چار قسم کے مسلمان؛ آپ کس زمرہ میں شامل ہیں؟
'رينڈ كارپوريشن' امریکہ کا تھنک ٹینک ہے جو انتہائی معتبر ادارہ ہے۔ یہ جو سفارشات تیار کرتا ہے۔ امریکی ادارے اس پر غور و خوض کرتے ہیں۔ ان سفارشات کی بناء پر اپنی پالیسی مرتب کرتے ہیں۔ یہ تھنک ٹینک جو سفارشات تیار کرتا ہے وہ محکمۂ خارجہ، و محکمہ دفاع کو جاتی ہیں۔ وہ ان سفارشات کو دیکھتے، اور ان میں دی گئی تجاویز پر عمل کرتے ہیں۔ رینڈ كارپوريشن کی حالیہ ایک رپورٹ میں مسلمانانِ عالم کا تجزیہ کیا گیا ہے کہ تمام مسلمان ایک ہی طرح کے نہیں بلکہ چار قسم کے ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ کونسی قسم ہمارے لئے خطرناک، اور کونسی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اور سفارشات میں بتایا گیا ہے کہ کونسی قسم کے ساتھ ہمیں کس سطح پر مدد کرنی چاہیے اور کس کے راستے میں روڑے اٹکانے چاہیئں۔
پہلی قسم جو مسلمانوں کی ہے وہ (fundamentalst) بنیاد پرست ہیں۔ فنڈمنٹلسٹ وہ لوگ ہیں، جو اسلام کو صرف مذہب ہی نہیں سمجھتے بلکہ دین سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام فقط عبادات، رسومات، و عقیدے کا نام ہی نہیں بلکہ اسلام ایک سوشل سسٹم ہے۔ ایک اجتماعی نظام ہے۔ جو ہر ہر معاملے میں اپنا ایک اصول رکھتا ہے۔ جس میں ہر ہر کام پر بھرپور رہنمائی ملتی ہے۔
یہ لوگ ہماری تہذیب و روایات، ہمارے کلچر، ہمارے پیش کردہ نظام کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ اور یہی ہمارے لیے چیلنج ہیں۔ انکو ختم کرنا ہے۔ انکا نام و نشان مٹا دینا ہے۔ انکے پیچھے اپنے کتوں کو چھوڑنا ہے۔
دوسری قسم (Traditionalist) روایت پسند ہیں۔ جنکا تعلق ایجوکیشن سے ہے۔ انکا مشغلہ اسلامی اداروں میں پڑھنا پڑھانا ہے۔ یہ ہمارے لیے اتنے خطرناک نہیں ہیں۔ کیونکہ انکا کام مسجدوں میں اذانیں دینا نمازیں پڑھانا ہے۔ (علماء و طلباء کا طبقہ) انکا آگے کا کانسیپٹ نہیں ہے بس یہی انکا کام ہے۔ سو یہ ہمارے لیے خطرناک بھی نہیں۔ لیکن اگر یہی 'فنڈمنٹلسٹ' بنیاد پرستوں کے ساتھ مل گئے تو بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ۔
کیونکہ ان کے پاس عوام تک رسائی کا سب سے مضبوط اور بڑا ذریعہ ہے۔ بغیر خرچ کے لوگ خود انکے پاس چلے آتے ہیں۔ روایت پسند اور بنیاد پرست اگر آپس میں مل گئے تو ہمارے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ ان کے لیے ہمیں یہ کرنا ہے کہ انکے راستے میں روڑے اٹکاتے رہنا ہے۔ انکے نصاب تعلیم میں جدیدیت کو داخل کرنا ہے۔
انہیں آپس کی الجھنوں میں الجھائے رکھنا ہے۔ انکے باہمی اختلافات کو ہوا دیتے رہنا ہے۔ اور نئی نئی باتوں کو انکے بیچ پیدا کرنا ہے۔ فرقہ وارانہ مسلکی اختلافات میں خود سے شوشے چھوڑتے رہنا ہے۔ تاکہ یہ لوگ آپس میں ہی لگے رہیں۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے ہی فرصت نہ ملے۔ یہ آپس میں لگے رہیں گے تو انکی توجہ ہم پر سے ہٹی رہیگی۔
تیسری قسم مسلمانوں کی (Modrnest) "جدیدیت پسند" ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام میں نیا پن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جو اسلام کو اسکی اصل روح سے ہٹا کر اسکو ہماری تہذیب و روایات سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام کی جدید تعبیر کرنے کی کاوشوں میں جتے ہوئے ہیں۔
یہ ہمارے لیے خطرہ سے بالکل خالی ہیں۔ بلکہ یہ ہمارے ہی ہیں۔ انکے لئے ہمیں یہ کرنا ہے کہ انہیں امداد فراہم کر کے مکمل سپورٹ کرنا ہے۔ انکے لیے راستے کو صاف و ہموار کرنا ہے۔ انکے راستے کی دیواروں کو دفن کرنا ہے۔ انکی رہنمائی کرنی ہے۔ انہیں شاباش دے کر انکی حوصلہ افزائی کرنی ہے۔
انکے پاس چونکہ عوام تک رسائی کا کوئی خاص ذریعہ نہیں ہے سو انہیں اس وقت کے اہم ذریعۂ ابلاغ کے پلیٹ فارم پر کرسیاں فراہم کرنی ہیں۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں انکو خاص پر نمائندگی کا موقع دینا ہے۔کیونکہ یہ ہمارے آلہ کار ہیں۔
چوتھی قسم (Secular) سیکولر مسلمان ہیں۔ یہ تو ہیں ہی ہمارے... جو یہ مان چکے ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظام و ضابطہ حیات نہیں۔ بلکہ اسلام مذہب، عقیدہ، عبادات و رسومات کا نام ہے اور بس... اسلام کا ذندگی کے نظام سے کوئی تعلق نہیں ۔
یہ ہمارے ہیں ہمارے ہی اشاروں پہ چلتے ہیں۔ انکے لیے فکر مندی کی ضرورت نہیں۔ بس! ہمیں فوکس رکھنا ہے تو پہلی دو قسموں پر... کہ ان پر دباؤ ڈالتے رہنا ہے۔ انکی پیٹھ میں چھرا گھونپتے رہنا ہے۔ اور انکو ایک دوسرے سے دور رکھنا ہے۔ بطور خاص دوسری قسم کے مسلمانوں کے لئے پالیسی مرتب کی ہے کہ انہیں آپس کے اختلافات میں الجھائے رکھنا ہے۔ اور تیسری اور چوتھی قسم کے مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرنی ہے۔ اس رپورٹ کے تناظر میں ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہم کونسی قسم میں داخل ہیں۔ اور ہمیں اس رپورٹ کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے کا لائحہ عمل طے کرنا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment