Tuesday 29 June 2021

قرآن مجید میں سونٹھ کی تعریف اور سونٹھ کے 7 حیران کن فائدے

قرآن مجید میں سونٹھ کی تعریف اور سونٹھ کے 7 حیران کن فائدے

قُرآن مجید کتاب الہی ہے اور اہل ایمان کو معلوم ہے کہ اس کتاب میں کوئی شک نہیں ہے اور سونٹھ کے متعلق اللہ رب العزت قُرآن مجید میں فرماتا ہے "جنت میں انہیں ایسے بھرے ہُوئے پیالے پلائے جائیں گے جن میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی”قران مجید میں اس کا ذکر سورہ الدھر کی آیت نمبر17 میں ہوا ہے اللہ تبارک تعالی نے جنت میں پائی جانے والی نعمتوں کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے کہ
وَیُسْقَوْنَ فِیْھَا کَاْسًا کَانَ مِزَاجُھَا زَنْجَبِیْلًا
اور وہاں ان کو ایسی شراب (بھی) پلائی جائے گی جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی۔۔ طب نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت ابو سعید خذری سے ایک حدیث نقل ہے کہ روم کے بادشاہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تحفے میں سونٹھ کی ٹوکری بھیجی اور آپ نے اس ٹوکری میں سے سونٹھ کا ایک ایک ٹکڑا صحابہ میں تقسیم کیا اور حضرت ابوسعید خذری رضی اللہ عنہ کو بھی اس کا ایک ٹکڑا کھانے کو دیا۔
ادرک کی افادیت میں کسی کو بھی کوئی شک نہیں اور ادرک کو اگر سُوکھا لیا جائے تو اس کی تاثیر اور فائدے مزید بڑھ جاتے ہیں اور سُوکھے ہُوئے ادرک کو عربی میں زنجبیل اور اُردو میں سونٹھ کہا جاتا ہے اور علم طب میں اسے اکسیر کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس آرٹیکل میں سونٹھ کے 7 ایسے فائدے شامل کئے جارہے ہیں جنہیں جدید میڈیکل سائنس اپنی تحقیقات میں ثابت ہوتا دیکھ چُکی ہے۔
وزن کم کرنے کے لئے:
جسم میں فاضل چربی آج کے زمانے کی ایک بڑی بیماری ہے جس کا شکار دُنیا کے بیشمار لوگ ہیں اور اس کی بڑی وجہ خوراک میں بے احتیاطی اور جسمانی نقل و حرکت کا نہ ہونا ہے لیکن اگر سونٹھ کو اپنی خوراک میں شامل کرلیا جائے تو یہ آپ کو وزن کم کرنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوگی کیونکہ سونٹھ نظام انہظام کے افعال کو بہتر بناتی ہے اور جسم میں فاضل چربی کو پگھلاتی ہے اور خون میں گلوکوز کو کم کرتی ہے۔
علم طب کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سونٹھ جسم کے میٹابولیزم کو تیز کرتی ہے جس سے سارے جسم کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس میں شامل تھرموجینک خصوصیات جسم میں چربی کے جذب ہو کر جمنے کے عمل کو روکتے ہیں اور یہ بلاوجہ کی بھوک کا خاتمہ کرتی ہے اور پیٹ کو بھرا رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
کولیسٹرال کم کرتی ہے:
جسم میں کولیسٹرال کا بڑھنا ایک میٹابولک سینڈرم ہے جو تمام بڑی اور خطرناک بیماریوں کو پیدا کرتا ہے خاص طور پر دل، شوگر اور ہائی بلڈ پریشر جیسی لاعلاج بیماریوں کا بڑا سبب کولیسٹرال کا بڑھنا ہے اور میڈیکل سائنس کی کئی تحقیقات کے نتائج کے مطابق سونٹھ کا استعمال جسم میں بُرے کولیسٹرال کو ختم کرتا ہے اور ٹریگلروسیرائیڈ (خون میں ایک قسم چکنائی) کا لیول نارمل رکھنے میں انتہائی مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
ایک تحقیق میں ہائی کولیسٹرال کے وہ مریض جنہیں 3 گرام سونٹھ روزانہ کھلائی گئی اُن میں دیکھا گیا کہ کولیسٹرال کے لیول میں دُوسرے مریضوں کی نسبت تیزی سی کمی پیدا ہُوئی اس لیے اگر آپ کولیسٹرال سے پریشان ہیں تو 3 گرام سونٹھ کو اپنی روزانہ کی خوراک میں شامل کرلیں۔
بدہضمی:
بدہضمی جسم کی قوت مدافعت کو انتہائی نقصان پہنچاتی ہے اور ایک تکلیف دہ بیماری ہے مگر سونٹھ اس کا علاج ہے کیونکہ یہ پیٹ درد اور دائمی بد ہضمی کو ختم کرتی ہے اور اگر اسے کھانے سے پہلے کھالیا جائے تو یہ خوراک کے ہضم ہونے کے عمل کو 50 فیصد تک تیز کر دیتی ہے۔
ماہورای کا درد:
طب ایوردیک اور یونان میں سونٹھ کو صدیوں سے بہت سی دردوں کے علاج کے لئے استعمال کیا جارہا ہے خاص طور پر خواتین میں ماہواری کی درد کے لیے سونٹھ کسی اکسیر سے کم نہیں اور میڈیکل سائنس کی ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ جو خواتین روزانہ ایک گرام سونٹھ استعمال کرتی ہیں اُنہیں ماہواری کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
بلڈشوگر:
یہ موضی مرض ایلوپیتھی میں ابھی تک لاعلاج ہے جسکا فائدہ شوگر کنٹرول کرنے والی ادویات بنانے والی کمپنیاں اربوں ڈالرز کما کر حاصل کر رہی ہیں لیکن اسکا قُدرتی اور سستا علاج کئی جڑی بوٹیوں میں ہے اور سونٹھ بھی ایک ایسی جڑ ہے جو خون میں بڑھی ہُوئی گلوکوز کو نارمل کرنے میں انتہائی مُفید ثابت ہوتی ہے۔
ذیابطیس کے مریض اگر 2 گرام سونٹھ کے پاؤڈر کو نیم گرم پانی میں تھوڑے نمک کے ہمراہ مکس کرکے روزانہ پینا شروع کر دیں تو یہ جہاں اُن کی سارے جسم کی صحت کو فائدہ دے گا وہاں اُنہیں ذیابطیس کو کنٹرول میں رکھنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوگا۔
سوزش کا علاج:
جسم میں کسی بھی اعضا میں سوزش اُس عضو کی کارکردگی کو بُری طرح متاثر کرتی ہے لیکن سونٹھ کو نمک کے ساتھ ملا کرکے استعمال کیا جائے تو یہ سوزش پر جادوئی اثرات پیدا کرکے اسے ختم کرتی ہے خاص طور پر جوڑوں کی سوزش اور یوریک ایسڈ کے بڑھنے سے انگلیوں پر پیدا ہونے والی سوزش کو ختم کرتی ہے اور اگر سوزش کسی چوٹ کی وجہ سے پیدا ہو تو یہ اُسکا بھی بہترین علاج ہے۔
متلی اور صبح کی بے چینی:
حاملہ خواتین جنہیں صبح کے وقت متلی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور مارننگ سیکنس کے مسائل کا شکار ہوتی ہیں سونٹھ اُن کے لیے انتہائی مفید دوا ہے اور اگر وہ آدھی چائے کی چمچ سونٹھ کے پاوڈر میں تھوڑی شہد اور نیم گرم پانی مکس کرکے پی لیں تو یہ محلول اُن کو توانا اور صحت مند رکھنے کے لئے کافی ہے۔ تاہم طبیعتوں میں اختلاف کے سبب کسی بھی نسخے پر عمل پیرا ہونے سے قبل اپنے معالج سے مشورہ ضرور کرلیں. (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/06/7.html
 

خالی پیٹ زیتون کا تیل پینے کے حیرت انگیز فوائد

خالی پیٹ زیتون کا تیل پینے کے حیرت انگیز فوائد

خالی پیٹ زیتون کا تیل پینے کے حیرت انگیز فوائد جنہیں جان کر یقینا آپ حیران رہ جائیں گے
زیتون کا تیل صحت کے لئے بہت فائدہ مند مانا جاتا ہے جس کی وجہ اس میں موجود فیٹی ایسڈز، وٹامنز اور دیگر اجزاءشامل ہیں. مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اسے پینا بھی صحت کے لئے فوائد کا حامل ہوتا ہے؟ درحقیقت خالی پیٹ ایک کھانے کے چمچ زیتون کے تیل کو پینا اتنے فوائد کا حامل ہوتا ہے کہ جان کر حیران رہ جائیں گے.
ایک نجی ٹی وی کے مطابق زیتون کے تیل میں فیٹی ایسڈز کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو کہ زیادہ کھانے سے روکتی ہے، جس کے نتیجے میں یہ گھی کا بہترین متبادل تو ہے ہی، تاہم اسے خالی پیٹ پینا بہت کم عرصے میں توند کو گھٹانے میں مدد دیتا ہے. خالی پیٹ زیتون کے تیل کا ایک چمچ پینا ان خلیات کو نقصان سے بچاتا ہے جو کینسر کا باعث بن سکتے ہیں، اسی طرح یہ آنتوں کے نظام کو ٹھیک کرکے قبض سے نجات دلانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے. زیتون کا تیل جلد، ناخنوں اور بالوں کے لئے بھی فائدہ مند ہے، یہ ان کی ملائمت واپس لانے کے ساتھ نقصانات کی مرمت کرتا ہے، ان کی نمی بحال کرتا ہے جبکہ بالوں کی نشوونما کو بھی بڑھاتا ہے. ویسے تو اسے ہیئر یا اسکن ماسک کی شکل میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے مگر اسے پینا زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے.
جسمانی افعال کے لئے جگر کی بہت اہمیت ہے، یہ اندرونی نظام کی صفائی کرتا ہے مگر زہریلے مواد کی صفائی کے لئے ہمیں بھی کوشش کرنا ہوتی ہے اور ایسا زیتون کے تیل سے ممکن ہے. بہترین نتائج کے لئے دو کھانے کے چمچ زیتون کے تیل کو تھوڑی مقدار میں لیموں کے عرق میں ملاکر پی لیں. اس میں موجود فیٹی ایسڈز جسمانی دفاعی نظام کے مختلف افعال کو بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں مختلف موسمی امراض سے بچنا آسان ہوجاتا ہے. کولیسٹرول کی دو اقسام ہوتی ہیں، ایک ایل ڈی ایل (نقصان دہ) اور دوسری ایچ ڈی ایل (فائدہ مند)، امراض قلب سے بچنے کے لئے ایل ڈی ایل کی سطح کو کم رکھنا ضروری ہوتا ہے جبکہ دوسری کی سطح بڑھانا ہوتی ہے، اس کا یک ذریعہ زیتون کا تیل، سبزیاں، پھل اور اجناس پر مشتمل غذا کا استعمال ہے.زیتون کا تیل جسمانی ورم میں کمی کے لئے درد کش ادویات کی طرح ہی کام کرتا ہے،
ایک تحقیق کے مطابق کچھ کھانے کے چمچ زیتون کا تیل کسی درد کش دوا جتنا اثر رکھتا ہے اور یہ قدرتی علاج ہے جس کا کوئی نقصان نہیں. زیتون کا تیل کولیسٹرول اور گلوکوز لیول کو موثر طریقے سے کم کرتا ہے، اسی لئے اسے ذیابیطس کے خلاف فائدہ مند مانا جاتا ہے جبکہ خون کی شریانوں کے مسائل سے بھی بچاتا ہے. زیتون کا تیل دماغ کے لئے بھی فائدہ مند ہے، جسے بہت زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی کمی مضر صحت فری ریڈیکلز کی مقدار بڑھاتی ہے جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ الزائمر اور دماغی تنزلی کا باعث بن سکتا ہے. نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لئے ہے. قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں. (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/06/blog-post_70.html

تاکنا جھانکنا اور جھانکی مارنا

غلطی ہائے مضامین ۔۔۔ 
تاکنا جھانکنا اور جھانکی مارنا ۔۔۔ 
از: ابونثر
دائرۂ علم و ادب پاکستان نے سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک برقی محفل سجا رکھی ہے۔ یہ عالمی ادبی محفل ہے۔ ایک روز جدہ سے سید شہاب الدین نے محفل میں ’جھانکی‘ ماری۔ اس پر اہلِ علم و ادب میں اضطراب پھیل گیا۔ کراچی سے ڈاکٹر محمود غزنوی نے جھٹ سوال داغا:
’’یہ ’جھانکی ماری‘ کون سی اُردو ہے؟‘‘
سید کی مدد کو سید ہی لپکتا ہے۔ سو سید ایاز محمود، سید شہاب الدین کی مدد کو دوڑے، اور دوڑ کر سند لے آئے۔ فرمایا:
’’درست زبان ہے۔ اہلِ زبان کا روزمرہ ہے۔ مطلب ہے ایک نظر ڈالنا۔ نظیرؔ اکبر آبادی کا شعر ہے:
نئی پوشاک اور نئے بھوجن
نئی جھانکی ہے اور نئے درشن‘‘
ہم تو ایسے مواقع پر بغلیں ہی جھانکتے رہ جاتے ہیں۔ اس نوک جھونک کا فائدہ یہ ہوا کہ جھک کر لغت جھانکنے لگے۔ معلوم ہوا کہ اہلِ لغت بھی جھانکی مارتے پھر رہے ہیں۔ نوراللغات کی رُو سے اس کا مطلب ہے: دید، نظارہ، تماشا۔ فرہنگِ تلفظ (مرتبہ شان الحق حقی) کے مطابق ’جھانکی‘ کا ایک مطلب ’موکھا‘ یا ’روزن‘ بھی ہے، یعنی وہ سُوراخ جہاں سے جھانکی ماری جاتی ہے۔ اس کے علاوہ فصیل کے کنگروں کے درمیان کی درزیں بھی ’جھانکی‘کہلاتی ہیں۔ جلوہ گاہ (یعنی جھروکے) کو بھی ’جھانکی‘ کہا جاتا ہے۔ وہ طاق یا چوکھٹا جس میں مورتی سجا کر رکھتے ہیں وہ بھی ’جھانکی‘ ہے۔ اسٹیج یا تماشا گاہ کو بھی اہلِ زبان نے ’جھانکی‘ کہا۔ اس تمام تاک جھانک کے بعد ہم تو اس نتیجے پر پہنچے کہ ’کلوز سرکٹ ٹیلی وژن کیمرا‘ کے لیے اردو میں اس سے زیادہ موزوں، مناسب اور مختصر نام کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
یہ سارا ’کھٹ راگ‘ جھانکنے سے شروع ہوا تھا۔ ’کھٹ راگ‘ کے ان دو الفاظ کو ہمیشہ ملا کرلکھا گیا۔ یعنی ’کھٹراگ‘۔ جن بوجھ بجھکڑوں نے اسے ’کھڑاگ‘ پڑھا اُنھوں نے ’کھڑاگ‘ ہی کے تلفظ سے یہ لفظ رائج بھی کردیا۔ اب ہمارے ہاں جسے دیکھیے وہ کھڑاگ ہی کھڑا کرتا نظر آتا ہے۔ جب کہ ہے یوں کہ مختلف راگوں کے گڈمڈ کردینے کو ’کھٹ راگ‘ کہتے ہیں۔ مجازاً اِس کے معنی ہیں: جنجال، جھنجھٹ، جھگڑا، بکھیڑا اور جھمیلا وغیرہ۔ کئی راگنیوں کے سُر ملے ہونے کے معنوں میں یہ لفظ ظفرؔ کے ایک شعر میں بھی ملتا ہے:
مطرب ایسا کچھ سنا جس سے کہ ہو دل کو کشود
نیک سن کر ہی ترا کھٹ راگ آئے ہم تو ہیں
اب سے کم از کم ستّر بہتّر برس پہلے تک دستی تحریر اور دستی کتابت میں یہ رواج عام تھا کہ اردو کے دو الفاظ اگر ملا کر لکھے جاسکتے ہوں تو فی الفور ملا دینا چاہیے۔ ایسے الفاظ کو الگ الگ لکھنا غالباً کم خواندہ یا ناپختہ ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ دو الفاظ ہی پر بس نہیں۔ ’کیلے کی گیلی گیلی جڑ‘ والا تو پورا فقرہ ہی ملا کر لکھا جاسکتا تھا۔ ملا کر لکھنے پر ہمیں اپنا ایک دلچسپ مشاہدہ یاد آگیا۔ ہم نے ہی کیا، آپ نے بھی ’امرت سر‘ کو کبھی اِس املا کے ساتھ لکھا ہوا نہیں دیکھا ہوگا۔ ہمیشہ امرتسر ہی لکھا دیکھا۔ ایک روز خوبیِ قسمت سے ہم مسجدِ نبویؐ میں روزانہ سجنے والی محفلِ درس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ موضوع تھا ’نبوت کے مدعیانِ کاذب‘۔ بات مسیلمہ کذّاب سے شروع ہوئی اور مرزا قادیانی تک جا پہنچی۔ مرزا کے متعلق ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے مدرسِ محترم نے فرمایا: ’’الشیخ ثناء اللہ اَمَرتَسری یقول …‘‘
انھوں نے ’امرت سری‘ کا تلفظ ’اَمَرْ تَسْری‘ بروزنِ حسن بصری کیا۔ تب ہمیں فصیح و بلیغ عربی بولنے والے عرب عالِم کے تلفظ پر بھی مسکرانے کا موقع مل گیا۔ لیکن وہ بچارے بھی کیا کرتے؟ امرت سر میں بنفسِ نفیس جھانکی مارے بغیر اس شہرکا درست تلفظ جاننا اُن کے لیے ممکن بھی کیسے ہوتا؟
تاک جھانک کے ماہرین کا مشورہ ہے کہ سہج سہج کر جھانکی مارنے سے بہتر ہے کہ آدمی ایک ہی دفعہ رَج کر جھانک لیا کرے۔ کسی درز سے دیکھنے کو، کسی آڑ میں چھپ کر نظارہ کرنے کو، اورکسی شخص (مثلاً محبوب) کے دروازے سے اُس کے گھر میں دُزدیدہ یا سرسری نظر ڈالتے ہوئے گزر جانے کو ’جھانکنا‘ کہا جاتا ہے۔ میر ؔ کا مشہور شعر ہے:
دل سے شوقِ رُخِ نکو نہ گیا
جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا
مگر جھانکنے کے ساتھ تاکناکیسے ممکن ہے؟ یہ بات سمجھ میں آئی نہیں! تاکنے کا مطلب تو گھات لگا کر، ٹکٹکی باندھ کر یا شست لگا کر دیکھنا ہے۔ تاکتے رہنا یا تکتے رہنا مسلسل دیکھتے رہنے کو کہا جاتا ہے۔ ’پہروں چاند کو تکتے رہنا ٹھیک نہیں‘۔ ’منہ تاکنا‘ (یا منہ دیکھنا) کچھ کہنے یا کچھ سننے کے لیے انتظارکے لمحات گزارنا ہے۔ ایک بار چچا غالبؔ نے کسی کا خط وصول کرنے کے بعد منہ اُٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغامِ زبانی اور ہے
یہاں اپنے بچپن کی ایک بات یاد آگئی۔ منت سماجت کے باوجود جب والدہ محترمہ مدرسے سے چھٹی کرلینے کی اجازت مرحمت نہ فرماتیں تو اُمیدوارِ لطف و کرم سے یہ بھی فرمایا کرتیں کہ ’’پڑھنے جاؤ، کھڑے منہ کیا تاک رہے ہو؟‘‘ تاک کر مارنے کا مطلب ہے بالکل ٹھیک ٹھیک نشانہ لے کر مارنا۔ ’تاک میں لگنا‘ کسی کا پیچھا کرنا یا کسی کی جاسوسی کرنا ہے۔ ’تاک میں رہنا‘ کسی کو نظر میں رکھنا یا کسی پر نظر رکھنا ہوتا ہے، یعنی کسی کو قابو میں کرلینے یا اس پر حملہ آور ہوجانے کے لیے موقع کی تلاش میں رہنا۔ میرؔ والی بات اُس وقت سمجھ میں آئی جب سمجھنے کے لیے لغت میں جھانکا۔ پتا چلا کہ تاکنے کا ایک مطلب نظر بازی یا بقولِ مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم ’گُھورا گھاری‘ بھی ہے۔ میرؔ صاحب انھی معنوں میں تاکا جھانکی فرمایا کرتے تھے۔ اسی طرح ’ تاک لینا‘ بھی کسی کو پسند کرلینا یا کوئی چیز حاصل کرلینا ہے۔ امیرؔ مینائی کو صدمہ تھا کہ
ہزاروں برس کی ہے بڑھیا یہ دنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے
جھانکنا سے صوتی مماثلت رکھتا ہوا ایک لفظ ’جھینکنا‘ بھی ہے۔ اس کا مطلب ہے: رونا، اپنا دکھڑا بیان کرنا، افسوس کرنا، پچھتانا، ماتم کرنا اور گلہ شکوہ کرنا۔ اب بھی گلے شکوے تو بہت ہوتے ہیں مگر ’جھینکتا‘ کوئی نہیں۔ داغ ؔکے دور تک یہ کام اپنے پرائے سب کرتے تھے:
دل میں نے لگایا ہے مگر دیکھیے کیا ہو
سب جھینکتے ہیں اپنے پرائے مرے آگے
اسی طرح جھانکنے کے مشاغل میں سے ایک مشغلہ ’کنویں جھانکنا‘ بھی ہوا کرتا تھا۔ مطلب: بہت تلاش و جستجو کرنا، حیران پریشان ہونا۔ ’’ارے بھائی! تم نے تو کنویں جھنکوادیے‘‘۔ آج کل اگر کوئی لاپتا ہوجائے تو اسپتال جھانکے جاتے ہیں، تھانوں میں جھانکی ماری (باقی صفحہ 41 پر)
جاتی ہے، یا ایدھی سینٹر جاکر جھانک آتے ہیں۔ پھر بھی پتا نہ چلے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ نامعلوم افراد اُٹھا لے گئے ہوں گے جو سب کو معلوم ہیں۔ مگر اس تلاش و جستجو کے لیے پہلے زمانے میں کنویں بھی جھانکے جاتے تھے کہ کہیں موصوف افیم کی پنک میں آکر کنویں میں نہ ڈھے گئے ہوں۔ قصہ مشہور ہے کہ دو عدد درویشانِ افیم نوش تھک ہار کر ایک کنویں کی منڈیر پرآبیٹھے۔ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ اچانک’شڑاپ‘ کی ایک زوردار صدا بلند ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک درویش غائب ہوگیا۔ دوسرے درویش نے گھبراکر اِدھر اُدھرجھانکا اور بوکھلاکرصدا لگائی:
’’ارے میاں! کہاں ہو؟ اور یہ تم نے کیسی صدا بلند کی تھی؟‘‘
کنویں میں سے آواز آئی:
’’یہاں ہوں شاہ جی! کنویں میں گر پڑا ہوں‘‘۔
دوسرے درویش نے ذرا کی ذرا کنویں میں جھانکا اور کہا:
’’اچھا میاں! جہاں رہو خوش رہو‘‘۔
پھر اپنی گدڑی سنبھالی اور دعا دیتے ہوئے چلتے بنے۔ بعد ازاں اسی قصے کو میرؔ نے اپنے اس شعر میں موزوں کیا:
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو، ہم دُعا کر چلے
https://saagartimes.blogspot.com/2021/06/blog-post_29.html

Sunday 27 June 2021

احادیث کی روشنی میں صبح وشام کے اذکار کیا ہیں؟

احادیث 
کی روشنی میں
صبح وشام کے اذکار کیا ہیں؟
صبح کی دعا فجر کے بعد پڑھنی ہے یا صبح کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں اور شام کی عصر سے مغرب تک پڑھ سکتے ہیں؟حضرت صبح و شام کی دعا سے کیا مراد ہے؟ صبح کی دعا فجر کے بعد پڑھنی ہے یا صبح کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں اور شام کی عصر سے مغرب تک پڑھ سکتے ہیں؟ جن اذکار ودعاء کی صبح اور شام کے وقت میں پڑھنے کی ترغیب وارد ہے، وہ دعا یا ذکر مراد ہے اور صبح والی دعائیں صبحِ صادق سے اشراق تک کسی وقت بھی پڑھ لے اور رہ جائیں تو دوپہر تک پڑھ لے، شام کی دعائیں مغرب تک بلکہ سونے تک پڑھ لیں سب درست ہے۔ دعاء میں توسع بھی ہوتا ہے وقتِ مقررہ سے کچھ تقدیم تاخیر بھی کسی وجہ سے ہوجائے تو مضائقہ نہیں ہوتا۔ صبح اور شام کے اذکار کے متعلق جن صحیح احادیث کو ہمارے لیے جمع کرنا ممکن ہوسکا وہ درج ذیل ہیں:
صبح کے وقت:
نماز فجر کے بعد سے لیکر طلوع شمس تک افضل وقت ہے۔ (سورۃ ق 39، سنن أبی داؤد، رقم 3667 وحسنه الألباني والأرنؤوط وهو كذلك وله طرق ولم يصب من ضعفه)
طلوع شمس کے بعد سے لیکر ظہر تک بھی جائز ہے لیکن یہ مفضول وقت ہے۔ (مستفاد از: سنن أبی داود رقم 1503 وإسنادہ صحیح)
اگرظہر تک بھی نہ پڑھ سکے تو صبح کا وقت تو نہیں رہ گیا لیکن اگروقت شام سے قبل جب ممکن ہو پڑھ لے تو بعض اہل علم کے بقول اس کی بھی گنجائش ہے واللہ اعلم۔
شام کے وقت:
 نمازعصر کے بعد سے لیکر غروب شمس تک افضل وقت ہے۔ (سورۃ ق 39، سنن أبی داؤد، رقم 3667 وحسنه الألباني والأرنؤوط وهو كذلك وله طرق ولم يصب من ضعفه)
غروب شمس کے بعد سے لیکر آدھی رات تک بھی جائز ہے لیکن یہ مفضول وقت ہے۔ (مستفاد از: بخاری، رقم 3603، صحیح ابن حبان، رقم 12341 وإسنادہ حسن، الصحيحة 6/ 135)
اگر آدھی رات تک بھی نہ پڑھ سکے تو شام کا وقت تو نہیں رہا لیکن اگر وقت صبح سے قبل جب ممکن ہو پڑھ لے تو بعض اہل علم کے بقول اس کی بھی گنجائش ہے، واللہ اعلم۔
وہ اذکار جنہیں ایک مرتبہ پڑھنا ہے:
﴿اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ﴾ 
{ترجمہ: یا اللہ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ۔ تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا ہی بندہ ہوں میں اپنی طاقت کے مطابق تجھ سے کئے ہوئے عہد اور وعدے پر قائم ہوں۔ ان بری حرکتوں کے عذاب سے جو میں نے کی ہیں تیری پناہ مانگتا ہوں مجھ پر تیری نعمتیں ہیں میں اس کا اقرار کرتا ہوں ۔ میری مغفرت فرما دے کہ تیرے سوا اور کوئی بھی گناہ نہیں معاف کرتا۔} آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص اس پر کامل یقین رکھتے ہوئے دن کے وقت کہے اور وہ شام سے پہلے اس دن فوت ہوجائے تو وہ اہل جنت میں سے ہے، اور جو شخص اسے رات کے وقت کامل یقین رکھتے ہوئے کہے اور وہ صبح ہونے سے پہلے فوت ہو جائے تو وہ اہل جنت میں سے ہے۔ [بخاری، رقم 6306، سیدالاستغفار] 
صبح کے وقت: 
﴿أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْكُ لِلَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ»«لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، رَبِّ أَسْأَلُكَ خَيْرَ مَا فِي هَذِا اليوم وَخَيْرَ مَا بَعْدَهَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا فِي هَذِا اليوم وَشَرِّ مَا بَعْدَهَ، رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ وَسُوءِ الْكِبَرِ، رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابٍ فِي النَّارِ وَعَذَابٍ فِي الْقَبْرِ﴾ 
{ہم نے صبح کی اور اللہ کے ملک نے صبح کی، شکر ہے اللہ کا، کوئی سچا معبود نہیں سوائے اللہ کے جو اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی سلطنت ہے اسی کو تعریف لائق ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اے پروردگار! میں تجھ سے اس دن کی بہتری مانگتا ہوں اور اس دن کے بعد کی اور پناہ اس دن کی برائی سے اور اس کے بعد کی برائی سے، اے پروردگار! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی اور بڑھاپے کی برائی سے، اے پروردگار! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں جہنم کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے} 
شام کے وقت:
﴿أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ»«لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، رَبِّ أَسْأَلُكَ خَيْرَ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَخَيْرَ مَا بَعْدَهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَشَرِّ مَا بَعْدَهَا، رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ وَسُوءِ الْكِبَرِ، رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابٍ فِي النَّارِ وَعَذَابٍ فِي الْقَبْرِ﴾ 
{ہم نے شام کی اور اللہ کے ملک نے شام کی، شکر ہے اللہ کا، کوئی سچا معبود نہیں سوائے اللہ کے جو اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی سلطنت ہے اسی کو تعریف لائق ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اے پروردگار! میں تجھ سے اس رات کی بہتری مانگتا ہوں اور اس رات کے بعد کی اور پناہ اس رات کی برائی سے اور اس کے بعد کی برائی سے، اے پروردگار! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی اور بڑھاپے کی برائی سے، اے پروردگار! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں جہنم کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے} [مسلم، رقم 2723] 
﴿اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي، اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَآمِنْ رَوْعَاتِي، اللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ، وَمِنْ خَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي، وَعَنْ شِمَالِي، وَمِنْ فَوْقِي، وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي﴾ 
{اے للہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا طالب ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے عفو و درگزر کی، اپنے دین و دنیا، اہل و عیال، مال میں بہتری و درستگی کی درخواست کرتا ہوں، اے اللہ! ہماری سترپوشی فرما۔ اے اللہ! ہماری شرمگاہوں کی حفاظت فرما، اور ہمیں خوف و خطرات سے مامون و محفوظ رکھ، اے اللہ! تو ہماری حفاظت فرما آگے سے، اور پیچھے سے، دائیں اور بائیں سے، اوپر سے، اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں اچانک اپنے نیچے سے پکڑلیا جاؤں} [سنن أبی داؤد، رقم 5074 وإسنادہ صحیح وصححه الألبانی] 
﴿اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ عَالِمَ الغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، رَبَّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكَهُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ، وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلَى نَفْسِي سُوءًا أَوْ أَجُرَّهُ إِلَى مُسْلِمٍ﴾ 
{اے اللہ! آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے، کھلی ہوئی اور پوشیدہ چیزوں کے جاننے والے، کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے تیرے، تو ہر چیز کا رب (پالنے والا) اور اس کا بادشاہ ہے، اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے نفس کے شر سے، شیطان کے شر اور اس کے جال اور پھندوں سے اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں اپنے آپ کے خلاف کوئی گناہ کر بیٹھوں، یا اس گناہ میں کسی مسلمان کو ملوث کردوں} [سنن الترمذی رقم 3529 وإسنادہ صحیح وصححه الألبانی فی الصحيحة 6/ 623] 
 ﴿يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ، أَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ، وَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرَفَةَ عَيْنٍ﴾ 
 {اے زندہ وجاوید! اے قائم ودائم! میں تیری رحمت ہی کے ذریعہ مدد طلب کرتا ہوں، تو میرا ہرکام سنواردے، اور آنکھ جھپکنے کے برابر بھی مجھے میرے نفس کےسپرد نہ کر} [المستدرك للحاكم رقم 2000 وإسنادہ حسن وصححه الحاکم ووافقه الذهبي] 
صبح کے وقت:
 ﴿اللَّهُمَّ بِكَ أَصْبَحْنَا، وَبِكَ أَمْسَيْنَا، وَبِكَ نَحْيَا، وَبِكَ نَمُوتُ، وَإِلَيْكَ النُّشُورُ﴾ 
 {اے اللہ! تیری ہی حفاظت میں ہم نے صبح کی، اور تیری ہی حفاظت میں شام کی، اور تیرے ہی نام پر ہم زندہ ہوتے ہیں، اور تیرے ہی نام پر ہم مرتے ہیں، اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے} 
شام کے وقت:
﴿اللَّهُمَّ بِكَ أَمْسَيْنَا، وَبِكَ أَصْبَحْنَا، وَبِكَ نَحْيَا، وَبِكَ نَمُوتُ، وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ﴾ 
{اے اللہ! تیری ہی حفاظت میں ہم نے شام کی، اور تیری ہی حفاظت میں صبح کی، اور تیرے ہی نام پر ہم زندہ ہوتے ہیں، اور تیرے ہی نام پر ہم مرتے ہیں، اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے} [الأدب المفرد للبخاري رقم 1199، وإسنادہ صحیح وصححه الألباني] 
صرف صبح کے وقت:
 ﴿أَصْبَحْنَا عَلَى فِطْرَةِ الْإِسْلَامِ، وَكَلِمَةِ الْإِخْلَاصِ، وَدِينِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمِلَّةِ أَبِينَا إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا مُسْلِمًاوَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ 
{ہم نے فطرت اسلام ، کلمہ اخلاص، اور اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین، اور اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام - جو یک رخ اور فرمانبردار تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے- کی ملت پر صبح کی} [سنن الدارمي رقم 2730 وإسنادہ صحیح واللفظ له، مسند أحمد 3/407 وإسنادہ صحیح علی شرط الشیخین، ورواية المساء شاذة، انظر الصحيحة 6/ 1231]
وہ اذکار جنہیں تین (3) بار ورد کرنا ہے.
﴿بسم الله الذي لا يضرُّ مَعَ اسمِهِ شيءٌ في الأرضِ وَلاَ في السماءِ وهُوَ على السميعُ العليمُ﴾ 
{میں اس اللہ کے نام کے ذریعہ سے پناہ مانگتا ہوں جس کے نام کی برکت سے زمین و آسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی، اور وہ سننے والا جاننے والا ہے} [سنن الترمذي رقم 3388 وإسناده حسن وحسنه الألباني] 
﴿اللَّهُمَّ عَافِنِي في بَدَني، اللَّهُمَّ عافِني في سَمْعي، اللَّهُمَّ عافِنِي في بَصَري، لا إله إلاَّ أنت، اللَّهُمَّ إني أعُوذُ بِكَ من الكُفْرِ، والفَقْرِ، اللَّهُمَّ إني أعُوذُ بِكَ مِنْ عذابِ القَبْرِ، لاَ إله إلاَّ أنْتَ﴾ 
{اے اللہ! تو میرے جسم کو عافیت نصیب کر، اے اللہ! تو میرے کان کو عافیت عطا کر، اے اللہ! تو میری نگاہ کو عافیت سے نواز دے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں} [سنن أبی داؤد، رقم 5090 وإسناده حسن وحسنه الألباني ولم يصب من ضعفه، جعفر بن ميمون حسن الحديث علي الراجح] 
(صرف صبح) ﴿سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ﴾ 
{پاکی ہے اللہ کی اور اس کی تعریف کے ساتھ، جتنی اس کی مخلوق کی تعداد ہے اور جتنی اس کو پسند ہے اور جتنا اس کے عرش کا وزن اور جتنی اس کے کلمات کی سیاہی ہے۔} [مسلم، رقم 2726] 
سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ: (نبی صلی اللہ علیہ و سلم صبح سویرے نماز پڑھ کر ان کے پاس سے چلے گئے اس وقت وہ اپنی نماز پڑھنے والی جگہ بیٹھی تھیں، پھر دن چڑھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس واپس تشریف لائے تو وہ [اسی طرح] بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "تم اب تک اسی حالت میں بیٹھی ہوئی ہو جس پر میں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا؟" انہوں نے عرض کی: جی ہاں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے (ہاں سے جانے کے) بعد میں نے چار کلمے تین بار کہے ہیں، اگر ان کو ان کے ساتھ تولا جائے جو تم نے آج کے دن اب تک کہا ہے تو یہ ان سے وزن میں بڑھ جائیں: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ  
(صرف شام) ﴿أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ﴾ 
{میں اللہ کے مکمل کلمات کے ذریعہ اس کی مخلوق کے شر سے پناہ چاہتا ہوں} [مسلم، رقم 2709 والترمذی رقم 3604] 
وہ ذکر جسے دس (10) بار کرنا ہے.
 ﴿لا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ، وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ 
{اللہ کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کی تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قاد ہے} [مسند أحمد 2/ 360 وإسناده صحيح علي شرط الشيخين وانظر الصحيحة 6/ 136۔137] 
اسے صرف ایک بار بھی پڑھ سکتے ہیں [سنن ابن ماجه، رقم 3867 وإسنادہ صحیح وصححه الألباني] 
وہ ذکر جسے سو (100) بار کرنا ہے
﴿سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ﴾ 
{پاک ہے اللہ اپنی تعریفوں کے ساتھ} [مسلم، رقم 2692]
یہاں صرف ان اذکار کو یکجا کیا گیا ہے جن کے بارے میں یہ صراحت ہے کہ انہیں خصوصی طور پر صبح یا شام کو پڑھا جائے۔ بعض اذکار کے کئی صیغے اور الفاظ ثابت ہیں لیکن ہم نے ان الفاظ کا انتخاب کیا ہے جن پر اکثر رواۃ کا اتفاق ہے۔
ان کے علاوہ دن رات میں پڑھے جانے کے لئے اور بھی کئی اذکار صحیح سندوں سے ثابت ہیں لیکن ان کا وقت عام ہے. انہیں دن رات میں کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں۔
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: (جو شخص (شام کو) تین بار یہ دعا پڑھ لے اسے صبح تک کوئی ناگہانی مصیبت نہیں آئے گی بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ 
[ترجمہ: اللہ کے نام سے ، وہ ذات کہ اس کے نام سے کوئی چیز زمین میں ہو یا آسمان میں؛ نقصان نہیں دے سکتی اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے] 
اور جس نے صبح کے وقت تین بار یہ دعا پڑھ لی اسے شام تک کوئی ناگہانی مصیبت نہیں آئے گی )
اس حدیث کو ابوداؤد (5088) نے روایت کیا ہے۔
جبکہ امام ترمذی (3388) نے اسے ان الفاظ میں روایت کیا ہے: (ایسا کوئی شخص نہیں ہے جو ہر روز صبح و شام کو بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ 
[ترجمہ: اللہ کے نام سے، وہ ذات کہ اس کے نام سے کوئی چیز زمین میں ہو یا آسمان میں؛ نقصان نہیں دے سکتی اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے] تین بار پڑھے اور اسے کوئی چیز نقصان پہنچادے۔) امام ترمذی نے اسے حسن صحیح اور غریب قرار دیا ہے۔ جبکہ ابن قیم نے اسے 'زاد المعاد' (2/338) میں اور البانی نے صحیح ابوداؤد میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
امام ابوداؤد (5081) ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: (جس نے صبح اور شام کے وقت سات بار یہ کہہ لیا  
حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ 
(ترجمہ: میرے لیے اللہ ہی کافی ہے، اس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، میں نے اسی پر توکل کیا اور وہ عرش عظیم کا پروردگار ہے۔) اللہ تعالی اس کی پریشانیوں میں اسے کفایت فرمائے گا۔
یہ روایت تو موقوف ہے؛ لیکن اس کا حکم مرفوع حدیث والا ہے، اس حدیث کی سند کو شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ نے جید قرار دیا ہے۔
ہر طریقے سے جادو سے حفاظت کی دعا بتائیں، جیسے جادو ، سفلی، بندش ، سحر وغیرہ وغیرہ۔
سوال
ہر طریقے سے جادو سے حفاظت کی دعا بتائیں، جیسے جادو ، سفلی، بندش ، سحر وغیرہ وغیرہ۔
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
 Fatwa ID: 334-334/M=4/1436-U
صبح وشام یہ آیات پڑھ کر دم کرلیا کریں 
فَلَمَّا أَلْقَوْا قَالَ مُوسَی مَا جِئْتُمْ بِہِ السِّحْرُ إِنَّ اللَّہَ سَیُبْطِلُہُ إِنَّ اللَّہَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ (81) وَیُحِقُّ اللَّہُ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ․ 
اور 
قُل أعوذُ بربّ الفلق 
اور 
قُل أعوذُ بربّ الناس 
بھی پڑھ لیں، ان شآء اللہ جادو وغیرہ سے پوری حفاظت رہے گی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ: دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر: 57601
تاریخ اجراء: Jan 27, 2015
واللہ اعلم۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/06/blog-post_50.html

میت کے سلسلہ میں چند ضروری باتیں کیا ہیں ؟

میت کے سلسلہ میں چند ضروری باتیں کیا ہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
مذہب اسلام مکمل نظام حیات بھی ہے اور مکمل نظام ممات بھی ہے، اس کی تعلیمات میں جہاں مسلمانوں کے لئے زندگی گذارنے کے لئے رہنمائی موجود ہے، وہیں کوئی وفات پاجائے تو اس کے ساتھ کیا عمل کیا جائے، اس جانب بھی رہنمائی موجود ہے، اس نے رہنمائی کی بے کہ مردہ کے ساتھ احترام کا معاملہ کیا جائے، کوئی ایسا کام نہ کیا جائے، جس سے میت کی بے حرمتی یا اہانت ہوتی ہو، مرنے سے پہلے جانکنی کے وقت کیا کیا جائے اور مرنے کے بعد  میت کے ساتھ کیا عمل کیا جائے، تمام  باتوں کی وضاحت شریعت میں موجود ہے، مگر افسوس کی بات ہے کہ ہم ان باتوں کو بھول جاتے ہیں، صرف  تصویرکشی ہمارے ذہن میں رہ جاتی ہے، ہم اتنے بدحواس ہوجاتے ہیں کہ شریعت کے احکام  بھی ہمیں یاد نہیں رہتے، عوام تو عوام، خواص اور علماء بھی اب اس میں سرگرم نظر آنے لگے ہیں، یہ زیادہ افسوس کی بات ھے, شرعی ہدایت کے مطابق آدمی کے مرنے کے بعد عالم برزخ شروع ہوجاتا یے، نیک و بد کو ان کے اعمال کے مطابق ثواب اور عتاب کا عمل بھی شروع ہوجاتا ہے، یہی وجہ ھے کہ بہت سی دفعہ  میت کی حالت دیکھنے میں اچھی نہیں لگتی، بعض علماء نے تحریر کیا کہ جزا و سزا کا  عمل نمازجنازہ کے بعد سے شروع ہوجاتا ہے، اس لئے مرنے کے بعد چند اصولوں پر عمل کیا جائے:
(1) روح نکل جانے کے بعد کپڑے کی ایک پٹی سے میت کے جبڑے باندھ دیئے جائیں، تاکہ منہ کھلا نہ رہے
(2) میت کی آنکھوں کو بند کردیا جائے، تاکہ آنکھیں کھلی نہ  رہیں.
منہ اور آنکھوں  کے کھلے رہنے سے میت کی شکل بھیانک سی معلوم ہوتی ہے.
(3) میت کے ہاتھ اور پیر سیدھے کردیئے جائیں.
(4) پیروں کے انگوٹھے کو ملا کر  کپڑے کی پٹی سے باندھ دیا جائے، تاکہ پیر اور انگلیاں ٹیڑھی نہ ہوجائیں 
(5) اس کے بعد میت  پر  چادر اوڑھادی جائے
بہت سی مرتبہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگوں کی بے توجہی کی وجہ سے میت کا منہ کھلا رہ جاتا ھے ،انکھیں کھلی رہ جاتی ہیں، پیر اور اس کی انگلیاں اکڑ جاتی ہیں، پھر میت کا چہرہ بھیانک ہونا جاتا ہے، پیر اکڑ جانے کی وجہ سے کفن میں ٹھیک سے نہیں رہ پاتا ہے، اس لئے  خویش و اقارب کی ذمہ داری ھے کہ وہ اس جانب توجہ دیں، جہانتک دکھانے کا معاملہ ہے تو مختصر طور پر نماز جنازہ سے پہلے اس کام کو کرلیا جائے، نماز جنازہ کے بعد میت کے چہرہ کو نہ کھولا جائے، میت کی تصویر کھنچ کر اس کی توہین نہ کریں، کیونکہ لوگ میت کو  جانتے ہیں، پہچانتے ہیں تو پھر تصویر کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے لئے تو خبر کافی ہے، اللہ تعالی ہمیں دین و شریعت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے.
ابوالکلام قاسمی شمسی (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://saagartimes.blogspot.com/2021/06/blog-post_27.html?m=1

Thursday 24 June 2021

تقاضائے وقت

تقاضائے وقت 

---------------------------------

بقلم: مفتی شکیل منصور القاسمی

----------------------------------

اقوام وملل کے لئے قوت کا سرچشمہ "اتحاد و بامقصد تنظیم" ہے. 

مرکزیت اور انضباط و اتحاد کی جڑ تواضع یعنی دوسروں کو اپنے سے بَڑا تسلیم کرنا ہے. 

افسوس ہے کہ ہمیں دوسرے کو خود سے افضل مانتے ہوئے آج شرم آتی ہے. 

اس لئے ہر کوئی اپنے مزعومہ خول میں بند ہے. 

بقول مفکراسلام علامہ علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ:

"اتحاد نام کی ایک دوسرے کو ملانے اور چپکانے والی چیز آج تک دنیا میں ایجاد نہیں ہوئی ہے."  

یہ تو ناممکنات میں سے ہے کہ ملک کے سارے لوگ ایک رائے اور موقف پہ۔ چاہے وہ کتنا ہی صحیح وسچ کیوں نہ ہو۔ متفق ہوجائیں! 

آپسی اختلافات کا ہونا لازمی و لابدی ہے وہ تو ہوتے آئے ہیں اور ہوتے ہی رہیں گے!

بیشمار ملی، ملکی، گروہی، مسلکی اور سیاسی اختلافات کے باوجود مشترکہ مفاد و مسائل کے لئے باہم متحد ومنضبط ہوکر  متحدہ سعی وکوشش کرنے کو "اتحاد" کہتے ہیں.

یہ اتحاد انسان کے اختیار اور بس کی چیز ہے. 

دوسرے کو بڑا ماننے اور اجتماعی منافع و مسائل کے لئے باہم مل بیٹھنے میں ہمیں عار نہیں آنی چاہئے. 

عقائد کے باب میں "صلح کلی" بننا اور ہواؤں کے رخ پہ منہج  و موقف بدلتے رہنا یقیناً ممنوع اور بُرا ہے. 

عقائد حقہ پہ پوری جرات کے ساتھ تصلب ہونا چاہئے. 

لیکن بنیادی نظریاتی اور مسلکی اختلاف رکھتے ہوئے بھی ہمارے جیسے ملک میں ادارے اور اشخاص سے ربط وضبط بحال رکھنا ملی وجود وبقا کے لئے ضروری ہے

کسی فرد یا ادارے سے نظریاتی اختلافات اس کی افادیت ونافعیت کو تسلیم کرنے میں مانع نہ ہونے چاہئیں. 

کسی گروہ سے چند فی صد اختلاف ہو تو اسے سو فی صد “مخالفت “ بناکر پیش کرنے اور تصادم و محاذ آرائی کی فضا پیدا کرنے سے اس ملک کے مسلمانوں کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔

ہمارے نظریاتی اختلافات سے دشمنوں کو تالیاں بجانے کا موقع نہ ملنا چاہئے. 

ملک کے موجودہ ماحول سے آنکھیں بند کرلینا اور فضا کو ہموار کرنے کی کوشش نہ کرنا طبقہ علماء کو زیبا نہیں. 

اسلام اور مسلمانوں سے مربوط و منسلک جماعتوں اور اداروں کے خلاف اس وقت تحریک چلانا یا سوشل مہم چھیڑنا ملت اسلامیہ کے پاؤں پہ تیشہ چلانے کے مرادف ہوگا. 

ملک کے موجودہ حالات میں کسی بھی منصوبے کی کامیابی کے لئے منفی طریق کار کی بجائے مثبت طریقہ اپنانے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے، آپ کسی کی تردید نہ کرکے بھی معتدل انداز اور متوازن و مثبت اسلوب وپیرائے میں اپنی بات، اپنی فکر اور اپنا خیال پیش کرسکتے ہیں، اس طرح آپ کی صحیح بات فریق مخالف تک پہنچ جائے گی، آپ کی بات اگر صحیح ہوگی تو ان شآءاللہ رائج بھی ہوجائے گی۔

جو لوگ دور از کار ضمنی مسائل اور لاطائل قدیم فروعی مباحث سوشلستان پہ چھیڑکر افراد ملت کو الجھانے اور افتراق و انتشار کا نیا باب کھولنے کا کام کئے ہیں انہوں نے مناسب کام نہیں کیا ہے،

ملک کے نازک ترین وقت میں ساز چھیڑ کر نغمہ سرائی کا موقع فراہم کرنا دوراندیش  کام نہیں.

معاشرے میں رہتے ہوئے اتحاد باہمی کے شیشے پہ کبھی افتراق کا بال آجائے تو نہایت سبک گامی اور حکمت ومصلحت کے ساتھ اسے صاف کرنے یا کم از کم اسے بڑھاوا نہ دینے کی کوشش ہونی چاہئے.

ہر کوئی "سوا سیر" بننے اور اپنے مزاج وطبعیت کا سکہ چلانے کے فراق میں ہی رہے تو معاشرتی بے چینیوں کا زنجیری سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا. 

باہمی اختلاف، ضد اور انا کی نفسیات سے نکلنے، زمانہ شناسی اور موقع محل کی نزاکت کے ساتھ  خوبصورت انداز میں آپسی ناہمواریوں کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔

شکیل منصور القاسمی

بیگوسرائے 

23 جون 2021

https://saagartimes.blogspot.com/2021/06/blog-post_24.html



Tuesday 22 June 2021

نماز سے فارغ ہوکر کیا دعاء مانگیں؟

نماز سے فارغ ہوکر کیا دعاء مانگیں؟؟؟

حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی انھیں نماز سے فارغ ہوکر یہی دعاء مانگتے ہوئے سنا:
اللهم اغفِرْلي ذنوبي و خطايايَ كلَّها، اللهم أَنعِشْني و اجبُرْني، و اهدِني لصالحِ الأعمالِ و الأخلاقِ؛ فإنه لا يهدي لصالحها و لا يصرفُ سيِّئَها إلا أنت (
رواه أبو أمامة الباهلي، نقله الألباني في صحيح الجامع وحكم عنه بأنه: حسن) (الطبرانی 4/125) (3875) و مجمع الزوائد 10/176. ومعجم الاوسط: 4/362) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

http://saagartimes.blogspot.com/2021/06/blog-post_22.html?m=1


Monday 21 June 2021

قرآن محکم کی شان عظیم

قرآن محکم کی شان عظیم

از: رشید احمد فریدی، مدرسہ مفتاح العلوم، تراج ضلع سورت

پہلی قسط                                                                                                                                        قرآن کیا ہے: 

اللہ رب العالمین کا وہ کلام جو سید الملائکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ رحمة للعالمین خاتم النّبیین سیّدالمرسلین حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم کے قلب اطہر(۱) پر تیئس سال کے طویل عرصہ میں بتدریج مختلف مقامات و احوال میں متنوع ضرورت وحکمت کے تحت(۲) اصلاً بنی نوع انسان اور تبعاً جن کی ہدایت اور آخرت کی فلاح ونجات کے لیے خالص عربی زبان میں نازل کیا گیا، جس کے بیان میں یقین وصداقت ہے اور فصاحت وبلاغت کے اعلیٰ معیار پر ہونے کی وجہ سے اعجازی شان رکھتا ہے جو معانی اورحقائق کا خزینہ اور اسرار ومعارف کا غیرمتناہی گنجینہ ہے۔(۳)

آں کتابِ زندہ قرآن حکیم         حکمتِ او لایزال است و قدیم

نسخہٴ اسرارِ تکوینِ حیات               بے ثبات از قوتش گیرد ثبات

نوعِ انساں را پیام آخریں             حاملِ او رحمة للعالمیں

------------------

چیست قرآن اے کلام حق شناس                رونمائے ربِّ ناس آمد بہ ناس

حرف حرفش راست در بر معنئے    معنئے در معنئے در معنئے

اسی کلام ربّانی کو اہل ایمان کے سینوں میں اوراس کے نقوش کو صحیفوں میں حتی کہ اس کے لب ولہجہ کو زبان و ذہن میں اس طرح محفوظ کردیاگیا، ترمیم و تحریف سے مأمون ہوگیا۔ پھر اسی طرح یعنی سینہ بہ سینہ اور صحیفہ بہ صحیفہ ہر زمانہ میں تسلسل کے ساتھ اہل اسلام کا اتنا بڑا طبقہ اُسے مِن وعَن نقل کرتا چلا آرہا ہے کہ جس کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلاً ناممکن ہے۔(۴) یہی وہ خدا کا ابدی پیغامِ ہدایت ہے جسے قرآن کہتے ہیں اس پرایمان لانا ہر فرد پر لازم و فرض ہے اوراس کے کسی بھی جزء کا انکار کفر ہے۔(۵)

عظمتِ قرآن:

انسان کی فطرت میں ایسی قوت و صلاحیت ہی کہاں کہ پاک اور بے عیب ذات یعنی خالق کی صفات کو پاسکے اوراس کے کلام پرُانوار کواِس دنیا میں بلاواسطہ سُن اور سمجھ سکے۔ یہ تو اللہ رب العزت کی ضعیف الخلقت اشرف المخلوقات حضرت انسان پر بے حد عنایت و مہربانی ہے کہ اُس نے اُن حروف و اصوات میں جو کہ بشری صفات اور حادث ہیں اپنی صفتِ کلام کی تجلّی فرمائی یعنی اپنی قدرت سے جلالتِ کلام کی حقیقت کو حروف کے لباس میں پوشیدہ کردیا ورنہ اس کے بغیر اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اس میں کلام الٰہی کے سننے کی ہرگز طاقت نہیں تھی چہ جائیکہ اسے سمجھے۔

... وکیف تجلّت لہم تلک الصفة فی طی حروف واصوات ہی صفات البشر ان یعجز البشر عن الوصول الی فہم صفات اللّٰہ عزوجل الا بوسیلة صفات نفسہ. ولولا استتار کنہِ جلالةِ کلامہ بکسوة الحروف لما ثبت لسماع الکلام عرش ولاثری ولتلاشی ما بینہما من عظمة سلطانہ وسبحاتِ نورہ الخ (احیاء العلوم ۱/۳۳۹)

پس جس طرح انسان کا جسم اس کی روح کے لیے لباس و مکان ہے اور روح کی تعظیم و تکریم کی وجہ سے جسد خاکی بھی قابل تعظیم ہوگیا، اسی طرح قرآنی حروف وآواز کی تعظیم بھی اس لیے واجب ہے کہ کلام الٰہی کا نور اور حروف تجلی گاہ ہے۔ حضرت جعفرصادق رحمة الله عليه فرماتے ہیں ”واللہ خدا نے اپنے کلام میں تجلی فرمائی ہے جو مخلوق کے درمیان ہے لیکن لوگ اس کا مشاہدہ نہیں کرتے۔ (احیاء :۱ /۳۳۹)

کسی نے خوب کہا ہے:

چیست قرآن اے کلام حق شناس                رونمائے ربِ ناس آمد بہ ناس

اے کلام حق کو پہچاننے والے قرآن کیا ہے؟ یہ لوگوں کے پروردگار کا جلوہ دکھانے والا ہے جو سب لوگوں کے پاس آیا ہے۔

اسی عظمت کے پیش نظر صاحبِ الشفاء قاضی عیاض رحمة الله عليه فرماتے ہیں ”جس شخص نے قرآن یا اس کے کسی جزء کا استخفاف کیا یااُسے بُرا بھلا کہا یا کسی حرف کا انکار کیا یا کسی ایسی چیز کا انکار کیا جو صراحتاً مذکور ہے خواہ وہ کوئی حکم ہو یا خبر یا ثابت کیا جس کی قرآن نے نفی کی ہے یا نفی کی جس کو قرآن نے ثابت کیا ہے درانحالیکہ وہ اُسے جانتا بھی ہے یا قرآن کی کسی چیز میں شک کرتا ہے تو ایسا شخص باتفاق المسلمین کافر ہے (التبیان لامام النووی ص:۱۶۴) کنزالعمال ۱/۲۷۵ میں ہے مَن تَہاوَن بالقرآن خسر الدنیا والآخرة. جس نے قرآن کے ساتھ تحقیر کی وہ دنیاو آخرت میں برباد ہوگیا۔

اور کیوں نہ ہو کہ کلام الملوک ملوک الکلام شاہوں کا کلام کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے۔ پس کیا نہیں معلوم کہ شاہ کی یا اس کے کسی فرمان کی ادنی گستاخی و بے حرمتی گستاخ کو کیفرِ کردار تک پہنچادیتی ہے۔ اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ہر صاحبِ کلام کو اپنا کلام محبوب ہوتا ہے اور اس کی ناقدری مبغوض ہوتی ہے۔ قرآن پاک بھی اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے القرآن احب الی اللّٰہ مِن السموات والارض (مشکوٰة) قرآن اللہ تعالیٰ کو آسمان وزمین یعنی کائنات سے زیادہ محبوب ہے۔

کلام الٰہی کے اسمائے گرامی:

کسی چیز کو اگر مختلف ناموں سے پکارا اور مختلف لقبوں سے یاد کیا جاتا ہے تو یہ اس کی قدر ومنزلت اور عظمت و رفعت کا پتہ دیتا ہے اس لیے کہ ناموں کی کثرت مسمّیٰ کے پوشیدہ حقائق وکمالات کے اظہار کا آئینہ ہے کثرة الاسماء دالةٌ علی شرف المسمّٰی (اتقان ۱/۷۰ طبع دہلی) اس اعتبار سے دنیا کی کوئی کتاب بجز قرآن کے ایسی نہیں ہے جس کے لیے بہت نام تجویز کیے گئے ہوں، پس کہنا چاہیے کہ جس طرح معبود حقیقی کے صفات و کمالات کا اظہار اس کے ننانوے یا زائد ناموں سے کیا جاتا ہے اسی طرح اس کے کلام بلاغت نظام کو مختلف ناموں سے پہچاننا بیشک اس کے علوشان کا قرینہ ہے۔


شیخ ابوالمعالی عزیزی بن عبدالملک نے اپنی کتاب ”البرہان“ میں لکھا ہے اعلم ان اللّٰہ تعالٰی سمی القرآن بخمسة وخمسین اسما اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے پچپن نام رکھے ہیں اور بقول بعض اس سے بھی زائد۔ یہاں ان میں سے چند مخصوص ناموں کی کچھ وضاحت کی جاتی ہے تاکہ کلام اللہ کی عظمت و وقعت دلوں میں اجاگر ہو۔

(۱) ”الکتاب“ کلام الٰہی نے سب سے پہلے اپنا تعارف ”الکتاب“ کے نام سے کرایا ہے۔ الٓم ذلک الکتٰب لاریب فیہ، الٓم کتٰب اُحکِمت آیٰتُہ.

کتاب کے اصل معنی ”ضم“ (ملانا)اور ”جمع“ ہے۔ ویسے تو ہر کلام اپنے اندرمحدود معانی وحقائق کو شامل ہونے کی وجہ سے ”کتاب“ کہلاسکتا ہے،مگر لامحدود حقائق وعجائب علوم ومعارف،احکام واَمثال اور قصص و عِبَر وغیرہ کو علی وجہ الکمال جامع ہونے کی وجہ سے ”الکتاب“ کہے جانے کا مستحق حقیقت میں یہی کلام الٰہی ہے جس میں قطعاً شک کا شائبہ تک نہیں ہے۔ (مفردات للراغب ص۴۲۳، اتقان ۱/۶۷) نیز کتاب کے عرفی معنی ”نوشتہ“ (لکھا ہوا) ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پہلے ہی قدم پر لوگوں کے ذہنوں میں یہ جواب نقش کررہاہے کہ وہ توابتدائے نزول سے ہی مکتوب ونوشتہ شکل میں مخلوق کے پاس محفوظ رہنے والا ہے۔ اس لئے یہ کہہ کر ”قرآن عہد صدیقی کا مرتب کردہ ہے“ قرآن کے کسی جزء کو مشکوک ٹھہرانا باطل ہے۔ (تدوین قرآن ازافادات مولانا مناظراحسن گیلانی)

(۲)      ”القرآن“ اس کتاب کا سب سے مشہور نام ”قرآن“ ہے شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن، انا انزلناہ قرآناً عربیًا، ان علینا جمعہ و قرآنہ.

کلامِ الٰہی کا یہ نام جس کو خود اللہ تعالیٰ نے ساٹھ(۶۰) سے زائد مقام پر ذکر کیا ہے ایسا منفرد نام ہے جو ناخواندہ (اَن پڑھ) قوم کو قرأت(۶) (پڑھنے) سے مانوس کرنے اور علم وعدل سے وابستہ کرنے کیلئے کفار کے علی الرغم تجویز کیاگیا ہے جن کی کوشش یہ تھی کہ شوروغوغاء کرکے اس کلام کو پڑھے اور سنے جانے کے قابل نہ رکھیں۔(۷)

امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں ”نہ تو کسی شئی کے مجموعہ کو اور نہ ہی ہر کلام کے مجموعہ کو ”قرآن“ کہا جاتاہے بلکہ یہ صرف آخری پیغام خداوندی پر بولاجاتا ہے جو کتب سماویہ متقدمہ کے مضامین اور تمام علوم کے ثمرات کو جامع ہے“ (منفردات ص۴۰۲) مولانا رحمت اللہ لدھیانوی رحمة الله عليه لکھتے ہیں ”یہ کتاب زبور کی طرح مجموعہٴ مناجات بھی ہے اورانجیل کی طرح مجموعہٴ امثال بھی ہے توریت کی طرح گنجینہٴ شریعت بھی ہے اور کتب دانیال و یسعیاہ کی طرح خزینہٴ اخبار مستقبل بھی ہے۔ (مخزن اخلاق ص۴۵۷)

لفظ ”قرآن“ کے اشتقاق میں علماء کا نقطئہ نظر مختلف ہے۔ امام محمد بن ادریس الشافعی رحمة الله عليه تواسم جامد ہونے کے قائل ہیں اور مشتق ہونے کے اقوال میں سے دو ذکر کئے جاتے ہیں۔

۱- قرآن فُعْلان بالضم کے وزن پر مصدر بمعنی المفعول ہے جو ”قرء“ یا ”قرأت“ (مہموز اللام) سے ماخوذ ہے اس کے اصل لغوی معنی ”جمع الکلمات بعضہا الی بعض فی الترتیل“ یعنی ”پڑھنا“ ہے گویا قرآن کا نزول ہی پڑھنے کے لیے ہوا ہے چنانچہ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کلام مجید ہی ساری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے اور قیامت تک پڑھی جاتی رہے گی۔ کبھی کسی زمانہ میں بالکلیہ اس کی قرأت نہ متروک ہوسکتی ہے اور نہ ہی اہل اسلام اس کے پڑھنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔

۲- قرآن ”قَرْن“سے ماخوذ ہے جس کے معنی ملانا ہے یعنی فصاحت وبلاغت میں اس کے تمام کلمات مربوط اور سورتوں اور آیتوں کا تناسب و تناسق ایسا ہے کہ ہر آیت اعجاز میں اپنے ماقبل و مابعد سے مستقل ہونے کے باوجود پورا کلام معناً مقرون ومرتبط ہے۔ (مفردات ص۴۰۲، اتقان ص۶۸)

(۳) ”الفرقان“ قرآن پاک کا ایک امتیازی نام ”الفرقان“ ہے وانزل الفرقان، تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ.

فرق کے معنی دو چیزوں کے درمیان فصل کرنا خواہ وہ فصل آنکھوں سے دکھائی دے یا دل سے ادراک کیاجائے (مفردات ص۳۷۷) یعنی قرآن مجید بنی آدم کو ایسے احکام و تعلیمات سے آگاہ کرتا ہے کہ جن سے ایمان وکفر، حق وباطل اور مطیع و عاصی کے درمیان ایک حد فاصل پیدا ہوجاتا ہے اور اس سے حق یعنی اسلام کا پسندیدہ ومقبول ہونا اور غیراسلام کا باطل و مردود ہونا عیاں ہوجاتا ہے۔ لیحق الحق ویبطل الباطل اور اُس فرقان پر صحیح عمل کرنے والوں کو ایسی شان عطا کرتا ہے جس سے وہ دوسروں سے ممتاز ہوجاتے ہیں۔

(۴) ”برہان“ قرآن کا ایک اہم نام ”برہان“ ہے قد جاء کم برہان من ربکم ”برہان“ ایسی مستحکم دلیل کو کہتے ہیں جس میں قطعی اور ابدی سچائی نمایاں ہو (مفردات ص۴۵) یعنی یہ کلام الٰہی ماضی کے واقعات اور مستقبل کے اخبار واحوال کو حتمی صداقت وحقانیت کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ شکوک و اوہام کا پردہ چاک کرکے یقین تک پہنچادیتا ہے اور جواس کی سچائی میں رخنہ اندازی کرے اُن سے ان کے دعوی پر اسی طرح کی مضبوط ومستحکم دلیل کا مطالبہ کرتا ہے۔ قل ہاتوا برہانکم ان کنتم صٰدقین.

(۵) ”تنزیل“ قرآن شریف کا ایک بنیادی نام ”تنزیل“ ہے تنزیل من حکیم حمید، تنزیلٌ من ربِّ العٰلمین.

یعنی یہ کلام جو فرقان اور برہان ہے اس کا مبدأ ومصدر عرب کے کسی فصیح وبلیغ ادیب یا غیب کی جھوٹی خبر دینے والے کاہن و نجومی یا کسی بڑے مصلح اور ریفارمر کی ذات حتی کہ نبی کی ذات بھی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی بے عیب و بے نظیرہستی لیس کمثلہ شیء کی طرف سے نازل کیاگیا ہے جو سارے ہی کمالات کا سرچشمہ اور ساری قوتوں کا تنہا مالک ہے جہاں عجز و ضعف اور جہل کا ادنی واہمہ تک نہیں ہے اور جو تمام مخلوق کا یکتا حقیقی مربی ہے جس کے سامنے سرتسلیم خم کرنا انسان بلکہ ہر مخلوق کا فطری جذبہ اور اس کی دعوت ہے۔

(۶) ”الذکر“ قرآن کا ایک خصوصی نام ”الذکر“ ہے انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون، وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس، ان ہو الا ذکر للعٰلمین.

یعنی قرآن شریف دینی ودنیوی انعامات یاد دلاکر نافرمان قوموں کی عبرت خیز ہلاکت اور مومنین کی حیرت انگیز نجات کے سچے واقعات بیان کرتے ہوئے تمام انسانوں کے لیے عبرت پذیری اور نصیحت گیری کا سامان مہیا کرتا ہے۔ اور افلا یتذکرون، لعلکم تذکرون جیسے کلمات سے لوگوں کو خواب غفلت سے ہوشیار کرتاہے تاکہ موت اور مابعد الموت کی حقیقی دائمی زندگی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلیں۔

(۷) ”حبل اللّٰہ“ قرآن کا ایک وصفی نام ”حبل اللہ“ ہے واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعًا ولا تتفرقوا.

خدا کی زمین پر جو انسان (وجن) دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے خالق کی طاعت و بندگی سے بیزار ہیں اور کفر و معصیت کے گڑھے اور دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور قعرِ مذلت سے نکل کر منزل کی تلاش اور قرب الٰہی کے طلبگار ہیں ایسے تمام لوگوں کے لیے قرآن مجید اللہ کی اتاری ہوئی رسی ہے جو اسے مضبوطی سے تھام لے گا وہ کفر و عصیان کے گڑھے سے نجات پاکر بلند مقام پر پہنچ جائے گا۔ حبل اللّٰہ ہو القرآن (کنزل العمال ۱/۲۷۷)

(۸) ”النور“ قرآن کا ایک روشن وصف ”النور“ ہے وانزلنا الیکم نورا مبیناً، قد جاء کم من اللّٰہ نورٌ.

اللہ تعالیٰ نے انسان کو نور بصراور نور عقل دونوں نعمت سے نوازا ہے پس جب انسان نور عقل کے ذریعہ اللہ کی وحدانیت اور محمد رسول اللہ کی رسالت تسلیم کرکے قرآنی ہدایت کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے تو یہ قرآن اُسے نور معرفت عطا کرتاہے جس سے وہ موٴمن گناہوں کی ظلمت سے بچتے ہوئے ان ہذ القرآن یہدی للتی ہی اقوم قرآن کی روشنی میں جنت کا راستہ طے کرتا چلا جائیگا۔ یسعی نورہم بین ایدیہم وبایمانہم (مفردات ص۵۰۷، اتقان ۱/۶۸)

(۹) ”الشفاء“ قرآن کا ایک دل پذیر نام ”شفاء“ ہے قل ہو للذین آمنوا ہدیً وشفاء، وشفاء لما فی الصدور.

روئے زمین پر قرآن مجید ہی وہ نسخہٴ صحت ہے جس کی ہدایت پر کما حقہ عمل کرنا امراضِ قلبیہ (کفر، جہل، کبر، حسد، خیانت، بغض، وغیرہ) سے صحت وشفاء کا ضامن ہے ویشف صدور قوم موٴمنین بلکہ قرآن کے ظاہری الفاظ بھی انسان کی جسمانی بیماریوں کے لیے دوائے شیریں ہے حتی کہ اسی تاثیر کی وجہ سے ایک مستقل سورة کا نام بھی ”سورة الشفاء“ ہے۔ (اتقان ۱/۶۸)

مختلف سورتوں کے مختلف نام:

جس طرح مکمل قرآن پاک کے مختلف اسماء ہیں اسی طرح اس کی سورتوں کے بھی ایک سے زائد نام وارد ہوئے ہیں بلکہ بعض بعض آیتوں کے بھی مستقل نام حدیث سے ثابت ہیں،مثلاً سورئہ فاتحہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمة الله عليه لکھتے ہیں قد وقفت لہا علی نیف وعشرین اسما.

یہاں صرف نمونہ پیش کرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

(۱) فاتحة الکتاب (۲) ام القرآن (۳) السبع المثانی (۴) سورة الحمد (۵) سورة الصلاة (۶) سورة الشفاء (۷) سورة المناجاة (۸) سورة الادب وغیرہ۔

سورئہ بقرہ کو              سنام القرآن              فسطاط القرآن                           بھی کہا گیا ہے

سورئہ مائدہ کو            سورة العقود               سورة المنقذہ                              بھی کہتے ہیں

سورئہ انفال کو           سورة البدر                                                                بھی کہتے ہیں

سورئہ برأة کو            سورة التوبة               سورة الفاضحة            سورة العذاب بھی کہا گیا ہے

(تفصیل کے لیے اتقان کی مراجعت فرمائیں)

چند آیتوں کے نام:

آیة الکرسی، آیة المباہلہ، آیة الربا، آیة المیراث،آیة الحجاب، آیة التخییر، وغیرہا۔

نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جہاں سورتوں کے ایک سے زائدنام آئے ہیں اس کے برعکس چند سورتوں کے مشترک نام بھی آئے ہیں۔ کماسمیت السورة الواحدة باسماء سُمیت سُورٌ باسم واحد (اتقان۱/۷۴)

(۱)          زہراوین: سورہٴ بقرہ وآل عمران

(۲)         جامدات:  وہ سورتیں جن کے شروع میں ”الحمد“ ہے جیسے سورئہ فاتحہ، انعام، کہف، سبا، فاطر۔

(۳)         حوامیم:    وہ سورتیں جن کے شروع میں ”حم“ ہے جیسے سورہٴ موٴمن، حم سجدہ، شوریٰ، زخرف، دخان، جاثیہ، احقاف۔

(۴)         مُسَبِّحات: وہ سورتیں جن کے شروع میں تسبیح کا کوئی صیغہ سبّح یا یسبح وغیرہ ہے جیسے اسراء، حدید، حشر، جمعہ، تغابن، اعلیٰ۔

(۵)         معوّذتین:  سورئہ فلق، سورئہ ناس۔

بعض سورتوں کو ایسے بھی نام دئے گئے ہیں جن سے انکا مقام یا شان واضح کی گئی ہے مثلاً:

(۱)          ام القرآن                                سورئہ فاتحہ                (۲)         سنام القرآن                              سورة البقرہ

(۳)         نواجب القرآن         سورئہ انعام               (۴)         قلب القرآن                            سورة یس

(۵)         عروس القرآن          سورئہ رحمن              (۶)          دیباج القرآن           الحوامیم

(۷)         ریاض القرآن           المفصلات

(تفصیل کے لیے اتقان، برہان، اورفتح العزیز ملاحظہ فرمائیں)

جمع قرآن اور اس کی حفاظت:

حفاظت کلام کے دو بنیادی طریقے ہیں الضبط ضبطان (نخبة الفکر) ایک حفظ (ازبر) کرنا دوسرا کتابت یعنی کسی چیز پر نقش کرنا اِن دونوں میں بھی اصل واہم حفظ ہے ان المعوّل علیہ وقتئذ کان ہو الحفظ والاستظہار (مناہل العرفان ۱/۲۵۳) اس لیے کہ مکتوب علیہ (جس پر کلام لکھا گیا ہے) کے پھٹنے یا جلنے، ڈوبنے یا چھن جانے سے نوشتہ کے ضائع ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے جبکہ لوح قلب پر جو محفوظ ہوگیا وہ اِن تمام خدشات سے مامون ہوتا ہے اِلا یہ کہ تقدیر الٰہی کے ماتحت صفحہٴ دل سے محو کردیا جائے تو یہ امر آخر ہے۔

قادر مطلق نے اپنے کلام کی حفاظت کے لیے دونوں نظام چلائے ہیں چنانچہ سب سے پہلے عام کتب سماویہ کی طرح قرآن کو کتابی شکل میں نازل کرنے کے بجائے لوح محفوظ سے نبی كريم صلى الله عليه وسلم کے لوحِ قلب پر نازل کیا نزل بہ الروح الامین علی قلبک اور اس کی حفاظت کا وعدہ فرماکر دل سے محو ہوجانے کے اندیشہ کو زائل فرمایا انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون، ان علینا جمعہ وقرآنہ یعنی خدائے حافظ نے اپنے حبیب صلى الله عليه وسلم کو کلام کا حافظ بنادیا۔ اور ثانیاً ذلک الکتٰب کہہ کر کتابت کے ذریعہ محفوظ کرنے کا اشارہ فرمادیا۔

جمع نبوی:

صاحب وحی نبی اکرم صلى الله عليه وسلم پر وحی کا نزول ختم ہوتے ہی قرآن آپ کے سینہ میں محفوظ ہوجاتا تھا پھر سب سے پہلے تحریراً ضبط کرنے کے لیے کاتبانِ وحی میں سے کسی کو طلب فرماتے جیسے خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام اور عموماً حضرت زید بن ثابت رضى الله تعالى عنه حاضر خدمت ہوتے اور نازل شدہ حصہ کو کسی پائدار چیز پر لکھ کر محفوظ کرلیتے تھے۔ پھر یہ لکھا ہوا کلام صحابہ کے سامنے پیش کیا جاتا اور پڑھ کر سنایا جاتا تھا اس طرح پورا قرآن ”رقاع“ چمڑے کے ٹکڑوں ”اکتاف“ اونٹ کی گول چوڑی ہڈیوں ”اقتاب“ کجاوہ کی چوڑی پٹیوں ”لَخاف“ سطیٹ نما سفید پتھرکی پلیٹوں ”ادیم“ دباغت شدہ چمڑوں ”عسیب“ کھجور کے پتوں کی جڑ کا حصہ(۸) وغیرہ اشیاء میں محفوظ کرلیا جاتا تھا اور پھر صحابہٴ کرام حضور صلى الله عليه وسلم کے روبرو لکھے ہوئے حصہٴ قرآن کی نقل اتار لیا کرتے تھے کنّا نوٴلف القرآن عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (کنزالعمال) اور رسالتمآب صلى الله عليه وسلم سے سن کر حفظ کرلیتے تھے۔ غرض پورا کلام الٰہی صرف نبیٴ پاک ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے پاس بھی مذکورہ بالا دونوں طریقوں سے نزول کے ساتھ ساتھ محفوظ ہوتا چلاگیا۔ اور جب سلسلہٴ وحی بند ہوا تو اس وقت تک سوپچاس نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد کم و بیش حصہٴ قرآن کے حافظ وقاری صحابہ میں موجود تھے اور کچھ خوش نصیب ایسے بھی ہیں جنھیں فاتحہ الکتاب سے والناس تک مکمل قرآن حفظ تھا اسی طرح مکمل قرآن پاک کی نقلیں بھی محفوظ تھیں (مناہل العرفان ۱/۲۴۵)

پس مستشرقین کا یہ کہنا کہ ”قرآن صاحب وحی کی حیات میں محفوظ نہیں تھا“ یا ”صدیق اکبررضى الله تعالى عنه کے زمانہ ہی میں جمع کیاگیا“ بے بنیاد اعتراض ہے بلکہ دانستہ طور پر حقیقت کا انکار ہے۔

جمع صدیقی:

پھر اس کے بعد ایک طرف تو حفظِ قرآن کا سلسلہ چلتا رہا، مگر دوسری طرف چھوٹے بڑے معرکوں میں حافظِ قرآن صحابی بھی جام شہادت پی کر داغ مفارقت دیتے رہے یہاں تک کہ جنگ یمامہ میں جو حضور صلى الله عيله وسلم کی وفات سے قریب ہی مدت میں لڑی گئی ہے ستر یا سات سو حفاظِ صحابہ کی شہادت نے فاروق اعظم رضى الله تعالى عنه جیسے وزیر باتدبیر کی وزارت میں لرزہ پیدا کردیا اور امت مسلمہ مرحومہ کا بیڑا منجدھار میں نہ پھنس جائے مُلْہَم ومُوفَّق من اللّٰہ شخص جس کی زبان پر حق ہی جاری ہوتا ہے یعنی حضرت عمررضى الله تعالى عنه نے خلیفہ رسول صدیق اکبر سے عرض کیا کہ قرآن کو یکجا محفوظ کرلیا جائے کہ حضور صلى الله عليه وسلم سے براہ راست کلام اللہ کو سن کو حفظ کرنے والے اور آپ کے سامنے قرآن کو لکھ کر اس کی حفاظت کرنے والے ابھی بے شمار صحابہ موجود ہیں جو قرآن کے تواتر کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمررضى الله تعالى عنه کی فرمائش پر صدیق اکبر رضى الله تعالى عنه کے سینہ کو اِس عظیم خدمت کے لیے منشرح فرمادیا۔ اب شیخین نے مل کر حضرت زید بن ثابت رضى الله تعالى عنه کو اس خدمت کے لیے مستعد کیا، اللہ رب العزت نے ان کو بھی شرح صدر کی دولت سے سرفراز کیا۔ چنانچہ خلیفہ رسول کی نگرانی میں انتہائی تفتیش و تحقیق اور شرعی شہادت اور غایت درجہ احتیاط ملحوظ رکھتے ہوئے مذکورہ بالا اشیاء ”رقاع“ وغیرہ سے جس ترتیب سے حضور صلى الله عليه وسلم نے ضبط کرایا تھا اور جس کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی بعینہ اس کو دوسرے اوراق میں یکجا کردیاگیا اور گتے لگاکر دھاگوں سے باندھ دیاگیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ کارنامہ جو ان ہی کے لیے ازل سے مقدر تھا کہ اللہ تعالیٰ جس سے امت کی شیرازہ بندی کا کام لینے والا ہے اسی سے امت کے ہدایت نامہ کی شیرازہ بندی کرائیں کان القرآن فیہا منتشرًا فجمعہا جامع وربطہا بخیط (کنز العمال) تاکہ مجموعہٴ واحد کی حفاظت آسان ہو اور پورے قرآن کی تلاوت اور اس سے استفادہ سہل ہوجائے۔

اس طرح قرآن کا یکجا کرنا حضور صلى الله عليه وسلم کی وفات کے بعد ہی ممکن تھا اس لیے کہ آپ کے انتقال تک نسخ وغیرہ کا احتمال موجود تھا۔ انما لم یجعلہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی مصحف واحد لما کان یتوقع من زیادتہ ونسخ بعض المتلو ولم یزل ذلک التوقع الی وفات النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم. (التبیان ص۱۸۶، مناہل العرفان، تدوین قرآن لمناظر گیلانی رحمة الله عليه)

جمع فاروقی:

عرف عام میں ”جامعِ قرآن“ کا مہتم بالشان لقب حضرت عثمان غنی رضى الله تعالى عنه کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اِس لفظ ”جامعِ قرآن“ سے مراد عین قرآن کو جو منتشر تھا جمع کرنا ہے تو جامعِ قرآن حضرت ابوبکر صدیق رضى الله تعالى عنه ہیں جس کے محرک اور داعی فاروق اعظم ہیں اوراگر امت کو قرآن پر جمع کرنا مراد ہے جیساکہ حضرت عثمان رضى الله تعالى عنه کو غالباً اسی اعتبار سے ”جامعِ قرآن“ کہا جاتا ہے تو پھر پورے وثوق اور یقین سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ حضرت عمررضى الله تعالى عنه واقعتا ”جامعِ قرآن“ ہیں چنانچہ حکمت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اوّلاً نبیٴ امی صلى الله عليه وسلم نے نفس قرآن کو محفوظ فرمایا پھر صدیق اکبررضى الله تعالى عنه نے مصحف واحد میں یکجا فرمایا جس سے اصل قرآن کی حفاظت ہوگئی اب ضرورت تھی نزولِ قرآن کے اولین مقصد یعنی تلاوت پر امت کو کسی خاص ڈھنگ سے جمع کردیا جائے یہ کارنامہ حضرت عمررضى الله تعالى عنه کے لیے مقدر تھا۔ چنانچہ فاروق اعظم رضى الله تعالى عنه نے اپنی خلافت کے زمانہ میں حفاظت قرآن کا ایک عجیب نظام قائم کیا رہنمائی خود صاحب قرآن صلى الله عليه وسلم نے فرمادی تھی لیکن بعض مصالح کی بناء پر آپ صلى الله علیہ وسلم نے حتمی شکل وصورت متعین نہیں کی تھی اور خلیفة الرسول حضرت صدیق اکبر کو اپنی خلافت کی قلیل مدت میں امت کی شیرازہ بندی کی وجہ سے موقع میسر ہی نہیں آیا کہ اس طرح متوجہ ہوتے۔ بہرحال اب تک صحابہ کرام اور تابعین عظام انفرادی طور پر نماز میں قرآن پڑھا کرتے تھے بالخصوص رمضان شریف میں پڑھنے والوں کی کثرت ہوتی تھی۔ بالآخر حضرت عمررضى الله تعالى عنه نبوی ہدایت کی روشنی میں اجتماعی طریقہ سے حفظاً قرأت اور سماع پر سب لوگوں کو جمع کیا یعنی ماہ مبارک (افضل الشہور) میں شب کی نماز کی بیس رکعتوں میں جماعت کے ساتھ قرآن کے پڑھنے اور سننے کا سلسلہ جاری فرمایا جسے شریعت کی زبان میں تراویح کہتے ہیں۔ تمام صحابہ اور تابعین نے بلا نکیر اس انوکھے اورمستحکم طریقہ کو بہت پسند فرمایا اور عملاً اس پر متفق و متحد ہوگئے لہٰذا حضرت عمر بھی جامع للقرآن ہوئے یعنی جامع الامة علی قرأة القرآن فی التراویح اجماع صحابہ و تابعین نے حضرت عمررضى الله تعالى عنه کے اس طریق عمل کو قطعی بنادیا اور قیامت تک کے لیے (۲۰) بیس رکعت تراویح سنت موٴکدہ قرار پائی۔

پس حضرت صدیق اکبررضى الله تعالى عنه کا جمع قرآن اجماعی ہے اور حضرت عثمان رضى الله تعالى عنه کا رسم الخط بھی اجماعی ہے بالکل اسی طرح حضرت عمررضى الله تعالى عنه کا مسئلہ تراویح بھی اجماعی ہے اور ان میں سے کسی بھی اجماع کا انکار اہل السنة والجماعة سے انحراف اور ضلالت ہے۔

جمع عثمانی:

حفاظتِ قرآن کے سلسلہ میں اب ایک اہم کام باقی رہ جاتا ہے کہ ایک سے زائد طریقہٴ اداء سے قرآن پڑھنے کی جو اجازت دی گئی ہے جیساکہ حضرت اُبَی بن کعب کی حدیث میں ہے ان اللّٰہ یامرک ان تقرء امتُک القرآن علی سبعة احرف فایما حرف قرء وا علیہ فقد اصابوا (مسلم) وہ کہیں آگے چل کر حق وباطل کے اختلاف کا سبب نہ بن جائے اس طرح پر کہ مختلف قبائل کے لوگ جب اپنے اپنے طریق ادا کے مطابق رسم الخط میں قرآن کی نقل تیار کرنے لگیں گے اوراس کی وجہ سے ہر قبیلہ کا قرآن دوسرے قبیلہ کے قرآن سے رسم الخط میں جدا نظر آئے گا پھر ہر ایک اپنے طریق ادا ء کو حق بتانے کے لیے اپنا قرآن پیش کرے گا تو مستقبل میں فتنہٴ عظیم برپا ہوگا (اتقان، الفوز الکبیر، تاریخ طبری ۱/۶۵۱) اس لیے حکمت الٰہیہ کا تقاضہ ہوا کہ رسم الخط کے اعتبار سے الگ الگ مصحف کو ایک مصحف پر جمع کردیا جائے۔ عثمان جمع المصاحف علی مصحف واحد (مقنع للدانی ص۸) تاکہ امت اختلاف کا شکار نہ ہو اور رسم الخط کی وحدت پر مجتمع ہوجائے اور قرأتِ متواترہ جو منزل من اللہ ہے اور اس میں امت کے لیے سہولت بھی ہے وہ بھی سالم اور محفوظ رہے۔(۹)

مذکورہ تحریر سے معلوم ہوا کہ قرآن کا نزول جس طرح بتدریج ہوا ہے اسی طرح اس کی حفاظت میں بھی تدریجی حکمت پنہاں ہے بلکہ دونوں کی مدت بھی تقریباً یکساں ہے۔ الفاظ کے بعد معانی کا درجہ ہے جس کا دروازہ خلیفہ رابع حضرت علی ہیں انا مدینة العلم وعلی بابہا (جامع الصغیر ۳/۴۶) ماشاء اللہ کیا خوب ترتیب ہے۔ (جاری)

--------------

حواشی:

(۱)           نزل بہ الروح الامین علی قلبک پ :۱۹

(۲)           نزل فی نیف و عشرین سنة فی احکام مختلفة لاسباب مختلفة (اتقان۲/۱۳۸)

انزل الملِک علی الاطلاق جلّ شانہ علی نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لہدایة عبادہ سورة بعد سورة حسب متطلّبات الظروف (الفوز الکبیر ص۸۷)

(۳)          القرآن ہو الوحی المنزل علی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم للبیان والاعجاز (اتقان۲/۱۳۸)

(۴)          انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون (قرآن)

ہو المنزل علی الرسول المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ الینا نقلا متواتراً بلاشبہة (نورالانوار، تعریفات للجرجانی ص۷۵)

(۵)          فتح الباری ص۹             

(۶)           اشارة الی اشتقاقہ من القرأة او القرن.

(۷)          لاتسمعوا لہٰذا القرآن والغوا فیہ پ ۲۶

(۸)          عرب میں کھجور کے پتوں کی جڑ ہمارے یہاں کے ناریل کے پتوں کی جڑ کی طرح چوڑی ہوتی تھی نہ کہ ہندوستانی کھجور کے پتوں کی جڑ (از تدوین قرآن مولانا مناظراحسن گیلانی)

(۹)           جمع عثمانی کا مزید بیان رسم عثمانی کے ذیل میں آ ئے گا، ان شاء اللہ۔



Tuesday 15 June 2021

مبارکباد کس طرح دیں؟

مبارکباد کس طرح دیں؟

----------------------------------

بقلم: مفتی شکیل منصور القاسمی

----------------------------------

 ’’اضافہ، زیادتی، کثرت، سعادت و خوش بختی“ کو عربی میں "بَرَکَة" کہتے ہیں۔

بارَكَ 'مفاعلة' سے ہے، اُسی سے "مُبارَكٌ" مفعول کا صیغہ ہے، جبکہ تبریک (تفعیل سے) مبارکباد دینے کو کہتے ہیں۔

مواقعِ خوشی ومسرت پہ کسی کو زیادتی کی دعاء دینے کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مبارکباد دینے کے لئے "بارَكَ الله فيك" "بارَكَ الله لَك" ، "بارَك اللهُ علَيك" تینوں تعبیرات احادیث میں استعمال ہوئی ہیں۔

جس شخص کو برکت وزیادتی کی دعا دی جائے، اصلاً اس کے لئے "مبارَكٌ فيه /مبارَكٌ فیك" استعمال ہونا چاہئے؛ لیکن سہولت کے پیش نظر ائمہ لغت اس کو بلاصلہ "فی" صرف "مبارک" استعمال کرنے کی بھی گنجائش دیتے ہیں۔

قرآن کریم میں درج ذیل بیس سے زائد مقامات پہ لفظ "مبارک" مختلف صیغوں کے ساتھ  استعمال ہوا ہے:

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ ﴿٩٦ آل عمران﴾

وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ ﴿٣١ مريم﴾

وَقُلْ رَبِّ أَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبَارَكًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ ﴿٢٩ المؤمنون﴾

وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ ﴿٩ ق﴾

وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ ﴿٩٢ الأنعام﴾

وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿١٥٥ الأنعام﴾

أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٥٤ الأعراف﴾

لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ﴿٩٦ الأعراف﴾

وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ﴿١٣٧ الأعراف﴾

اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَكَ ﴿٤٨ هود﴾

رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ﴿٧٣ هود﴾

إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ﴿١ الإسراء﴾

وَهَٰذَا ذِكْرٌ مُبَارَكٌ أَنْزَلْنَاهُ أَفَأَنْتُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ﴿٥٠ الأنبياء﴾

وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ ﴿٧١ الأنبياء﴾

تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ﴿٨١ الأنبياء﴾

ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ﴿١٤ المؤمنون﴾

كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ ﴿٣٥ النور﴾

فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ﴿٦١ النور﴾

تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا ﴿١ الفرقان﴾

تَبَارَكَ الَّذِي إِنْ شَاءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِنْ ذَٰلِكَ ﴿١٠ الفرقان﴾

تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا ﴿٦١ الفرقان﴾

فَلَمَّا جَاءَهَا نُودِيَ أَنْ بُورِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا ﴿٨ النمل﴾

فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْأَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ ﴿٣٠ القصص﴾

وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً ﴿١٨ سبإ﴾

وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَىٰ إِسْحَاقَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِنَفْسِهِ مُبِينٌ (١١٣ الصافات)

شادی کی تہنیت پیش کرنے میں افصح العرب والعجم رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کا معمول مبارک اس لفظ کے  استعمال فرمانے کا یہ رہا ہے:

كانَ إذا رَفَّأ الإنسانَ إذا تزوَّجَ قالَ: باركَ اللهُ لكَ و باركَ عليكَ، و جمعَ بينَكُما في خيرٍ۔ (أخرجه أبوداود 2130)، والترمذي 1091)، وأحمد 8957) واللفظ لهم، وابن ماجه 1905) باختلاف يسير) 

کھانے سے فراغت کے بعد دسترخوان اٹھاتے ہوئے بھی معمول نبوی یہی پڑھنے کا تھا:

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ: "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَفَعَ مَائِدَتَهُ قَالَ: (الحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، غَيْرَمَكْفِيٍّ، وَلاَ مُوَدَّعٍ، وَلاَ مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا۔ (البخاري 5458) 

"بارك الله فيك" کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنے لوگوں کو مختلف چیزوں میں زیادتی کی دعاء مرحمت فرمائی ہے کہ حد و حساب سے باہر ہے، ہم نے طوالت کے خوف سے ان مثالوں کا احصاء نہیں کیا ہے۔ ذخیرہ احادیث میں اس کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ قرآن و حدیث کی  اس ماثور دعاء خیر وزیادتی کے مقابلے ان دنوں "مبروک" کے استعمال کی بڑی ارزانی و فراوانی ہے، کیا عوام  کیا خواص! ہر کوئی اس کا بے دریغ استعمال کررہا ہے۔

لفظ "مبروك" کے معنی، کثرت ،برکت وزیادتی،  دنیا کی کسی لغت میں نہیں ہے، یہ لفظ "بروك الإبل" باب نصر سے صیغہ مفعول بمعنی "اونٹ بٹھائے ہوئے شخص"  کے ہیں، اگر ہم کسی کے لئے لفظ "مبروک" استعمال کررہے ہیں تو اوپر کی لغوی حقیقت و وضاحت کے تناظر میں خود اس کے معنی کا استحضار وتعین کرلیجئے! آج کل عرف عام میں اس لفظ مبروک کا مدلول بمعنی اونٹ بٹھائے ہوئے شخص کا اگرچہ نہیں ہے، جو بھی اسے استعمال کرتا ہے دعا ہی کے معنی مراد لیتا ہے، عرف واستعمال خود ایک حقیقت ہے، اس دلالت واستعمال عرفی کی وجہ سے گو کہ مبروک کے استعمال کی شرعاً گنجائش نکل جاتی ہے اور بایں وجہ علمائے محققین اسے ناجائز تو نہیں کہتے؛ لیکن یہ تو سب جانتے ہیں کہ زبان رسالت مآب سے نکلے الفاظ کی نورانیت وآثار قبولیت ہی کچھ اور ہیں۔ عوام تو بیچارے سادہ لوح ہیں، ان سے کیا گلہ ہو؟ کم از کم حلقہ علماء تہنیتی مواقع پہ 'بارك الله لك' ، 'بارك الله عليك'، 'بارك الله فيك' یا اختصار میں "مبارک" کہنے کو رواج دیں، میں صاف کہتا ہوں کہ تہنیت کے باب میں مذکورہ تعبیرات کا استعمال توقیفی ہرگز نہیں؛ کہ ان کی پیروی شرعاً لازم ہو؛ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جو دعائیہ الفاظ وکلمات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جاری ہوئے ہیں ان میں آثار قبولیت آج کے در آمد کردہ وایمپورٹڈ کلمات کے مقابلے ہزاروں گنا زیادہ ہیں!! خواص اور پڑھا لکھا طبقہ اگر اپنی تحریروں میں اس کی ترویج کی فکر نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جس لفظ کو اپنی زبان مبارک سے استعمال فرمارہے ہیں وہ آج کل کے "اہل لسان" کے استعمالِ عامی کے مقابل بدرجہا زیادہ قابل اعتناء ولائق استدلال واحتجاج نہیں؟ ہمیں ادھر ادھر تاک جھانک کی کیا ضرورت ہے؟ 

 شكيل منصور القاسمي

سیّدپور/ بیگوسرائے (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2021/06/blog-post_15.html



Saturday 12 June 2021

سنن وآداب: Sunan O Aadab

سنن وآداب: Sunan O Aadab

---------------------------

غسل کے سنن وآداب

۱) غسل خانہ میں پہلے بایاں پیر داخل کرنا،

۲) جہاں تک ہوسکے ستر کو چھپانا،

۳) پردہ کے ساتھ غسل کرنا،

۴) شروع میں اپنے ہاتھوں کو گٹوں تک دھونا،

۵) شرمگاہ کو دھونا،

۶) بدن پر کوئی ظاہری گندگی ہو تو پہلے اسے صاف کرلینا،

۷) غسل سے پہلے سنت کے مطابق وضو کرنا،

۸) قبلہ رخ ہوکر غسل نہ کرنا،

۹) اگر غسل کی جگہ پانی جمع ہورہا ہو، تو پیر بعد میں دھونا،

۱۰) زیادہ پانی استعمال نہ کرنا،

۱۱) سر کو جسم کے باقی حصوں سے پہلے دھونا،

۱۲) سر کے بعد پہلے داہنی طرف پھر بائیں طرف پانی ڈالنا،

۱۳) پورے بدن پر تین مرتبہ پانی ڈالنا،

۱۴) غسل کے درمیان دعا وغیرہ نہ پڑھنا،

۱۵) غسل کرتے وقت بات چیت نہ کرنا،

۱۶) غسل کے وقت سلام نہ کرنا،

۱۷) غسل خانہ میں پیشاب نہ کرنا،

۱۸) غسل خانے سے پہلے سیدھا پیر باہر نکالنا،

سنن وآداب ص: ۷

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

------

Ghusal Ki Sunnaten Or Aadab

1) Ghusal Khane Me Pehle Ulta Per Dakhil Karen,

2) Jahan Tak Ho Sake Satar Ko Chupaen,

3) Parde Ke Saath Gusal Karen,

4) Shuru Me Apne Haathon Ko Gatton Tak Dhona,

5) Sharamgag Ko Dhona,

6) Badan Par Koi Zahiri Gandgi Ho To Pehle Use Saaf Kar Lena,

7) Gusal Se Pehle Sunnat Ke Mutabiq Wuzu Karna,

8) Qibla Rukh Ho Kar Gusal Na Karna,

9) Agar Gusal Ki Jagah Pani Jama Ho Raha Ho,To Per Bad Me Dhona,

10) Ziyada Pani Istemal Na Karna,

11) Sir Ko Jism Ke Baqi Hisson Se Pehle Dhona,

12) Sir Ke Bad Pehle Daen Taraf Phir Baen Taraf Pani Dalna,

13) Poore Badan Par Teen Martaba Pani Daalna,

14) Ghusal Ke Darmiyan Dua Wagera Na Padhna,

15) Ghusal Karte Waqt Baat Cheet Na Karna,

16) Ghusal Ke Waqt Salam Na Karna,

17) Ghusal Khane Me Paishab Na Karna,

18) Ghusal Khane Se Pehle Sidha Per Bahar Nikalna.

سنن و آداب ص:۷

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

--------------------------------

وضو کے سنن وآداب

۱) اللہ کی ہیبت اور دبدبہ کا استحضار پیدا کرنا،

۲) حتی الامکان باوضو رہنے کا اہتمام کرنا،

۳) پانی میں فضول خرچی نہ کرنا،

۴) قبلہ رخ ہوکر وضو کرنا،

۵) وضو کے وقت نیت کرنا،

۶) صاف ستھری جگہ پر وضو کرنا،

۷) وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا،

۸) داہنی طرف سے شروع کرنا،

۹) ترتیب سے وضو کرنا،

۱۰) پے در پے وضو کرنا،

۱۱) وضو کے اعضاء کو مل مل کر دھونا،

۱۲) اچھی طرح وضو کرنا،

۱۳) وضو سے پہلے ۳ مرتبہ ہتھیلیوں کو دھونا،

۱۴) وضو کرتے وقت دنیاوی باتیں نہ کرنا،

۱۵) وضو کرتے ہوۓ اللهم اغفر لي ذنبي، ووسع لي في داري، وبارك لي في رزقي

پڑھنا،

۱۶) مسواک کرنا،

۱۷) تین مرتبہ کلی کرنا،

۱۸) تین مرتبہ ناک میں پانی چڑھانا،

۱۹) منھ اور ناک میں دائیں ہاتھ سے پانی ڈالنا اور پھر بائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنا،

۲۰) غیر روزے دار کا منھ اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنا،

۲۱) چہرہ اور ہاتھ دھوتے وقت چلو سے پانی لینا،

۲۲) چہرہ دھوتے وقت پیشانی سے شروع کرنا،

۲۳) چہرہ پر پانی زور سے نہ مارنا،

۲۴) آنکھ کے حلقوں پر ہاتھ پھیرنا،

۲۵) ڈاڑھی کا خلال کرنا،

۲۶) ہاتھ اور پیر کی انگلیوں کے سروں سے دھونے کی شروعات کرنا،

۲۷) کہنیوں اور ایڑیوں پر اہتمام سے پانی بہانا،

۲۸) انگلیوں کا خلال کرنا،

۲۹) پیروں کی انگلیوں کا خلال الٹے ہاتھ کی چنگلی سے کرنا،

۳۰) اعضاۓ وضو کو تین مرتبہ دھونا،

۳۱) اعضاۓ کو تین مرتبہ سے زیادہ نہ دھونا،

۳۲) پورے سر کا مسح کرنا،

۳۳) مسح کی ابتداء پیشانی سے کرنا،اور دونوں ہاتھوں سے مسح کرنا،

۳۴) کانوں کے اندر اور باہر سے مسح کرنا،

۳۵) کان کے سراخ کا انگلیوں سے خلال کرنا،

۳۶) استنجاء کی جگہ پر لگے ہوۓ کپڑے پر پانی چھڑکنا،

۳۷) اگر لوٹے یا برتن سے وضو کررہے ہوں تو وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پینا،

۳۸) وضو کے بعد دعا پڑھنا،

۳۹) وضو کے بعد تولیہ کا استعمال کرنا،

۴۰) وضو کے بعد نماز پڑھنے تک پرسکون رہنا،

۴۱) وضو کے بعد تحیۃ الوضو پڑھنا۔

نوٹ: یہ سب چیزیں سنت کے مطابق وضو کرنے میں آجاتی ہیں،لہذا لمبا میسج دیکھ کر پریشان نہ ہوں۔

سنن وآداب ص: ۲۳

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

--------

Wuzu Ke Sunan O Aadab

1) Allah Ki Haibat Or Dabdabe Ka Istehzar Paida Karna,

2) Bawuzu Rehne Ka Ahtimam Karna,

3) Pani Me Fuzool Kharchi Na Karna,

4) Qibla Rukh Ho Kar Wuzu Karna,

5) Wuzu Ke Waqt Niyat Karna,

6) Saaf Suthri Jagah Par Wuzu Karna,

7) Wuzu Ke Shuru Me Bismillah Padhna,

8) Sidhi Taraf Se Shuru Karna,

9) Tarteeb Se Wuzu Karna,

10) Lagatar Wuzu Karna,

11) Wuzu Ke Hisson Ko Mal Mal Kar Dhona,

12) Acchi Tarah Wuzu Karna,

13) Wuzu Se Pehle 3 Martaba Hatheliyon Ko Dhona,

14) Wuzu Karte Waqt Duniyawi Baaten Na Karna,

15) Wuzu Karte Hue 

اللهم اغفر لي ذنبي، ووسع لي في داري، وبارك لي في رزقي 

Padhna,

16) Miswak Karna,

17) Teen Martaba Kulli Karna,

18) Teen Martaba Naal Me Pani Chadhana,

19) Muh Or Naak Me Sidhe Haath Se Pani Daalna Or Phir Ulte Haath Se Naak Saaf Karna,

20) Ghair Rozedar Ka Muh Or Naak Me Pani Daalne Me Mubalga Karna,

21) Chehra Or Haath Dhote Waqt Chullu Se Pani Lena,

22) Chehra Dhote Waqt Peshani Se Shuru Karna,

23) Chehre Par Pani Zor Se Na Marna,

24) Aankh Ke Halqon Par Haath Pherna,

25) Dadhi Ka Khilal Karna,

26) Haath Or Per Ki Ungliyon Ke Siron Se Dhone Ki Shuruat Karna,

27) Kohniyon Or Aidiyon Par Ahtimam Se Pani Bahana,

28) Ungliyon Ka Khilal Karna,

29) Peron Ki Ungliyon Ka Khilal Ulte Haath Ki Chungli Se Karna,

30) Wuzu Ke Aaza Ko 3 Martaba Dhona,

31) Wuzu Ke Aaza Ko 3 Martaba Se Ziyadah Na Dhona,

32) Poore Sir Ka Masah Karna,

33) Masah Ki Ibtida Peshani Se Karna,Or Dono Haathon Se Masah Karna,

34) Kaanon Ke Andar Or Bahar Se Masah Karna,

35) Kaan Ke Surakh Ka Ungliyon Se Khilal Karna,

36) Istinja Ki Jagah Par Lage Hue Kapde Par Pani Chidakna,

37) Agar Laute Ya Bartan Se Wuzu Kar Rahe Ho,To Wuzu Ka Bacha Hua Pani Khade Hokar Peena,

38) Wuzu Ke Bad Dua Padhna,

39) Wuzu Ke Bad Tauliye Ka Istemal Karna,

40) Wuzu Ke Bad Namaz Padhne Tak Sukoon Se Rehna,

41) Wuzu Ke Bad Tahiyyatul Wuzu Padhna.

Note: Ye Sab Cheezen Sunnat Ke Mutabiq Wuzu Karne Me Aajati Hai,Lihaza Lamba Msg Dekh Kar Pareshan Na Hon

سنن وآداب ص: ۲۳

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

-------------------------------

قضاۓ حاجت کے سنن و آداب

۱) اگر قریب میں پردے کے ساتھ استنجاء کا نظم نہ ہو، اور کھلی جگہ میں استنجاء کی نوبت پیش آۓ، تو کہیں دور جاکر پیشاب کرنا،

۲) کسی جگہ چھپ کر قضاۓ حاجت کرنا،

۳) مناسب جگہ میں قضاۓ حاجت کرنا،

۴) سخت زمین پر پیشاب کرنے کی نوبت آۓ تو کھود کر نرم کرلینا،

۵) جن جگہوں پر شریعت نے قضاۓ حاجت سے منع کیا ہے، مثلا راستوں میں، سایہ کی جگہ میں درخت کے نیچے، مسجد کے در و دیوار پر، کیڑے مکوڑے کے سوراخ میں ان جگہوں پر قضاۓ حاجت نہ کرنا،

۶) غسل خانہ میں پیشاب نہ کرنا،

۷) وضو کی جگہ پر پیشاب نہ کرنا،

۸) دینی تحریرات کو لیکر بیت الخلاء میں نہ جانا،

۹) بیت الخلاء میں سر ڈھانپ کر جانا،

۱۰) جوتے چپل پہننا،

۱۱) بائیں پیر سے داخل ہونا،

۱۲) بیت الخلاء میں داخل ہونے سے پہلے دعا پڑھنا،

۱۳) قضاۓ حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منھ اور پیٹھ نہ کرنا، ﴿اپنے بیت الخلاء اسی حساب سے بنائیں جس میں نہ قبلہ کی طرف منھ ہو نہ پیٹھ﴾

۱۴) کھڑے ہوکر پیشاب نہ کرنا،

۱۵) بہ وقت ضرورت بہ قدر ضرورت ستر کھولنا،

۱۶) بائیں پیر پر زور دیکر بیٹھنا،

۱۷) دونوں رانوں کو خوب کشادہ کرکے بیٹھنا،

۱۸) پیشاب پاخانہ کی طرف نہ دیکھنا،

۱۹) بلاضرورت بیٹھے نہ رہنا،

۲۰) بیت الخلاء میں زبان سے اللہ کا ذکر نہ کرنا،

۲۱) کسی سے بات چیت نہ کرنا،

۲۲) اگر چھینک آۓ تو صرف دل میں الحمدللہ کہنا،

۲۳) سیدھے ہاتھ سے شرمگاہ کو نہ چھونا،

۲۴) سیدھے ہاتھ سے استنجاء نہ کرنا،

۲۵) استبراء کرنا ﴿یعنی پیشاب کے قطرے نکلنے سے اطمینان حاصل کرلینا﴾

۲۶) ڈھیلے اور پانی دونوں کا استعمال کرنا،

۲۷) ڈھیلوں سے استنجاء کرنے کی صورت طاق عدد کا استعمال کرنا،

۲۸) ممنوع چیزیں یعنی ہڈی، لید وغیرہ سے استنجاء نہ کرنا،

۲۹) بیت الخلاء سے پہلے سیدھا پیر باہر نکالنا،

۳۰) بیت الخلاء سے باہر نکل کر دعاء پڑھنا،

۳۱) قضاۓ حاجت کو اللہ کا انعام اور نعمت سمجھنا،

۳۲) قضاۓ حاجت کے بعد مزید صفائی ستھرائی کیلئے صابن یا مٹی سے ہاتھ دھونا۔

سنن وآداب ص: ۶

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

-------

Qazae Hajat Ke Sunan O Aadab

1) Agar Qareeb Me Parde Ke Saath Istinja Ka Nazam Na Ho,Or Khuli Jagah Me Istinja Ki Naubat Paish Aae,To Kahin Door Jakar Paishab Karna,

2) Kisi Jagah Chup Kar Qaza E Hajat Karna,

3) Munasib Jagah Me Qazae Hajat Karna,

4) Sakht Zameen Par Paishab Karne Ki Naubat Aae,To Khod Kar Narm Kar Lena,

5) Jin Jagahon Par Shareeat Ne Qaza E Hajat Se Mana Kiya Hai,Maslan Raston Me Saye Ki Jagah Me Darakht Ke Niche ,Masjid Ke Dar O Deewar Par Keede Makode Ke Soorakh Me Un Jagahon Par Qaza E Hajat Na Karna,

6) Ghusal Khane Me Paishab Na Karna,

7) Wuzu Ki Jagah Par Paishab Karna,

8) Deeni Tahreerat Ko Lekar Toilet Na Jana,

9) Toilet Me Sir Dhak Kar Jana,

10) Joote Chappal Pehenna,

11) Ulte Per Se Dakhil Hona,

12) Toilet Me Dakhil Hone Se Pehle Dua Padhna,

13) Qaza E Hajat Ke Waqt Qible Ki Taraf Muh Or Peeth Na Karna, (Apne Toilet Isi Hisab Se Banaen Jisme Na Qible Ki Taraf Muh Ho Na Peeth﴿

14) Khade Hokar Paishab Na Karna,

15) Zaroorat Ke Waqt Or Zaroorat Ke Baqadr Satar Kholna,

16) Ulte Per Par Zor Dekar Bethna,

17) Dono Raanon Ko Khoob Kushada Karke Bethna,

18) Paishab Or Pakhane Ki Taraf Na Dekhna,

19) Bager Zaroorat Ke Toilet Me Na Bethna,

20) Toilet Me Zaban Se Allah Ka Zikr Na Karna,

21) Kisi Se Baat Cheet Na Karna,

22) Agar Chheenk Aae To Sirf Dil Me Alhamdulillah Kehna,

23) Sidhe Haath Se Sharamgah Ko Na Choona,

24) Sidhe Haath Se Istinja Na Karna,

25) Istibra Karna ﴾Yani Paishab Ke Qatre Nikalne Se Itmeenan Hasil Kar Lena﴿,

26) Dhele Or Pani Dono Ka Istemal Karna,

27) Dhelon Se Istinja Karne Ki Soorat Me Odd Adad Ka Istemal Karna,

28) Haddi Leed Wagera Se Istinja Na Karna,

29) Toilet Se Pehle Sidha Per Bahar Nikalna,

30) Toilet Se Bahar Nikal Kar Dua Padhna,

31) Qaza E Hajat Ko Allah Ka Inam Or Naimat Samajhna,

32) Qaza E Hajat Ke Bad Mazeed Safai Suthrai Ke Liye Sabun Ya Mitti Se Haath Dhona.

سنن وآداب ص: ۶

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

--------------------------------

کپڑوں کے سنن و آداب

۱) پاک و صاف لباس پہننا،

۲) لباس کو اللہ کی نعمت سمجھنا،

۳) سفید کپڑے پہننا،

۴) نیا کپڑا جمعہ کے دن پہننا،

۵) غیرمسلموں کا لباس نہ پہننا،

۶) متکبروں جیسا لباس نہ پہننا،

۷) کپڑے پہننے میں مردوں کا عورتوں کی اور عورتوں کا مردوں کی مشابہت اختیار نہ کرنا،

۸) کپڑے پہننے میں سیدھی طرف سے شروع کرنا،

۹) نیا کپڑا پہنتے وقت نۓ کپڑے پہننے کی دعا پڑھنا، ﴿اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ کَسَوْتَنِیْہ ِاَسْاَلُکَ خَیْرَہٗ وَخَیْرَ مَا صُنِعَ لَہٗ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہٖ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہٗ﴾

۱۰) عام کپڑے پہنتے وقت اس دعا کا پڑھنا، ﴿الحمد للہ الذی کسانی ھذا ورزقنیہ من غیر حول منی ولاقوة﴾

۱۱) گریبان میں بٹن لگانا،

۱۲) لنگی کا اگلا حصہ پچھلے حصہ کے مقبال نیچا رکھنا،

۱۳) کپڑے اتارنے میں بائیں طرف سے شروع کرنا،

۱۴) لباس اتارتے وقت بسم اللہ الذی لااله الاهو پڑھنا،

۱۵) کسی کو صاف اور دھلے ہوۓ کپڑے پہنے دیکھے تو اس کو یہ دعا دینا،

البس جديدا، وعش حميدا، ومت شهيدا

سنن و آداب ص:۸

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

-------------------------------------

Kapron Ke Sunan O Aadab

1) Paak O Saaf Libas Pehenna,

2) Libas Ko Allah Ki Naimat Samajhna,

3) Safed Kapra Pehenna,

4) Naya Kapra Jume Ke Din Pehenna,

5) Non Muslims Ka Libas Na Pehenna,

6) Mutakabbiron Jesa Libas Na Pehenna,

7) Kapre Pehenne Me Mardon Ka Aurton Ki Or Aurton Ka Mardon Ki Mushabihat Ikhtiyar Na Karna,

8) Kapre Pehenne Me Sidhi Taraf Se Shuru Karna,

9) Naya Kapra Pehente Waqt Ye Dua Padhna,

﴿اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ کَسَوْتَنِیْہ ِاَسْاَلُکَ خَیْرَہٗ وَخَیْرَ مَا صُنِعَ لَہٗ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہٖ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہٗ﴾

10) Aam Libas Pehente Waqt Is Dua Ka Padhna,

﴿الحمد للہ الذی کسانی ھذا ورزقنیہ من غیر حول منی ولاقوة﴾

11) Gireban Me Button Lagana,

12) Lungi Ka Agla Hissa Pichle Hisse Ke Muqabil Nicha Rakhna,

13) Kapre Utarne Me Baen Janib Se Shuru Karna,

14) Libas Utarte Waqt

بسم اللہ الذی لا اله الا هو

Padhna,

15) Kisi Ko Saaf Or Dhule Hue Kapre Pehne Dekhe To Uske Ye Dua Dena,

البس جديدا، وعش حميدا، ومت شهيدا

سنن و آداب ص: ۸

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

---------------------------

عطر لگانے کے سنن و آداب

۱) خوشبو کی دھونی لینا،

۲) ممکن ہو تو مشک اور عنبر استعمال کرنا،

۳) مردوں کو مردانہ اور عورتوں کو زنانہ خوشبو لگانا،

۴) سر اور داڑھی میں خوشبو لگانا،

۵) بیوی کا اپنے شوہر کو خوشبو لگانا،

۶) ہتھیلی میں عطر لیکر اسے ہتھیلی میں رگڑنا اور پھر داڑھی اور کپڑوں وغیرہ پر لگانا۔

سنن وآداب ص: ۱۰

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

-------------------

Itr Lagane Ke Sunan O Aadab

1) Khushboo Ki Dhooni Lena,

2) Mumkin Ho To Mushk Or Ambar Istemal Karna,

3) Mardon Ko Mardana Or Aurton Ko Znana Khushboo Lagana,

4) Sir Or Dadhi Me Khushboo Lagana,

5) Biwi Ka Apne Shohar Ko Khushboo Lagana,

6) Hatheli Me Itr Lekar Use Hatheli Par Ragadna Or Phir Dadhi Or Kapron Waghera Par Lagana.

سنن و آداب ص:۱۰

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

-----------------------------

چپل/جوتے پہننے کے سنن و آداب

۱) سنت کی نیت سے چپل پہننا،

۲) جوتے پہننے کی جگہ پر ننگے پیر نہ چلنا،

۳) جوتوں کو صاف رکھنا،

۴) ایک سے جوتے پہننا،

۵) جوتوں میں زیادہ غلو سے کام نہ لینا،

۶) جوتے پہننے میں مشرکین متکبرین اور آوارہ لوگوں کی مشابہت اختیار نہ کرنا،

۷) مردوں کا زنانہ جوتے اور عورتوں کا مردانہ جوتے نہ پہننا،

۸) ایسے جوتے جن پر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہو ان کا نہ پہننا،

۹) دونوں جوتوں کو پہن کر چلنا،

۱۰) جوتے بائیں ہاتھ سے اٹھانا،

۱۱) پہننے سے پہلے جوتوں کو جھاڑ لینا،

۱۲) اگر کھڑے ہوکر پہننے میں گرنے کا اندیشہ ہو یا دقت ہو تو بیٹھ کر جوتے پہننا،

۱۳) جوتے پہننے میں سیدھے پیر سے اور اتارنے میں بائیں پیر سے ابتداء کرنا۔

سنن وآداب ص: ۱۵

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

-----------------------

Joote Chappal Pehenne Ke Aadab

1) Sunnat Ki Niyat Se Chappal Pehenna,

2) Joote Pehenne Ki Jagah Par Nange Per Na Chalna,

3) Jooton Ko Saaf Rakhna,

4) Ek Se Joote Pehenna,

5) Jooton Me Fuzool Kharchi Na Karna,

6) Joote Pehenne Me Mushrikeen Mutakabbireen Or Aawarah Logon Ki Mushabihat Ikhtiyar Na Karna,

7) Mardom Ka Aurton Ke Joote Or Aurton Ka Mardana Joote Na Pehenna,

8) Ese Joote Jin Par Allah Or Aap ﷺ Ka Naam Ho Unka Na Pehenna,

9) Dono Jooton Ko Pehen Kar Chalna,

10) Joote Ulte Haat Se Uthana,

11) Pehenne Se Pehle Jooton Ko Jhad Lena,

12) Agar Khade Hokar Pehenne Me Girne Ka Andesha Ho Ya Koi Diqqat Ho To Beth Kar Joote Pehenna,

13) Joote Pehenne Me Sidhe Per Se Or Utarne Me Ulte Per Se Shuru Karna.

سنن وآداب ص: ۱۵

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

-------------------------

تیل لگانے کے سنن و آداب

۱) بالوں میں اتباع سنت کی نیت سے تیل لگانا،

۲) تیل لگانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا،

۳) بائیں ہاتھ میں تیل رکھ کر پہلے دونوں بھووں پر پھر پلکوں پر پھر مونچھ اور داڑھی پر پھر سر پر لگانا،

۴) سر میں تیل لگاتے وقت پیشانی کی طرف سے شروع کرنا۔

۵) داڑھی میں تیل لگاتے وقت داڑھی کے اس حصہ سے شروع کرنا جو گردن سے ملا ہوا ہے۔

سنن وآداب ص:۱۲

اسوہ رسول اکرم ص:۱۰۲

----------------------------------------------

Tel Lagane Ke Sunan O Aadab

1) Baalon Me Sunnat Ki Ittiba Ki Niyat Se Tel Lagana,

2) Tel Lagane Se Pehle بسم اللہ Padhna,

3) Baen Haath Me Tel Rakh Kar Pehle Dono Bhawon Par Phir Palkon Par Phir Moonch Or Dadhi Par Phir Sir Par Lagana,

4) Sir Me Tel Lagane Ke Waqt Peshani Ki Taraf Se Shuru Karna,

5) Dadhi Me Tel Lagate Waqt Dadhi Ke Us Hisse Se Shuru Karna Jo Gardan Se Mila Hua Hai,

سنن وآداب ص: ۱۲

اسوۂ رسول اکرم ص: ۱۰۲

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

-------------------------

سرمہ لگانے کے سنن و آداب

۱) سونے سے پہلے سرمہ لگانا،

۲) اثمد کا سرمہ لگانا،

۳) پہلے داہنی آنکھ میں سرمہ لگانا،

۴) طاق عدد کی رعایت کرنا، یعنی ہر آنکھ میں ۳ مرتبہ لگانا، یا دائیں آنکھ میں ۳ مرتبہ اور بائیں آنکھ میں ۲ مرتبہ لگانا۔

سنن وآداب ص: ۱۴

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

----------------------------

Surma Lagane Ke Sunan O Aadab

1) Sone Se Pehle Surma Lagana,

2) Ismad Ka Surma Lagana,

3) Pehle Sidhi Aankh Me Surma Lagana,

4) Taaq Adad Ki Riayat Karna,Yani Har Aankh Me 3 Martaba Lagana, Ya Sidhi Aankh Me 3 Martaba Or Baen  Aankh Me 2 Martaba Lagana.

سنن و آداب ص:۱۴

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

محمد عمیر 9718939285 (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2021/06/blog-post_12.html