دارالعلوم کے بعد حکیم الاسلامؒ کے ساتھ طلبہ کی ایک بڑی تعداد اور قدیم ترین ملازمین جنہوں نے جوانی کے بہترین لمحات، جسمانی قوتیں اور ذہنی صلاحیتیں دارالعلوم دیوبند کی خدمت میں صرف کی تھیں دارالعلوم سے باہر آگئیں، قدرت کو منظور تھا کہ دیوبند کی قدیم مرکزی جامع مسجد سے بھی قاسمیت کا وہ علمی فیضان جاری ہو ۔
حکیم الاسلامؒ کی ایماء پر ۱۹۸۳ء میں از اوّل تا دورہ حدیث کی باضابطہ تعلیم کا آغاز اور ملازمین جامع مسجد کے حجروں میں بیٹھ کر دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف ہوئے۔خدائے علیم و خبیر بہتر جانتا ہے کہ یہ مرحلہ کتنا کٹھن اور مشکلات سے پر تھا، قدم قدم پر مسائل وسائل ناپید، نہ درس گاہیں، نہ کتابیں، نہ چٹائیاں نہ تپائیاں، دفاتر کے لئے کاغذ، نہ قلم کوئی بھی چیز میسر نہ تھی۔
خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم، فخر المحدثین حضرت مولانا انظر شاہ صاحب کشمیریؒ، حضرت مولانا نعیم صاحب دیوبندیؒ، حضرت مولانا خورشید عالم صاحب دیوبندیؒ جیسے فخر روزگار اساتذہ جن کی تدریس دارالعلوم دیوبند کا طرۂ امتیاز،علمی کمالات ضرب المثل اور شہرت ونیک نامی ہندوستان میں نہیں پوری دنیا میں تھی اور دیوبندی مکتبہ فکر کے بیشتر نامور علماء مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران او رملّی تنظیموں کے سربراہان کو ان کے شرف تلمذ پرناز اور ان کی شخصیات پر ہمیشہ فخر رہا۔
دارالعلوم دیوبند کے ایسے قدیم الخدمت مخلص اور تجربہ کار اساتذہ بے سروسامانی کے عالم میں دیوبند کی مرکزی جامع مسجد کے کھلے فرش پر بیٹھ کر خلوص وللہیت اور شوق وذوق سے درس دیتے جو دارالعلوم دیوبند میں طلبہ کے جم غفیر کے درمیان ان کی پہچان بنا ہوا تھا۔
مولانا اسحاق صاحب مرحوم مالک کتب خانہ رحیمیہ اور مولاناشوکت صاحب ؒ صاحب مالک کتب خانہ ہاشمیہ نے درسی کتابوں کی فراہمی کے ساتھ ہر بار انعامیہ جلسوں کے موقع پر اچھے نمبرات حاصل کرنے والے طلبہ کی نقد انعامات سے حوصلہ افزائی فرمائی اور گرانقدر کتابوں سے بھی نوازتے رہے۔علاوہ ازیں دیوبند کے تقریباً سبھی کتب خانہ والوں نے کتابوں کی فراہمی میں مخلصانہ تعاون دیا اور روز اوّل تا حال ان کی ہمدردیاں دارالعلوم وقف دیوبند کے ساتھ وابستہ ہیں۔ دارالعلوم وقف دیوبند ان کا بے حد شکر گزار ہے۔
دارالعلوم وقف دیوبند کے قیام کے بعد متفقہ طور پر خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی، مہتمم فخر المحدثین حضرت مولانا سیّد انظرشاہ کشمیریؒ صدر المدرسین، وناظم مجلس تعلیمی حضرت مولانا محمد نعیم صاحب دیوبندیؒ شیخ الحدیث او رحضرت مولانا خورشید عالم صاحب دیوبندیؒ نیابت اہتمام کیلئے مقرر ہوئے۔ ان شخصیات کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے قدیم ونامور اساتذہ حضرت مولانا مفتی شکیل احمد صاحب سیتاپوری،حضرت مولانا خالد حسین بلیاوی، حضرت مولانا فیض الحسن صاحب کشمیریؒ، مولانا محمد حسن باندوی، قاری سعید عالم صاحبؒ، تدریس کے کامو ںمیں مصروف رہے۔ مولانا مفتی شکیل احمد صاحب کچھ عرصہ کے بعد اپنے وطن میں کسی بڑے مدرسہ کے مہتمم ہوئے اور دارالعلوم وقف سے سلسلہ منقطع ہوگیا۔
مولاناخالد حسین بلیاوی پاکستان ہجرت کرگئے۔ اس کے بعد مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ میں بحیثیت شیخ الحدیث مقرر ہوئے او رتاحیات وہیں پر تدریس حدیث کی خدمت انجام دیتے رہے۔ مولانا فیض الحسن کشمیری قیام دارالعلوم وقف کے بعد دوسرے سال اپنے وطن میں انتقال کرگئے۔ اس طرح تین فائق الاستعداد اساتذہ کے چلے جانے سے ایک خلا پیدا ہوا مگر اللہ کی ذات بڑی کارساز ہے۔ اس کے بعد حضرت مولانا علامہ رفیق احمد بھیسانی سابق شیخ الحدیث مفتاح العلو م جلال آباد ،حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی، مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی، مولانا قمرعثمانی، مولانا محمد حنیف صاحب مظفرنگری،مولانا مفتی محمد واصف صاحب عثمانیؒ سابق مبلغ دارالعلوم دیوبند، مولانا مفتی محمد عمران صاحب دیوبندی، مولانا محمد اسماعیل صاحب مدنی، مولانا اسماعیل خان دیوبندی، مفتی الیاس صاحب گونڈوی سابق رکن افتاء دارالعلوم دیوبند، مولانا محمدسفیان قاسمی، مولاناسیّد احمد خضر شاہ کشمیری، ڈاکٹر انیس الاسلام قاسمی، مولانا غلام رسول کشمیری تدریسی خدمات کے لئے مقرر ہوئے۔ اس کے بعد مولانا غلام نبی صاحب کشمیری،مفتی انوارالحق صاحبؒ دربھنگوی ودیگرنوجوان فضلاء تدریسی قافلہ میں شامل ہوئے۔
بخاری شریف کے اسباق حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی ،حضرت مولانا سید انظرشاہ صاحب کشمیریؒ، حضرت مولانانعیم صاحب دیوبندیؒ، سے متعلق رہے جبکہ کچھ اسباق محدود وقت کیلئے حضرت مولانا رفیق احمد صاحب ؒ سے بھی متعلق رہے۔دارالافتاء کا شعبہ دارالعلوم دیوبند کے تجربہ کار مفتی حضرت مولانا سیّد احمد علی صاحب کی سربراہی میںسرگرم عمل رہا۔تکمیل ادب کے شعبہ کو مولانا محمداسلام صاحب شعبہ تجوید قاری سعید عالم صاحبؒ، شعبہ حفظ وناظرہ حافظ محمد انور صاحب دیوبندی، شعبہ ٔ دینیات جناب ماسٹر موسیٰ صاحب، شعبہ خوش خطی کو جناب منشی امتیاز صاحبؒ کی نگرانی اور خدمات حاصل رہیں او ران حضرات نے پوری لگن کے ساتھ معیار تعلیم کو بلند کیا۔
۹/شعبان ۱۴۲۸ھ/۲۰۰۸ء میں حضرت مولانا محمد نعیم صاحبؒ شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند طویل علالت کے بعد امریکہ میں انتقال کرگئے، حضرت مولانا مرحوم انتہائی باصلاحیت تجربہ کار امورِ تدریس کے ماہر، نظم وضبط کے پابند،کام کے دھنی،خاموش مزاج،بزرگانہ روایات کے حامل،خالص مدرس قسم کے انسان تھے ،قیام دارالعلوم وقف سے لے کر آخری وقت تک بخاری شریف اور ترمذی شریف کے اسباق آپ سے متعلق رہے اور کئی کئی گھنٹے ایک نشست پر بے تکان درس دیتے رہے، رجب کے مہینے میںطویل سے طویل اسباق کو مقرر ہ نصاب تک پہنچا دیتے۔
حضرت مرحوم کی وفات سے دارالعلوم وقف دیوبند ایک قدآور شخصیت کے فیضان سے محروم ہوگیا۔ حضر ت مرحوم ومغفور کے بعد فخر المحدثین حضرت مولانا سیّد انظر شاہ صاحب کشمیریؒ شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے۔ حلقۂ دیوبند سے تعلق رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ حضرت شاہ صاحبؒ کو قدرت نے تدریس،تقریر، تینوں صلاحتیں عطاء فرمائی تھیں اور تینوں میں اپنی مثال آپ تھے۔دارالعلوم دیوبند سے متعلق جو اسباق رہے ان کو جس آن بان وشان کے ساتھ پڑھا یا ان کے عہد زریں میں وہ دارالعلوم دیوبند کی تاریخ کا ایک درخشاں باب رہا۔ ۱۹۸۰ء میںشاہ صاحبؒ سے متعلق دارالعلوم دیوبند میں بخاری شریف، کتاب المغازی کا درس متعلق ہوا تو ان کے البیلے انداز تدریس،منفر د لب ولہجہ ،کثرت معلومات او ربے نظیر تحقیقات سے دورۂ حدیث کے طلبہ کے ساتھ دوسری جماعتو ںکے طلبہ بھی محظوظ ہوتے اور دین وصادرین بھی۔لوگ دوردراز سے ان کے درس بخاری میں شریک ہوتے،خود طلبہ دارالعلوم کی ایک بڑی تعداد پابندی سے ان کے درس میں شریک ہوتی اور ان کے مخصوص انداز تدریس سے محظوظ ہوتی، اختتام ہر سال پر ختم بخاری جس شان سے کراتے او رجتنا مجمع ان کے سامنے ہوتا اس کا تعلق دیکھنے سے ہوتا ختم بخاری کایہ مثالی انداز تا وفات قائم رہا۔ بے شک شاہ صاحبؒ حلقۂ دیوبند میں اپنی طرزکی ایک مثالی شخصیت تھے۔۱۹/ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ /۲۶اپریل ۲۰۰۸ء میں مختصر علالت کے بعد حضرت شاہ صاحبؒ اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔بزداللّٰہ مضجعہ۔
حضرت شاہ صاحبؒ کے بعد دارالعلوم دیوبند کے قدیم ترین اورمایۂ ناز استاذ حضرت مولاناخورشید عالم صاحبؒ شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔حضرت مولاناخورشید عالم صاحبؒ بڑے پختہ کار ،سنجید ہ او رمثالی استاذ تھے۔ دارالعلوم میں بھی ان کی مقبولیت کا شہرہ رہا۔دارالعلوم میں شرح عقائد اور مسلم شریف کے اسباق ان سے متعلق رہے او رنیابت تعلیمات کے منصب پر بھی فائز رہے۔ دارالعلوم کے بعد جامع مسجد میں دارالعلوم وقف کے نیابت اہتمام کے عہدہ پر فائزہوئے او رطویل مدت تک بڑی خوش اسلوبی اور حسن تدبیر سے اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیا۔پریشان ملازمین جب ان سے الجھتے تو بڑی متانت اور بردباری سے کام لیتے، یہ کارکنوں کا دکھ درد بانٹتے حوصلہ دینے او رجمائے رکھنے میں حضرت مولانا خورشید عالم صاحبت کا کردار کتنا نمایاں ہے اس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔مسلم شریف کا درس بھی دیتے رہے۔آخر کے چند سالوںمیں دارالعلوم وقف کے شیخ الحدیث مقرر ہوئے،۱۴/ربیع الاوّل ۱۴۳۳ھ /۷فروری ۲۰۱۱ء مختصر علالت کے بعد حضرت مولانا خورشید عالم صاحبؒ بھی اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے ۔اللّٰھم اغفر وارحم۔
حضرت شاہ صاحبؒ نظامت تعلیمات اور صدرالمدرسین کے عہدے پر بھی فائز تھے، ان کی رحلت کے بعد نظامت تعلیمات اور صدارتِ تدریس کے منصب پر حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی دامت برکاتہم او رنیابت تعلیمات کے منصب پر حضرت مولانا سیّد انظر شاہ صاحب کشمیریؒ کے فرزند جلیل مولانا احمد خضر شاہ مسعودی فائز ہوئے۔ دونوں حضرات گوناگو علمی صلاحیتوں سے متمتع ذہن وفراست سے بہرہ ور اور شرافت نفس کے پیکر، ان حضرات نے تدریسی خدمات کے ساتھ امور تعلیم کو احسن طریقہ سے انجام دیا، مولانا اسلم صاحب قاسمی کی شخصیت کئی پہلوؤں سے بے نظیر، آپ بہترین مدرس،مقبول مقرر سنجیدہ اور صاحب طرز مصنف وادیب ہر قسم کی معلومات کاخزانہ عامرہ،قدیم وجدید علوم کے ماہر ،صاحب فکر ،خاموش طبیعت سادہ مزاج اور متانت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تو مولانا سیّد احمد خضر شاہ صاحب اپنے جدامجد حضرت علامہ کشمیریؒ کا مثنیٰ ،سحرانگیز طرزِ تکلم او رخطابت میں اپنے والد گرامی کا عکس ،شرافت ومروت میں خانوادہ شاہی کی آبرو، خوش مزاجی، وخو ش اخلاقی، معاملگی میں اپنی مثال آپ۔
حضرت مولانا خورشید عالم صاحبؒ کی رحلت کے بعد مشیخت حدیث کے منصب پر آپ کو فائز کیاگیا تو حضرت مولانا سیّد انظر شاہ صاحب کشمیریؒ کے مثالی طرز پر ان کا درس بخاری طلبہ میں ان کی وجہ امتیاز او ران کی خاص پہچان بنا ہوا ہے۔
بخاری شریف کے اسباق حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی ،حضرت مولانا سید انظرشاہ صاحب کشمیریؒ، حضرت مولانانعیم صاحب دیوبندیؒ، سے متعلق رہے جبکہ کچھ اسباق محدود وقت کیلئے حضرت مولانا رفیق احمد صاحب ؒ سے بھی متعلق رہے۔دارالافتاء کا شعبہ دارالعلوم دیوبند کے تجربہ کار مفتی حضرت مولانا سیّد احمد علی صاحب کی سربراہی میںسرگرم عمل رہا۔تکمیل ادب کے شعبہ کو مولانا محمداسلام صاحب شعبہ تجوید قاری سعید عالم صاحبؒ، شعبہ حفظ وناظرہ حافظ محمد انور صاحب دیوبندی، شعبہ ٔ دینیات جناب ماسٹر موسیٰ صاحب، شعبہ خوش خطی کو جناب منشی امتیاز صاحبؒ کی نگرانی اور خدمات حاصل رہیں او ران حضرات نے پوری لگن کے ساتھ معیار تعلیم کو بلند کیا۔
۹/شعبان ۱۴۲۸ھ/۲۰۰۸ء میں حضرت مولانا محمد نعیم صاحبؒ شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند طویل علالت کے بعد امریکہ میں انتقال کرگئے، حضرت مولانا مرحوم انتہائی باصلاحیت تجربہ کار امورِ تدریس کے ماہر، نظم وضبط کے پابند،کام کے دھنی،خاموش مزاج،بزرگانہ روایات کے حامل،خالص مدرس قسم کے انسان تھے ،قیام دارالعلوم وقف سے لے کر آخری وقت تک بخاری شریف اور ترمذی شریف کے اسباق آپ سے متعلق رہے اور کئی کئی گھنٹے ایک نشست پر بے تکان درس دیتے رہے، رجب کے مہینے میںطویل سے طویل اسباق کو مقرر ہ نصاب تک پہنچا دیتے۔
حضرت مرحوم کی وفات سے دارالعلوم وقف دیوبند ایک قدآور شخصیت کے فیضان سے محروم ہوگیا۔ حضر ت مرحوم ومغفور کے بعد فخر المحدثین حضرت مولانا سیّد انظر شاہ صاحب کشمیریؒ شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے۔ حلقۂ دیوبند سے تعلق رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ حضرت شاہ صاحبؒ کو قدرت نے تدریس،تقریر، تینوں صلاحتیں عطاء فرمائی تھیں اور تینوں میں اپنی مثال آپ تھے۔دارالعلوم دیوبند سے متعلق جو اسباق رہے ان کو جس آن بان وشان کے ساتھ پڑھا یا ان کے عہد زریں میں وہ دارالعلوم دیوبند کی تاریخ کا ایک درخشاں باب رہا۔ ۱۹۸۰ء میںشاہ صاحبؒ سے متعلق دارالعلوم دیوبند میں بخاری شریف، کتاب المغازی کا درس متعلق ہوا تو ان کے البیلے انداز تدریس،منفر د لب ولہجہ ،کثرت معلومات او ربے نظیر تحقیقات سے دورۂ حدیث کے طلبہ کے ساتھ دوسری جماعتو ںکے طلبہ بھی محظوظ ہوتے اور دین وصادرین بھی۔لوگ دوردراز سے ان کے درس بخاری میں شریک ہوتے،خود طلبہ دارالعلوم کی ایک بڑی تعداد پابندی سے ان کے درس میں شریک ہوتی اور ان کے مخصوص انداز تدریس سے محظوظ ہوتی، اختتام ہر سال پر ختم بخاری جس شان سے کراتے او رجتنا مجمع ان کے سامنے ہوتا اس کا تعلق دیکھنے سے ہوتا ختم بخاری کایہ مثالی انداز تا وفات قائم رہا۔ بے شک شاہ صاحبؒ حلقۂ دیوبند میں اپنی طرزکی ایک مثالی شخصیت تھے۔۱۹/ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ /۲۶اپریل ۲۰۰۸ء میں مختصر علالت کے بعد حضرت شاہ صاحبؒ اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔بزداللّٰہ مضجعہ۔
حضرت شاہ صاحبؒ کے بعد دارالعلوم دیوبند کے قدیم ترین اورمایۂ ناز استاذ حضرت مولاناخورشید عالم صاحبؒ شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔حضرت مولاناخورشید عالم صاحبؒ بڑے پختہ کار ،سنجید ہ او رمثالی استاذ تھے۔ دارالعلوم میں بھی ان کی مقبولیت کا شہرہ رہا۔دارالعلوم میں شرح عقائد اور مسلم شریف کے اسباق ان سے متعلق رہے او رنیابت تعلیمات کے منصب پر بھی فائز رہے۔ دارالعلوم کے بعد جامع مسجد میں دارالعلوم وقف کے نیابت اہتمام کے عہدہ پر فائزہوئے او رطویل مدت تک بڑی خوش اسلوبی اور حسن تدبیر سے اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیا۔پریشان ملازمین جب ان سے الجھتے تو بڑی متانت اور بردباری سے کام لیتے، یہ کارکنوں کا دکھ درد بانٹتے حوصلہ دینے او رجمائے رکھنے میں حضرت مولانا خورشید عالم صاحبت کا کردار کتنا نمایاں ہے اس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔مسلم شریف کا درس بھی دیتے رہے۔آخر کے چند سالوںمیں دارالعلوم وقف کے شیخ الحدیث مقرر ہوئے،۱۴/ربیع الاوّل ۱۴۳۳ھ /۷فروری ۲۰۱۱ء مختصر علالت کے بعد حضرت مولانا خورشید عالم صاحبؒ بھی اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے ۔اللّٰھم اغفر وارحم۔
حضرت شاہ صاحبؒ نظامت تعلیمات اور صدرالمدرسین کے عہدے پر بھی فائز تھے، ان کی رحلت کے بعد نظامت تعلیمات اور صدارتِ تدریس کے منصب پر حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی دامت برکاتہم او رنیابت تعلیمات کے منصب پر حضرت مولانا سیّد انظر شاہ صاحب کشمیریؒ کے فرزند جلیل مولانا احمد خضر شاہ مسعودی فائز ہوئے۔ دونوں حضرات گوناگو علمی صلاحیتوں سے متمتع ذہن وفراست سے بہرہ ور اور شرافت نفس کے پیکر، ان حضرات نے تدریسی خدمات کے ساتھ امور تعلیم کو احسن طریقہ سے انجام دیا، مولانا اسلم صاحب قاسمی کی شخصیت کئی پہلوؤں سے بے نظیر، آپ بہترین مدرس،مقبول مقرر سنجیدہ اور صاحب طرز مصنف وادیب ہر قسم کی معلومات کاخزانہ عامرہ،قدیم وجدید علوم کے ماہر ،صاحب فکر ،خاموش طبیعت سادہ مزاج اور متانت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تو مولانا سیّد احمد خضر شاہ صاحب اپنے جدامجد حضرت علامہ کشمیریؒ کا مثنیٰ ،سحرانگیز طرزِ تکلم او رخطابت میں اپنے والد گرامی کا عکس ،شرافت ومروت میں خانوادہ شاہی کی آبرو، خوش مزاجی، وخو ش اخلاقی، معاملگی میں اپنی مثال آپ۔
حضرت مولانا خورشید عالم صاحبؒ کی رحلت کے بعد مشیخت حدیث کے منصب پر آپ کو فائز کیاگیا تو حضرت مولانا سیّد انظر شاہ صاحب کشمیریؒ کے مثالی طرز پر ان کا درس بخاری طلبہ میں ان کی وجہ امتیاز او ران کی خاص پہچان بنا ہوا ہے۔
۲۰۰۰ء میں جسمانی عوارض کی وجہ سے جب حضرت مولانا خورشید عالم صاحبؒ نیابت اہتمام کے منصب سے سبکدوش ہوئے تو صاحبزادۂ خطیب الاسلام مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی نیابت اہتمام کے منصب پر باضابطہ فائز ہوئے ۔ اس سے پہلے دارالعلوم وقف دیوبند کی تاسیس میں مولانا موصوف اور مولاناسیّد احمد خضر شاہ صاحب کشمیری کا جو فعال رہا وہ تاریخ دارالعلوم وقف دیوبند کا ایک جلی باب ہے۔
سال رواں اجلاس مجلس مشاورت کے موقع پر رکن مشاورت شیخ طریقت حضرت مولانا قمر الزماں صاحب الٰہ آبادی دامت برکاتہم کی تجویز پر خطیب الاسلام کی علالت طبع کے پیش نظر اور طویل عرصہ سے حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب مدظلہ العالی کے اہتمام کی ذمہ داریوں کو عملی طور پر انجام دینے کی وجہ سے بہ تائیدجملہ اراکین مجلس مشاورت وباتفاق مہتمم خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب دامت برکاتہم کو صدر مہتمم اور حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب مدظلہ کو مہتمم کا عہدہ تفویض کیا گیا نیز اس تجویز کو مؤرخہ ۳ستمبر ۲۰۱۴ء سے نافذ العمل قرار کیاگیا۔
دارالعلوم وقف دیوبند کے مشکل حالات کے حوالے سے مفتی انوارالحق صاحبؒ قاسمی استاذ دارالعلوم وقف دیوبند کا تذکرہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ مرحوم نے آڑے وقت میں ادارہ کی ہر خدمت انجام دی،خود کو ہر وقت خدمت کیلئے وقف کئے رکھا۔ ایک بے ضرر،بے عذر، بے نفس،محنتی کارگزاراورشریف النفس انسان تھے ،شروع میں ابتدائی کتابوں کے ساتھ دارالافتاء اور سال ہفتم میں ہمیشہ سراجی کا درس دیا، سراجی میں انہیں اتنی مہارت حاصل تھی شاید آنکھیں بند کرکے بھی پڑھالیتے ۔ہدایہ آخرین او رابوداؤد شریف ونسائی شریف جیسی اہم کتابیں ان سے متعلق رہیں۔۱۰/صفر المظفر ۱۴۲۵ھ میں اچانک انتقال کرگئے۔ خدا تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے او ردرجات کو بلند فرمائے۔
۱۹/جمادی الاولیٰ ۱۴۰۵ھ /۲۰ /فروری ۱۹۸۵ء میں مولانا عبدالحق غازی پوری انتقال کرگئے ۔مرحوم حکیم الاسلام کے عہداہتمام کے باوقار پیش کاراور معتقدومعتمدخاص تھے،بڑی خوبیو ںکے بزرگ تھے۔جب حکیم الاسلامؒ کا ذکرکرتے تو بے اختیار روپڑتے اوربے حال ہوجاتے ۔ان کی رحلت کے بعدمولانا سیّد عبدالرؤف عالی پیش کار کے منصب پر فائز ہوئے او رپندرہ روز ہ ندائے دارالعلوم کی ادارت کی ذمہ داریاں بھی ان کے سپرد رہیں۔مولانا عبداللہ جاوید غازی پوری (فرزندمولاناعبدالحق صاحب پیشکار)اور مولانانسیم اختر شاہ قیصر (فرزند مولانا سیّد محمد ازہر شاہ قیصرؒ،سابق مدیر رسالہ دارالعلوم دیوبند)ندائے دارالعلوم کی ادارت اور اشاعت میں ان کے معاون رہے۔ ان تینوں حضرات نے ندائے دارالعلوم کی اشاعت کو ایک خاص معیار اور وقار کے ساتھ قائم رکھا۔۲۳/نومبر ۲۰۰۹ء میں مولانا سیّد عبدالرؤف عالی کا انتقال ہوگیا تو ندائے دارالعلوم کی ادارت اوراشاعت میں ان کے معاون رہے۔ ان تینوں حضرات نے ندائے دارالعلوم کی اشاعت کو ایک خاص معیار اور وقار کے ساتھ قائم کیا۔ ۲۳/نومبر ۲۰۰۹ء میں مولاناسیّد عبدالرؤف عالی کا انتقال ہوگیا تو ندائے دارالعلوم کی ادارت کی ذمہ داری ،مولانا عبداللہ جاوید اور مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کے سپرد ہوئی اور پیش کار کے منصب پر مولانا معین صاحب حیدر آبادی مقرر ہوئے۔۱۲/صفر المظفر۱۴۲۳ھ میں مولانا معین الدین حیدرآبادی کا انتقال ہوگیا تو ان کے بعد مولانا دلشاد احمد قاسمی ناظم تنظیم وترقی کے ساتھ پیش کار بھی منتخب ہوئے۔موصوف تاحال ان دونوں ذمہ داریاں کو خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔
شعبہ تبلیغ کو مولانا سیّد ابوالکلام صاحب اور مفتی محمدواصف عثمانی جیسے دارالعلوم کے قدیم اور منجھے ہوئے مبلغین کی خدمات حاصل رہی۔یہ دونوں حضرات اپنی بے نظیر خطابت کی وجہ سے ہمیشہ دینی حلقوں میں مقبول رہے اور عوامی ودینی مدارس کے جلسوں میں ان حضرات کی موجودگی کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا رہا۔ مولانا مفتی محمد واصف عثمانی سے متعلق مشکوٰۃ شریف او رابن ماجہ شریف جیسے اسباق بھی رہے اور فتاویٰ نویسی کی خدمت بھی۔
۱۷/ربیع الاوّل ۱۴۱۶ھ ۵/اگست ۱۹۹۵ء میں کانپور میں سیرت کے ایک جلسہ سے لوٹ رہے تھے کارپیڑ سے ٹکراگئی او رشہید ہوگئے۔اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور درجات کو بلند کرے۔
شعبہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کے قدیم ترین اور فن فتاویٰ نویسی کے ماہر حضرت مولانا مفتی احمد علی سعیدؒ کی نگرانی میں مصروف کاررہا۔مفتی صاحب دارالافتاء کے اکثر اسباق خود ہی پڑھاتے، دن میں کئی کئی استفتاء ات کے جوابات بھی لکھتے اور دوسرے مفتیان حضرات کے لکھے گئے فتاویٰ پر نظر ثانی اور ترمیم واضافہ کی خدمات بھی انجام دیتے۔ ایک عرصہ تک دورۂ حدیث میں ابوداؤد شریف کاسبق آپ سے متعلق رہا،خالص فقہ وفتاویٰ کی زبان بولتے اور خوب تحقیق او رحوالوں کے ساتھ پڑھاتے ،۲۶ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ ۱۹۹۷ء میں مفتی صاحب کا انتقال ہوگیاتو صدر مفتی کے منصب پر حضرت مولاناخورشید عالم صاحب فائز کئے گئے اور دارالافتاء کی مکمل ذمہ داری بھی آپ کے حوالہ تھی جس کو انہوں نے آخری وقت تک نبھایا۔
دارالافتاء کی طرح شعبہ تکمیل ادب بھی شروع سے ہی سرگرم عمل رہا، جس کی نگرانی مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی(استاذ حدیث وادب دارالعلوم وقف دیوبند) کے سپرد رہی۔ مولانا محمد اسلام صاحب عربی زبان وادب میں خصوصی مہارت کے ساتھ دیگرعلوم وفنون بھی امتیازی صلاحیت کے حاصل رہے ہیں،تکمیل ادب کی اکثر کتابوں کے ساتھ شروع میںدورۂ حدیث میں شمائل ترمذی کا درس بھی مولانا موصوف سے متعلق رہا اور رابطہ عامہ کی ذمہ داری بھی انجام دیتے رہے۔ شعبۂ خوش خطی کی نگرانی جناب منشی امتیاز احمد صاحب مرحوم ،شعبہ تجوید کی جناب قاری سعید عالم صاحب اور شعبہ تحفیظ القرآن الکریم ناظرہ، اور دینیات کی ذمہ داری جناب حافظ محمدانور صاحب انجام دیتے۔
دارالعلوم وقف دیوبند کی عمارات جدیدہ کاسنگ بنیاد
تقریباً ۳۰/سال قبل جب حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ او ران کے مخلص ساتھیوں پر دارالعلوم دیوبند میں پرسکون اور باوقار تعلیمی وانتظامی خدمات کادروازہ بند کردیاگیا تو حضرت نے اپنے اکابر کے انداز میں دارالعلوم کے ان امتیازت وخصوصیات کو باقی رکھنے کیلئے جس سے دارالعلوم کی شہر ت ہے، دارالعلوم وقف دیوبند کے نام سے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں کام شروع کیا تھا،قدم قدم پر مشکلات اور ہر ہرمرحلہ پر حوصلہ شکن واقعات کے باوجود یہ کارواں بدستور آگے بڑھتا رہا۔چند سالوں کے مختصر عرصہ میں یہ بے برگ وبارپودہ اللہ کے فضل وکرم سے ایک شجرسایہ دارین بن گیا اورجامع مسجد کی وسعتیں اس ادارہ کی ہمہ جہت رفعتوں کو سمیٹنے سے قاصر ہوگئیں ،طلبہ کی رہائش گاہیں منتشر ہونے کی بناء پر ذمہ داران ادارہ اخلاق وتربیت کے وہ اجاگر نہیںکر پارہے تھے جو کہ دینی درسگاہوں کی بنیادی خصوصیت ہیں /۶دسمبر ۱۹۹۲ء کے مسلسل کرفیو نے اپنی عمارت کی ضرورت کو او رزیادہ باور کروایا،چنانچہ اللہ کے فضل وکرم او رمخیر حضرات کی مخلصانہ معاونت اور خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم وفخرالمحدثین حضرت مولانا سیّد انظر شاہ صاحب کشمیریؒ کی شب وروز محنت سے ایک وسیع قطعۂ اراضی شہر سے باہر مدرسہ کیلئے خریدلی گئی۔
سال رواں اجلاس مجلس مشاورت کے موقع پر رکن مشاورت شیخ طریقت حضرت مولانا قمر الزماں صاحب الٰہ آبادی دامت برکاتہم کی تجویز پر خطیب الاسلام کی علالت طبع کے پیش نظر اور طویل عرصہ سے حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب مدظلہ العالی کے اہتمام کی ذمہ داریوں کو عملی طور پر انجام دینے کی وجہ سے بہ تائیدجملہ اراکین مجلس مشاورت وباتفاق مہتمم خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب دامت برکاتہم کو صدر مہتمم اور حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب مدظلہ کو مہتمم کا عہدہ تفویض کیا گیا نیز اس تجویز کو مؤرخہ ۳ستمبر ۲۰۱۴ء سے نافذ العمل قرار کیاگیا۔
دارالعلوم وقف دیوبند کے مشکل حالات کے حوالے سے مفتی انوارالحق صاحبؒ قاسمی استاذ دارالعلوم وقف دیوبند کا تذکرہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ مرحوم نے آڑے وقت میں ادارہ کی ہر خدمت انجام دی،خود کو ہر وقت خدمت کیلئے وقف کئے رکھا۔ ایک بے ضرر،بے عذر، بے نفس،محنتی کارگزاراورشریف النفس انسان تھے ،شروع میں ابتدائی کتابوں کے ساتھ دارالافتاء اور سال ہفتم میں ہمیشہ سراجی کا درس دیا، سراجی میں انہیں اتنی مہارت حاصل تھی شاید آنکھیں بند کرکے بھی پڑھالیتے ۔ہدایہ آخرین او رابوداؤد شریف ونسائی شریف جیسی اہم کتابیں ان سے متعلق رہیں۔۱۰/صفر المظفر ۱۴۲۵ھ میں اچانک انتقال کرگئے۔ خدا تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے او ردرجات کو بلند فرمائے۔
۱۹/جمادی الاولیٰ ۱۴۰۵ھ /۲۰ /فروری ۱۹۸۵ء میں مولانا عبدالحق غازی پوری انتقال کرگئے ۔مرحوم حکیم الاسلام کے عہداہتمام کے باوقار پیش کاراور معتقدومعتمدخاص تھے،بڑی خوبیو ںکے بزرگ تھے۔جب حکیم الاسلامؒ کا ذکرکرتے تو بے اختیار روپڑتے اوربے حال ہوجاتے ۔ان کی رحلت کے بعدمولانا سیّد عبدالرؤف عالی پیش کار کے منصب پر فائز ہوئے او رپندرہ روز ہ ندائے دارالعلوم کی ادارت کی ذمہ داریاں بھی ان کے سپرد رہیں۔مولانا عبداللہ جاوید غازی پوری (فرزندمولاناعبدالحق صاحب پیشکار)اور مولانانسیم اختر شاہ قیصر (فرزند مولانا سیّد محمد ازہر شاہ قیصرؒ،سابق مدیر رسالہ دارالعلوم دیوبند)ندائے دارالعلوم کی ادارت اور اشاعت میں ان کے معاون رہے۔ ان تینوں حضرات نے ندائے دارالعلوم کی اشاعت کو ایک خاص معیار اور وقار کے ساتھ قائم رکھا۔۲۳/نومبر ۲۰۰۹ء میں مولانا سیّد عبدالرؤف عالی کا انتقال ہوگیا تو ندائے دارالعلوم کی ادارت اوراشاعت میں ان کے معاون رہے۔ ان تینوں حضرات نے ندائے دارالعلوم کی اشاعت کو ایک خاص معیار اور وقار کے ساتھ قائم کیا۔ ۲۳/نومبر ۲۰۰۹ء میں مولاناسیّد عبدالرؤف عالی کا انتقال ہوگیا تو ندائے دارالعلوم کی ادارت کی ذمہ داری ،مولانا عبداللہ جاوید اور مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کے سپرد ہوئی اور پیش کار کے منصب پر مولانا معین صاحب حیدر آبادی مقرر ہوئے۔۱۲/صفر المظفر۱۴۲۳ھ میں مولانا معین الدین حیدرآبادی کا انتقال ہوگیا تو ان کے بعد مولانا دلشاد احمد قاسمی ناظم تنظیم وترقی کے ساتھ پیش کار بھی منتخب ہوئے۔موصوف تاحال ان دونوں ذمہ داریاں کو خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔
شعبہ تبلیغ کو مولانا سیّد ابوالکلام صاحب اور مفتی محمدواصف عثمانی جیسے دارالعلوم کے قدیم اور منجھے ہوئے مبلغین کی خدمات حاصل رہی۔یہ دونوں حضرات اپنی بے نظیر خطابت کی وجہ سے ہمیشہ دینی حلقوں میں مقبول رہے اور عوامی ودینی مدارس کے جلسوں میں ان حضرات کی موجودگی کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا رہا۔ مولانا مفتی محمد واصف عثمانی سے متعلق مشکوٰۃ شریف او رابن ماجہ شریف جیسے اسباق بھی رہے اور فتاویٰ نویسی کی خدمت بھی۔
۱۷/ربیع الاوّل ۱۴۱۶ھ ۵/اگست ۱۹۹۵ء میں کانپور میں سیرت کے ایک جلسہ سے لوٹ رہے تھے کارپیڑ سے ٹکراگئی او رشہید ہوگئے۔اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور درجات کو بلند کرے۔
شعبہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کے قدیم ترین اور فن فتاویٰ نویسی کے ماہر حضرت مولانا مفتی احمد علی سعیدؒ کی نگرانی میں مصروف کاررہا۔مفتی صاحب دارالافتاء کے اکثر اسباق خود ہی پڑھاتے، دن میں کئی کئی استفتاء ات کے جوابات بھی لکھتے اور دوسرے مفتیان حضرات کے لکھے گئے فتاویٰ پر نظر ثانی اور ترمیم واضافہ کی خدمات بھی انجام دیتے۔ ایک عرصہ تک دورۂ حدیث میں ابوداؤد شریف کاسبق آپ سے متعلق رہا،خالص فقہ وفتاویٰ کی زبان بولتے اور خوب تحقیق او رحوالوں کے ساتھ پڑھاتے ،۲۶ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ ۱۹۹۷ء میں مفتی صاحب کا انتقال ہوگیاتو صدر مفتی کے منصب پر حضرت مولاناخورشید عالم صاحب فائز کئے گئے اور دارالافتاء کی مکمل ذمہ داری بھی آپ کے حوالہ تھی جس کو انہوں نے آخری وقت تک نبھایا۔
دارالافتاء کی طرح شعبہ تکمیل ادب بھی شروع سے ہی سرگرم عمل رہا، جس کی نگرانی مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی(استاذ حدیث وادب دارالعلوم وقف دیوبند) کے سپرد رہی۔ مولانا محمد اسلام صاحب عربی زبان وادب میں خصوصی مہارت کے ساتھ دیگرعلوم وفنون بھی امتیازی صلاحیت کے حاصل رہے ہیں،تکمیل ادب کی اکثر کتابوں کے ساتھ شروع میںدورۂ حدیث میں شمائل ترمذی کا درس بھی مولانا موصوف سے متعلق رہا اور رابطہ عامہ کی ذمہ داری بھی انجام دیتے رہے۔ شعبۂ خوش خطی کی نگرانی جناب منشی امتیاز احمد صاحب مرحوم ،شعبہ تجوید کی جناب قاری سعید عالم صاحب اور شعبہ تحفیظ القرآن الکریم ناظرہ، اور دینیات کی ذمہ داری جناب حافظ محمدانور صاحب انجام دیتے۔
دارالعلوم وقف دیوبند کی عمارات جدیدہ کاسنگ بنیاد
تقریباً ۳۰/سال قبل جب حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ او ران کے مخلص ساتھیوں پر دارالعلوم دیوبند میں پرسکون اور باوقار تعلیمی وانتظامی خدمات کادروازہ بند کردیاگیا تو حضرت نے اپنے اکابر کے انداز میں دارالعلوم کے ان امتیازت وخصوصیات کو باقی رکھنے کیلئے جس سے دارالعلوم کی شہر ت ہے، دارالعلوم وقف دیوبند کے نام سے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں کام شروع کیا تھا،قدم قدم پر مشکلات اور ہر ہرمرحلہ پر حوصلہ شکن واقعات کے باوجود یہ کارواں بدستور آگے بڑھتا رہا۔چند سالوں کے مختصر عرصہ میں یہ بے برگ وبارپودہ اللہ کے فضل وکرم سے ایک شجرسایہ دارین بن گیا اورجامع مسجد کی وسعتیں اس ادارہ کی ہمہ جہت رفعتوں کو سمیٹنے سے قاصر ہوگئیں ،طلبہ کی رہائش گاہیں منتشر ہونے کی بناء پر ذمہ داران ادارہ اخلاق وتربیت کے وہ اجاگر نہیںکر پارہے تھے جو کہ دینی درسگاہوں کی بنیادی خصوصیت ہیں /۶دسمبر ۱۹۹۲ء کے مسلسل کرفیو نے اپنی عمارت کی ضرورت کو او رزیادہ باور کروایا،چنانچہ اللہ کے فضل وکرم او رمخیر حضرات کی مخلصانہ معاونت اور خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم وفخرالمحدثین حضرت مولانا سیّد انظر شاہ صاحب کشمیریؒ کی شب وروز محنت سے ایک وسیع قطعۂ اراضی شہر سے باہر مدرسہ کیلئے خریدلی گئی۔
۲۴/جون ۱۹۹۴ء بروز جمعہ فقیہ الامّت حضرت مولانا محمود حسن گنگوہی،خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم، فخر المحدثین حضرت مولانا سیّد انظر شاہ صاحب کشمیریؒ، حضرت مولانا مفتی مظفر حسینؒ، حضرت مولانا محمد نعیم صاحبؒ شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند نے سینکڑوں علماء ،طلبہ اور اپنے وقت کے صلحاء ومشائخ کی موجودگی میں اپنے دست مبارک سے عمارت کی پہلی اینٹ اس زمین پر رکھی جس کا نام ’’دارالعلوم وقف دیوبند‘‘۔
شعبہ جات دارالعلوم وقف دیوبند
(۱) اہتمام(۲) شعبہ ٔتعلیمات (۳)شعبۂ دارالافتاء (۴)قسم الادب العربی
(۵) قسم التفسیر (۶) شعبۂ تجوید (۷)شعبۂ محاسبی (۸)شعبۂ تنظیم وترقی
(۹) شعبۂ نشرواشاعت(۱۰)شعبۂ تبلیغ (۱۱) حجۃ الاسلام اکیڈمی
(۱۲)شعبۂ کتب خانہ (۱۳)شعبۂ مطبخ (۱۴)شعبۂ دارالاقامہ
(۱۵)شعبۂ تعمیرات(۱۶)شعبۂ برقیات(۱۷) شعبۂ محافظ خانہ
(۱۸) شعبۂ اوقاف (۱۹)شعبۂ صفائی وچمن بندی (۲۰) شعبہ کمپیوٹر
(۲۱)شعبۂ انٹر نیٹ وآن لائن فتاویٰ۔
(۱) اہتمام(۲) شعبہ ٔتعلیمات (۳)شعبۂ دارالافتاء (۴)قسم الادب العربی
(۵) قسم التفسیر (۶) شعبۂ تجوید (۷)شعبۂ محاسبی (۸)شعبۂ تنظیم وترقی
(۹) شعبۂ نشرواشاعت(۱۰)شعبۂ تبلیغ (۱۱) حجۃ الاسلام اکیڈمی
(۱۲)شعبۂ کتب خانہ (۱۳)شعبۂ مطبخ (۱۴)شعبۂ دارالاقامہ
(۱۵)شعبۂ تعمیرات(۱۶)شعبۂ برقیات(۱۷) شعبۂ محافظ خانہ
(۱۸) شعبۂ اوقاف (۱۹)شعبۂ صفائی وچمن بندی (۲۰) شعبہ کمپیوٹر
(۲۱)شعبۂ انٹر نیٹ وآن لائن فتاویٰ۔
تعمیراتی منصوبے
(۱)اطیب المساجد(۲)حجۃ الاسلام اکیڈمی (۳) قدیم دارالاقامہ
(۴)پانی کاٹینک (۵)روڈ پروجیکٹ (۶)دارالقرآن)۔
(۱)اطیب المساجد(۲)حجۃ الاسلام اکیڈمی (۳) قدیم دارالاقامہ
(۴)پانی کاٹینک (۵)روڈ پروجیکٹ (۶)دارالقرآن)۔
آئندہ کے منصوبے
٭دارالاہتمام۔٭دارالاساتذہ۔٭جدید دارالاقامہ (ہاسٹل)
٭مدرسہ ثانویہ
٭دارالاہتمام۔٭دارالاساتذہ۔٭جدید دارالاقامہ (ہاسٹل)
٭مدرسہ ثانویہ
عامر ظفر قاسمی کٹھیلا مدھوبنی ۔
ناظم مدرسہ معہد الطیب
نبی کریم نئی دهلی
No comments:
Post a Comment