Tuesday 10 July 2018

عقد صحيح کے بعد ثبوت نسب کے لئے امکان وطی شرط نہیں

عقد صحيح کے بعد ثبوت نسب کے لئے امکان وطی شرط نہیں
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حضرت ایک سوال ہے اس عبارت پر جو پہشتی زیور میں حضرت تھانوی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ اگر شوہر مدت سے پردیس میں ہو اور بیوی کو بچہ ہوتو اسی شوہر کا مانا جائے گا یا تو خبر پاتے ہی شوہر انکار کردے کہ میرا نہیں ہے تو لعان کیا جائے گا. اسکو حدیث سے ثابت کردیں کہ کتنی مدت تک یہ مسئلہ ہے. نوازش ہوگی

الجواب وباللّٰہ التوفیق:
نفس الامر اور حقیقت میں کون کس کے نطفے سے ہے؟ اس کا علم صرف اللہ کو ہے
یعنی نسب حقیقی و نفس الامری کا اثبات مشکل ہے
جس کے پیش نظر احتیاطا اسلام میں ظاہری علامت و قرینہ کو اس کا معیار متعین کردیا گیا ہے
کیونکہ اگر اثبات نسب میں اس قدر احتیاط سے کام نہ لیا جاتا تو بیشمار نسب ضائع ہوجاتے
کیونکہ مجہول النسب لوگوں کے تئیں معاشرہ میں تنفر و کراہت کا تاثر پایا جاتا ہے
اس لئے منکوحہ عورت کے لئے شوہر والی ہونا (فراش) ہونا ثبوت نسب کا سبب قوی ہے
اور نکاح اور عقد صحیح ہی کو  وطی کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے
چنانچہ اگر کسی خاتون کا کسی مرد سے نکاح ہوچکا ہو
اور دونوں میں حقیقی یکجائی ومجامعت کے بغیر نکاح کے چھ ماہ بعد بچہ تولد ہوجائے تو معلوم ہونے کے بعد اگر شوہر اس بچہ کو قبول کرلے یعنی خود سے اس کے نسب کی نفی نہ کرے تو اس بچہ کا نسب اسی شوہر سے ثابت ہوگا اور نفس عقد (ظاہری قرینہ) کو وطی کے قائم مقام سمجھا جائے گا
اگر یہ بچہ نفس الامر میں اس کا نہ ہوتا تو لعان کرنا اس پر واجب تھا لیکن جب اس نے واجب کو ترک کرکے ناجائز کام کررہا ہے تو یہ قرینہ ہے کہ دونوں میں ملاقات کہیں نہ کہیں ہوئی ہے اور یہ بچہ اسی کے نطفے سے ہوگا
ورنہ وہ ترک لعان کرکے ارتکاب حرام کیوں کرتا؟
آج کل کی تیز رفتار سواری کی دستیابی یا بطریق کرامت دوری کے بعد  بھی دونوں کی یکجائی و ملاقات کا انکار نہیں کیاجاسکتا ہے
اگر شوہر اپنے سے بچے کی نفی کرتا ہے تو اس کی صرف ایک صورت ہے کہ وہ شرعی طور پر لعان کے ساتھ اپنے سے بچے کے نسب کی نفی کرے، اگر ان میاں  بیوی میں لعان کی شرائط نہیں پائی جاتیں
(لعان کے لئے دارالاسلام شرط ہے دارالحرب میں لعان نہیں ہے۔) یا پائی تو جاتی ہیں لیکن شوہر لعان نہیں کرتا تو بچے کا نسب شوہر ہی سے ثابت ہوگا، انکار کرنے سے نسب کی نفی نہیں ہوگی۔ ثبوت نسب کیلئے فراش کا ہونا ضروری ہے اور یہاں فراش پایا جاتا ہے۔ (وطی حلال ہونے کو فراش کہتے ہیں)
نسب کے معاملہ میں اصل فراش ہے۔ فراش صحیح کے بعد ناجائز بچہ بھی صاحب فراش کا جائز بچہ ہی ہر حال میں تصور ہوگا۔
(نہ بایں معنی کہ کہا جاوے کہ واقع میں شوہر کے نطفہ سے ہے؛ بلکہ بایں معنی کہ واقعہ کا حال دلیل قطعی سے معلوم نہیں اس لئے صاحب نکاح صاحبِ حق ہے)
لہذا عقد کے وقت سے چھ مہینے کے بعد اگر بچہ پیدا ہوا تو اس کا نسب صاحب فراش سے ہی ثابت ہوگا۔ اس کے انکار کرنے سے اور  بیوی کے اس کے انکار کی تصدیق کردینے سے بھی نسب منتفی نہیں ہوسکتا، نکاح ہوجانے  کے بعد ثبوت نسب کے لئے امکان وطی شرط نہیں ہے، بیوی سے جدا رہنے کی کوئی مدت متعین نہیں، طلاق یا تفریق تک یہی حکم ہے:
وكذا إذا نفى نسب ولد حرة فصدقته لاينقطع نسب الولد .بدائع 54/5.
ثبوت نسب کے بارے اس احتیاطی پہلو کی بنیاد صحیحین کی یہ مشہور حدیث ہے
4052 حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدٍ أَنْ يَقْبِضَ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ وَقَالَ عُتْبَةُ إِنَّهُ ابْنِي فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ فِي الْفَتْحِ أَخَذَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ فَأَقْبَلَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَقْبَلَ مَعَهُ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ فَقَالَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ هَذَا ابْنُ أَخِي عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُ ابْنُهُ قَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَخِي هَذَا ابْنُ زَمْعَةَ وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ابْنِ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ فَإِذَا أَشْبَهُ النَّاسِ بِعُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ لَكَ هُوَ أَخُوكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ قَالَتْ عَائِشَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ وَقَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَصِيحُ بِذَلِكَ
صحيح البخاري. المغازي
و فی الشامیۃ، باب ثبوت النسب (۵۵۰/۳): مطلب الفراش على أربع مراتب قوله (على أربع مراتب) ضعيف وهو فراش الأمة لا يثبت النسب فيه إلا بالدعوة ومتوسط وهو فراش أم الولد فإنه يثبت فيه بلا دعوة لكنه ينتفي بالنفي وقوي وهو فراش المنكوحة ومعتدة الرجعي فإنه فيه لا ينتفي إلا باللعان وأقوى كفراش معتدة البائن فإن الولد لا ينتفي فيه أصلا لأن نفيه متوقف على اللعان وشرط اللعان الزوجية
وفی الھندیۃ (۵۱۹/۱): رجل له امرأة فجاءت بولد فنفاه وقال هذا الولد ليس مني أو قال هذا الولد من الزنا وسقط اللعان بوجه من الوجوه فإنه لا ينتفي النسب سواء وجب عليه الحد أو لم يجب وكذلك إذا كان من أهل اللعان فلم يتلاعنا فإنه لا ينتفي النسب كذا في شرح الطحاوي ۔
وفیہ أیضاً (۵۴۰/۱):أكثر مدة الحمل سنتان وأقل مدة الحمل ستة أشهر كذا في الكافي۔
وفیہ أیضاً(۱۱۳/۴): ولثبوت النسب مراتب ثلاث أحدها بالنكاح الصحيح وما هو في معناه من النكاح الفاسد والحكم فيه أنه يثبت من غير دعوى ولا ينتفي بمجرد النفي وإنما ينتفي باللعان في النكاح الصحيح دون الفاسد كذا في الظهيرية وله أن ينفيه ما لم يقر بنسبه صريحا أو يظهر منه ما يكون اعترافا من قبول تهنئة أو شراء متاع الولادة۔الخ۔۔

واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
مركز البحوث الإسلامية العالمي

No comments:

Post a Comment