اگر ناخن کاٹے ہوئے چالیس دن ہوجائیں تو کیا نماز قبول نہیں ہوتی؟
حضرت مفتی صاحب ایک مسئلہ زیرِ بحث ہے.
سوال یہ تھا کہ چالیس دن سے زیادہ ناخن جو رکھتا ہے یا رکھتی ہے اس کی نماز کو مفتی طارق مسعود صاحب نے کہا کہ وہ قبول نہیں ہوتی.
بعض نے اشکال کیا ہے مفتی صاحب کی بات نادرست ہے.
آپ سے درخواست ہے کہ اس پر روشنی ڈالیں.
--------------------------------------------
الجواب وباللہ التوفيق:
شوکانی اور ابن العربی وغیرہ کو چھوڑکر ائمہ اربعہ کے یہاں مرد و عورت دونوں صنفوں کے لئے ہاتھ پاؤں کے بڑھے ہوئے ناخن تراشنا مستحب و پسندیدہ ہے
ہمارے یہاں وقت نہائی کی تحدید بھی کردی گئی ہے جبکہ بعض ائمہ تحدید وقت کے قائل نہیں ہیں وہ اشخاص وافراد کی عادات وطبائع پہ محول فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس کا ناخن جتنا جلد بڑھ جائے اسے تراش لینا مسنون ہے، وقت وزمانہ کی کوئی تحدید نہیں ہے.
ان کا خیال ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ چالیس دن کی جو تحدید نقل فرماتے ہیں وہ تشریع وتوقیت نہیں بلکہ اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس بابت عمل نقل فرماتے ہیں۔
--------------------------------------------
الجواب وباللہ التوفيق:
شوکانی اور ابن العربی وغیرہ کو چھوڑکر ائمہ اربعہ کے یہاں مرد و عورت دونوں صنفوں کے لئے ہاتھ پاؤں کے بڑھے ہوئے ناخن تراشنا مستحب و پسندیدہ ہے
ہمارے یہاں وقت نہائی کی تحدید بھی کردی گئی ہے جبکہ بعض ائمہ تحدید وقت کے قائل نہیں ہیں وہ اشخاص وافراد کی عادات وطبائع پہ محول فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس کا ناخن جتنا جلد بڑھ جائے اسے تراش لینا مسنون ہے، وقت وزمانہ کی کوئی تحدید نہیں ہے.
ان کا خیال ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ چالیس دن کی جو تحدید نقل فرماتے ہیں وہ تشریع وتوقیت نہیں بلکہ اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس بابت عمل نقل فرماتے ہیں۔
جبکہ ہمارے امام صاحب کا خیال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مونچھیں تراشنے، ناخن کاٹنے، زیرِ ناف بالوں اور بغل کے بالوں کی صفائی میں ہمارے لئے آخری وقت مقرر فرمادیا ہے، لہٰذا انہیں چالیس دن سے زیادہ نہیں چھوڑا جاسکتا۔
”عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ“ دس چیزیں فطرت (کی خصلتوں) میں سے ہیں۔ پھر اس کی تفصیل بیان فرمائی:
(1) مونچھیں تراشنا۔
(2) ڈاڑھی بڑھانا۔
(3) مسواک کرنا۔
(4) ناک میں پانی ڈالنا۔
(5) ناخن کاٹنا۔
(6) انگلیوں کے جوڑوں کی پشت کو دھونا۔
(7) بغل کے بال صاف کرنا۔
(8) زیرِ ناف بال مونڈنا
(9) پانی سے استنجاء کرنا
(10) کلی کرنا۔ (ابوداؤد:53)
صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ کی روایت ہے:
عن أنس بن مالک قال: قال أنس: ’’ وُقّت لنا في قصّ الشارب وتقلیم الأظفار ونتف الإبط ، وحلق العانۃ أن لا نترک أکثر من أربعین لیلۃ ‘‘ ۔
(۱/۱۲۹، کتاب الطہارۃ، باب خصال الفطرۃ ، رقم الحدیث: ۲۵۸)
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مونچھیں تراشنے، ناخن کاٹنے، زیرِ ناف بالوں اور بغل کے بالوں کی صفائی میں ہمارے لئے وقت مقرر فرمایا ہے، لہٰذا انہیں چالیس دن سے زیادہ نہیں چھوڑا جاسکتا۔ (ترمذی:2759)
ایک روایت میں اس کی بڑی سخت وعید بیان کی گئی ہے، اِرشاد ہے:
”مَنْ لَمْ يَحْلِقْ عَانَتَهُ، وَيُقَلِّمْ أَظْفَارَهُ، وَيَجُزَّ شَارِبَهُ فَلَيْسَ مِنَّا“
”عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ“ دس چیزیں فطرت (کی خصلتوں) میں سے ہیں۔ پھر اس کی تفصیل بیان فرمائی:
(1) مونچھیں تراشنا۔
(2) ڈاڑھی بڑھانا۔
(3) مسواک کرنا۔
(4) ناک میں پانی ڈالنا۔
(5) ناخن کاٹنا۔
(6) انگلیوں کے جوڑوں کی پشت کو دھونا۔
(7) بغل کے بال صاف کرنا۔
(8) زیرِ ناف بال مونڈنا
(9) پانی سے استنجاء کرنا
(10) کلی کرنا۔ (ابوداؤد:53)
صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ کی روایت ہے:
عن أنس بن مالک قال: قال أنس: ’’ وُقّت لنا في قصّ الشارب وتقلیم الأظفار ونتف الإبط ، وحلق العانۃ أن لا نترک أکثر من أربعین لیلۃ ‘‘ ۔
(۱/۱۲۹، کتاب الطہارۃ، باب خصال الفطرۃ ، رقم الحدیث: ۲۵۸)
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مونچھیں تراشنے، ناخن کاٹنے، زیرِ ناف بالوں اور بغل کے بالوں کی صفائی میں ہمارے لئے وقت مقرر فرمایا ہے، لہٰذا انہیں چالیس دن سے زیادہ نہیں چھوڑا جاسکتا۔ (ترمذی:2759)
ایک روایت میں اس کی بڑی سخت وعید بیان کی گئی ہے، اِرشاد ہے:
”مَنْ لَمْ يَحْلِقْ عَانَتَهُ، وَيُقَلِّمْ أَظْفَارَهُ، وَيَجُزَّ شَارِبَهُ فَلَيْسَ مِنَّا“
جو زیرِ ناف بالوں کو صاف نہ کرے، ناخن نہ کاٹےاور مونچھیں کم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ (مسند احمد 22969)
ان روایات کے مد نظر ادب یہ ہے کہ ہفتہ میں ایک مرتبہ موئے زیرِ ناف، موئے بغل، مونچھیں، ناخن وغیرہ دور کرکے نہا دھوکر صاف ستھرا ہونا افضل ہے۔ سب سے بہتر جمعہ کا دن ہے کہ قبل نمازِ جمعہ ان سے فراغت کرکے نماز کو جائے۔ ہر ہفتہ نہ ہو تو پندرہویں دن سہی، وہ بھی نہ ہوسکے تو آخری مدت یہ ہے کہ چالیسویں دن کاٹ لے، البتہ چالیس دن سے زیادہ تاخیر کرنا جائز نہیں۔ یعنی اکتالسویں دن کاٹنا باعث گناہ ہے اور ناجائز ہے
في ’’تنویر الأبصار مع الدر والرد‘‘ : ویستحب قلم أظافیرہ یوم الجمعۃ ۔۔۔۔ والأفضل یوم الجمعۃ، وجاز في کل خمسۃ عشر ، وکرہ ترکہ وراء الأربعین ۔ تنویر مع الدر ۔ قال الشامي : قولہ : (وکرہ ترکہ) أي تحریماً لقول المجتبی ، ولا عذر فیما وراء الأربعین ویستحق الوعید ۔
(۹/۴۹۵ - ۴۹۷ ، کتاب الحظر والإباحۃ ، فصل في البیع ، ط : دار الکتاب دیوبند)
وفي ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : الأفضل أن یقلم أظفارہ ویحفی شاربہ ویحلق عانتہ وینظف بدنہ بالاغتسال في کل أسبوع مرۃ ، فإن لم یفعل ففي کل خمسۃ عشر یومًا ، ولا یعذر في ترکہ وراء الأربعین ، فالأسبوع ہو الأفضل ، والخمسۃ عشر الأوسط ، والأربعون الأبعد ، ولا عذر فیما وراء الأربعین ویستحق الوعید ۔ کذا في القنیۃ ۔
(۵/۳۵۷ ، ۳۵۸ ، کتاب الکراہیۃ ، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وقلم الأظفار الخ، کذا
في مرقاۃ المفاتیح : ۸/۲۷۴ ، ۲۷۵ ، کتاب اللباس ، باب الترجل)
في ’’تنویر الأبصار مع الدر والرد‘‘ : ویستحب قلم أظافیرہ یوم الجمعۃ ۔۔۔۔ والأفضل یوم الجمعۃ، وجاز في کل خمسۃ عشر ، وکرہ ترکہ وراء الأربعین ۔ تنویر مع الدر ۔ قال الشامي : قولہ : (وکرہ ترکہ) أي تحریماً لقول المجتبی ، ولا عذر فیما وراء الأربعین ویستحق الوعید ۔
(۹/۴۹۵ - ۴۹۷ ، کتاب الحظر والإباحۃ ، فصل في البیع ، ط : دار الکتاب دیوبند)
وفي ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : الأفضل أن یقلم أظفارہ ویحفی شاربہ ویحلق عانتہ وینظف بدنہ بالاغتسال في کل أسبوع مرۃ ، فإن لم یفعل ففي کل خمسۃ عشر یومًا ، ولا یعذر في ترکہ وراء الأربعین ، فالأسبوع ہو الأفضل ، والخمسۃ عشر الأوسط ، والأربعون الأبعد ، ولا عذر فیما وراء الأربعین ویستحق الوعید ۔ کذا في القنیۃ ۔
(۵/۳۵۷ ، ۳۵۸ ، کتاب الکراہیۃ ، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وقلم الأظفار الخ، کذا
في مرقاۃ المفاتیح : ۸/۲۷۴ ، ۲۷۵ ، کتاب اللباس ، باب الترجل)
سامنے والے شرمگاہ (قید احترازی ہے) کے ارد گرد اگنے والے بالوں کی (عانہ) صفائی اسی طرح ہاتھ اور پائوں کے ناخن تراشنے کو چالیس دن سے زیادہ موخر کرنا مکروہ تحریمی یعنی ناجائز اور باعث وبال عمل ہے، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی چالیس دن سے بھی تاخیر کردے تو اگر وضوء صحیح ہوگیا تھا یعنی وضوء کے دوران نیچے اندر تک پانی پہنچ گیا ہو تو ہر چند کہ یہ عمل مکروہ ہے لیکن نماز صحیح ہوجائے گی
ناخن نہ کاٹنا مکروہ ہے
نماز مکروہ تحریمی نہیں ہے !کہ اس کی صحت وجواز کا انکار کردیا جائے! اس فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے
چالیس دن سے زیادہ موئے زیر ناف کی تاخیر پر مفتیان دار العلوم دیوبند (فتاوی دارالعلوم دیوبند ج3 ص 167 ) نے صحت امامت ونماز کا فتوی دیا ہے تو ناخن نہ تراشنے میں بھی یہی حکم ہوگا
لیکن یہاں شرط یہ ہے کہ وضو درست ہوگیا ہو
ولابد من زوال مانع يمنع وصول الماء للجسد كشمع وعجين .طحطاوي على المراقي)
ناخن نہ کاٹنا مکروہ ہے
نماز مکروہ تحریمی نہیں ہے !کہ اس کی صحت وجواز کا انکار کردیا جائے! اس فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے
چالیس دن سے زیادہ موئے زیر ناف کی تاخیر پر مفتیان دار العلوم دیوبند (فتاوی دارالعلوم دیوبند ج3 ص 167 ) نے صحت امامت ونماز کا فتوی دیا ہے تو ناخن نہ تراشنے میں بھی یہی حکم ہوگا
لیکن یہاں شرط یہ ہے کہ وضو درست ہوگیا ہو
ولابد من زوال مانع يمنع وصول الماء للجسد كشمع وعجين .طحطاوي على المراقي)
طلوع وغروب ونصف النہار کی کراہت پہ اس مسئلہ کو قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ یہ تعلیل فی مقابلة النص ہونے کے باعث مردود ہے کیونکہ ان اوقات ثلاثہ میں نماز کی ممانعت حدیث سے صریحا ثابت ہے اور ان اوقات ثلاثہ کی ذوات میں خرابی ہے
وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ مُوسَى بْنِ عُلَيٍّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ يَقُولُ ثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ [ص: 569] أَوْ أَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ الشَّمْسُ وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ
صحيح مسلم
831
جبکہ قلم الاظفار میں اس طرح کی کوئی بات نہیں
ہاں تاخیر کا یہ عمل ضرور مکروہ ہے لیکن اس سے نماز کی صحت پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا بشرطیکہ اس کی شرائط وارکان مکمل کئے گئے ہوں
دوسرے کی چھری غصب کرنا یقینا ناجائز وحرام ہے
حکومتی بجلی چوری کرنا بالکل ناجائز وحرام ہے
لیکن اس چھری سے ذبح کردہ اپنا جانور اور چوری کی بجلی میں بنایا گیا آئیس کریم یقینا حلال وجائز ہے.
وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ مُوسَى بْنِ عُلَيٍّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ يَقُولُ ثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ [ص: 569] أَوْ أَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ الشَّمْسُ وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ
صحيح مسلم
831
جبکہ قلم الاظفار میں اس طرح کی کوئی بات نہیں
ہاں تاخیر کا یہ عمل ضرور مکروہ ہے لیکن اس سے نماز کی صحت پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا بشرطیکہ اس کی شرائط وارکان مکمل کئے گئے ہوں
دوسرے کی چھری غصب کرنا یقینا ناجائز وحرام ہے
حکومتی بجلی چوری کرنا بالکل ناجائز وحرام ہے
لیکن اس چھری سے ذبح کردہ اپنا جانور اور چوری کی بجلی میں بنایا گیا آئیس کریم یقینا حلال وجائز ہے.
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے /سیدپور۔ بہار
No comments:
Post a Comment