Wednesday 25 July 2018

کیا نیت کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوتی؟

کیا نیت کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوتی؟
نیت کے بغیر نیت کے نماز صحیح نہیں ہوتی۔
حوالہ
عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ (بخاري بدْءِ الْوحْيِ: ۱) وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (البينة:۴)
مذکورہ حدیث کی وجہ سے نماز کے صحیح ہونے کی ایک شرط نیت قراردی گئی، اس لیے کہ اعمال کا دارومدار اسی کے اوپر ہے۔ اگر فرض نماز ہو تو اس کی تعیین ضروری ہے جیسے ظہر یا عصر کی نماز، اسی طرح اگر نماز واجب ہو تو اس کی تعیین ضروری ہے جیسے وتر یا عیدین کی نماز، ہاں! اگر نماز نفل ہو تو نیت کی تعیین شرط نہیں ہے، بلکہ مطلق نماز کی نیت کافی ہے۔
حوالہ
عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ (بخاري بدْءِ الْوحْيِ: ۱) وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (البينة:۴)
مذکورہ روایت کی وجہ سے نیت کرنا توضروری ہے ہی چونکہ فرض نماز کے جواوقات ہیں وہ ان کے لیے اس اعتبار سے ظرف ہیں کہ ہروقت میں وقتیہ نماز کے علاوہ اور بھی بہت ساری نمازیں پڑھنے کی گنجائش ہوتی ہے، اس لیے جب تک تعیین نیت نہ ہوگی اس وقت تک وقتیہ نماز کا اپنے ذمہ سے نکلنا دشوار ہے، برخلاف نفل کے، اس میں ذمہ میں کوئی وجوب نہیں ہوتا اس لیے صرف نماز کی نیت کافی ہوگی؛ اسی وجہ سے فقہائے کرام نے فرائض وواجبات میں تعیین نیت (آج کی ظہر، یا آج کی عصر وغیرہ) کوضروری قرار دیا۔
الأصل عندنا أن المنوي ؟ إما أن يكون من العبادات أو لا فإن كان عبادة فإن كان وقتها ظرفا للمؤدى بمعنى أنه يسعه وغيره فلا بد من التعيين كالصلاة كأن ينوي الظهر فإن قرنه باليوم كظهر اليوم صح وإن خرج الوقت أو بالوقت (الاشباه والنظائر تعيين المنوي وعدمه: ۴۳/۱)
نیت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان کسی نماز کے منافی عمل سے فصل نہ ، مثلا نیت کرنے کے بعد کھانا نہ کھائے، پانی نہ پئے، یا کوئی ایسا عمل نہ کرے جو عمل نماز کے خلاف نہ ہو، اور اگر کر لیا تو پھر نیت کرکے تکبیر تحریمہ کہے ۔۔ کوئی بھی عبادت بغیر نیت کے نہیں ہوتی، مثلا دل میں نماز پڑھنے کی نیت نہیں ہے اور نماز کے تمام اعمال کر لے تو نماز نہیں ہوگی، اس لئے نماز ادا ہونے کے لئے نیت کرنا فرض ہے۔ اور صرف دل میں ارادہ کرلینے کا نام نیت ہے۔
حوالہ
السابع: في وقتها: الأصل أن وقتها أول العبادات ولكن الأول حقيقي وحكمي فقالوا في الصلاة: لو نوى قبل الشروع؟ فعند محمد لو نوى عند الوضوء أنه يصلي الظهر أو العصر مع الإمام ولم يشتغل بعد النية بما ليس من جنس الصلاة إلا أنه لما انتهى إلى مكان الصلاة لم تحضر النية؟ جازت صلاته بتلك النية وهكذا روي عن أبي حنيفة و أبي يوسف كذا في الخلاصة (الاشباه والنظائر وقت النية: ۵۸/۱)
نیت کے لئے زبان سے الفاظ کہنے ضروری نہیں؛ بلکہ دل کا ارادہ کافی ہے؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص نماز کے ارادہ سے گھر سے چلا اور فوراً آکر نماز میں شریک ہوگیا، الگ سے نیت نہیں کی تو یہ ارادہ ہی نیت کے لئے کافی ہے، اور اس کی نماز صحیح ہے؛ لیکن اگر پہلے سے ارادہ کچھ نہیں تھا، بغیر کسی نیت کے تکبیر تحریمہ کہہ لی، اور اب نماز کی نیت کررہا ہے تو یہ نیت معتبر نہیں، اس طرح نماز درست نہ ہوگی۔ اور بہرحال افضل یہی ہے کہ تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے باقاعدہ نیت کا استحضار کیا جائے.
فالحاصل جواز الصلوٰۃ عندنا بنیۃ متقدمۃ إذا لم یفصل بینہا وبین التکبیر عمل لیس للصلوٰۃ۔ (حلبي کبیر ۲۵۵)
أجمع أصحابنا أنَّ الأفضل أن تکون مقارنۃً للشروع ولا یکون شارعاً بنیۃ متأخرۃ۔ (الأشباہ والنظائر قدیم ۱؍۸۱، جدید ۱۵۰ زکریا)
وجاز تقدیمہا علی التکبیرۃ ما یوجد بینہما قاطعہا من عمل غیر لائق للصلاۃ، وفي الشامي: وأما اشتراطہم عدم الفاصل بین النیۃ والتکبیرۃ، فالمراد بہ ما کان من أعمال الدنیا کما في التاتارخانیۃ، وفي البحر: المراد بہ الفاصل الأجنبي۔ (درمختار مع الشامي ۲؍۹۳ زکریا)
....
نمــــاز کـی نــیـت کا وقت 
کیا ہے؟
الجـــواب: نیت کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ وہ عبادت سے پہلے بھی ہو اور اس سے متصل بھی، نماز سے متصل ہونے کی فقہاء نے دوصورتیں کی ہیں، ایک یہ کہ حقیقی طور پر متصل ہو، اور اس کی صورت یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے نیت کرے، یہ صورت بہتر ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ حقیقتاً تو نیت عبادت سے متصل نہ ہو، لیکن حکما متصل ہو، حکما متصل ہونے کامطلب یہ ہے کہ نیت اور نماز کے درمیان کسی ایسے کام میں نہ لگا ہو جو نماز سے گریز کو بتانا ہو، چناچہ وضوء اور تیمم کے وقت ہی نماز کی نیت کی ہو، پھر نماز پڑھنے گیا اور درمیان میں کسی ایسے کام میں مشغول نہیں ہوا تو اس کی نیت ابھی باقی ہے، اگرایک جگہ نیت کرکے نماز کی جگہ جانے کے بعد بھی وہ نیت باقی رہتی ہے، تو چلتے ہوئے جو نیت کی جائے ظاہر ہے وہ بدرجۂ اولی کافی ہوگی، البتہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ نیت کا تعلق قلب سے ہے، نیت کے لئے ایسا قلبی استحضار ضروری ہے کہ اگر نماز شروع کرتے وقت اس سے پوچھا جائے کہ تم کونسی نماز پڑھ رہے ہو، تو وہ ادنی غور و تامل کے بغیر بتا سکے کہ میں فلان نماز پڑھ رہا ہوں، یہ تمام تفصیلات علامہ ابن نجیم مصری ؒ نے اپنی مشہور کتاب ’الأشباہ والنظائر‘ میں نیت کی بحث میں لکھی ہے۔ (۱)
جہاں تک نیت کے بعد گفتگو کی بات ہے، تو اگر نیت کے بعد نماز کی طرف جاتے ہوئے یا نماز کا انتظار کرتے ہوئے کچھ گفتگو کرلی جائے، تو دوبارہ نیت ضروری نہیں، اور اگر نیت کے بعد طویل گفتگو یا مباحثہ میں لگ گیا ہو جو بظاہر نمازسے اعراض اور گریز کو ظاہر کرتا ہو، تو دوبارہ نیت کرنی ہوگی۔
مقتدی کے لیے بہتر ہے کہ جس وقت امام نماز شروع کرے اس وقت اقتداء کی نیت کرے ، تاہم امام کے نماز شروع کرنے سے پہلے اور نماز کے لئے کھڑے ہونے کے بعدبھی اقتداء کی نیت کرلے تو کافی ہے:
’’والأفضل أن ینوی الإقتداء عند افتتاح الإمام فإن نوی حین وقف عالما بأنہ لم یشرع جاز‘‘(۲)
(۱) دیکھئے: الأشباہ والنظائر مع حاشیۃ الرافعی : ص : ۲۱، ط: دہلی۔
(۲) حوالہ سابق

واللہ اعلم
کتاب الفتاوی٢
.......
سوال # 65485
فرض نماز کے لیے امام کس طرح نیت کرے اور مقتدی کی نیت کس طرح ہو؟دونوں کا طریقة کیا ہے؟ 

Published on: May 21, 2016
جواب # 65485
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 778-776/N=8/1437
(۱) کسی بھی نماز میں امام کے لیے نیت کا کوئی خاص طریقہ نہیں ہے، وہ امامت والی نماز کی نیت عام نمازوں کی طرح ہی کرے گا، البتہ اگر امامت والی نماز میں امامت کی نیت بھی شامل کرلے تو بہتر ہے، اس صورت میں وہ جماعت فضیلت اور ثواب کا بھی حق دار ہوگا اور اگر اس نے امامت کی نیت نہیں کی تو جماعت کی فضیلت اور ثواب سے تو محرومی ہوگی، البتہ اس کی اور تمام مرد مقتدیوں کی نماز ہوجائے گی، والإمام ینوي صللاتہ فقط ولا یشترط لصحة الاقتداء نیة إمامة المقتدي بل لنیل الثواب عند اقتداء أحد بہ إلخ (الدر المختار مع رد المحتار: کتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ۲/ ۱۰۳، ۱۰۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”بل لنیل الثواب“: ․․․ أي: بل یشترط نیة إمامة المقتدی لنیل الإمام ثواب الجماعة․․․ فقولہ: ”لا قبلہ“: نفي لاشتراط نیل الثواب بوجود النیة قبلہ لا نفي للجواز، ولا یخفی أن الاشتراط لا ینافي الجواز (رد المحتار)
(۲) اگر کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھنا چاہے تو اس کے لیے امام کی اقتدا (متابعت وپیروی) کی نیت ضروری ہے، اس کے بغیر اس کی اقتدا درست نہ ہوگی، اور جب اقتدا درست نہ ہوگی تو نماز بھی نہ ہوگی، وینوی المقتدي المتابعة (الدر المختار، کتاب الصلاة، باب شروط الصلاة ۲: ۹۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)
(۳) اللہ تعالیٰ آپ کو جملہ مقاصد حسنہ میں کامیابی عنایت فرمائیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

................
جماعت میں شامل ہونے والے مقتدی کے لئے نیت کیا ہے؟
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
جماعت میں شامل ہونے والے مقتدی کے لئے دو باتوں کی نیت ضروری ہے: اول یہ کہ متعین کرے کہ کون سی نماز پڑھ رہا ہے؟ دوسرے یہ نیت کرے کہ میں اس محراب میں کھڑے ہوئے امام کی اقتداء میں نماز پڑھ رہا ہوں۔
وأما المقتدی فینوی الاقتداء أیضاً ولایکفیہ فی صحۃ الاقتداء نیۃ الفرض والتعیین أی تعیین الفرض؛ بل یحتاج فی صحتہ إلی نیتین نیۃ الصلوٰۃ مطلقاً إن تطوعاً، ومعینۃً إن غیرہ ونیۃ المتابعۃ للإمام۔ (شرح المنیۃ ۲۵۱)
وذکر شمس الأئمۃ السرخسي: إن نوی صلاۃ الإمام جاز عن نیۃ ذاتیۃ الصلاۃ، وعن نیۃ الاقتداء … ولو نوی الاقتداء بالإمام، ولکن لم ینو صلاۃ الإمام، إنما نوی الظہر، فإذا ہی جمعۃ لا یجوز لأن اختلاف الفرضین یمنع الاقتداء۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۴۱ رقم: ۱۶۴۸ زکریا)
وإذا أراد المقتدي بتیسیر الأمر علی نفسہ، ینبغي أن ینوي صلاۃ الإمام والاقتداء بہ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۴۲ رقم: ۱۶۴۹ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۶۶، شامي مع الدر المختار ۲؍۹۷ زکریا)
ولایصح الاقتداء بإمام إلاَّ بنیۃ۔ (الأشباہ والنظائر قدیم ۱؍۳۴، جدید ۷۲ زکریا) 

فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۱؍۲؍۱۴۳۶ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ

نماز کا عملی طریقہ - Practical Method of Prayer


No comments:

Post a Comment