اختر رضا خان ازہری کے ایک خلیفہ کا اندازِ ماتم
آہ! حضور تاج الشریعہ رضی اللہ عنہ
دل غموں سے بوجھل ہے، آنکھیں پر آب ہیں، سینہ چھلنی ہے اور دنیائے ہوش و حواس میں رنج و کرب کا طوفان برپا ہے۔ آج حضور تاج الشریعہ کو پردہ فرمائے ہوئے چار روز ہوگئے اور بدن میں اب تک کپکپی طاری ہے، قلم سنبھلنے کا نام نہیں لیتا، حروف لفظ بننے تک بگڑ جاتے ہیں اور الفاظ یکجا ہوکر ماتم کرنے لگتے ہیں۔
چمن اداس ہے، گلشن ماتم کناں ہے، باغ و بہار کو نظر لگ گئی ہے، حضور جب تک تھے تو موسم خزاں بھی بہار کا مزہ دیتا تھا، اب تو بہار بھی اپنا منھ چھپالے گی۔
دو روز تک تو یقین ہی نہ ہوا کہ حضور پردہ فرماگئے، مریدین نے بہت یقین دلایا، لیکن دل کہہ رہا تھا کہ حضور نہیں گئے، حضور کا جسد خاکی جنت کی سیر کو گیا ہے۔
قبر شریف میں رکھے جانے کا منظر کبھی نہیں بھلا سکتا، دل تو چاہ رہا تھا کہ حضور کے ساتھ میں بھی مدفون ہوجاؤں، لیکن حضور کی نصیحت تھی کہ ان کے بعد ان کے مریدین کو کون سنبھالے گا، اتنی بڑی ذمہ داری کی طاقت تو میرے پاس نہیں ہے، تاہم جو بھی حضور کا جانشیں بنے گا میری اجازت سے ہی بنے گا۔
یہ غم میرے لیے قابل تحمل نہ ہوتا اگر غمِ حسین میری زندگی کا اثاثہ نہ ہوتا۔
میں نے کئی برس تاج الشریعۃ کی خدمت کی ہے، کبھی آپ نے مجھے ڈانٹا تک نہیں، ابھی دو سال قبل ہی آپ نے خلافت عطا کی تھی، ابھی تو مجھے بیعت کرنے کا سلیقہ تک نہیں آیا تھا کہ آپ نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ آپ کی نگاہ شفقت نے لاکھوں دلوں پر حکومت کی ہے، آپ کے رہتے ہوئے مجھے کسی کی سرکار کسی کی حکومت کی خبر ہی نہ رہتی تھی، کہ میں مکمل حضور کی سرکار کے ماتحت تھا، میرے نزدیک تاج الشریعہ کا ہر حکم قانون کا درجہ رکھتا تھا، آپ کے ہر فرمان پر شوق و سعادت سے عمل پیرا ہوتا۔ آپ نے شریعت اور مسلک اعلی حضرت کو اس طرح شیر و شکر کرکے عوام کو دین سمجھایا ہے کہ اعلیٰحضرت بھی خوش ہوکر بارہا خواب میں آئے اور اپنی خوشی و مسرت کا اظہار فرمایا۔
اب زیادہ لکھنے کی ہمت نہیں ہوپارہی ہے، ہر لفظ پر حضور تاج الشریعہ کا نورانی چہرا نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مری چشمِ پرنم سے چھپ جانے والے
از: مفتی مدبر ننگا خاکی خلیل الرضوی بریلوی خلیفہ حضور تاج الشریعہ ازہری میاں
صدر ٹی ٹی ایس کمیٹی بریلی شریف
چمن اداس ہے، گلشن ماتم کناں ہے، باغ و بہار کو نظر لگ گئی ہے، حضور جب تک تھے تو موسم خزاں بھی بہار کا مزہ دیتا تھا، اب تو بہار بھی اپنا منھ چھپالے گی۔
دو روز تک تو یقین ہی نہ ہوا کہ حضور پردہ فرماگئے، مریدین نے بہت یقین دلایا، لیکن دل کہہ رہا تھا کہ حضور نہیں گئے، حضور کا جسد خاکی جنت کی سیر کو گیا ہے۔
قبر شریف میں رکھے جانے کا منظر کبھی نہیں بھلا سکتا، دل تو چاہ رہا تھا کہ حضور کے ساتھ میں بھی مدفون ہوجاؤں، لیکن حضور کی نصیحت تھی کہ ان کے بعد ان کے مریدین کو کون سنبھالے گا، اتنی بڑی ذمہ داری کی طاقت تو میرے پاس نہیں ہے، تاہم جو بھی حضور کا جانشیں بنے گا میری اجازت سے ہی بنے گا۔
یہ غم میرے لیے قابل تحمل نہ ہوتا اگر غمِ حسین میری زندگی کا اثاثہ نہ ہوتا۔
میں نے کئی برس تاج الشریعۃ کی خدمت کی ہے، کبھی آپ نے مجھے ڈانٹا تک نہیں، ابھی دو سال قبل ہی آپ نے خلافت عطا کی تھی، ابھی تو مجھے بیعت کرنے کا سلیقہ تک نہیں آیا تھا کہ آپ نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ آپ کی نگاہ شفقت نے لاکھوں دلوں پر حکومت کی ہے، آپ کے رہتے ہوئے مجھے کسی کی سرکار کسی کی حکومت کی خبر ہی نہ رہتی تھی، کہ میں مکمل حضور کی سرکار کے ماتحت تھا، میرے نزدیک تاج الشریعہ کا ہر حکم قانون کا درجہ رکھتا تھا، آپ کے ہر فرمان پر شوق و سعادت سے عمل پیرا ہوتا۔ آپ نے شریعت اور مسلک اعلی حضرت کو اس طرح شیر و شکر کرکے عوام کو دین سمجھایا ہے کہ اعلیٰحضرت بھی خوش ہوکر بارہا خواب میں آئے اور اپنی خوشی و مسرت کا اظہار فرمایا۔
اب زیادہ لکھنے کی ہمت نہیں ہوپارہی ہے، ہر لفظ پر حضور تاج الشریعہ کا نورانی چہرا نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مری چشمِ پرنم سے چھپ جانے والے
از: مفتی مدبر ننگا خاکی خلیل الرضوی بریلوی خلیفہ حضور تاج الشریعہ ازہری میاں
صدر ٹی ٹی ایس کمیٹی بریلی شریف
No comments:
Post a Comment