کیا جمعہ کی پہلی اذان شروع ظہر کے وقت سے پہلے دی جاسکتی ہے؟
بینوا توجروا
بینوا توجروا
مسئلہ (۳۶): وقت سے پہلے اذان دینا جائز نہیں ہے، اگر کسی نے غلطی سے وقت سے پہلے اذان دیدی، تو پہلے غلطی کا اعلان کردے، تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے، اور وہ دھوکہ میں نہ پڑیں، پھر وقت ہونے پر دوبارہ اذان دے، اور یہی حکم اقامت کا بھی ہے۔(۱)
------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ المبسوط للسرخسي ‘‘ : قال : (وإن أذن قبل الوقت لم یجزہ ویعیدہ في الوقت) لأن المقصود من الأذان إعلام الناس بدخول الوقت فقبل الوقت یکون تجہیلا لا إعلامًا ۔ (۱/۲۷۸ ، باب الأذان)
ما في ’’ التنویر مع الدر والرد ‘‘ : فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامۃ ۔ تنویر مع الدر ۔ قال الشامي رحمہ اللہ تعالی : قولہ : (وقع بعضہ) وکذا کلہ بالأولی ۔
(۲/۵۰ ، باب الأذان ، مطلب في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ)
ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : قولہ : (ولا یؤذن قبل وقت ویعاد فیہ) أي في الوقت إذا أذن قبلہ ، لأن یراد للإعلام بالوقت فلا یجوز قبلہ بلا خلاف في غیر الفجر ۔۔۔۔ وفہم من کلامہ أن الإقامۃ قبل الوقت لا تصح بالأولی کما صرح بہ ابن الملک في شرح المجمع ۔ (۱/۴۵۶ ، ۴۵۷ ، باب الأذان)
ما في ’’ الفتاوی التاتارخانیۃ ‘‘ : وفي ’’ الخانیۃ ‘‘ : إذا أذن قبل الوقت یکرہ الأذان والإقامۃ ولا یؤذن لصلاۃ قبل الوقت ۔۔۔۔ وأجمعوا أن الإقامۃ قبل الوقت لا یجوز ۔
(۱/۳۲۵ ، الأذان ، نوع آخر في بیان الصلوات التي لہا أذان والتي لا أذان لہا ، وفي بیان في أي حال یوتی بہا) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : حتی لو أذن قبل دخول الوقت لا یجزئہ ویعیدہ إذا دخل الوقت في الصلاۃ کلہا في قول أبي حنیفۃ ومحمد ۔
(۱/۳۸ ، فصل في بیان وقت الأذان ، فتاوی قاضی خان :۱/۳۸ ، باب الأذان ، مسائل الأذان) (خیر الفتاوی :۲/۲۱۰، احسن الفتاوی : ۲/۲۹۰، کتاب الفتاوی: ۲/۱۲۹، فتاوی محمودیہ : ۹/۱۴۱)
......
وقت سے پہلے اذان پڑھنے پر لوٹانا؟
سوال (۶۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اذان وقت سے (جو نقشہ میں وقت لکھا ہے اس سے دو یا تین منٹ) پہلے پڑھ دی جائے تو وقت ہوجانے پر دوبارہ پڑھنا ضروری ہے یا نہیں؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وقت سے پہلے اذان دی گئی ہے تو وقت ہوجانے پر اذان لوٹانی چاہئے۔
ووقتہ أوقات الصلاۃ أي أصلاً واستحباباً۔ (مراقي الفلاح ۱۰۵)
لو أذن قبل الوقت یعاد في دخول الوقت۔ (مجمع الأنہر ۱؍۱۱۴بیروت، شامي ۲؍۵۰ زکریا، البحر الرائق ۱؍۲۶۲)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲؍۹؍۱۴۱۲ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
.....
سوال # 46092
میں کویت میں مقیم ہوں، میرا سوال یہ ہے کہ یہاں پر جمعہ کی اذان وقت زوال سے قبل ہوجاتی ہے اور خطبہ کی اذان عین ظہر کے وقت شروع ہوجاتی ہے تو کیا اس صورت حال میں ہم زوال سے پہلے جمعہ کی سنت ادا کرسکتے ہیں؟براہ کرم، جواب دیں۔
Published on: Nov 13, 2013
جواب # 46092
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1462-1462/M=1/1435-U
جمعہ کی اذان زوال سے پہلے معتبر نہیں، زوال کے بعد دینا چاہیے، اسی طرح زوال سے پہلے جمعہ کی سنت ادا کرنا درست نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.........
------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ المبسوط للسرخسي ‘‘ : قال : (وإن أذن قبل الوقت لم یجزہ ویعیدہ في الوقت) لأن المقصود من الأذان إعلام الناس بدخول الوقت فقبل الوقت یکون تجہیلا لا إعلامًا ۔ (۱/۲۷۸ ، باب الأذان)
ما في ’’ التنویر مع الدر والرد ‘‘ : فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامۃ ۔ تنویر مع الدر ۔ قال الشامي رحمہ اللہ تعالی : قولہ : (وقع بعضہ) وکذا کلہ بالأولی ۔
(۲/۵۰ ، باب الأذان ، مطلب في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ)
ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : قولہ : (ولا یؤذن قبل وقت ویعاد فیہ) أي في الوقت إذا أذن قبلہ ، لأن یراد للإعلام بالوقت فلا یجوز قبلہ بلا خلاف في غیر الفجر ۔۔۔۔ وفہم من کلامہ أن الإقامۃ قبل الوقت لا تصح بالأولی کما صرح بہ ابن الملک في شرح المجمع ۔ (۱/۴۵۶ ، ۴۵۷ ، باب الأذان)
ما في ’’ الفتاوی التاتارخانیۃ ‘‘ : وفي ’’ الخانیۃ ‘‘ : إذا أذن قبل الوقت یکرہ الأذان والإقامۃ ولا یؤذن لصلاۃ قبل الوقت ۔۔۔۔ وأجمعوا أن الإقامۃ قبل الوقت لا یجوز ۔
(۱/۳۲۵ ، الأذان ، نوع آخر في بیان الصلوات التي لہا أذان والتي لا أذان لہا ، وفي بیان في أي حال یوتی بہا) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : حتی لو أذن قبل دخول الوقت لا یجزئہ ویعیدہ إذا دخل الوقت في الصلاۃ کلہا في قول أبي حنیفۃ ومحمد ۔
(۱/۳۸ ، فصل في بیان وقت الأذان ، فتاوی قاضی خان :۱/۳۸ ، باب الأذان ، مسائل الأذان) (خیر الفتاوی :۲/۲۱۰، احسن الفتاوی : ۲/۲۹۰، کتاب الفتاوی: ۲/۱۲۹، فتاوی محمودیہ : ۹/۱۴۱)
......
وقت سے پہلے اذان پڑھنے پر لوٹانا؟
سوال (۶۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اذان وقت سے (جو نقشہ میں وقت لکھا ہے اس سے دو یا تین منٹ) پہلے پڑھ دی جائے تو وقت ہوجانے پر دوبارہ پڑھنا ضروری ہے یا نہیں؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وقت سے پہلے اذان دی گئی ہے تو وقت ہوجانے پر اذان لوٹانی چاہئے۔
ووقتہ أوقات الصلاۃ أي أصلاً واستحباباً۔ (مراقي الفلاح ۱۰۵)
لو أذن قبل الوقت یعاد في دخول الوقت۔ (مجمع الأنہر ۱؍۱۱۴بیروت، شامي ۲؍۵۰ زکریا، البحر الرائق ۱؍۲۶۲)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲؍۹؍۱۴۱۲ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
.....
سوال # 46092
میں کویت میں مقیم ہوں، میرا سوال یہ ہے کہ یہاں پر جمعہ کی اذان وقت زوال سے قبل ہوجاتی ہے اور خطبہ کی اذان عین ظہر کے وقت شروع ہوجاتی ہے تو کیا اس صورت حال میں ہم زوال سے پہلے جمعہ کی سنت ادا کرسکتے ہیں؟براہ کرم، جواب دیں۔
Published on: Nov 13, 2013
جواب # 46092
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1462-1462/M=1/1435-U
جمعہ کی اذان زوال سے پہلے معتبر نہیں، زوال کے بعد دینا چاہیے، اسی طرح زوال سے پہلے جمعہ کی سنت ادا کرنا درست نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.........
نماز جمعہ کے وقت کی ابتداء ظہر کی طرح زوال آفتاب کے بعد سے
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
نماز جمعہ کے وقت کی ابتداء ظہر کی طرح زوال آفتاب کے بعد سے
نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور متواتر احادیث کی روشنی میں جمہور مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: بے شک نماز اہل ایمان پر فرض ہے جس کا وقت مقرر ہے۔ (سورۃ النساء ۱۰۳)
نماز جمعہ دیگر نمازوں سے مختلف ہے کہ وہ وقت کے بعد پڑھی ہی نہیں جاسکتی کیونکہ دیگر فرض نمازیں وقت ختم ہونے پر بطور قضا پڑھی جاتی ہیں، جبکہ نماز جمعہ فوت ہونے پر نماز ظہر یعنی چار رکعت ادا کی جاتی ہیں۔ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ وقت‘ جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے۔ صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام نووی ؒ نے اپنی کتاب (المجموع ۴/۲۶۴) میں تحریر کیا ہے کہ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جمعہ کی قضا نہیں ہے، یعنی جس کا جمعہ فوت ہوگیا اسے نماز ظہر ادا کرنی ہوگی۔ ا سی طرح پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جس نے نماز جمعہ ظہر کے وقت میں ادا کی اس نے نماز جمعہ وقت پر ادا کیا جیساکہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر فقہاء نے اس مسئلہ پر اجماع امت ذکر کیا ہے۔ پوری امت مسلمہ متفق ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کرنی چاہئے کیونکہ پوری زندگی حضور اکرم ﷺ کا یہی معمول رہا ہے اور زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ ادا کرنے میں کسی کا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے۔ زوال آفتا ب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کی صورت میں جمہور محدثین وفقہاء وعلماء، نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ دوبارہ ادا کرنی ہوگی اور وقت ختم ہونے پر نماز ظہر کی قضا کرنی ہوگی۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور قول کے مطابق سعودی عرب کی عام مساجد میں جمعہ کی پہلی اذان تو زوال آفتاب سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے قبل ہوتی ہے لیکن جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کی قرآن وحدیث کی روشنی پر مبنی رائے کے مطابق خطبہ کی اذان زوال آفتاب کے بعد ہوتی ہے۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں پہلی اذان بھی جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کے قول کے مطابق زوال آفتاب کے بعد ہی ہوتی ہے۔ مگر کبھی کبھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض مساجد میں خطبہ والی اذان زوال آفتاب سے قبل ہی دے دی جاتی ہے، جس سے بعض حضرات کو تشویش ہوتی ہے کہ چند منٹ انتظار کرنے میں کونسی دشواری ہے، صرف چند منٹ کے انتظار پر کافی حضرات دوسری اذان سے قبل مسجد پہنچ کر جمعہ کی فضیلت حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔ حضور اکرم ﷺ کے اقوال کی روشنی میں جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ دوسری اذان شروع ہونے کے بعد مسجد پہنچنے والوں کی نماز جمعہ تو ادا ہوجاتی ہے لیکن انہیں جمعہ کی فضیلت کا کوئی بھی حصہ نہیں ملتا اور نہ ہی ان کا نام فرشتوں کے رجسٹر میں درج کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب کے علماء نے احتیاط پر مبنی جمہور علماء کی رائے کا احترام کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ عام مساجد میں خطبہ کی اذان زوال آفتاب سے قبل نہ دی جائے اور حرمین شریفین میں پہلی اذان بھی زوال آفتاب کے بعد دی جائے۔
موضوع کی اہمیت کے مدنظر یہ مضمون تحریر کر رہا ہوں، اللہ تعالیٰ صحیح بات لکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
نماز جمعہ کے اول وقت کے متعلق فقہاء وعلماء کی دو رائیں ہیں۔ دونوں رائے ذکر کرنے سے قبل اختلاف کی اصل وجہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ بعض روایات نماز جمعہ جلدی پڑھنے کے متعلق وارد ہوئی ہیں، حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے سمجھا کہ نماز جمعہ زوال آفتاب سے قبل پڑھی جاسکتی ہے، حالانکہ کسی ایک صحیح حدیث میں بھی وضاحت کے ساتھ مذکور نہیں ہے کہ آپ ﷺ زوال آفتاب سے قبل جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ جمہور محدثین وفقہاء وعلماء، نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ان احادیث میں صرف نماز جمعہ کے لئے جلدی جانے کی تاکید کی گئی ہے نہ کہ زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کی۔
جمہور محدثین وفقہاء وعلماء، نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہم اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری روایت کے مطابق نماز جمعہ کا وقت ظہر کی طرح زوال آفتاب کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ کا مشہور قول یہ ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی پڑھنی چاہئے لیکن اگر زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ ادا کرلی گئی تو زوال آفتاب کے بعد اعادہ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جمعہ بھی عید ہے، اس لئے چاشت کے وقت پڑھنے کی گنجائش ہے۔ مشہور حنبلی عالم علامہ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں کہ صحیح مذہب کے مطابق جمعہ کی نماز زوال آفتاب کے بعد ہی واجب ہوتی ہے اگرچہ پہلے ادا کرنے کی گنجائش ہے۔
جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کے قول کے بعض دلائل: جمہور علماء کے متعدد دلائل ہیں، لیکن اختصار کے مدنظر صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد صرف دو احادیث ذکر کررہا ہوں:
۱) حدیث کی سب سے مستند کتاب لکھنے والے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ نے اپنی مشہور ومعروف کتاب (صحیح بخاری) میں کتاب الجمعہ کے تحت ایک باب (Chapter) کا نام اس طرح تحریر کیا ہے: "جمعہ کا وقت زوال آفتاب کے بعد، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہم اجمعین سے اسی طرح منقول ہے" غرضیکہ صحابۂ کرام کے ساتھ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ کا بھی موقف واضح ہے کہ نماز جمعہ کا وقت زوال آفتاب کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اسی باب میں مذکورہ حدیث ذکر کرتے ہیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ جمعہ پڑھا کرتے تھے جس وقت سورج ڈھلتا یعنی زوال کے بعد جمعہ پڑھتے تھے۔ صحیح بخاری کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ زوال آفتاب کے بعد ہی نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ فتح الباری
یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ کے علاوہ دیگر محدثین مثلاً امام ترمذی ؒ نے بھی اپنی کتاب "ترمذی" میں ذکر کی ہے۔ خود حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ نے اپنی کتاب "مسند احمد" میں بھی ذکر کی ہے۔
۲) حدیث کی دوسری مستند کتاب (صحیح مسلم) میں امام مسلم رحمۃاللہ علیہ نے کتاب الجمعہ کے تحت ایک باب (Chapter)کا نام اس طرح تحریر کیا ہے: "جمعہ کی نماز زوال آفتاب کے بعد" اور اس باب میں یہ حدیث ذکر فرمائی ہے: حضرت ایاس بن سلمہ بن اکوع اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جب سورج زائل ہوجاتا تھا جمعہ کی نماز پڑھتے تھے، پھر سایہ تلاش کرتے ہوئے لوٹتے تھے۔ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ عنہ نے بھی صحیح بخاری میں ذکر فرمائی ہے۔
نوٹ: صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد ان دونوں احادیث میں وضاحت کے ساتھ مذکور ہے کہ آپ ﷺ نمازجمعہ زوال آفتاب کے بعد پڑھا کرتے تھے۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ کے قول کے دلائل:
۱) حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں ہم لوگ غداء (دوپہر کا کھانا) اور قیلولہ جمعہ کے بعد کیا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) وجہ استدلال یہ ہے کہ ڈکشنری میں غداء (دوپہر کا کھانا) کے معنی ہیں وہ کھانا جو زوال آفتاب سے پہلے کھایا جائے۔ جب غداء نماز جمعہ کے بعد کھایا جائے گا تو نماز جمعہ زوال آفتاب سے پہلے ہونی چاہئے۔ لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ صحابہ کرام جمعہ کے روز بھی زوال آفتاب سے پہلے کھایا کرتے تھے، بلکہ وہ کھانا جو زوال آفتاب کے بعد کھایا جاتا ہے اسے عرفاً غداء ہی کہتے ہیں جیسا کہ موجودہ زمانہ میں۔ مثلاً حضور اکرم ﷺ نے سحری کے متعلق ارشاد فرمایا : ہَلمُّوا الی الغداء المبارک لیکن دنیا کا کوئی عالم بھی یہ نہیں کہتا کہ سحری زوال سے قبل کھائی جاسکتی ہے۔
۲) حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، پھر لوٹ کر اپنے پانی لانے والے اونٹوں کو آرام دیتے تھے۔ راوی حضرت حسن بیان کرتے ہیں کہ میں نے راوی حضرت جعفر سے کہا کہ اس وقت کیا وقت ہوتا تھا۔ فرمایا آفتاب ڈھلنے کا وقت۔ (صحیح مسلم) اس حدیث سے نماز جمعہ کا زوال آفتاب سے پہلے پڑھنے کو ثابت کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ جمعہ کے دن زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد بھی پانی لانے والے اونٹوں کو آرام دلایا جاسکتا ہے جیساکہ دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ نیز یہ صحابی رسول حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قول نہیں بلکہ راوی کا ہے، غرضیکہ اس مبہم عبارت سے نماز جمعہ کا وقت زوال آفتاب سے قبل شروع ہونا، ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
۳) حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا استدلال حضرت عبداللہ بن سیدان سلمی رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہے جو سنن دار قطنی اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے جس میں خلفاء راشدین کا زوال سے پہلے جمعہ پڑھنا مروی ہے۔ مگر اس حدیث کی سند میں ضعف کی وجہ سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے جیساکہ صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام نووی رحمۃ اللہ نے تحریر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے نماز جمعہ سے متعلق آثار ضعیف ہیں، اور اگر صحیح مان بھی لیا جائے تو حضور اکرم ﷺ کی واضح احادیث کی بناء پر اس مذکورہ حدیث میں تاویل اور توجیہ ہی کی جائے گی۔
۴) حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے بعض ان احادیث سے بھی استدلال کیا ہے جن میں نماز جمعہ کے لئے سویرے جانے کی ترغیب وارد ہوئی ہے، لیکن ان احادیث سے زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کو ثابت کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ ان احادیث سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ نماز جمعہ کے لئے سویرے حتی کہ چاشت کے وقت مسجد چلے جانا چاہئے ، مگر ان احادیث میں اس طرح کی کوئی وضاحت وارد نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز زوال آفتاب سے قبل ادا کی جاسکتی ہے۔
خلاصۂ کلام: پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جمعہ کے دن ظہر کی جگہ نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے اور اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے جماعت کے ساتھ نماز جمعہ ادا نہیں کرسکا تو اسے نماز ظہر ہی ادا کرنی ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص نماز جمعہ وقت پر نہیں پڑھ سکا تو قضا ظہر کی نماز (یعنی چار رکعت) کی کرنی ہوگی۔ اسی طرح جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کا اتفاق ہے کہ نماز جمعہ کا آخری وقت‘ ظہر کے آخری وقت کے مانند ہے، یعنی عصر کا وقت ہونے پر نماز جمعہ کا وقت ختم ہوجائے گا۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی کہا ہے کہ نماز جمعہ کا آخری وقت‘ نماز ظہر کے آخری وقت کی طرح ہے۔ جب جمعہ کا آخری وقت ظہر کے آخری وقت کی طرح ہے تو نماز جمعہ کا اول وقت بھی ظہر کے اول وقت کی طرح ہونا چاہئے۔
اس پر بھی پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کرنی چاہئے ، البتہ صرف امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اگر زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ ادا کرلی گئی تو نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ جمہور محدثین وفقہاء وعلماء نے کہا کہ زوال آفتاب سے قبل جمعہ پڑھنے پر نماز جمعہ ادا ہی نہیں ہوگی۔ لہذا احتیاط کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کی جائے، بلکہ پہلی اذان بھی زوال آفتاب کے بعد دی جائے تو اختلاف سے بچنے کے لئے بہتر ہے۔
جمہور محدثین وفقہاء وعلماء نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہم اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری روایت کے دلائل مفہوم اور سند کے اعتبار سے زیادہ قوی ہیں۔
مذکورہ اسباب کی وجہ سے جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کا قول ہی زیادہ صحیح ہے:
۱) جمہور علماء کے دلائل صحیح احادیث سے ثابت ہونے کے ساتھ اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہیں، جبکہ دوسری رائے کے بعض دلائل اگرچہ صحیح احادیث پر مشتمل ہیں لیکن وہ اپنے مفہوم میں واضح نہیں ہیں، جبکہ دیگر روایات وآثار مفہوم میں تو واضح ہیں لیکن ان کی سند میں ضعف ہے۔
۲) جمہور محدثین وفقہاء وعلماء حتی کہ چاروں ائمہ میں سے تینوں ائمہ، امام بخاری، امام مسلم ، امام ترمذی، امام نووی رحمۃ اللہ علیہم اور چودہ سو سال سے جید علماء کی یہی رائے ہے کہ نماز جمعہ کا وقت زوال آفتاب کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔
۳) جمہور علماء کا قول اختیار کرنے میں احتیاط بھی ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد پڑھنے پر دنیا کے کسی بھی عالم کا کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی پر جمہور فقہاء وعلماء کا فیصلہ ہے کہ نماز جمعہ ادا نہیں ہوگی اور بعد میں نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔
۴) اگرچہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کی گنجائش رکھی ہے مگر انہوں نے یہی کہا ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کرنا بہتر ہے، چنانچہ سعودی علماء (جو اختلافی مسائل میں حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں) نے یہی کہا ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ادا کی جائے۔
۵) امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃا للہ کی شہادت کے مطابق حضرت عمر، حضرت علی، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہم اجمعین کا یہی موقف ہے کہ زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ کا وقت ہوتا ہے۔ حضرت امام بخاری ؒ اور حضرت امام مسلم ؒ نے اپنی کتابوں (صحیح بخاری وصحیح مسلم) میں باب (Chapter)کا نام رکھ کر ہی اپنا موقف واضح کردیا کہ زوال آفتاب کے بعد ہی نماز جمعہ کا وقت شروع ہوتا ہے۔
۶) نماز جمعہ ظہر کی نماز کا بدل ہے اور آخری وقت کے متعلق حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا موقف جمہور علماء کے مطابق ہے، کہ عصر کے وقت پر جمعہ کا وقت ختم ہوجاتا ہے، لہذ نماز جمعہ کا اول وقت بھی نماز ظہر کی طرح زوال آفتاب کے بعد سے ہی ہونا چاہئے۔
۷) جمعہ کے وقت کی ابتداء زوال آفتاب سے قبل ماننے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس وقت یا لمحہ سے نماز جمعہ کے وقت کی ابتداء مانی جائے؟ احادیث میں کوئی وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے حنبلی مکتب فکر کے علماء میں بھی وقت کی ابتداء کے متعلق اختلاف ہے، چنانچہ بعض علماء نے تحریر کیا ہے کہ نماز عید کی طرح سورج کے روشن ہونے سے وقت شروع ہوجاتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ سعودی عرب میں عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز اشراق کا وقت شروع ہوتے ہی فوراً ادا کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے گرمیوں میں ساڑھے پانچ بجے عید کی نماز ادا ہوجاتی ہے۔ غرضیکہ زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ پڑھنے کا کوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا ہے۔
۸) زوال آفتاب کے بعد اذان اور نماز جمعہ کی ادائیگی کی صورت میں نماز پڑھنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اور یہ شریعت میں مطلوب ہے۔
۹) خواتین اور معذور حضرات جن کو اپنے گھر نماز ظہر ادا کرنی ہوتی ہے، زوال آفتاب کے بعد پہلی اذان دینے پر انہیں نماز ظہر کی ادائیگی کا وقت معلوم ہوجائے گا۔ لیکن زوال آفتاب سے ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ قبل اذان دینے سے ان حضرات کے لئے نماز کے وقت شروع ہونے کا کوئی اعلان نہیں ہوگا۔
حنبلی مکتب فکر کے مشہور عالم دین علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی مایہ ناز کتاب (المغنی ۳/۱۵۹) میں تحریر کرتے ہیں کہ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جمعہ زوال آفتاب کے بعد قائم کرنا چاہئے کیونکہ نبی اکرم ﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے، حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرم ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز زوال آفتاب کے بعد پڑھتے تھے اور پھر نماز پڑھ کر سایہ تلاش کرتے ہوئے لوٹتے تھے ۔ (بخاری ومسلم) اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ جمعہ پڑھا کرتے تھے جس وقت سورج ڈھلتا۔ (صحیح بخاری) اس میں کوئی اختلاف بھی نہیں ہے کیونکہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ زوال آفتاب کے بعد یقیناًجمعہ کا وقت ہے لیکن زوال آفتاب سے قبل کے متعلق اختلاف ہے۔
اب جبکہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ہونی چاہئے تاکہ نماز جیسی اہم عبادت کی ادائیگی میں کوئی شک وشبہ نہ رہے، تو بعض مساجد میں خطبہ کی اذان کا زوال آفتاب سے قبل دینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ بلکہ اگر پہلی اذان بھی زوال آفتاب کے بعد دی جائے تواس میں زیادہ احتیاط ہے نیز دیگر تمام ائمہ کی رائے کا احترام بھی ہے اور کسی طرح کا کوئی نقصان بھی نہیں ہے بلکہ زوال آفتاب سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل اذان دینے سے اذان کامقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ زوا ل آفتاب کے بعد پہلی اذان دینے پر نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوسکتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے صرف یہی تو کہا ہے کہ اگر نماز جمعہ زوال آفتاب سے قبل ادا کرلی گئی تو اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے لیکن انہوں نے یہ تعلیم وترغیب نہیں دی کہ ہم زوال آفتاب سے قبل اذان اوّل کا اہتمام کرلیں۔ الحمد للہ ہمارے علماء کی جد وجہد سے حرمین میں جمعہ کی پہلی اذان زوال آفتاب کے بعد ہوتی ہے، دعا کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ عام مساجد میں بھی شروع ہوجائے تاکہ پہلی اذان بھی ایسے وقت میں دی جائے کہ اس میں دنیا کے کسی عالم کا کوئی اختلاف نہ ہو۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
نماز جمعہ کے وقت کی ابتداء ظہر کی طرح زوال آفتاب کے بعد سے
نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور متواتر احادیث کی روشنی میں جمہور مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: بے شک نماز اہل ایمان پر فرض ہے جس کا وقت مقرر ہے۔ (سورۃ النساء ۱۰۳)
نماز جمعہ دیگر نمازوں سے مختلف ہے کہ وہ وقت کے بعد پڑھی ہی نہیں جاسکتی کیونکہ دیگر فرض نمازیں وقت ختم ہونے پر بطور قضا پڑھی جاتی ہیں، جبکہ نماز جمعہ فوت ہونے پر نماز ظہر یعنی چار رکعت ادا کی جاتی ہیں۔ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ وقت‘ جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے۔ صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام نووی ؒ نے اپنی کتاب (المجموع ۴/۲۶۴) میں تحریر کیا ہے کہ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جمعہ کی قضا نہیں ہے، یعنی جس کا جمعہ فوت ہوگیا اسے نماز ظہر ادا کرنی ہوگی۔ ا سی طرح پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جس نے نماز جمعہ ظہر کے وقت میں ادا کی اس نے نماز جمعہ وقت پر ادا کیا جیساکہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر فقہاء نے اس مسئلہ پر اجماع امت ذکر کیا ہے۔ پوری امت مسلمہ متفق ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کرنی چاہئے کیونکہ پوری زندگی حضور اکرم ﷺ کا یہی معمول رہا ہے اور زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ ادا کرنے میں کسی کا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے۔ زوال آفتا ب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کی صورت میں جمہور محدثین وفقہاء وعلماء، نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ دوبارہ ادا کرنی ہوگی اور وقت ختم ہونے پر نماز ظہر کی قضا کرنی ہوگی۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور قول کے مطابق سعودی عرب کی عام مساجد میں جمعہ کی پہلی اذان تو زوال آفتاب سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے قبل ہوتی ہے لیکن جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کی قرآن وحدیث کی روشنی پر مبنی رائے کے مطابق خطبہ کی اذان زوال آفتاب کے بعد ہوتی ہے۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں پہلی اذان بھی جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کے قول کے مطابق زوال آفتاب کے بعد ہی ہوتی ہے۔ مگر کبھی کبھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض مساجد میں خطبہ والی اذان زوال آفتاب سے قبل ہی دے دی جاتی ہے، جس سے بعض حضرات کو تشویش ہوتی ہے کہ چند منٹ انتظار کرنے میں کونسی دشواری ہے، صرف چند منٹ کے انتظار پر کافی حضرات دوسری اذان سے قبل مسجد پہنچ کر جمعہ کی فضیلت حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔ حضور اکرم ﷺ کے اقوال کی روشنی میں جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ دوسری اذان شروع ہونے کے بعد مسجد پہنچنے والوں کی نماز جمعہ تو ادا ہوجاتی ہے لیکن انہیں جمعہ کی فضیلت کا کوئی بھی حصہ نہیں ملتا اور نہ ہی ان کا نام فرشتوں کے رجسٹر میں درج کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب کے علماء نے احتیاط پر مبنی جمہور علماء کی رائے کا احترام کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ عام مساجد میں خطبہ کی اذان زوال آفتاب سے قبل نہ دی جائے اور حرمین شریفین میں پہلی اذان بھی زوال آفتاب کے بعد دی جائے۔
موضوع کی اہمیت کے مدنظر یہ مضمون تحریر کر رہا ہوں، اللہ تعالیٰ صحیح بات لکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
نماز جمعہ کے اول وقت کے متعلق فقہاء وعلماء کی دو رائیں ہیں۔ دونوں رائے ذکر کرنے سے قبل اختلاف کی اصل وجہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ بعض روایات نماز جمعہ جلدی پڑھنے کے متعلق وارد ہوئی ہیں، حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے سمجھا کہ نماز جمعہ زوال آفتاب سے قبل پڑھی جاسکتی ہے، حالانکہ کسی ایک صحیح حدیث میں بھی وضاحت کے ساتھ مذکور نہیں ہے کہ آپ ﷺ زوال آفتاب سے قبل جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ جمہور محدثین وفقہاء وعلماء، نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ان احادیث میں صرف نماز جمعہ کے لئے جلدی جانے کی تاکید کی گئی ہے نہ کہ زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کی۔
جمہور محدثین وفقہاء وعلماء، نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہم اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری روایت کے مطابق نماز جمعہ کا وقت ظہر کی طرح زوال آفتاب کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ کا مشہور قول یہ ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی پڑھنی چاہئے لیکن اگر زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ ادا کرلی گئی تو زوال آفتاب کے بعد اعادہ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جمعہ بھی عید ہے، اس لئے چاشت کے وقت پڑھنے کی گنجائش ہے۔ مشہور حنبلی عالم علامہ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں کہ صحیح مذہب کے مطابق جمعہ کی نماز زوال آفتاب کے بعد ہی واجب ہوتی ہے اگرچہ پہلے ادا کرنے کی گنجائش ہے۔
جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کے قول کے بعض دلائل: جمہور علماء کے متعدد دلائل ہیں، لیکن اختصار کے مدنظر صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد صرف دو احادیث ذکر کررہا ہوں:
۱) حدیث کی سب سے مستند کتاب لکھنے والے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ نے اپنی مشہور ومعروف کتاب (صحیح بخاری) میں کتاب الجمعہ کے تحت ایک باب (Chapter) کا نام اس طرح تحریر کیا ہے: "جمعہ کا وقت زوال آفتاب کے بعد، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہم اجمعین سے اسی طرح منقول ہے" غرضیکہ صحابۂ کرام کے ساتھ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ کا بھی موقف واضح ہے کہ نماز جمعہ کا وقت زوال آفتاب کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اسی باب میں مذکورہ حدیث ذکر کرتے ہیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ جمعہ پڑھا کرتے تھے جس وقت سورج ڈھلتا یعنی زوال کے بعد جمعہ پڑھتے تھے۔ صحیح بخاری کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ زوال آفتاب کے بعد ہی نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ فتح الباری
یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ کے علاوہ دیگر محدثین مثلاً امام ترمذی ؒ نے بھی اپنی کتاب "ترمذی" میں ذکر کی ہے۔ خود حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ نے اپنی کتاب "مسند احمد" میں بھی ذکر کی ہے۔
۲) حدیث کی دوسری مستند کتاب (صحیح مسلم) میں امام مسلم رحمۃاللہ علیہ نے کتاب الجمعہ کے تحت ایک باب (Chapter)کا نام اس طرح تحریر کیا ہے: "جمعہ کی نماز زوال آفتاب کے بعد" اور اس باب میں یہ حدیث ذکر فرمائی ہے: حضرت ایاس بن سلمہ بن اکوع اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جب سورج زائل ہوجاتا تھا جمعہ کی نماز پڑھتے تھے، پھر سایہ تلاش کرتے ہوئے لوٹتے تھے۔ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ عنہ نے بھی صحیح بخاری میں ذکر فرمائی ہے۔
نوٹ: صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد ان دونوں احادیث میں وضاحت کے ساتھ مذکور ہے کہ آپ ﷺ نمازجمعہ زوال آفتاب کے بعد پڑھا کرتے تھے۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ کے قول کے دلائل:
۱) حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں ہم لوگ غداء (دوپہر کا کھانا) اور قیلولہ جمعہ کے بعد کیا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) وجہ استدلال یہ ہے کہ ڈکشنری میں غداء (دوپہر کا کھانا) کے معنی ہیں وہ کھانا جو زوال آفتاب سے پہلے کھایا جائے۔ جب غداء نماز جمعہ کے بعد کھایا جائے گا تو نماز جمعہ زوال آفتاب سے پہلے ہونی چاہئے۔ لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ صحابہ کرام جمعہ کے روز بھی زوال آفتاب سے پہلے کھایا کرتے تھے، بلکہ وہ کھانا جو زوال آفتاب کے بعد کھایا جاتا ہے اسے عرفاً غداء ہی کہتے ہیں جیسا کہ موجودہ زمانہ میں۔ مثلاً حضور اکرم ﷺ نے سحری کے متعلق ارشاد فرمایا : ہَلمُّوا الی الغداء المبارک لیکن دنیا کا کوئی عالم بھی یہ نہیں کہتا کہ سحری زوال سے قبل کھائی جاسکتی ہے۔
۲) حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، پھر لوٹ کر اپنے پانی لانے والے اونٹوں کو آرام دیتے تھے۔ راوی حضرت حسن بیان کرتے ہیں کہ میں نے راوی حضرت جعفر سے کہا کہ اس وقت کیا وقت ہوتا تھا۔ فرمایا آفتاب ڈھلنے کا وقت۔ (صحیح مسلم) اس حدیث سے نماز جمعہ کا زوال آفتاب سے پہلے پڑھنے کو ثابت کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ جمعہ کے دن زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد بھی پانی لانے والے اونٹوں کو آرام دلایا جاسکتا ہے جیساکہ دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ نیز یہ صحابی رسول حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قول نہیں بلکہ راوی کا ہے، غرضیکہ اس مبہم عبارت سے نماز جمعہ کا وقت زوال آفتاب سے قبل شروع ہونا، ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
۳) حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا استدلال حضرت عبداللہ بن سیدان سلمی رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہے جو سنن دار قطنی اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے جس میں خلفاء راشدین کا زوال سے پہلے جمعہ پڑھنا مروی ہے۔ مگر اس حدیث کی سند میں ضعف کی وجہ سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے جیساکہ صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام نووی رحمۃ اللہ نے تحریر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے نماز جمعہ سے متعلق آثار ضعیف ہیں، اور اگر صحیح مان بھی لیا جائے تو حضور اکرم ﷺ کی واضح احادیث کی بناء پر اس مذکورہ حدیث میں تاویل اور توجیہ ہی کی جائے گی۔
۴) حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے بعض ان احادیث سے بھی استدلال کیا ہے جن میں نماز جمعہ کے لئے سویرے جانے کی ترغیب وارد ہوئی ہے، لیکن ان احادیث سے زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کو ثابت کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ ان احادیث سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ نماز جمعہ کے لئے سویرے حتی کہ چاشت کے وقت مسجد چلے جانا چاہئے ، مگر ان احادیث میں اس طرح کی کوئی وضاحت وارد نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز زوال آفتاب سے قبل ادا کی جاسکتی ہے۔
خلاصۂ کلام: پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جمعہ کے دن ظہر کی جگہ نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے اور اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے جماعت کے ساتھ نماز جمعہ ادا نہیں کرسکا تو اسے نماز ظہر ہی ادا کرنی ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص نماز جمعہ وقت پر نہیں پڑھ سکا تو قضا ظہر کی نماز (یعنی چار رکعت) کی کرنی ہوگی۔ اسی طرح جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کا اتفاق ہے کہ نماز جمعہ کا آخری وقت‘ ظہر کے آخری وقت کے مانند ہے، یعنی عصر کا وقت ہونے پر نماز جمعہ کا وقت ختم ہوجائے گا۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی کہا ہے کہ نماز جمعہ کا آخری وقت‘ نماز ظہر کے آخری وقت کی طرح ہے۔ جب جمعہ کا آخری وقت ظہر کے آخری وقت کی طرح ہے تو نماز جمعہ کا اول وقت بھی ظہر کے اول وقت کی طرح ہونا چاہئے۔
اس پر بھی پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کرنی چاہئے ، البتہ صرف امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اگر زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ ادا کرلی گئی تو نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ جمہور محدثین وفقہاء وعلماء نے کہا کہ زوال آفتاب سے قبل جمعہ پڑھنے پر نماز جمعہ ادا ہی نہیں ہوگی۔ لہذا احتیاط کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کی جائے، بلکہ پہلی اذان بھی زوال آفتاب کے بعد دی جائے تو اختلاف سے بچنے کے لئے بہتر ہے۔
جمہور محدثین وفقہاء وعلماء نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہم اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری روایت کے دلائل مفہوم اور سند کے اعتبار سے زیادہ قوی ہیں۔
مذکورہ اسباب کی وجہ سے جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کا قول ہی زیادہ صحیح ہے:
۱) جمہور علماء کے دلائل صحیح احادیث سے ثابت ہونے کے ساتھ اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہیں، جبکہ دوسری رائے کے بعض دلائل اگرچہ صحیح احادیث پر مشتمل ہیں لیکن وہ اپنے مفہوم میں واضح نہیں ہیں، جبکہ دیگر روایات وآثار مفہوم میں تو واضح ہیں لیکن ان کی سند میں ضعف ہے۔
۲) جمہور محدثین وفقہاء وعلماء حتی کہ چاروں ائمہ میں سے تینوں ائمہ، امام بخاری، امام مسلم ، امام ترمذی، امام نووی رحمۃ اللہ علیہم اور چودہ سو سال سے جید علماء کی یہی رائے ہے کہ نماز جمعہ کا وقت زوال آفتاب کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔
۳) جمہور علماء کا قول اختیار کرنے میں احتیاط بھی ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد پڑھنے پر دنیا کے کسی بھی عالم کا کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی پر جمہور فقہاء وعلماء کا فیصلہ ہے کہ نماز جمعہ ادا نہیں ہوگی اور بعد میں نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔
۴) اگرچہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کی گنجائش رکھی ہے مگر انہوں نے یہی کہا ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کرنا بہتر ہے، چنانچہ سعودی علماء (جو اختلافی مسائل میں حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں) نے یہی کہا ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ادا کی جائے۔
۵) امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃا للہ کی شہادت کے مطابق حضرت عمر، حضرت علی، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہم اجمعین کا یہی موقف ہے کہ زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ کا وقت ہوتا ہے۔ حضرت امام بخاری ؒ اور حضرت امام مسلم ؒ نے اپنی کتابوں (صحیح بخاری وصحیح مسلم) میں باب (Chapter)کا نام رکھ کر ہی اپنا موقف واضح کردیا کہ زوال آفتاب کے بعد ہی نماز جمعہ کا وقت شروع ہوتا ہے۔
۶) نماز جمعہ ظہر کی نماز کا بدل ہے اور آخری وقت کے متعلق حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا موقف جمہور علماء کے مطابق ہے، کہ عصر کے وقت پر جمعہ کا وقت ختم ہوجاتا ہے، لہذ نماز جمعہ کا اول وقت بھی نماز ظہر کی طرح زوال آفتاب کے بعد سے ہی ہونا چاہئے۔
۷) جمعہ کے وقت کی ابتداء زوال آفتاب سے قبل ماننے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس وقت یا لمحہ سے نماز جمعہ کے وقت کی ابتداء مانی جائے؟ احادیث میں کوئی وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے حنبلی مکتب فکر کے علماء میں بھی وقت کی ابتداء کے متعلق اختلاف ہے، چنانچہ بعض علماء نے تحریر کیا ہے کہ نماز عید کی طرح سورج کے روشن ہونے سے وقت شروع ہوجاتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ سعودی عرب میں عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز اشراق کا وقت شروع ہوتے ہی فوراً ادا کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے گرمیوں میں ساڑھے پانچ بجے عید کی نماز ادا ہوجاتی ہے۔ غرضیکہ زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ پڑھنے کا کوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا ہے۔
۸) زوال آفتاب کے بعد اذان اور نماز جمعہ کی ادائیگی کی صورت میں نماز پڑھنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اور یہ شریعت میں مطلوب ہے۔
۹) خواتین اور معذور حضرات جن کو اپنے گھر نماز ظہر ادا کرنی ہوتی ہے، زوال آفتاب کے بعد پہلی اذان دینے پر انہیں نماز ظہر کی ادائیگی کا وقت معلوم ہوجائے گا۔ لیکن زوال آفتاب سے ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ قبل اذان دینے سے ان حضرات کے لئے نماز کے وقت شروع ہونے کا کوئی اعلان نہیں ہوگا۔
حنبلی مکتب فکر کے مشہور عالم دین علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی مایہ ناز کتاب (المغنی ۳/۱۵۹) میں تحریر کرتے ہیں کہ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جمعہ زوال آفتاب کے بعد قائم کرنا چاہئے کیونکہ نبی اکرم ﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے، حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرم ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز زوال آفتاب کے بعد پڑھتے تھے اور پھر نماز پڑھ کر سایہ تلاش کرتے ہوئے لوٹتے تھے ۔ (بخاری ومسلم) اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ جمعہ پڑھا کرتے تھے جس وقت سورج ڈھلتا۔ (صحیح بخاری) اس میں کوئی اختلاف بھی نہیں ہے کیونکہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ زوال آفتاب کے بعد یقیناًجمعہ کا وقت ہے لیکن زوال آفتاب سے قبل کے متعلق اختلاف ہے۔
اب جبکہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ہونی چاہئے تاکہ نماز جیسی اہم عبادت کی ادائیگی میں کوئی شک وشبہ نہ رہے، تو بعض مساجد میں خطبہ کی اذان کا زوال آفتاب سے قبل دینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ بلکہ اگر پہلی اذان بھی زوال آفتاب کے بعد دی جائے تواس میں زیادہ احتیاط ہے نیز دیگر تمام ائمہ کی رائے کا احترام بھی ہے اور کسی طرح کا کوئی نقصان بھی نہیں ہے بلکہ زوال آفتاب سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل اذان دینے سے اذان کامقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ زوا ل آفتاب کے بعد پہلی اذان دینے پر نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوسکتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے صرف یہی تو کہا ہے کہ اگر نماز جمعہ زوال آفتاب سے قبل ادا کرلی گئی تو اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے لیکن انہوں نے یہ تعلیم وترغیب نہیں دی کہ ہم زوال آفتاب سے قبل اذان اوّل کا اہتمام کرلیں۔ الحمد للہ ہمارے علماء کی جد وجہد سے حرمین میں جمعہ کی پہلی اذان زوال آفتاب کے بعد ہوتی ہے، دعا کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ عام مساجد میں بھی شروع ہوجائے تاکہ پہلی اذان بھی ایسے وقت میں دی جائے کہ اس میں دنیا کے کسی عالم کا کوئی اختلاف نہ ہو۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی
No comments:
Post a Comment