْثُ تُرَاعِي الِاجْتِمَاعَ الْقَرِيبَ مِنْ أَوَّلِ السَّنَةِ الشَّمْسِيَّةِ وَتَجْعَلُ سَائِرَ أَعْيَادِهَا دَائِرَةً عَلَى السَّنَةِ الشَّمْسِيَّةِ بِحَسَبِ الْحَوَادِثِ الَّتِي كَانَتْ لِلْمَسِيحِ ..(كتاب مجموع الفتاوى 135/25)
علامہ کشمیری کا بھی خیال یہ ہے کہ یہود قمری اور شمسی دونوں تقویموں سے واقف تھے: 
وليعلم أن العرب كانوا عالمي الحساب الشمسي والقمري لآيات: {إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ} [التوبة: ٣٧] إلخ على ما فسر الزمخشري في الكشاف أن النسيء هو العمل بالكبيسة أي جعل العام القمري شمسياً……..فإن العرب كانوا يعلمون الحسابين، في المعجم الطبراني بسند حسن عن زيد بن ثابت أن النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - دخل المدينة يوم عاشوراء اليهود وعاشوراءهم تكون عاشرة شهرهم المسمى بتشرين، وعاشوراء المسلمين منقولة من عاشوراء اليهود فدل على أن العرب كانوا عالمى الحسابين (العرف الشذي شرح سنن الترمذي 58/2)
فیض الباری کے حاشیہ میں اس بابت کافی تفصیل موجود ہے، جس کا ماحصل یہ ہے کہ یہود کا جو فرقہ حق پر تھا، جس نے قمری تقویم میں تبدیلی نہ کی تھی، اس فرقے کے مطابق حضور اپنے زمانے میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، پھر نویں کے اضافے کے بعد اس کی مخالفت کا ارادہ ظاہر فرمایا.
ثم تقييد أبي الريحان البَيرُوني قوله: بجَهَلَة اليهود، يَدُلُّ على أن الحساب في الأصل -بحسب كُتُبهم السماوية أيضًا- كان قمريًا، وإنما هم حوَّلوه إلى الشمسيِّ. وقد وُجِدَ في بعض الزِّيج والتقاويم: أن الحسابَ العِبرِيَّ قمريٌّ من لَدُن آدم عليه الصلاة والسلام إلى يومنا هذا، إلَّا عند من بدَّله إلى الشمسيِّ. وحمل بعضُ المفسِّرين قوله تعالى: {إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ} [التوبة: ٣٧] على هذا التحويل، لأن في هذا التحويل تحويلٌ للأوقات الشرعية، وذلك يُنَاقِضُ أوضاعها.
قال في "الكشاف": وربما زَادُوا في عدد الشهور، فَيَجعَلُونها ثلاثة عشر، أو أربعة عشر، ليتَّسعَ لهم الوقت، ولذلك قال عزَّ وعلا: {إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا} [التوبة: ٣٦]، يعني من غير زيادةٍ زادوها. اهـ. وهكذا حديث: "ألَا إن الزمانَ قد استَدَارَ كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض، السَّنةُ اثني عشر شهرًا، منها أربعةٌ حُرُمٌ، ثلاثٌ مُتَوَاليَاتٌ: ذو القَعدة، وذو الحِجَّة، والمُحَرَّم، ورَجَبُ مُضَر، الذي بين جُمَادَى، وشعبان. هـ.
وجملة الكلام: أن النبي - صلى الله عليه وسلم - وَافَقَ في تعيين عَاشُورَاء الطائفةَ التي كانت على الحق منهم، وخالَفَ الذين حَوَّلُوا حسابهم إلى الشمسيِّ، فَضَلّوا وأضلُّوا.(فيض الباري على صحيح البخاري 373/3)
اب رہا یہ مسئلہ کہ کیا یہود کے یہاں دسویں محرم کے روزے کا تصور ابھی بھی ہے یا نہیں؟
تو اس بابت سب سے مضبوط بات یہ ہے کہ راست توریت کی طرف رجوع کرلیا جائے تاکہ حقیقت کا پتہ چل سکے. اہل علم کے علم میں یقیناً یہ ہوگا کہ توریت پانچ کتابوں (اسفار خمسہ) (التكوين، الخروج، اللاويين، العدد، والتثنية) کا مجموعہ ہے. اس میں توریت کا عربی نسخہ اس وقت میرے سامنے ہے 
جس کے متعدد اسفار کی کئی آیات میں "یوم تذلل" کی تصریح ہے جس کو یوم الکفارہ، یوم الغفران، یا "یوم کیبور" بھی کہتے ہیں. یہودیت میں اس دن کے روزے کی بڑی اہمیت ہے. اور اس کا حکم وجوب والزام کا ہے. مفسرین علماء یہود اس تذلل کی تفسیر "صوم" سے کرتے ہیں. اس میں عبرانی تقویم کے ساتویں مہینے کی دس تاریخ —جو یہود کا عاشوراء ہے. اور عاشوراے محرم کے مقابل ہے — میں روزہ رکھنے کا باضابطہ حتمی اور لازمی حکم دیا گیا ہے:
"«وَيَكُونُ لَكُمْ فَرِيضَةً دَهْرِيَّةً، أَنَّكُمْ فِي الشَّهْرِ السَّابعِ فِي عَاشِرِ الشَّهْرِ تُذَلِّلُونَ نُفُوسَكُمْ، وَكُلَّ عَمَل لاَ تَعْمَلُونَ: الْوَطَنِيُّ وَالْغَرِيبُ النَّازِلُ فِي وَسَطِكُمْ." (لاویین16: 29).
سفر اللاويين 23: 27:
«أَمَّا الْعَاشِرُ مِنْ هذَا الشَّهْرِ السَّابعِ، فَهُوَ يَوْمُ الْكَفَّارَةِ. مَحْفَلاً مُقَدَّسًا يَكُونُ لَكُمْ. تُذَلِّلُونَ نُفُوسَكُمْ وَتُقَرِّبُونَ وَقُودًا لِلرَّبِّ.
سفر اللاويين 25: 9: 
ثُمَّ تُعَبِّرُ بُوقَ الْهُتَافِ فِي الشَّهْرِ السَّابعِ فِي عَاشِرِ الشَّهْرِ. فِي يَوْمِ الْكَفَّارَةِ تُعَبِّرُونَ الْبُوقَ فِي جَمِيعِ أَرْضِكُمْ.
سفر العدد 29: 7:
«وَفِي عَاشِرِ هذَا الشَّهْرِ السَّابعِ، يَكُونُ لَكُمْ مَحْفَلٌ مُقَدَّسٌ، وَتُذَلِّلُونَ أَنْفُسَكُمْ. عَمَلاً مَا لاَ تَعْمَلُوا.
26 : وكلم الرب موسى قائلا.
27: اما العاشر من هذا الشهر السابع فهو يوم الكفّارة محفلا مقدسا يكون لكم تذللون نفوسكم وتقربون وقودا للرب.
28: عملا ما لا تعملوا في هذا اليوم عينه لانه يوم كفّارة للتكفير عنكم امام الرب الهكم.
29: ان كل نفس لا تتذلل في هذا اليوم عينه تقطع من شعبها.
30: وكل نفس تعمل عملا ما في هذا اليوم عينه ابيد تلك النفس من شعبها.
31: عملا ما لا تعملوا فريضة دهرية في اجيالكم في جميع مساكنكم.
32: انه سبت عطلة لكم فتذللون نفوسكم. في تاسع الشهر عند المساء من المساء الى المساء تسبتون سبتكم.
ان تمام آیات میں دس تاریخ کو طلب رحمت اور تذلیل نفس کا حتمی حکم دیا گیا ہے جس کی تفسیر ان کے علماء نے روزے سے کی ہے۔ ساتویں مہینے "تشری" کی دس تاریخ اسلامی ماہ محرم کی دسویں کے مقابل ہے. ان کا روزہ چوبیس سے پچیس گھنٹے کا ہوتا ہے، نویں کی مغرب سے دسویں کے قبیل المغرب ختم ہوتا ہے. کھانے پینے سے رکنے کے علاوہ بعض دیگر رسم ورواج سے اجتناب بھی ان کے روزے کے مفہوم میں داخل ہے. کتاب مقدس کی مذکورہ بالا آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ عاشوراے محرم کے موافق عاشوراے یہود (دوسرے نام سے) ثابت ہے. جب ان کی کتاب میں روزے کا حکم موجود ہے تو کسی زمانے میں دین بیزار یہودیوں کے اس پر ترک عمل حکم میں مؤثر نہیں ہوسکتا ۔ توریت میں محمد عربی کی بشارت آئی ہے. خاتم النبیین کی حیثیت سے ان کی بعثت کا تذکرہ موجود ہے آج کے یہودی اس کے انکاری ہیں ، تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ توریت میں حضور کا تذکرہ ہی نہیں ہوا؟ اسی طرح سمجھیں، توریت میں عاشوراء کا روزہ موجود ہے. کسی علاقے کے یہودیوں کا اس پر عامل نہ ہونے سے کیا فرق پڑے گا؟ کوئی نہ کوئی تو اپنی کتاب پر عامل ضرور ہوگا؟ حکم کتابی تصریحات وتشریعات پہ لگے گا. کسی کے عمل یا ترک عمل پر نہیں. لہٰذا دس محرم کا روزہ یہودیت میں موجود ہے. وہ لوگ آج بھی روزہ رکھتے ہیں. عبرانی مہینے تشری کی دسویں کو یہ روزہ رکھتے ہیں. ان کی خردبرد والی طبعیت کے باعث یہ تاریخ کبھی عاشوراے محرم کے موافق ہوجاتی ہے اور کبھی آگے پیچھے ہوجاتی ہے. لیکن ان کے یہاں بھی عاشوراء کا مفہوم موجود ہے. جسے ہم عاشوراء یہود کہہ سکتے ہیں. چونکہ وہ صرف ایک دن ہی روزہ رکھتے ہیں. شریعت محمدی نے ایک دن کے ساتھ دوسرے دن کے اضافے کی صورت میں مخالفت کا حکم دیا ہے. یہ مخالفت نفس روزہ عاشوراء میں نہیں ہے. ایک دن پر اکتفاء میں مخالفت کرنے کا حکم ہے. لہٰذا دسویں کے ساتھ نویں یا گیارہویں کے اضافے سے یہودیوں سے مخالفت ہوجائے گی۔ یہ حکم ہمیشہ رہے گا. کیونکہ توریت میں تشری کی دسویں کے روزے کا حکم ہمیشہ کے لئے ہے. بلاعذر معقول ترک کرنا بہتر نہیں ہے. اسی کو اکثر فقہاء حنفیہ نے مکروہ تنزیہی (خلافِ اولیٰ) کہا ہے. اب رہا یہ خلجان کہ جب حضور نے پوری زندگی تنہا عاشوراء کا روزہ رکھا، کبھی نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھنے کی نوبت نہ آئی تو بھلا یہ خلافِ اولیٰ (مکروہ) کیسے ہوسکتا ہے؟ حافظ کشمیری رحمہ اللہ نے بھی اس خلجان کا اظہار فرمایا ہے.
ووقع في بعض كُتُبِ الحنفية أنه مكروه، وكذا يوم عاشوراء منفردًا، مع كونه عبادةً عظيمةً، وكفَّارةً لسنةٍ واحدةٍ. قلتُ: كيف وقد صامه النبيُّ صلى الله عليه وسلّم عشر سنين، فهل يَجْتَرِىءُ أحدٌ أن يَحْكُمَ بالكراهة على أمرٍ فعله النبيُّ صلى الله عليه وسلّم (فيض الباري 362/3)
تو عرض یہ ہے کہ بموجب وماينطق عن الهوى مخالفت یہود کا حکم نازل ہونے سے پیشتر صرف عاشوراء کا روزہ رکھنا ہی تشریع خداوندی اور مرضی ربانی تھا ، یہی افضل اور بہتر تھا ، اس وقت یہ خلافِ اولیٰ (مکروہ تنزیہی) کبھی ہو ہی نہیں سکتا ، نزول احکام میں تدریجی ارتقاء ملحوظ رہا ہے. وفات سے چند سال قبل مخالفت یہود کا حکم آجانے اور لأصومنّ التاسِع کے ارشاد گرامی کے بعد اب نویں یا گیارہویں کو ملانا تشریع اور مرضی خداوندی قرار پایا. تشبہ بالیہود یا دیگر وجوہ محتملہ کے باعث دسویں کے ساتھ آگے پیچھے بلاعذر روزہ نہ رکھنا لأصومنّ التاسِع جیسی تاکیدی خواہش نبوی کی عدم رعایت کے باعث خلافِ اولیٰ ہے. جہاں تک علامہ کشمیری رحمہ اللہ کا کراہت تنزیہی کی توجیہ کے ذیل میں " لايحكم بكراهة" 
فرمانا ہے:
(وحاصل الشريعة أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه، وكذلك في كلام ملتقى الأبحر حيث قال: إن الترجيع مكروه فإن صاحب البحر قد صرح بأن الترجيع في الأذان ليس بسنة ولا مكروه، وكذلك في عبارة النووي حيث قال: إن نهي عمر وعثمان عن القران والتمتع محمول على الكراهة تنزيهاً فلا مخلص في هذه المذكورات من تأويل أنها عبادات مفضولة. (العرف الشذي شرح سنن الترمذي) [الكشميري] 117/2)
تو یہ ان کی اپنی نرالی شان ہے۔ ان کا مقام بہت بلند ہے. فیض الباری ہو یا عرف الشذی ان کے امالی دروس کی ورق گردانی کرنے والے پہ مخفی نہیں ہے کہ اختلافی مسائل میں اختلاف کی بنیاد اور منشا کو بیان کرنا اور پھر اس کی بنیاد پر فریقین کے دلائل کا بے لاگ محاکمہ کرنا ، اس ذیل میں اپنی دو ٹوک رائے کا اظہار کرنا یا پھر ایسی توجیہ پیش کرنا علامہ کا معمول ہے جو اختلاف کو ختم کرنے یا کم کرنے کا باعث بنے ۔ آپ کے علوم ومعارف کے سچے ترجمان حضرت مولانا سید یوسف بنوری ؒ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
و منها أنه كان عني بمنشاء الخلاف بين الأئمة، ولا سيما في المسائل التي تتكرر علي رؤوس الأشهاد، فكان يذكر في ھذا الصدد أمورا تطمئن بها القلوب. (مقدمہ فیض الباری 16/1)  
چونکہ تنہا عاشوراء کا روزہ رکھنے کو خلافِ اولیٰ ہونے نہ ہونے میں اختلاف مشائخ حنفیہ کو علامہ کاسانی وغیرہ نے بھی بیان کیا ہے ، علامہ کشمیری نے اس اختلاف کی ایسی توجیہ پیش فرمانے کی کوشش کی ہے جس سے احناف کے مابین اس بابت اختلاف ہی ختم ہوجائے. توجیہ یقیناً عمدہ ہے لیکن اس کے علی الرغم اسے محقق ابن الہمام، حصکفی، شامی، ابن نجیم، طحطاوی جیسے اساطین احناف فوقیت نہیں دی جاسکتی. ان تمام فقہاء احناف  نے اسے خلافِ اولیٰ ہی قرار دیا ہے. لہٰذا کراہت تنزیہی (خلافِ اولیٰ ) بر قرار رہے گی. جن بنیادوں پر کراہت تنزیہی کی نفی کی جاتی ہے وہ قابل غور ہیں. محقق ابن الہمام رحمہ اللہ  نو اور گیارہ کے بغیر تنہا دس محرم کے روزہ رکھنے کو مکروہ گردانتے ہوئے لکھتے ہیں:
ويستحب أن يصوم قبله يوماً وبعده يوماً فإن أفرده فهو مكروه للتشبيه باليهود (شرح فتح القدير (2/349)
ان کی تبعیت میں ممتاز حنفی محققق علامہ طحطاوی بھی مکروہ تنزیہی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح" (ص: 640): [(وأما) القسم السادس وهو المكروه فهو قسمان: مكروه تنزيهًا، ومكروه تحريمًا، الأول الذي كُره تنزيهًا كصوم يوم عاشوراء منفردًا عن التاسع أو الحادي عشر] اهـ..
ملک العلماء علامہ کاسانی رحمہ اللہ تنہا صوم عاشوراء کی کراہت کے تئیں اختلاف احناف ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ 
عام فقہاء احناف کے یہاں مکروہ نہیں ہے 
جبکہ بعض فقہاء حنفیہ تشبہ بالیہود کے باعث مکروہ کہتے ہیں:
وكره بعضهم صوم يوم عاشوراء وحده لمكان التشبيه باليهود، ولم يكرهه عامتهم، لأنه من الأيام الفاضلة، فيستحب استدراك فضيلتها بالصوم
(بدائع الصنائع) (2/590)
در مختار میں ہے:
والمکروہ ۔۔۔ وتنزیھا کعاشوراء  وحدہ۔ (الدر المختار: ۳۷۵/۲)
مذاہب اربعہ میں اس مسئلے پہ مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ کریں:
شرح الزرقاني (2/237) وحاشية الدسوقي (1/516) والشرح الصغير (1/446) ومواهب الجليل (2/49) والمجموع (7/645) ومغني المحتاج (1/446) وكشاف القناع (2/339).
مركز البحوث الاسلامية العالمي 
دس محرم الحرام ١٤٤٥ ہجری 
۲۸ جولائی ۲۰۲۳ ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2023/07/blog-post_29.html

Thursday 27 July 2023

فون سے پرائیویٹ ڈاٹا کیسے لیک ہوتا ہے اور اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟

فون سے پرائیویٹ ڈاٹا کیسے لیک ہوتا ہے اور اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟

نئی دہلی،ان دنوں ہندوستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں انفارمیشن انقلاب آچکا ہے۔ ہر ہاتھ میں موبائل کا ہونا وقت کی ضرورت بن چکا ہے لیکن اب اس کے مضر اثرات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔موجودہ دور انفارمیشن انقلاب کا ہے اور اس دور میں معلومات سب سے بڑا ہتھیار ہے، یہی وجہ ہے کہ دشمن اب انفارمیشن کے اس انقلاب کے ہتھیار پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ لیکن دشمن اس تکنیک سے لوگوں کی ذاتی زندگی کو طرح طرح سے چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔

درحقیقت انٹرنیٹ پر لوگوں کا ڈاٹا کئی طریقوں سے لیک ہو سکتا ہے، کئی بار کمپنیاں صارف کا ڈاٹا محفوظ کرنے میں غفلت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ کئی بار ہیکرز جان بوجھ کر ڈاٹا حاصل کرنے کیلئے کمپنیوں کے سرورز پر حملہ کرتے ہیں۔ سائبر کرمنل کمپیوٹر نیٹ ورک تک بخود یا ریموٹ رسائی لے کر ڈاٹا چوری کرتے ہیں۔ ایسے مجرمانہ ڈاٹا کو چرانے کیلئے وہ کمپنی کے نیٹ ورک میں خامیاں تلاش کرتے ہیں۔

جہاں تک کہا جاتا ہے کمپنیوں کی غفلت کی وجہ سے ڈاٹا لیک ہو سکتا ہے، سرور پر ہیکرز کے حملے کے ذریعہ یہ کام کیا جا سکتا ہے، جسمانی یا ریموٹ رسائی ڈاٹا کی چوری کا باعث بن سکتا ہے،مجرمانہ نیٹ ورکس میں خامیاں تلاش کر کے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے، ملازم کو پیادہ بنا کر یہ حاصل کیا جا سکتا ہے یا پھر ڈارک ویب پر ڈاٹا خرید کر ڈاٹا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ملک میں ڈاٹا چوری کا خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حکومت کے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو 2021 میں سائبر کرائم کے 52 ہزار 974 معاملے رپورٹ ہوئے تھے جو 2020 کے مقابلے میں 5.9 فیصد زیادہ تھے۔ جبکہ 2020 میں آن لائن فراڈ کے 32230 کیسز درج کیے گئے۔ یہ کل کیس کا 60.8 فیصد زیادہ ہے۔

جب بھی لوگ حقیقی دنیا میں یا آن لائن دنیا میں خریداری کرتے ہیں تو ہمیں اپنا ڈاٹا لوگوں کے ساتھ شیئر نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ وہ ہاٹ اسپاٹ ہے جہاں سے لوگوں کے ڈاٹا میں گڑبڑ ہوتی ہے۔ اس لئے لوگوں کو آن لائن کالز، آن لائن میسجز اور لنکس کھولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے فون میں کچھ گڑبڑ ہے تو آپ کو سائبر کرائم سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔



Thursday 20 July 2023

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اپنے والد کو شان نبوت میں بے ادبی کرنے پر طمانچہ رسید کرنے والی روایت کی اصلیت؟

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اپنے والد کو شان نبوت میں بے ادبی کرنے پر طمانچہ رسید کرنے والی روایت کی اصلیت؟
-------------------------------
--------------------------------
ابوبکر صدیق کے والد ابوقحافہ (جو بعد میں مسلمان ہوئے انہوں) نے ایک بار آپ علیہ السلام کو برا بھلا کہا تو حضرت ابوبکر نے ان كو زور سے تھپڑ مارا کہ وہ زمین پر گرگئے اور پھر آپ علیہ السلام کو سارا ماجرا سنایا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ آئندہ ایسا مت کرنا تو ابوبکر صدیق نے عرض کہ خدا کی قسم اگر اس وقت تلوار ہوتی تو میں ان کو قتل کردیتا.
من طريق ابن جريج: إن أباقحافة سب النبي صلى الله عليه وسلم فصكه أبوبكر ابنه صكة فسقط منها على وجهه، ثم أتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فقال: أو فعلته؟ لا تعد إليه؛ فقال: والذي بعثك بالحق نبيا لو كان السيف مني قريبا لقتلته، فنزلت قوله: {لا تجد قوما….} الآية. (تفسير قرطبي سورة مجادلة ايت 22)
کیا یہ صحیح ہے؟
الجواب و باللہ التوفیق:
ابن جریج کی روایت کردہ یہ حدیث جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا والد کو طمانچہ رسید کرنے کا ذکر ہے حدیث معضل ہے: 
(مرسل اور منقطع سے بھی کم درجے کی ضعیف حدیث)
علامہ ابن کثیر وغیرہ نے آیت کی شان نزول ابوقحافہ کی بجائے ابوعبیدہ بن الجراح کے اپنے مشرک والد کو قتل کرنا قرار دیا ہے، اس کی سند بھی ابن جریج کی بہ نسبت جید اور عمدہ ہے. اسے متعدد ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے.
"لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ... الآية " [المجادلة: 22]
قال ابن کثیر: وقد قال سعيد بن عبدالعزيز وغيره: أنزلت هذه الآية "لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ" إلى آخرها في أبي عبيدة عامر بن عبدالله بن الجراح حين قتل أباه يوم بدر.
قال البغوي:
وروى مقاتل بن حيان ، عن مرة الهمداني ، عن عبدالله بن مسعود في هذه الآية قال: "وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ" يعني: أبا عبيدة بن الجراح، قتل أباه عبد الله بن الجراح يوم أحد.

عن عبدالله بن شوذب قال: جعل أبو أبي عبيدة يتصدى لأبي عبيدة يوم بدر ، فجعل أبو عبيدة يحيد عنه ، فلما أكثر قصده أبو عبيدة فقتله ، فأنزل الله عز وجل فيه هذه الآية: "لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ .... الآية."
أخرجها الطبراني في الكبير (1/154 ح 360) ، وأبو نعيم في الحلية (1/101) ، والحاكم في المستدرك (3/265)، والبيهقي في سننه (9/27) كلهم من طريق أسد بن موسى، ثنا ضمرة، عن ابن شوذب به.

قال الحافظ في الفتح (7/117):
وقتل أبوه كافرا يوم بدر , ويقال إنه هو الذي قتله , ورواه الطبراني وغيره من طريق ‏عبد الله بن شوذب مرسلا.

وقال الحافظ في الإصابة (5/286):
ونزلت فيه: "لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ... الآية " وهو فيما أخرجه الطبراني بسند جيد عن عبدالله بن شوذب قال: جعل والد أبي عبيدة يتصدى لأبي عبيدة يوم بدر فيحيد عنه فلما أكثر صده فقتله فنزلت .ا.هـ.
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2023/07/blog-post_24.html


یہ ٹھنڈی میٹھی قلفی کہاں سے آئی؟

"یہ ٹھنڈی میٹھی قلفی کہاں سے آئی؟ کس نے بنائی؟ شروعات کہاں سے ہوئی؟ کیا قلفی اور آئس کریم ایک ہی چیز ہوتی ہیں؟" ایسے بہت سے سوالات ہر کس و ناکس کے ذہن میں ں آتے. اس کے باوجود برصغیر ہندپاک کے گرم موسم میں پستے اور دودھ کی بنی تکونی شکل کی جمی ہوئی نرم، کریمی قلفی کا مزہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ہر سال اپریل کے مہینے میں درجہ حرارت بڑھتا جاتا ہے اور ساتھ ہی قلفی کے ٹھیلے باہر نکل آتے ہیں۔ قلفی والے کو دیکھ کر ہی یہ سمجھ آجاتی ہے کہ گرمیوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ قلفی اور گرمیوں کے تعلق پر کوئی شک نہیں لیکن بہت سارے انڈینز کیلئے قلفی ان کے بچپن کی یاد تازہ کرتی ہے۔

بومبے قلفی کی بانی پونم شاہ کہتی ہیں کہ: ’میں نے اپنا سارا بچپن ممبئی میں اپنی نانی ماں کے گھر گزارا۔ ہمارے گھر کے قریب ایک دکان پر روایتی قلفی ملتی تھی۔‘ پونم شاہ جنوبی ہند کے شہر کوئمبتور میں پیدا اور بڑی ہوئیں۔ علاقائی پکوانوں کو ترجیح حاصل تھی لہذا وہاں قلفی نہیں ملتی تھی لیکن گرمیوں میں ممبئی نے ان کے قلفی کے اپنے برینڈ کی بنیاد رکھی۔ 2015 کے دوران پونم شاہ اور ان کے دوست منیش کنکریا نے ہندستان کے سب سے بڑے قلفی برانڈ میں سے ایک کی بنیاد رکھی۔

قلفی کی تاریخ اور مغل باورچی خانے:

قلفی شاہی خاندان کی خواہشات اور سائنسی تکنیک کا نتیجہ تھا۔ اس کی تاریخ 16ویں صدی کے مغل دربار کے باورچی خانوں میں جاکر ملتی ہے۔ آئینِ اکبری میں مغل شہنشاہ اکبر کے دور کے بارے میں روزانہ کی سرگرمیوں بشمول شاہی باورچی خانوں میں تیار کئے گئے پکوانوں کی تفصیلات درج ہیں اور اسی میں تاریخ میں سب سے پہلے قلفی کا ذکر نظر آتا ہے۔ہندستان کے مغل پکوانوں پر وسطی ایشیا خصوصاً ایران کا کافی اثر و رسوخ ملتا ہے۔ قلفی کا لفظ فارسی کے لفظ ’قلفے‘ سے لیا گیا، جو ان تکون کپ کو کہتے تھے جس سے قلفی کو سانچا دیا جاتا ہے۔13ویں صدی سے ہمالیہ سے برف کا استعمال کرکے گرمیوں کے مشروب جیسے کے شربت کو ٹھنڈا کیا جاتا تھا۔ لیکن قلمی شورہ (پوٹاشیم نائٹریٹ) کو استعمال کرکے قلفی کو جماکر برف بنانے کی تکنیک عربوں کی تھی۔ پستے، زعفران اور دودھ (کنڈینسڈ ملک) کے مکس کو جماکر قلفی بنائی جاتی ہے. ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے اب پرانے طریقے کی جگہ کمرشل ریفریجریٹر اور ٹھیلے پر لگے فریزرز نے لے لی ہے۔ پونم شاہ کہتی ہیں کہ: ’ہندستان کے کچھ گاؤوں میں قلفی آج بھی روایتی طریقے سے بنائی جاتی ہے لیکن شہروں میں یہ کم ہی نظر آتی ہے۔‘ آئینِ اکبری میں قلفی کا ذکر تو ہے لیکن اس کے آغاز کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کا آغاز شاید فارس اور سمرقند کے ٹھنڈے علاقوں میں ہوا ہو۔ ان علاقوں میں 400 سے 500 قبل مسیح سے سوربے اور فالودے جیسی ٹھنڈی میٹھی ڈش موجود رہی ہیں۔ پکوانوں کی مؤرخ چارمین اوبرائن کے مطابق مغلوں نے اس نظریے کو استعمال کرکے موجودہ کریمی اور خوشبودار ڈیزرٹ بنایا۔ قطع نظر اس کے کہ قلفی کی ابتدا کہاں سے ہوئی لیکن یہ بات پریشان کن ہے کہ انڈینز قلفی کو مغربی ممالک کی آئس کریم کا انڈین ورژن کہتے ہیں کیونکہ قلفی کی ایجاد آئس کریم سے غالباً بہت عرصہ پہلے ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ آئسکریم کو تیار کرنے کا طریقہ بالکل مختلف ہے۔

قلفی اور آئس کریم کیا ایک ہی چیز ہے؟

دی لیلا ایمبیئنس گروگرام ہوٹل اینڈ ریذیڈنس کے ایگزیکٹو شیف ابھیشیک گپتا کے بقول: ’قلفی آئس کریم سے بالکل مختلف ہے۔ قلفی ایک ٹھنڈا ڈیزرٹ ہے جو ڈیری سے بنایا جاتا ہے جسے جمادیا جاتا ہے۔ اس کا مکسچر ذائقے دار دودھ ہوتا ہے (الائچی، زعفران، پستہ، گلاب کی پنکھڑی) کو آہستہ سے پکایا جاتا ہے اور آہستہ سے پکانے کی وجہ سے شیرا بن جاتا ہے۔ اس مکسچر کو سانچے میں ڈال کر جمایا جاتا ہے۔ پراسس میں تیزی لانے کیلئے سانچے کو پانی اور نمک میں ڈبو دیا جاتا۔‘ موصوف واضح کرتے ہیں کہ دوسری جانب آئس کریم کیلئے مختلف فلیورز، چینی، دودھ اور کریم کو پھینٹا جاتا ہے اور اس کے بعد جمادیا جاتا ہے۔ یقیناً اسے پیش کرنے کے طریقے بھی بالکل مختلف ہیں۔ قلفی کو سانچے سے نکال کر دو حصوں میں کاٹ دیا جاتا ہے اور اس کے اوپر سیرپس، میوے اور زعفران ڈالا جاتا ہے جبکہ آئس کریم کو اسکوپ کرکے کون یا باول میں ڈالا جاتا ہے۔ قلفی اور آئس کریم میں ایک بات مشترکہ ہے۔ دونوں پر کافی تجربات ہوئے ہیں۔ قلفی کے بہت سارے فلیورز اور ذائقے ہیں لیکن پستے والی قلفی آج بھی راج کرتی ہے۔ ( #ایس_اے_ساگر )

http://saagartimes.blogspot.com/2023/07/blog-post_20.html



Wednesday 19 July 2023

اس بات کا تعین کیسے کیا گیا کہ دن 24 گھنٹوں کا ہوگا؟

اس بات کا تعین کیسے کیا گیا کہ دن 24 گھنٹوں کا ہوگا؟

وقت کی پیمائش کیساتھ انسانیت کا رشتہ پہلے تحریری لفظ کے سامنے آنے سے بھی پہلے شروع ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لئے وقت کی پیمائش کی کئی اکائیوں کی اصل تحقیق کرنا مشکل ہے۔رابرٹ کاکرافٹ اور سارہ سمنز کے مطابق چونکہ فلکیاتی مظاہر سے اخذ کردہ اکائیوں میں سے کچھ کی وضاحت کرنا کافی آسان لگتا ہے اس لئے یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ انھیں دنیا بھر کی بہت سی مختلف ثقافتوں نے آزادانہ طور پر استعمال کیا ہے۔یہ ایک دن یا ایک سال کے دورانیے کی پیمائش کیلئے زمین کے حوالے سے سورج کی ظاہری حرکات کا معاملہ ہے۔ جہاں تک مہینوں کی پیمائش کا تعلق ہے، ایسا چاند کے مراحل کے مطابق کیا جاتا ہے۔تاہم وقت کی کچھ پیمائشیں ہیں جو واضح طور پر کسی فلکیاتی رجحان سے تعلق نہیں رکھتیں، اور یہ دو مثالیں ہفتہ اور گھنٹہ ہیں۔مصری ہیروگلیفک قدیم ترین تحریری روایات میں سے ایک ہے۔ اس سے ہمیں گھڑی کی ابتدا کے بارے میں نئی معلومات ملتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کی ابتدا شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے علاقے میں ہوئی اور جدید دور میں پوری دنیا میں پھیلنے سے پہلے اسے یورپ میں اپنایا گیا تھا۔

قدیم مصر میں وقت:

اہرامِ مصر میں 2400 قبل مسیح سے پہلے لکھی گئی تحریریں قدیم مصر کی ابتدائی معلوم تحریریں ہیں۔ ان میں ایک لفظ ’wnwt‘ ہے جس کا تلفظ تقریباً wenut ہے، اور اس میں ستارے سے منسلک ایک ہائروگلیف ہے۔ یہ لگتا ہے کہ ’wnwt‘ کا تعلق رات سے ہے۔یہ سمجھنے کیلئے کہ لفظ ’wnwt‘ کا ترجمہ ’گھنٹہ‘ کیوں کیا گیا، آپ کو اسیوت شہر کا سفر کرنا ہو گا۔ وہاں دو ہزار قبل مسیح کے تابوتوں کے مستطیل لکڑی کے ڈھکنوں کے اندرونی حصہ کو کبھی کبھی فلکیاتی ٹیبل یا ستاروں کی سمت کے لحاظ سے سجایا جاتا تھا۔اس ٹیبل میں سال کے 10 دن کے ادوار کی نمائندگی کرنے والے کالم تھے۔ مصری شہری کیلنڈر 12 مہینے کا تھا، جن میں سے ہر ایک میں تین 10 دن کا ’ہفتہ‘ ہوتا تھا، اور اس کے بعد پانچ دن کے تہوار ہوتے تھے۔ہر کالم میں 12 ستاروں کے نام درج ہیں، 12 قطاریں بنتی ہیں۔ پورا ٹیبل ستاروں کے جدید نقشے کی طرح پورے سال کے دوران آسمان میں ہونے والی تبدیلیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔وہ 12 ستارے رات کے 12 عارضی علاقوں میں پہلی منظم تقسیم ہیں، ہر ایک ستارے کے زیر انتظام ہے۔ تاہم لفظ wnwt کبھی بھی ان تابوت ستاروں کی ٹیبلیٹس سے منسلک نہیں ہوتا۔

فلکیاتی ہدایات:

ابیڈوس کے اوسیرئین نامی ایک مندر میں بہت زیادہ فلکیاتی معلومات لکھی ہیں، جن میں سن ڈائیل بنانے کے بارے میں ہدایات اور ستاروں کی حرکت کو بیان کرنے والا ٹیکسٹ بھی شامل ہے۔ اس میں ایک تابوت نما ستارے کا ٹیبل بھی ہے جس میں تمام 12 قطاروں پر منفرد طور پر لفظ wnwt لکھا ہوا ہے۔نیو کنگڈم میں رات کے 12 wnwt اور دن کے 12 wnwt تھے، دونوں واضح طور پر وقت کی پیمائش کرتے تھے۔ ان میں وقت کا تصور تقریباً اپنی جدید شکل میں ہے، اگر یہ دو چیزیں نہ ہوتیں۔اگرچہ دن بھی 12 گھنٹوں کا ہوتا ہے اور رات بھی 12 گھنٹوں کی، لیکن ہمیشہ انھیں الگ الگ کہا جاتا ہے، کبھی بھی اسے 24 گھنٹے کے دن کے طور پر نہیں لکھا یا پکارا جاتا۔

وقت گزر کیوں جاتا ہے، کبھی پلٹتا کیوں نہیں؟

دن کو سورج کی وجہ سے پڑنے والے سائیوں کی وجہ سے اور ان کا استعمال کر کے ماپا جاتا تھا، جبکہ رات کے اوقات کو بنیادی طور پر ستاروں سے ماپا جاتا تھا۔ یہ صرف اس وقت کیا جا سکتا تھا جب سورج اور ستارے بالترتیب نظر آتے تھے، اور طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے ارد گرد دو ادوار ہوتے تھے جن میں کوئی گھنٹے نہیں ہوتے تھے۔دوسرا، نیو کنگڈم کا wnwt اور ہمارا جدید وقت لمبائی میں مختلف ہے۔ سن ڈائیلز اور واٹر ڈائلز بہت واضح طور پر دکھاتے ہیں کہ wnwt کی طوالت پورے سال مختلف ہوتی رہتی ہے۔ موسم سرما میں طویل راتیں، اور گرمیوں میں طویل دن۔اس سوال کا جواب دینے کیلئے کہ نمبر 12 کہاں سے آیا، ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہر 10 دن کی مدت میں 12 ستاروں کا انتخاب کیوں کیا گیا۔بلاشبہ یہ انتخاب ہی اس وقت کی اصل ابتدا ہے۔ کیا 12 صرف ایک آسان منتخب کیا جانے والا نمبر تھا؟ شاید، لیکن ایک اور امکان بھی ہے۔

وقت بتانے والے ستارے:

قدیم مصری روشن ستارے ’سیریس‘ کو بطور ایک ماڈل استعمال کرتے تھے اور پھر دوسرے ستاروں کا انتخاب سیریس سے ان ستاروں کی مماثلت کی بنیاد پر کرتے تھے۔اہم نکتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ستارے جن کو انھوں نے ٹائمر کے طور پر استعمال کیا وہ سال میں 70 دنوں کیلئے غائب ہو گئے، بالکل سیریس کی طرح، حالانکہ دوسرے ستارے بھی اتنے روشن نہیں تھے۔اوسیریﺅن ستارے کے متعلق لکھے گئے ٹیکسٹ کے مطابق، ہر 10 دن بعد ایک سیریس نما ستارہ غائب ہو جاتا ہے اور دوسرا دوبارہ نمودار ہوتا ہے اور ایسا پورا سال ہوتا رہتا۔سال کے وقت کے مطابق، ان میں سے 10 سے 14 ستارے ہر رات نظر آتے ہیں۔ سال بھر میں 10 دن کے وقفوں پر ان کو ریکارڈ کرنے کا نتیجہ تابوت ستارے کے ٹیبل کی طرح ہوتا ہے۔تقریباً 2000 قبل مسیح کے دوران ان کا ظہور زیادہ ہونے لگا اور 12 قطاروں والا ٹیبل بنایا گیا، جس سے تابوت کے ٹیبل کا جنم ہوا، جسے ہم مصر اور دیگر جگہوں کے عجائب گھروں میں دیکھ سکتے ہیں۔لہٰذا، یہ ممکن ہے کہ رات کے گھنٹوں کی تعداد کے طور پر 12 کا انتخاب اور آخر میں دوپہر سے اگلے دوپہر تک گھنٹوں کی کل تعداد کے طور پر 24 کا انتخاب 10 دن کے ہفتے کے انتخاب سے جڑا ہو۔اس لئے، ہمارے جدید وقت کا آغاز ان فیصلوں کے سنگم سے ہوا جو 4000 سال سے زیادہ پہلے لئے گئے تھے۔*رابرٹ کاککرافٹ فزکس اور فلکیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور سارہ سائمنز انٹرڈسپلنری سائنس کی پروفیسر ہیں، دونوں کینیڈا کی میک ماسٹر یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔




Friday 14 July 2023

جمعہ کے دن درود پاک کی کثرت

📿جمعہ 
کے دن درود پاک کی کثرت:
(بقلم: حضرت الشیخ متکلم اسلام 
مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللّٰہ)
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ؛ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ، تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ، إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ، حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا»
قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟
قَالَ: «وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ»
📚سنن ابن ماجہ ص119
باب ماجاء فی ذکر وفاتہ ودفنہ
ترجمہ: حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود پاک بھیجا کرو. اس لئے کہ ملائکہ اس دن حاضر ہوتے ہیں اور جب کوئی شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ درود اسی وقت مجھ پر پیش کیا جاتا ہے اور جب تک وہ درود پڑھتا رہے یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ میں نے عرض کیا: آپ کی وفات کے بعد بھی؟ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ہاں وفات کے بعد بھی۔ اللہ رب العزت نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کے اجسام کو کھائے  بے شک اللہ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق دیا جاتا ہے۔
فائدہ: 1: اس حدیث پاک سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ بات سمجھتے تھے کہ صلاۃ وسلام آپ علیہ السلام روح مع الجسد پر پیش ہوتا ہے اس لیے قبل الوفات درودپاک کے پیش ہونے پر کوئی اشکال نہیں ہوا۔ بلکہ بعد از وفات عرض صلوٰۃ وسلام پر اشکال ہوا کہ دفن ہوجانے کے بعد انسانی جسم ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے اور اسے زمین کھالیتی ہے، آپ علیہ السلام کے جسداطہر کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آئے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ وسلام کیسے پیش ہوگا؟ اس اشکال کو صحابی نے پیش کیا ”وبعد الموت؟“ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا جی ہاں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے اجسادمبارکہ مٹی پر حرام ہیں۔
اور یہ شبہ دو وجہ سے پیش آسکتا ہے:
1: صلوٰۃ وسلام روح مع الجسد پر پیش ہوگا کیونکہ نبوت نہ اکیلی روح کا نام ہے اور نہ اکیلے جسم کا بلکہ روح مع الجسد کا نام ہے۔
2: وفات کے بعد عام امتی اور نبی کے جسم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
حضور پاک علیہ السلام نے پہلی بات پر سکوت فرمایا اور تصدیق کردی کہ آپ کا پڑھا جانے والا صلوٰۃ وسلام روح مع الجسد پر پیش ہوتا ہے اور دوسری بات کی صراحتا تردید کرتے ہوئے فرمایا:
"إِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ"
اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا نظریہ یہ ہوتا کہ صلوٰۃ وسلام صرف روح مقدس پر پیش ہوتا ہے تو ان کو یہ شبہ ہی پیدا نہ ہوتا اور وہ وبعدالموت کا سوال ہی نہ کرتے اور اگر روح مع الجسد پر صلوٰۃ وسلام کا پیش ہونے والا نظریہ غلط ہوتا تو حضور پاک اس کی تردید فرمادیتے کہ تم
”إِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ، إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ، حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا“
کا مطلب غلط سمجھے ہو صلوٰۃ وسلام تو صرف روح پر پیش ہوتا ہے حضور پاک نے ان کے اس نظریہ کی تردید نہیں فرمائی بلکہ فرمایا انبیاء کے جسم بھی محفوظ ہوتے ہیں اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو اپنے رب کی طرف سے رزق بھی دیا جاتا ہے۔
2: اس سے یہ معلوم ہوا کہ صلوٰۃ وسلام کا پیش ہونا اس جسد عنصری پر ہوتا ہے جسدمثالی پر نہیں ہوتاکیونکہ اگر جسدمثالی پر پیش ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ اشکال ہی پیدا نہ ہوتا۔ اس لئے کہ جسدمثالی کو زمین کھاتی ہی نہیں ہے۔
(📚صلوٰۃ وسلام صفحہ نمبر 31-32) ( #ایس_اے_ساگر )