Wednesday 31 January 2024

اٹھو کہ اب وقت قیام آیا

اٹھو کہ اب وقت قیام آیا 
-------------------------------
-------------------------------- 
خطرات کا احساس وشعور ہی افراد واقوام کو متحد ومجتمع کرتا ہے ، ماحول واطراف سے آنکھیں بند کرکے، جہالت، ظلمت، ذلت، عزلت، نفرت، عداوت، شقاوت، ندامت، خجالت، پائمالی، خستہ حالی، زبوں حالی اور احساس کمتری کی زندگی بسر کرنے پر راضی ہوجانا، گرد وپیش کی فضاء کو ہموار کرنے کی کوشش نہ کرنا “ جرم “ ہے اور مسائل کے حل کی راہ ڈھونڈنے کی کوششیں نہ کرنے والے قومی اور ملی مجرم ہیں ،ہندوستان کے حالات ماضی میں بھی خراب رہے ہیں؛ لیکن 2014 میں سنگھ کے پرچارک ورضا کار نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد پورے ملک میں مسلم مخالفت اور اسلام دشمنی کی جو عمومی لہر چل پڑی ہے ، اسے باضابطہ نظریاتی شکل دے کرانتہائی منصوبہ بند طریقے سے ذرائع ابلاغ ، نصاب تعلیم ، فلمز اور دیگر منفی پڑاپیگنڈوں کے ذریعے سماج کے ہر طبقے کے رگ وپا میں رچا بسا دی گئی ہے ، اس مسموم فضا کی ہمواری اور ہندو انتہا پسندانہ سوچ کے پیچھے سینکڑوں متشدد تنظیموں کی قریب ایک صدی سے زیادہ کی بامقصد تنظیم، جدو جہد، بے دریغ تمام وسائل کا استعمال اور محنت کار فرما ہے۔ملک کی مسلم اقلیت کو اپنی تہذیبی شناخت مکمل طور پر ختم کر اکثریتی فرقے اور ہندوانہ کلچر میں ضم کردینے کے سارے جتن کئے جارہے ہیں ، ملک کا ایک جمہوری آئین ودستور ہونے کے باوجود منو سمرتی کی بنیاد پر ملک کو چلایا جارہا ہے ۔ جرمنی کے ہٹلر کی سفاکیت اور قتل عام کو یہاں کے نسل پرست ہندو آئیڈیل مانتے ہوئے اسے مسلمانوں پہ آزمانے کی کوششیں کررہے ہیں، آئین وقانون کے رکھوالے "سیاہ پوشوں" کے عدل کے ہتھوڑوں کے ذریعے رہ رہ کر جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہا ہے، مسلمانوں کا پورا وجود وتشخص مٹادینے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی اعتبارسے  منتشر ، ٹکڑوں اور ٹولیوں میں منقسم کمزور وجاں بلب قوم مسلم  اس منظم وہمہ گیر فاسشٹ سازشوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ کیا جوشیلی، جذباتی، ہیجان انگیز تقریریں اور غیر ضروری مسائل میں آستین چڑھا کر میدانوں میں کود پڑنےاور طوفانِ "ہاؤ ہو" بپا کرنے سے مسائل حل ہونگے ؟ دبی، کچلی، پِسی، حالات سے دگر گوں، سسکتی اور کراہتی مسلم اقلیت کے مسائل کے لئے ایوان پارلیمنٹ میں مشترکہ ومتفقہ آواز اٹھانے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں، جو ہیں بھی وہ مسائل، مصلحتوں، اندیشہ ہائے دور دراز، خوف اور محبوب کے "زلف گرہ گیر" کے اسیر ہیں. حالات سے نمٹنے کے لئے کوئی منصوبہ بند لائحہ عمل اور پلان بالکل نہیں ہے، جلسے جلوس میں گلے پھاڑ پھاڑ کے لچھے دار بیانات سے نکل کر زمینی سطح پہ محنت کرنے اور جامع وہمہ گیر منصوبہ سازی اور ملک گیر انقلابی تحریک کا بالکل ہی فقدان ہے.
زمینی محنت، منظم پلاننگ  اور باہم مربوط کوششیں فتح یابی میں مؤثر رول ادا کرتی ہیں ، خوش نما ودل فریب جذباتی نعروں ، محض دعائوں اور اوراد ووظائف سے سیاسی میدان نہیں مارے جاتے۔
مسلمانوں کو مایوسی کا شکار ہوکر حوصلہ شکستہ ہونے کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن ماضی کی وثنی اور الحادی تحریکات کے برعکس موجودہ  تحریک وثنیت کافی منصوبہ بند اور منظم ہے، خطرات کے بادل کافی گہرے ہیں، دفاعی طور پہ ہم خستہ اور زبوں حال ہیں، دشمنوں اور رہزنوں کی کمین گاہوں پر نظر رکھنے والے اولوالعزم "منزل آشنا" چوکنا، بابصیرت وباحوصلہ وباکردار ، عزم وہمت کے پیکر قائدین کی ضرورت ہے. جو پوری جواں مردی وپامردی کے ساتھ موجودہ سازشوں اور یورشوں کا رخ موڑ سکیں ۔
مذہبی منافرت کم کرنے اور اور آپسی محبت پروان چڑھانے کی کوششیں اور مذہبی رواداری کا فروغ یقیناً خوش آئند اور احسن اقدام ہے لیکن یہ سب کچھ اس طرح نہ ہو کہ "وحدت ادیان" یا "دین الٰہی" کی یاد پھر سے تازہ ہوجائے۔ تاریخ ایسی حماقتوں کو رد کرچکی ہے، مذہبی شناخت اور اس کی امتیازی حیثیت باقی رکھتے ہوئے حکیمانہ اور مفاہمانہ کوششیں بروئے کار لائی جاسکتی ہیں۔
سیاسی، مسلکی، ادارہ جاتی انتشار کا شکار منتشر قومیں اسی طرح قسطوں میں ماری جاتی ہیں، اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اس قوم کے افراد متحد ہونے کو تیار نہیں ہیں، مذہبی رواداری کے دل رُبا وحسین عنوان پہ وحدتِ ادیان جیسی لایعنی اور تاریخ میں مسترد شدہ کوششوں کو پھر سے نئی جہت اور نئی شکل دی جارہی ہے، ایمان، عقیدہ، علم، عمل، شعور، ادراک، غیرت، حمیت اور خود داری میں ضعف (جرم ضعیفی) کا  نتیجہ یہی ہونا ہے جو سامنے ہے : 
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے 
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات 
اے طائرِ لاہُوتی! اُس رزق سے موت اچھّی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
مركز البحوث الإسلامية العالمي 
( 19؍رجب المرجب ، روز چہار شنبہ 1445ھ
31 جنوری 2024ء) 
https://saagartimes.blogspot.com/2024/01/blog-post_83.html

انسان کے دماغ میں کمپیوٹر چپ نصب کرنے کا پہلا کامیاب تجربہ

انسان کے دماغ میں کمپیوٹر چپ نصب کرنے کا پہلا کامیاب تجربہ

مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) کے مالک ایلون مسک کی کمپنی نیور النک پہلی مرتبہ انسانی دماغ میں وائر لیس برین چپ نصب کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اس امر کا اعلان منگل کے روز ایلون مسک نے اپنے ایکس اکانٹ پر پوسٹ کرتے ہوئے کیا جس میں بتایا گیا: کہ پہلے انسان میں نیور النک کا برین چپ امپلانٹ کردیا گیا ہے اور مریض اب ٹھیک ہورہا ہے۔ ایلون مسک نے یہ بھی بتایا کہ ابتدائی نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں جس دوران نیورونز کی سرگرمیوں میں اضافے کو دیکھا گیا۔انہوں نے بتایا کہ اس چپ کی مدد سے لوگ اپنے خیالات کے ذریعے موبائل فون، کمپیوٹر سمیت تمام الیکٹرونک ڈیوائس کو استعمال کرسکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں یہ چپ ہاتھوں پیروں کو استعمال کرنے سے معذور افراد کے دماغ میں نصب کیا جائے گا۔یاد رہے کہ امریکی سٹارٹ اپ نیور النک ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک کی کمپنی ہے، جسے 2016 میں بنایا گیا تھا، اس کمپنی کا مقصد ایسی کمپیوٹرائزڈ چپ تیار کرنا ہے، جنہیں انسانی دماغ اور جسم میں داخل کرکے انسان ذات کو بیماریوں سے بچانا ہے۔ گذشتہ سال اپنے امپلانٹ کا پہلا انسانی ٹرائل کرنے کیلئے امریکی ہیلتھ واچ ڈاگ سے کلیئرنس حاصل کی تھی، جس کا مقصد اسے فالج کے مریضوں کی مدد کیلئے استعمال کرنا ہے۔نیورالنک کی ویب سائٹ کے مطابق، کمپنی کا مشن ایک ’عمومی دماغی انٹرفیس‘ بنانا ہے تاکہ ان لوگوں کی خودمختاری بحال کی جا سکے جن کی طبی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔برین امپلانٹ کے پرائم نامی تحقیقاتی ٹرائل میں quadriplegic مریضوں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہوں گے ،جو ریڑھ کی ہڈی کی چوٹوں اور یہاں تک کہ امیوٹروفک لیٹرل سکلیروسیس (ALS) کا شکار ہیں۔اس سے قبل ٹیلی پیتھی کو حقیقت بنانے کی مسک کی کوشش تحقیقات کی زد میں آچکی ہے جب کمپنی کو اس ماہ ٹرائل سیفٹی پروٹوکول کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ کیا گیا تھا۔پانچ بلین ڈالر کی اس کمپنی پر یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ٹیکنالوجی کی حفاظت سے متعلق سرمایہ کاروں کو گمراہ کررہی ہے، جبکہ اس کے ٹیسٹ ٹرائلز کے نتائج میں جانوروں میں فالج، دورے اور دماغ کی سوجن ظاہر ہوئی تھی۔ ( #ایس_اے_ساگر )


Friday 26 January 2024

ہندو احیا پرستی کی موجودہ یورش: اور اس کا سدّباب

ہندو احیا پرستی کی موجودہ یورش: اور اس کا سدّباب
-------------------------------
--------------------------------
 خود سری، لاقانونیت، جبر وعدوان، سرکشی اور سفاکیت وبہیمیت جیسے رذائل کی روک تھام کے لئے "خالق کائنات" نے خود ہی انسانوں کے لئے زندگی گزارنے کا دستور عطاء کیا، جسے "دین ومذہب" کہتے ہیں، اس قانون فطرت کی پیروی کئے بغیر انسانوں میں "انسانیت" پیدا ہوسکتی، نہ انسانی حقوق وآداب کا تحقق متصور ہے.
ہر زمانے اور ہر قوم وملت میں اسی خدائی نظام حیات کی تعبیر وتشریح اور ترجمانی کے لئے نبیوں اور رسولوں کی بعثت کا سلسلہ شروع کیا گیا، از آدم تا ایں دم ، مخلف زمانوں، مکانوں اور قوموں میں لاکھ سے متجاوز برگزیدہ بندوں اور پیغامبروں کی آمد ہوئی، ہرایک نے خدائی تعلیمات وہدایات کے مطابق صالح معاشرے کی تشکیل کی کوششیں فرمائیں، پَر تاریخی حقیقت ہے کہ مرور زمانہ کے ساتھ انبیاء ورسل علہیم الصلوۃ والسلام کی ہدایات وتعلیمات بشری خرد برد اور تصرفات سے محفوظ نہ رہ سکیں، تاریخ مذاہب وادیان میں بطور خاص صرف قرآن یعنی اسلامی شریعت کو یہ امتیاز واعزاز حاصل ہے کہ وہ سدا بہار اور حد درجہ عصری اور "اپ ٹو ڈیٹ" ہے ، امتداد زمانہ دین اسلام کے صاف وشفاف چہرے اور رخِ زیبا پہ کہنگی اور بوسیدگی کی چادر نہیں ڈال سکتا ، چودہ سو سال پیشتر اس کے چہرے مہرے پر جو نکھار وبہار تھا تاقیامت وہی چمک دمک باقی رہے گی ، ہر دور ، ہر زمانہ، ہر ملک، ہر علاقہ اور ہر عمر کے لئے "شریعت اسلامیہ" جوان ہے۔ تغیر پذیر دنیا کا کوئی اثر دین اسلام پہ نہیں پڑسکتا، ہزار تغیرات زمانہ اور لاکھ انقلابات دہر کے باوجود بے کم وکاست وہ اصلی شکل میں محفوظ ہے اور رہے گا. وقت کی کوئی رفتار ، یا زمانے کا کوئی نشیب وفراز اسے بوسیدہ یا ناقابل عمل نہیں بناسکتی، چونکہ اس نظام الٰہی کا واضع خود خالق کائنات ہے، اس میں انسانی طبائع، بشری رجحانات اور بدلتے ہوئے حالات وادوار کی پوری رعایت موجود ہے؛ اس لئے یہ دین، آفاقی ہے، عالمگیر ہے، دائمی ہے اور سابقہ تمام ادیان سماوی کو اپنے جلو میں سموئے ہوئے بھی ہے، حیات انسانی کے تمام پہلوؤں کو شامل، جامع ، مانع ، مہذب ومنقح شکل میں موجود ہے، ہر زمانے، ہر قوم اور تمام انسانیت کے لئے قیامت تک کے لئے آخری سرچشمہ ہدایت ہے ، یہاں من وتو کا فرق، کالے، گورے کا تفاوت وتفاضل ، سماجی یا طبقاتی امتیاز وتقسیم نہیں ہے، اسلام سب کے لئے اور سدا کے لئے ہے. قرآن ساری انسانیت کا مشترکہ میراث ہے، خالق کائنات نے ہر نوع کی تحریف وتصرف سے اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود لے رکھی ہے ۔اس دین وشریعت کی شان ہمہ گیری اور اس کے اساس وقواعد کی جامعیت دیکھئے کہ صرف ۲۳ سال کی محدود محنت سے دنیا کی سب سے گرے ہوئے معاشرے کو وحشیت کے انتہائی نیچے مقام سے اٹھاکر تہذیب وتمدن کے بلند ترین مرتبہ تک، اورآسمانی طاقت سے یکسر باغی قوم کو ایک معبود برحق کے سامنے سجدہ ریز کرکے  پوری تاریخ انسانی کا سب سے کاپاکیزہ ومثالی معاشرہ قائم کرکے دکھادیا.
اسلام کی بڑھتی مقبولیت اور شبانہ روز کی ترقیات گم گشتہ راہ باغیان خدا کو ایک نظر نہیں بھاتی ، ویسے تو ہر دور میں شمع ایمان گل کردینے کی منصوبہ بند کوششیں ہوتی رہی ہیں ؛ لیکن اس وقت مادر وطن بھارت میں بت پرست حلقوں کی طرف سے کوشش اب یہ ہے کہ اپنے وثنی افکار ونظام کو عالم گیر اور انسانیت کا ترجمان بناکر پیش کریں. ۲۲ جنوری ۲۰۲۴ کو صرف رام مندر کا افتتاح ہی نہیں تھا بلکہ عین اسی وقت دنیا میں موجود تمام ہندو احیاء پرست تنظیموں کو مامور کیا گیا تھا کہ اپنے اپنے ملکوں میں رام مندر کا تمثیلی ماڈل پیش کریں اور پوری دنیا میں ایک نئے نظریاتی سماج کی بالادستی قائم کرنے کا اجتماعی حلف لیں۔ چنانچہ اسی تاریخ میں دنیا میں پھیلے برہمنی تنظیموں نے پوری مستعدی کے ساتھ بامقصد طریقے سے ایسی نشستیں منعقد کیں اور دنیا میں نئے نظام کی بالادستی کے لئے کوششیں تیز کرنے کا عہد کیا.
تاریخ ہند پر نظر رکھنے والے اہل نظر سے یقیناً مخفی نہ ہوگا کہ ہندو احیاء پرستی کی کوششوں کی تاریخ ہندستان میں نئی نہیں ہے؛ بلکہ بہت پرانی ہے اور بحمدللہ مسلمانوں نے ہر بار کامیابی کے ساتھ ان تمام لہروں اور یورشوں کا مقابلہ کیا ہے۔ 
غازی سلطان غیاث الدین تغلق کی بادشاہت سے پیشتر مذہب بیزار شخص خسرو خاں کے عہداقتدار میں ہندوانہ نظام کی بالا دستی کے لئے اہانت اسلام اور مسلمانوں پر ظلم وستم کے دل خراش واقعات ہوں یا اکبر کے زمانے میں دین الٰہی کی ایجاد وقیام اور اسلامی تشخصات کی توہین وتمسخر! غرضیکہ ماضی میں بھی اسلام مخالف لہریں اور ہندو احیائیت کی تحریکیں شد ومد سے چلی ہیں. سلطان غیاث الدین تغلق نے خسرو خاں کے فتنے کی کامیاب سرکوبی کی تھی، جبکہ دین الٰہی کے فتنوں کا قلع قمع کرنے میں خواجہ باقی باللہ اور ان کے شاگرد حضرت شیخ مجدد الف ثانی رحمہا اللہ کی محنتیں رنگ لائیں۔
سلطنت مغلیہ کے زوال اور انگریزوں کے ملک عزیز پہ تسلط کے بعد ان کی خفیہ سرپرستی اور آشرواد سے آریہ سماج ، بعدہ شدھی وسنگھٹن، پھر مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوائے نبوت کے ذریعے جو ارتدادی فتنے پورے زور وطاقت سے بپا کئے گئے تھے، خدا کے فضل سے  علمائے دیوبند نے ان تمام طوفانوں اور فتنوں کا کامیاب مقابلہ کیا، دفاع اسلام کا مقدس اور بروقت فریضہ انجام دیتے ہوئے مسلمانوں کو ارتدادی سیلاب سے بچالیا.
لیکن قابل غور اور حیران کن بات یہ ہے کہ ماضی کی ہندو احیائیت کی تحریکیں وقتی رد عمل ، غلبہ حال ، مذہبی تعصب ونفرت، اقتدار کی تبدیلی کا شاخسانہ اور ردعمل کے بطور تھیں، ان کے پیچھے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی اور مضبوط حکمت عملی کارفرما نہیں تھی ؛ جبکہ 2014 میں سنگھ کے پرچارک رہے نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ہندوستان میں ہندو احیاء پرستی، رام راج کے نفاذ، اور پورے ملک میں مسلم مخالفت  اور اسلام دشمنی کی جو عمومی لہر چل پڑی ہے ، اسے باضابطہ نظریاتی شکل دے کرانتہائی منصوبہ بند طریقے سے ذرائع ابلاغ ، نصاب تعلیم ، فلمز اور دیگر منفی پڑاپیگنڈوں  کے ذریعے سماج کے ہر طبقے کے رگ وپا میں رچا بسا دی گئی ہے ، اس  مسموم فضا کی ہمواری اور ہندو انتہا پسندانہ سوچ کے پیچھے سینکڑوں متشدد تنظیموں کی قریب ایک صدی سے زیادہ کی بامقصد تنظیم، جدو جہد، بے دریغ تمام وسائل کا استعمال اور محنت کار فرما ہے۔ملک کی مسلم اقلیت کو اپنی تہذیبی شناخت مکمل طور پر ختم کر اکثریتی فرقے اور ہندوانہ کلچر میں ضم کردینے کے سارے جتن کئے جارہے ہیں ، ملک کا ایک جمہوری آئین ودستور ہونے کے باوجود منو سمرتی کی بنیاد پر ملک کو چلایا جارہا ہے ۔ جرمنی کے ہٹلر کی سفاکیت اور قتل عام کو یہاں کے نسل پرست ہندو آئیڈیل مانتے ہوئے اسے مسلمانوں پہ آزمانے کی کوششیں کررہے ہیں، آئین وقانون کے رکھوالے "سیاہ پوشوں" کے عدل کے ہتھوڑوں کے ذریعے جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہا ہے ، مسلمانوں کا پورا وجود وتشخص مٹادینے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی اعتبارسے  منتشر ، ٹکڑوں اور ٹولیوں میں منقسم کمزور وجاں بلب قوم مسلم  اس منظم وہمہ گیر ہندو احیاپرست سازشوں کا مقابلہ کیسے کرے ؟ 
کیا جوشیلی، جذباتی ، ہیجان انگیز تقریریں اور غیر ضروری مسائل میں آستین چڑھا کر میدانوں میں کود پڑنےاور طوفانِ "ہاؤ ہو" بپا کرنے سے مسائل حل ہونگے ؟ دبی، کچلی، پِسی، حالات سے دگر گوں، سسکتی اور کراہتی مسلم اقلیت کے مسائل کے لئے ایوان پارلیمنٹ میں مشترکہ ومتفقہ آواز اٹھانے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں، جو ہیں بھی وہ مسائل، مصلحتوں، اندیشہ ہائے دور دراز، خوف اور محبوب کے "زلف گرہ گیر" کے اسیر ہیں. حالات سے نمٹنے کے لئے کوئی منصوبہ بند لائحہ عمل اور پلان بالکل نہیں ہے، جلسے جلوس میں گلے پھاڑ پھاڑ کے لچھے دار بیانات سے نکل کر زمینی سطح پہ محنت کرنے اور جامع وہمہ گیر منصوبہ سازی اور ملک گیر انقلابی تحریک کا فقدان ہے.
زمینی محنت، منظم پلاننگ  اور باہم مربوط کوششیں فتح یابی میں مؤثر رول ادا کرتی ہیں ، خوش نما ودل فریب جذباتی نعروں ، محض دعائوں اور اوراد ووظائف سے سیاسی میدان نہیں مارے جاتے۔
مسلمانوں کو مایوسی کا شکار ہوکر حوصلہ شکستہ ہونے کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن ماضی کی وثنی اور الحادی تحریکات کے برعکس موجودہ  تحریک وثنیت کافی منصوبہ بند اور منظم ہے، بادل کافی گہرے ہیں، دفاعی طور پہ ہم خستہ اور زبوں حال ہیں، دشمنوں اور رہزنوں کی کمین گاہوں پر نظر رکھنے والے اولوالعزم "منزل آشنا" چوکنا، بابصیرت وباحوصلہ وباکردار ، عزم وہمت کے پیکر قائدین کی ضرورت ہے. جو پوری جواں مردی وپامردی کے ساتھ موجودہ ہندو احیائیت کا وہی حشر نشر کریں  جو کبھی حجۃ الاسلام الامام محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے آریہ سماج کا کیا تھا:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے 
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
مذہبی منافرت کم کرنے اور اور آپسی محبت پروان چڑھانے کی کوششیں اور مذہبی رواداری کا فروغ یقیناً خوش آئند اور احسن اقدام ہے لیکن یہ سب کچھ اس طرح نہ ہو کہ "وحدت ادیان" یا "دین الٰہی" کی یاد پھر سے تازہ ہوجائے۔ تاریخ ایسی حماقتوں کو رد کرچکی ہے ، مذہبی شناخت اور اس کی امتیازی حیثیت باقی رکھتے ہوئے حکیمانہ اور مفاہمانہ  کوششیں بروئے کار لائی جاسکتی ہیں ۔
 (14 رجب المرجب 1445ھ 26 جنوری 2024ء)
https://saagartimes.blogspot.com/2024/01/blog-post_26.html

Wednesday 24 January 2024

خود اعتمادی کیسے انسانی جسم کو بیماری سے لڑنے میں مدد کرسکتی ہے؟

 خود اعتمادی کیسے انسانی جسم کو بیماری  سے لڑنے میں مدد کرسکتی ہے؟

بہت سے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ اگر آپ اپنے آپ پر یقین رکھتے ہیں تو آپ جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط بن سکتے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ آپ ہر قسم کی مشکل اور مصیبت پر قابو بھی پا سکتے ہیں۔’جب مجھے پتہ چلا کہ مجھے کینسر ہے تو میں چند سیکنڈ کیلئے بے حس ہو گئی تھی۔ لیکن اگلے ہی لمحے، میں نے فیصلہ کیا کہ میں جلد از جلد اس بیماری سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہوں۔یہ الفاظ ہیں دہلی کی سرحد سے متصل غازی آباد کی رہائشی انیتا شرما کے۔ انیتا کہتی ہیں کہ جب انھیں پتہ چلا کہ انھیں چھاتی کا کینسر ہے تو انھیں شدید صدمہ پہنچا مگر ان کے خاندان کی حالت ان سے بھی زیادہ خراب تھی۔وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے اپنے ارد گرد اپنے پیاروں کی حالت دیکھی تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں ہار نہیں مانوں گی۔ صرف ایک ہفتہ بعد ہی میرا آپریشن ہوا۔ میں نے کبھی بھی اپنے ذہن میں یہ خیال نہیں آنے دیا کہ مجھے کوئی بہت ہی خطرناک بیماری ہے۔‘انیتا کی 2013 میں سرجری ہوئی تھی لیکن اب وہ معمول کی زندگی گزار رہی ہیں اور بس یہی نہیں بلکہ وہ لوگوں کو مثبت سوچنے کی بھی ترغیب دے رہی ہیں۔

ارتکاز اورمراقبہ کی اہمیت:

انیتا شرما کی قوت ارادی نے انھیں کبھی مایوس نہیں ہونے دیا۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کی بیماری چیلنجنگ ضرور ہے، لیکن وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ آسانی سے اس کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔مسیسپی ا سٹیٹ یونیورسٹی میں اسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر زکری ایم گیلن کا کہنا ہے کہ خود اعتمادی خود کو متحرک کرنے میں مدد دیتی ہے اور اس کے انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بی بی سی ریلز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زکریا کا کہنا تھا کہ ’اس سے ایپینیفرین، ایڈرینالین اور ہارمون نوراڈرین کی سطح میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ہارمونز طاقت کے احساس کو بڑھاتے ہیں اور آپ مشکل سے مشکل وقت میں بھی مثبت سوچنے لگتے ہیں۔ڈاکٹر گیلن کے مطابق ’پورے اعتماد کے ساتھ ورزش کرنے سے پٹھوں کی طاقت میں بہت زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہی ایک کھلاڑی کی طاقت کا اصل راز ہے۔‘ا±ن کا مزید کہنا ہے کہ ’جتنے بڑے پٹھے ہوتے ہیں، جسم اتنا ہی مضبوط اور طاقتور ہوتا جاتا ہے۔‘

مثبت سوچ اور اعتماد کیوں ضروری ہے؟

ڈاکٹر زکری ایم گیلن کے مطابق ’اعضا جسم کی ضروریات کے مطابق کردار ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ایک عام شخص کا جسم ایک ایتھلیٹ کی طرح کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا ہے تو یہ طاقتور بن سکتا ہے اور مسلسل کارکردگی کو بہتر بناسکتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی مثبت خیالات آپ کو اپنے مقصد کی طرف توجہ مرکوز کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔‘انیتا شرما کے معاملے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علاج کے دوران ان کے دائیں ہاتھ کو نقصان پہنچا تھا۔انیتا نے بی بی سی کے آر دویدی کو بتایا کہ کیمو کے دوران نامناسب ادویات کی وجہ سے ان کا ہاتھ اچانک سوج گیا اور پھر تین انگلیوں نے کام کرنا بند کر دیا۔انیتا نے بتایا کہ شروع میں انھوں نے سوچا تھا کہ وہ اس ہاتھ سے کچھ نہیں کر سکتیں، لیکن انھوں نے امید نہیں چھوڑی۔ آہستہ آہستہ انھوں نے اپنی انگلیوں کو حرکت دینا شروع کر دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اب چاہے آٹا گوندھنے کا معاملہ ہو یا کوئی بھاری چیز اٹھانا ہو، ان کی انگلیاں انھیں زیادہ پریشان نہیں کرتیں۔

بے بس محسوس نہ کریں:

انیتا کے مطابق کسی کو کبھی بھی بے بس محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ اپنے آپ پر یقین رکھنا سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپریشن کے بعد بھی وہ بستر پر لیٹنا پسند نہیں کرتی تھیں۔انیتا کو جولائی 2013 میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور ایک ہفتے کے اندر ان کا آپریشن ہوا تھا۔آپریشن کے دوسرے دن سے ہی وہ اکیلی ہی کسی کی بھی مدد کے بغیر واش روم جانا شروع ہو گئیں تھیں۔وہ مثبت سوچ پر زور دیتی ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ ورزش جسم کو مضبوط بناتی ہے اور مثبت سوچ ذہنی مضبوطی کا باعث بنتی ہے جس کے بعد مشکل ترین چیلنجز بھی خود کو چھوٹا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ورزش دماغی بیماری میں بھی مفید ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر ذہنی بیماری کا مسئلہ زیادہ سنگین نہ ہو تو ارتکاز اور ورزش کی مدد سے اس پر بڑے پیمانے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ دہرادون کے گورنمنٹ دون میڈیکل کالج کے سینیئر ماہر نفسیات ڈاکٹر جے ایس بشت نے بی بی سی کے اسوسی ایٹ آر دویدی کو بتایا کہ ’جسمانی فٹنس آپ کے پٹھوں کو مضبوط کرتی ہے اور آپ کی جسمانی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ دماغی صحت کے لئے بھی بہت اہم ہے۔‘ڈاکٹر بشت کے مطابق ’خوف، ڈپریشن، اضطراب جیسی ذہنی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کیلئے باقاعدگی سے ورزش سے زیادہ فائدہ مند کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔‘

کون سی ورزش زیادہ بہترین ہے؟

ڈاکٹر جے ایس بشٹ کے مطابق ذہنی اور جسمانی صحت کو الگ الگ نہیں دیکھا جا سکتا اور اس میں اعتماد بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔عالمی ادارہِ صحت کی جانب سے کی جانے والی تعریف اور تشریح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ان کے مطابق تمام نفسیاتی ماہرین اپنے مریضوں کو ادویات کے ساتھ باقاعدگی سے ورزش کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، کیونکہ جسمانی طور پر فعال افراد کیلئے ذہنی مسائل سے نمٹنا اور ان پر قابو پانا آسان ہے۔ڈاکٹر جے ایس بشٹ کے مطابق انسان کی عمر چاہے جو بھی ہو اسے ورزش کرنی چاہیے کیونکہ اس کے بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔ورزش پٹھوں کو مضبوط بناتی ہے اور ان کی کارکردگی میں اضافہ کرتی ہے۔ باقاعدگی سے جاگنگ، ایروبک، رسی پھلانگنا فائدہ مند ہے۔بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس جیسے کھیل بھی جسمانی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں۔اگر زیادہ ممکن نہ ہو تو تیز چہل قدمی کی جاسکتی ہے۔ہلکی پھلکی ورزش بڑھاپے میں اچھی یادداشت کو برقرار رکھنے کیلئے فائدہ مند ہے۔زکری ایم گیلن کے مطابق اگر آپ میں اعتماد ہے تو آپ ورزش سے اپنے پٹھوں کو مضبوط بنا کر ایک ایتھلیٹ کی طرح طاقت حاصل کر سکتے ہیں لیکن حد سے زیادہ اعتماد سے دور رہنا بھی ضروری ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مشق کے دوران پٹھوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ ورزش کریں۔ وزن اٹھانے میں جلدی نہ کریں۔ کوشش کریں کہ کم اور کبھی کبھی زیادہ وزن اٹھائیں تاکہ عضلات جسم کی ضروریات کے مطابق آسانی سے تیار ہوجائیں اور وہ ورزش کے فوراً بعد پروٹین لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔




Tuesday 23 January 2024

مشرکانہ شعائر ورسومات میں شرکت؟

مشرکانہ شعائر ورسومات میں شرکت؟
-------------------------------
--------------------------------
اسلام مستقل دین، کامل واکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے، ہر مسلمان کو اپنے مذہب کے عقائد واعمال اور احکام و تعلیمات کی صداقت وحقانیت پر دل ودماغ سے مطمئن ہونا اور اعضاء وجوارح سے اس کا عملی ثبوت پیش کرنا ضروری ہے. کسی دوسری قوم کی عادات و اطوار اور تہذیب و تمدن سے استفادہ وخوشہ چینی (شرکیہ و کفریہ طور طریق کو پسند کرنے) کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے. کفرپسندی یا اس پہ رضا واقرار یا اس کی حمایت ونصرت بندہ مومن کو دین سے خارج کردیتی ہے. اپنے مذہبی حدود وشعار پہ انشراح واستقامت کے ساتھ دیگر اہل مذاہب ہم وطنوں و ہم پیشہ افراد و اشخاص کے ساتھ معاشرتی حسن سلوک و احسان کے تحت اپنی خوشی کے مواقع پہ انہیں بلانا یا شریک طعام کرنا یا خود ان کی خوشی میں ان کی دعوت قبول کرنا امرآخر ہے، وسیع تر دعوتی اور سماجی ومعاشرتی مقاصد کے تحت اس کی تو گنجائش موجود ہے:
ولا بأس بضيافة الذمي، وإن لم يكن بينهما إلا معرفة، كذا في "الملتقط" … ولا بأس بأن يصل الرجل المسلم والمشرك قريبًا كان أو بعيدًا محاربًا كان أو ذميًّا] الفتاوى الهندية" (5/ 347، ط. دارالفكر)
لیکن کفار ومشرکین کے مذہبی اعمال وشعائر کی تعظیم وتائید اور ان میں عملی شرکت اسلامی شعائر وحدود سے تجاوز ہے جو کہ قطعی ناجائز ہے. مشترک سماجی، اجتماعی وملکی مسائل ومعاملات میں دعوتی نقطہ نظر سے اشتراک وتعاون کی گنجائش ہے ؛ لیکن حدود شرعیہ کو پھلاند کر کفریہ وشرکیہ رسومات کی تائید وتحسین (عملی شرکت) ازروئے شرعِ اسلامی ناجائز ہے 
اگر اس پہ قلبی رضا واقرار کا کوئی پہلو متحقق ہو تو اس سے بندہ اپنے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا، مذہبی رواداری مادر پدر آزاد نہیں ہے؛ بلکہ وہ مذہبی اور اخلاقی قدروں کے ساتھ محدود ومقید ہے، ایک صاحب ایمان کو اپنے ہر عمل کو سنت اور شریعت کی کسوٹی پر جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے، دیگر مذاہب کے عبادت خانوں کی افتتاحی تقریبات کا انعقاد ان کا "اندرون خانہ" خالص مذہبی معاملہ ہے، جس میں تاک جھانک کی ہمیں ضرورت نہیں، کسی کے عمل، طریقے اور رسم ورواج کی تحقیر وتضحیک کئے بغیر ہمیں اسلامی ہدایات پر عمل کی کوشش کرنی چاہئے. اسلامی طریقے سے ہٹ کر شرکیہ وکفریہ تقریبات میں شریک ہونا افسوسناک بھی ہے اور خطرناک وباعثِ ننگ وعار بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: 
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ- 
جو شخص کسی دوسری قوم کے اخلاق وعادات اور طور طریقے کی پیروی کرنے لگے وہ اسی میں سے ہوجاتا ہے. 
(أخرجه أبوداؤد في «اللباس» بابٌ في لُبْسِ الشهرة (٤٠٣١) 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو شخص کسی گروہ (میں شامل ہوکران کی) تعداد بڑھائے وہ اُن ہی میں سے ہے اور جو کسی گروہ کے عمل پر راضی رہے وہ ان کے عمل میں شریک ہے.‘‘
وعن ابن مسعود قال قال رسول اللهِ صلى الله عليه وسلم "مَنْ كَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ وَمِنْ رَضِيَ عَمَلَ قَوْمٍ كَانَ شَرِيكَ مَنْ عَمِلَ بِهِ (الحافظ الزيلعي في نصب الراية4/ 346 - 347.ط: دار إحياء التراث العربي) 
ایک سچے اور حقیقی مسلمان کے کردار اور دین ومذہب کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ خدا وحدہ لاشریک کی مقدسات اور اسکی عبادات کی تعظیم کرے، رب تعالیٰ کے گناہوں، اس کی ممانعتوں اور ہر اس چیز سے بچتا رہے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتی ہے، وہ ایسی محفلوں اور مقامات پر حاضری وجبہ سائی سے گریز کرے جن میں توحید کے منافی اور مشرکانہ اعمال شامل ہوں:
﴿وَمَن يُعَظِّمۡ حُرُمَٰتِ ٱللَّهِ فَهُوَ خَيۡرٞ لَّهُۥ عِندَ رَبِّهِ﴾
اور جو شخص اللّٰہ تعالٰی کے محترم احکام کی تعظیم کرےگا سو یہ (عمل اُس کے حق میں) اس کے پروردگار کےنزدیک بہت بہتر ہے: الحج ٣٠
﴿وَمَن يُعَظِّمۡ شَعَٰٓئِرَ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقۡوَى ٱلۡقُلُوبِ﴾ 
[اور جو شخص اللہ کےشعائر(دینِ خداوندی) کی تعظیم کرےگا تو یہ (تعظیم کرنا) دلوں کےتقویٰ سے (حاصل) ہوتا ہے: الحج ٣٢]
﴿وَٱلَّذِينَ لَا يَشۡهَدُونَ ٱلزُّورَ﴾ 
[اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے: الفرقان: ٧٢] 
{فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ}
(تو تم لوگ گندگی یعنی بتوں اور جھوٹی بات سے (اس طرح) کنارہ کش رہو کہ اللہ ہی طرف جھکے رہو، اس کے ساتھ (کسی کو) شریک مت ٹھہراؤ: الحج: 31)
ہندوستان کے موجودہ حالات میں مذہبی جنون پرستی اور مسلم اقلیت کے خلاف مذہبی منافرت، فرقہ وارانہ کشیدگی، اشتعال انگیزی، فتنہ پروری، غنڈہ گردی سے ملک کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے. ایسے میں اقلیتی طبقے کے سماجی ومذہبی شخصیات پر خصوصاً اور ہر مبتلی بہ فرد مسلم پر عموماً ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے عقائدی حدود کی حفاظت اور تہذیبی شناخت کو بہر طور لازمی باقی رکھے، اکثریتی طبقہ سے میل جول، انسانی ہمدردی، اور رواداری کے سلسلے کو مضبوط ومستحکم کرے، ان کے دکھ درد اور غمی وخوشی کے مواقع پہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے شریک ہو، لیکن شعائراسلامی پہ سمجھوتہ، کفرپسندی یا مشرکانہ شعائر کی تعظیم، توثیق وتائید کسی حال میں نہ کرے، بظاہر خود کو مسلمان کہلائے جانے والے جو لوگ ایسی تقریبات میں شریکِ کار رہے ہیں بلاریب انہوں نے ایک گھناؤنے اور حرام امر کا ارتکاب کیا ہے، پوری قوم مسلم کی جگ ہنسائی کی اور انتہائی بے ضمیری وبے غیرتی کا ثبوت دیا ہے:
تَرَى كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِالله والنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاء وَلَـكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ 
[آپ ان میں سے بہت سوں کو دیکھیں گےکہ وہ کافروں (بُت پرستوں) سےدوستی کرتے ہیں، جو کچھ انہوں نے اپنےحق میں آگےکے لئے بھیج رکھا ہے یقیناً وہ بہت بُرا ہے، کیوں کہ (ان کی وجہ سے) اللّٰہ ان سے ناراض ہوگیا ہے اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے، اور اگر یہ لوگ اللہ پر اور نبی پر اور جو کلام ان پر نازل ہوا ہےاس پر ایمان رکھتےتو ان(بُت پرستوں) کو (کبھی) دوست نہ بناتے لیکن (بات یہ ہے کہ) ان میں زیادہ تعداد ان کی ہے جو نافرمان ہیں: المائدة: 80، 81]
بَشِّرِالْمُنَافِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًا 
[منافقوں کوخوشخبری سنادو اس امر کی کہ ان کے لئے بڑا دردناک عذاب (تیار) ہے، وہ (منافق جن کی حالت یہ ہے کہ) مسلمانوں کے بجائے کافروں (بُت پرستوں) کو دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کےپاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ حالانکہ عزت توساری کی ساری اللّٰہ ہی کے (قبضہ) میں ہے: النساء: 138-139]
ایسی بے غیرتی کا مستقل عادت بنالینے والوں کو فقہ اسلامی میں تعزیری سزا کا مستحق قرار دیا گیا ہے:
وَقَدْ أَفْتَيْت بِتَعْزِيرِ مُسْلِمٍ لَازَمَ الْكَنِيسَةَ مَعَ الْيَهُودِ اهـ (حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي 380/1) 
 ”دفع مضرت“ جیسی مصلحت ومقصد شرعی کے پیش نظر برادرانِ وطن سے مشترک سماجی ارتباط رکھنا اور معاشرتی حسن سلوک اور اعلی انسانی اخلاق واقدار کا نمونہ پیش کرنا جائز ہے؛ لیکن ان سے مودت وموالات کا تعلق قائم کرنا "ان کے مذہبی  ودینی امور میں اشتراک وتعاون "تعلیمات اسلام کے صریح خلاف ہے.“ اسے ہمارا مذہب ناجائز وحرام کہتا ہے:
يَا أيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ". 
(اے ایمان والو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ، تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ یقیناً انھوں نے اس حق سے انکار کیا جو تمھارے پاس آیا ہے، وہ رسول کو اور خود تمھیں اس لیے نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان لائے ہو، جو تمھارا رب ہے: الممتحنة: 1).
{يا أيها الذين آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الَّذينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الذين أُوتُواْ الكتاب مِن قَبْلِكُمْ والكفار أَوْلِيَاءَ واتقوا الله إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ} 
[اے ایمان والو! جن لوگوں کو تم سےپہلے کتاب دی گئی تھی ان میں سےایسےلوگوں کو اور (دوسرے) کفار کو (اپنا) یار و مددگار نہ بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے، اور اگر تم (واقعی) صاحب ایمان ہو تو اللّٰہ سےڈرتے رہو: المائدة: 57].
{يا أيها الذين آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لاَ يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا} 
[اے ایمان والو! اپنے سےباہر کے کسی (شخص) کو رازدار نہ بناؤ: آل عمران: 118].
{لاَّ تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بالله واليوم الآخر يُوَآدُّونَ مَنْ حَآدَّ الله وَرَسُولَهُ} 
[جو لوگ اللہ اورآخرت کےدن پر ایمان رکھتےہیں، ان کو تم ایسانہیں پاؤگے کہ وہ ان سےدوستی رکھتے ہوں جنہوں نےاللّٰہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے: المجادلة: 22].
مركز البحوث الإسلامية العالمی 
( پیر 10 رجب المرجب 1445ھ 22 جنوری 2024ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/01/blog-post_74.html

خواتین کے رونے پر مردوں کا غصّہ کم ہوجاتا ہے

خواتین کے رونے پر مردوں کا غصّہ کم ہوجاتا ہے

)ایک حالیہ تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ خواتین کے رونے سے مردوں کے غصّے اور جارحیت میں کمی آتی ہے۔ نیو یارک پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں ویزمین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کی ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسانی آنسووں میں پائے جانے والے ایک کیمیائی مرکب سے ایک سگنل خارج ہوتا ہے جو دماغ کے ان مخصوص حصّوں کی سرگرمی میں کمی لاتا ہے جس کی وجہ سے مردوں کو غصّہ آتا ہے۔ محققین نے یہ تجربہ کرنے کے لیے خواتین کو ایسی جذباتی کہانی پر مبنی ایک فلم دکھائی جسے دیکھتے ہوئے وہ رونے لگیں اور اس دوران ان کے آنسوﺅ ں کو جمع کیا گیا جبکہ 31 مردوں کو ایک کمپیوٹر گیم کھیلنے کو کہا گیا جسے غیرمنصفانہ طور پر پوائنٹس کی کٹوتی کرکے مردوں کو غصّہ دلانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ جب مردوں کے اس گروپ کو گیم کھیلتے ہوئے غصہ آگیا تو ان میں سے کچھ مردوں کو نمکین محلول اور کچھ مردوں کو خواتین کے جمع کیے ہوئے آنسو سنگھائے گئے۔ اس تحقیق کے دوران یہ نتیجہ سامنے ایا کہ جن مردوں کو خواتین کے جمع کیے ہوئے آنسو سنگھائے گئے ان کے غصّے اور جارحیت میں 43.7 فیصد کمی ظاہر ہوئی۔ یہ نتیجہ سامنے آنے کے بعد ان مردوں کے دماغ کا سٹی اسکین کیا گیا تو یہ انکشاف ہوا کہ آنسو سونگھنے والے مردوں کے دماغ کے کچھ مخصوص حصّے کی سرگرمی انسووں کی بو سے کم ہوئی جو کہ انسان میں غصّے اور جارحیت کی وجہ بنتی ہے۔ محققین نے مردوں اور بچوں کے آنسووں میں بھی ایسے ہی کیمیائی سگنلز کی موجودگی کی پیش گوئی کی ہے جو انہیں خواتین کے آنسوﺅں میں سے ملے۔ محققین نے یہ بھی بتایا کہ چھوٹے بچے جو بول نہیں سکتے وہ ہمیشہ اپنے والدین کے غصّے کو رو کر کم کرتے ہیں۔تحقیق میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ رونا انسان کا ایک ایسا رویہ ہے جسے جوانی میں جارحیت یا غصّے کو کم کرنے اور ایسی صورتحال میں جب انسان خود کو سامنے والے سے کمزور محسوس کرے تو اپنی حفاظت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

https://saagartimes.blogspot.com/2024/01/blog-post_23.html




Saturday 20 January 2024

قدرتی غذائیں کھانے سے خواتین 11 بیماریوں سے رہ سکتی ہیں محفوظ

قدرتی 
غذائیں کھانے سے 
خواتین 11 بیماریوں سے رہ سکتی ہیں محفوظ
ایک طویل اور منفرد تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گوشت اور دودھ کے بجائے پھلوں، سبزوں اور خشک میوہ جات پر مبنی غذائیں کھانے والی ادھیڑ عمر خواتین کم سے کم 11 مختلف بیماریوں سے محفوط رہ سکتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مرکزی دارحکومت دہلی سمیت دنیا بھر کے شہروں میں اس پر بیداری کا فقدان پایا جاتا ہے۔تاہم طبی جریدے میں شائع تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ امریکی ماہرین نے 46 ہزار سے زائد خواتین کی غذائی عادتوں اور ان کی صحت کا جائزہ لیا۔ ماہرین نے 1984 سے 2016 کے درمیان 48 سال کی عمر کی غذائی عادات کو دیکھا اور جائزہ لیا کہ کون سے خاتون کس طرح کی غذا کھا رہی ہے۔بعد ازاں ماہرین نے مذکورہ تمام خواتین کی صحت کا جائزہ لیا، جس میں جسمانی سمیت ذہنی صحت بھی شامل ہے۔ تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ جن خواتین نے دودھ اور گوشت کے بجائے پھلوں، سبزوں اور خشک میوہ جات سے پروٹین اور دیگر غذائی ضروریات پوری کی تھیں، ان کی صحت بہتر تھی۔ماہرین نے قدرتی غذائیں جنہیں پلانیٹ بیسڈ فوڈ قرار دیا گیا کھانے والی 4 ہزار کے قریب خواتین کی نشاندہی کی، جنہیں صحت مند شخص قرار دیا گیا۔یعنی ماہرین نے پھلوں، سبزیوں اور خشک میوہ جات سے پروٹین سمیت دیگر غذائی ضروریات پوری کرنے والی خواتین کو کینسر، فالج، امراض قلب اور شوگر سمیت 11 مختلف بیماریوں سے محفوظ قرار دیا۔ماہرین کے مطابق تحقیق سے معلوم ہوا کہ دودھ اور گوشت کے مقابلے پھلوں، سبزیوں اور خشک میوہ جات کھانے والی ادھیڑ عمر خواتین ذہنی اور جسمانی طور پر زیادہ تندرست رہتی ہیں۔ماہرین کے مطابق مذکورہ تحقیق کے نتائج حوصلہ کن ہیں مگر اس معاملے پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کا مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں کیا کردار ہوتا ہے.
( #ایس_اے_ساگر )

Foods high in omega-3 fatty acids, protein, and certain antioxidants may help promote fat loss. Certain beverages, including coffee, also have metabolism-boosting properties.
Boosting your metabolic rate can help you lose body fat.
However, most “fat-burning” supplements on the market are either unsafe, ineffective, or both.
Fortunately, several natural foods and beverages have been shown to increase your metabolism and promote fat loss.
Here are 11 healthy foods that may help you burn fat.
1. Fatty fish
Salmon, herring, sardines, mackerel, and other fatty fish contain omega-3 fatty acids, which may helpTrusted Source you lose body fat.
Fish is also an excellent source of high quality protein, which may lead to greater feelings of fullness and can help increaseTrusted Source your metabolic rate.
Most organizations recommend consuming two servings (3 ounces (oz) each)Trusted Source of fatty fish per week to see the health benefits.
2. MCT oil
Medium-chain triglycerides (MCT) oil is made by extracting MCTs from palm oil. It’s a type of fatTrusted Source that’s metabolized differently than the long-chain fatty acids found in most foods.
Research suggests that MCTs may helpTrusted Source increase metabolic rate, reduce hungerTrusted Source, and promote better retention of muscle mass during weight loss.
Studies suggest that replacing fat in your diet with 1.5Trusted Source–2 tablespoons (tbsp) of MCT oil per day can boost fat burning. Try to start with 1 teaspoon (tsp) and gradually increase to avoid digestive side effects.
3. Coffee
Coffee is one of the most popular beverages worldwide.
Coffee a great source of caffeine, which may helpTrusted Source you burn fat. To get the fat-burning benefits of caffeine without the potential side effects, such as anxiousness or insomnia, aim for no more than 400 mg per day.Trusted Source
This is the amount found in about 4–5 cups of coffee, depending on its strength. Some people are more sensitiveTrusted Source to caffeine’s effects and may need to limit their intake.
4. Eggs
Although egg yolks have traditionally been avoided due to their high cholesterol content, whole eggs may help with weight loss.
For one, they are very nutrient-dense and containTrusted Source a lot of protein, which can help ward off hunger and overeating. For example, a 2017 study found that eating a high-protein diet reduced the subject’s hunger by 16%Trusted Source while increasing daily fullness by 25%.
One of the reasons eggs are so filling may also be due to the boost in calorie burning that occursTrusted Source during protein digestion.
Eating up to three eggs a week can help you burn fat while keeping you full and satisfied. More than this amount has been associated with a higher chance of heart disease.Trusted Source
5. Green tea
In addition to providing a moderate amount of caffeine, green tea is an excellent source of epigallocatechin gallate (EGCG), an antioxidant that promotesTrusted Source fat burning and the loss of belly fat.
Though researchTrusted Source suggests that drinking green tea may help improve your metabolism and lower your body fat, more research is necessaryTrusted Source to support these claims.
That said, drinking about 2-3 cupsTrusted Source of green tea daily may be optimal for providing the variety of health benefits.
6. Whey protein
Consuming whey protein may help you suppress appetite, especially because it stimulatesTrusted Source the release of “fullness hormones,” such as PYY and GLP-1.
Moreover, whey appears to boost fat burning and promote weight loss. For this reason, a whey protein shake is a quick meal or snack option that promotes fat loss and may help improve your body composition.
7. Apple cider vinegar
Apple cider vinegar is an ancient folk remedy with evidence-based health benefits.
Animal researchTrusted Source suggests that vinegar’s main component, acetic acid, may helpTrusted Source increase fat burning and reduce belly fat storage in several animal studies. However, more human studies are needed to verify this.
Start with 1 tsp per day diluted in water and gradually work up to 1 tbsp per day to minimize potential digestive discomfort.
8. Chili peppers
Chili peppers contain powerful antioxidants.Trusted Source One of these is called capsaicin, and cosuming it may help you achieve and maintain a healthy weight by promoting fullness and preventing overeating.

Consider eating chili peppers or using powdered cayenne pepper to spice up your meals several times a week.
9. Oolong tea
Oolong tea is contains polyphenols, which are compounds associated with helping reduce things like blood sugarTrusted Source and and body weight.Trusted Source

Like other teas, it also contains caffeine, which helps promoteTrusted Source weight and body fat loss.
Drinking a few cups of green tea, oolong tea, or a combination of the two on a regular basis may promote fat loss and provide other beneficial health effects.
That said, most researchTrusted Source on oolong tea and weight loss is based on animals, so more human studies are needed.
10. Full-fat Greek yogurt
Full-fat Greek yogurt is extremely nutritious. First, it’s an excellent sourceTrusted Source of protein, potassium, and calcium.
ResearchTrusted Source also suggests that eating high protein dairy products can boost weight and fat loss.
Eating 2 servings of dairyTrusted Source such as Greek yogurt daily may provide a number of health benefits. But make sure to choose plain, full-fat Greek yogurt.

11. Olive oil
Olive oil is one of the healthiest fats on earth.
Most of olive oil is composed of oleic acid, which has been shownTrusted Source to have a positive effect on fat and body mass.
To incorporate olive oil into your daily diet, drizzle a couple of tablespoons on your salad or add it to cooked food.
( #S_A_Sagar )


Thursday 18 January 2024

خواتین کی صحت پر کم تحقیق سے دنیا کو ایک کھرب ڈالر کا نقصان

خواتین کی صحت پر کم تحقیق سے دنیا کو ایک کھرب ڈالر کا نقصان

برصغیر ہندپاک کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک میں صنف نازک کی ناقدری کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے۔ دریں اثناء سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اور مردوں کی صحت کے مسائل سے نمٹنے کے طریقہ کار میں بہت زیادہ فرق ہے جس سے دنیا بھر میں سالانہ ایک کھرب کا نقصان ہوتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین اپنی زندگی کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ خراب صحت کے باعث تکلیف میں گزار دیتی ہیں۔ جس کی ایک وجہ مردوں کی صحت پر زیادہ ہونے والی تحقیق، بیماری کی تشخیص اور علاج کا ممکن ہونا ہے۔ ڈیووس میں پیش ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر مردوں اور خواتین کی صحت کے حوالے سے اس فرق کو ختم کر دیا جائے تو سنہ 2040 تک عالمی معیشت میں سالانہ ایک کھرب ڈالر کا اضافہ ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ خواتین مجموعی ملکی پیداوار میں 1.7 فیصد کی ترقی کا سبب بن سکیں گی۔ رپورٹ کے مطابق خواتین کی صحت پر لگائے گئے ہر ایک ڈالر پر معاشی ترقی کی مد میں تین ڈالر واپس آئیں گے۔ اس معاشی ترقی کی ایک بڑی وجہ بیمار خواتین کا تندرست ہوکر ورک فورس میں واپس شامل ہونا ہے۔ خواتین میں یوٹرس سے جڑے مسائل پر مفصل تحقیق سے سال 2040 تک عالمی مجموعی پیداوار میں 130 ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ اینڈومیٹریوسس کی بیماری کا شکار خواتین میں سے نصف سے بھی کم میں اس بیماری کی درست طریقے سے تشخیص کی گئی ہے۔ ڈیووس میں پیش ہونے والی رپورٹ میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ علاج اور تشخیص سے کس طرح سے مردوں کو خواتین کے مقابلے میں زیادہ فائدہ پہنچا ہے۔ جیسے کہ سانس کی بیماری استھما کیلئے استعمال ہونے والا انحیلر مردوں کے مقابلے میں خواتین کے کیس میں کم موثر ثابت ہوا ہے۔ ماضی میں ہونے والی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ 700 ایسی مختلف بیماریاں ہیں جن کی خواتین میں تشخیص دیر سے ہوتی ہے جبکہ مردوں میں جلد ہوجاتی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے ہیلتھ کیئر کے سربراہ شیام بشن کا کہنا ہے کہ تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواتین کی صحت پر خرچ کرنا ہر ملک کی ترجیح ہونا چاہئے۔ اس موقع پر ورلڈ اکنامک فورم نے خواتین کی صحت کیلئے عالمی اتحاد بنانے کا اعلان کیا جس کے تحت پانچ کروڑ پچاس لاکھ ڈالر خواتین کی صحت پر خرچ کرنے کا عہد کیا گیا ہے۔




Wednesday 17 January 2024

وفات یافتہ اشخاص کی فکری انحرافات کو بیان کرنا مصلحتِ شرعیہ کے تحت جائز ہے

وفات یافتہ اشخاص کی فکری انحرافات کو بیان کرنا مصلحتِ شرعیہ کے تحت جائز ہے
-------------------------------
--------------------------------
سوال 
————
مرنے والے شخص کے صرف محاسن بیان کرنے کا مطلب
مفتیانِ کرام سے ایک سوال  ہے کہ حدیث “اذكروا محاسن موتاكم" کا درست مصداق اور صحیح مفہوم کیا ہے؟
اگر کسی شخص نے ملکی پیمانے پر کوئی فتنہ بپا کیا ہو اپنے بیانات کے ذریعے، گرچہ اس کے اچھے کام بھی ہوں دوسری جانب، لیکن کسی خاص مسئلے میں کسی خاص تحریک یا تنظیم کے خلاف ایسا بول گیا ہو جو انتہائی فرقہ پرستی پر مشتمل ہو یا اسی جیسا ہو، تو کیا اس کی موت کے بعد اس کی اس غلطی کو بیان کرنا ، ذکر کرنا اس حدیث کے خلاف ہے جو اوپر مذکور ہوئی ہے؟
(سائل :- یکے از واٹس ایپ گروپ دعوت الحق بنگلور)

الجواب وباللہ التوفیق:- 
اسلام ہر چیز میں اعتدال وتوازن کی تعلیم دیتا ہے، مدح وستائش میں جہاں افراط وغلو کی ممانعت آئی ہے وہیں ناحق  ذم ونقد میں بھی حد اعتدال سے تجاوز کرتے ہوئے اندر کی آہ نکالتے ہوئے تنقیص وتحقیر کرنے کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے، پھر وفات یافتہ اشخاص وافراد کے ساتھ اگر یہ سلوک روا رکھا جائے تو اس سے ان کے زندہ احباب واقارب کی لازمی دل شکنی ہوگی اور وہ قلبی اذیتوں سے دوچار ہونگے، پھر اس کدورت کے اثراتِ بد باہمی معاشرت پر بھی  پڑے گی اور نتیجۃً بغض وعناد اور عداوت ودشمنی پر مبنی رد عمل کا زنجیری سلسلہ قائم ہوگا اور  معاشرہ لامتناہی اظطرابات وبے چینیوں کا بری طرح شکار ہوجائے گا؛ اس لئے زبان رسالت مآب سے مُردوں کے ذکر شر سے ممانعت وارد ہوئی اور انہیں ذکر خیر سے یاد کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ 
سوال میں درج حدیث اسنادی طور پہ ضعیف ہے، اس کے ہم معنی صحیح حدیث بخاری وغیرہ میں موجود ہے. وفات یافتہ اشخاص (مومن ہو یا کافر) کو گالم گلوچ اور سب وشتم کرنا بالکل حرام ہے، آیات واحادیث میں اس کی حرمت مصرح ہے؛  لیکن جہاں شرعی مصلحت متقاضی ہو، یعنی مردے کی فکری انحرافات، غلط نظریات، بے اصل گمراہ کن عقائد، اسلام اور علماء اسلام کے خلاف کی گئی اہانت آمیز ریمارکس اور مبتذل کومنٹس کو عیاں کرکے  لوگوں کو اس کی بولعجبیوں، خبطِ نرگیسیت، علماء دین، دینی اداروں اور جامعات کے خلاف  لگائے گئے بے بنیاد اتہامات ، منفی پرا پیگنڈوں اور ذہنی ارتداد سے سادہ لوح عوام کو ہوشیار ومتنبہ کرنے اور اس کی اتّباع وپیروی کرنے سے بچانے کے لئے مہذب وشائستہ انداز واسلوب میں اس کی نقاب کشائی کرنے اور حقیقت واضح کرنے کی گنجائش ہے۔ رواۃ حدیث کے باب میں محدثین کرام کی جرح اسی مصلحت شرعیہ پہ مبنی ہوتی ہے ۔ سب وشتم اور ہے، اور کسی کی فکری انحرافات اور بد عقیدگی کی حقیقت واضح کرنا امر آخر ہے، اسے سب وشتم نہیں کہا جاسکتا، باجماع علماء امت مصلحت شرعیہ کے باعث فکری زیغ وضلال اور  عیوب ونقائص کی نشاندہی کی گنجائش ہے. اس پہ ممنوع سب وشتم کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض صحابۂ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعين ايک جنازہ کے پاس سے گذرے تو انہوں نےاس کے حق میں نيکی اور اللہ کی شريعت پر عمل پیرا ہونے کی گواہی دی۔ چناں چہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ کے بارے ميں ان کی تعريف سنی تو فرمايا: ”واجب ہوگئي“، پھر وہ لوگ ايک دوسرے جنازہ کے پاس سے گذرے تو اس کے برے ہونے کي گواہی دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:”واجب ہوگئی“، اس پرعمر بن خطاب رضي اللہ عنہ نے پوچھا کہ ان دونوں جگہوں پر ”واجب ہوگئی“ کے کيا معنیٰ ہيں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: جس شخص کے لیے تم لوگوں نے نيکی، راستی اور ثابت قدمی کی گواہی دی، اس کے لئے جنت واجب ہوگئی اور جس کے لئے تم نےبرائی کی گواہی دی، اس کے لیے جہنم واجب ہوگئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلايا کہ جس شخص کے جنتی يا جہنمی ہونے کے تعلق سے صاحبِ فضل، سچے اور نيکوکار لوگ گواہی دے ديں وہ اسی طرح (جنتی يا جہنمی) ہوتا ہے۔ (أخرجه البخاری (1367) واللفظ له، ومسلم (949).
غور کیجئے! اس حدیث  میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد عقیدگی اور بے عملی میں مشہور شخص کی برائی کرنے سے صحابہ کرام کو نہیں روکا ! کیونکہ وہاں اس برے شخص کے نقش قدم پر چلنے سے اوروں کو روکنے جیسی مصلحت شرعیہ اس کی متقاضی تھی. یہ دلیل ہے کہ کسی کی فکری انحرافات کو علمی اور شائستہ لب ولہجے میں شرعی دواعی ومصالح کے  تحت بیان کرنے کی اجازت ہے، ہاں! بلا  مصلحت شرعیہ تسکین انا جیسے مذموم مقاصد کے تحت وفات یافتہ اشخاص کے عیوب ونقائص بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے.
واللہ اعلم بالصواب 
مركز البحوث الإسلامية العالمی ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/01/blog-post_17.html?m=1

Sunday 14 January 2024

ورزش کرنے کیلئے دن کا بہترین وقت کونسا ہے؟

 ورزش کرنے کیلئے دن کا بہترین وقت کونسا ہے؟

 اس بات کے بڑھتے ہوئے ثبوت مل رہے ہیں کہ دن کے جس وقت ہم ورزش کرتے ہیں اس سے ہماری کارکردگی اور صحت پر فرق پڑتا ہے، لیکن کیا ہم اپنے جسم کو دن کے مختلف اوقات میں بہترین نتائج کیلئے تربیت دے سکتے ہیں؟چند ہی مہینوں میں، دنیا کے چوٹی کے کھلاڑی پیرس میں جمع ہوں گے تاکہ دنیائے کھیل کے سب سے بڑے انعام کیلئے مقابلہ کر سکیں، یعنی اولمپک گولڈ میڈلز۔ ان لوگوں کیلئے جو ریکارڈ توڑ کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں، وہ شاید اپنی ورزش اور مقابلے کے اوقات پرغور کرنا چاہیں گے۔ ایتھنز (2004)، بیجنگ (2008)، لندن (2012) اور ریو (2016) میں ہونے والے چار اولمپک کھیلوں میں، 144 تمغے جیتنے والے تیراکوں کے تیراکی کے اوقات کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ا±ن میں سے شام کے اوائل میں مقابلہ کرنے والے سب سے تیز پائے گئے۔ خاص طور پر وہ جنھوں نے شام 5:12 بجے کے قریب مقابلوں میں حصہ لیا۔ اس بات کے بڑھتے ہوئے شواہد مل رہے ہیں کہ جسمانی کارکردگی دن کے وقت سے متاثر ہوتی ہے۔اور یہ صرف اولمپینز میں نہیں پایا جاتا ہے- تفریحی سائیکل سوار بھی شام کے وقت ہی سب سے تیز ٹائم ٹرائل مکمل کرتے ہیں۔

پٹھوں کی طاقت کو بڑھانے والی ورزشوں کے نتائج پرخصوصی طور پر اثر پڑتا ہے کہ وہ دن کے کس وقت کی جاتی ہیں۔ ان ورزشوں کیلئے موزوں ترین وقت تقریباً شام چار بجے سے رات آٹھ بجے کے درمیان ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ورزش کرنے کے اوقاتِ کار مردوں اور عورتوں کو مختلف انداز سے متاثر کرتے ہیں۔لیکن کیا کریں اگر آپ کا روزمرہ کا معمول ایسا ہو کہ آپ کے پاس صرف صبح سات بجے ورزش کرنے کا وقت ہو؟ تحقیقات میں کچھ ایسے اشارے بھی ملے ہیں کہ ایتھلیٹک کارکردگی کیلئے بہترین وقت کو ایڈجست کرنا ممکن ہے۔

ہماری جسمانی کارکردگی اور جسم ورزش کا اثر کیسے لیتے ہیں اس کا دارومدار ہماری سرکیڈین تالوں سے ہے- سرکیڈین تالیں جسم کی سالماتی (مولیکیولر) گھڑی سے منسلک ہوتی ہیں جو 24 گھنٹوں کے دوران نیند اور بھوک جیسے عوامل کو منظم کرنے کیلئے ذمہ دار ہے۔دماغ کے ہائپوتھیلمس میں واقع مرکزی گھڑی بصری اعصاب کے ذریعے ملنے والی روشنی کے سگنلز سے چلتی ہے۔

سپرا کیاسمیٹک نیوکلئس، جیسا کہ ہائپوتھیلمس میں سرکیڈین پیس میکر ہوتا ہے، جسم کے دوسرے اعضائ ، پٹھوں کے بافتوں اور چربی کے بافتوں میں پردیی گھڑیوں کو سگنل بھیجتا ہے، اور پورے جسم کو ایک تال میل میں رکھتا ہے۔ تاہم، ان پردیی گھڑیوں کو دوسرے اشاروں جیسے کہ ہم کس وقت کھاتے ہیں یا دیگرسرگرمیاں سر انجام دیتے ہیں کی مدد سے ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔ہمارے پٹھوں کی گھڑی ورزش کا اس ہی طرح جواب دیتی ہے، اور اسی طرح مختلف اوقات میں باقاعدگی سے ورزش کرکے اس کو ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے۔اگرچہ یہ ہماری کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے، یہ ہماری صحت پر ورزش کے اثرات کو بھی بدل سکتا ہے۔جولین زیراتھ سویڈن کی کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ میں ورزشی فزیالوجسٹ ہیں جو ورزش اور سرکیڈین نظام کے درمیان تعامل پر تحقیق کر رہی ہیں۔زیراتھ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی تحقیق میں پایا کہ ایسے چوہے جو صبح کے وقت ورزش کرتے تھے، وہ زیادہ چربی پگھلا پائے۔ ان کا کہنا ہے کہ نتائج سے پتا چلتا ہے کہ دن کے بہترین وقت پر ورزش کرنا ٹائپ 2 ذیابیطس اور موٹاپا جیسے میٹابولک امراض کے شکار افراد کیلئے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب اس بات سے متفق ہیں کہ ورزش اچھی چیز ہے، چاہے کسی بھی وقت کی جائے،مگر ورزش کے میٹابولک نتائج کو اس بنیاد پر بہتر بنایا جا سکتا ہیں کہ آپ کس وقت ورزش کرتے ہیں۔

یہ نتائج انسانوں میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق کی عکاسی کرتے ہیں جس میں دیکھا گیا ہے کہ ہفتے میں ایک دن صبح کے وقت ایک گھنٹہ پٹھوں کی طاقت بڑھانے،مختصر وقفوں کے ساتھ ڈورنا، اسٹریچنگ اور برداشت کو بڑھانے والی ورزشیں کرنے سے خواتین پیٹ کی چربی اور بلڈ پریشر کو کم کر سکتی ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ خواتین جب یہی ورزشیں شام کو کرتی ہیں تو اس سے ان کی پٹھوں کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔مردوں کو شام کے اوقات میں ورزش کرنے سے بلڈ پریشر اور جسم کی چربی کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

لیکن اس بارے میں ہونے والی تحقیقات ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور ماضی میں کئے جانے والے مطالعات کے کچھ حالیہ تجزیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ورزش دن کے کسی خاص وقت کئے جانے سے کارکردگی یا صحت پر پڑنے والے اثرات پر کتنا فرق پڑتا ہے، اس کے ثبوت کافی حد تک غیر نتیجہ خیز ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تقریباً ہر شخص دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، چوٹی کی ایتھلیٹک کارکردگی کا وقت صبح سویرے اٹھنے والے اور دیر رات تک جاگنے والوں میں مختلف ہوتا ہے۔کیرین ایسرجو کہ امریکہ میں گینزول میں واقع یونیورسٹی آف فلوریڈا میں ماہر طبیعات ہیں کہتی ہیں ہماری جسمانی گھڑیوں کے وقت میں فرق ہوتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے وہ لوگ جو صبح سویرے اٹھتے ہیں، ممکنہ طور پر ان کی جسمانی گھڑی 24 گھنٹے سے تھوڑا کم چلتی ہے اور ہم میں سے وہ افراد جو رات کے ا±لو ہیں، ان کی گھڑی شاید 24 گھنٹے سے کچھ زیادہ چلتی ہے۔لیکن اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی جسمانی گھڑی آپ کو دستیاب اوقات میں اپنی بہترین کارکردگی دینے کی اجازت نہیں دیتی، تو ورزش آپ کے پٹھوں کی گھڑی کو ’ری سیٹ‘ کرنے میں بھی کار آمد ہو سکتی ہے۔

ایسر کی سربراہی میں کام کرنے والے محققین کے ایک گروپ نے پایا کہ صبح کے وقت چوہوں میں برداشت کی ورزش کی مستقل بنیادوں پر تربیت سے چوہوں کے جسموں کو ورزش کے نئے نظام کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔ مشاہدے میں آیا کہ مشق ان کے پٹھوں اور پھیپھڑوں میں موجود سالماتی گھڑیوں کو دن کے جلدی کے اوقات میں منتقل کردیا تھا۔اس گروپ نے اپنی تازہ ترین تحقیق، جو ابھی تک ہم مرتبہ نظرثانی شدہ جریدے میں شائع نہیں ہوئی ہے، میں پایا کہ جن چوہوں کو دوپہر میں تربیت دی گئی ان کے مقابلے میں صبح کے وقت تربیت یافتہ چوہوں میں کارکردگی میں کی جانے والی تبدیلیوں کو جلدی اپنانے صلاحیت پائی گئی۔ چھ ہفتوں کی تربیت کے بعد، صبح اور دوپہر دونوں چوہوں نے ایک جتنی برداشت کی قابلیت حاصل کرلی۔محققین کا ماننا ہے کہ اگر انسانوں میں بھی ایسا ہی اثر پایا گیا، تو کھلاڑیوں کیلئے شاید یہ ممکن ہو جائے کہ وہ اپنے اندرونی ’پٹھوں کی گھڑیوں‘ کو اپنی تربیت کی مناسبت سے دوبارہ ترتیب دے سکیں۔

ابتدائی طور پر کچھ شواہد ملے ہیں کہ ورزش انسانوں میں سرکیڈین تال کو تبدیل کر سکتی ہے، یہ ان لوگوں کیلئے مفید ثابت ہو سکتی ہے جو بدلتے کام کے اوقاتِ کار یا تواتر سے سفر کی وجہ سے ہونی والی جیٹ لیگ جیسے مسائل کا شکاررہتے ہیں۔ایسر کا کہنا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے پٹھوں کی گھڑیاں اس بات پر توجہ دیتی ہیں کہ ہم کس وقت ورزش کرتے ہیں۔لگتا ایسا ہے کہ ان سب چیزوں کا اصل دارومدار مستقل مزاجی پر ہے۔ ہمارا جسم کسی بھی تربیت کو اس وقت با آسانی قبول کر لیتا ہے اگر ہم وہ کام روزانہ دن کے ایک ہی وقت پرکریں۔زیراتھ کا ماننا ہے کہ اگر آپ عام شخص ہیں، یا اگر آپ اعلٰی پائے کے ایتھلیٹ بھی ہیں جو مقابلے میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں، تو آپ کی کوشش ہونی چاہیے کہ مقابلے کے دن کی مناسبت سے تیاری کریں۔ یعنی کہ اپنی تربیت دن کے اس وقت کریں جس وقت آپ نے مقابلہ کرنا ہے۔تاہم، زیادہ تر محققین اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی وقت ورزش کرنا فائدہ مند ہے۔ لیکن، اگر آپ کو کوئی ایسا وقت ڈھونڈ پاتے ہیں جوآپ کیلئے موزوں ہے اور اس پر قائم رہتے ہیں، تو آپ کا جسم آپ کو اضافی برتری دلوا سکتا ہے۔




Saturday 13 January 2024

بھاری قرضے سے خلاصی

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
بھاری قرضے سے خلاصی
اللہ تعالی نے ”کلمہ طیبہ“ ”حمد“ اور تسبیح میں بڑی برکت رکھی ہے...بڑی تأثیر رکھی ہے...حضرت علامہ عبدالرحمن الجوزی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:-
حضرت شیخ ابوبکر بن حماد المقری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں...میں نے حضرت امام معروف الکرخی رحمہ اللہ تعالی سے عرض کیا......حضرت! مجھ پر بہت بڑا بھاری قرضہ چڑھ گیا ہے...حضرت نے فرمایا: میں آپ کو ایسی دعاء بتا دیتا ہوں جس سے اللہ تعالی آپ کا قرضہ اتار دیں گے...آپ روزانہ سحری کے وقت پچیس بار یہ دعاء پڑھا کریں
 لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ اَکْبَرُ، وَّسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا، وَّسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً......
حضرت شیخ ابوبکر فرماتے ہیں کہ میں نے یہ عمل کیا تو اللہ تعالی نے میرا قرضہ اتار دیا اور مزید مجھے بہت خیر بھی عطاء فرمائی.....پھر میں حضرت امام معروف کرخی رحمہ اللہ تعالی کے پاس گیا اور انہیں پوری صورتحال بتائی تو انہوں نے فرمایا...یہ دعاء عقلمند انسان کا درہم یعنی مال ہے...مطلب یہ کہ...مال جمع کرنے کی بجائے اس دعاء کو یاد کرلو...جب بھی ضرورت ہو تو اسے پڑھ لیا کرو...ضرورت پوری ہوجائے گی....گویا کہ یہ دعاء....جیب میں رکھا ہوا ”چیک“ ہے...جب چاہو کیش کروالو... حضرت علامہ جوزی رحمہ اللہ تعالی نے اور بھی کئی بڑے بزرگوں کی گواہی لکھی ہے کہ انہوں نے یہ عمل کیا تو ان کے قرضے بھی اللہ تعالی نے اتار دیئے.......دعاء بہت آسان ہے...کل چار جملے ہیں جو کہ تقریبا ہر مسلمان کو یاد ہوتے ہیں...
(۱) لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ (۲) وَاللّٰہُ اَکْبَرُ (۳) وَّسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا (٤) وَّسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً......
ترجمہ بھی بہت آسان ہے...
(۱) اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں 
(۲) اللہ تعالی بہت بڑے ہیں 
(۳) میں اللہ تعالی کی تسبیح اور حمد کرتا ہوں بہت زیادہ 
(٤) اللہ تعالی کی تسبیح اور حمد صبح اور شام.....پڑھنے کا وقت وہ ہے جو سحری کا وقت ہوتا ہے....اور تعداد ”پچیس“ ہے...جو سحری میں نہیں جاگتے وہ رات کو سوتے وقت یا فجر کے وقت پڑھ لیا کریں....بلا ضرورت کبھی قرضہ نہ اٹھائیں....مال آتے ہی قرضہ ادا کرنے میں ایک منٹ کی تأخیر نہ کریں....اللہ تعالی کے سوا کسی سے مدد نہ مانگیں......اللہ تعالی ہم سب سے راضی ہوجائیں...
خادم......لااله الاالله محمد رسول الله ( #ایس_اے_ساگر )

Tuesday 9 January 2024

ایک لیٹر پانی کی بوتل میں پلاسٹک کے ڈھائی لاکھ ذرات

 ایک لیٹر پانی کی بوتل میں پلاسٹک کے ڈھائی لاکھ ذرات

دارالحکومت دہلی ہی نہیں بلکہ المی سطح پر پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی فروخت ہورہا ہے۔حال ہی میں ایجاد کی گئی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے، سائنسدانوں نے پانی کےمقبول برانڈز میں فی لیٹر پانی میں، پلاسٹک کےاوسطاً 240,000 قابل شناخت ٹکڑوں کی گنتی کی ہے جو کہ پہلے تخمینوں سے 10-100 گنا زیادہ ہے۔ اس ریسرچ نے صحت کے ممکنہ خدشات میں اضافہ کیا ہے جن کیلئے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں جیو کیمسٹری کے ایک ایسوسی ایٹ ریسرچ پروفیسر اور مقالے کے شریک مصنف بیجھان یان نے اے ایف پی کو بتایا، ”اگر لوگ بوتل کے پانی میں نینو پلاسٹک کے بارے میں فکرمند ہیں تو نلکے کے پانی جیسے متبادل پر غور کرنا ٹھیک ہوگا۔“ لیکن انہوں نے مزید کہا: "ہم ضرورت پڑنے پر بوتل بند پانی پینے کے خلاف مشورہ نہیں دیتے، کیونکہ جسم میں پانی کی کمی کا خطرہ (ڈی ہائیڈریشن) نینو پلاسٹک سے آلودہ ہونے کے ممکنہ اثرات سے کہیں زیادہ ہوسکتا ہے۔"آرکٹک کی برف گلوبل وارمنگ کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہی ہے۔حالیہ برسوں میں مائیکرو پلاسٹک پر عالمی توجہ بڑھ رہی ہے، جو پلاسٹک کے بڑے ذرائع سے ٹوٹنے والے ذرات ہیں اور اب قطبی برف کی پرتوں سے لے کر پہاڑی چوٹیوں تک ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ وہ ماحولیاتی نظام میں شامل ہوجاتے ہیں اور پینے کے پانی اور خوراک ہر جگہ داخل ہونے کا راستہ تلاش کرلیتے ہیں۔ اگرچہ مائیکرو پلاسٹک 5 ملی میٹر سے کم کوئی بھی چیز ہوتی ہے، نینو پلاسٹک کو 1 مائیکرو میٹر سے نیچے کے ذرات، یا ایک میٹر کا ’اربواں) حصہ کہا جاتا ہے، جو آپ سمجھ سکتے ہیں کتنا ننھا منا ہوگا--اتنے ننھے منے ذرات نظام ہضم اور پھیپھڑوں سے گزرسکتے ہیں، براہ راست خون میں داخل ہوسکتے ہیں اور وہاں سے دماغ اور دل سمیت انسانی اعضاءتک پہنچ سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ ماں کے پیٹ کے اندر placenta یا نال کو عبور کرکے، پیدائش سے پہلے بچوں کے جسموں میں بھی داخل ہوسکتے ہیں۔ ( #ایس_اے_ساگر )

One liter of bottled water found to contain 240,000 plastic fragments



انسانی دماغ پر40 سال کے بعد کیا گزرتی ہے؟

انسانی دماغ پر40 سال کے بعد کیا گزرتی ہے؟

جیسے جیسے انسان کی عمر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اس کی جسمانی صلاحیتوں میں بھی کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ خاص طور پر 40 سے 50 سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے اور عمر کے اس حصے میں ہمارے جسم کے مختلف اعضا میں بگاڑ آنا شروع ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر اِس عمر میں ہمارے پٹھوں کا حجم کم ہو جاتا ہے، بینائی کمزور ہو جاتی ہے اور جوڑوں میں خرابی آنا شروع ہو جاتی ہے۔لیکن دماغ کے لیے یہ عمل تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔بگاڑ کے بجائے کہا جا سکتا ہے کہ عمر کے اس حصے میں ہمارے دماغ کے اندر کی ’وائرنگ‘ دوبارہ ہوتی ہے۔ یہ کہنا ہے کہ آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی سے منسلک محققین کی ایک ٹیم کا جنھوں نے انسانی جسم اور دماغ پر بڑھتی ہوئی عمر کے باعث پڑنے والے اثرات ہر ہونے والے 150 مطالعات کا جائزہ لیا ہے۔

موناش یونیورسٹی کی نیوروسائنٹسٹ شرنا جمادار کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ دماغ انسانی جسم کا صرف 2 فیصد ہے، لیکن یہ ہمارے جسم میں داخل ہونے والی گلوکوز کا 20 فیصد حصہ اپنے اندر جذب کرتا ہے۔ لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ گلوکوز کو جذب کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔‘وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’دماغ اپنے نظام کی ایک طرح سے ری-انجینیئرنگ کرتا ہے تاکہ جن اجزا کو وہ جذب کررہا ہے اس کا بہترین استعمال ہو۔‘سائنسدانوں کے مطابق یہ عمل انقلابی ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں آنے والے سالوں میں نیورانز کا نظام جسم کے ساتھ مزید ہم اہنگ ہوتا ہے جس سے ذہنی سرگرمیوں پر اثر پڑتا ہے۔

لیکن اس تحقیق میں جس چیز نے محققین کو سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ بات تھی کہ یہ ’ری وائرنگ‘ دماغ کی عمر بڑھنے میں رکاوٹ کا کردار ادا کرتی ہے۔شرنا بتاتی ہیں ’ہمارے دماغ میں کیا عمل ہوتے ہیں یہ جاننا ضروری ہے، جو ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں کہ ہم دماغ کی عمر بڑھنے کے منفی اثرات سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔‘

دماغ کے کچھ افعال عمر بڑھنے کے ساتھ بہتر ہوسکتے ہیں۔ حالیہ دہائیوں میں نیورو سائنسدانوں کی اہم کامیابیوں میں سے ایک یہ ہے کہ انھوں نے کسی حد تک یہ معلوم کیا ہے کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے۔بنیادی نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ اکائیوں کے ایک پیچیدہ نیٹ ورک سے بنا ہے جو مختلف علاقوں، ذیلی حصوں اور بعض صورتوں میں انفرادی نیورونز میں تقسیم ہوتے ہیں۔شرنا کہتی ہیں ’اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہماری نشوونما اور جوانی کے دوران یہ نیٹ ورک اور اس کی اکائیاں ایک دوسرے کے ساتھ بہت بہتر رابطے میں ہوتی ہیں۔‘

یہی وجہ ہے کہ نوجوانی اور بچپن کی عمر میں کھیلوں اور نئی زبانوں کو سیکھنے کے ساتھ ساتھ عام طور پر اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینا آسان ہوتا ہے۔ موناش یونیورسٹی کی ٹیم کے تجزیے کے مطابق جب ہم 40 کی دہائی تک پہنچتے ہیں تو یہ دماغی سرکٹس یکسر بدل جاتے ہیں۔ شرنا سمجھاتی ہے کہ اس کہ نتیجے میں انسان کی سوچ میں لچک کم ہو جاتی ہے، غیر مناسب رویے کو روکنے اور، لفظی اور عددی استدلال میں کمی آجاتی ہے۔ یہ تبدیلیاں عمر کی اِس نام نہاد پانچویں دہائی کے دوران لوگوں میں دیکھی جاتی ہیں۔ یہ ان نتائج سے مطابقت رکھتی ہیں کہ جب آپ اپنی 40 کی دہائی سے 50 کی دہائی میں جاتے ہیں تو ان نیٹ ورکس کے رابطوں میں تبدیلیاں عروج پر ہوتی ہیں۔‘اس کی وجہ یہ ہے کہ کہ پچھلے سالوں کی نسبت سرکٹس ایسے نیٹ ورکس کے ساتھ زیادہ جڑتے ہیں جو عمومی اور نہ کہ مخصوص تھیمز کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ نیورو سائنٹسٹ کا کہنا ہے کہ ’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے 40 سال سے پہلے سرکٹ ایسی دماغی اکائیوں سے گزرتے ہیں جو انتہائی پیچیدہ نیٹ ورکس سے منسلک ہوتی ہیں اور 40 سال کے بعد، ہم نے مشاہدہ کیا کہ یہ سرکٹ بلا امتیاز سبھی سرکٹوں سے جڑجاتے ہیں۔‘



Monday 8 January 2024

أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےخواتین کاایک وصف  یہ بیان فرمایا ہے کہ "أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ" یعنی یہ اچھے خاصے سمجھدار مردوں کی عقلیں لےجاتی ہیں۔ (صحيح البخاری: ٣٠٤)
اس کے معنی میں شارحین کے متعدد اقوال ہیں:
١) مرد پر عورت کی تاثیر اور جذباتی نفوذ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ جب عورت کسی کام کی ٹھان لے تو مرد سے کروا ہی گزرتی ہے، بھلے صحیح ہو یا غلط۔
٢) عورت کے عشق کا فتنہ اِس قدر شدید ہے کہ اچھے خاصے سمجھدار مرد کی عقل متاثر کردیتا ہے، حتی کہ بسا اوقات اِس سبب سے مرد پاگل ہوجاتا ہے۔
٣) عورت اپنی فرمائشوں، سوءِ ادب اور خاوند کی منازعت کی وجہ سے اس کو اتنا غصہ دلا سکتی ہے، جو اُس کی عقل لے جانے کیلیے کافی ہوتا ہے۔
٤) مرد عورت کی خاطر ایسے کام کر گزرتا ہے جو عقل کی کسوٹی پر رکھے جائیں تو پورے نہ اتریں، مثلًا طلبِ معاش کی صعوبتیں اور آخرت سے غفلت کی بیوقوفی۔
(فتح الباري لابن حجر : ١٣٨/٩، المفاتيح في شرح المصابيح للزيداني : ١٠٠/١، إرشاد الساري للقسطلاني : ٥٢/٣)

Friday 5 January 2024

کھانے کی پسند کا راز کہاں چھپا ہے؟

کھانے کی پسند کا راز کہاں چھپا ہے؟

زبان کے بارے میں بات ہونے جا رہی ہے، اب یہاں دو تین چیزیں واضح کرنی بہت ضروری۔ وضاحتوں کا آغاز اس بات سے کرتے ہیں کہ یہاں نا تو بولی جانے والی زبان کا ذکر ہونے والا ہے اور نا ہی ا±س زبان کا کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں بہت زبان دراز ہے۔تو جناب پھر ذہن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس زبان کا ذکر ہونے والا ہے؟ تو ہم ذکر کرنے لگے ہے اس زبان کا جو انسان کے منھ میں ہوتی ہے جس کی مدد سے ہم یہ پتہ چلا سکتے ہیں کہ کس کھانے کا ذائقے کیسا ہے۔ابتدائی طور پر اگر کسی بھی فرد کی زبان دیکھی جائے تو زبانوں میں کوئی قابل ذکر فرق نظر نہیں آتا ہے۔تاہم اس پیچیدہ اور نفیس عضو کے تھری ڈی تجزیے سے اب یہ پتہ چلا ہے کہ یہ ایک ایسی ساخت ہے جس کی خصوصیات ہمارے فنگر پرنٹس کی طرح انفرادی ہوتی ہیں۔

ماہرین کی مانیں توفرق نہ صرف پیپیلے (کھانے کو دانتوں سے چبانے کے دوران اس پر گرفت جمائے رکھنے وہ چھوٹے چھوٹے ’ٹیسٹ بڈز‘ جو اس کے بارے میں دماغ کو یہ بتاتے ہیں کہ جو کھانا آپ کھا رہے ہیں اس کا ذائقہ کیسا ہے) کی تعداد میں ہے، بلکہ وہ گوشت دار پروٹین جو ان کی سطح کو ڈھانپتے ہیں، بلکہ ان کی شکل میں بھی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرا یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ اور اس تحقیق کی سربراہ رینا اینڈریوا نے بتلایا کہ ’ایک پیپیلا سے ہم 48 فیصد درستگی کے ساتھ 15 شرکاءپر مشتمل ایک گروپ میں سے ایک شخص کی شناخت کرنے میں کامیاب رہے۔

ایک پیپیلا کے تجزیے نے کسی شخص کی جنس اور عمر کی پیش گوئی کو معتدل درستگی کے ساتھ 67 سے 75 فیصد تک ممکن بنایا۔اگرچہ ابھی یہ تحقیق جاری ہے، اینڈریوا نے یہ بھی بتایا کہ مطالعے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ’ہمارا مطالعہ یہ ابتدائی ثبوت فراہم کرتا ہے کہ (زبانیں) بہت منفرد ہیں۔‘ انگلینڈ کی لیڈز یونیورسٹی کے محققین کے تعاون سے کی جانے والی یہ تحقیق سائنسی جریدے سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہوئی ہے۔

زبان کی ساخت میں فرق:

محققین کے مطابق، ہر زبان کے نقوش میں فرق یہ سمجھنے میں بھی کلیدی ہوسکتا ہے کہ ہم کچھ کھانوں کو کیوں پسند کرتے ہیں اور کچھ کو مسترد یا نا پسند کیوں کرتے ہیں۔مثال کے طور پر جن لوگوں کے پاس ’فنگیفارم فارم‘ پیپیلے کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، یعنی جو شکل میں مشروم یا کھمبیوں سے ملتے جلتے ہیں اور زیادہ تر زبان کے کناروں اور نوک پر پائے جاتے ہیں، یہ لوگ وہ ہیں جنھیں ڈارک چاکلیٹ یا لیموں پسند نہیں آتے، کیونکہ ان لوگوں کو ان کے ذائقے عام لوگوں کے مقابلے میں بہت زیادہ شدت کے ساتھ محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن جو چیز کھانے کے بارے میں ہمارے تصور کو بھی متاثر کرتی ہے وہ پیپیلے ہیں جو ایک مکینیکل فنکشن کو پورا کرتے ہیں، اور جو زبان کو اس کی ساخت اور رگڑ کو محسوس کرنے کی اجازت دیتا ہے جو ہم کھاتے ہیں۔مثال کے طور پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم کچھ کھانوں کو دوسروں پر کیوں ترجیح دیتے ہیں، یہ بات صحت مند کھانے کی ترکیب بنانے والوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ اینڈریوا کہتی ہیں کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ ذائقہ بہت اہم ہے، اور یہ سچ بھی ہے، لیکن کھانے کی ساخت بھی ہمیں ایک خوشگوار احساس دلاتی ہے۔‘اور ہر زبان کی انفرادیت اور بیماریوں کے درمیان کیا تعلق ہے؟ کیا پی پیلے کی شکل اور تقسیم کا مطالعہ کر کے تشخیص کرنا ممکن ہے؟اینڈریوا بتاتی ہیں کہ ’یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی ہم اگلے مرحلے میں تحقیقات کرنے جا رہے ہیں۔‘ان کا مزید کہنا ہے کہ ’جب ایک فرد مثال کے طور پر آٹومیون نامی بیماری (کہ جس میں انسانی جسم اس بات کا تعین نہیں کر سکتا کہ ان کے جسم میں کون سے خلیے اس کے اپنے جسم کے ہیں اور کون سے جسم کے باہر سے اندر داخل ہوئے ہیں) کا شکار ہوتا ہے کہ جسے ’سجوگرین سنڈروم‘ کہا جاتا ہے (اس بیماری میں انسانی جسم کے اہم حصوں جن میں زبان سرِ فہرست ہے پر سے نمی ختم ہو جاتی ہے)، جہاں ایک قسم کے پیپیلے (فلیفارم پیپیلے) کی شکل زیادہ چپٹی ہوتی ہے۔اس تحقیق میں جہاں بہت سے باتیں واضح ہوئیں وہیں ماہرین اور محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ انسانی زبان کی بناوٹ اور اس کی مدد سے جسم میں موجود طبی مسائل کے بارے میں مزید جاننے کیلئے ابھی مزید مطالعے اور تحقیق کی ضرورت ہے کہ جس کی مدد سے ایسے اعدادو شمار جمع کیے جا سکیں کہ جو آنے والے دنوں میں ہونے والی تحقیقیات میں مدد گار ثابت ہوں۔




Wednesday 3 January 2024

پیسے بچانے کے وہ 3 مشورے جو آپ کے بچوں کا مستقبل کر سکتے ہیں تابناک

 پیسے بچانے کے وہ 3 مشورے جو آپ کے بچوں کا مستقبل کر سکتے ہیں تابناک

دنیا بھر میں مہنگائی کی شرح میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے شاید ہی کوئی طبقہ یا فرد ایسا ہو جسے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا رہا ہو۔ اس سب کے بیچ اکثر والدین خاص طور پر اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات کی وجہ سے ذہنی تناو کا شکار رہتے ہیں۔دل و دماغ میں یہی چل رہا ہوتا ہے کہ کیا وہ اپنے بچوں کو باشعور اور مثبت شہری بنانے کیلئے بہتر تعلیم دے پائیں گے؟ کیا ان کے پاس اتنے مالی وسائل ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کیلئے انھیں کسی اچھے تعلی ادارے میں داخل کروا سکیں۔اب یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہمارے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر ایک ایسی چیز ہے جس میں تمام والدین شریک ہیں۔پہلی تشویش عام طور پر اچھی صحت کو برقرار رکھنے یا زندگی میں اپنے انتخاب سے خوش رہنے کے بارے میں ہوتی ہے۔لیکن جیسے جیسے وہ انھیں بڑے ہوتے دیکھتے ہیں، ایک تشویش جو اکثر پیدا ہوتی ہے وہ ان کی معاشی خوشحالی کے گرد گھومتی ہے۔برطانیہ میں سٹینڈرڈ لائف کی جانب سے کروائے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر 10 میں سے سات والدین اپنے بچوں کے مالی مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔اس تشویش کے عام طور پر دو پہلو ہوتے ہیں، ایک یہ کہ اپنے مستقبل کیلئے بچت کیسے کریں، دوسرا یہ ہے کہ کیا وہ اس بچت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔مطالعات سے پتا چلا ہے کہ کم عمری سے بچت کرنے کی عادت سے بچے مستقبل میں اپنے معاشی معاملات بہتر انداز میں چلا پاتے ہیں۔لیکن یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ بچت کرنا اتنا آسان نہیں ہے، جیسا کہ امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی کے معاشی ماہر اور مصنف ڈین ایریلی کہتے ہیں: ’پیسے کی خامیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے بارے میں کبھی بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کب تک کسی کے پاس رہے گا، اسی وجہ سے ہمارے لیے یہ سوچنا بہت مشکل ہے کہ طویل مدت میں اس کا اصل مطلب کیا ہے۔‘بی بی سی کے پوڈ کاسٹ ’منی بوکس‘ میں ان کا کہنا تھا کہ ’جو چیز واقعی اہم ہے وہ یہ ہے کہ انھیں (بچوں کو) کچھ کنٹرول رکھنے اور پیسے کے بارے میں اپنے کچھ فیصلے کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ شاید وہ کچھ غلطیاں کر سکیں۔‘معاشی ماہر سٹیفنی فٹزجیرالڈ کا کہنا ہے کہ ’اوہ، کاش میں نے کچھ پیسے بچا لیے ہوتے یا میں نے انھیں کسی ایسی چیز پر خرچ کیا ہوتا جو طویل عرصے تک میرے پاس رہتی۔‘

1۔ طویل مدتی سیونگ اکاوٹس:

چونکہ ہمارے بچوں کو فوری طور پر پیسے کی ضرورت نہیں ہے اور طویل مدتی بچت کی مصنوعات ہمیشہ اعلیٰ فوائد پیش کرتی ہیں، لہذا بینکوں کی طرف سے پیش کردہ اکاونٹس اور ہر ایک پر سود کی شرح کا موازنہ کرنا بہتر ہے۔سٹیفنی کہتی ہیں کہ ’بچوں کے سادہ سے اکاونٹس ہیں اور یہ بچوں کو پیسے کی آمد اور اخراج کے بارے میں سمجھانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔بینک میں اکثر دو قسم کے اکاونٹس ہوتے ہیں، فوری رسائی والے کرنٹ اکاونٹس کے ساتھ آپ کسی بھی وقت رقم نکال سکتے ہیں یا جمع کرواسکتے ہیں لیکن ان میں سود کی شرح محدود یا طویل مدتی سیونگ اکاونٹس سے کم ہوتی ہے۔اس بارے میں سمجھنے کیلئے کہ کون سا بینک بچوں کیلئے اچھے سیونگ اکاونٹ آفر کر رہا ہے، کچھ ’کمپیریزن سائٹس‘ موجود ہیں جہاں آپ مختلف سکیمز کا موازنہ کر سکتے ہیں۔آپ بہت سے بینکس میں ایسے اکاونٹ بھی منتخب کر سکتے ہیں جن تک صرف وہ بچے رہی رسائی حاصل کرسکتے ہوں جن کے نام پر وہ بینک اکاونٹ حاصل کیا گیا ہے، مگر اس میں مزید ایک اچھی بات یہ بھی ہوتی ہے کہ بچے اس اکاونٹ میں جمع ہونے والی رقم کو تب استعمال کر سکتے ہیں جب وہ 18 سال کے ہو جائیں۔سٹیفنی فٹزجیرالڈ کے مطابق ’اس سے کسی کے غیر ضروری طور پر باہر نکلنے یا کسی ایسی چیز کو کوور کرنے کے امکانات محدود ہوجاتے ہیں جس کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘لیکن سب سے بڑھ کر، آپ کو انھیں اس لمحے کیلئے تیار کرنا ہوگا اور یہ بات بھی ان کے ساتھ کرنی ہوگی کہ آپ کی ان سے توقعات کیا ہیں کہ آپ کی نظر میں انھیں یہ رقم کب، کہاں اور کس وقت استعمال کرنی ہے۔ جیسے یونیورسٹی میں داخلے کے وقت، مستقبل میں کسی بھی ہنگامی صورتحال کے وقت، یا پھر شاید اپنی پہلی گاڑی کی خریداری کے وقت۔ایک اور مثبت نکتہ یہ کہ جب آپ ان کیلئے بچت کرتے ہیں تو ان سے بات کرنا ضروری ہے کہ غیر متوقع واقعات کیلئے مختص رقم کس طرح انھیں یہ احساس دلائے کے ان کا مستقبل محفوظ ہے۔ بس اگر انھیں کسی چیز پر توجہ دینی ہیں تو وہ ان کی تعلیم ہے۔

2۔ آہستہ آہستہ، پیسے جمع کرنے کیلئے بچت کرنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا:

آج ایک بچے کیلئے بچت اس کے مستقبل کیلئے ایک عظیم تحفہ ہے۔ نہ صرف وہ کچھ رقم کے ساتھ اپنی بالغ زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں بلکہ اس عمل میں بچوں کو شامل کرنے سے انھیں پیسے کے بارے میں اہم سبق سیکھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔لیکن اگر آپ کچھ عرصے کیلئے خاندانی صورتحال کی وجہ سے ان کیلئے بچت نہیں کرسکتے ہیں تو، معاملات مشکل میں تو پڑ سکتے ہیں مگر کوشش سے پھر بھی آپ کچھ نہ کچھ کر ہی سکتے ہیں۔ضروری بات یہ ہے کہ قرض نہ لیا جائے یا اس طرح کی کسی چیز کیلئے کریڈٹ کارڈ کا استعمال نہ کیا جائے۔’والدین کیلئے یہ بہت فطری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو بہترین مستقبل ملے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم افراط زر کی وجہ سے زندگی گزارنے کے اخراجات کے بحران سے دوچار ہیں اور لوگوں کی بچت کرنے کی صلاحیت اس وقت واضح طور پر کافی تناو کا شکار ہے۔‘

فنانشل پلانر کرسٹی سٹون کے بھی ایسا ہی خیالات ہیں۔فٹزجیرالڈ کہتے ہیں کہ ’میں واقعی لوگوں کی حوصلہ افزائی کروں گی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے بچت کی امید میں قرض میں نہ جائیں یا اپنے قرضوں میں ڈیفالٹ نہ ہوں۔’آپ کے بچوں کو تکلیف نہیں ہوگی اور اہم بات یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ خاندان اس وقت مالی طور پر محفوظ ہے۔ امید ہے، جیسے جیسے چیزیں بہتر ہوں گی، وہ مستقبل میں مزید بچت کرنے کے قابل ہوں گے۔‘

3۔ کمپاونڈ انٹرسٹ کے جادو کو نظر انداز نہ کریں:

کچھ لوگ اسے ’کمپاونڈ انٹرسٹ‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں، کچھ اسے دنیا کے آٹھویں عجائب کے طور پر اور کچھ ایک برف کے گولے کے طور پر بیان کرتے ہیں جو آپ کی توجہ کے بغیر آپ پر بوجھ کو بڑھا دیتا ہے۔یہ سب ایک بچت اکاو¿نٹ سے شروع ہوتا ہے جس میں انٹرسٹ کی شرح ہوتی ہے۔ فرض کریں کہ آپ کے پاس 100 ڈالر یا اس کے مساوی کو ایک اکاونٹ میں ڈالتے ہیں جو آپ کو 5 فیصد سود کی شرح پیش کرتا ہے۔اب اس معاملے کو سمجھنے اور پڑھتے وقت آپ کو تھوڑی توجہ مرکوز کرنا ہو گی، اعداد و شمار پر ایک اچھی اور گہری نظر ڈالیں۔اب معاملے کو لے کر آگے بڑھتے ہیں۔اس اکاو¿نٹ کے ساتھ، پہلے سال کے اختتام پر، آپ کے پاس 105 ڈالر ہوں گے۔100 ڈالر آپ نے اپنی جیب سے نکالے۔اور بینک نے آپ کو ایک اچھا گاہک ہونے اور ایک سال میں اس ڈیپازٹ کو نہ چھونے کیلئے انعام کے طور پر 5 ڈالر دیے۔کلیدی تصور یہ ہے، کہ کمپاونڈ انٹرسٹ کا جادو اس وقت تک ہوتا ہے، یا تب تک سب ک±چھ اچھا لگتا ہے کہ جب تک آپ پیسے منتقل نہیں کرتے۔ نہ تو ابتدائی، نہ ہی وہ جو بینک آپ کو دیتا ہے۔فٹزجیرالڈ کا کہنا ہے کہ ’آپ صرف اکاونٹ میں ایکویٹی رکھ کر مفت پیسہ کما سکتے ہیں۔‘

اب ہم بڑھنے لگے ہیں دوسرے سال کی جانب۔۔۔

آپ کے بچے کے اکاونٹ میں اب 105 ڈالر ہیں، لیکن اس سال آپ کی مالی حالت آپ کو اس میں مزید ڈیپازٹ کرنے کی اجازت نہیں دے رہی، مگر ہو گا کیا؟ ہوگا یہ کہ آپ کے پیسے میں اس کے باوجود اضافہ ہوتا رہے گا۔

لیکن یہاں دماغ چکرا گیا کہ میاں وہ کیسے؟

ہوگا یہ کہ آپ اس سال 5 ڈالر نہیں کمائیں گے۔ مگر پھر بھی اس سال کے آخر تک آپ کے پاس مزید پیسے ہوں گے۔ 5 فیصد کی اسی شرح سود کے ساتھ بینک اب آپ کو زیادہ معاوضہ دینے جارہا ہے۔ اب آپ جو 5 فیصد کماتے ہیں وہ 100 ڈالر کے بارے میں نہیں ہے جو آپ نے شروع میں رکھا تھا۔ انٹرسٹ اب دوسرے سال کیلئے آپ کے اکاونٹ کے کل پر لاگو ہوتا ہے، یعنی 105 ڈالر پر۔دوسرے سال کیلئے سود 5 کی بجائے 5 اعشاریہ 25 امریکی ڈالر ہے۔لیں جناب اب آپ کا بچہ 110.25 ڈالر کے ساتھ تیسرے سال کا آغاز کرتا ہے اور 115.76 ڈالر کے ساتھ اس کا تیسرا مالی سال ختم ہوتا ہے۔اب اسی طرح چوتھا سال 121.55 زالر کے ساتھ۔پانچواں سال 127.63 ڈالر کے ساتھ۔اور جب وہ 18 سال کا ہو جائے گا، تو اس کمپاونڈ انٹرسٹ کی بدولت، اسے 240.66 ڈالر ملیں گے۔چلیں اب تصور کریں کہ شروع میں 100 ڈالر کے بجائے، آپ 1000 ڈالر لگاتے ہیں، جب آپ کا بچہ 18 سال کا ہوجائے گا، تو اس کے پاس 2,406.62 ڈالر ہوں گے۔ ایک وقت میں تھوڑا سا بچائیں اور ریاضی کو باقی کام کرنے دیں اب یہاں یہ بات اہم ہے کہ جو پیسے آپ کے بچے کے اکاوٹ میں بینک ہر سال اپنی جانب سے ڈال رہا ہے وہ اس بات کا انعام ہے کہ آپ نے اس دوران اس اکاونٹ سے کوئی رقم نہیں نکلوائی۔اور اگر آپ اپنے بچے کو مالیات کے بارے میں سکھانا چاہتے ہیں تو انھیں ایک پیگی بینک دیں یعنی غلہ، منی ہیلپر۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بہت چھوٹے بچوں کیلئے ایک اچھا خیال ہے، جنھیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ پیسہ کھلونا نہیں ہے اور اسے محفوظ جگہ پر رکھنا چاہئے۔ایک پیگی بینک انھیں مختلف سکوں اور بلوں کی قیمت کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے، اور یہ کہ بڑے سکے ضروری طور پر زیادہ قیمتی نہیں ہیں۔یہ اپنے بچے کو جیب خرچ دینا شروع کرنے کا بھی ایک اچھا موقع ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا سکہ ضرور ہوتا ہے مگر اس کی مدد سے بچے کو ایک بڑا اور زندگی کا اہم سبق ملتا ہے۔کیونکہ ہم خود ان کیلئے بچت کرنے کا انتظام کرتے ہیں اس کے علاوہ، یہ ضروری ہے کہ ہمارے بچے میں اس بات کی سمجھ اور فہم پیدا ہو کہ پیسہ کس طرح کام کرتا ہے۔ایک ایسا ہنر یا سبق جو ان کی باقی زندگی کیلئے ان کے ساتھ رہے گا۔