Monday, 16 July 2018

بشار الاسد کون ہے اور کیا ہے؟

بشار الاسد کون ہے اور کیا ہے؟
آج کل ایک شوشہ جو فیس بک پر بڑی شدت سے محوگردش ھے وہ یہ کہ بشار اہل السنہ سے ھے اور بطور دلیل دوران نماز ناف پہ ہاتھ باندھے تصویر دکھلائی جاتی ھے___! اور کچھ بھولے بھالے دانشوران بشار کو شیعہ مانتے ہیں، کچھ رافضی اور کچھ اسے علوی فرقے کا فرد قرار دیتے ہیں___!
انہیں شاید رفض کی تعریف اور تشیعت کی تمیز بھی نہ آتی ہوگی، مگر ٹانگ اڑانے سے یہ کسی معاملے میں قطعا باز نہیں آتے، سچ تو یہ ھے کہ انہیں نہ تو زمینی حقائق کا علم ھے اور نہ ہی واقعات کے پس منظر کا___! انہیں تو بس صرف ایران اور روس کو بےگناہ ثابت کرنا ھے___! نہ تو بشار سنی ھے، اور نہ ہی علوی شیعہ----! بشار نصیری المذھب ھے_!
اب سوال ھے کہ نصیری کون ہوتے ہیں تو آئیے سمجھتے ہیں:
نصیریوں کا اصل علاقہ "جبال النصیریہ" ھے، جو کہ شمالی شام کا ایک پہاڑی علاقہ ہے۔ یہ لبنان سے لے کر ترکی قبرص تک پھیلا ہوا ایک عظیم پہاڑی سلسلہ ہے۔ نصیری اس کے علاوہ شام کے کئی صوبوں میں موجود ہیں- موجودہ جاری جنگ میں نصیریوں کو جنگی و افرادی قوت بھی انہی علاقوں سے میسر آرہی ہے۔
عقائد:
یہ چاند سورج کو حضرت علی کا مظہر جانتے ہیں ان کے مطابق حضرت علی چاند اور سورج میں رہتے ہیں اور مرنے کے بعد علی کے ماننے والے ستاروں کا روپ دھار جاتے ہیں-
نسبی حوالے سے نصیریہ چار قبائل پر مشتمل ہیں:
1- ماتاویرا: یہ عراق میں بسنے والے نصیری تھے جو کہ تیرھویں صدی کی شروعات میں اپنے ہم مذہبوں کی مدد کے لیے شام کے علاقے کی طرف لپکے ۔ ان کے لیڈر کانام حسن یوسف ا لمخزون تھا جس کو نصیریوں کے ہاں تاریخی طور پر ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ کچھ مغربی مورخین کی تحقیق کے مطابق "حافظ الاسد" کا تعلق اسی قبیلے سے ہے-
2- الحدادین: یہ ان کا ایک طاقتور قبیلہ ہے جو کہ الاسد خاندان کا خاص وفادار ہے ۔ اسے حکمران خاندان کی "آنکھ و کان" کا لقب دیا جاتا ہے- 1982 کے حماہ کے قتل عام میں اس نے بھرپور شرکت کی تھی اور اخوان کی تحریک کو کچلنے میں اس کا خاص کردار رہا ہے- بشاری فوج کے اہم عہدے داروں کا تعلق اس قبیلے سے ہے-
3- الخیاطین: اس قبیلے کو بھی نصیری اقتدار میں ایک اہم کردار حاصل ہے،
4- الکلبیہ : یہ قبیلہ خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ نصیریوں میں سب سے زیادہ ظالم و مجرم اس قبیلے کو مانا جاتا ہے ۔ یہ جنگلی صفت کے لوگ ہیں جو کہ فریق مخالف پر کسی بھی قسم کے رحم کے قائل نہیں۔ ان کا تاریخی پیشہ لوٹ مار و قتل و غارت رہا ہے ۔ انیسویں صدی میں ان کے درمیان وقت گزارنے والے ایک عیسائی پادری ریونڈ سیمویل لائڈ کے مطابق قتل و غارت، ھوکہ، لوٹ مار ان کی سرشت میں شامل ہے ۔ یہ اہل سنت کے سخت دشمن ھیں، بیشتر مغربی و جدید مسلم مورخین کے مطابق بشار الاسد کا تعلق اسی قبیلے سے ہے-
ان کو نصیریہ کہنے کی وجہ تسمیہ کیا ہے:
اس پر عام طور پر تمام مورخین جمع ہیں کہ "محمد بن نصیر" کی نسبت سے انہیں نصیریہ کہہ کر بلایا جاتا ہے- نصیریہ فرقہ اصل میں گمراہ عیسایئوں کا ہی ایک گروہ ہے- اس خیال کی ایک وجہ ان کے اندر عقیدہ تثلیث کا پایا جانا اور عیسایئت کی دیگر رسمیں جیسے کرسمس و ایسٹر کا اہتمام ہے، محمد بن نصیر جس کا پورا نام "محمد ابن نصیر النمیری البکری العابدی" ہے ایک فارسی النسل آدمی تھا اور عراق میں آباد تھا- اسی کی نسبت سے نصیریوں کو دسویں صدی عیسوی کے اکثر علماء "نمیری" کہہ پکارتے تھے-
اس کے ہم عصر شیعہ و سنی علماء کے مطابق یہ دائرہ اسلام سے خارج تھا اور پیغمبری کا دعوی دار تھا۔ یہ ہم جنس پرستی جیسے گھناونے مرض کا بھی شکار تھا۔ اس نے دسویں صدی عیسوی میں اس دین کی ترویج عراق میں شروع کی-  گیارہویں صدی عیسوی کے جلیل القدر امام ، امام ابن حزم الاندلسی ؒ بھی اس فرقے سے واقفیت رکھتے تھے اور اس کے کافر ہونے پر یقین بھی- انہوں نے بھی ان کے لیے نصیریہ کا لقب استعمال کیاہے- چودھویں صدی عیسوی میں مجدد وقت امام ابن تیمیہ ؒ نے ان کے کافر ہونے کا اور ان کے جان و مال کے مباح ہونے کا فتوی صادر کیا ۔ ایسے فتاوی صرف ان کے نظریات کے کفر ہونے کی وجہ سے نہ تھے بلکہ مسلمین سے ان کا بغض و عناد آخری حد تک پہنچا ہوا تھا-
1099 عیسوی میں جب پہلا صلیبی حملہ ہوا تو صلیبیوں نے ان کو بھی مسلمان جان کر ان کا قتل عام کیا ۔ لیکن جلد ہی صلیبیوں کو یہ علم ہوگیا کہ یہ لوگ عام مسلمانوں سے الگ ہیں سو انہوں نے ان سے نرمی کا سلوک کرنا شروع کردیا ۔انہی کی مدد سے صلیبی شام کی ساحلی پٹی پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے اور بدلے میں انہیں وہ قلعے واپس مل گئے جو کہ اسماعیلیوں نے ان سے چھینے تھے ۔ 1258 عیسوی میں جب منگول حکمران ہلاکو خان نے شام پر حملہ کیا تو انہی کی مدد سے شام پر ان کا قبضہ مستحکم ہوا۔ ہلاکو کے شام میں سپہ سالار قط بوغا کو جب سلطان سیف الدین قطزؒ اور الملک الظاہر البیبریس کی مشترکہ فوجوں نے عین جالوت کی لڑائی میں فیصلہ کن شکست دی تو الملک بیبرس نے نصیری قلعہ بندیوں کے خلاف فوج کشی کی ۔ اس نے ان کے قلعے چھین لیے اور ان کی زمینوں پر مساجد بنائیں اور انہیں دین کی طرف لوٹنے کا حکم دیا ۔ لیکن ان لوگوں نے مساجد کو ویران کردیا بلکہ انہیں گھوڑوں و جانوروں کے اصطبل میں بدل دیا ۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ جو کہ 1326 عیسوی میں ان علاقوں سے گزرا اس کے بیان کے مطابق بیبرس کی قائم کردہ مساجد کو انہوں نے اصطبلوں میں بدل دیا تھا اور اگر کوئی نووارد مسلمان ان مساجد میں داخل ہوتا اور نماز کے لیے اذان دیتا تو یہ پکار کر کہتے "گدھے کی طرح مت چلاو تمہاری خوراک تم تک پہنچا دی جائے گی“-
نصیری جو کہ عثمانی ترکوں کے خلاف صفوی سلطنت کی مدد اور ان کے لیے جاسوسی پر معمور تھے 1514 کی جنگ چالدران میں جو کہ عثمانی ترکوں و ایران کے صفوی بادشاہوں کے درمیان لڑی گئی اس میں نصیریوں نے صفویوں کا ساتھ دیا ، مگر جنگ میں ایرانیوں کو اہل سنۃ کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ اور شاہ ایران کی دو بیگمات تک کو کینز بننا پڑا۔
تقیہ ان کے مذہب کا بنیادی جز ھے،سیلمان آفندی الضعنانی جو کہ ایک سابقہ نصیری تھا لکھتا ہے "یہ اپنے مذہب کو چھپانے کے لیے دوسرے فرقوں کی رسومات میں شرکت کرتے اگر یہ کسی سنی سے ملتے تو قسم کھا کر کہتے کہ ہم تمہاری ہی طرح نماز پڑھتے و روزہ رکھتے ہیں ۔لیکن دراصل وہ روزہ خوری کرتے اور اگر انہیں مسجد میں دوسروں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھنی پڑتی تو یہ قرآن کی تلاوت نہ کرتے صرف مسلمانوں کی طرح رکوع و سجود میں شریک ہوتے اور ان کی زبان پر حضرت ابوبکر ، عمر فاروق ،اور حضرت عثمان کے لیے گالیاں ہوتیں“-
اسلام میں نقب:
سیاسی و سماجی فوائد کے حصول کے لئے سن 1936 میں نصیریوں کے "رجال الشیوخ" نے ایک فتوی جاری کیا کہ وہ مسلمان ہیں اور عام مسلمانوں کی طرح کلمہ و پانچ اراکین اسلام پر ایمان رکھتے ہیں- اور جو اس کو نہیں مانتا وہ اسے اپنے آپ میں شامل نہیں سمجھتے ۔ اسی سال انہوں نے سلطنت فرانس کو بھی ایک عرضداشت روانہ کی جس میں ان سے درخواست کی گئی کہ مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کی طرح انہیں بھی ایک فرقہ ہی سمجھا جائے نہ کہ مسلمانوں سے الگ کوئی جماعت۔
اسی اثنا میں 'عرب نیشلزم" کے زیر اثر فلسطین میں سرکار برطانیہ کی طرف سے قائم کردہ مفتی اعظم امین الحسینی نے یہ فتوی جاری کیا کہ نصیری بھی مسلمان ہی ہیں اور اسلامی بھائی چارے کے فروغ کے لیے ان سے مسلمانوں والا سلوک ہی کیا جائے- لیکن اس فتوی کو اتنی مقبولیت حاصل نہ ہوئی کیونکہ یہ بذات خود شام کی کسی مذہبی اتھارٹی کی طرف سے نہ آیا تھا اور اس کا مقصد دینی سے زیادہ سیاسی تھا۔ گو کہ اس کا سیاسی فائدہ نیشلزم سے زیادہ نصیریوں کو ہوا اور وہ اس فتوی کی آڑ میں اپنے اصل عقائد کو چھپا کر عرب مسلم دھارے میں شامل کردیئے گئے ۔
اثنا عشری شیعہ بھی اس ساری صورتحال پر نظر رکھے ہوئے تھے ۔ نججف و قم کے کتب خانوں و مدرسوں میں یہ بات پڑھائی جاتی تھی کہ نصیری غلاط شیعہ ہیں اور دین سے خارج۔ گو کہ وہ فلسطین سے جاری ہونے والے فتوی سے بالکل بے اثر رہے لیکن نجف و قم کے اداروں کے سربراہوں کے درمیان اس بات کی طلب پیدا ہوچکی تھی کہ وہ اپنے دین سے بچھڑے بھایئوں کو اپنے گروہ میں واپس لے آئیں-
اس کام کی ابتدا نجف کے ایک شیعہ عالم آیت اللہ محسن الحکیم نے 1947 میں کی ۔ جب اس نے لبنان میں اپنے ہم منصب اور شیعہ مذہب کے مفتی شیخ حبیب الابراہیم کو نصیری علاقوں کا جائزہ لینے اور انکے بارے میں تحقیات کرنے کی درخواست کی۔ شیخ حبیب نے یہ مشن قبول کرلیا اور نصیری علاقوں کی طرف روانہ ہوگئے ۔ گو کہ بات نہ بن پائی لیکن شیخ حبیب نے ہمت نہیں ہاری اور یہ تجویز پیش کی کہ نصیری علاقوں میں بارہ امامیوں کی ایک سوسائٹی قائم کی جائے یوں الاذقیہ میں جعفری سوسائٹی کا قیام وجود میں لایا گیا جس کی شاخیں طرطوس ، بانیاس و جبلہ تک پھیلی ہوئی تھیں ۔ لیکن ابھی تک نصیریوں کو بارہ امامیوں کی طرف سے مسلمان ہونے کا فتوی نہیں مل سکا تھا کیونکہ نجف و قم کے شیعہ علماء کا یہی خیال تھا کہ نصیری لوگوں کو ابھی اور علم کی ضرورت ہے ۔ ایسی کئی کوششیں 1956 تک ہوتی رہیں جن کا بنیادی مقصد نصیریوں کو مسلمان قرار دینے سے زیادہ اثنا عشری عقائد سکھانا تھا ۔ لیکن ان کا ایک فائدہ ہوا کہ اثنا عشریوں و نصیریوں کو کافی قریب آنے کو موقع مل گیا-  اس بھاگ دوڑ کا پھل 1971 میں اس وقت سامنے آیا جب شام میں حافظ الاسد نے حکومت سنبھالی ۔
حافظ الاسد نے حکومت سنبھالتے ہی 1973 میں بعث پارٹی کے منشور کے تحت جو قانون پیش کیا وہ ریاست کا مذہب اسلام ہونے کی گارنٹی نہ دیتا تھا ۔ جس پر ملک بھر میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ۔ اس اضطرابی لہر سے نمٹنے کے لیے حافظ الاسد نے قانون کی ایک نئی شق منظور کی جس کے مطابق ملک کا سربراہ مسلمان ہوگا ۔ اس کے بعد حافظ الاسد و نصیری حلقوں میں یہ ہل چل مچ گئی کہ نصیریوں کو کسی طریقے سے مسلمان قرار دیا جاسکے ۔ گو کہ سن 1936 کا انگریز کے قائم کردہ مفتی فلسطین کا فتوی موجود تھا اور شام میں موجود سارے سنی علماء اسدی اقتدار کے جبر و استبداد سے ڈر کر حق بیان کرنے پر تیار نہ تھے ۔اور نصیریوں کو کافر نہ کہتے تھے لیکن یہ کافی نہ تھا جب کہ باہر کی کوئی اعلی مذہبی اتھارٹی بھی انہیں یہی مقام نہ دے دے ۔
اس مسئلے کا حل 1973 میں اس وقت کے سب سے بڑے لبنانی شیعہ رہنما "موسی الصدر" کی صورت میں سامنے آیا ۔ یہ نجف میں پیدا ہوا تھا اور قم میں تعلیم پائی تھی ۔ یہ عراق کی مشہور "مہدی آرمی " کے سربراہ "مقتدی الصدر" کا کزن تھا ۔موسی الصدر اپنی سیاسی عملداری کو بڑھانے کے لیے سن 1969 سے ہی شامی نصیریوں کے ساتھ رابطے میں تھا۔ 1973 کی شامی سنی بغاوت سے نمٹنے کے لیے جو کہ اس بات پر متفق تھی کہ نصیری مسلمان نہیں ہے موسی الصدر سے زیادہ موزوں بندہ کوئی نہیں تھا ۔ یوں سن 1971 میں اس ذہین رافضی شیخ نے سپریم اسلامک شیعہ کونسل کے فورم سے یہ اعلان کیا کہ نصیری بھی مسلمان ہیں اور اثنا عشری مذہب کا حصہ ۔ یہی تعلقات آگے چل کر ایران کے خمینی انقلاب اور شامی حکومت کے مابین اچھے تعلقات کی بنیاد بنے۔


No comments:

Post a Comment