Wednesday 25 July 2018

اکیسویں صدی کا طویل ترین چاند گہن: جمعہ 27 جولائی Longest Lunar Eclipse 2018

 اکیسویں صدی کا طویل ترین چاند گہن: جمعہ 27 جولائی 2018
ذیل میں پہلی تصویر 27 جولائی بروز جمعہ کو ہونے والے چاند گہن کا نقشہ ہے جس میں آپ دیکھیں چاند زمین کے سائے میں داخل ہورہا ہے. تصویر میں Penumbra سے مراد زمین کا ہلکا یا جزوی سایہ اور Umbra سے مراد گہرا اور مکمل سایہ ہے .. تصویر میں 27 جولائی کے مکمل گہن کے اوقات کی بھی وضاحت کی گئی کہ کس وقت چاند زمین کے گہرے اور ہلکے سائے گزرے گا.
دئے گئے تمام اوقات گرینج کے معیاری وقت کے مطابق ہیں.

مکمل گرہن کے وقت سرخ رنگ کا کیوں ہوجاتا ہے؟
اس کو سمجھنے کے لئے یہ سمجھئے کہ سورج کی روشنی جو انسانی آنکھ کو دکھائی دیتی ہے وہ دراصل مختلف رنگوں کا مجموعہ ہوتی ہے جسے Spectrum کہا جاتا جو پرزم Prism کے ذریعے یا قوس قزح Rainbow کے وقت دکھائے دیتے ہیں ان رنگوں میں سے کچھ رنگ کی طولِ موج wavelength زیادہ اور فریکوینسی Frequency کم ہوتی ہے جیسے لال اور نارنجی رنگ اور کچھ کی wavelength کم اور Frequency زیادہ ہوتی ہے جیسے نیلا رنگ ..
ہماری زمین کی فضا چونکہ مختلف گیس،  پانی کے قطروں اور دھول مٹی کے ذرات کی بنی ہوئی ہے جب سورج کی روشنی ہماری زمینی فضا سے ٹکراتی ہے تو اس کی روشنی میں موجود نیلا رنگ فضا میں تیزے سے پھیل جاتا ہے اور بکھر جاتا ہے ( اسی وجہ سے ہمیں صبح کے وقت آسمان نیلا دکھائی دیتا ہے ) کیوں کہ نیلے رنگ کی  Frequency زیادہ اور wavelength کم ہے  اور سرخ رنگ فضا میں نہیں پھیلتا کیوں کہ اس کی wavelength زیادہ اور  Frequency کم ہوتی ہے لہذا مکمل چاند گرہن کے وقت سورج سے آنے والی روشنی میں لال رنگ جب زمینی فضا سے ٹکراتا ہے تو فضا میں بکھرتا نہیں بلکہ فضا سے گزر کر چاند پر پڑتا ہے جس کی وجہ سے چاند سرخی و نارنجی مائل رنگ کا دکھائی دیتا ہے.

چاند گہن کب ہوتا ہے؟؟
جب سورج کی روشنی زمین تک پہنچتی ہے تو خلا میں زمین کے پیچھے اس کا سایہ بھی بنتا ہے چاند چونکہ زمین کے گرد گھومتا ہے لہذا بعض اوقات چاند گردش کرتے ہوئے زمین کے سائے میں داخل ہوجاتا ہے اس طرح سورج کی روشنی چاند پر نہ پہنچنے کی وجہ سے چاند تاریک ہوجاتا اس کو چاند گہن کہتے ہیں۔ 27 جولائی بروز جمعہ کو مکمل چاند گہن ہوگا جو بیشتر ایشیائی ممالک میں مکمل طور پر نظر آئے گا. واضح رہے یہ چاند گہن اکیسویں صدی کا سب سے طویل ترین چاند گہن ہوگا اس کا مکمل دورانیہ 6 گھنٹے 14 منٹ ہوگا اور مکمل گرہن کا دورانیہ 1 گھنٹے 43 منٹ ہوگا ۔۔ مکمل چاند گہن اکثر ایشیا، اکثر یوروپ، آسٹریلیا، افریقہ، شمالی امریکہ کے جنوب میں، جنوبی امریکہ، بحرالکاہل Atlantic Ocean، بحر اوقیانوس Pacific Ocean، بحر ہند Indian Ocean اور اینٹارکٹیکا میں نظر آئے گا۔ چاند گہن کی ابتداء عالمی معیاری وقت کے مطابق رات 17:14 پر ..اور انتہاء 23:28 پر ہوگی. چاند گہن کے وقت بغیر جماعت کے دو رکعت نماز پڑھنا مسنون ہے اور سورج گہن کے وقت دو رکعت نماز 
خسوف جماعت کے ساتھ پڑھنا مسنون ہے۔
28۔27 کی رات پونے دو گھنٹے تک:
چاند گہن 28۔27 کی رات کو ہوگا جو تقریبا پونے دو گھنٹے تک رہے گا۔ خاص بات یہ ہوگی کہ اس بار ملک کے سبھی علاقوں سے اسے دیکھا جاسکے گا۔ وزارت ارضیات نے بتایا ہے کہ ایک گھنٹہ 43 منٹ تک چاند پوری طرح زمین کے سایہ میں ہوگا جو نہ صرف سال 2001 سے اب تک کا سب سے طویل مکمل چاند گہن ہوگا بلکہ اگلے 82 برسوں یعنی 2100 تک اتنا طویل مکمل چاند گہن دوبارہ نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ 27 جولائی کو مریخ زمین کے ٹھیک سامنے ہوگا۔ اس طرح اس دن زمین سورج اور مریخ کے درمیان میں ہوگی۔ اس طرح جولائی کے آخری اور اگست کے ابتدائی دنوں میں غروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک پورے عرصے مریخ دکھائی دے گا اور عام دنوں کے مقابلے زیادہ چمکدار نظر آئے گا۔ یہ 31 جولائی کو زمین کے سب سے قریب ہوگا۔ جزوی چاند گرہن 27 جولائی کی رات 11 بج کر 54 منٹ پر شروع ہوگا اور دھیرے دھیرے چاند پر زمین کا سایہ بڑھتا جائے گا اور 28 جولائی کی رات ایک بجے یہ مکمل چاند گہن میں تبدیل ہوجائے گا۔ رات دو بج کر 43 منٹ تک مکمل چاند گہن رہے گا جبکہ ممکنہ چاند گرہن علی الصباح تین بج کر 49 منٹ پر ختم ہوگا۔ 
چاند گہن کے موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ 
 نقص وکمی کو عربی زبان میں 'خسف' کہتے ہیں (الصحاح للجوہری ج 4 ص 1350)
سورج اور چاند کی روشنی میں بشکل گہن جو کمی ہوجاتی ہے اسے 'خسوف' اور 'کسوف' کہتے ہیں۔
بخاری شریف کی روایت (عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يُخْبِرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: "إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَةٌ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا" صحيح البخاري .رقم 3202  
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسوف و خسوف اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں، اس سے مقصود بندوں کو خوف دلانا ہے، پس جب تم اسے دیکھو تو نماز پڑھو) میں خسوف کا اطلاق سورج اور چاند دونوں کے گہن پر ہوا ہے، لیکن ائمہ لغت نے عموماً سورج گہن کے لئے 'کسوف' اور چاند گہن کے لئے'خسوف' کے استعمال کو ترجیح دی ہے، (الصحاح للجوہری ج4ص 1350)
قرآن کریم کی ایک آیت میں چاند گہن کے لئے خسوف کا استعمال ہوا ہے 
ارشاد باری ہے: 
فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ يَقُولُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ  كَلَّا لَا وَزَرَ إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ يُنَبَّأُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ (سورة القيامة 7-13.)
 کسوف و خسوف کی حکمت:
علامہ سیوطی کے بقول دنیا میں بہت سے لوگ کواکب و نجوم کی پرستش کرتے ہیں ، اس لئے حق تعالی شانہ نے سورج و چاند جیسے دو بڑے نورانی اجسام پہ کسوف و خسوف طاری کرنے کا فیصلہ فرمایا تاکہ اپنی قدرت کاملہ دکھلا کر ان کی پوجا کرنے والی اقوام کی غلطی ظاہر کرے (اوجز المسالک 274/2۔ انعام الباری شرح بخاری) 
نیز تاکہ اللہ تعالی صاحب ایمان بندوں کو اپنی بے پناہ قدرت و طاقت دکھائیں  اور مخلوقات کے عجز ودرماندگی کو عالم آشکار کریں  تاکہ مومنین  قیامت کے اس ہولناک مناظر کو یاد کرکے قادر مطلق کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں جن کی منظر کشی قرآن نے کچھ یوں کی ہے:
إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْO
جب سورج لپیٹ کر بے نور کر 
دیا جائے گا۔
التکوير، 81: 1
سنُريهم آيَاتِنَا في الافاق وفِي أنفسهم حتى
يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ.
ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اَطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔ کیا آپ کا رب (آپ کی حقانیت کی تصدیق کے لئے) کافی نہیں ہے کہ وہی ہر چیز پر گواہ (بھی) ہے۔
حٰم السَّجْدَة، 41: 53
آیت کریمہ میں جن نشانیوں کے دکھلانے کی بات کی گئی ہے ان ہی میں  سورج گرہن اور چاند گرہن بھی ہے۔
توہم پرستی سے حقیقت پسندی کی طرف: 
عربوں میں مشہور تھا کہ سوچ گرہن اور چاند گرہن تب لگتا ہے جب زمین پر کوئی بہت بڑا ظلم ہو‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو وہم قرار دیا۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا یَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِهِ وَلَکِنَّهُمَا آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اﷲِ فَإِذَا رَأَیْتُمُوہَا فَصَلُّوا.
سورج اور چاند کو کسی کی موت اور زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب تم انہیں دیکھو تو نماز پڑھا کرو۔
بخاري، 1: 353، رقم: 995، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
مسلم، 2: 630، رقم: 914، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي
اور حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا یَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِهِ وَلَکِنَّهُمَا آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اﷲِ فَإِذَا رَأَیْتُمُوهُمَا فَصَلُّوا.
سورج اور چاند کو کسی کی موت کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب ایسا دیکھو تو نماز پڑھا کرو۔
بخاري، 1: 359، رقم: 1008
سورج وچاند گہن کی عقلی  وجہ اور اس موقع سے شرعی تعلیمات: 
ماہرین فلکیات کے مطابق اگر سورج وچاند  دونوں کے درمیان میں  زمین آجائے تو چاند گرہن ہوتا ہے اور اگر سورج اور زمین کے درمیان میں چاند آ جائے تو سورج گرہن ہوتا ہے، جو کہ انسان کیلیے  قیامت کے دن کا معمولی سا منظر پیش کرتا ہے کہ کس طرح سورج کی بے پناہ روشنی کو اللہ تعالی یک لخت میں ہی گل فرما سکتا ہے۔
مذہب اسلام میں ایسے موقع سے توہمات وخرافات کے شکار ہونے یا تماشہ بینی کی قطعا کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے بلکہ اس عظیم نشانی کو غفلت سے آنکھیں کھولنے اور بارگاہ رب العالمین میں عجز ونیاز اور توبہ واستغفار کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے  
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ایک بار سورج گرہن ہوا تو اتفاق سے اسی دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لخت جگر سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تھی  جس پر لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ آج ابراہیم کی موت پر سورج گرہن ہوا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
{إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَقُومُوا فَصَلُّوا}
ترجمہ: سورج اور چاند کسی کے فوت ہونے پر گرہن نہیں ہوتے۔ یہ تو اللہ تعالی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جب انہیں گرہن ہوتے دیکھو تو نماز کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ صحیح  بخاری: 1041
حَدَّثَنَا مُوسَى أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ قَالَ سَأَلْتُ جَابِرًا عَنْ خُسُوفِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ قَالَ جَابِرٌ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ إِذَا خُسِفَا أَوْ أَحَدُهُمَا فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَصَلُّوا حَتَّى يَنْجَلِيَ خُسُوفُ أَيِّهِمَا خُسِفَ 
مسند أحمد برقم : 14348
ترجمہ: ابوزبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سورج گرہن کے متعلق پوچھا انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ چاند اور سورج گرہن کو گہن لگ جاتا ہے جب تم ایسی چیز دیکھا کرو تو اس وقت تک نماز پڑھتے رہا کرو جب تک گہن ختم نہ ہوجائے۔
مسند احمد :14348 
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گرہن کے وقت خود بھی نماز ادا فرمائی اور کائنات میں اس تبدیلی کے وقت امت کو یہ تعلیم بھی دی :
عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم فَزِعًا یَخْشَی أَنْ تَکُونَ السَّاعَةُ فَأَتَی الْمَسْجِدَ فَصَلَّی بِأَطْوَلِ قِیَامٍ وَرُکُوعٍ وَسُجُودٍ رَأَیْتُهُ قَطُّ یَفْعَلُہُ وَقَالَ هَذِہِ الْآیَاتُ الَّتِي یُرْسِلُ اﷲُ لَا تَکُونُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِهِ وَلَکِنْ {یُخَوِّفُ اﷲُ بِهِ عِبَادَهُ} فَإِذَا رَأَیْتُمْ شَیْئًا مِنْ ذَلِکَ فَافْزَعُوا إِلَی ذِکْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ.
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سورج کو گہن لگا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایسی کیفیت طاری ہوئی جیسے قیامت آگئی ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما ہوئے اور نماز پڑھی، بہت ہی لمبے قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ۔ میں نے آپ کو ایسا کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اور فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ یہ کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ جب تم ایسی کوئی بات دیکھو تو اللہ کے ذکر، دعا اور استغفار کی طرف دوڑا کرو۔
بخاري، الصحیح، 1: 360، رقم: 1010مسلم، الصحیح، 2: 628، رقم: 912
 سورج اور چاند گہن کی نماز کی شرعی حیثیت:
سورج گہن کی نماز تقریبا تمام ہی ائمہ مجتہدین کے نزدیک سنت موکدہ ہے (بعض مشائخ حنفیہ کے مرجوح قول کے مطابق واجب ہے)
 چاند گہن کے بارے میں احناف وموالک استحباب کے قائل ہیں ۔ان کے ہاں کسوف کی طرح یہ نماز مسنون نہیں!  جبکہ شوافع  وحنابلہ اسے بھی مسنون کہتے ہیں ۔(الموسوعہ الفقھیہ 252/27 )
خسوف میں طریقہ نماز و تعداد رکعات: 
حنفیہ کے نزدیک سورج گرہن کی نماز دو رکعت باجماعت بغیر خطبہ کے ہے۔ 
البتہ  چاند گرہن کی نماز میں دو رکعت ہے مگر اس میں جماعت نہیں ہے بلکہ ہر آدمی الگ الگ یہ نماز پڑھے حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک دونوں میں جماعت اور خطبہ ہے۔
احناف کے نزدیک کم از کم دو رکعت ہے  اور چار پڑھنا بھی درست ہے،  چاند گہن کی نماز عام نماز کے طریقہ کار  کے مطابق ایک رکعت میں ایک ہی رکوع کے ساتھ اداء کی جائے گی لیکن اِنفرادی طور پر گھروں میں پڑھیں گے، جماعت سے پڑھنا ہمارے یہاں  مشروع نہیں،
(بدائع 1/282)
البتہ اِمام ابوحنیفہ سراً تلاوت کے ساتھ پڑھنے کے قائل ہیں، جبکہ صاحبین جہراً قراءت کو مسنون قرار دیتے ہیں۔
اِمام مالک کے نزدیک نماز خسوف کی دو رکعتیں مسنون ہیں، اور یہ عام نمازوں کی طرح پڑھی جائے گی ،یعنی ہر رکعت میں ایک ہی رکوع اور دو سجدے کیے جائیں گے، اور اس میں جہرا قراءت کی جائے گی۔
جبکہ شوافع کے نزدیک ہر رکعت میں دو رکوع اور دو سجدے کئے جائیں گے  ۔
خسوف کی دو گانہ جو عام نوافل کی طرح بغیر جماعت کے ایک رکوع اور ہر رکعت میں دو سجدے کے ساتھ جو پڑھی جائے گی تو اس کی دلیل ذیل کی احادیث ہیں: 
عن أبي بكرة أنه قال: كسفت الشمس على عهد رسول الله - صلي الله علية وسلم -، فخرج رسول الله - صلي الله علية وسلم - يجر ردائه حتى دخل المسجد ، فدخلنا فصلى بنا ركعتين حتى انجلت الشمس ، وذلك حين مات ولده إبراهيم ثم قال: "إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله – تعالى – وإنهما لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته فإذا رأيتموها فصلوا وادعوا حتى يكشف ما بكم" (الحديث عن أبي بكرة – رضي الله عنه – في البخاري 2/42، 43 (كتاب الصلاة باب الصلاة في كسوف القمر النبي - r - يخوف الله عباده بالكسوف) وانظر: سنن النسائي 1/214 (كتاب الكسوف ، باب الأمر بالصلاة عند الكسوف حتى تنجلي)   
اس حدیث میں نماز کسوف کا کوئی مخصوص طریقہ نہیں بتایا گیا بلکہ عام طریقہ کے مطابق ہی یہ نماز ادا کی گئی تھی جو دلیل ہے کہ اس کا کوئی مخصوص طریقہ متعین ولازم نہیں ۔بعض مخصوص پس منظر میں حضور نے دو رکوع کئے تھے ۔اس میں تعمیم نہیں ہے۔
اس کیفیت نماز کو ایک دوسری روایت میں "نحو صلوة أحدكم" اور "كهيئة صلاتنا"  کے ذریعہ مزید واضح کردیا گیا:
وفي رواية  عن أبي بكر، أن رسول الله - صلي الله علية وسلم - صلى ركعتين نحو صلاة أحدكم.
وروى الجصاص عن علي والنعمان بن بشير وعبد الله بن عمرو وسمرة بن جندب والمغيرة بن شعبة رضي الله عنهم، أن النبي - صلي الله علية وسلم - صلى في الكسوف ركعتين كهيئة صلاتنا [سنن النسائي، حديث رقم 1489، 3/145، وحديث رقم 1492، 3/146 ، وذكره الجصاص في مختصر اختلاف الفقهاء 1/381 .)
 تیز آندھی آئے یا دن میں اند ھیرا چھا جائے یا رات میں خوفناک روشنی ہو یا لگاتار بہت زیادہ بارش ہو یا آسمان لال ہو جائے یا بجلیاں گریں یا کثرت سے تارے ٹوٹیں یا کوئی وبا وغیرہ پھیل جائے یا زلزلہ آئے یا دشمن کا خوف ہو یا اور کوئی  دہشت ناک بات پائی جائے تو اِن سب صورتوں میں دو رکعت نماز پڑ ھنا بھی  مستحب ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے: 
الصَّلَاةُ فِي خُسُوفِ الْقَمَرِ]
(وَمِمَّا يَتَّصِلُ بِذَلِكَ الصَّلَاةُ فِي خُسُوفِ الْقَمَرِ) يُصَلُّونَ رَكْعَتَيْنِ فِي خُسُوفِ الْقَمَرِ وُحْدَانًا، هَكَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ، وَكَذَلِكَ إذَا اشْتَدَّتْ الْأَهْوَالُ وَالْأَفْزَاعُ كَالرِّيحِ إذَا اشْتَدَّتْ وَالسَّمَاءُ إذَا دَامَتْ مَطَرًا أَوْ ثَلْجًا أَوْ احْمَرَّتْ وَالنَّهَارُ إذَا أَظْلَمَ وَكَذَا إذَا عَمَّ الْمَرَضُ، كَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ.
وَكَذَا فِي الزَّلَازِلِ وَالصَّوَاعِقِ وَانْتِثَارِ (1) الْكَوَاكِبِ وَالضَّوْءِ الْهَائِلِ بِاللَّيْلِ وَالْخَوْفِ الْغَالِبِ مِنْ الْعَدُوِّ وَنَحْوِ ذَلِكَ، كَذَا فِي التَّبْيِينِ، وَذَكَرَ فِي الْبَدَائِعِ أَنَّهُمْ يُصَلُّونَ فِي مَنَازِلِهِمْ، كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ.
(ج1 ص 153)
گہن کی نماز میں اذان واقامت نہیں ہے ۔البتہ لوگوں کو جمع کرنے کے لئے مناسب حال  آواز لگائی جاسکتی ہے۔ 
گہن کی نماز اُسی وقت پڑ ھے جب گہن لگا ہوا ہو۔ اور اگر ایسے وقت گہن لگا جس وقت میں نماز پڑ ھنا مکروہ ہے تو نماز نہیں پڑھے بلکہ ذکر اور دعا میں مشغول رہے۔
اوہام وخرافات:
جیساکہ اوپر کی سطروں میں واضح کردیا گیا کہ چاند گہن خدا کی نشانی ہے ۔مومنوں کو اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرنا چاہئے ۔اس کے لئے باضابطہ نماز مشروع و مستحب ہوئی ہے. 
خدا ئے مالک وخالق کے سامنے سجدہ ریز ہونا چاہئے 
ایسے موقع سے حاملہ خواتین کو گھروں میں بند کردینا یا چاقو وچھری وغیرہ کے استعمال سے انہیں نقصان پہنچنے کا عقیدہ رکھنا شرکیہ وباطل عقیدہ ہے۔ چاند گہن کو کسی کے حمل میں تاثیر ڈالنے یا نقصان پہنچا نے کی کوئی قدرت نہیں ۔ 
واللہ اعلم 
26 جولائی 2018


Chandra Grahan 2018 
or 
Lunar Eclipse 2018 date and time: 
The world is about to witness the longest lunar eclipse in a century on July 27 (night) and early hours of July 28 with duration of one hour and 43 minutes. The lunar eclipse will be visible in India. This day will also be a 'Blood Moon,' where the earth's satellite takes on a reddish hue. A lunar eclipse happens when the moon passes directly behind the earth and the moon is eclipsed by the shadow of the earth. During a total lunar eclipse, the earth blocks direct sunlight reaching the moon. The only light that reflects from the surface is refracted (change of direction) by earth's atmosphere; this light tends to appear reddish, which is why it is known as Blood Moon. The total Lunar Eclipse slated for July 27, 2018 happens on a full moon night. Here are the timings of the Chandra Grahan 2018 or Lunar Eclipse:
When Is Chandra Grahan 2018: Date And Timings Of Lunar Eclipse
The first part or phase of lunar eclipse will see the moon fall under the earth's shadow. This phase is known as the penumbral eclipse (initial stage). The event is said to begin from 11:44 pm IST on July 27. The first phase of the lunar eclipse is expected to set in from 11:54 pm. The total lunar eclipse is estimated to set in from 1:00 am IST on July 28. It is known that the total lunar eclipse or Chandra Grahn effects will be visible in cities including Delhi, Pune, Bengaluru and Mumbai among others.
For the second phase, as the moon continues on its orbit, there will be another partial lunar eclipse, which will be visible from around 2:43 am IST.
According to the reports in ANI, the moon will be in perfect alignment with the sun and the earth. The eclipse will be visible all across the globe, except North America. It can be best viewed from Australia, New Zealand, Africa and Asia.
On January 31st, the world witnessed its first lunar eclipse of the year, where the moon appeared red in colour and much bigger in size. However, it was visible only in a few countries. It was the first time in 152 years, a supermoon, a blue moon and a blood moon coincided




No comments:

Post a Comment