ہم بھی کسی سے کم نہیں!
افسوس ہے کہ مفتی اعجاز ارشد صاحب قاسمی ذہین ہونے کے باوجود ماحول بھانپ نہ سکے
دونوں طرف سے بد زبان خواتین کا انہیں نرغے میں یوں لے لینا کسی اوچھے ہتھکنڈے اور سوچی سمچی سازش ومنصوبے کا پیش خیمہ تھا
کیا اچھا ہوتا کہ وہ ٹاک شو چھوڑ کے فورا آجاتے
ایک تو انہوں نے اس نوع کے بھگوائی ڈبیٹ میں شرکت کرکے حماقت کی
دوسرے ماحول کی خطرناکی اور سنگینی کے بروقت ادراک سے وہ یکسر قاصر رہے
دور اندیشی اور حکمت وتدبر کا تقاضہ یہ تھا کہ تھپڑ کھاکے بھی ضبط کرلیتے
تاکہ بھگوائیوں کے سازشی بیل منڈھے نہ چڑھ پائے
جب آپ مبینہ طور پہ کسی ملی ادارے کے ترجمان ،قائد، ممبر یا رہنما کی حیثیت سے کسی ٹاک شو میں شرکت کرتے ہیں تو اب آپ کو شخصی انا کچل کر خود کو اس کوہ گراں سے بھی زیادہ ضبط و برداشت کا مظاہرہ کرنا پڑے گا جو ہر قسم کی زالہ باری سے بے نیاز اپنی جگہ پہ قائم رہتا ہے
ٹاک شوز میں عام حیثیت کا معمولی بندہ بھی ملکی وزراء تک کو طمانچے رسید کردیتا ہے ، لیکن سیاسی سیانے سب کچھ خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرکے سنی ان سنی کردیتے ہیں
حاضر سروس صدر مملکت اور وزرائے اعظم تک کو تمام تر سیکورٹی حصار اور خصوصی پروٹوکول کے باوجود، جوتے، سیاہی، اور لات گھوسوں سے استقبال کیا جاتا رہا ہے
لیکن سیاسی شعور وپختگی رکھنے والے سیانے ان چیزوں کو خاطر میں نہیں لاتے
اشتعال انگیزی سے مشتعل ہوجانے والے اور پٹرول کی آگ کی طرح بھڑک جانے والے دانشوران سیاسی اور مکالمتی جنگ ہار جاتے ہیں
مشتعل ہوکر اور بھڑک کر جل اٹھنا کمال نہیں، سلگتے رہنا کامیاب اور گھاگھ قائدین کا کام ہے۔
پہاڑوں کا شکوہ، زمین کا تحمل اور سمندر کی گہرائی قائد ورہنما کی خصوصیات ہیں
انتقامی جذبات کو راہ ورسید دینے والے زعماء شکست کھا جاتے ہیں
مفتی اعجاز ارشد صاحب قاسمی کے ساتھ خواتین کی طرف سے جو ہاتھا پائی کا دلخراش منظر دیکھنے کو ملا وہ ملک کے موجودہ حالات میں اتنا تکلیف دہ نہیں
جتنا مفتی صاحب کا رد عمل ہم لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث ہے
مفتی صاحب جذباتیت کے شکار ہوگئے اور دور اندیشی کا مظاہرہ بالکل نہیں کیے اور یوں سازشی مہرے اور ان کے تانے بانے کو کامیاب کردیئے ۔
عورتوں کی طرف سے دست درازی کی ابتدا کسی کو بھی نظر نہ آئے گی ، ہاں ڈاڑھی دار ،کلاہ پوش مفتی وعالم دین کی ایک خاتون پہ زیادتی سارے لوگوں کو نظر آئے گی بلکہ چند ساعتوں میں ہی سوشلستان میں یہ خبر مرکز توجہ و موضوع بحث بن گئی
اور میڈیا جو چٹ پٹی خبروں کی تلاش میں رہتا ہے
اسے آج سے ایک نیا شوشہ ہاتھ لگا ہے، خدا جانے اب اس کا اختتام کہاں پہ ہوتا ہے؟
کاش! مفتی اعجاز ارشد صاحب موقع محل کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے بیچ بچائو کی کوئی شکل نکال لیتے تو آج نہ خود خبر بنتے نہ پرسنل لا و علماء دین کے خلاف کتوں کو بھونکنے کا موقع فراہم کرتے!
شکیل منصور القاسمی
دونوں طرف سے بد زبان خواتین کا انہیں نرغے میں یوں لے لینا کسی اوچھے ہتھکنڈے اور سوچی سمچی سازش ومنصوبے کا پیش خیمہ تھا
کیا اچھا ہوتا کہ وہ ٹاک شو چھوڑ کے فورا آجاتے
ایک تو انہوں نے اس نوع کے بھگوائی ڈبیٹ میں شرکت کرکے حماقت کی
دوسرے ماحول کی خطرناکی اور سنگینی کے بروقت ادراک سے وہ یکسر قاصر رہے
دور اندیشی اور حکمت وتدبر کا تقاضہ یہ تھا کہ تھپڑ کھاکے بھی ضبط کرلیتے
تاکہ بھگوائیوں کے سازشی بیل منڈھے نہ چڑھ پائے
جب آپ مبینہ طور پہ کسی ملی ادارے کے ترجمان ،قائد، ممبر یا رہنما کی حیثیت سے کسی ٹاک شو میں شرکت کرتے ہیں تو اب آپ کو شخصی انا کچل کر خود کو اس کوہ گراں سے بھی زیادہ ضبط و برداشت کا مظاہرہ کرنا پڑے گا جو ہر قسم کی زالہ باری سے بے نیاز اپنی جگہ پہ قائم رہتا ہے
ٹاک شوز میں عام حیثیت کا معمولی بندہ بھی ملکی وزراء تک کو طمانچے رسید کردیتا ہے ، لیکن سیاسی سیانے سب کچھ خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرکے سنی ان سنی کردیتے ہیں
حاضر سروس صدر مملکت اور وزرائے اعظم تک کو تمام تر سیکورٹی حصار اور خصوصی پروٹوکول کے باوجود، جوتے، سیاہی، اور لات گھوسوں سے استقبال کیا جاتا رہا ہے
لیکن سیاسی شعور وپختگی رکھنے والے سیانے ان چیزوں کو خاطر میں نہیں لاتے
اشتعال انگیزی سے مشتعل ہوجانے والے اور پٹرول کی آگ کی طرح بھڑک جانے والے دانشوران سیاسی اور مکالمتی جنگ ہار جاتے ہیں
مشتعل ہوکر اور بھڑک کر جل اٹھنا کمال نہیں، سلگتے رہنا کامیاب اور گھاگھ قائدین کا کام ہے۔
پہاڑوں کا شکوہ، زمین کا تحمل اور سمندر کی گہرائی قائد ورہنما کی خصوصیات ہیں
انتقامی جذبات کو راہ ورسید دینے والے زعماء شکست کھا جاتے ہیں
مفتی اعجاز ارشد صاحب قاسمی کے ساتھ خواتین کی طرف سے جو ہاتھا پائی کا دلخراش منظر دیکھنے کو ملا وہ ملک کے موجودہ حالات میں اتنا تکلیف دہ نہیں
جتنا مفتی صاحب کا رد عمل ہم لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث ہے
مفتی صاحب جذباتیت کے شکار ہوگئے اور دور اندیشی کا مظاہرہ بالکل نہیں کیے اور یوں سازشی مہرے اور ان کے تانے بانے کو کامیاب کردیئے ۔
عورتوں کی طرف سے دست درازی کی ابتدا کسی کو بھی نظر نہ آئے گی ، ہاں ڈاڑھی دار ،کلاہ پوش مفتی وعالم دین کی ایک خاتون پہ زیادتی سارے لوگوں کو نظر آئے گی بلکہ چند ساعتوں میں ہی سوشلستان میں یہ خبر مرکز توجہ و موضوع بحث بن گئی
اور میڈیا جو چٹ پٹی خبروں کی تلاش میں رہتا ہے
اسے آج سے ایک نیا شوشہ ہاتھ لگا ہے، خدا جانے اب اس کا اختتام کہاں پہ ہوتا ہے؟
کاش! مفتی اعجاز ارشد صاحب موقع محل کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے بیچ بچائو کی کوئی شکل نکال لیتے تو آج نہ خود خبر بنتے نہ پرسنل لا و علماء دین کے خلاف کتوں کو بھونکنے کا موقع فراہم کرتے!
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment