Monday, 9 July 2018

سوتیلی ماں کے حقوق

سوتیلی ماں کے حقوق
زید کی پہلی بیوی کا انتقال ہوگیا اور اس کے دو بچے تھے پھر ایک سال بعد زید نے دوسری شادی کی تو کیا زید کے پہلی بیوی کے دونوں بچوں پر اس نئی دوتیلی ماں کے وہی حقوق ہونگے جو حقیقی ماں کے تھے؟ حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی.
یقینا اسلام میں حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ پھر حقوق العباد میں سے رشتہ داروں کے حقوق کو بڑا مقام حاصل ہے۔ اور تمام عزیز و اقارب اور رشتہ داروں میں سے حقیقی والدین کا حق اور ان دونوں میں سے ماں کا حق سب حقو ق پر فائق اور مقدم ہے۔ رسول اللہ نے تمام کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (بخاری، کتاب الصوم، ح: 1975)
حقیقی والد کی بیوی (سوتیلی ماں) حقوق نکاح سے ہی محرمات خواتین میں شامل ہوجاتی ہے۔ بیٹے سے اس کا نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہو جا تا ہے۔
جاہلیت میں سوتیلی والدہ سے شادی کرنا جائز تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس کو سخت حرام قرار دے دیا ہے۔ فرمایا: (اور ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں مگر جو پہلے گزر چکا بے شک یہ ہمیشہ سے بڑی بے حیائی اور سخت غصے کی بات ہے اور برا راستہ ہے)۔ (نسائ:22) جب باپ کی بیوی سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے تو اس کا اپنے خاوند کے بیٹے سے پردہ بھی ختم ہوجاتا ہے، کیونکہ اسلام میں دائمی محرمات سے پردہ نہیں ہوتا۔
سوتیلی والدہ کے حکم میں سے یہ بھی ہے کہ اسے حقیقی ماں جیسا عزت و احترام دیا جائے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ عبداللہ بن عمر کو مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک بدو ملا عبداللہ بن عمر نے اسے سلام کہا اور اسے اپنے گدھے پر سوار کر لیا جس پر وہ خود سوار ہوتے تھے اور اپنے سر پر جو پگڑی تھی وہ بھی اسے دے دی۔
عبداللہ بن دینار کہتے ہم نے ابن عمر سے کہا کہ اللہ آپ کی اصلاح فرمائے یہ تو بدو لوگ ہیں معمولی سی چیز پر بھی راضی ہو جاتے ہیں تو ابن عمر نے کہا کہ اس کا والد میرے باپ عمر کا دوست تھا اور میں نے رسول اللہ سے سنا آپ فرما رہے تھے نیکیوں میں سے بڑی نیکی اولاد کا اپنے والد کے دوستوں سے تعلق جوڑنا ہے۔ (مسلم، کتاب البر و الصلہ، ح:6513)
جب والد کے دوست سے حسنِ سلوک، صلہ رحمی بڑی نیکیوں میں سے ہے۔ تو والد کی بیوی جوکہ دوست سے کہیں زیادہ والد کے قریب ہے۔ اس کے ساتھ حسنِ سلوک اور صلہ رحمی کتنا بڑا عمل ہو گا۔ 

No comments:

Post a Comment