Wednesday 28 August 2013

How Clean Water And Good Hygiene Could Make Your Child مائیں بنا رہی ہیں بچوں کو ٹھگنا!

سارہ الیاسی
ہوسکتا ہے پہلی مرتبہ سننے میں یہ بات کچھ عجیب سی لگے لیکن اس سے انکار محال ہے کہ بچے اپنی ماو ¿ں کے سرد رویہ کے سبب متعدد نقصانات سے دوچار ہیں۔ ایک محقق اییل ویلمین نے کہا کہ تجزیئے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صاف پانی، صفائی اور غذائیت کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے جبکہ اس کا مزاج بنانے میںگھر کی خواتین کا اہم رول ہوتا ہے ۔صاف پانی اور صابن کا استعمال جہاں صحت اور صفائی کیلئے ضروری ہے وہیں ایک سائنسی تجزئیے میں پہلی باراس حقیقت کا انکشاف کیا گیا ہے کہ بچوں کو صاف پانی اور صابن مہیا کرنے سے نہ صرف ان کی نشوونما بہتر ہوتی ہے بلکہ ان کے قد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
 عالمی سطح پر رکھی گئی ہے نظر:
برطانوی سائنسدانوں نے دنیا بھرسے جمع کردہ اعدادوشمار کے جائزے کے نتیجے میں ایسے شواہد پیش کئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ پینے کے صاف پانی اور صفائی کا خیال رکھنے سے بچوں کے قد میں .5 یا آدھ سینٹی میٹر کا اضافہ ہوا۔حال ہی میں’ لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن‘ London School of Hygiene & Tropical Medicine جسے مخفف طور پر LSHTM بھی کہتے ہیس‘ اور بین الاقوامی فلاحی ادارہ 'واٹر ایڈکے زیر انتطام کم آمدنی اور پسماندہ ممالک میں کی جانے والی تحقیق کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس تحقیق میں چودہ ممالک شامل تھے جن میں پاکستان ،بنگلہ دیش، نیپال، نائجیریا، ایتھوپیا اور جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے تقریباً دس ہزار بچوں کا معائنہ کیا گیا۔
ناقص صفائی نے کردیا ٹھگنا:
سائنسی ماہرین کے مطابق، ایسے گھرانے، جہاں پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پینے کا صاف پانی اور صابن سے ہاتھ دھونے کی سہولت میسر تھی ان کے قد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جبکہ، ناقص صفائی کا انتطام رکھنے والے گھرانوں میں بچوں میں اسہال اورپیٹ کے کیڑوں کی بیماری کے باعث غذائیت کی کمی اورکمزور نشوونما کے ساتھ قد بڑھنے کی رفتار بھی سست پائی گئی۔تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر ایلن ڈینگور Dr. Alan Dangour کا کہنا تھا کہ تحقیق کا نتیجہ بچوں میں غذائیت کی کمی کی دشواری سے نمٹنے کیلئے ایک اہم پیش رفت ثابت ہو سکتا ہے۔ ’صاف پانی کی فراہمی اور صحت وصفائی کا انتطام بچوں میں ڈائریا یا دست کی بیماری سے ہونے والی اموات کو روکنے کیلئے موثرطریقہ ثابت ہو سکتا ہے جو دنیا بھر میں بچوں کی ہلاکتوں کا تیسرا بڑا سبب ہے تو دوسری طرف صاف پانی اورصابن کی فراہمی بچوں کی اچھی نشوونما کیلئے بھی ضروری ہے۔‘
 نشو نما ءپر منفی اثر:
ان کا کہنا تھا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بچوں میں ڈائریا کا مرض پھیلنے کا اصل سبب پینے کا گندا پانی ہے۔ ”بار بار ہونے والی دستوں کی بیماری سے بچے جسمانی غذائیت سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیںجن کے اثرات طویل مدتی ہوتے ہیں جس سے نہ صرف ان کی نشونما متاثر ہوتی ہے بلکہ قد بڑھنے کی رفتار بھی سست پڑ جاتی ہے۔‘ تحقیق سے منسلک ایک اور محقق اییل ویلمین نے کہا کہ تجزیئے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صاف پانی، صفائی اور غذائیت کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ایک اندازے کے مطابق کمزور نشونما اور غذائیت کی کمی کے باعث دنیا میں ہر سال 31 لاکھ بچے موت کی نیند سو جاتے ہیں جن میں سے نصف تعداد ان بچوں کی ہے جن کی عمریںمحض5 برس سے کم ہوتی ہیں۔


How Clean Water And Good Hygiene Could Make Your Child Grow Taller!
 By : Sara Iliyasi
Researchers have found evidence that clean water and soap are not only important for general hygiene, but may also play a role in growth potential in young children. When data from Bangladesh, Ethiopia, Nigeria, Chile, Guatemala, Pakistan, Nepal, South Africa, Kenya, and Cambodia was examined, researchers found a consistent trend. Children under five years of age who lived in households with good, standard sanitation were 0.5 centimeters taller than children in otherwise poor living conditions. According to reports, August 2, 2013, the 14 studies, led by the LSHTM or London School of Hygiene & Tropical Medicine and the international charity WaterAid, observed data from nearly 10,000 children. After an analysis of each region, researchers found for the first time a link between hygiene and growth, which will provide proof that better access to services may have a small but significant impact on the growth of young children. Over 265 million children worldwide are threatened by poor growth and related long-term health impacts. A public health nutritionist at LSHTM and the report's lead researcher, Dr. Alan Dangour, stressed that sanitation, clean water, and hygiene can ultimately reduce death from symptoms like diarrhea. According to the WHO or World Health Organization, diarrhoeal disease is the second leading cause of death for children under the age of five. Despite the fact that diarrhea is both preventable and treatable, there are nearly 1.7 billion cases every year, and of those, 760,000 children under the age of five die. It is the leading cause of malnutrition for these children and can be easily prevented by having access to safe drinking water, adequate sanitation, and general hygiene practices. "What we've found by bringing together all of the evidence for the first time is that there is a suggestion that there interventions improve the growth of children and that's very important," Dangour told BBC News. 
Follow Us 
Dangour said that the findings are key to tackling the "burden of undernutrition" for children. When people are undernourished, they lose the ability to maintain natural body capacities like growth, resisting infections, recovering from disease, learning, physical work, pregnancy, and lactation in women, according to the United Nations Children's Fund (UNICEF). In South Asia, 46 percent of children under the age of five are underweight, while in sub-Saharan Africa, 28 percent of children are underweight. "Similar patterns are seen in the prevalence of stunting-where children's height is low for their age," according to UNICEF's Progress For Children data. The 14 studies revealed clear connections among the quality of children's drinking water, diarrhea, growth, and repeated illness. "It makes absolute sense that there should be a link between dirty water, diarrhoea and growth outcomes but it's interesting that it's never been shown before," said Dangour. "Half a centimeter doesn't sound a lot but in our estimates that increase in growth equates to a reduction in stunting of about 15%, which is quite important."
290813 maai bana rahi hey bachcho ko thigna by sara iliyasi

Doing up your home on a budget! خواتین کیلئے گھریلو بجٹ بن گیا ہے چیلنج!

سارہ الیاسی
ہندوستانی معیشت کو رواں دہائی میں بدترین بحران کا سامنا ہے جو اس کی سیاسی اور اقتصادی برادری کیلئے باعث پریشانی ہے لیکن عام خواتین پیاز کی قیمت سے پریشان ہیں۔نوبت یہ آگئی ہے کہ اتوار کو دلی جے پور شاہراہ پر ڈاکوو ¿ں نے چالیس من پیاز سے لدے ہوئے ٹرک کو اغوا کر لیاگیا تھا جبکہ دیگر اشیائے ضروریہ میں بھی خواتین پہلے سے کہیں زیادہ سودے بازی کر رہی ہیں۔ماہرین کے نزدیک ایک خاتون خانہ کی قابلیت کا اندازہ اس سے بھی لگتا ہے کہ وہ حسب حیثیت زندگی گزارے، اگر ممکن ہو تو کچھ پس انداز کرے دوسروں کی مدد میں بھی کچھ نہ کچھ خرچ کرے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کفایت شعاری یا بچت کیلئے کون سے طریقے اپنائے جائیں؟خواتین کو اس کیلئے چند باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ جب بازار جائیں تو اتنی ہی چیز خریدیں جتنی کہ ضرورت ہو۔ خرچ کیلئے جو رقم لے جائیں اس میں سے بچاکر لانے کی کوشش کریں۔ اپنی ضرورت کا سامان خریدنے کے بعد خواہ کتنی سستی چیز کیوں نہ ملے ہرگز نہ خریدیں۔ دوکاندار جو چیزیں دکھائے دیکھ لیں ، بھاﺅ معلوم کرلیں۔ لیکن ضرورت نہ ہو تو کبھی نہ خریدیں اور آمدنی کم، خرچ زیادہ نہ ہو، اس کا ہر دم خیال رکھیں۔
 قناعت اور اعتدال برتنے کی ضرورت:
 قناعت اور اعتدال پسندی سے کام لیں۔ یہی گھریلو بجٹ کے چیلنج کا معقول جواب ہوسکتا ہے۔ملازم رکھتے وقت بھی کافی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے، جب تک ذمہ دار، شناسا اور مناسب ملازم نہ ملے ہرگز نہ رکھا جائے، ملازم کی پولس کے ذریعہ شناخت کرالی جائے ورنہ اس میں تھوڑی سی بھی تساہلی برتنے سے بڑا نقصان پہونچ سکتا ہے۔ غیر ذمہ دار ملازم آپ کو مالی نقصان پہونچا سکتا ہے بعض اوقات مال کے ساتھ جان کے لالے پڑجاتے ہیں۔عام طور پر لوگ روپیہ پیسہ کمانا مشکل سمجھتے اور اسے خرچ کرنا ان کیلئے بہت آسان ہوتا ہے ایسے لوگ آمد وخرچ میں توازن، کفایت شعاری اور سلیقے مندی سے کام نہیں لیتے تو ان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ کئی مالدار گھرانوں میں گھر کا تمام کام ملازموں پر چھوڑ دیا جاتا ہے، گھر کی مالکن بڑے کرنسی نوٹ دیکر کئی کئی دن حساب نہیں لیتیں ، مالکوں کے گھر سے غائب رہنے سے نوکروں کی بن آتی ہے، ان کے ذاتی مہمان گھر میں آنے جانے لگتے ہیں ایسے گھروں میں خانہ داری کا انظام ممکن نہیں رہتا، اسلئے ضروری ہے کہ ملازموں کو صحیح طریقہ سے تربیت دی جائے نیز گھر کی ہر لڑکی کو شادی سے قبل گھر جانے کی کچھ نہ کچھ ٹریننگ ضروردی جائے۔
 خوشحالی کیلئے بچیں قرض سے :
 اسی طرح گھر کے سازوسامان کی حفاظت پر بھی توجہ دی جائے، ہر صبح اور رات کو نوکر کی غیر موجودگی میں باورچی خانے کی الماریاں، برتن ، گھی، تیل اور دوسرے سامان پر نظر ڈال لی جائے۔بعض لوگ قرض کے سہارے اپنی گھریلو زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں جبکہ تجربہ کاروں کا کہنا ہے کہ جہاں تک ہوسکے قرض سے بچا جائے ایک خوشحال اور فارغ البال زندگی گزارنے کا پہلا اصول یہ ہے کہ آدمی ادھار کی زندگی جینے سے بچے کیونکہ ادھار لیتے وقت برا نہیں لگتا لیکن بعد میں اس کا ادا کرنا ایک مصیبت اور جی کا جنجال بن جاتا ہے۔اس لئے بہتر طریقہ یہ ہے کہ شروع سے فضول خرچی کی عادت نہ ڈالی جائے اور کفایت شعاری کی زندگی گزاری جائے۔ در حقیقت گھریلو بجٹ بنانا اپنی آمدنی کو ایک توازن کے ساتھ خرچ کرنے کا دوسرا نام ہے، جس میں کفایت شعاری کافی مدد گار ثابت ہوتی ہے اور فضول خرچی پریشانی کا باعث بنتی ہے۔
فضول چیزوں سے اجتناب:
 پھر دن بدن آسمان کو چھوتی مہنگائی کے اس دور میں انسان دو باتوں پر خاص توجہ دے تو وہ سکون واطمینان کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرسکتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ خرچ کرنے سے قبل سوچ لے کہ کہیں وہ غیر ضروری تو نہیں ہے، فضول چیزوں پر ایک پیسہ صرف نہ کیا جائے، کس دل میں خواہش اور امنگیں نہیں ہوتیں لیکن ان کو اپنی قوتِ خرید کا پابند رکھنا چاہئے، دوسری یہ کہ مہنگائی برق رفتاری کے ساتھ بڑھ رہی ہے لہذا مستقبل کیلئے بھی کچھ نہ کچھ رقم ضرور پس انداز کرکے رکھ لینی چاہئے، آج کے مزہ کیلئے کل کی پریشانی مول لینے والے اچھے بجٹ ساز نہیں ہوسکتے۔بجٹ سرکاری ہو یا گھریلو وہ ایک چیلنج ہوتا ہے اور اس کو تیار کرتے وقت اپنی ضرورتوں کا لحاظ کرکے آمدنی وخرچ کو دیکھا جاتا ہے۔ انسانی ضروریات میں پہلی ضرورت اس کا مکان ہوا کرتی ہے۔ دوسری ضرورت اس کا لباس ہوتی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پہنو جو لوگوں کو پسن آئے، پھر اس کے بعد کھانے پینے کی ضرورت کا نمبر آتا ہے، سمجھدار خواتین اور گھر کی ذمہ دار اپنی آمدنی کے اندر بجٹ بناتی ہیں اور جو آمدنی کا لحاظ نہیں رکھتیں انہیں مالی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اسی طرح دوسری گھریلو ضرورتوں کو پورا کرنے کی کافی اہمیت ہوتی ہے، مثال کے طور پر تعلیم کا خرچ، اخبارات کا بل، بجلی، نل اور ٹیلی فون کے ماہانہ اخراجات، تہوار، تقاریب، مہمان نوازی، سیر وتفریح اور ایسے ہی دوسرے پروگراموں کیلئے رقم کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اچھی گرہستن خواتین اپنا بجٹ بناتے وقت اخراجات کی ان سب مدوں کا خیال رکھتی ہیں اور سمجھدار بیویاں تو اپنے شوہر سے صلاح ومشورہ بھی کرلیتی ہیں اور جو ان سبھی پہلوﺅں کو سامنے نہیں رکھتیں، انہیں بعد میں مالی دقتوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
 سنبھالے نہیں سنبھلتا بجٹ:
 ایک مرتبہ جب ان کے گھریلو بجٹ کا توازن بگڑجاتا ہے تو پھر وہ مہینوں سنبھالے نہیں سنبھلتا۔آج کے اس شدید مصروفیات کے دور میں جب مرد اپنا کاروبار چلانے یانوکری کرنے میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں تو متعدد گھروں کیلئے خریداری کا کام عورتیں ہی کرتی ہیں اور جو سلیقہ مند خاتون ہوتی ہیں وہ خریداری سے پہلے اپنی گھریلو آمدنی کو سامنے کر بجٹ بنالیتی ہیں کیونکہ وہ اس حقیقت سے واقف ہوتی ہیں کہ جتنی چادر ہو، اتنے ہی اپنے پیر پھیلانے چاہئے۔پھر بھی اس کیلئے ضروری ہے کہ عورت پڑھی لکھی ہو، امور خانہ داری میں اسے خاطر خواہ دلچسپی ہو، فضول خرچی سے پہلو بجاتی ہو۔ جب کسی عورت میں یہ صلاحیتیں جمع ہوجاتی ہیں تو وہ گھر کا بجٹ متوازن رکھنے میں کامیاب رہتی ہے۔وہ زمانہ اب باقی نہیں رہا جب عورتوں کو گھر کی چہار دیواری تک محدود رہنا پڑتا تھا ان کا کام زیادہ سے زیادہ گھر کا کام کاج انجام دینا ہوتا تھا، آج عورتیں ہی نہیں نو عمر لڑکیاں بھی مختلف پیشوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھارہی ہیں اس لئے جب ان کے ہاتھ میں بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ گھریلو بجٹ تیار کرنے کا کام آتا ہے تو وہ اس میں مردوں سے زیادہ اہلیت اور مہارت کا ثبوت دیتی ہیں۔

Doing up your home on a budget!
By: Sara Iliyasi
Do you know how to decorate home within your budget? Accoding to expertss...
Have a theme in mind 
Once you decide on a theme, you will end up looking for decor ideas and items restricted to the theme. Hence, it will spare you of the temptation of picking up items just because you fancy it. If it doesn't go with your theme, don't buy it and this should be your rule when you shop.
Rearrange the furniture 
Decorating doesn't mean you have to buy new stuff. Just shifting your furniture around the room will definitely give it a new look. If you have two similar looking pieces of furniture together, put them in opposite corners. Break up three-piece sofa sets with coffee tables or potted plants.
Wall decoration 
If you've always had bare walls in the room, you can give it an entire new feel by adding a couple of decor items on the wall. You don't have to go in for those expensive paintings; just frame up memorable photographs and randomly hang them on the walls. If you have kids, get them to do some art work and frame it up. Make sure there's a lot of colour, it will brighten up the room
The 'green' factor 
Potted plants add a nice burst of energy in a room. Moreover, plants are relatively inexpensive and all they need is a bit of care and attention. Get a variety of plants — some big ones, some creepers, some flowering plants and an assortment of cactus pots, these are perfect to place on a table top or a window frame.
Treasure hunt 

Used furniture is a treasure trove of inexpensive items that you can pick up for your home. All you need to do is re-varnish or polish the used furniture and it's as good as new. If you're lucky you could even pick up a couple of antique pieces for a steal and place them in strategic corners of the house. 
290813 khawaateen keliye khangi budgut ban gaya hey aazmaish by sara iliyasi

Children Who Drink Lots of Soda More Likely to Be Aggressive? کون سنبھالے گا نئی نسل کی ذمہ داری؟

زینب زنیرا 
 رنگ بدلتی دنیاکے حالات ماو ¿ں کو اولاد کی تربیت سے غافل کررہے ہیں۔ ماحول میں تبدیلی آرہی ہے۔ ایک طوفانِ ِ بد تمیزی و بد تہذیبی ہے جو ہر سمت سے نئی نسل کے فرد کو گھیر رہی ہے۔ شاید اس میں ماوں کابھی قصور ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بے جا لاڈو پیار اور ڈھیل دے رہی ہیں۔ دہلی کے متعدد مقامات کے علاوہ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی سوڈے پر مشتمل مشروبات کا زور ہے۔ بچے اپنی جیبوں میں موجود پیسوں کے سبب بلا تحقیق نہ جانے کیا کچھ کھا پی رہے ہیں۔تشویش کی بات یہ ہے کہ ایک نئی تحقیق سے پتہ چلاہے کہ جو کم عمر بچے ایک دن میں چار یا اس سے زائد مرتبہ کولا مشروبات پیتے ہیں ان میں جارحیت کا عنصر اپنی عمر کے دیگر ان بچوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جو سوڈا نہیں پیتے۔
بچوں کے رویہ پر منفی اثر:
اس تحقیق کیلئے تحقیق دانوں نے پانچ برس کے بچوں کی تقریباً تین ہزار ماو ¿ں سے ڈاٹا اکٹھا کیا۔ ان ماوں کو کہا گیا کہ وہ دو ماہ کیلئے اس بات کا حساب رکھیں کہ ان کے بچے دن میں کتنی مرتبہ سوڈا یاکولا مشروبات پیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان ماو ¿ں کو اپنے بچوں کے روئیے پر بھی نظر رکھنے کو کہا گیا۔ڈاٹا سے ظاہر ہوا کہ 43 فیصدی کم عمر بچے دن میں کم از کم ایک مرتبہ سوڈا ضرور پیتے ہیں جبکہ دوسری طرف 4 فیصدبچے دن میں چار یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ سوڈا پیتے تھے۔
تحقیق نے کھولا ہے بھید:
تحقیق سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج سے ظاہر ہوا کہ جو بچے زیادہ سوڈا پیتے ہیں وہ اپنی عمر کے دیگر بچوں یعنی جو زیادہ سوڈا نہیں پیتے‘ ان کے مقابلے میں دو گنا زیادہ جارحانہ رویئے رکھتے ہیں۔کولمبیا کے میلمین ا سکول آف پبلک ہیلتھ Columbia’s Mailman School of Public Healthسے وابستہ ماہر شاکرہ سگلیا Shakira Suglia کے بقول’جو بچے دن میں چار یا اس سے زیادہ میٹھے مشروبات پیتے ہیں، ہم نے ان میں جارحانہ روئیے اور اپنی طرف توجہ مبذول کرانے جیسے عناصر دیکھے۔‘
کیوں ہوتے ہیں لڑائی جھگڑے؟
بچوں کے جارحانہ رویوں میں دوسروں کی چیزوں کو توڑنا، لڑائیوں کا آغاز کرنا اور جسمانی طور پر دوسروں پر حملہ آور ہونا وغیرہ شامل تھا۔شاکرہ سگلیاکے مطابق’ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ چھوٹے بچے جو زیادہ سوڈا پیتے ہیں وہ واقعی دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ جارحانہ رویہ رکھتے ہیں۔شاکرہ سگلیا کے الفاظ میں، ’ہم ابھی یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ بچوں کے سوڈا پینے اور جارحانہ رویئے کے درمیان کوئی تعلق ہے۔‘

Children Who Drink Lots of Soda More Likely to Be Aggressive?
By: Zainab Zinnira
A new study has found that young children who drink four or more servings of soft drinks per day are more likely to show signs of aggression than youngsters who don’t drink soda. According to reports, August 16, 2013, researchers asked the mothers of approximately 3,000 5-year-olds to keep track of how many servings of soft drinks their children drank per day during a two-month period and complete a checklist of their children’s behavior. The data showed that 43 percent of the youngsters consumed at least one serving of soda each day. At the other end, 4 percent of the youngsters had four or more sodas. Epidemiologist Shakira Suglia at Columbia’s Mailman School of Public Health in New York City conducted the study with colleagues from the University of Vermont and Harvard University School of Public Health. She says they found that children who consumed the most soda were more than twice as likely as those who drank no soda to display disruptive behaviors. “For the children who consumed four or more soft drinks per day, we see an association between aggressive behaviors, attention problems and withdrawn behaviors," she said. "This is after adjusting for a number of socio-demographic factors, as well as whether the child was consuming candy and sweets, their fruit juice consumption on a typical day, as well as some other social conditions that may be occurring in the home that may be related to those behaviors as well as parenting styles and practices.” The data were compiled as part of the Fragile Families and Child Wellbeing Study, which follows 5,000 low income mother-child pairs from birth in 20 U.S. cities. Disruptive behaviors noted by the investigators included destroying possessions belonging to others, getting into fights and physically attacking people. Among adolescents, studies have found the highest sugar consumption in those who carry weapons and engage in more negative social behaviors. Suglia says it’s not clear at this point why young children who drink a lot of soda act out in inappropriate ways. “We can’t prove that this is a direct cause and effect relationship," she said. "Having said that, there are a lot of ingredients in soda, a lot of ingredients that have not been examined in relation to behavior." Shakira Suglia suggests that one of those ingredients - caffeine, which is a mild stimulant - could be causing young children to engage in disruptive behavior. An article linking soda consumption and aggressive behavior in young children is published in The Journal of Pediatrics. 
290813 kaun sanbhaley ga nai nasal ki zimmedari by zainab zinnira

Monday 26 August 2013

کیسے بچیں زہر آلود پانی سے؟ What is The Solution of Poisonous Water?

زاراساگر

شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں ایک کروڑ 40 لاکھ افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے‘ ایسی صورت میں وہ جو پانی وہ پیتے ہیں وہ زہر آلود ہوتا ہے۔عجیب بات تو یہ ہے کہ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی آب زم زم کے نام پرزہر آلود پانی فروخت ہورہا ہے۔اس زہر آلود پانی میں سنکھیا ہوتا ہے۔ دراصل سنکھیا ایک ایسا کیمیائی مادہ ہے جو چٹانوں اور مٹی میں پایا جاتا ہے۔ اگر یہ کیمیائی مادہ پانی میں شامل ہو جائے تو انسانی صحت کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ صورتحال ایسے مقامات پر زیادہ خراب ہو جاتی ہے جہاں لوگوں کے پاس زمین سے پانی نکال کر پینے کے علاوہ کوئی دوسرچارہ کار میسر نہیںہے۔
سائنسدانوں نے نکالا مسئلہ کا حل:
اسی دشورای کے پیش نظر اب سائنسدانوں نے ایک ایسا آلہ بنایا ہے جس سے پانی میں موجود سنکھیا کی مقدار کو ناپا جا سکتا ہے۔یوروپ سے تعلق رکھنے والے ایک سائنسدان روڈ ریگز لاڈو کی جانب سے تیارکردہ اس آلے کا تجربہ چین میں کیا گیا۔اس ضمن میں چین میں موجود تمام کنوو ¿ں کے پانی پر تجربہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے۔ آلہ ایجاد کرنے والے سائنسدان روڈ ریگز لاڈو کہتے ہیں کہ چین اتنا بڑا ملک ہے کہ روایتی طریقوں سے اس کام کو مکمل ہوتے کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں لیکن ان کے آلے کے استعمال کے بعد اس عمل میں تیزی لائی جا سکتی ہے۔
 بچایا جا سکتاہے وقت اور پیسہ بھی:
روڈ ریگز لاڈو کے الفاظ، ’ہمارے بنائے ہوئے ماڈل سے ان علاقوں کی جلد نشاندہی کی جا سکتی ہے جہاں پر پینے کے پانی میں سنکھیا خطرناک شرح تک موجود ہے۔ اس سے ہم ان علاقوں میں جہاں پینے کے پانی میں سنکھیا بڑی مقدار میں موجود ہے، نہ صرف نشاندہی کر سکتے ہیں بلکہ ہنگامی بنیادوں پر وہاں کام کرکے وقت اور پیسہ بھی بچایا جا سکتا ہے۔‘یونیورسٹی آف ڈیلاوئیر سے تعلق رکھنے والی ہولی مائیکل کے بقول’ اس ماڈل کی مدد سے نہ صرف ان علاقوں کی نشاندہی ہوگی جہاں پانی میں سنکھیا موجود ہے بلکہ ماڈل میں موجود علاقے میں آبادی کے تناسب کا حساب کرکے یہ تعیّن بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہاں کی آبادی کو زہر آلود پانی سے کون کونسے طبّی مسائل لاحق ہو سکتے ہیں۔‘
 آب زم زم کے نام پر زہر؟
گذشتہ دنوںبرطانیہ میں آب زم زم کے نام پر زہر آلود پانی فروخت کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کیلئے مقدس تصور کیا جانے والا آب زم زم برطانیہ کی دکانوں میں فروخت ہو رہا ہے جبکہ اس میں ایسے خطرناک کیمیکل ہیں جو انسانی صحت کیلئے مضر ثابت ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب عمرہ یا حج کرنے کیلئے جانے والے لوگ تبرک کے طور پر یہ پانی اپنے ساتھ لا سکتے ہیں تاہم اسے تجارتی بنیادوں پر برطانیہ میں استعمال کیلئے نہیں لایا جا سکتا۔ بی بی سی کے ایک انڈر کور محقق نے ایسٹ اور ساو ¿تھ لندن اور لوٹن میں دکانوں پر آب زم زم کی بڑی تعداد میں بوتلیں دیکھی ہیں۔ ایسوسی ایشن آف پبلک اینالسٹس کے صدر ڈاکٹر ڈنکن کیمبل نے کہا ہے کہ وہ عوام کو ایسا پانی پینے کی تلقین نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پانی زہر آلود ہے اور اس میں سنکھیا کی بڑی مقدار موجود ہے جو کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔ بی بی سی نے عمرہ کیلئے جانے والے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ آب زم زم سے خود پانی کو لا کر اس کا موازنہ دکانوں میں غیر قانونی طور پر فروخت ہونے والے پانی سے کریں۔ ادھر انوائرمنٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر یونس رمضان کے بقول’ آب زم زم کا معاملہ انتہائی حساس ہے، لوگ اس کو مقدس پانی تصور کرتے ہیںجبکہ لوگ یہ سوچ نہیں سکتے کہ یہ پانی زہر آلود ہوگا تاہم سعودی عرب اور برطانیہ کے حکام کو ایسے پانی کے خلاف ایکشن لینا چاہئے۔


What is The Solution of Poisonous Water?
By: Zara Sagar
About 140 million people around the world drink water contaminated with unsafe-levels of arsenic.According to reports, August 22, 2013, the element is found naturally in rocks and soil, but exposure to it presents a major public health problem, especially in regions where untreated groundwater is the only reliable source of drinking water.Scientists have deployed a new statistical tool that can help predict the greatest risk of contamination.
Luis Rodriguez-Lado led the team that designed the method. The soil scientist from University of Santiago de Compostela says the model was tested in China, where in 1994 the Chinese government declared arsenic poisoning an endemic disease.
Officials responded with an initiative to test all wells in the country. Rodriguez-Lado says the effort is so massive that it could take decades to complete. He says his model can help speed that up, while it complements traditional testing methods.
Holy drinking water contaminated with arsenic is being sold illegally to Muslims by UK shops, "Zam Zam" water is taken from a well in Mecca and is considered sacred to Muslims, but samples from the source suggested it held dangerous chemicals.
Tourists can bring back small amounts from Saudi Arabia, but it cannot be exported for commercial use. An undercover researcher found large quantities of bottles being sold in east and south London, and in Luton.The president of the Association of Public Analysts said he would "certainly would not recommend" drinking it.
'Poisonous' drink ,
A BBC investigation discovered "Zam Zam" water was being sold by Muslim bookshops in Wandsworth, south-west London, and Upton Park, east London, as well as in Luton, Bedfordshire.according to reports, 5 May 2011, "The water is poisonous, particularly because of the high levels of arsenic, which is a carcinogen," said Dr Duncan Campbell, president of the Association of Public Analysts."The limits set in drinking water are set there for very good reason."Once the water gets above that limit, it's not safe."
Secret recordings captured the vendors describing customers who drank it daily.
"They depend on it, they don't drink anything else," said the owner of an Islamic bookshop in Upton Park.
Last year the Food Standards Agency said people "should consider avoiding" the drink in the UK, which it said came from dubious sources.
'Sensitive matter'
The BBC asked a pilgrim to take samples from taps which were linked to the Zam Zam well and to buy bottles on sale in Mecca, to compare the water on sale illegally with the genuine source.
These showed high levels of nitrate and potentially harmful bacteria, and traces of arsenic at three times the permitted maximum level, just like the illegal water which was purchased in the UK.
Dr Yunus Ramadan Teinaz, an environmental health officer who has previously warned about "Zam Zam" water, said it was "a sensitive matter".
"People see this water as a holy water," he added.
"They find it difficult to accept that it is contaminated but the authorities in Saudi Arabia or in the UK must take action," he said.
None of the three shops involved would say why they were selling the water or how they obtained it, but further investigation suggested it had now been removed from their shelves. The Saudi embassy in London declined to comment on the issue of contamination at the source in Mecca.

Friday 23 August 2013

Hazardous Chemicals in Cosmetics! میک اپ؛ کیا آپ ناقص اشیاءخرید رہی ہیں؟

شبانہ سعید
  انسانی جلد بہت حساس ہوتی ہے ‘خصوصا خواتین کا معاملہ زیادہ نازک ہوتا ہے۔بناو سنگھار خواتین کا حق بھی ہے اور مجبوری بھی لیکن آج کل کی میک اپ مصنوعات سے خواتین کی جلد اور صحت کو نہایت سنگین خطرات لاحق ہیں،اور ان خطرات کو ختم کرنے میں سب سے اہم کردار نہ صرف خود خواتین کا ہے جو قدرتی طریقے اختیار کر کے ان نقصانات سے بچ سکتی ہیں بلکہ میک اپ مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کی احتیاط سے بھی خواتین کاتحفظ ہو سکتا ہے جبکہ ناقص اشیاءکے استعمال سے نہ صرف چہرے کی خوبصورتی ماند پڑسکتی ہے بلکہ جلد کی بیماریاں بھی لگ سکتی ہیں‘ اس لئے میک اپ کی اشیاءخریدنے میں احتیاط کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ خریداری کے وقت احتیاط کریں تو جلدی امراض سے بھی بچ سکتی ہیں۔بازار میںایسی اشیاءکی بہتات ہے جو میک اپ کے عنوان پر فروخت کی جارہی ہیں جبکہ ان کے ذریعہ حسن میں افزائش کی بجائے مضر اجزا ءکی شمولیت کے خدشات بھی پائے جاتے ہیں۔کیلی فورنیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے یہ درےافت کیا ہے کہ ٹرائی کلو سان نامی کیمکل جو سینکڑوں گھریلو اور میک اپ مصنوعات میں استعمال ہوتا ہے۔اس سے خواتین نہ صرف دل کے مسائل میں مبتلاءہو سکتی ہیں بلکہ مختلف دیگر بیماریوں کا بھی شکار ہو سکتی ہیں،خصوصا لپ اسٹک کے استعمال خواتین کی صحت کیلئے انتہائی مضر ہیں۔
لپ اسٹک کا ہے شوق بہت:
اگر میک اپ کی تمام اشیا کو سامنے رکھا جائے تو لپ استک وہ واحد پروڈکٹ ہے جو سب سے زیادہ استعمال میں لائی جاتی ہے۔ اسی لئے بازار میں جتنے رنگ لپ اسٹک کے موجود ہیں شاید ہی کسی اور اشیا کے ہوں۔ لپ اسٹک چونکہ سب سے زیادہ استعمال میں آنے والی شے ہے‘ اس لئے اس کی خریداری میں بھی چند باتوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے سب سے پہلے لپ اسٹک کو ہاتھ کی الٹ طرف لگا کر چیک کریں مگر کھی بھی ہونٹ پر لگا کر شیڈ منتخب مت کریں کیونکہ اس طرح جراثیم اس پر منتقل ہوجاتے ہیں۔ خوشبو چیک کرلیں‘ اگر خوشبو نہیں آرہی تو اسے مت لیں کیونکہ اس کو کھلا رکھا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ لپ اسٹک کے بیرونی کنارے بالکل صاف ستھرے ہوں کیونکہ استعمال شدہ اور پرانی لپ اسٹک بہہ کر کناروں پر جم جاتی ہے۔ ایسی لپ اسٹک جس کا ڈھکن فکس نہ ہو اسے مت خریدیں کیونکہ اس طرح لپ اسٹک Solid ہوتی ہے اس پر گرد کی تہ جم جاتی ہے اس کے علاوہ رنگت خود بتا دیتی ہے۔ یہ لپ اسٹک پرانی ہے یا نئی اس لئے اچھی طرح چیک کرنا بہت ضروری ہے۔
سنبھلیں لپ اسٹک سے:
اس حوالے سے ڈاکٹر سلوت عسکری جو کہ ایک ماہر بیوٹیشن اور ڈائٹیشن ہیں بتاتی ہیں کہ لپ اسٹک کوکیمکل کے مضر اثرات سے قطع نظر بہت زےادہ خوبصورت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔یوں تو تقریبا تمام ہی میک اپ مصنوعات خواتین کے جسم کو اندرونی و بیرونی طور پر متاثر کرتی ہیں لیکن لپ اسٹک ایک ایسی پروڈکٹ ہے جس کے بہت زےادہ استعمال سے خواتین کی صحت کوشدید نقصان پہنچنے کاخدشہ لاحق ہوتا ہے،اس کی وجوہات بتاتے ہوئے ڈاکٹر سلوت کہتی ہیں کہ ان مصنوعات کے بے دریغ استعمال سے خواتین کی صحت کو کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔اس حوالے سے ڈاکٹر سلوت عسکری کے بقول’میک اپ مصنوعات بنانے والی تمام کمپنیوں کو مصنوعات کی تےاری کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ مضر صحت کیمکل ان مصنوعات میں شامل نہ کئے جائیں،اس کے علاوہ ان کیمکلوں سے متعلق آگاہی سے بھی ان کے مضر اثرات سے کافی حد تک محفوظ رکھ سکتی ہے جبکہ لپ اسٹک خواتین کی آرائش و زیبائش کا ایک اہم حصہ ہے۔
پیک چیزیں خریدنے کو دیںترجیح :
میک اپ کے سامان کو دیرپا بنانے کیلئے ان میں ایسے کیمیکل ڈالے جاتے ہیں جو ان کو خراب ہونے سے بچاتے ہیں لیکن ایک بار کھولنے کے بعد ان کیمیکل کی خصوصیات میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے لہٰذا ایسی اشیائ جو کہ بازار میں کھلی رکھی گئی ہیں ان کو بالکل مت خریدیں اور ہمیشہ پیک اشیاءپر اصرار کریں۔
طویل عرصے تک نہ کریںاستعمال:
جس طرح کھانے کی پیک کی گئی چیزوں پر وقت کا تعین کردیا جاتا ہے اس طرح میک اپ میں عام استعمال ہونے والی اشیا کا تعین نہیں کیا جاتا ہے کہ اسے کب تک استعمال میں لایا جائے۔ اس لئے جب بھی اشیا خریدیں اپنے پاس تاریخ نوٹ کرلیں اور کھولنے کے بعد طویل عرصے تک استعمال نہ کریں۔
استعمال سے قبل پڑھ لیں ہدایات :
خریداری کرنے سے قبل ان پر دی گئی ہدایات کو اچھی طرح پڑھ لیں کہ یہ آپ کی جلد کی مناسبت سے موزوں ہے کہ نہیں کیونکہ غلط اشیائ کا استعمال جلد کو نقصان پہنچا سکتا ہے جیسے کیل مہاسوں اور داغ دھبوں کو دور کرنے کیلئے بازار میں بے شمار کریمیں‘ لوشن‘ فیس واش موجود ہیں مگر جلد کی شناخت (یعنی خشک‘ چکنی) کے حوالے سے ان مصنوعات کا غلط ستعمال جلد کو مزید خراب کردیتاہے اور بعض اوقات ان کے مضر اثرات تادیر محسوس ہوتے رہتے ہیں۔
اچھی طرح کرلیںچیک :
خریداری سے قبل Texture کو اچھی طرح چیک کرلیں کیونکہ پرانی اور غیر معیاری اشیا کی بناوٹ بہت جلد تبدیل ہوجاتی ہے۔ جیسے رنگت میں فرق آنا‘ پگھل جانا یا خوشبو میں فرق آنا۔
استعمال شدہ اشیاءسے بچیں:
جب بھی خریداری کریں اس بات کا یقین کرلیں کہ اس کو پہلے استعمال میں نہیں لایا گیا۔ اکثر خواتین دکان پر ہی اس انداز سے چیک کرتی ہیں کہ ان پر نشانات باقی رہ جاتے ہیں اس لئے ایسی آئٹم جوکہ دکان میں چیک کرنے کیلئے رکھے گئے ہیں ان کو مت خریدیں۔
معیاری کمپنیوں کو دیں ترجیح :
میک کی اشیاءہمیشہ معیاری کمپنیوں کی خریدیں کیونکہ غیر معیاری اور سستی اشیا جلد الرجی کا سبب بنتی ہیں۔
منتخب چیزیں ہی خریدیں:
جس طرح کپڑے‘ جوتے‘ جیولری میں وقت کیساتھ ساتھ تبدیلی وقع ہوتی ہے اسی طرح میک اپ کی کلر اسکیم میں بھی فرق آتاق ہے یعنی اگر ایک دور میں Brown یا Red رنگ کی لپ اسٹک فیشن میں موجود ہوں تو تھوڑے ہی عرصے بعد ان کی جگہ Pink یا Purpleرنگ لے لیتا ہے اسی طرح دوسری مصنوعت یعنی بلشر آئی شیڈ بھی فیشن کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور چونکہ میک اپ کی مصنوعات طویل عرصے تک استعمال کرنا مناسب نہیں اس لئے فیشن کے مطابق کم تعداد میں خریداری کریں جوکہ استعمال میں لائی جاسکیں اور وہ رکھے رکھے خراب ہوں اور نہ ہی فیشن میں پرانی ہوجائیں۔
میک اپ کی چند بنیادی اشیا کی خریداری:
کیسے پہنچانیںفاﺅنڈیشن کو؟
ایسی فاﺅنڈیشن کی بوتل جس کے کناروں پر گاڑھا سیال جما ہو اس کو ہر گز مت خریدیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسے یا تو بار بار چیک کیا گیا ہے یا استعمال شدہ ہے اور ساتھ ہی خوشبو بالکل ختم ہوجاتی ہے یا بدبوآنے لگتی ہے۔ اگر آپ کے پاس اس قسم کی فاﺅنڈیشن موجود بھی ہے تو ا س کو ہرگز استعمال نہ کریں یہ جلد پر کالے نشان چھوڑ جاتا ہے۔
 پاﺅڈرکیسا ہوتا ہے اچھا؟
خریدتے وقت اس کی خوشبو چیک کرلیں ایسا پاﺅڈر جس پر ایک مختلف رنگ کی تہ یا جس رنگ کا پاﺅڈر ہے اسی رنگ کی مناسبت سے گہرے رنگ کی ایک تہ جمی ہو ایسا پاﺅڈر مت لیں اس کا مطلب ہے کہ یہ پرانا ہوچکا ہے اس کے ساتھ ہی پاﺅڈر جس ڈبیا میں جما ہوا ہے اس میں جگہ جگہ دراڑ آگئی ہو ایسے پاﺅڈر کو بھی ہرگزنہ خریدیں کیونکہ یہ بھی اس بات کی علامت ہے کہ اسے بار بار استعمال کیا گیا ہے اور پرانا ہوچکا ہے۔
 خطرناک ہوسکتا ہے مسکارا:
مسکارا کی تیاری میں اسپرٹ استعمال کیا جاتا ہے اور جب استعمال کیلئے اسے کھولا جاتا ہے تو اسپرٹ اڑ جاتا ہے‘ اس لئے مسکارا ہمیشہ ایسا لیں جس میں کھلنے کے بعد مضبوطی سے بند ہونے کی صلاحیت موجود ہو ورنہ مسکارا بہت جلد خشک ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ہی مسکارا جس شیپ کابھی لیں یعنی کنگھی یا برش پر مشتمل ہو ‘اس بات کا خیال رہے کہ وہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہوں ایسا مسکارا جس کے برش کے کنارے پھیل گئے ہوں‘ وہ آنکھوں میں چبھ کر انفیکشن پیدا کرتے ہیں جس سے فوری طور پر آنکھوں میں سوجن ہوجاتی ہے اور پانی بہنے لگتا ہے۔
آئی شیڈکو جانیں:
عموماً دو طرح کے آئی شیڈ استعمال کئے جاتے ہیں ایک پاﺅڈر اور دوسرا لیکوئڈ Liquidاگر آپ پاﺅڈر آئی شید خرید رہی ہیں تو معیار کو ترجیح دیں کیونکہ غیر معیار کمپنی کے آئی شیڈ چونکہ پاﺅڈر بیس پر مشتمل ہوں وہ موجود پیک کے اندر ہی اردگرد پھیل جاتے ہیں جبکہ معیاری آئی شیڈ اپنی جگہ پر ہی قائم رہتے ہیں۔اسی طرح محلول کی صورت میں آئی شیڈ پر اگر باریک باریک قطرے موجود ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ پرانا ہوچکا ہے یا کافی دیر تک روشنی میں رکھا گیا ہے جبکہ ان اشیا کو دھوپ کی تیز روسنی سے بچانا بہت ضروری ہے اور ہماری آنکھ چہرے کا وہ نازک حصہ ہے جو ذراسی بھی بے احتیاطی سے فوری رد عمل دکھاتا ہے۔
کیا ہوتا ہے آئی لائنر؟
آئی لائنر پنسل یا لیکوئڈ استعمال کئے جاتے ہیں اگر پنسل والا آئی لائنر خریدنا ہو تو اس چیز کا دھیان رکھئے کہ وہ نرم Softہو اور زیادہ رگڑنا نہ پڑے بصورت دیگر آنکھیں سوج سکتی ہیں ۔پنسل کی لکڑی قطعی ہموار ہو اس میں کٹ نہ ہو اور کنارے خراب نہ ہوں کیونکہ اس طرح کی پنسل جب بھی چھیلی جاتی ہے‘ اس کے اندر آئی لائنر ٹوٹا ہوا ملتا ہے۔ اسی طرح لیکوئڈلائنر کو بھی چیک کرلیں کہ لیکوئڈ جما ہوا نہ ہو اور اس کے اندر موجود برش کے کنارے Pointed ہوں تاکہ خوبصورتی سے لائن لگائی جاسکے اور وہ مضبوطی سے بند ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو پنسل پر کور موجود ہونا چاہئے۔
کیسے ہوتے ہیںمیک اپ آلات؟
جس طرح تمام اشیا کی خریداری میں احتیاط لازمی ہے اسی طرح استعمال میں لائے جانے والی آلات میں بھی احتیاط پرتنی چاہئے۔ جیسے اسفنج کی خریداری میں یہ ضروری دیکھ لیں کہ وہ Rough نہ ہو اس قسم کے اسفنج جلد کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ برش جس مقصد کیلئے بھی لیں اس کے سائز اور بناوٹ کو ضرور ددیکھ لیں۔ ایسے برش جو کہ سخت ہوں کو استعمال نہ کریں ہمیشہ نرم بالوں والا برش خریدیں اسی طرح آئی شیڈ لگانے کیلئے جو باریک اسفنج خریدیں اس کو دبا کر ضرور چیک کرلیں کہ اس کے اندر سخت پلاسٹک نہ ہو ورنہ لگانے کے دوران اسفنج پھٹ جاتا ہے اور آنکھوں میں چبھ سکتا ہے۔اس طرح میک اپ کی خریداری میں ان تمام احتیاطوں کو مد نظر رکھیں اور سستی اور غیر معیاری اشیا کی بجائے معیار کوترجیح دیں۔   



Hazardous Chemicals in Cosmetics!
By: Shabana Saeed
Some of the ingredients in cosmetics and personal care products are toxic chemicals that may be hazardous to your health. Take a look at some of the ingredients to watch for and the health concerns raised by these chemicals. According to reports, some of the ingredients in beauty products aren't that pretty. U.S. researchers report that one in eight of the 82,000 ingredients used in personal care products are industrial chemicals, including carcinogens, pesticides, reproductive toxins, and hormone disruptors. Many products include plasticizers (chemicals that keep concrete soft), degreasers (used to get grime off auto parts), and surfactants (they reduce surface tension in water, like in paint and inks). Imagine what that does to your skin, and to the environment. We surveyed Canadians to see how many of the Dirty Dozen ingredients below appeared in their cosmetics, and our findings show that 80 per cent of entered products contained at least one of these toxic chemicals. You can avoid harmful chemicals when you use our shopper's guide, and audit your bathroom cupboard using this list of harmful ingredients:
1. BHA and BHT
Used mainly in moisturizers and makeup as preservatives. Suspected endocrine disruptors and may cause cancer (BHA). Harmful to fish and other wildlife. Read more »
2. Coal tar dyes: p-phenylenediamine and colours listed as "CI" followed by a five digit number. In addition to coal tar dyes, natural and inorganic pigments used in cosmetics are also assigned Colour Index numbers (in the 75000 and 77000 series, respectively). Look for p-phenylenediamine hair dyes and in other products colours listed as "CI" followed by five digits.1 The U.S. colour name may also be listed (e.g. "FD&C Blue No. 1" or "Blue 1"). Potential to cause cancer and may be contaminated with heavy metals toxic to the brain.
3. DEA-related ingredients
Get the sustainable shopper's guide to cosmeticsUsed in creamy and foaming products, such as moisturizers and shampoos. Can react to form nitrosamines, which may cause cancer. Harmful to fish and other wildlife. Look also for related chemicals MEA and TEA.
4. Dibutyl phthalate
Used as a plasticizer in some nail care products. Suspected endocrine disrupter and reproductive toxicant. Harmful to fish and other wildlife. Read more »
5. Formaldehyde-releasing preservatives
Look for DMDM hydantoin, diazolidinyl urea, imidazolidinyl urea, methenamine and quarternium-15. Used in a variety of cosmetics. Slowly release small amounts of formaldehyde, which causes cancer. Read more »
6. Parabens
Used in a variety of cosmetics as preservatives. Suspected endocrine disrupters and may interfere with male reproductive functions. Read more »
7. Parfum (a.k.a. fragrance)
Any mixture of fragrance ingredients used in a variety of cosmetics — even in some products marketed as "unscented." Some fragrance ingredients can trigger allergies and asthma. Some linked to cancer and neurotoxicity. Some harmful to fish and other wildlife.
8. PEG compounds
Used in many cosmetic cream bases. Can be contaminated with 1,4-dioxane, which may cause cancer. Also for related chemical propylene glycol and other ingredients with the letters "eth" (e.g., polyethylene glycol). Read more »
9. Petrolatum
Used in some hair products for shine and as a moisture barrier in some lip balms, lip sticks and moisturizers. A petroleum product that can be contaminated with polycyclic aromatic hydrocarbons, which may cause cancer. Read more »
10. Siloxanes
Look for ingredients ending in "-siloxane" or "-methicone." Used in a variety of cosmetics to soften, smooth and moisten. Suspected endocrine disrupter and reproductive toxicant (cyclotetrasiloxane). Harmful to fish and other wildlife. Read more »
11. Sodium laureth sulfate
Used in foaming cosmetics, such as shampoos, cleansers and bubble bath. Can be contaminated with 1,4-dioxane, which may cause cancer. Look also for related chemical sodium lauryl sulfate and other ingredients with the letters "eth" (e.g., sodium laureth sulfate).
12. Triclosan
Used in antibacterial cosmetics, such as toothpastes, cleansers and antiperspirants. Suspected endocrine disrupter and may contribute to antibiotic resistance in bacteria. Harmful to fish and other wildlife.

Tuesday 20 August 2013

Does Islam Make The Face Veil Obligatory For Muslim Women? کیا ہوگیا ہے خواتین کو؟

سارہ الیاسی 
 ہندوستان سے تعلق رکھنے والی مسلم خواتین ہی نہیں بلکہ غیر مسلم خواتین بھی اتنی بے حیائی میں ڈبی ہوئی نہیں تھیں کہ ہر کس و ناکس کی جوجہ مبذول کروالیں۔ یہ کوئی زیادہ عرصہ پرانی بات نہیں ہے کہ جب مرکزی دارالحکومت فصیل بند شہر شاہجہاں آبادعرف دہلی میں آباد ہندو عقیدہ کی عورتیں بھی نہ صرف پلو کھینچ کر‘ گھونگٹ نکال کر ایسے انداز سے باہر نکلا کرتی تھیں کہ محلہ والوںکو بھی پتہ نہ چلتا تھا کہ کس یہ گھرکی خاتون ہے لیکن90کی دہائی نے وہ گل کھلایا کہ ایکٹرانک میڈیا‘ انٹرنیٹ اورکثیر القومی کمپنیوں نے مغربی ثقافت کو ایسا فروغ بخشا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد معاشرہ کی شرم و حیا کا جنازہ نکل گیا۔بے لگامی کی اس فضا میں آج یہ عالم ہے کہ مفتیان کرام نے مسلم خواتین کے اپنی تصاویر فیس بک سمیت سوشل میڈیا کے کسی بھی دیگر آوٹ لیٹ پر پوسٹ کرنے یا اپ لوڈ کرنے کو حرام اور خلاف شریعت قرار دیا ہے۔ خواتین کی بے حجابی نے یہ دن دکھلایا ہے کہ اہل علم کو کہنا پڑا کہ ان کیلئے جائز نہیں کہ وہ سوائے محرم رشتوں کے اپنا چہرہ کسی غیر محرم کو دکھائیں۔البتہ مفتی حضرات نے فیس بک کا مردوں کیلئے استعمال بھی صرف کاروبار یا دوسرے مثبت اور بہتر مقاصد کی خاطر جائز قرار دیا ہے۔
معاشرتی رابط کی جلوہ گری:
ہندوستان سے تعلق رکھنے والے معروف اسلامی مکتبہ فکر سے وابستہ اور دینی ہیلپ لائنز پر لوگوں کے دینی امور کے بارے میں استفسارات کے جواب دینے کی شہرت رکھنے والے مفتی ابوالعرفان نعیم الحلیم فرنگی محلی کے بقول’ مسلمانوں کو بالعموم سوشل میڈیا سے دور رہنا چاہئے جبکہ مسلمان خواتین کو بالخصوص سوشل میڈیا سے متعلق سائتس، فیس بک اور انٹرنیٹ پر اپنی تصاویر پوسٹ نہیں کرنا چاہئیں جبکہ ایسا کرنا حرام اور غیر اسلامی ہے۔مفتی فرنگی محلی کا مزید کہنا ہے کہ’یہ اس لئے جائز نہیں کہ مسلم خواتین کو اپنا چہرہ صرف اپنے والد یا بھائی اور دیگر محرم رشتہ داروں کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے۔ ان کے علاوہ کسی کے سامنے بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ہندوستان ہی سے تعلق رکھنے اور دینی امور میں عام لوگوں کی ایک دوسری ہیلپ لائن پر رہنمائی کرنے والے ایک اور عالم دین سیف عباس نقوی کے مطابق وہ لبرل سوچ کے حامل ہیں اور طالبان کا طرز فکر نہیں رکھتے۔ اس لئے جب نوجوان لڑکے ان سے سوشل میڈیا کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ انہیں اس کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں لیکن جہاں تک مسلم خواتین کے سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر پوسٹ کرنے کا تعلق ہے وہ اس کو جائز نہیں سمجھتے۔مفتی فرنگی محلی نے سوشل میڈیا کے بے مقصد اور غیر مثبت استعمال کو بھی ناجائز قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''اگر کسی نے فیس بک اکاونٹ تجارتی یا کاروباری مقاصد کیلئے بنایا ہے تو یہ جائز ہے، اسی طرح کسی اور بہتر مقصد کیلئے بھی سوشل میڈیا کا استعمال جائز ہے۔‘
کیاہوتا ہے چہرہ کھولنے سے؟
عورت کے چہرے کو بے پردہ رکھنے کے بڑے بڑے نقصانات ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
فتنے میں پڑنا:
عورت جب اپنے چہرے کو بے پردہ رکھتی ہے تو اپنے آپ کو فتنے میں ڈالتی ہے کیونکہ اسے ان چیزوں کا اہتمام و التزام کرنا پڑتا ہے جس سے اس کا چہرہ خوبصورت ،جاذب نظر اور دلکش دکھائی دے۔اس طرح وہ دوسروں کیلئے فتنے کا باعث بنتی ہے اور یہ شر و فساد کے بڑے اسباب میں سے ہے۔
شرم و حیا کا جاتے رہنا:
اس عادتِ بد کی وجہ سے رفتہ رفتہ عورت سے شرم و حیا ختم ہوتی جاتی ہے جو ایمان کا جز ار فطرت کا لازمی تقاضا ہے۔ایک زمانے میں عورت شرم و حیا میں ضرب المثل ہوتی تھی ،مثلا کہاجاتا تھا’فلاں تو پردہ نشین دوشیزہ سے بھی زیادہ شرمیلا ہے۔‘شرم و حیا کا جاتے رہنا نہ صرف یہ کہ عورت کیلئے دین و ایمان کی غارت گری ہے بلکہ اس فطرت کے خلاف بغاوت بھی ہے جس پر اسے خالق کائنات نے پیدا کیا ہے۔
مَردوں کا فتنے میں مبتلا ہونا:
بے پردہ عورت سے مردوں کا فتنے میں پڑنا طبعی امر ہے ،خصوصا جبکہ وہ خوبصورت بھی ہو،نیز ملنساری ،خوش گفتاری یا ہنسی مذاق کا مظاہرہ کرے۔ایسا بہت سی بے پردہ خواتین کے ساتھ ہو چکا ہے۔جیسا کہ کسی نے کہا ہے کہ’نظر فسلام فموعد فلقاء’نگاہیں ملیں، سلام ہوا،بات چیت ہونے لگی،پھر قول و قرار ہوئے اور معاملہ باہم ملاقاتوں تک جا پہنچا۔‘شیطان انسانی جسم میں خون کی طرح رواں دواں ہےبار ہا ایسا ہوا ہے کہ باہمی مذاق کے نتیجے میں کوئی مرد کسی عورت پر یا عورت کسی مرد پر فریفتہ ہو گئی جس سے ایسی خرابی پیدا ہوئی کہ اس سے بچاو ¿ کی کوئی تدبیر نہ بن آئی۔اللہ تعالیٰ سب کو سلامت رکھے۔
مرد و عورت کا آزادانہ میل جول:
چہرے کی بے پردگی سے عورتوں اور مردوں کا اختلاط عمل میں آتا ہے۔جب عورت دیکھتی ہے کہ وہ بھی مردوں کی طرح چہرہ کھول کر بے پردہ گھوم پھر سکتی ہے تو آہستہ آہستہ اسے مَردوں سے کھلم کھلا دھکم پیل کرنے میں بھی شرم و حیا محسوس نہیں ہوتی اور اس طرح کے میل جول میں بہت بڑا فتنہ اور وسیع فساد مضمر ہے۔
ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے باہر تشریف لائے۔آپ نے عورتوں کو مَردوں کے ساتھ راستے میں چلتے ہوئے دیکھا،تو عورتوں سے ارشادفرمایاکہ’ایک طرف ہٹ جاو ¿۔راستے کے درمیان چلنا تمہارا حق نہیں ہے۔ایک طرف ہو کر چلا کرو۔‘رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بعد خواتین راستے کے ایک طرف ہو کر اس طرح چلتیں کہ بسا اوقات ان کی چادریں دیوار کو چھو رہی ہوتیں۔اس حدیث کو ابن کثیر رحمةللہ علیہ نے’ ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں ‘کی تفسیر کرتے ہوئے ذکر کیا ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے بھی غیر محرم مَردوں سے عورتوں کے پردہ کرنے کے واجب ہونے کی تصریح کی ہے،چنانچہ وہ آیت کہ جس میں کہا گیا ہے کہ’ اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے‘ کے تحت فرماتے ہیں کہ نماز میں عورت کا ظاہری زینت کو ظاہر کرنا جائز ہے علاوہ باطنی زینت کے،اور سلف صالحین کا زینت ظاہرہ میں اختلاف ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین کے نزدیک ’زینت ظاہرہ‘سے مراد کپڑے ہیں جبکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین کے نزدیک’زینت ظاہرہ‘ سے مراد چہرے اور ہاتھ کی چیزیں ہیں جیسے انگوٹھی اور سرمہ وغیرہ۔ان دو مختلف اقوال کے لحاظ سے اجنبی عورت کی طرف دیکھنے میں فقہاءنے اختلاف کیا ہے۔ایک قول یہ ہے کہ بغیر شہوت کے اجنبی عورت کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھنا جائز ہے یہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمة اللہ علیھم کا مذہب ہے اور ایک قول کے مطابق امام احمد رحمة اللہ علیہ کا بھی۔دوسرا قول یہ ہے کہ دیکھنا ناجائز ہے یہ امام احمد رحمة اللہ علیہ کا (صحیح روایات کے مطابق) مذہب ہے۔اور امام مالک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عورت کا ہر عضو ستر ہے حتی کہ اس کے ناخن بھی۔اس کے بعد شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ’حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کی زینت کے دو درجے مقرر کئے ہیں یعنی زینت ظاہرہ‘ زینت غیر ظاہرہ۔
بدقماش لوگوں کی کثرت :
زینت ظاہرہ کو عورت اپنے شوہر اور محرم مَردوں کے علاوہ دسرے لوگوں کے سامنے بھی کھلا رکھ سکتی ہے۔آیت حجاب نازل ہونے سے پہلے عورتیں چادر اوڑھے بغیر نکلتی تھیں۔مَردوں کی نظر ان کے ہاتھ اور چہرے پر پڑتی تھی۔اس دور میں عورتوں کیلئے جائز تھا کہ چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھیں اور مَردوں کیلئے بھی ان کی طرف دیکھنا مباح تھا کیونکہ ان کا کھلا رکھنا جائز تھا۔پھر جب اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب نازل فرمائی جس میں ارشاد فرمایاکہ’ اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں‘تو عورتیں مکمل طور پر پردہ کرنے لگیں۔اس کے بعد شیخ الاسلام فرماتے ہیںکہ’ :جلباب چادر کا نام ہے۔‘حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اسے ردا (اوڑھنی) اور عام لوگ اسے اذار (تہہ بند)کہتے ہیں۔اس سے مراد بڑا تہہ بند ہے جو عورت کے سر سمیت پورے جسم کو ڈھانپ لے۔جب عورتوں کو چادر اوڑھنے کا حکم اس لئے ہوا کہ وہ پہچانی جا سکیں تو یہ مقصد چہرہ ڈھانپنے یا اس پر نقاب وغیرہ ڈالنے ہی سے ھاصل ہو گا،لہذا چہرہ اور ہاتھ اس زینت میں سے ہوں گے جس کے بارے میں عورت کو حکم ہے کہ کہ یہ غیر محرم مَردوں کے سامنے ظاہر نہیں کرنی چاہئے۔اس طرح ظاہر کپڑوں کے سوا کوئی زینت باقی نہ رہی جس کا دیکھنا غیر محرم مَردوں کیلئے مباح ہو۔اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آخری حکم ذکر کیا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے (نسخ سے) پہلے کا حکم ذکر کیا ہے۔آخر میں شیخ الاسلام فرماتے ہیںکہ’نسخ سے پہلے کے حکم کے برعکس اب عورت کیلئے چہرہ،ہاتھ اور پاو ¿ں غیر محرم مَردوں کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں ہے بلکہ کپڑوں کے سوا کوئی چیز بھی ظاہر نہیں کر سکتی۔‘عورت کو چہرہ،ہاتھ اور پاو ¿ں صرف غیر محرم مَردوں کے سامنے ظاہر کرنے سے منع کیا گیا ورنہ عورتوں اور محرم مَردوں کے سامنے ان اعضاءکے ظاہر کرنے کی اجازت ہے۔‘ایک اور مقام پر فرمایاکہ’اس مسئلہ میں بنیادی بات یہ سمجھ لیجیے کہ شارع کے دو مقاصد ہیں؛اول تو یہ کہ مرد و عورت میں امتیا رہے ،دوم یہ کہ عورتیں حجاب میں رہیں۔‘یہ تو تھا اس مسئلے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کا نقطہ نظر۔ان کے علاوہ دوسرے حنبلی فقہاءمیں سے متاخرین کے چند اقوال نقل کرنے ضروری ہوجاتے ہیں۔’المنتہی‘ میں ہے کہ نامرد،خواجہ سرا اور ہیجڑے کیلئے بھی عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے۔‘’الاقناع‘ میں لکھا ہے کہ’ نامرد ہیجڑے کا عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے۔‘ اسی کتاب میں ایک اور مقام پر ہے کہ’آزاد غیر محرم عورت کی طرف قصدا دیکھنا،نیز اس کے بالوں کو دیکھنا حرام ہے۔‘’الدلیل ‘کے متن میں ہے کہ’دیکھنا آٹھ طرح سے ہوتا ہے۔پہلی قسم یہ ہے کہ بالغ مرد (خواہ اس کا عضو کٹا ہوا ہو ) آزاد غیر محرم عورت کی طرف بلا ضرورت دیکھے۔اس صورت میں عورت کے کسی بھی عضو کو بلا شرعی ضرورت کے دیکھنا حرام ہے حتی کہ اس کے (سر پر لگے) مصنوعی بالوں کی طرف نگاہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔‘شافعی فقہاءکا موقف یہ ہے کہ بالغ آدمی کی نگاہ بطریق شہوت ہو یا اس کے بہک جانے کا اندیشہ ہو تو بلا اختلاف قطعی طور پر حرام ہے۔اگر بطریق شہوت نہ ہو اور فتنے کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ان کے ہاں دو قول ہیں۔مولف’شرح الاقناع‘نے انہیں نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ’صحیح بات یہ ہے کہ اس قسم کی نگاہ بھی حرام ہے جیسا کہ فقہ شافعی کی مشہور کتاب ’منہاج‘میں ہے۔‘ اس کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ عورتوں کا بے پردہ کھلے چہرے کے ساتھ باہر نکلنا تمام اہل اسلام کے نزدیک بالاتفاق ممنوع ہے،نیز یہ کہ نگاہ فتنے کا مقام اور شہوت کی محرک ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ’ مومنوں سے کہہ دو کہ نگاہ نیچی رکھا کریں۔‘احکام شریعت میں ملحوظ حکمتوں کے شایان شان امر یہی ہے کہ فتنے کی طرف کھلنے والا دروازہ بند کیا جائے اور حالات کے تفاوت کو بہانہ بنانے سے گریز کیا جائے۔’نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار‘ میں ہے کہ’ عورتوں کا بے پردہ کھلے چہرے کے ساتھ باہر نکلنا بالخصوص اس زمانے میں جہاں بدقماش لوگوں کی کثرت ہو،بالاتفاق اہل اسلام حرام ہے۔‘
Does Islam Make The Face Veil Obligatory For Muslim Women?
By: Sara Iliyasi
Some think that Muslim women must cover their whole body, including face when in public. Women's dress code in Islam is one of the most focussed upon subjects not only in the Western media but also in Muslim countries, yet it remains one of the most distorted and misunderstood. Clerics in India have denounced "Facebook selfies" as un-Islamic and forbidden Muslim girls from posting pictures of themselves on social networks. According to reports, 11 Aug 2013, two leading helplines for young Muslims seeking guidance have advised  women and teenagers that in Islam the only men who should see their faces are close relatives and their husbands. Prominent Islamic helplines are discouraging young callers, especially women, from creating profiles and posting pictures on popular social networking websites Facebook and Twitter on the ground that it is un-Islamic. "You can't see someone's face on Facebook and decide that you want to be friends. Look for 'pyar aur mohabbat' (love) in real life. Virtual relationships are not 'faydaymand' (profitable)," Sunni Mufti Abul Irfan Naimul Halim Firagni Mahli told PTI on phone from Lucknow. The Mufti wants youngsters to bond in the real and not the virtual world. Of the over 1,000 calls that the Mufti fields in a month on his popular helpline, more than 50% questions are about internet usage. "If one is on Facebook for business purposes or for constructive purposes, then the account is justifiable," he said. However, the Mufti is not pleased about women being on Facebook to make friends and is definitely against them uploading pictures on the social networking site. "Women should not post pictures on Facebook or anywhere else on the Internet. This is un-Islamic," he said. A Maulana from the minority Shia sect too endorsed the Mufti's views. "Women are not allowed to show their faces to anyone apart from their 'mehram' (male kin like father and brothers). So posting pictures on Facebook is 'haraam' (banned)," Maulana Saif Abbas Naqvi told PTI. The heads of the two popular Lucknow-based helplines, run for Shia and Sunni Muslims, have been flooded with phone calls asking if virtual profiles are Islamic.
Muslim women must fully cover up in Islam:
Some think that Muslim women must cover their whole body, including face when in public. Women's dress code in Islam is one of the most focussed upon subjects not only in the Western media but also in Muslim countries, yet it remains one of the most distorted and misunderstood. Firstly, according to The Quran, the most important rule of the dress code for both men and women is as follows; O children of Adam, we have provided you with garments to cover your bodies, as well as to adorn you. But the best garment is the garment of piety/righteousness. These are some of Allah Jall Shanahu's signs, so that they may be mindful. [7:26]. The garment of righteousness/piety could either refer to choosing a garment that reflects this quality or enveloping oneself in righteous/pious conduct is best, or both. The following verses tells women to guard their private parts (i.e. genitalia) and cover their chests; Tell the believing men to lower their gaze and guard their private parts, for that is purer for them. Allah Jall Shanahu is fully aware of what you do. And tell the believing women to lower their gaze and guard their private parts, and that they should not reveal their beauty except what is apparent of it, and let them draw with their covers over their chests. And let them not reveal their beauty except to their husbands, or their fathers, or fathers of their husbands, or their sons, or the sons of their husbands, or their brothers, or the sons of their brothers, or the sons of their sisters, or their women, or those committed to them by oath, or the male servants who are without need, or the child who has not yet understood the composition of women. And let them not strike with their feet that reveals what they are keeping hidden of their beauty. And repent to Allah Jall Shanahu, all of you believers, that you may succeed. [24:30-31]
From the above verse it can be deduced that for the purposes of women's dress code two types of beauty are described; 1) What is apparent (this can be revealed in public) 2) What is hidden (this type must be covered in public, but could be revealed by a striking of feet or walk/stride which is revealing). Such a striking of feet or walk could only reveal a limited number of parts of the body, e.g. the private parts, buttocks, thighs, breasts, hips, thus any part not revealed by such an action should not be considered part of hidden beauty and therefore part of apparent beauty. Of course, this means such things as face, hair, hands, feet etc would not clearly fall into the category of beauty that is meant to be hidden. Furthermore, the verse clearly brackets what beauty it is referring to by saying "...the child who has not yet understood the composition of women" implying it is relating to what is specific to a woman (i.e. what is different between man and woman) nothing else. This understanding would also fit with The Quran's instruction on the body parts that are to be cleansed during daily ablution (hands, arms, face, head and feet), see 5:6, 4:43. A headscarf (commonly called "hijab") is often worn by Muslim women, however this word is not used like this in The Quran. In fact, the word "hijab" is not even used to mean an item of clothing and simply means something which intervenes between two things, e.g. barrier, screen, seclusion. All verses where this word occurs are as follows: 7:46, 33:53, 38:32, 41:5, 42:51, 17:45, 19:17, 83:15. It should also be noted that believing men and women are free to eat in each other's company, whether family or friends [24:61], thus a veil covering the face (commonly called "niqab", or the full veil "burqa") would obviously be impractical. Again, such an item of clothing is nowhere to be found in The Quran. Another common mistake regarding dress code is when the following situation-specific verse is applied to all situations; And those who harm the believing men and the believing women, with no just reason, they have brought upon themselves a slander and a gross sin. O prophet, tell your wives, your daughters, and the wives of the believers that they shall lengthen (or draw near) their outer-garments. Thus, they will be recognized and avoid being harmed. Allah Jall Shanahu is Forgiver, Merciful. If the hypocrites and those with disease in their hearts and those who spread lies in the city do not refrain*, then We will let you overpower them, then they will not be able to remain as your neighbours except for a short while. [33:58-60] *proving harm is already occurring, and refers back to 33:58, which is before the modification in dress is mentioned. The mistake is exposed when the practicalities of applying the above verses are considered. The verses deal with open enmity with significant repercussions for the perpetrators if this behaviour does not stop. The open enmity is direct to the person, hence the need for the women to modify their outer-garment in order to be recognised in public and not harmed. For the suggested solution in these verses to succeed four things must be in place; 1) The open enmity or harm must be present in the community first and direct to the women. 2) The modification in outer-garment and the consequence for the perpetrator of not abiding by this identification code must either be made known to the community or this would have to be common knowledge amongst the community. 3) The modification recommended would be enough to differentiate one group from another. 4) The authority is in place to fight/expel those persisting in this behaviour. Clearly, this specific criteria has to be fulfilled for these verses to work, thus is not a universal rule. It is situation-specific, e.g. if a section of the community become hostile to believing women or women in general and the believers have some power in the land, then they can utilise this solution, effectively giving an ultimatum with no room for excuse for the perpetrators. These verses are commonly interpreted to mean that Muslim women must lengthen (or draw near) their outer-garment whenever in public even in times of peace. However, this is easily refuted by considering that if this was the case and open enmity then appeared, the modification suggested in these verses would already exist, thus implementing the modification in these verses could not be done, thus rendering the solution described in these verses as void. However, from these verses it can be deduced that wearing of an outer-garment by women when in public was the norm. The following verse shows being clothed is the norm but makes it clear that flexibility is allowed in certain situations, as long as we are mindful of modesty. The context is etiquette within the household; And the women who are past child bearing and who do not seek to get married have no sin upon them if they discard their garments*, provided they do not show off with their beauty. If they abstain, then it is better for them. Allah Jall Shanahu is Hearer, Knower. [24:60] *Arabic word is "thiyab" and refers to ordinary clothes/gowns. It should be noted that all examples of dress in The Quran of the righteous or believing men and women involve wearing garments, e.g. 18:31, 22:23, 24:58, 24:60, 35:33, 74:4, 76:21. Also, to provide clothing for others is considered a charitable or righteous act [4:5, 2:233, 5:89]. As can be seen, The Quran gives us a set of simple basic rules with flexible guidance for the rest, which can be applied to different situations/society/function. This flexibility is a mercy but has unfortunately been abused by various schools of thought and religious leaders who have issued their own additional rulings and consequently there is disagreement amongst them on other than the basic rules. Additional notes for Arabic readers:
The word "khumur" is used in 24:31 and can be the plural of "khimaar" or "khimirr", and can mean any cover made of cloth or headcover, according to Classical Arabic dictionaries and Traditional Ahadith/Narrations (see Ibn Kathir tafsir). Please note the Arabic preposition "bi" meaning "with" in "bikhumurihinna", which means they are to cover their chests with their "khumur/covers/headcovers". The usage of preposition "bi" is different to the preposition "min" as used in 33:59 "min jalabeebihinna" which means to use a part of their "jilbab/outer-garment" in the modification suggested, i.e. not all of it has to be lowered or drawn near, just part of it. In 24:31 if Allah Jall Shanahu intended that part of it (e.g. headcover) stays on the head and part of it be used to cover the bosom, it would have been more appropriate to use "min khumurhinna". Furthermore, the word "yadribna" as used in 24:31 has no connotation of lengthening or lowering in any other occurrence, unlike "yudneena" in 33:59 which does, thus would have been more appropriate to use. Even if "khumur" is taken to mean "headcovers" it should be noted that the order is to cover the chest, not the head, of course, one may cover their head if they wish.

210813 kiya ho gaya hey khawaateen ko by sara iliysi



Friday 16 August 2013

Umar ibn Abdul Aziz, the Fifth Rightly Guided Khaleefah! کیسا تھا حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دسترخوان؟

زینب زنیرا
اسلامی تاریخ میں خلفاے راشدین کے بعد جس خلیفہ کا نام انتہائی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علی ہیں جو بنوامیہ کے ساتویں خلیفہ تھے۔حضرت عمر بن عبدالعزیز بن مروان بن حکم کی کنیت ابو حفص تھی جبکہ آپ سلیمان بن عبدالملک کے بعد مسند خلافت پر بیٹھے۔ انہیں ان کی نیک سیرتی کے باعث پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے جبکہ آپ خلیفہ صالح کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ آپ کی مدت خلافت اگرچہ تین برس سے بھی کم ہے مگر اس مختصر عرصے میں آپ نے جو اصلاحات کیں اس سے نہ صرف پورا ملک مستفید ہوا بلکہ بعد میں بھی اس کے نہایت د ±وررس نتائج برآمد ہوئے۔ خاص طور پر ملک کی اقتصادی اور معاشی پالیسی آپ نے جس نہج پر بنائی اس کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔ آپ نے پہلی بار اموی خلفا کے برعکس بیت المال کو عوام کی امانت قرار دیا۔ آپ سے قبل جن خلفا اور حاکموں نے اختیارات کا ناجائز فائدہ ا ±ٹھا کر لوگوں کی زمینوں اور املاک بزور ظلم و زیادتی قبضہ کیا ہوا تھا یا سرکاری املاک کو اپنی جاگیریں قرار دیا تھا، آپ نے ان سب کو ضبط کرلیا۔ اکثر اپنے اصل مالکوں کو لوٹا دیں جو باقی بچا اس کو سرکاری املاک قرار دے دیا۔آپ نے ہر صوبے کی آمدن کو اس صوبے پر خرچ کرنے کی پالیسی بنائی۔ اس کے باوجود اگر رقم بچ جاتی تو وہ دارالخلافہ بھیجی جاتی تھی جہاں اس کو ضرورت کے مطابق خرچ کیا جاتا تھا۔ اس معاشی پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعض صوبے اس قدر آسودہ حال ہوگئے کہ صدقے کی رقم بھی مرکزی بیت المال کو بھیجی جانے لگی، جبکہ مرکز میں اخراجات میں انتہائی احتیاط برتی جاتی تھی۔ بے جا اخراجات پر سخت کنٹرول تھا جس کے سبب اخراجات خصوصاً شاہی اخراجات نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ خود حضرت عمر بن عبدالعزیز کے اہل و عیال کے کھانے پینے کا یومیہ خرچہ صرف دو درہم تھا، حالانکہ خلیفہ بننے سے قبل آپ نے انتہائی پ ±رتعیش زندگی گزاری تھی مگر خلیفہ بننے کے بعد آپ نے سب کچھ ترک کر دیا اور رعایا کی خدمت کو اللہ تعالیٰ کی رضا قرار دیا۔
معاشی اصلاحات کے بعد آپ کا دوسرا سب سے اہم کارنامہ انصاف کی فراہمی تھا۔ انصاف کی فراہمی میں آپ نے کسی کی پروا نہ کی اور نہ کسی کو خاطر میں لائے۔ قانون کی نظر میں سب برابر تھے۔ کسی قسم کا معاشی یا خاندانی مقام و مرتبہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکتا تھا۔ جس کی وجہ سے قانون شکنی کا رجحان ختم ہوا۔ کوئی بھی غیرقانونی کام کرنے سے پہلے ہر شخص کو سو بار سوچنا پڑتا تھا، اس لئے بہت جلد ملک بھر میں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں انصاف کا بول بالا ہوگیا۔ فراہمی عدل کے سلسلے میں آپ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے نقش قدم پر چلے اور تاریخ میںناقابل فراموش نقوش چھوڑ گئے۔ آپ کے ان ہی اقدامات کی وجہ سے آپ کو خلفاے راشدین کے بعد پانچویں خلیفہ راشد قرار دیا جاتا ہے۔
آپ کی اصلاحات مقتدر طبقے کو اور پھر خاص کر شاہی خاندان کے افراد کو بہت ناگوار گزر رہی تھیں۔ وہ اس روک ٹوک کے بھلا کہاں عادی تھے۔ اس لئے پسِ پردہ سازشوں کا تانا بانا ب ±ننے لگے بالآخر آپ کے ایک غلام کو ورغلانے میں کامیاب ہوگئے جس نے آپ کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ آپ کا سالِ وفات ۷۲۰ عیسوی ہے۔ یہاں ہم اس عظیم خلیفہ کے دسترخوان کا حال بیان کرتے ہیں جس کا تذکرہ تاریخ کی مختلف کتابوں میں جگہ جگہ ہوا ہے۔
خلافت سے قبل آپ کا طعام بھی آپ کے لباس کی طرح اچھا خاصا پ ±رتکلف ہوا کرتا تھا مگر خلیفہ بننے کے بعد آپ نے زہد و قناعت اختیار کی۔ تعیشات اور تکلفات کو یک سر موقوف کر دیا۔ کھانا انتہائی سادہ اور ایک سالن پر مبنی ہوتا تھا۔ آپ کا معمول تھا کہ جب آپ کا کھانا تیار ہوجاتا تو کسی برتن میں ڈھک کر رکھ دیا جاتا۔ جب آپ کو کاروبارِ خلافت سے ذرا فرصت ملتی تو خود ہی ا ±ٹھاکر اسے تناول فرماتے تھے۔
خاندانِ بنی ا ±میہ میں مسلمہ بن عبدالملک سب سے زیادہ مال دار، ناز ونعمت کا دل دادہ اور کھانے پینے کے معاملے میں انتہائی فضول خرچ تھا۔ آپ کو جب اس کے کھانے پینے کے بارے میں انتہائی اسراف کا حال معلوم ہوا تو اسے صبح سویرے طلب کیا اور ظہرانے پر مدعو کیا۔ اس کے ساتھ باورچی کو ہدایت کی کہ میرا کھانا حسبِ معمول ہوگا، جب کہ ظہرانے میں مہمان کا کھانا انتہائی پ ±رتکلف اور متنوع ہونا چاہیے مگر اسے تاخیر سے پیش کیا جائے۔
مسلمہ بن عبدالملک صبح سے لے کردوپہر تک کاروبارِ خلافت دیکھتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کی بھوک چمک ا ±ٹھی مگر کھانا ابھی تیار نہ تھا۔ تاہم اس دوران حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عمداً اپنا کھانا منگوایا جو صرف مسور کی دال پر مشتمل تھا۔ آپ نے ان سے فرمایاکہ’آپ کے کھانے میں ذرا دیر ہے، تاہم اگر آپ میرے ساتھ شریکِ طعام ہونا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘ چونکہ وہ اس وقت بھوک سے بے تاب تھے اس لئے خلیفہ کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ گئے اور خوب جی بھر کر کھایا۔ اسی وقت آپ کے اشارے پر خدام نے خصوصی کھانا لگایا تو آپ نے مسلمہ بن عبدالملک سے فرمایا کہ آپ کا کھانا تیار ہے، تناول فرمائیں۔ اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں سیر ہوچکا ہوں۔ اب بالکل گنجایش نہیں۔ یہ سن کر آپ مسکرائے اور فرمایا: اے مسلمہ! جب بھوک کیلئے صرف مسور کی دال کافی ہوسکتی ہے تو پھر اس کیلئے اتنا بے جا اسراف اور تکلفات کیوں؟ مسلمہ ذہین اور دانا آدمی تھے، فوراً بات سمجھ گئے اور انھوں نے اپنی اصلاح کرلی۔
ایک مرتبہ آپ کی پھوپھی کچھ نجی مسائل پر آپ سے صلاح مشورے کیلئے تشریف لائیں۔ اس وقت آپ دسترخوان پر بیٹھے رات کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔ پھوپھی نے دیکھا کہ دسترخوان پر چند ایک چھوٹی چھوٹی روٹیاں، کچھ نمک اور ذرا سا زیتون کا تیل رکھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر اس نے کہا: امیرالمومنین! میں تو اپنی ایک ضرورت کے تحت آپ سے مشورہ لینے آئی تھی، مگر آپ کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ اپنی ضرورت سے قبل مجھے آپ کو ایک مشورہ دینا چاہیے۔ آپ نے کہا: پھوپھی جان! فرمایئے۔ انھوں نے کہا: آپ ذرا نرم اور بہتر کھانا کھایا کریں۔ یہ سن کر آپ نے کہا: یقیناًآپ کا فرمانا بجا ہے، مجھے چاہیے کہ میں ایسا ہی کروں، مگر اس کا کیا کیجیے کہ مجھے بیت المال سے سالانہ ۲۰۰ دینار کا وظیفہ ملتا ہے اور اس میں اتنی گنجایش نہیں ہوتی کہ نرم اور بہتر کھانا کھا سکوں، جب کہ پیٹ کی خاطر مقروض ہونا مجھے گوارا نہیں۔
ایک دفعہ زیان بن عبدالعزیز آپ کے پاس آئے۔ کچھ دیر تک بات چیت ہوئی۔ دورانِ گفتگو آپ نے کہا: کل رات مجھ پر بہت گراں گزری۔ رات بھر کروٹیں بدلتا رہا، نیند بھی بہت کم آئی۔ میرا خیال ہے اس کا سبب وہ کھانا تھا جو رات کو میں نے کھایا تھا۔ زیان نے پوچھاکہ ’ رات کو کیا کھایا تھا؟ آپ نے جواب دیا: مسور کی دال اور پیاز۔ اس پر زیان نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ دے رکھا ہے مگر آپ نے خود ہی اپنے ا ±وپر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ اتنی سخت پابندیاں بھی کچھ اچھی نہیں۔ آپ کو اچھا اور عمدہ کھانا لینا چاہیے۔ اس پر آپ نے تاسف بھرے لہجے میں کہا: میں نے تجھے بھائی سمجھ کر اپنا بھید تجھ پر کھولا مگر افسوس کہ میں نے تجھے اپنا خیرخواہ نہیں پایا، آیندہ محتاط رہوں گا۔
ابواسلم کہتے ہیں کہ ایک دن آپ کا ایک مہمان آیا ہوا تھا۔ آپ نے غلام کو کھانا لانے کو کہا۔ غلام کھانا لے آیا جو چند چھوٹی چھوٹی روٹیوں پر مشتمل تھا، جن پر نرم کرنے کیلئے پانی چھڑکا ہوا تھا اور ان کو روغنی بنانے کیلئے نمک اور زیتون کا تیل لگایا گیا تھا۔ رات کو جو کھانا پیش ہوا وہ دال اور کٹی ہوئی پیاز پر مشتمل تھا۔ غلام نے مہمان کو وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اگر امیرالمومنین کے ہاں اس کے علاوہ کوئی اور کھانا ہوتا تو وہ بھی ضرور آپ کی مہمان نوازی کیلئے دسترخوان کی زینت بنتا، مگر آج گھر میں صرف یہی کھانا پکا ہے۔ امیرالمومنین نے بھی اس کھانے سے روزہ افطار فرمایا ہے۔
آپ کا معمول تھا کہ نمازِ عشاءکے بعداپنی صاحب زادیوں کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور ان کی مزاج پ ±رسی فرماتے۔ ایک رات جب آپ بیٹی کے پاس تشریف لے گئے تو صاحب زادی نے منہ پر ہاتھ رکھا اور ذرا فاصلے پر کھڑی ہوگئیں۔ آپ کو تردّد ہوا تو خادمہ نے عرض کیا: حضور بچیوں نے ابھی کھانے میں مسور کی دال اور کچی پیاز کھائی ہے، بچی کو گوارا نہ ہوا کہ آپ کو اس کی بو محسوس ہو۔ یہ سن کر آپ رو پڑے اور فرمایا: بیٹی! تمھیں کیا یہ منظور ہوگا کہ تم انواع و اقسام کے لذیذ اور عمدہ کھانے کھاو ¿ اور اس کے بدلے میں تمھارے والد کو دوزخ ملے۔ بیٹی یہ سن کر سسک پڑی اور آپ کے گلے لگ گئی۔
مسلمہ بن عبدالملک کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نمازِ فجر کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز کے خلوت خانے پر حاضر ہوا جہاں کسی اور کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ اس وقت ایک لونڈی صیحانی کھجور کا تھال لائی جو آپ کو بہت پسند تھیں اور اسے رغبت سے کھاتے تھے۔ آپ نے دونوں ہاتھوں سے کچھ کھجوریں ا ±ٹھائیں اور پوچھا: مسلمہ! اگر کوئی اتنی کھجوریں کھاکر اس پر پانی پی لے تو کیا خیال ہے یہ رات تک اس کیلئے کافی ہوگا؟ میں نے عرض کیاکہ’ مجھے صحیح اندازہ نہیں، میں قطعی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ کھجوریں کم تھیں۔ اس پر آپ نے کھجوروں سے اوک بھرا اور پوچھا: اب کیا خیال ہے؟ اب چونکہ مقدار زیادہ تھی اس لئے میں نے کہاکہ’ امیرالمومنین! اس سے کچھ کم مقدار بھی کافی ہوسکتی ہے۔‘
کچھ دیر توقف کے بعد آپ نے کہاکہ’ اگر اس قدر کھجوریں کافی ہیں تو پھر انسان اسراف کرکے اپنا پیٹ کیوں نارجہنم سے بھرتاہے۔‘ یہ سن کر میں کانپ ا ±ٹھا اور بعد میں کھانے پینے کے معاملے میں نہایت کفایت شعاری سے کام لینے لگا۔
جب آپ کا وقت وصال آیا توآپ نے اپنے بیٹوں کو طلب کیا اور ان سے فرمایاکہ’ بچو! میں جا رہا ہوں، میرے پاس کوئی دنیاوی مال و متاع نہیں کہ تم کو دے سکوں لیکن تمھارے لئے خیرکثیر چھوڑے جا رہا ہوں۔ تم جب کسی مسلمان یا ذمّی کے پاس سے گزرو گے، اپنے لئے عزت و احترام ہی پاو ¿گے۔ وہ تمھارا حق پہچانے گا کہ یہ اس خلیفہ عادل کی اولاد ہے جس نے اپنی رعایا کو سب کچھ دیا مگر اپنی اولاد کو کچھ لینے نہیں دیا۔ اللہ تمھارا حامی و نگہبان ہو۔ اللہ تعالیٰ تمھیں رزق دے گا اور خوب دے گا۔‘
حضرت عبدالرحمن بن قاسم بن محمد ابی بکر فرماتے ہیںکہ’جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کا انتقال ہوا تو ان کے گیارہ وارث تھے اور ترکہ میں محض 17دینار تھے۔ پانچ دینار کفن پر خرچ ہوئے، دو دینار میں قبر کیلئے جگہ خریدی گئی، باقی اولاد پر تقسیم ہوئے تو ہر لڑکے کے حصے میں فی کس 19 درہم آئے اور جب ہشام بن عبدالملک کا انتقال ہوا اور اس کا ترکہ اس کی اولاد میں تقسیم ہوا تو ایک ایک بیٹے کے حصے میں دس دس لاکھ دینار آئے۔ بعد میں، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی اولاد میں سے ایک نے جہاد کیلئے ایک دن میں سو گھوڑوں کا عطیہ دیا، جبکہ ہشام بن عبدالملک کی اولاد میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اس قدر تنگ دست ہوچکا تھا کہ لوگ اس بے چارے کو صدقہ و خیرات دیا کرتے تھے۔


Umar ibn Abdul Aziz, the Fifth Rightly Guided Khaleefah!
By: Zainab Zinnira
Hazrat Umar Bin Abdul Aziz, the celebrated Umayyad Caliph whose empire stretched from the shores of the Atlantic to the highlands of Pamir, was sitting in his private chamber examining a pile of State documents. The dim light of the room was adding to the serenity and sombreness of the place and the Caliph could scarcely feel the arrival of his wife, Fatima, till she addressed him, "Sire! Will you spare a few moments for me? I want to discuss a private matter with you." "Of course", replied the pious Caliph, raising his head from the papers, "But, please put off this State lamp and light your own, as I do not want to burn the State oil for private talk."
kesa tha hazrat umar bin abdul aziz ka dastankhaan by zainab zinnira

Ramadan : Iftar time at Masjid Nabawi کس دسترخوان نے توڑا ہے عالمی ریکارڈ؟

فاطمہ زارا
دنیا کے کسی اور ملک میںدسترخوان کی ایسی وسعت درج نہیں کی گئی ہے جیسی کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دیکھنے میں آئی ہے۔ عالمی سطح پر روزہ افطار کرنے کے اتنے بڑے اجتماعات نہیں ہوتے جتنے یہاں ہوتے ہیں جبکہ سعودی شہر مدینہ منورہ میں واقع مسجد نبوی دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے انتہائی مقدس جگہ ہے۔ یہاں ہر سال پچاس لاکھ سے زائد افراد زیارت اور عبادات کی غرض سے پہنچتے ہیں۔ سب سے زیادہ افراد دوران حج یہاں کا سفر کرتے ہیں جبکہ دوسری بار رمضان کے مہینے میں یہاں سب سے زیادہ افراد آتے ہیں۔ اسی سبب رمضان میں یہاں صفائی ستھرائی سے لیکر لاکھوں افراد کے سحری اور افطار کے وسیع پیمانے پر انتظامات کئے جاتے ہیں۔ مکہ اور مدینہ کے علاوہ غالباً دنیا کے کسی اور ملک میں روزہ افطار کرنے کے اتنے بڑے اجتماعات نہیں ہوتے جتنے یہاں ہوتے ہیں۔ مسجد نبوی میں روزہ افطار کرنے والوں کی تعداد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ افطار اجتماع کے انتظامات سنبھالنے والے خدام کی تعدداد پانچ ہزار سے زائدہوتی ہے۔ ملازمین کی تعیناتی کیلئے باقاعدہ ایک ایجنسی کام کرتی ہے جس کی خدمات میں مسجد نبوی کے امور کی دیکھ بھال شامل ہے۔ یہ ادارہ سعودی حکمراں شاہ عبداللہ کو جوابدہ ہے۔ شاہ عبداللہ خادم الحرمین شریفین کہلاتے ہیں یعنی مسجد نبوی اور مسجد الحرام مکہ کا’خادم ‘ یا خدمت گزار۔ مسجد نبوی میں 10ہزار سے زائد قالین بچھے ہوئے ہیں جن پر دوران رمضان ہر شام نہایت وسیع وعریض دسترخوان بچھائے جاتے ہیں جن پر بیٹھ کر لاکھو ں عمرہ زائرئن اور دیگر افراد بیک وقت زوہ افطار کرتے ہیں۔ یہ انتہائی پرلطف اور دلکش منظر ہوتا ہے۔ پوری مسجد اس کا صحن اور اردگرد کا تمام علاقہ زورافطار کرنے والوں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے۔ پانچ ہزار ملازمین کے علاوہ صاحب حیثیت سعودی شہری روزے کے انتظامات اپنی جیب سے بھی کرتے ہیں۔ایسے افراد کی تعداد میں سینکڑوں میں ہے۔ ان افراد کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ روزہ دار ان کے دسترخوان پر روزہ افطار کریں چنانچہ روزہ داروں کو مسجد کے گیٹ سے ہی باقاعدہ ہاتھ پکڑ پکڑ کر اپنے اپنے دسترخوان پر بیٹھایا جاتا ہے۔ اس کام کیلئے انہوں نے ملازمین بھی رکھے ہوئے ہیں جن کا کام صرف روزہ داروں کو دسترخوان تک لانا ہوتاہے۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق مسجد نبوی میں یومیہ ایک لاکھ سے زائد افراد بیک وقت افطار کرتے ہیں۔ یہاں قدیم سعودی روایات کے مطابق افطار میں روٹی ، دہی، کھجوریں، پانی ، قہوہ اور قماش قماش کے جوسز اور پھل موجود ہوتے ہیں۔ کچھ افراد سموسوں ، سینڈ وچ اور دیگر اسی قسم کے دیگر لوازمات بھی رکھتے ہیں جبکہ بسکٹ، بریڈ اور چاکلیٹ تو عام بات ہے۔ روزہ کھلنے کے دس منٹ بعد ہی دسترخوان جس تیزی سے ہٹائے اور قالین صاف کئے جائے ہیں وہ منظر بھی قابل دید ہوتا ہے۔کئی کئی میٹر طویل پلاسکٹ کے دسترخوان اس تیزی اور نفاست سے سمیٹے جاتے ہیں کہ قالین یا فرش پر ایک چیز نہیں گرتی۔ ساری صاف ستھرائی منٹوں میں ہوتی ہے چونکہ چند لمحوں بعد ہی نماز مغرب اداکی جاتی ہے۔ پوری مسجد میں آب زم زم سپلائی کیا جاتا ہے۔ مسجد کے امور کی دیکھ بھال کرنے والے ادارے کے نائب چیئرمین عبدالعزیز الفالح کے مطابق مسجد میں ہر روز 300سے زائد آب زم زم سپلائی ہوتا ہے۔ زم زم براہ راست مکہ سے مدینہ لایاجاتا ہے۔ مسجد کے صحن میں نمازیوں کو دھوپ اور بارش سے بچانے کیلئے نہایت بڑی بڑی اور خودکار الیکٹرک چھتریاں لگائی گئی ہیں۔ ان چھتریوں کی تعداد 250سے زیادہ ہے۔ سن 2010میں پہلی مرتبہ ان کی تنصیب شروع ہوئی تھی۔ صحن میں چھتریوں کےساتھ ساتھ پنکھے بھی نصب ہیں جن کی تعداد تقریباً450ہے۔ نمازیوں کے جوتے رکھنے کیلئے مسجد میں جگہ جگہ لکڑی کے باکس اور الماریاں موجود ہیں تاہم اس سال جوتے رکھنے کیلئے المونیم کے بنے تین ہزار سے زائد نئے باکسز رکھے گئے ہیں۔اس سے قبل دنیا کا سب سے بڑا دسترخوان 1888کے دوران شکاگو میں لگایا گیا تھاجبکہ اس دسترخوان کی لمبائی2 کلو میٹر تھی اور ایک وقت میں 70ہزار آدمی کھانا کھا سکتے تھے۔

Ramadan : Iftar time at Masjid Nabawi
By: Fatima Zara
kis dastarkhaan ne tora hey aalimi record

Some special Recipes! دسترخوان کی رونقیں!

فاطمہ زارا
ان دنوں مہمانوں کی آمد آمدہے جبکہ بازار میںبنی بنائی چیزیں بہت مہنگی ہوچکی ہیں۔ متعدد اشیا ایسی ہیں جن پر ذرا سا دھیان دیا جائے تو انھیں گھر میں بآسانی تیار کیاجا سکتا ہے ۔ کیوں نہ اس کی شروعات کردی جائے!
کیسے بنائیںچکن کڑائی؟
 چکن کڑھاہی کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔فل پلیٹ چار سو روپے کے قریب ہے ۔ کوارٹرپلیٹ منگوانے میں بھی سو کا نوٹ صاف ہوجاتا ہے ۔ کیوں اسے گھر میں ہی بنانے کی شروعات کی جائے جبکہ یہ بہت آسان بھی ہے۔ 
اشیائ:
مرغی ایک کلو
ٹماٹر ایک کلو کٹے ہوئے
پیاز ایک درمیانی
ہری مرچیں آٹھ عدد
ہرا دھنیا دو گٹھی
سرخ پسی مرچ ایک ٹیبل سپون
گرم مصالحہ
ترکیب:تیل یا گھی گرم کرکے پیاز اور گرم مصالحہ تلیں ،لیکن پیاز کو سرخ نہ کریں۔اب مرغی ڈال کر ہلکا سا بھورا کر لیں ،پھر ٹماٹر ،پسی مرچ اور نمک ڈال کر درمیانی آنچ پر پکائیں۔جب پانی خشک ہو نے لگے تو ہری مرچ اور ہرا دھنیا کاٹ کر ملائیں۔اور ہلکی آنچ پر چھوڑ دیں۔مزیدار چکن کڑائی تیار ہے۔
کیسے بنتی ہے حیدرآبادی کڑک چائے ؟
حیدرآباد دکن میں’کڑک‘ چائے کا عام رواج ہے جبکہ ملک کے دیگر خطوں میں بھی اس کے شائقین پائے جاتے ہیں۔اسے دکن کے مقامی لوگوں کی اہم عادتوں میں شمار کیا جاتا ہے ،اورپھر یہاں چائے مہمان نوازی کی ایک اہم رسم بھی سمجھی جاتی ہے۔
کڑک چائے پکانے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے
چائے دانی ‘ایک کیتلی‘ جسے دیگچی بھی کہتے ہیں‘لے لیں پھر چائے دانی میں حسب ضرورت پانی ڈال کراسے اچھی طرح پکنے دیں۔ جب پانی ا ±بلنے لگے توآنچ دھیمی کرلیں۔پھراس میں دو ٹی اسپون لپٹن کھلی چائے یا جو اچھی پتی میسر ہو ‘لے لیں۔ اگر آپ کوکڑک چائے چاہئے توآدھا چمچ پتی کا اضافہ کرلیں۔پتی پانی میں ڈال کر دو تین منٹ پکنے دیں۔
پھر اس میں آہستہ آہستہ سے دودھہ ملالیں‘جب چائے کارنگ خوبصورتی رنگ نکھر اور خوشبوآجائے توچائے کو ایک بار ابلنے کے بعد الائچی آدھا ٹی اسپون ڈال کرآنچ بند کردیں شوگر آپ پیالی میں حسب ذائقہ ڈال لیں۔اب آپ بہترین اور زبردست’ کڑک چائے ‘نوش کر رہے ہیں۔
کیا ہم بنا سکتے ہیں اسپیشل کیک؟

بازار میں کیک کے نرخ انڈوں کے بھاو کے ساتھ تیزی سے ترقی کر رہے ہیں جبکہ اسے گھر میں بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔
کیاہیں اجزا؟
* میدہ ایک سو پچھتر گرام
* دودھ ایک کھانے کا چمچ
* مارجرین سو گرام
* کیسٹر شوگر سو گرام
* انڈے دو عدد
* بیکنگ پاو ¿ڈر آدھا چائے کا چمچ
* نمک چٹکی بھر
* چیریز ایک سو پچاس گرام 
* چکنائی کیلئے مکھن حسبِ ضرورت
کیا ہے تر کیب؟
1*اوون کو ایک سو اسی ڈگری سینٹی گریڈ پر گرم کرلیں۔
2*پندرہ سینٹی میٹر (چھ انچ) کا کیک ٹِن مکھن سے گریس کرلیں۔
3*ٹن کے بَیس کے سائز کے مطابق دو چکنائی پروف پیپر دائروں میں کاٹ لیں۔
4*ایک پیپر ٹِن میں بچھا کر مکھن سے گریس کرلیں۔
5*ٹِن کے اطراف میں بھی پیپر لگا دیں۔
6*پیالے میں مارجرین ڈال کر بیٹر سے پھینٹ لیں۔
7*کریم جیسا ٹیکسچر بن جائے تو کیسٹر شوگر ملا کر مزید بیٹ کریں۔
8*انڈوں کو علیحدہ پھینٹ کر آہستہ آہستہ اس مکسچر میں شامل کرلیں۔
9*میدہ، نمک اور بیکنگ پاو ¿ڈر چھان لیں۔
10*چیریز کو درمیان سے کاٹ لیں پھر انہیں میدہ میں ملا دیں اور احتیاط سے اس مکسچر کو دودھ اور مارجرین والے مکسچر میں شامل کریں۔
11*کیک کے مکسچر کو کیک ٹِن میں ڈال دیں، اوپر کی سطح سے برابر کرکے پہلے سے گرم اوون میں تقریباً ایک گھنٹہ بیک کریں۔
12*خصوصی چیری کیک کو عید کے موقع پر چائے کے ساتھ پیش کریں۔
نوٹ: چیری کیک کا ذائقہ بڑھانے کےلئے فریش کریم اور چیریز سے ٹوپنگ کی جاسکتی ہے۔
یہ خوبانی کا حلوہ کیا ہوتا ہے؟

اگر آپ سے کوئی خوبانی کے حلوے کی بات کرے تو ذرا بھی نہ چونکیں۔ فرمائش کرے تو بتادیں اسے حسب ذیل سامان:
شکر : ایک کلو
ونیلا ایسنس : 2 چائے کے چمچے
فریش کریم : تھوڑی سی مقدار میں
خوبانی کو دھو کر صاف کر لینے کے بعد کسی برتن میں چار یا پانچ گلاس پانی ڈال کرایک گھنٹہ کے لئے بھگو دیں۔ایک گھنٹہ بعد اس کو اچھی طرح پکائیںاور جب خوبانیاں گل جائے تو اسے ٹھنڈا کر کے اس کے بیج الگ کر لیں‘ پھر اس بغیر بیج والی خوبانیوں کو اچھی طرح گھوٹ کر اس میں شکرڈالیں اور 25 سے 30 منٹ تک دھیمی آنچ پر پکائیں۔پھر اس میں ایسنس ملا کر 2 منٹ مزید پکائیں۔اس کے بعد چولہا بند کر دیں اور خوبانی کے میٹھے کو کسی باو ¿ل میں نکال کر ٹھنڈاہونے کے لئے فریج میں رکھ دیں۔جب ٹھنڈا ہو جائے تو سرو کرنے سے پہلے فریش کریم اوپرسے ڈال دیں!!!کہئے‘ آیا نہ مزا؟
بادام اور چاندی کے ورق سے بھی سجا کر پیش کرسکتے ہے
ہاں‘ یہ یاد رکھئے کہ خوبانی کے میٹھے کو چھانیں ضرور ورنہ اس میں ریشے رہ جائیں گے !
کیا گھر میں بھی بن سکتی ہے خشک دودھ کے رس ملائی؟
حلوائی کو دوکان پر جریج کاو ¿نٹر میں سجی رس ملائی دیکھ کر بچو ںکے منہ میں پانی آجاتا ہے لیک جب نرخ پوچھتے ہیں تو ہوش اڑ جاتے ہیں ۔ ایسے میں ہوش آتا ہے اسے گھر میں بنانے کاجبکہ یہ زیادہ مشکل بھی نہیں ہے۔
کیا ہیں اجزائے ترکیبی؟
خشک دودھ 1 کپ
انڈا ( پھنٹا ہوا)1عدد
تیل 3تا4 کھانے کے چمچ
بیکینگ پو ڈر1 چائے کے چمچ
دودھ 1 لیٹر
چینی 1کپ
پستہ بادام 10تا15 عدد
کیا ہے تر کیب بنانے کی؟
1- خشک دودھ ،انڈا ( پھنٹا ہوا) ، بیکینگ پو ڈراور تیل ڈال کر اچھی ظرح مکس کر لیں
2- جب اچھی ظرح مکس ہو جائیں تو اس کے بولز بنالیں
3- ایک دیکچی میںدودھ ابال لیں اس میں چینی شامل کردیں
4- 10سے12 منٹ پکائیں اور گاڑھا کر لیں
5- اس کے بعد وہ بولز شامل کر لیں
6- اس رس ملائی کے ساتھ 5 منٹ پکائیں اور ٹھنڈا کر لیں
7- ایک پیالے میں نکال کر پستہ بادام گارش کرئیں اور سروکرئیں
کیسے بنتا ہے ٹماٹر کا سوپ؟
بعض مرتبہ ڈاکٹر اپنے مریض کو ٹماٹر کا سوپ پینا تجویز کردیتے ہیں جبکہ یہ بازار میں عمومی طور پر دستیاب بھی نہیں ہوتا ‘یوںذائقے کے طور پر گھروں میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔
کن اشیاءکی پڑے گی ضرورت؟
ٹماٹر ایک کلو گرام ‘سرخ اور پکا ہوا
پیاز ایک کپ ‘کتری ہوئی
لیموں کا عرق چار کھانے کے چمچ
لال مرچ پاو ڈر دو کھانے کے چمچ
آلو دو عدد ‘بڑے
لہسن تین جوئے
ادرک پیسٹ ایک کھانے کا چمچ
نمک ایک کھانے کا چمچ
ہرادھنیا تین کھانے کے چمچ‘کٹا ہوا
پانی دو لیٹر
آئل تین کھانے کے چمچ
کیا ہے بنانے کی ترکیب؟
آئل کو برتن میں گرم کریں۔ پیاز شامل کرکے فرائی کریں۔
اب لہسن اور ادرک پیسٹ شامل کرکے گرم کریں۔
ٹماٹر کاٹ کر شامل کریں اور ایک منٹ کےلئے فرائی کریں۔
گاڑھا کرنے کے لئے اس میں آٹے کی جگہ آلو سوپ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
کیونکہ اس میں آٹے سے زیادہ غذائیت ہے اور اس کے علاوہ سوپ کا ذائقہ بھی بہتر ہو گا۔
آلو کاٹ لیں، انہیں نمک، پسی ہوئی لال مرچ اور دو لیٹر پانی کے ساتھ برتن میں شامل کریں۔
نمک تھوڑا ڈالیں، ٹماٹر اور لیموں کی کھٹائی کی وجہ سے نمک کا پتہ نہیں چلتا۔
سوپ کو ا بال لیں پھر ڈھک کر ہلکی آنچ پر پینتالیس منٹ پکائیں۔
اس کے بعد ڈھکن ہٹا کر سوپ کو چھلنی سے چھان لیں اور برتن کو واپس چولہے پر رکھیں اور سوپ پر جھاگ آئے تو صاف کردیں اور لیموں کا عرق شامل کریں۔
آپ ایک چٹکی کالی مرچ بھی حسبِ ضرورت استعمال کر سکتے ہیں۔
اچھی طرح گرم ہو جائے تو ڈش میں ڈالیں۔
پھر ڈش میں دھنیا سے سجا کر گرما گرم پیش کریں۔
کیا گھر میں بھی بن سکتی ہے گلاب جامن؟
عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ گلاب جامن محض بازار سے ہی خرید کرکھائی جاسکتی ہے جبکہ اسے گھر میں پکا بچوں اور بڑوں سب کا دل جیتا جا سکتا ہے۔
ضروری اجزاکریں جمع:
اسکم ملک پاو ڈر تین سو پچھتر گرام
میدہ ایک سو پچیس گرام
گھی ایک کلو
چینی سوا کلو
سوڈا ایک چوتھائی چائے کا چمچ
امونیم ایک چوتھائی چائے کا چمچ
پانی ایک لیٹر
رنگ کاٹ دو چٹکی
پستے گارنش کیلئے
کیا ہے تر کیب بنانے کی؟
1- ایک کڑاہی میں گھی گرم کر لیں۔
2- اب ایک باو ل میں دو کپ گھی اور اسکم ملک پاو ڈر ڈال کر ملا لیں۔ پھر اس میں تھوڑا تھوڑا پانی شامل کر کے مکس کرتے جائیں۔
3- اس کے بعد سوڈا، امونیم، رنگ کاٹ اور پانی ڈال کر اچھی طرح مکس کر لیں۔
4- پھر میدہ ڈال کر مکس کریں اور اسے فریج میں ٹھنڈا ہونے کے لیے رکھ دیں۔
5- اب کڑاہی میں چینی اور آدھا لیٹر پانی ڈال کر شیرہ تیار کر لیں۔
6- پھر ٹھنڈا کئے ہوئے مکسچر کے چھوٹے چھوٹے بالز بنا لیں اور اسے ہلکے گرم گھی میں ڈال کر اتنا پکائیں کہ وہ اوپر آجائے۔
7- آخر میں ہلکا گولڈن براو ن کر کے نکال لیں اور شیرہ میں ڈال دیں۔
8-جب شیرہ گلاب جامن میں جذب ہوجائے تو ڈش میں نکال لیں اور پستے سے گارنش کر کے سرو کریں۔ 

Some special Recipes!
By: Fatima Zara
Eid is round the corner. How about trying a delicious chicken recipe for your family?
Some special Recipes category section contains a huge variety of Eid-Ul-Fitr recipes after the great month of Holy Ramadan enjoy these recipes with your family, friends & relatives. Here you can find great delicious recipe food like sheer korma recipe, seviyan recipes, pudding recipes, cake recipes and many more. Here you can also find user submitted Pakistani Eid cooking recipes complete with reviews, ratings and cooking tips.
dastarkhaan ki ronaqey by fatima zara