Saturday, 14 July 2018

حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ کی شادی

حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ کی شادی
حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ سکھ گھرانے سے تھے، اسلام قبول کرلیا، دارالعلوم دیوبند میں پڑھنے آگئے، یہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے سسر بڑے سمجھ دار آدمی تھے، انہوں نے احمد علی کو اس وقت پہچانا جبکہ احمد علی احمد علی نہیں تھا، حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ یہ ولایت کبری کے مقام کے لوگوں میں سے تھے، مستجاب الدعوات بزرگوں میں سے تھے، ان کا درس قرآن بہت مقبول تھا، بہت مانی ہوئی غیر متنازع شخصیت تھی، اپنی شادی کا واقعہ سناتے ہیں، ذرا شوق و توجہ سے سنیں، فرماتے ہیں کہ میرے سسر کو بیوی نے اطلاع کہ میری بیٹی کی عمر پوری ہوگئی کوئی مناسب رشتہ ہو تو اس کا فرض نبھائیں، تو میرے سسر پنجاب کے مدارس میں اپنی بیٹی کے لئے مناسب بچہ ڈھونڈنے کے لئے نکلے، مدارس میں راؤنڈ کرتے کرتے بالآخر دارالعلوم میں پہنچے، شیخ الہند رحمہ اللہ کے خصوصی دوست تھے، ان سے ملاقات ہوئی تو دورۂ حدیث کے طلباء پر نظر ڈالی، فوراً ان کی نظر میرے اوپر ٹک گئی، انہوں نے شیخ الہند رحمہ اللہ سے پوچھا کہ یہ بچہ شادی شدہ ہے؟
انہوں نے کہا: نہیں اسے کون لڑکی دے گا، یہ سکھ گھرانے کا لڑکا ہے اور یہاں کئی دفعہ بیٹھا ہوتا ہے، پڑھنے کے لیے تو اس کی ماں جو سکھ ہے وہ آتی ہے اسے گالیاں نکال کر چلی جاتی ہے، چپ رہتا ہے بے چارہ، اس درویش کو کون بیٹی دے گا؟
انہوں نے کہا کہ: اچھا آپ ان سے پوچھیں اگر یہ تیار ہوں تو میں اپنی بیٹی کے ساتھ نکاح کردوں گا؟
فرمایا: پوچھ لیتے ہیں،
شیخ الہند رحمہ اللہ نے پوچھا تو کہنے لگے کہ: حضرت میں بے یارومددگار سا بندہ ہوں، اگر کوئی مجھے اپنا بیٹا بنائے اور اپنی بیٹی کا رشتہ دے تو میں تو اس سنت پر عمل کرلوں گا اور اس سے زیادہ خوش نصیبی کیا ہوسکتی ہے؟
انہوں نے بتادیا، چنانچہ سسر نے کہا کہ: کل عصر کے بعد ہم ان کا نکاح پڑھ دیں گے، فرمانے لگے کہ میں کمرے میں آگیا،اب میں نے اپنے دوستوں کو بتادیا کہ بھئی کل میرا نکاح ہونا ہے، لہٰذا یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح سب لڑکوں میں پھیل گئی، اب لڑکے آنے شروع ہوگئے، جناب کوئی کچھ کہتا ہے، ایک نے کہا بھئی بات یہ ہے کہ یہ جو تم نے کپڑے پہنے ہوئے ہیں یہ تو بہت میلے کچیلے پرانے ہیں، تم کسی سے ادھار لے کر دوسرے پہن لو، میں نے کہہ دیا بھائی بات یہ ہے کہ میں نے کبھی کسی سے ادھار نہیں مانگا، جو ہیں میرے اپنے ہیں، میں کسی سے لے کر نہیں چلتا۔
ساتھی نے کہا: اچھا اگر آپ کسی سے ادھار نہیں مانگ سکتے تو مت مانگئے، ایسا کریں کہ کل ان کپڑوں کو آپ دھوکر صاف کرکے پھر پہن لینا، مجمع میں کم از کم صاف کپڑوں میں تو بیٹھوگے، فرمانے لگے میری بدبختی آگئی کہ میں نے ہاں بھرلی، اگلے دن سبق ختم ہوا تو میں نے دھوتی سی باندھی اور کپڑے اتارے اور ان کو دھو ڈالا۔ اللہ کی شان سردیوں کا موسم اوپر سے بادل آگئے، اب ظہر کا وقت بھی قریب آ گیا، میرے کپڑے گیلے میں مسجد کے پیچھے جاکر کپڑوں کو لہرارہا ہوں اور اللہ سے دعا مانگ رہا ہوں، اللہ میرے کپڑے خشک کردے، وہ تو نہ ہونے تھے نہ ہوئے اور ظہر کی اذان ہوگئی، اب مجھے مجبوراً گیلے کپڑے پہن کر سردی کے موسم میں مجمع میں بیٹھنا پڑا، اب سب کہیں کہ جی دولہا کون ہے؟ اب سب کی نظر مجھ پر پڑے اور پتہ چلے گیلے کپڑے سردی میں پہن کے بیٹھا ہے، فرمانے لگے میرے سسر کو اللہ نے وہ سونے کادل دیا تھا انہوں نے دیکھا کہ کل یہی کپڑے تھے اور میلے تھے، آج یہی ہیں اور گیلے ہیں، اس کا مطلب یہ کہ اس بچے کے پاس دوسرا جوڑا بھی نہیں ہے، ان کے دل پر اس بات کا کوئی اثر نہ ہوا وہ تو میری پیشانی کے نور کو دیکھ رہے تھے۔
مرد حقانی کی پیشانی کا نور۔۔ کب چھپا رہتا ہے پیش ذی شعور۔ تو کہنے لگے انہوں نے میرا نکاح پڑھ دیا، جب میں فارغ ہوگیا، دورۂ حدیث سے اور رخصتی ہوگئی تو جب میں بیوی کو لے آیا تو ابتدائی ایک دو مہینے میرے پاس رہی، ان میں بھی اسے فاقہ کرنا پڑا، کیوں کہ میرے پاس تو کچھ ہوتا نہیں تھا، جو ملتا ہم دونوں کھالیتے ورنہ فاقہ سے دن گزارتے۔ مہینہ کے بعد وہ اپنے میکے گئی جیسے بچیاں جاتی ہیں، شادی کے بعد تو فرماتے ہیں کہ جب وہ اپنے گھر گئی تو اس کی ماں نے پوچھا بیٹی تو نے اپنے گھر کو کیسا پایا؟ فرمانے لگی، اتنی تقیہ تقیہ پاکباز وہ بچی تھی اپنی ماں سے کہنے لگی کہ امی میں تو سنتی تھی کہ مرکر جنت میں جائیں گے اور میں تو جیتے جاگتے جنت میں پہنچ گئی ہوں، اللہ اکبر کبیرا! اتنی صابرہ شاکرہ تھی، کہنے لگے بس پھر اللہ تعالیٰ نے میرے گھر میں برکتیں دینی شروع کردیں، جب خاوند ایسا ہو اور بیوی ایسی ہو تو پھر برکتیں کیوں نہ ہوں گی، چنانچہ حضرت فرمانے لگے ایک وہ وقت تھا کہ کھانے کو نہیں ملتا تھا، اور ایک آج احمد علی پر وہ وقت ہے کہ میرے کھانے کے لیے طائف سے پھل آتے ہیں اور پھر انہوں نے فرمایا کہ سرگودھا کے علاقہ کے بڑے بڑے لوگ جو سرگودھا کے کلیار ہیں، ان کی بیویاں آج میرے گھر میں آکر برکت کے لیے جھاڑو دے کر جاتی ہیں، اتنے بڑےلین لارڈوں کی بیویاں برکت کے لیے میرے گھر میں آکر جھاڑو دے رہی ہیں، آج اللہ کا مجھ پر اتنا کرم ہے۔
تو کتنی عجیب بات ہے کہ سکھ گھرانے کا بچہ جس کا کوئی اپنا نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا میں ایسی عزتیں عطا فرما دیں، چنانچہ مشہور واقعہ ہے کہ اپنی وفات کے بعد وہ علماء میں سے کسی بڑے عالم کو خواب میں نظر آئے، اس نے پوچھا حضرت آگے کیا بنا تو حضرت کثیر البکاء تھے (کثرت سے روتے تھے) خوف خدا ہر وقت دل پر رہتا تھا، فرمانے لگے اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی ہوئی تو پروردگار نے فرمایا: احمد علی تو اتنا روتا کیوں تھا؟
کہنے لگے جب مجھ سے پوچھا تو مجھے خیال آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:
’’جس سے حساب کتاب میں پوچھ شروع ہوگئی وہ نہیں بچے گا.‘‘
تو میں ڈر گیا اور جب میں ڈرا تو پروردگار نے فرمایا: احمد علی اب بھی ڈر رہے ہو، آج تمہارے ڈرنے کا نہیں خوش ہونے کا دن ہے، ہم نے تمہیں معاف کردیا اور جس قبرستان میں تمہیں دفن کیا وہاں کے سب گناہ گاروں کو بھی ہم نے معاف کر دیا،
چنانچہ ان کی قبر کی مٹی سے خوشبو آیا کرتی تھی، ہزاروں انسانوں نے ان کی قبر کی مٹی اٹھاکر گھر لے جانا شروع کردیا تھا، تو علماء متوجہ ہوئے، پھر انہوں نے مل کر مستقل دعا مانگی: اے اللہ! بس جو چیز ظاہر ہورہی ہے، اس ظہور کو ختم کردے، ورنہ لوگ مٹی ہی نہیں چھوڑیں گے،
اللہ تعالیٰ نے اتنے صلحاء کی دعا کو قبول کرلیا، تب جاکر ان کی قبر سے خوشبو آنی بند ہوگئی۔
اللہ تعالیٰ عزتیں عطا فرما دیتے ہیں، جس کا اپنا کوئی نہیں ہوتا ساری دنیا پھر اس کی بن جاتی ہے، جس کو کھانے کے لیے روٹی نہیں ملتی، اس کو کھانے کے لیے پھر طائف سے پھل آیا کرتے ہیں، ماشاء اللہ میرے دوستو آج کے زمانے میں تو یہ آسان ہے، جب بحری جہاز آتے جاتے تھے اس زمانہ میں طائف سے پھل آنا کوئی آسان کام نہیں تھا، تو اللہ رب العزت دنیا میں عزتیں عطا فرماتے ہیں...



No comments:

Post a Comment