خطبہ سے قبل اذان کہاں دی جائے؟
اسکا جواب چاہئے
خطبہ کی اذان کہاں دی جاۓ
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ھے
انہوں نے فرمایا کہ جب حضور علیہ الصلاة والسلام جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازہ پر اذان ھوتی۔
اور ایسا ہی حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانہ میں بھی رائج تھا
(ابوداؤد جلد اول ص162)
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ خطبہ کی اذان مسجد کے دروازہ پر پڑھنا سنت ہے۔
حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانۂ مبارکہ میں خطبہ کی اذان مسجد کے دروازہ ہی پر ہوا کرتی تھی
اسی لۓ فقہاۓ کرام مسجد کے اندر اذان دینے کو منع فرماتے ہیں
جیسا کہ. ( فتاوی قاضی خان جلد اول اور فتاوی عالمگیری جلد اول اور بحرالرائق جلد اول میں ہے مسجد کے اندر اذان دینا منع ہے) اور فتح القدیر جلد اول میں ہے کہ فقہاۓ کرام نے فرمایا کہ مسجد میں اذان نہ دم جاۓ اور طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہی کہ مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے ۔
لہذایہ جو رواج ہو گیا ہے کہ اذان مسجد کے اندر دی جاتی ہے غلط ہے مسلمانوں کو چاہۓ کہ اس غلط رواج کو ترک کر کے حدیث و فقہ پر عمل کریں۔
..............سوال ]۳۶۰۷[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ عرصہ تین ماہ قبل ایک امام صاحب مسجد نور خاں، حیات نگر سنبھل میں نماز پڑھانے کے لئے تشریف لائے، مسجد نور خاں میں جمعہ کے خطبہ سے پہلے کی اذان اندرون مسجد ممبر کے سامنے پہلی صف میں ہوتی چلی آرہی ہے۔ امام مذکور نے تقریباً دو ماہ آٹھ یا نو جمعوں کی نماز اسی طرح اندرون مسجد اذان کے ذریعہ پڑھائی، آٹھویں یا نویں جمعہ کو انہوں نے مؤذن کو اذان مذکور بیرون مسجد پڑھنے کا حکم دیا، اس پر وہاں موجود نمازی بھڑک گئے اور اذان کی جگہ نہ بدلنے پر اڑے رہے، بالآخر اذان اندرون مسجد میں ہوئی۔ اور امام مذکورہ نے ہی نماز پڑھائی؛ لیکن جمعہ کے بعد امام صاحب نے حدیث شریف کاحوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حدیث کے مطابق اذان بیرون مسجد ہونی چاہئے۔ اور حدیث کے مطابق عمل نہ کرنے والا نہ ماننے والا منافق او رکافر ہے؛ لیکن امام مذکور کے اس فیصلہ پر وہاں کے مستقل نمازیوں نے یہ اعتراض کیاکہ آپ نے پہلے آٹھ جمعوں تک او راب بعد میں بھی حدیث کے حکم کے خلاف نماز کیوں پڑھائی او راب بھی کیوں پڑھارہے ہیں؛ جبکہ اذان اندرون مسجد ہو رہی ہے، آپ کیاہوئے کافر یامنافق؟ امام مذکور کے اس عمل سے مسجد میں لوگوں نے نماز پڑھنی بند کردی ہے، تقریباً ایک درجن مستقل نمازیوں نے جانا بند کردیا ہے اور مسجد میں تفرقہ پھیل گیا ہے، امام مذکور نے اپنی جمعہ کی تقریر میں فرمایا ڈاڑھی منڈ وانا حرام ہے، خطبہ کے دوران ایک شخص پالتی مارے بیٹھا تھا، امام مذکورہ نے کہا (کیسے بیٹھا ہے جیسے مندر میں مورتی رکھی ہو)
اسکا جواب چاہئے
خطبہ کی اذان کہاں دی جاۓ
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ھے
انہوں نے فرمایا کہ جب حضور علیہ الصلاة والسلام جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازہ پر اذان ھوتی۔
اور ایسا ہی حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانہ میں بھی رائج تھا
(ابوداؤد جلد اول ص162)
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ خطبہ کی اذان مسجد کے دروازہ پر پڑھنا سنت ہے۔
حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانۂ مبارکہ میں خطبہ کی اذان مسجد کے دروازہ ہی پر ہوا کرتی تھی
اسی لۓ فقہاۓ کرام مسجد کے اندر اذان دینے کو منع فرماتے ہیں
جیسا کہ. ( فتاوی قاضی خان جلد اول اور فتاوی عالمگیری جلد اول اور بحرالرائق جلد اول میں ہے مسجد کے اندر اذان دینا منع ہے) اور فتح القدیر جلد اول میں ہے کہ فقہاۓ کرام نے فرمایا کہ مسجد میں اذان نہ دم جاۓ اور طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہی کہ مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے ۔
لہذایہ جو رواج ہو گیا ہے کہ اذان مسجد کے اندر دی جاتی ہے غلط ہے مسلمانوں کو چاہۓ کہ اس غلط رواج کو ترک کر کے حدیث و فقہ پر عمل کریں۔
..............سوال ]۳۶۰۷[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ عرصہ تین ماہ قبل ایک امام صاحب مسجد نور خاں، حیات نگر سنبھل میں نماز پڑھانے کے لئے تشریف لائے، مسجد نور خاں میں جمعہ کے خطبہ سے پہلے کی اذان اندرون مسجد ممبر کے سامنے پہلی صف میں ہوتی چلی آرہی ہے۔ امام مذکور نے تقریباً دو ماہ آٹھ یا نو جمعوں کی نماز اسی طرح اندرون مسجد اذان کے ذریعہ پڑھائی، آٹھویں یا نویں جمعہ کو انہوں نے مؤذن کو اذان مذکور بیرون مسجد پڑھنے کا حکم دیا، اس پر وہاں موجود نمازی بھڑک گئے اور اذان کی جگہ نہ بدلنے پر اڑے رہے، بالآخر اذان اندرون مسجد میں ہوئی۔ اور امام مذکورہ نے ہی نماز پڑھائی؛ لیکن جمعہ کے بعد امام صاحب نے حدیث شریف کاحوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حدیث کے مطابق اذان بیرون مسجد ہونی چاہئے۔ اور حدیث کے مطابق عمل نہ کرنے والا نہ ماننے والا منافق او رکافر ہے؛ لیکن امام مذکور کے اس فیصلہ پر وہاں کے مستقل نمازیوں نے یہ اعتراض کیاکہ آپ نے پہلے آٹھ جمعوں تک او راب بعد میں بھی حدیث کے حکم کے خلاف نماز کیوں پڑھائی او راب بھی کیوں پڑھارہے ہیں؛ جبکہ اذان اندرون مسجد ہو رہی ہے، آپ کیاہوئے کافر یامنافق؟ امام مذکور کے اس عمل سے مسجد میں لوگوں نے نماز پڑھنی بند کردی ہے، تقریباً ایک درجن مستقل نمازیوں نے جانا بند کردیا ہے اور مسجد میں تفرقہ پھیل گیا ہے، امام مذکور نے اپنی جمعہ کی تقریر میں فرمایا ڈاڑھی منڈ وانا حرام ہے، خطبہ کے دوران ایک شخص پالتی مارے بیٹھا تھا، امام مذکورہ نے کہا (کیسے بیٹھا ہے جیسے مندر میں مورتی رکھی ہو)
المستفتی: نمازی مسجد جمال اختر خاں، حیات نگر سرائے ترین، مرادآباد
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
جب سے جمعہ کی اذان اول کا سلسلہ حضرت عثمان غنیؓ کے زمانہ سے شروع ہوا ہے، وہ اذان مسجد سے باہر ہی دینے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا ہے اور اذان اول حضرت عثمان غنیؓ کے زمانہ میں شروع ہوئی ہے، اس وقت سے خطبہ کی اذان منبر کے سامنے دینے کا سلسلہ بھی دور صحابہ سے لے کر ائمہ مجتہدین، سلف و خلف سے تواتر و توارث کے ساتھ آج تک جاری ہے؛ اس لئے اگر چہ یہ اذان حدود مسجد میں کہیں بھی دینا جائز ہے، مگر افضل اور بہتر یہی ہے کہ منبر کے سامنے یہ اذان دی جائے، جیسا کہ دور اول سے لے کر آج تک یہ سلسلہ جاری ہے، امام مذکور سے مقتدیوں کا جوابی اعتراض اپنی جگہ درست ہے کہ جب امام نے خطبہ کی اذان مسجد سے باہر پڑھنے پر حدیث سے ثابت کر کے اس پر خود یہ استدلال کیا ہے کہ حدیث کے خلاف عمل کرنے والے کافر یا منافق ہیں، تو اس پر مقتدیوں کا جوابی اعتراض کہ آٹھ نو جمعہ تک آپ نے بلا کسی اشکال کے اندرون مسجد منبر کے سامنے خطبہ کی اذان دلوائی او رنماز پڑھائی تو مقتدیوں کی طرف سے یہ جواب دینا بالکل درست ہے؛ لیکن اصل بات یہ ہے کہ مسجد کے دروازہ پر یا صحن مسجد میں خطبہ کی اذان اس وقت دی جاتی تھی، جب تک اذان اول کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا، جب حضرت عثمان غنیؓ کے زمانہ میں پہلی اذان کا سلسلہ شروع ہوا تو خطبہ کی اذان اندرون مسجد دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔
امام صاحب کا مجمع عام میں اس طرح کے بازاری او رغیر مہذب الفاظ سے یاد کرنا ایک مسلمان کی بھرے مجمع میں ہتک حرمت ہے؛ اس لئے اس نمازی سے معذرت خواہی، معافی
مانگ کر دل کی صفائی ضروری ہے، اور امام صاحب کی یہ بات درست ہے کہ داڑھی منڈانا حرام ہے۔
وإذا صعد الإمام المنبر جلس، وأذن المؤذنون بین یدی المنبر، بذٰلک جری التوارث، ولم یکن علی عہد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم إلا ہذا الأذان۔ (ہدایۃ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، اشرفي دیوبند ۱/۱۷۲)
امام صاحب کا مجمع عام میں اس طرح کے بازاری او رغیر مہذب الفاظ سے یاد کرنا ایک مسلمان کی بھرے مجمع میں ہتک حرمت ہے؛ اس لئے اس نمازی سے معذرت خواہی، معافی
مانگ کر دل کی صفائی ضروری ہے، اور امام صاحب کی یہ بات درست ہے کہ داڑھی منڈانا حرام ہے۔
وإذا صعد الإمام المنبر جلس، وأذن المؤذنون بین یدی المنبر، بذٰلک جری التوارث، ولم یکن علی عہد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم إلا ہذا الأذان۔ (ہدایۃ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، اشرفي دیوبند ۱/۱۷۲)
فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
۵؍ رجب المرجب ۱۴۲۵ھ
(فتویٰ نمبر: الف۳۷؍۸۴۳۸)
۵؍ رجب المرجب ۱۴۲۵ھ
(فتویٰ نمبر: الف۳۷؍۸۴۳۸)
..............
سوال # 58802
خطبہ جمعہ سے قبل جو اذان دی جاتی ہے تو وہ جگہ امام سے قریب ہے یا باب المسجد ہے؟
جمعہ کی اذانِ ثانی کا حال اقامت کی طرح ہے، یعنی یہ حاضرینِ مسجد کی اطلاع کے لیے ہے کہ اب خطبہ کے لیے تیار ہوجاوٴ، نفل، تسبیح ، تلاوت وغیرہ ختم کردو، پس یہ اذان خطیب کے مقابل پہلی صف میں یا نمازیوں کی قلت وکثرت کے اعتبار سے جس میں مناسب ہو کہ سب تک آواز پہنچ جائے، مسجد میں دی جائے۔
قال في السعایة: نغز أي الأذان لا یستحب رفع الصوت فیہ قیل ہو الأذان الثاني یوم الجمعة الذي یکون بین یدي الخطیب لأنہ کالإقامة لإعلام الحاضرین صرح بہ جماعة من الفقہاء․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
No comments:
Post a Comment