Tuesday 28 February 2023

تطہیر کلام اور قوت الإستماع

تطہیر کلام اور قوت الإستماع 
ہم سب عقلاء و متکلمین کو کچھ عرصہ کے بعد تطہیر کلام کے لئے ضرور وقت نکالنا چاہے. تطہیر کلام سے مراد ہے اپنی گفتگو کو پاک صاف کیا جائے۔ عموماً جیسے ملبوسات استعمال سے میلے کچیلے ہو جاتے ہیں ایسے ہی کلام میں ناشائستہ، مبہم اور ناموزوں الفاظ کا جمع ہو جانا عادی ہے۔ اور بالکل ایسے ہی کبھی افکار پر بھی گرد پڑجاتی ہے۔ 
اس کام کو سر انجام دینے کے لئے ضروری ہے. انسان ایک اچھا سامع ہو تاکہ خود سازی کر سکے۔ خاموش رہے اور دوسروں کو سنے تاکہ جب بولے تو پھر اس کا کلام سحر انگیز ہو۔ اور تمام آلائشوں سے پاک ہو۔
سننے کی طاقت:
اسے عربی میں قوت الإستماع جبکہ انگریزی میں (listening power) کہتے ہیں یہ ایک عام فہم اصطلاح ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اعلیٰ معیار کی استماع سے مراد توجہ، انہماک اور غیر فیصلہ کن رویہ ہوتا ہے۔ اور دوسروں کو سننا نہ صرف سننے والے کی فکر میں وسعت پیدا کرتا ہے بلکہ
🔸️ 1۔ بولنے والوں کے جذبات اور رویوں کو بھی مثبت طور پر تشکیل دے سکتا ہے۔ یعنی ان میں توازنِ فکری پیدا کرے گا۔
🔸️ 2۔ الفاظ کے صحیح چناؤ میں مدد کرے گا۔ 
وہ فریق نہیں بنیں گے۔ 
🔸️ 3۔ مقررین و متکلمین اچھے سامعین کے ساتھ زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں۔
🔸️4۔ بولنے والوں کو کسی بھی دلیل کے دونوں پہلوؤں کو جانچنے میں مدد ملتی ہے جسے ہم "رویہ کی پیچیدگی" attitude) complexity) کہتے ہیں۔
🟥 المختصر جہاں انسان کی قوت الإستماع اعلی درجے کی ہو وہ مختلف موضوعات پر بات کرنے میں سماجی اضطراب (social anxiety) سے بچا رہتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ رویہ میں شدت (attitude extremity) میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس کے کام میں سکون (relaxation) پیدا کرتا ہے۔ سننے والے کو خود آگاہی (self awareness) زیادہ ہوتی ہے۔ جس سے وہ اپنی خوبیوں اور خامیوں کو دور کرسکتا ہے۔ سننے والے میں غیردفاعی رویہ (non defensive manner) پیدا ہوتا ہے۔ 
⭕ الإستماع کی کمی کے اسباب:
🔹️ 1۔ جو دوسروں کو سننا پسند نہیں کرتا شاید وہ اپنے آپ کو مکمل سمجھتا ہے۔ یا اسے اپنی عزت کم ہوتے نظر آتی ہے۔ جبکہ واضح ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی من حیث الکلام و انسان مکمل نہیں۔ خواہ کوئی سپیکر ہو یا کوئی شاعر اسے ہر صورت خوبصورتی و ارتقاء کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
🔹️ 2۔ تعریف پسند admiration
لوگ عموماً اچھے متکلم یا سپیکر نہیں بن سکتے۔ واہ واہ کا عادی ہونا بھی ایک فریب ہے۔
🔹️ 3۔ کسی کو سننے میں وقت اور صبر درکار ہوتا ہے جو ہم میں سے ہر ایک سمجھتا ہے کہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ مگر خیال رکھیں وقت بھی پیسے کی طرح اہم اثاثہ ہے جب آپ اسے درست صرف کریں گے تو پھر یہ اچھے مستقبل کی ضمانت دے گا۔ 
🔹️ 4۔ تبدیلی کا خوف:
جب آپ کو اپنا کلام خود پسند آ جائے اور اس انداز و فکر کے خود ہی جال میں پھنس جائیں تو پھر تطہیرِ کلام ممکن نہیں۔ اس وقت دوسرے کو سننا ایسے ہی ہے جیسے خود کو غلط سمجھ کر تبدیلی کی ضرورت ہو۔ لفظ سیکھیں اور جملہ نئی تراکیب سیکھیں۔ خود میں شائستگی لائیں۔ ملائم بات کریں۔ اس سے خوفزدہ نہ ہوں کہ بدلاؤ آپ کی شخصیت کو خراب کر دے گا۔ بلکہ یہ تو ارتقاء ہے۔
🔹️ 5۔ دوسروں کو سنیں خود اپنی زبان کی مٹھاس کے لئے اور سننے کا بہانہ نہ کریں 
Do not pretend to listen
اصل میں یہ بہانہ کرنا کہ میں سن رہا ہوں جبکہ آپ کا خیال کہیں اور محوِ گردش ہے یہ وقت کے ضیاع کا سبب ہے۔
⭕ خلاصہ کلام:
ہم عموماً دوسروں کو سمجھنے اور سمجھنے کے لئے گفتگو یا بات چیت کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر ہم بات کر رہے ہیں اور کوئی ہماری بات نہیں سن رہا ہے تو اس کا مطلب ہے ہم مؤثر طریقے سے بات چیت نہیں کر رہے ہیں۔ مؤثر اور حقیقی گفتگو کے تین اہم اصول ہیں۔
 🔸️ پہلا: گہرائی اور انہماک سے دوسروں کو سننا۔
🔸️ دوسرا: سامع کی سطحِ عقلی کے مطابق گفتگو کی جائے.
🔸️ تیسرا: اداکاری کے بجائے سنجیدگی اور احترام کا خیال رکھا جائے ۔
 ❗یہ تینوں اصول دوسروں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے اور رابطہ بحال رکھنے میں معاون ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہم سب سمجھنا چاہتے ہیں۔ جب ہم کسی دوسرے شخص کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں تو ہمارا فوراً خاموش تقاضا یہ ہوتا ہے کہ دوسرے ہمیں فوراً سمجھ لیں۔ یا ہمارا موقف سمجھ لیں۔ لہذا خود سے بات شروع کرکے ایک عنوان پر اظہارِ خیال کرنا سامعین کی سماعت پر گراں گزرتا ہے۔ 
مگر جب آپ دوسروں کو سننے کے عادی ہوتے ہیں تو نہ صرف آپ کے پاس ایک ایسا موضوع آتا ہے جسے سامع پسند کرتا ہے بلکہ اگر آپ اپنا موقف دیں تو وہ سننے کے لئے بھی آمادہ ہوتا ہے۔ 
✅ اس لئے گفتارسازی میں معیار قائم کرنے کے لئے لازمی ہے اچھے سامع بنا جائے۔ اس سے ہمیں معلومات بھی ملتی ہیں اور حقائق و غیر حقائق میں امتیاز کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ نیز دوسرے کے انداز کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے لئے ذہن سازی اور مشق بھی ہو جاتی ہے۔
❌ضروری نہیں ہر متکلم کچھ معلومات دے رہا ہو جس کا آپ کو علم نہ ہو۔ مگر کبھی کبھی اچھے اندازِ بیان کو بھی سننا ہماری اپنی صحتِ کلام کے لئے اہم ہوتا ہے۔ 
⭕ فرض کیا کہ دوسرا غیرمعیاری بات کررہا ہے تو پھر ؟
🟥  یہ ایک عادی و فطری سی بات ہے دوسرا شخص ایسی باتیں کہہ سکتا ہے جو غلط تاثرات (wrong perception) تلخی(bitterness) شکایت (accusation) اور الزام تراشی ( blaming ) سے بھری ہوئی ہو سکتی ہے ۔ لہذا اگر ہم ذہن سازی کی مشق نہیں کرتے ہیں، یا ہم میں ہمدردی (compassion) اور حوصلہ نہیں ہے تو ان کے الفاظ ہم میں چڑچڑاپن (irritation) 
کمزور رائے (judgement ) اور غصہ (anger) 
 پیدا کریں گے، اور سننے کی اپنی صلاحیت کھو دیں گے۔ یہ فطرتی امر ہے جب چڑچڑاپن یا غصہ آتا ہے تو ہم سننے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اس کی مشق کرنی چاہے، تاکہ سننے کے دوران ہمارے دلوں میں ہمدردی اور دلچسپی قائم رہے۔ لہذا ہمیں پہلے خود کو تربیت دینا ہوگی تاکہ ہم دوسرے شخص کی بات سن سکیں۔ جب ہم نے دوسرے شخص کی بات کو گہرائی سے سن لیا اور دوسرے شخص کو اپنے دل کی ہر بات کا اظہار کرنے کی اجازت دے دی، تو ہمیں بعد میں موقع ملے گا کہ ہم اسے تھوڑی سی معلومات دیں جو اسے اپنا خیال درست کرنے کے لیے درکار ہو - لیکن ابھی ابتدا میں ہی نہیں۔ ابھی ہم صرف اسے سنتے ہیں، چاہے وہ شخص غلط باتیں ہی کہے۔
⭕ کیا میں اسے کافی حد تک سمجھتا ہوں؟
?Do i understand him enough
یہ ایک اہم سوال ہے جو ہر گفتگو اور رائے دینے سے پہلے ہمیں اپنے دل میں سوچنا چاہئے۔ یعنی اگر آپ کسی کو اپنے سحرِ کلام سے خوش و مسخر کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی بات کرنے سے پہلے خود سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ "کیا میں اسے کافی حد تک سمجھتا ہوں؟ اور اگر ہاں تو مطلب کس حد تک سمجھتا ہوں؟
انسان کے کئی چہرے ہوتے ہیں کچھ ایسے خیالات ہوسکتے ہیں جو آپ سے پوشیدہ رہ گئے ہوں۔ ممکن ہے کچھ فرسودہ اعتقادات بھی ہوں جسے اس نے کسی حیلہ سے اپنے لئے با معنی بنا رکھا ہو۔ بعض تخیلات مجبوری کے سبب ہوسکتے ہیں۔ اس لئے اس جہاں کا مشکل ترین کام مردم شناسی ہے۔ بس چند ایک معلومات سے دوسرے کے بارے میں خاکہ کشی کر کے اپنے کلام و تقریر سے اس میں رنگ بھرنا شروع نہیں کر دینا چاہئے۔ یہ بھی ایک حماقت ہے۔ 
(بقلم: مسعود حسین) (صححہ: #ایس_اے_ساگر )
http://saagartimes.blogspot.com/2023/02/blog-post_28.html?m=1

Friday 24 February 2023

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اسمائے مبارک


حضور
صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم کے بعض اسماء مبارک
بَابُ: مَا جَاءَ فِي أَسْمَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اسماء مبارک کے بیان میں (حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمٰنِ الْمَخْزُومِيُّ ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ لِي أَسْمَاءً أَنَا مُحَمَّدٌ ، وَأَنَا أَحْمَدُ ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِيَ الْكُفْرَ ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰى قَدَمِي ، وَأَنَا الْعَاقِبُ وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ)
ترجمہ: حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بہت سے نام ہیں جن میں سے ایک محمد اور ایک احمد ہے اور میں ماحی ہوں، میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ کفر کو مٹاتا ہےاور میں حاشر ہوں کہ لوگ میرے سامنے قیامت کے دن جمع کیے جائیں گےاور میں عاقب ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
حدیث: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات مدینہ منورہ کے ایک بازار میں ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں محمد ہوں، احمد ہوں، نبی الرحمۃ، نبی التوبہ، مُقَفّٰی اور نبی الملاحم ہوں۔
زبدۃ: (1): ”نبی الرحمۃ“ کا معنی یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا۔
(2) ”نبی التوبۃ“ یعنی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے جتنی مخلوق کی توبہ قبول کی ہے اتنی کسی اور نبی کی امت کی قبول نہیں کی۔
(3): ”اَلْمُقَفّٰی“ سب سے پیچھے آنے والا۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھی سب نبیوں کے بعد تشریف لائے تھے۔
(4): ”نَبِیُّ الْمَلَاحِمِ“ سخت جنگوں والا نبی۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود تقریبا ستائیس جنگوں میں شرکت فرمائی ہے۔ جس قدر جہاد آپ کی امت نے کیا ہے اور کسی امت نے نہیں کیا۔
زبدۃ: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء مبارک بہت زیادہ ہیں۔ ہر نام کسی نہ کسی صفت کو ظاہر کرتا ہے۔ کسی ایک روایت میں تمام ناموں کا یکجا تذکرہ بھی نہیں ہے۔ علامہ سخاوی علیہ الرحمۃ نے آپ کے چار سو، علامہ سیوطی علیہ الرحمۃ نے پانچ سو اور امام ابوبکر ابن العربی نے آپ کے ایک ہزار نام مبارک ذکر فرمائے ہیں۔ (جمع الوسائل مع الہامش: ج 2 ص 226) (احناف ڈیجیٹل لائبریری)
مسواک بھی سُنّت ہے تو تلوار بھی سنت،
دستار بھی سنت ہے تو ہتھیار بھی سنت۔
اعدائے دیں کو دین کی دعوت بھی خُوب ہے،
اعدائے دیں سے برسرِ پیکار بھی سنت۔
(ہدہدٓ) #ایس_اے_ساگر 

Wednesday 22 February 2023

ماہِ شعبان کے فضائل، مسائل اور رسومات و منکرات

ماہِ شعبان کے فضائل، مسائل اور رسومات و منکرات
ماہِ شعبان اسلامی سال کا آٹھواں قمری مہینہ ہے۔ 
ماہِ شعبان کا لغوی معنی اور وجہ تسمیہ:
۱۔’’شعبان‘‘ کا لفظ " تشعب" سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے بکھرنا، منتشر ہونا. ’’شعبان‘‘ کو ’’شعبان‘‘ اس لئے کہا جاتاہے کہ اس میں عرب لوگ لوٹ مار کے لئے ادھر ادھر متفرق ہوجاتے تھے۔(۱)
۲۔’’شعبان‘‘ کا لفظ ’’شعب‘‘ سے بھی ماخوذ ہوسکتا ہے، جس کا معنی ہے ’’اجتماع ‘‘
اس مہینے میں چونکہ اس مہینے میں بہت سی خیریں جمع ہوتی ہیں ، اس لئے’’شعبان‘‘ کو ’’شعبان‘‘ کہا جاتا ہے۔(2)

ماہِ شعبان کے ابتداء میں برکت کی دعاکرنا:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب "رجب" کا مہینہ شروع ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا فرماتے تھے:
اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ ترجمہ:اے اللہ! ہمارے لیے ماہِ رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا۔(۳)
فائدہ:
۱۔علامہ عبدالرحمن الساعاتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان تین مہینوں کے لئے برکت کی دعا کرنا، ان کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے۔(۴)
۲۔واضح رہے کہ مذکورہ بالاحدیث پر بعض محدثین کرام نے کلام کیا ہے، اور اس روایت کی سند میں ’’زائدہ بن ابی الرقاد ‘‘ اور ان کے شیخ ’’زیاد بن عبداللہ النمیری‘‘ کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (تفصیل کے لئے حاشیہ ملاحظہ فرمائیں۔)(۵)
۳۔ محدثین کرام نے مذکورہ روایت کو اگرچہ ضعیف قرار دیا ہے، لیکن فضائلِ اعمال کے سلسلے میں ایسی روایت پر عمل کیا جاسکتا ہے اور مذکورہ دعا کے الفاظ معنی اور مفہوم کے لحاظ سے درست ہیں، اور سلف کا اس پر عمل بھی ہے، لہذا اس دعا کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۶)
ماہِ شعبان کا چاند دیکھنے کا اہتمام:
شعبان کے بعد چونکہ رمضان المبارک کا عظیم مہینہ آرہا ہوتا ہے اور رمضان المبارک کےروزوں کی ادائیگی چانددیکھنے پر موقوف ہوتی ہے،اِس لئے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی شعبان کا چاند بڑے اہتمام سے دیکھا کرتے تھے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کی تاریخوں کو جس قدر اہتمام سے یاد رکھتے تھے، اتنا کسی اور مہینہ کی تاریخوں کو یاد نہیں رکھتے تھے. پھر جب رمضان کا چاند ہوتا، تو روزے رکھتے اور اگر اس دن مطلع صاف نہ ہوتا (اور چاند نظر نہ آتا، تو) شعبان کے تیس دن پورے کرتے اور پھر روزے رکھتے (یعنی یوم الشک میں روزہ نہ رکھتے۔) (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: 2325) (۷)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بھی شعبان کے چاند دیکھنے کا اہتمام کرنے کا حکم فرمایا، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے: جناب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان کے لئے شعبان کے چاند کے دن گنتے رہو۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 687) (۸)
ماہ ِشعبان میں اللہ تعالی کے حضور اعمال کی پیشی ہوتی ہے:
حضرت اُسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: یا رسول اللہ! شعبان کے مہینے میں، میں آپ کو اتنے روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں، جتنا کہ کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا ، اِس کی کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رجب اور رمضان کے درمیان جو شعبان کا مہینہ ہے، (عام طور پر) لوگ اُس سے غفلت کا شکار ہوتے ہیں، حالانکہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کےحضور پیش کئے جاتے ہیں، تو میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اِس حالت میں اُٹھائے جائیں کہ میں روزے سے ہوں۔ (سنن النسائی: حدیث نمبر: 2358،2357)(۹)
شعبان کے مہینے میں روزوں کی کثرت:
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "ماہِ شعبان" ہی سے "رمضان المبارک" کی تیاری فرماتے تھے ، چنانچہ ماہِ شعبان آتے ہی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم "رمضان المبارک" کے ساتھ اُنس پیدا کرنے کے لئے "ماہِ شعبان" میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے، جس کا اندازہ درج ذیل روایات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مہینوں میں روزہ رکھنے کے واسطے شعبان کا مہینہ پسندیدہ تھا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ کو ماہ رمضان المبارک کے ساتھ ملا دیا کرتے تھے۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: 2431)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے جاتے، یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب افطار نہ کریں گے اور افطار کرتے جاتے، یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب روزہ نہ رکھیں گے اور میں نے نہیں دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے سوا کسی مہینہ پورے روزے رکھے ہوں اور نہ شعبان کے مہینہ سے زیادہ کسی مہینہ میں آپ کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1969)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سال کے کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1156)
ماہِ شعبان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بکثرت روزے رکھنےکی حکمتیں:
علمائے کرام رحمہم اللہ نے ماہِ شعبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ نفلی روزے رکھنے کے کئی اسباب اور حکمتیں بیان کی ہیں، جن میں سے چار حکمتیں وہ ہیں، جن کی طرف احادیث میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔(۱۰)
1۔ اللہ تعالیٰ کے حضور اعمال کا پیش ہونا:
اس کا ذکرحضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت میں گذرچکا ہے۔
2۔ مرنے والوں کی فہرست کا ملک الموت کے حوالے ہونا:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ماہِ شعبان میں اتنی کثرت سے روزے کیوں رکھتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: اس مہینے میں ہر اس شخص کا نام ملک الموت کے حوالے کردیا جاتا ہے، جن کی روحیں اس سال میں قبض کی جائیں گی؛ لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا نام اس حال میں حوالے کیا جائے کہ میں روزہ دار ہوں۔(عمدۃ القاری)(۱۱)
3 ۔رمضان کی تعظیم اور تیاری:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیاکہ رمضان شریف کے بعد کونسا روزہ افضل ہے؟ فرمایا: رمضان کی تعظیم کے لئے شعبان کے روزے رکھنا، پوچھا گیا کونسا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا:رمضان میں صدقہ دینا۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 683)(۱۲)
4۔ ہر مہینے کے تین دن کے روزوں کا جمع ہونا:
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے تین دن یعنی ایامِ بیض (تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ) کے روزے رکھتے تھے، لیکن بسا اوقات سفر وضیافت وغیرہ کسی عذر کی وجہ سے چھوٹ جاتے اور وہ کئی مہینوں کے جمع ہوجاتے، تو ماہِ شعبان میں ان کی قضا فرماتے تھے۔ (۱۳)
ان احادیث کے پیش نظر فقہائے کرام نے ماہِ شعبان میں نفلی روزے رکھنے کو مستحب قرار دیا ہے، چنانچہ فتاوٰی ہندیہ میں ہے : مستحب روزے کئی قسم کے ہیں: اوّل محّرم کے روزے، دوسرے رجب کے روزے، تیسرے شعبان کے روزے اورعاشوراء کے دن کا روزہ(۱۴)
فائدہ: واضح رہے کہ نفلی روزوں کے سلسلے میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی لگابندھا دستور ومعمول نہیں تھا، بلکہ کبھی مسلسل بلا ناغہ روزے رکھتے، کبھی مسلسل بغیر روزے کےرہتےتھے، مقصدیہ تھاکہ امت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں مشکل اور تنگی نہ ہو، بلکہ وسعت کا راستہ کھلا رہے، اور ہر شخص اپنے حالات اور ہمت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی رویہ کی پیروی کرسکے، اسی لئے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایامِ بیض (۱۳،۱۴،۱۵ تاریخوں) کے روزے رکھتے، کبھی جمعہ کے روزے کا اہتمام کرتے، اور اسی طرح کبھی عاشورہ اور شوال کے چھ روزے رکھتے تھے ۔(۱۵)
نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت:
بعض روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شعبان کا مہینہ آدھا رہ جائے، تو روزہ نہ رکھا کرو۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 738)(۱۶)
علمائے کرام نے اس حدیث کے دو مطلب بیان کئے ہیں:
۱۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی آسانی و شفقت کی وجہ سےرمضان کے بالکل قریبی ایام میں روزے رکھنے سے اس لیے منع فرمایا ہے، تاکہ ان روزوں کی وجہ سے لوگوں کو ضعف و کمزوری لاحق نہ ہوجائے، جس کی بناء پر رمضان کے روزے دشوار اور بھاری ہوجائیں۔
۲۔ جس شخص کو مسلسل روزے رکھنے کی وجہ سے عبادت میں قوت نہیں ہوتی اور روزے کی دل جمعی پیدا نہیں ہوتی اور اسے مسلسل روزہ رکھنے کی طاقت میسر نہیں ہے، اس کے لئے رمضان سے پہلے روزے رکھنا مکروہ ہے، تاکہ رمضان کے لئےنشاط اور چستی باقی رہے، اور وہ دل جمعی سے روزے رکھ سکے۔(۱۷)
شعبان کے آخری دنوں میں روزہ رکھنے کی ممانعت اور اس کی حکمت:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کرتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی (شعبان کی آخری تاریخوں میں) رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزے نہ رکھے، البتہ اگر کسی کو ان دنوں میں روزے رکھنے کی عادت ہو تو وہ اس دن روزہ رکھ لے۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1914)(۱۸)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ جناب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم شعبان کے چاند کے دن رمضان کے لئے گنتے رہو اور تم (شعبان میں روزے رکھ کرشعبان کو) رمضان کے ساتھ خلط ملط نہ کرو، مگر یہ دن کسی کے اُس روزے کے موافق ہوجائیں، جس میں وہ پہلے سے روزہ رکھنے کا عادی ہو اور چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو پھر اگر تم پر چاند ابر آلود ہوجائے (بادلوں کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے) تو تعداد تو تم پر ابرآلود نہیں ہوئی یعنی تیس دن پورے کرنا مشکل نہیں ہے۔ (سنن دارقطنی، حدیث نمبر: 2174)
مذکورہ روایات میں ممانعت کی وجہ:
۱۔ نفل اور فرض دونوں روزوں کا آپس میں اختلاط نہ ہو جائے اورنفلی و فرضی روزوں میں فرق ہوجائے، کیونکہ فرض سے متصل نفل روزہ رکھنے سے فرض میں زیادتی کا شائبہ پایا جاتا ہے، اسی لئے ماہ ِشعبان میں اخیر کے دو روزے رکھنے سے منع کیا گیا ، تاکہ لوگ شکوک وشبہات میں مبتلا ہوکر رمضان کے احتیاط میں رمضان کا روزہ ایک دن قبل شعبان ہی میں رکھنا شروع نہ کردیں، البتہ جو شخص ہر پیر وجمعرات کو نفل روزہ رکھنے کا عادی ہو اور اتفاق سے شعبان کی انتیس یا تیس تاریخ اسی دن ہوجائے، یا شعبان کے نصفِ اول میں بھی وہ روزہ رکھتا ہو ، اور اس کو روزہ رکھنے سے کمزوری اور نقاہت نہیں ہوتی تو اس کے لئے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا بلاکراہت جائز ہے۔(۱۹)
ماہ شعبان اور اسلاف کرام رحمہم اللہ کا عمل:
سلف صالحین کے نزدیک ماہ شعبان كى بڑی قدر ومنزلت تھی، یہی وجہ ہے کہ شعبان کے آتے ہی وہ عبادات کے لئے اپنے آپ کو فارغ کرلیتے تھے.
علامہ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شعبان رمضان کا مقدمہ اورپیش خیمہ ہے، لہذا اس میں وہی اعمال یعنی روزہ اور تلاوت کرناچاہئے، جو کثرت سے رمضان میں کئے جاتے ہیں، تاکہ ماہ ِرمضان کی برکات حاصل کرنے کی تیاری ہوجائے اور نفس رحمان کی اطاعت سے تروتازہ ہوجائے، چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کا معمول تھا کہ شعبان کا مہینہ شروع ہوتے ہی قرآن کریم کی طرف متوجہ ہوتے تھے اور اپنے مالوں کی زکاۃ اداکرتے تھے،تاکہ غریب اور مسکین بہتر طور پر ماہ ِرمضان گزارسکیں۔
جب شعبان کا مہینہ آتا، تو حبیب بن ابی ثابت رحمہ اللہ فرماتے کہ یہ قاریوں کا مہینہ ہے اورعمرو بن قیس رحمہ اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب شعبان کا مہینہ آتا، تو عمرو بن قیس رحمہ اللہ اپنی دکان بند کردیتے اور قرآن کریم کی تلاوت میں منہمک ہوجاتے۔(۲۰)
شب براءت کے متعلق احادیث اور ان کی اسنادی حیثیت:
واضح رہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ شبِ برأت کے حوالے سے افراط و تفریط کا شکار ہیں، کچھ لوگ تو سرے سے اس کی فضیلت ہی کے قائل نہیں ہیں، بلکہ اس کی فضیلت سے متعلق تمام احادیثِ مبارکہ کو ضعیف یا موضوع (من گھڑت) سمجھتے ہیں، جبکہ بعض لوگ اس کی فضیلت کے تو قائل ہیں، لیکن انہوں نے بہت ساری رسومات و بدعات کو بھی اِس رات کی عبادت کا ایک حصہ بنالیا ہے، یہ دونوں فریق راہ ِاعتدال سے دور ہیں۔
پندرھویں شعبان کی فضیلت کے بارے میں راہِ اعتدال یہ ہے کہ اس بارے میں تقریبا دس صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنھم اجمعین (۱) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، (۲) حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ، (۳) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، (۴) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، (۵) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، (۶) حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ، (۷) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ، (۸) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ، (۹) حضرت ابو ثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ، (۱۰) حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایات مروی ہیں، جن میں کچھ تو سند کے اعتبار سے انتہائی کمزور درجے کی ہیں اور کچھ روایات کم درجہ ضعیف ہیں اور بعض احادیث حسن درجے کی ہیں۔
محدثین کے اصول کے مطابق مجموعی اعتبار سے ان احادیث کے تمام طرق ملانے سے ان احادیث کا مضمون صحیح لغیرہ بن جاتا ہے اور اگر تمام طرق ضعیف مان لیے جائیں تب بھی محدثین کے قواعد کے مطابق یہ احادیث ’’حسن لغیرہ‘‘کے درجے تک پہنچتی ہیں، ان روایات میں سے چند روایات کو ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت:
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات (اپنے بندوں پر) نظر فرماتا ہے، پھر مشرک اور (مسلمان بھائی سے ) دشمنی رکھنے والے کے سوا تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ (الترغیب و الترھیب للمنذری)(۲۱)
مذکورہ بالا روایت درج ذیل کتب میں ذکرکی گئی ہے:
۱۔ المعجم الأوسط للطبرانی: ٧/٣٦ (٦٧٧٦)، ط: مكتبة الرشد
۲۔المعجم الكبير للطبرانی: ٢٠/١٠٨ (٢١٥) ط: مكتبة ابن تيمية
۳۔مسندالشاميين للطبرانی: ١/١٢٨ (٢٠٣)، ١/١٣٠ (٢٠٥)، ٤/٣٦٥، (٣٥٧٠)، ط:. مؤسسة الرسالة
۴۔ حلية الاولياءلأبی نعیم الاصبھانی: ٥/١٩١، ط: دارالفكر
۵۔شعب الإيمان للبیھقی:٥/٣٦٠(٣٥٥٦)،٩/٢٤(٦٢٠٤)،ط:مكتبة الرشد
۶۔ فضائل الاوقات للبیھقی: ١١٨(٢٢)،ط: مكتبة المنارة
۷۔ صحیح ابن حبان:۱۲/٤٨١(٥٦٦٥)،ط: مؤسسة الرسالة
۸۔كتاب السنة لأبن أبی عاصم: ١/٢٢٤(٥١٢)ط: المكتب الإسلامي
۹۔كتاب النزول لدارقطني: ١٥٨(٧٧)
۱۰۔ مجمع الزوائد للهيثمي: ۸/۱۲۶ (۱۲۹۶۰)، ط:دارالفکر

مذکورہ بالا روایت کی اسنادی حیثیت:
علامہ منذری نے" الترغيب و الترھیب" میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: اس روایت کو طبرانی نے اوسط میں اور ابن حبان نے اپنی صحیح ابن حبان اور بیھیقی نے شعب میں ذکر کیا ہے اورابن ماجہ نے انہی الفاظ کے ساتھ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور مسند بزار اور بیہقی نے اسی طرح ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایت کو بھی ایسی ہی سند سے ذکر کیا ہے، جس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۲۲)
علامہ ہیثمی نے اس روایت کے رجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔(۲۳)
علامہ ناصرالدین البانی نے ’’السنة للابن ابی عاصم‘‘ کے حاشیہ میں اس حدیث کی سند پر کلام کرتے ہوئے اس کو صحیح کہا ہے۔(۲۴)
علامہ ناصرالدین البانی نے ’’سلسلة الأحاديث الصحيحة ‘‘ میں اس حدیث کرنے کے بعد فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے اور صحابہ کرام کی ایک جماعت سے متعدد طرق سے مروی ہے، جو طرق ایک دوسرے کو قوت بخشتے ہیں، وہ حضرات یہ ہیں: معاذبن جبل،ابو ثعلبة الخشني ،عبدالله بن عمرو، ابو موسى اشعري، ابو هريرة، ابوبكر صديق، عوف ابن مالك اور عائشة رضوان اللہ تعالی عنھم اجمعین اور پھر ان حضرات کی احادیث کی تخریج ذکر کرنے کے بعد فرمایا: یہ حدیث ان متعدد طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے بالکل صحیح ہے اور حدیث کی صحت تو عدد کے اعتبار سے اس سے کم سندوں سے بھی ثابت ہوجاتی ہے۔(۲۵)
۲۔ حضرت ابوثعلبہ کی روایت:
حضرت ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ’’جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، پس تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں اور کافروں کو ڈھیل دیتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے بغض کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اس کو ترک کردیں۔ (شعب الإيمان للبيهقي: حدیث نمبر: 3551) (۲۶)
مذکورہ بالا روایت درج ذیل کتب میں ذکرکی گئی ہے۔
۱۔ المعجم الكبير للطبرانی: ٢٢/٢٢٣ (٥٩٠،٥٩٣) ٢٢/٢٦٤ (٦٧٨)، ط: مكتبة ابن تيمية
۲۔ فضائل الاوقات للبیھیقی:١٢٠(٢٣)،ط: مكتبة المنارة
۳۔ السنن الصغیرللبیھیقی:٢/١٢٢(١٤٢٦)،ط: جامعة الدراسات الإسلامية
۴۔ كتاب السنة لأبن أبی عاصم: ١/٢٢٣(٥١١)،ط: المكتب الإسلامي
۵۔ معجم الصحابةلابن قانع:١/١٦٠،ط: مكتبة الغرباء
۶۔ كتاب النزول لدارقطني: ١٥٩

علامہ البانی نے" السنة للابن أبي عاصم" کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ (۲۷)
۳۔حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت:
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات (اپنے بندوں پر) نظر فرماتا ہے، پھر مشرک اور (مسلمان بھائی سے) دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کی مغفرت فرمادیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر:1390) (۲۸)
مذکورہ بالا روایت درج ذیل کتب میں ذکرکی گئی ہے۔
۱۔ فضائل الاوقات للبیھقی: ١٢٣(٢٩)،ط: مكتبة المنارة
۲۔ كتاب السنة لأبن أبی عاصم: ١/٢٢٣(٥١٠)،ط: المكتب الإسلامي
۳۔ كتاب النزول لدارقطني: ١٧٣(٩٤)
۴۔ شرح اصول العقائداهل السنة و الجماعةلأبی القاسم اللالكائی: ٣/٤٥٩(٧٦٣)،ط: دار طيبة
۵۔جامع المسانیدو السنن لابن کثیر: ١۰/۲۸۲(۱۳۰۷۶)،ط : دار خضر
۶۔کنز العمال لعلی المتقی: ۱۲/۳۱۵(۳۵۱۸۱)،ط: مؤسسة الرسالة
۷۔تحفۃ الأشراف بمعرفة الأطراف للمزی: ۶/۳۲۰،(۹۰۰۶)، ط: المكتب الإسلامي

علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔ (۲۹)
۴۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت :
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غائب پایا، تو میں (آپ کی تلاش میں) باہر نکلی تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپ بقیع قبرستان میں ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: “کیا تم ڈر رہی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟”، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرا گمان تھا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے ہاں گئے ہوں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے." (سنن الترمذي، حدیث نمبر: 739)(۳۰)
مذکورہ بالا روایت درج ذیل کتب میں ذکرکی گئی ہے:
۱۔ سنن ابن ماجہ :۲/۴۰۰(١٣٨٩)،ط: دار الرسالة العالمية
۲۔ مسند اسحاق بن راہویہ :٢/٣٢٦(٨٥٠)،٣/٩٧٩(١٧٠٠)، ط: مكتبة الإيمان
۳۔ مسند احمد :٤٣/١٤٦(٢٦٠١٨)،ط: مؤسسة الرسالة
۴۔ مسندابن حميد: ٤٣٧،(١٥٠٩)،ط: مكتبة السنة
۵۔ شعب الإيمان للبیھقی:٥/٣٥٥ (،٣٥٤٤، ٣٥٤٣) ٥/٣٦٥، ط: مكتبة الرشد
۶۔ فضائل الاوقات للبیھقی: ١٣٠(٢٨)،ط: مكتبة المنارة
۷۔ مصنف ابن ابی شیبہ: ٦/١٠٨ (٢٩٨٥٨)، ط: مكتبة الرشد
۸۔ شرح اصول العقائداهل السنة و الجماعةلأبی القاسم اللالكائی: ٣/٤٩٦(٧٦٤)،ط: دارطيبة
۹۔ كتاب النزول لدارقطني: ١٦٩ (٨٩،٩٠)
۱۰۔ الابانة الكبرى لابن بطة: ٧/٢٢٥(١٧٦)،ط: دارالراية

حدیثِ عائشہ کی اسنادی حیثیت:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث ’’الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ‘‘ سے مروی ہے اور ’’ الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ‘‘ اگرچہ ضعیف روای ہے، لیکن ان کا ضعف حفظ کی جہت سے ہے، نہ کہ کذب کی جہت سے، اس لئے یہ روایت دوسری اسناد سے مل کر حسن کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔
علامہ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ شب برأت کی فضیلت میں متعدد احادیث وارد ہیں، یہ احادیث مختلف فیہ ہیں، اکثر لوگوں نے انہیں ضعیف قراردیا ہے اورابن حبان نے بعض کی تصحیح کی ہے، اور اپنی کتا ب صحیح ابن حبان میں ذکر کیا ہے، ان میں سب سے بہتر وہ حدیث ہے، جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ (جو ماقبل میں ذکر ہوئی۔)
5۔ حدیثِ علی رضی اللہ عنہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نصف شعبان کی رات آئے، تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو، اس رات اللہ تعالیٰ سورج کے غروب ہوتے ہی پہلے آسمان پر نزول فرمالیتا ہے اور صبح صادق طلوع ہونے تک کہتا رہتا ہے: کیا کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسے معاف کردوں، کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے رزق دوں، کیا کوئی (کسی بیماری یا مصیبت میں) مبتلا ہے کہ میں اسے عافیت عطا فرمادوں۔ (سنن، حدیث نمبر: 1388) (۳۱)
مذکورہ بالا روایت درج ذیل کتب میں ذکرکی گئی ہے:
۱۔ شعب الإيمان للبیھقی: ۵/٣۵۴ (۳۵۴۲) ۵/۳۶۵، ط: مكتبة الرشد
۲۔ فضائل الاوقات للبیھقی: ۱۲۲(۲۴)،ط: مكتبة المنارة
۳۔ أخبار مکۃ للفاکھی:۳ /۶۶،(۱۸۰۴) ط: دارخضر
۴۔ الترغيب والترهيب للمنذری:۲ /۷۴، (۱۵۵۰) ط: دارالكتب العلمية
۵۔ الترغیب لأبی القاسم الأصبھانی: ۲ /۲۹۷، (۱۸۶۰) ط: دارالحديث
۶۔ الأمالي الخميسية للشجري: ۱ /۳۷۲،(۱۳۲۰) ط: دارالكتب العلمية

مذکورہ بالا روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت محدثین کے نزدیک ضعیف ہے، اس روایت کی سند میں ’’ابوبکر بن محمد بن ابی سبرۃ السبری المدنی‘‘ ایک راوی ہے، جن کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا: "یضع الحدیث و یکذب" یعنی حدیثیں گھڑتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔
ابن عدی نے کہا کہ ان کا شمار روایات گھڑنے والوں میں سے ہے۔
امام بخاری نے ان کو ایک مقام پر ضعیف اور ایک مقام پر منکر کہا ہے۔ امام نسائی نے متروک الحدیث کہا ہے۔
امام ذہبی نے ان کو حفظ کی جہت سے ضعیف کہا ہے، محدثین کی مذکورہ جرح کی وجہ سے بعض حضرات نے اس کو موضوع (من گھڑت) کہا ہے، لیکن اس کو موضوع نہیں کہا جاسکتا ہے۔(۳۳)
مذکورہ بالا روایت کے موضوع (من گھڑت) نہ ہونے کی وجوہات:
۱۔ اس روایت پر مذکورہ بالا جرح مبالغہ سے خالی نہیں ہے، کیونکہ حضرات محدثین کے یہاں یہ مسلم اصول ہے کہ جرح مبہم بلا سبب و تفصیل، اگر کسی محدث پر کی جائے، تو قابل قبول نہیں ہوتی ہے، جب تک کے اس جرح پر کوئی دلیل (جرح کا معقول و مفسر سبب) نہ پیش کی جائے۔(۳۴)
۲۔ اس روایت کے راوی "ابْنُ أَبِي سَبْرَةَ" کے متروک الحدیث، وضع الحدیث ہونے پر محدثین میں سے کسی نے بھی تفصیل اور سبب بیان نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ امام بخاری جیسے محدث نے "ابْنُ أَبِي سَبْرَةَ" کو صرف ضعیف کہا ہے اور امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ آپ حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف الحدیث ہیں، بلکہ امام ذہبی نے"ابْنُ أَبِي سَبْرَةَ" کا تذکرہ ہی تعریفی کلمات سے شروع فرمایا ہے:
ابو بكر إبن عبد الله إبن محمد بن أبي سبرة بڑے فقیہ، عراق کے قاضی ہیں ... (سيراعلام النبلاء للذهبي) (۳۵)
لہذا محدثین کی یہ جرح اتنی بڑی جرح نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے راوی کی روایت قابلِ رد ہو۔
۳۔ حافظ منذریؒ کا اس روایت کو اپنی کتاب "الترغیب و الترھیب"میں ذکر کرنا اس حدیث کے موضوع (من گھڑت) نہ ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ سے موطا امام مالک اور صحیحین کے علاوہ کتب احادیث کے بارے میں سوال کیا گیا، تو آپ نے جواب میں فرمایا: ’’اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ کوئی حدیث صحاح ستہ یا مسند احمد اور اسی طرح امام نووی کی تصانیف یا حافظ منذریؒ صاحبِ ترغیب وترھیب کی تصانیف میں موجود ہے، تو اس کو اطمینان سے بیان کرسکتے ہو، یعنی وہ موضوع نہیں ہوسکتی ہے۔‘‘(۳۶)

اور علامہ شوکانی نے بھی اس حدیث کے ضعیف ہونے کی صراحت کی ہے۔(۳۷)

۴۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں "ابْنُ أَبِي سَبْرَةَ" کے علاوہ باقی تمام رواة ثقہ اور قابل اعتماد ہیں، صرف "ابْنُ أَبِي سَبْرَةَ رحمة الله عليه" کو محدثین رحمہم اللہ نے قوت حافظہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے، لہذا اس حدیث کو زیادہ سے زیادہ ضعیف کہا جاسکتا ہے اور اس روایت کےچونکہ دیگر شواہد موجود ہیں، جو اس کے اصل (بنیاد ہونے) کے ثبوت پر دلالت کرنے والے ہیں، اس لئے اس روایت کو ضعف کی صراحت کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے، اور ضعیف روایت محدثین کے نزدیک فضائلِ اعمال میں قابل قبول ہے۔(۳۸)
خلاصہ کلام:
مذکورہ احادیث شریفہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ شبِ برأت ایک بابرکت اور عظمت والی رات ہے، اگرچہ شبِ برأت کے متعلق ذخیرہ احادیث میں جتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں، وہ ضعیف ہیں، مگر چونکہ یہ متعدد حدیثیں ہیں اور دس صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین (جن کے اسماء مبارکہ ماقبل میں ذکر ہوئے۔) سے مختلف سندوں سے روایت کی گئی ہیں لہذا یہ روایات کثرت طرق کی بناء پر حسن لغیرہ (قابل قبول) ہیں اور امت مسلمہ کا ابتدا سے اس پر عمل رہا ہے، چنانچہ مشہور غیرمقلد عالم “علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ ”سنن ترمذی کی شرح میں پندرھویں شعبان سے متعلق روایات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’پندرھویں شعبان کی فضیلت کے بارے میں متعدد روایات وارد ہیں، جن کا مجموعہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان روایات کی اصل موجود ہےاور یہ تمام حدیثیں مجموعی اعتبار سے اس شخص کے خلاف حجت ہیں،جس نے گمان کیا کہ پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت کے سلسلے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔‘‘(۳۹)
چنانچہ ان روایات کے پیشِ نظر اہلسنت والجماعت ہمیشہ سے شعبان کی پندرہویں شب یعنی شب براءت کی فضیلت و بزرگی کا اعتقاد رکھتے چلے آئے ہیں۔
علامہ ابن الحاج مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "اس رات کے بڑے فضائل ہیں اور بڑی خیر والی رات ہے، اور ہمارے اسلاف اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس رات کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے تھے." (۴۰)
علامہ علاؤالدین الحصکفی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں شب میں رات کو جاگ کر عبادت کرنا مستحب ہے۔(۴۱)
علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "شعبان کی پندرہویں رات کو بیدار رہنا مستحب ہے." (۴۲)
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ: "واقعہ یہ ہے کہ شب برأت کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے احادیث مروی ہیں، جن میں اس رات کی فضیلت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے، ان میں بعض احادیث سند کے اعتبار سے بے شک کچھ کمزور ہیں؛ ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماءنے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو، لیکن اس کی تائید بہت سی احادیث سے ہوجائے، تو اس کی کمزوری دور ہوجاتی ہے ۔۔۔ لہذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں، اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بالکل غلط ہے."
(اصلاحی خطبات، ج: ۴، ص:۲۵۸، ط: میمن اسلامک پبلشرز)
شب برأت میں کوئی خاص عبادت مقرر نہیں ہے۔
واضح رہے کہ شب برأت اگرچہ انتہائی فضیلت والی رات ہے اور فقہاء کرام رحمہم اللہ نے اس رات میں جاگ کر عبادت کرنے کو مستحب قرار دیا ہے، لیکن اس رات میں کوئی خاص عبادت مقرر نہیں ہے۔
"اس رات میں جاگنا، اس میں عبادت کرنا باعث اجر و ثواب ہے اور اس کی خصوصی اہمیت ہے، البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقہ سے عبادت کی جائے، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے، وہ اس رات میں انجام دی جائیں، نفلی نماز پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں، ذکر کریں، تسبیح پڑھیں، دعائیں کریں، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں، لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔
(اصلاحی خطبات، ج: ۴، ص: ۲۵۹،ط: میمن اسلامک پبلشرز)
شب برأت میں قبرستان جانا:
اس رات میں ایک اور عمل ہے، جو ایک روایت سے ثابت ہے، وہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے تھے، اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شب برأت میں قبرستان جائیں، لیکن جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہو، اسے اسی درجہ میں رکھنا چاہئے. اس سے آگے نہیں بڑھانا چاہئے. اور چونکہ ساری حیات طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دفعہ جنت البقیع میں جانا ثابت ہے، اس لئے اگر کوئی ایک دفعہ اس نیت سے چلاجائے تو ٹھیک ہے، لیکن ہر شب برأت میں جانے کا اہتمام کرنا، اس کو ضروری سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ اس کے بغیر شب برأت نہیں ہوئی، یہ اس کو اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے، لہذا اگر کبھی کوئی شخص اس نیت سے قبرستان چلا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تھے، لہذا میں بھی آپ علیہ السلام کی اتباع میں جارہا ہوں، تو ان شاء اللہ اجر و ثواب ملے گا، اس کے ساتھ کسی سال ناغہ بھی کرلیا جائے، ہر سال اہتمام کے ساتھ جانے کی پابندی نہ کی جائے، لیکن اس موقع پر قبرستان میں چراغاں کرنا، قوالیاں گانا، عورتوں اور مردوں کا مخلوط اجتماع یا اسی طرح کی خرافات و بدعات کرنا شرعا ناجائز ہے اور شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
(اصلاحی خطبات، ج: ۴، ص:۲۵۹، ط: میمن اسلامک پبلشرز)
پندرہ شعبان کا روزہ:
سارے ذخیرہ احادیث میں اس روزے کے بارے میں صرف ایک روایت میں ہے کہ شب برأت کے بعد والے دن روزہ رکھو (اس حدیث کی تخریج، اسنادی حیثیت ماقبل میں گزرچکی ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں)، اگرچہ یہ روایت ضعیف ہے، لیکن چونکہ فضیلت ضعیف روایت سے بھی ثابت ہوجاتی ہے اور یہ دن ایام بیض میں سے بھی ہیں (ایام بیض سے مراد ہر ماہ کی ۱۳، ۱۴، اور ۱۵ تاریخ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ ان تین دنوں میں روزہ رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے) اس لئے نفل روزے کی نیت سے پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا مستحب ہے، البتہ اس دن کے روزے کو باقاعدہ سنت قرار دینے سے پرہیز کرنا چاہئے۔
(اصلاحی خطبات، ج: ۴، ص: ۲۶۷، ط: میمن اسلامک پبلشرز)
شبِ برأت کی دعا:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ شعبان کی پندرہویں رات کو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے، جب آدھی رات ہوئی، تو میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر سےغائب پایا، مجھے وہ غیرت آگئی، جو عورتوں کو آجاتی ہے، لہذا میں نے اپنے آپ کو چادر میں لپیٹا، اللہ کی قسم نہ وہ خز کے ریشم کی تھی اور نہ قز کے ریشم کی، نہ باریک ریشم، نہ موٹے ریشم، نہ کپاس، اور نہ کتان کی تھی، ان سے پوچھا گیا کہ اے ام المؤمنین! وہ کس چیزکی تھی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اس کا تانا بالوں اور بانا اونٹوں کے پشم کا تھا، فرماتی ہیں کہ میں نے ان (حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کی عورتوں کے کمروں میں تلاش کیا، پھر میں اپنے کمرے کی طرف واپس لوٹ آئی، میں نے دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے محسوس ہوئے، جیسے زمین پر گرا ہوا بے حرکت کپڑا ہوتا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سجدے کی حالت میں کہہ رہے تھے: 

’’سَجَدَ لَكَ خَيَالِي وَسَوَادِي، وَآمَنَ بِكَ فُؤَادِي، فَهَذِهِ يَدِي وَمَا جَنَيْتُ بِهَا عَلَى نَفْسِي يَا عَظِيمُ يُرْجَى لِكُلِّ عَظِيمٍ، يَا عَظِيمُ اغْفِرِ الذَّنْبَ الْعَظِيمَ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلْقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ‘‘

یعنی اے اللہ! میرے خیال اور باطن نے تجھے سجدہ کیا، تجھ پر میرا دل ایمان لایا، یہ میرا ہاتھ ہے اور میں نے اس کے ذریعے اپنی جان پر ظلم نہیں کیا، اے عظیم! ہر عظیم سے امید باندھی جاتی ہے، اے عظیم! بڑے گناہوں کو بخش دے، میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا ،جس نے اس کی تخلیق کی اور اس کی سمع و بصر کی قوتوں کو جدا جدا بنایا۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سرِمبارک اٹھایا اور دوبارہ سجدے میں چلے گئے اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کرنے لگے:

"أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَأَعُوذُ بِعَفْوِكَ مِنْ عِقَابِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ، أَقُولُ كَمَا قَالَ أَخِي دَاوُدُ، أَعْفُرُ وَجْهِي فِي التُّرَابِ لِسَيِّدِي، وَحَقٌّ لَهُ أَنْ يُسْجَدَ"

یعنی میں تیری رضا کے ذریعے تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں، تیرے عفو کے ذریعے تیرے قہر سے پناہ مانگتا ہوں اور میں تیرے ذریعے تجھ ہی سے (یعنی تیری پکڑ سے) پناہ مانگتا ہوں، میں اس طرح تیری ثنا کا حق ادا نہیں کرسکتا، جیسا کہ تو نے خود اپنی ثنا بیان کی ہے، میں ویسا ہی کہتا ہوں، جیسے میرے بھائی حضرت داؤد نے کہا، میں اپنا چہرہ اپنے مالک کے سامنے خاک آلود کرتا ہوں، اور وہ حق دار ہے کہ اس کو سجدہ کیا جائے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سرِمبارک اٹھایا اور فرمایا:

"اللهُمَّ ارْزُقْنِي قَلْبًا تَقِيًّا مِنَ الشَّرِّ نَقِيًّا لَا جَافِيًا وَلَا شَقِيًّا"

یعنی "اے اللہ! مجھے ایسا دل عطا فرما، جو ہر شر سے پاک، صاف ہو، نہ بے وفا ہو اور نہ بدبخت ہو۔"
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹے اور میرے ساتھ کمبل میں داخل ہوگئے، میری سانس لمبی تھی، یعنی میں لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: حمیرا! یہ کیسی سانس ہے؟میں نے ان کو وہ بات بتائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے گھٹنوں پر پھیرتے ہوئے فرمایا کہ کیا ہیں یہ دو گھٹنے اور کیا ہے جو ان دو گھٹنوں نے اس رات میں پایا، یعنی نصف شعبان کی رات جس میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر اترتے ہیں، پھر مشرک اور (مسلمان بھائی سے) دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے.
(شعب الایمان للبیھقی، حدیث نمبر: 3557)
اس روایت کو علامہ بیھیقی نے شعب الایمان اور الدعوات الکبیر میں ذکر کیا ہے اور الدعوات الکبیر میں دو سندوں کے ساتھ روایت ذکر کی اور فرمایا: اس روایت کی سند میں بعض مجہول راوی ہیں اور اسی طرح اس سے پہلی والی روایت کی سند میں بھی ہیں، (لیکن)  اور جب ایک راویت دوسرے کے ساتھ مل جاتی ہے تو اسے قوت حاصل ہوجاتی ہے۔(الدعوات الكبيرللبيهیقي، حدیث نمبر: 530،531)(۴۳)
علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو ’’الأمالی المطلقۃ‘‘ میں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے. (حدیث غریب وہ ہے، جس کا راوی کہیں نہ کہیں ایک ہو۔)(۴۴)
اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں سوائے "سليمان بن أبي كريمہ" کے، ان پر جرح کی گئی ہے اور یہ روایت طوالت کے ساتھ "نضر بن كثير عن يحيى بن سعيد الأنصاري عن عروہ" کی طریق سے نقل کی گئی ہے اور اس کی تخریج امام بیھیقی نے فضائل الأوقات میں کی ہے، یحی بن کثیر پر بھی جرح کی گئی ہے، لیکن ان کی حالت سلیمان سے بہتر ہے۔
اس تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ اس روایت کو ضعف کی صراحت کے ساتھ بیان کرنے کی گنجائش ہے۔
۲۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرھما سے منقول ہے کہ وہ اس رات کو یہ دعا بطور خاص پڑھا کرتے تھے: 

"اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ کَتَبْنَا اَشْقِیَاء فَاَمْحُہ، وَاکْتُبْنَا سُعَدَاءَ وَاِنْ کُنْتَ کَتَبْنَا سُعَدَاءَ فَاثْبِتْنَا فَاِنَّکَ تَمْحُوْمَنْ تَشَاْءُ وَتُثْبِتُ عِنْدَکَ اُمُّ الْکِتَابُ۔" 

اے پروردگار! اگر تو نے (لوح محفوظ میں) ہمیں شقی لکھ رکھا ہے تو اسے مٹادے اور ہمیں سعید و نیک بخت لکھ دے اور اگر تو نے (لوح محفوظ میں) ہمیں سعید و نیک بخت لکھ رکھا ہے تو اسے قائم رکھ، بیشک جسے تو چاہے مٹائے اور جسے چاہے قائم رکھے اور تیرے ہی پاس امّ الکتاب (لوح محفوظ) ہے۔(۴۵)
شب برأت سے متعلق احادیث مبارکہ کا خلاصہ:
حضرت عثمان بن ابی العاص کی روایت میں "زانیہ" بھی آیا ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ کی ایک روایت میں ”مشرک، کینہ رکھنے والا، رشتہ داری توڑنے والا، ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے والا، ماں باپ کا نافرمان اور شراب کا عادی“ بھی آیا ہے اور بعض روایات میں عشّار، ساحر، کاہن، عرّاف اور طبلہ بجانے والا بھی آیا ہے۔ گویا احادیث شریفہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عام مغفرت کی اس مبارک رات میں چودہ (۱۴) قسم کے آدمیوں کی مغفرت نہیں ہوتی؛ لہٰذا ان لوگوں کو اپنے احوال کی اصلاح کرنی چاہئے: (۱) مشرک، کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہو (۲) بغیر کسی شرعی وجہ کے کسی سے کینہ اور دشمنی رکھنے والا (۳) اہل حق کی جماعت سے الگ رہنے والا (۴) زانی وزانیہ (۵) رشتے داری توڑنے والا (۶) ٹخنوں سے نیچے اپنا کپڑا لٹکانے والا (۷) ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا (۸) شراب یا کسی دوسری چیز کے ذریعے نشہ کرنے والا (۹) اپنا یا کسی دوسرے کا قاتل (۱۰) جبراً ٹیکس وصول کرنے والا (۱۱) جادوگر (۱۲) ہاتھوں کے نشانات وغیرہ دیکھ کر غیب کی خبریں بتانے والا (۱۳) ستاروں کو دیکھ کر یا فال کے ذریعے خبر دینے والا (۱۴) طبلہ اور باجا بجانے والا۔ (۴۶)
کیا شبِ برأت کی فضیلت قرآن کریم سے بھی ثابت ہے؟
شبِ برأت کی فضیلت کے متعلق ماقبل میں تفصیل سے روایات ذکرکی گئی ،اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ شبِ برأت کی فضیلت قرآن کریم سے بھی ثابت ہے یا نہیں، اس بارے میں علمائے کرام کی دو رائے ہیں:
جمہور مفسرین فرماتے ہیں کہ سورۃ دخان کی آیت نمبر: ۳ میں ’’لیلۃ مبارکۃ‘‘ سے ’’شبِ قدر’’ مراد ہے، جبکہ حضرت عکرمہ اور بعض دیگر مفسرین فرماتے ہیں کہ سورۃ دخان کی آیت نمبر: ۳ میں ’’لیلۃ مبارکۃ‘‘ سے "شبِ برأت" مراد ہے، مگر یہ بات درست نہیں ہے، اس لئے کہ سورۃ دخان کی اس آیت میں نزولِ قرآن کا ذکر ہے اور "شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن" اور ’’انا انزلنا فی لیلة القدر‘‘جیسی واضح نصوص سے یہ بات ثابت ہے کہ نزولِ قرآن رمضان کے مہینے میں لیلۃ القدر میں ہوا ہے، لہذا قرآن کی اس آیت میں اگر ’’لیلۃ مبارکۃ‘‘ سے شب برأت مراد ہو، تو اس کی فضیلت قرآن سے بھی ثابت ہوگی، ورنہ نہیں، اور چونکہ راجح تفسیر کے مطابق شب برأت مراد نہیں، اس لئے قرآن سے اس کی فضیلت کا ثبوت مشکل ہے۔(۴۷)
واضح رہے کہ قرآن کریم میں اس رات کا تذکرہ نہ ہونے سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ اس رات یعنی شبِ برأت کی کوئی فضیلت ہی ثابت نہیں ہے، کیونکہ شبِ برأت کی فضیلت احادیث مبارکہ سے ثابت ہے اور امت کے جلیل القدر علمائے کرام نے اس رات کی فضیلت کو تسلیم کیا ہے۔
کیا شب برأت فیصلے کی رات ہے؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتی ہیں کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے، اس رات یعنی شعبان کی پندرہویں رات میں کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے دریافت فرمایا: یا رسول اللہ! کیا ہوتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شب میں یہ ہوتا ہے کہ اس سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہیں، وہ سب لکھ دیئے جاتے ہیں، اور جتنے اس سال مرنے والے ہیں، وہ سب بھی اس رات لکھ دیئے جاتے ہیں، اور اس رات میں سب بندوں کے (سارے سال کے) اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی مقررہ روزی (مقررہ وقت) پر اترتی ہے." (الدعوات الکبیر للبیہیقي، حدیث نمبر: 530)
حضرت عثمان بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (زمین پر بسنے والوں کی)عمریں ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک طے کی جاتی ہیں، یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں، حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں داخل ہوچکا ہوتا ہے۔ (شعب الإیمان للبیہیقي، حدیث نمبر: 3558)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ماہِ شعبان میں اس کثرت سے روزے کیوں رکھتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: اس مہینے میں ہر اس شخص کا نام ملک الموت کے حوالے کردیا جاتا ہے، جن کی روحیں اس سال میں قبض کی جائیں گی، لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا نام اس حال میں حوالے کیا جائے کہ میں روزے دار ہوں۔ (عمدۃ القاری) (۴۸)
ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ پندرہ شعبان کی رات میں قضاء و قدر، پیدائش اور موت وغیرہ کے فیصلے لکھے جاتے ہیں، جبکہ سورۃ دخان کی آیت اور کئی احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ فیصلوں کی رات شبِ قدر ہے، جو رمضان المبارک میں ہوتی ہے، لہذا ان روایات کا کیا مطلب ہے؟
علمائے کرام نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ شب برأت میں ہر کام کا فیصلہ لکھا جاتا ہے اور فرشتوں کے حوالہ کیا جاتا ہے، مگر نفاذ لیلۃ القدر سے ہوتا ہے، اس لئے دونوں راتوں کو فیصلہ کی رات کہنا درست ہے، چنانچہ ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ شعبان کی درمیانی شب میں فیصلے واقع ہوتے ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے، ہاں! اختلاف اس میں ہے کہ آیت سے یہ مراد ہے یا نہیں؟ صحیح یہ ہے کہ آیت سے یہ مراد نہیں؟ غرض حدیث اور آیت سے دونوں راتوں (لیلۃ البرأت) میں فیصلوں کا ہونا معلوم ہوتا ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ ایک رات میں اجمالا ً اور دوسری میں تفصیلاً فیصلوں کا وقوع ہو، یا ایک رات میں دنیوی امور کے اور دوسری میں اخروی امور کے فیصلے ہوتے ہوں۔(۴۹)
شیخ عبداللہ الغماری نے ’’حسن البیان فی لیلۃ النصف من شعبان‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ تمام امور کے فیصلے تو شبِ برأت میں ہوتے ہیں اور جن فرشتوں نے ان امور کو انجام دینا ہوتا ہے، ان کے سپرد رمضان کی ستائیسویں شب (لیلۃ القدر) میں کئے جاتے ہیں۔ اس روایت سے دونوں باتوں میں تطبیق ہوجاتی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالی شعبان کی پندرہویں رات کو لوح محفوظ میں جو فیصلے چاہتے ہیں، لکھ دیتے ہیں، پھر جب شب ِقدر ہوتی ہے تو جن فرشتوں نے ان امور کو انجام دینا ہوتا ہے، ان کے سپرد کردیتے جاتے ہیں، چنانچہ مُردوں سے متعلق رجسٹر ملک الموت کے حوالہ کیا جاتا ہے اور رزق کے رجسٹر ملک الرزق کے حوالے کیا جاتا ہے، اس طرح ہر فرشتے کو اس سے متعلق کام حوالہ کردیا جاتا ہے اور اسی کی طرف اللہ تعالی کے فرمان ’’فیھا یفرق امرحکیم‘‘ (اسی رات میں ہر حکیمانہ معاملہ ہمارے حکم سے طے کیا جاتا ہے۔) میں اشارہ ہے، پس آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ لیلۃ القدر میں فیصلے مقررہ فرشتوں کو تقسیم کرکے حوالے کردیئےجاتے ہیں، البتہ ان فیصلوں کا لکھنا اور اس کی تجویز، وہ شعبان کی پندرہویں رات کو ہوچکی ہوتی ہے، اس طرح آیت اور حدیث میں تطبیق ہوجاتی ہے.(۵۰)

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ "احکام شب برأت و شب ِقدر" میں لکھتے ہیں:
شب برأت اور لیلۃ القدر کیا دونوں راتوں میں فیصلے ہوتے ہیں؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شب برأت میں واقعات کا فیصلہ ہونا احادیث سے ثابت ہے، پھر وہ کون سے واقعات ہیں، جن کا فیصلہ ہونا شبِ قدر میں باقی رہا؟ پھر یہ کہ شب برأت میں ایک سال کے واقعات کا فیصلہ ہونا حدیثوں میں آیا ہے اور شب قدر سال گزرنے سے پہلے رمضان میں آجاتی ہے تو اس میں کیا مکرر (دوبارہ) فیصلہ ہوتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں دو صورتیں نکلتی ہیں کیونکہ عادۃ ہر فیصلہ کے دو درجے ہوتے ہیں. ایک تجویز (خاکہ) ایک نفاذ (آرڈر) پس یہاں بھی دو مرتبے ہوسکتے ہیں، مطلب یہ کہ تجویز تو شب برأت میں ہوجاتی ہے اور نفاذ لیلۃ القدر میں ہوتا ہے اور ان میں کسی قدر فاصلہ ہونا بعید نہیں (ایسا ہوتا رہتا ہے۔) تجویز قدرت کو کہتے ہیں اور حکم کے نافذ کردینے کو قضاء کہتے ہیں، ممکن ہے شب برأت میں تجویز ہوتی ہو اور لیلۃ القدر میں اس کا نفاذ ہوتا ہو۔(۵۰)
شب ِ برأت کی بدعات اور رسومات:
شبِ برأت میں اجتماعی عبادت کا اہتمام:
جیسے ذکر ہوا کہ پندرھویں شعبان کی فضیلت کے بارے میں متعدد روایات وارد ہیں اور اس رات میں عبادت کرنا بھی مستحب ہے، لیکن اس کے لئے مساجد میں اجتماعات منعقد کرنا بدعت اور ناجائز ہے، فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’مراقی الفلاح شرح نور الایضاح‘‘ میں ہے:
"رمضان کی آخری دس راتوں، عیدین کی رات، ذوالحجہ کی پہلی دس راتوں اور نصف شعبان کی رات کو زندہ رکھنا مستحب ہے، لیکن ان میں سے کسی بھی رات مساجد وغیرہ میں اجتماع کرنا ناپسندیدہ ہے، کیونکہ نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے، بلکہ اکثر علماء حجاز اور فقہائے مدینہ نے اس کا انکار کرتے ہوئے اسے بدعت قرار دیا۔(۵۱)
شب برأت اور حلوہ:
ویسے تو سارے سال میں کسی دن بھی حلوہ پکانا جائز اور حلال ہے، جس کا جب دل چاہے پکاکر کھالے، لیکن خاص شب براءت میں حلوہ بنانے کا اس قدر اہتمام کرنا (کہ فرائض و واجبات کو ادا کرنے کا اس قدر اہتمام نہیں ہوتا، جتنا حلوہ بنانے کا اہتمام ہوتا ہے) درست نہیں اور بدعت ہے، نہ قرآن میں اس کا ثبوت ہے اور نہ حدیث میں اس بارے میں کوئی روایت ہے، نہ صحابہ کے آثار ہیں اور نہ ہی تابعین اور بزرگان دین کے عمل میں اس کا کہیں کوئی تذکرہ ہے، بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک جب شہید ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلوہ نوش فرمایا تھا، یہ بات بالکل من گھڑت اور بے اصل ہے، کیونکہ دندانِ مبارک کی شہادت کا واقعہ غزوۂ احد ماہِ شوال ۳ھ میں پیش آیا تھا. (۵۲)، جبکہ حلوہ شعبان میں پکایا جاتا ہے، اب خود سوچئے کہ کس قدر بے ہودہ اور باطل خیال ہے کہ دانت ٹوٹنے کی تکلیف ماہِ شوال میں اور حلوہ دس مہینے بعد شعبان میں کھایا گیا، لہذا اس قسم کی فضولیات اور بدعات سے بچنا چاہئے۔(۵۳)
شب برأت میں نوافل کی باجماعت نماز:
اس رات میں نوافل کی باجماعت نماز کی ادائیگی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے، جن میں سرفہرست صلاة التسبیح کی باجماعت ادائیگی ہے، اس حوالے سے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ شریعت نے عبادت کو جس انداز میں ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اسے ویسے ہی ادا کرنا چاہئے. شریعت نے نماز پنج گانہ اور جمعہ وعیدین وغیرہ کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن نوافل کو انفراداً ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اس لئے کسی نفلی نماز کو (خواہ صلوة التسبیح ہو یا کوئی اور) جماعت سے ادا کرنا منشائے شریعت کے خلاف ہے، اس لئے حضرات فقہاء نے نفل نماز کی جماعت کو (جبکہ مقتدی دو سے زیادہ ہوں) مکروہ لکھا ہے اور خاص راتوں میں اجتماعی نماز ادا کرنے کو بدعت قرار دیا ہے، لہذا شب برأت میں (یا کسی اور خاص رات میں) اجتماعی نوافل ادا کرنا بدعت ہے۔(۵۴)
شب ِ برأت کے مخصوص نوافل کا حکم:
بعض لوگ شبِ برأت میں ایک مخصوص نمازجماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں، جس میں سو رکعات اس طرح پڑھی جاتی ہیں کہ ہر رکعت میں دس، دس مرتبہ سورۃ اخلاص یعنی "قل ھو اللہ احد" پڑھی جاتی ہے ۔
واضح رہے کہ اس قسم کی نمازوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور اس قسم کی نمازوں کی فضیلت میں پیش کی جانے والی روایات موضوع (من گھڑت) ہیں۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: پندرہویں شعبان کی شب کو نماز الفیہ پڑھی جاتی ہے ۔ ۔۔۔اس کے بارے میں نہ کوئی صحیح حدیث ثابت ہے، نہ کسی صحابی و تابعی کا کوئی مضبوط ارشاد ہی منقول ہے الاّ یہ کہ اس سلسلے میں ضعیف اور موضوع روایتیں ضرور نقل کی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔ عوام اس نماز کی وجہ سے زیادہ فتنوں میں مبتلا ہوچکے ہیں، یہاں تک کہ اس نماز کی ادائیگی کے وقت روشنی و چراغاں کو ضروری قرار دے دیا گیا، جس کی وجہ سے اکثر فسق وفجور کے کام صادر ہونے لگے، ان کاموں کی وجہ سے بہت سے اولیاء اللہ ڈرے کہ کہیں اللہ کا کوئی عذاب نازل نہ ہوجائے چنانچہ وہ اتنے زیادہ خوف زدہ اور پریشان ہوئے کہ وہ آبادیوں کو چھوڑکر اور عبادت الٰہی کی آڑ میں ہونے والے فسق و فجور سے منہ موڑ کر جنگلوں میں چلے گئے۔(۵۵)
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حیرت ہے کہ کوئی شخص سنت کی خوشبو پاتا ہو، اور پھر بھی اس قسم کی فضول باتوں سے دھوکہ کھائے اور اس نماز کو پڑھے، یہ نماز چار سو سال بعد بیت المقدس کے علاقے میں ایجاد ہوئی اور پھر اس کے بارے بہت سی روایات گھڑی گئیں۔(۵۶)
چراغاں کرنا:
شبِ برأت کے موقع پر بعض لوگ مساجد، گھر اور قبرستان میں چراغاں کرتے ہیں، یہ چند وجوہ کی بناء پر ناجائز ہے:
۱۔ غیرمسلموں کے تہوار "دیوالی" کی نقل اور مشابہت ہے، علامہ بدرالدین عینی نے لکھا ہے کہ:
چراغاں کی رسم کا آغاز یحییٰ بن خالد برمکی سے ہوا ہے، جو اصلاً آتش پرست تھا، جب وہ اسلام لایا، تو ملمّع سازی کرکے ان رسوم کو اسلام میں داخل کردیا اور پھر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس کو مذہبی رنگ دے دیاگیا۔(۵۷)
۲۔ اسراف اور فضول خرچی ہے اور مسجد کی بجلی کا ناجائز استعمال ہے، علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
مسجد کے عام معمول سے زیادہ روشنی کا انتظام کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ یہ اسراف ہے، اور شبِ برأت میں گلیوں اور بازاروں میں زیادہ چراغاں کرنا، اسی طرح مساجد میں بھی چراغاں کرنا بدعت ہے۔(۵۸)
آتش بازی:
شب برأت کی مروجہ بدعات اور خرافات میں سے "آتش بازی" بھی ہے، جو انتہائی بری، غیرمعقول اور خطرناک بدعت ہے، اور کئی گناہوں کا مجموعہ ہے۔
۱ ۔ آتش بازی محض اسراف وفضول خرچی ہے، ارشادِ خداوندی ہے: بے شک فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں۔ (سورہ بنی اسرائیل: آیت نمبر: 27)
۲۔ آتش بازی میں کفار ومشرکین کی مشابہت ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی قوم سے مشابہت اور ان کے طور طریقے اختیار کرے گا، تو اس کا شمار انہیں میں ہوگا۔(۵۹)
شبِ برأت میں معافی کے پیغامات بھیجنے کی شرعی حیثیت:
شبِ برأت کی آمد کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے معافی مانگنے کے پیغامات کا ایک طویل سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے اور یہ میسجز اس لئے بھیجے جاتے ہیں کہ حدیث شریف کے مطابق اس رات اللہ تعالی بہت سے مسلمانوں کی بخشش فرماتے ہیں، البتہ رشتہ توڑنے والے اور مسلمان سے دشمنی رکھنے والے محروم رہتے ہیں، اس حدیث کے پیشِ نظر آپس کی ناراضگی دور کرکے ایک دوسرے سے معافی مانگنی چاہئے، تاکہ شبِ برأت کی فضیلت حاصل ہو اور اس رات مغفرت سے محرومی نہ ہو، لیکن یہ معافی محض رسمی نہ ہو، اس لئے کہ اس طرح کے معافی نامہ بھیجنے سے عام طور پر خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا، کیونکہ بھیجنے والا بھی اس طرح کا معافی نامہ بطور ایک رسم کے بھیجتا ہے، چنانچہ یہ میسج ہر ایک کو بھیج دیا جاتا ہے، اس کا مقصود حقیقت میں معافی مانگنا نہیں ہوتا، اور جس کو بھیجا جاتا ہے، اسے بھی پتہ ہوتا ہے کہ معافی نامہ بھیجنے والے کا مقصد معافی وغیرہ مانگنا نہیں ہے، بلکہ ایک رسم کی ادائیگی ہے، اس لئے اس طرح کے میسج بھیجنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے، جس کسی کو ناراض کیا ہوا، اس سے دل سے معافی مانگ کر اس کو راضی کرنا چاہئے اور اگر اس کا کوئی حق دبایا ہو، تو اس کو اد اکیا جائے اور اگر حق ادا کرنے کی قدرت نہ ہو تو صاحبِ حق سے عاجزی اور ندامت کے ساتھ معاف کروایا جائے اور اس طرح معافی مانگنا مفید ہے، لیکن صرف بطوررسم ہر ایک کو معافی نامہ بھیجنے سے معافی کی اہمیت اور اثر باقی نہیں رہتا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ معاف کرنے اور معافی مانگنے کے لئے شریعت میں کوئی دن مخصوص نہیں ہے، بلکہ جس وقت غلطی ہو، اسی وقت معافی مانگ لینی چاہئے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اس عظیم الشان مہینے کی برکتوں سے خوب مالا مال فرمائے، اور اس ماہ مبارک میں بدعات و خرافات سے بچائے اور اس مہینے کی قدر کرنے اور اس میں خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:
(1) تفسیر ابن کثیر: (196/4، ط: مؤسسة قرطبة)
شعبان: من تشعب القبائل وتفرقها للغارة ويجمع على شَعَابين وشَعْبانات
(2) عمدة القاري: (116/11، ط: دارالکتب العلمیة)
واشتقاق شعبان من الشعب، وهو الاجتماع، سمي به لأنه يتشعب فيه خير كثير كرمضان، وقيل: لأنهم كانوا يتشعبون فيه بعد التفرقة، ويجمع على: شعابين، وشعبانات، وقال ابن دريد: سمي بذلك لتشعبهم فيه، أي: لتفرقهم في طلب المياه. وفي (المحكم) سمي بذلك لتشعبهم في الغارات، وقال ثعلب: قال بعضهم: إنما سمي شعبانا لأنه: شعب، أي: ظهر بين رمضان ورجب، وعن ثعلب: كان شعبان شهرا تتشعب فيه القبائل، أي تتفرق لقصد الملوك والتماس العطية۔
(3) تخريج الحديث:
أخرجه البزار في "مسنده: (117/13، رقم الحدیث: 6496، ط: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة) و ابن أحمد في "زوائد المسند: (180/4، رقم الحدیث: 2346) و الطبراني في "معجمه الأوسط: (189/4، رقم الحدیث: 3939) و البيهقي في "شعب الإيمان: (348/5، رقم الحدیث: 3534) و في "فضائل الأقات: (ص: 98، رقم الحدیث: 14) و أبو نعيم في "حلية الأولیاء: (269/6، ط: السعادة)
كلهم من طريق زائدة بن أبي الرقاد، عن زياد النميري، عن أنس.
(4) بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني: (231/9، ط: دار احیاء التراث العربي)
دعاء النبى صلى الله عليه وسلم بالبركة فى هذه الأشهر الثلاثة يدل على فضلها.
(5) مجمع الزوائد للھیثمي: (375/2، ط: دار الفکر)
وعن أنس أن النبي صلى الله عليه و سلم كان إذا دخل رجب قال : اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان وكان إذا كان ليلة الجمعة قال: "هذه ليلة غراء ويوم أزهر " رواه البزار وفيه زائدة بن أبي الرقاد قال البخاري : منكر الحديث وجهله جماعة –
و فیه ایضاً: (340/3، ط: دارالفکر)
عن أنس قال: كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا دخل رجب قال:اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان رواه البزار والطبراني في الأوسط وفيه زائدة بن أبي الرقاد وفيه كلام وقد وثق
تبيين العجب بما ورد في فضل رجب للحافظ ابن حجر العسقلانی: (ط: مؤسسة قرطبة)
قال أبو بكر البزار في مسنده، حدثنا أحمد بن مالك القشيري، أنبأنا زائدة بن أبي الرقاد عن زياد النميري، عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا دخل رجب قال: "اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان.".
أخبرناه أبوالحسن بن أبي المجد، أخبرنا سليمان بن حمزة، وعيسى بن معالي. إجازة، قالا: أنبأنا جعفر بن علي الهمداني، أنبأنا الحافظ أبو طاهر السلفي، حدثنا أبو بكر محمد بن أحمد بن عبدالواحد، حدثنا أبوالقاسم بن بشران، حدثنا أبوبكر: محمد بن إسماعيل الوراق، حدثنا عبدالله بن محمد بن عبدالعزيز، هو البغوي، حدثنا عبد الله بن عمر القواريري، حدثنا زائدة بن أبي الرقاد، عن زياد النميري عن أنس رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل رجب قال: " اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان."
ورواه الطبراني في الأوسط، ومن حديث زائدة. وقال: لا يروى عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا بهذا الإسناد. وتفرد به زائدة.
ورواه البيهقي في فضائل الأوقات عن القواريري، وعن زائدة. قال: تفرد به زائدة، عن زياد، وهو حديث ليس بالقوي.
ورواه يوسف القاضي في كتاب الصيام، عن محمد بن أبي بكر المقدمي عن زائدة به.
قلت:
وزائدة بن أبي الرقاد، روى عنه جماعة، وقال فيه أبو حاتم يحدث عن زياد النميري، عن أنس أحاديث مرفوعة، منكرة. فلا يدرى منه، أو من زياد، ولا أعلم روى عن غير زياد، فكنا نعتبر بحديثه. وقال البخاري: منكر الحديث. وقال النسائي: بعد أن أخرج له حديثا في السنن: لا أدري من هو. وقال في الضعفاء: منكر الحديث (و) في الكني: ليس بثقة. وقال ابن حبان لا يحتج بخبره.
شعب الإيمان للبيهقي: (349/5، ط: مکتبة الرشد)
تفرد به زياد النميري، وعنه زائدة بن أبي الرقاد "، قال البخاري: زائدة بن أبي الرقاد، عن زياد النميري منكر الحديث
(6) تذكرة الموضوعات لمحمد طاہر الفتني: (ص: 117، ط: ادارة الطباعة المنیریة)
نعم روي بإسناد ضعيف «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا دخل رجب قال: اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان» ويجوز العمل في الفضائل بالضعيف.
الفتح الرباني للساعاتي: (231/9، ط: داراحیاء التراث العربي)
أورده الهيثمى وعزاه للبزار والطبرانى فى الأوسط عن أنس مرفوعا بلفظ "كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا دخل رجب قال اللهم بارك لنا فى رجب وشعبان وبلغنا رمضان، قال الهيثمى وفيه زائدة بن أبى الرقاد وفيه كلام وقد وثق (قلت) وفى حديث الباب زياد النميرى أيضا ضعيف، وأورده الحافظ السيوطى فى الجامع الصغير وعزاه للبيهقى فى شعب الأيمان وابن عساكر، وأشار الى ضعفه، وله طرق أخرى يقوى بعضها بعضا. والله أعلم.
الموسوعة الفقھیة الکویتیة: (161/32، ط: دارالسلاسل)
قال العلماء: يجوز العمل بالحديث الضعيف بشروط، منها:
أ - أن لا يكون شديد الضعف، فإذا كان شديد الضعف ككون الراوي كذابا، أو فاحش الغلط، فلا يجوز العمل به.
ب - أن لا يتعلق بصفات الله تعالى ولا بأمر من أمور العقيدة، ولا بحكم من أحكام الشريعة من الحلال والحرام ونحوها.
ج - أن يندرج تحت أصل عام من أصول الشريعة.
د - أن لا يعتقد عند العمل به ثبوته، بل يعتقد الاحتياط
(7) سنن ابي داؤد: (رقم الحدیث: 2325، 298/2، ط: المکتبة العصریة)
عن عبدالله بن أبي قيس، قال: سمعت عائشة رضي الله عنها تقول: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتحفظ من شعبان ما لا يتحفظ من غيره، ثم يصوم لرؤية رمضان، فإن غم عليه عد ثلاثين يوما ثم صام»
تخریج حدیث:
أخرجه البيهقى في السنن الكبرى: (347/4، رقم الحدیث: 7939، ط: دار الكتب العلمية) و دار قطني في سننه: (98/3، رقم الحدیث: 214، ط: مؤسسة الرسالة) و احمد في مسنده: (82/42، رقم الحدیث: 25161، ط: مؤسسة الرسالة) و الحاكم في مستدركه: (585/1، رقم الحدیث: 1540، ط: دار الكتب العلمية) و ابن خزيمة صحيحه: (203/3، رقم الحدیث: 1910، ط: المكتب الاسلامي) و ابن حبان في صحيحه: (228/8، رقم الحدیث: 3444، ط: مؤسسة الرسالة)
(8) سنن الترمذي: (رقم الحدیث: 687، 64/2، ط: دار الغرب الاسلامي)
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أحصوا هلال شعبان لرمضان»
تخریج حدیث:
أخرجه البيهقى في السنن الكبرى: (347/4، رقم الحدیث: 7940، ط: دار الكتب العلمية) الحاكم في مستدركه: (578/1، رقم الحدیث: 1548، ط: دار الكتب العلمية) دار قطني في سننه: (162/2، رقم الحدیث: 28، ط: دار المعرفة)
(9) سنن النسائي: (رقم الحدیث: 2357- 2358، 201/4، ط: مکتب المطبوعات الاسلامیة)
أخبرنا عمرو بن علي، عن عبدالرحمن، قال: حدثنا ثابت بن قيس أبو الغصن، شيخ من أهل المدينة، قال: حدثني أبوسعيد المقبري، قال: حدثني أسامة بن زيد، قال: قلت: يا رسول الله، لم أرك تصوم شهرا من الشهور ما تصوم من شعبان، قال: «ذلك شهر يغفل الناس عنه بين رجب ورمضان، وهو شهر ترفع فيه الأعمال إلى رب العالمين، فأحب أن يرفع عملي وأنا صائم»
(تخریج حدیث:)
أخرجه ابن ابي شيبة في مصنفه: (346/2، رقم الحدیث: 9765، ط: مكتبة الرشد) و في مسنده: (127/2، رقم الحدیث: 166، ط: دار الوطن) و احمد في مسنده: (36/75، رقم الحدیث: 21753) و البزار في مسنده: (69/7، رقم الحدیث: 2617، ط: مكتبة العلوم و الحكم) و ابونعيم الاصبهاني في حلية الاولياء: (17/9، ط: دار الكتاب العربي) و البيهقي في شعب الإيمان: (352/3، رقم الحدیث: 3540۔ 3586، ط: مكتبة الرشد) و في فضائل الاوقات :(21۔ 115، ط: مكتبة المنارة) والنسائی فى السنن الكبرى: (176/3، رقم الحدیث: 2678۔ 2679، ط: مؤسسة الرسالة) و في سننه الصغرى: (201/4، رقم الحدیث: 2357۔ 2358، ط: مكتب المطبوعات الاسلامية) و البغوى في مسند اسامه بن زيد: (48۔ 123، دار الضياء) امالي المحاملي: (416، رقم الحدیث: 485۔ 486، ط: المكتبة الاسلامية)
سنن ابي داؤد: (رقم الحدیث: 2431، 323/2، ط: المکتبة العصریة)
عن عبد الله بن أبى قيس سمع عائشة تقول كان أحب الشهور إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم- أن يصومه شعبان ثم يصله برمضان.
صحیح البخاري: (رقم الحدیث: 1969، 38/3، ط: دار طوق النجاة)
عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يصوم حتى نقول: لا يفطر، ويفطر حتى نقول: لا يصوم، فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم استكمل صيام شهر إلا رمضان، وما رأيته أكثر صياما منه في شعبان "

صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 1156، 811/2، ط: دار احیاء التراث العربي)
عن عائشة رضي الله عنها، قالت: لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الشهر من السنة أكثر صياما منه في شعبان ۔
(10) عمدة القاري لبدر الدين العينى: (119/11، ط: دار الکتب العلمیة)
فإن قلت: ما وجه تخصيصه شعبان بكثرة الصوم؟ قلت: لكون أعمال العبادة ترفع فيه. ففي النسائي من حديث أسامة (قلت: يا رسول الله {أراك لا تصوم من شهر من الشهور ما تصوم من شعبان؟ قال: ذاك شهر ترفع فيه الأعمال إلى رب العالمين فأحب أن يرفع عملي وأنا صائم) . وروي عن عائشة، رضي الله تعالى عنها، أنها (قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لي أراك تكثر صيامك فيه؟ قال: يا عائشة} إنه شهر ينسخ فيه ملك الموت من يقبض، وأنا أحب أن لا ينسخ إسمي إلا وأنا صائم) . قال المحب الطبري: غريب من حديث هشام بن عروة بهذا اللفظ، رواه ابن أبي الفوارس في أصول أبي الحسن الحمامي عن شيوخه، وعن حاتم بن إسماعيل عن نصر بن كثير عن يحيى بن سعيد عن عروة (عن عائشة، قالت: لما كانت ليلة النصف من شعبان انسل رسول الله صلى الله عليه وسلم من مرطي) الحديث. وفي آخره: (هل تدري ما في هذه الليلة؟ قالت: ما فيها يا رسول الله؟ قال: فيها أن يكتب كل مولود من بني آدم في هذه السنة. وفيها أن يكتب كل هالك من بني آدم في هذه السنة، وفيها ترفع أعمالهم، وفيها: تنزل أرزاقهم) . رواه البيهقي في كتاب (الأدعية) وقال: فيه بعض من يجهل. وروى الترمذي من حديث صدقة بن موسى عن ثابت عن أنس، رضي الله تعالى عنه: (سئل رسول الله، صلى الله عليه وسلم، أي الصوم أفضل بعد رمضان؟ قال: شعبان، لتعظيم رمضان. وسئل: أي الصدقة أفضل؟ قال: صدقة في رمضان) . ثم قال: حديث غريب، وصدقة ليس عندهم بذاك القوي، وقد روي أن هذا الصيام كان لأنه كان يلتزم صوم ثلاثة أيام من كل شهر، كما قال ابن عمر، فربما يشتغل عن صيامها أشهرا فيجمع ذلك كله في شعبان، فيتداركه قبل رمضان، حكاه ابن بطال، وقال الداودي: أرى الإكثار فيه أنه ينقطع عنه التطوع برمضان، وقيل: يجوز أنه كان يصوم صوم داود عليه السلام، فيبقى عليه بقية يعملها في هذا الشهر.
وجمع المحب الطبري فيه ستة أقوال: أحدها: أنه كان يلتزم صوم ثلاثة أيام من كل شهر، فربما تركها فيتداركها فيه. ثانيها: تعظيما لرمضان. ثالثها: أنه ترفع فيه الأعمال. رابعها: لأنه يغفل عنه الناس. خامسها: لأنه تنسخ فيه الآجال. سادسها: أن نساءه كن يصمن فيه ما فاتهن من الحيض فيتشاغل عنه به، والحكمة في كونه لم يستكمل غير رمضان لئلا يظن وجوبه۔
فتح الباري لابن الحجر: (214/4، ط: دارالمعرفة)
واختلف في الحكمة في اكثاره صلى الله عليه و سلم من صوم شعبان فقيل كان يشتغل عن صوم الثلاثة أيام من كل شهر لسفر أو غيره فتجتمع فيقضيها في شعبان أشار إلى ذلك بن بطال وفيه حديث ضعيف أخرجه الطبراني في الأوسط من طريق بن أبي ليلى عن أخيه عيسى عن أبيه عن عائشة كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يصوم ثلاثة أيام من كل شهر فربما أخر ذلك حتى يجتمع عليه صوم السنة فيصوم شعبان وبن أبي ليلى ضعيف وحديث الباب والذي بعده دال على ضعف ما رواه وقيل كان يصنع ذلك لتعظيم رمضان وورد فيه حديث آخر أخرجه الترمذي من طريق صدقة بن موسى عن ثابت عن أنس قال سئل النبي صلى الله عليه و سلم أي الصوم أفضل بعد رمضان قال شعبان لتعظيم رمضان قال الترمذي حديث غريب وصدقة عندهم ليس بذاك القوي قلت ويعارضه ما رواه مسلم من حديث أبي هريرة مرفوعا أفضل الصوم بعد رمضان صوم المحرم وقيل الحكمة في إكثاره من الصيام في شعبان دون غيره أن نساءه كن يقضين ما عليهن من رمضان في شعبان وهذا عكس ما تقدم في الحكمة في كونهن كن يؤخرن قضاء رمضان إلى شعبان لأنه ورد فيه أن ذلك لكونهن كن يشتغلن معه صلى الله عليه و سلم عن الصوم وقيل الحكمة في ذلك أنه يعقبه رمضان وصومه مفترض وكان يكثر من الصوم في شعبان قدر ما يصوم في شهرين غيره لما يفوته من التطوع بذلك في أيام رمضان والأولى في ذلك ما جاء في حديث أصح مما مضى أخرجه النسائي وأبو داود وصححه بن خزيمة عن أسامة بن زيد قال قلت يا رسول الله لم أرك تصوم من شهر من الشهور ما تصوم من شعبان قال ذلك شهر يغفل الناس عنه بين رجب ورمضان وهو شهر ترفع فيه الأعمال إلى رب العالمين فأحب أن يرفع عملي وأنا صائم ونحوه من حديث عائشة عند أبي يعلى لكن قال فيه إن الله يكتب كل نفس ميته تلك السنة فأحب أن يأتيني أجلي وأنا صائم
نیل الأوطار للشوکاني: (331/4، ط: وزارة الشؤون الاسلامیة السعودیة)
(11) ترتیب الأمالي الخمیسة للشجري: (رقم الحدیث: 1908، 147/2، ط: دارالکتب العلمیة)
عن عائشة، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم "يصوم حتى نقول لا يفطر، ويفطر حتى نقول لا يصوم ، وكان أكثر صيامه في شعبان، فقلت: يا رسول الله، مالي أرى أكثر صيامك في شعبان؟ فقال: يا عائشة، إنه شهر ينسخ الملك من يقبض، وأنا أحب أن لا ينسخ اسمي ، إلا وأنا صائم"
مسند أبی یعلی الموصلي: (رقم الحدیث: 4911، 311/8، ط: دارالمأمون للتراث)
عمدة القاري لبدر الدین العیني: (119/11، ط: دار الکتب العلمیة)
(12) سنن الترمذي: (رقم الحدیث: 683، 45/2، ط: دارالغرب الاسلامي)
عن أنس قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم: أي الصوم أفضل بعد رمضان؟ فقال: «شعبان لتعظيم رمضان»، قيل: فأي الصدقة أفضل؟ قال: «صدقة في رمضان»
تخریج حدیث:
أخرجه البیہقی فی شعب الایمان: (352/5، رقم الحدیث: 3539، ط: مكتبة الرشد) و فی السنن الكبرى: (503/4، رقم الحدیث: 8517، ط: دار الكتب العلمية) و فی فضائل الاوقات: (20۔ 114، مكتبة المنارة) و ابن أبي شيبة فی مصنفہ: (346/2، رقم الحدیث: 9763، ط: مكتبة الرشد) و ابو يعلي الموصلي فی مندہ: (154/6، رقم الحدیث: 3431، ط: دار المامون التراث)
(13) كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يصوم ثلاثة أيام من كل شهر فربما أخر ذلك حتى يجتمع عليه صوم السنة فيصوم شعبان۔ قال الهيثمي (192/3، 5161، ط: مکتبة القدسی) فيه: محمد بن أبي ليلى، وفيه كلام، وقال الحافظ في "فتح الباري: (124/4، ط: دارالمعرفة) مشيرا إلى ضعفه، وفيه حديث ضعيف أخرجه الطبراني في "الأوسط" من طريق ابن أبي ليلى، وهو ضعيف. و قال الشوکانی فی ’’نیل الأوطار‘‘: (331/4، ط: وزارۃ الشؤن الاسلامیۃ السعودیۃ) ولكن في إسناده ابن أبي ليلى وهو ضعيف. أخرجہ الطبراني في معجمه الأوسط: (320/2، 2098)
(14) الفتاوي الھندیة: (202/1، ط: دارالفکر)
المرغوبات من الصيام أنواع) أولها صوم المحرم والثاني صوم رجب والثالث صوم شعبان وصوم عاشوراء، وهو اليوم العاشر من المحرم عند عامة العلماء والصحابة - رضي الله تعالى عنهم
(15) معارف الحدیث: (378/4، ط: دارالاشاعت)
(16) سنن الترمذي: (رقم الحدیث: 738، 107/2، ط: دارالغرب الاسلامي)
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا بقي نصف من شعبان فلا تصوموا.
تخریج حدیث:
أخرجه احمد في مسنده: (441/15، رقم الحدیث: 9707، ط: مؤسسة الرسالة) و أبو داؤد في سننه: (300/2، رقم الحدیث: 2337، ط: المكتبة العصرية) و الدارمي في سننه: (1087/2، رقم الحدیث: 1781، ط: دار المغنى) و الطبراني فى معجمه الأوسط: (65/7، رقم الحدیث: 6763، ط: دار الحرمين) و ابن حبان في صحيحه: (355/7، رقم الحدیث: 3489۔ 3591، ط: مؤسسة الرسالة) و النسائي في سننه الكبريٰ: (254/3، رقم الحدیث: 2923، ط: مؤسسة الرسالة) و عبد الرزاق الصنغاني في مصنفه: (161/4، رقم الحدیث: 7325) و البيهقي في سننه الكبرى: (352/4، رقم الحدیث: 7961۔ 7962، ط: دارالكتب العلمية)
(17) مرقاة المفاتیح: (409/4، ط: دارالکتب العلمیة)
عن أبي هريرة قال قال رسول الله إذا انتصف شعبان أي إذا مضى النصف الأول منه فلا تصوموا أي بلا انضمام شيء من النصف الأول أو بلا سبب من الأسباب المذكورة وفي رواية فلا صيام حتى يكون رمضان والنهي للتنزيه رحمة على الأمة أن يضعفوا عن حق القيام بصيام رمضان على وجه النشاط وأما من صام شعبان كله فيتعود بالصوم ويزول عنه الكلفة ولذا قيده بالانتصاف أو نهى عنه لأنه نوع من التقدم والله أعلم قال القاضي المقصود استجمام من لا يقوى على تتابع الصيام فاستحب الإفطار كما استحب إفطار عرفة ليتقوى على الدعاء فأما من قدر فلا نهي له ولذلك جمع النبي بين الشهرين في الصوم اه وهو كلام حسن لكن يخالف مشهور مذهبه أن الصيام بلا سبب بعد نصف شعبان مكروه وفي شرح ابن حجر قال بعض ائمتنا يجوز بلا كراهة الصوم بعد النصف مطلقا تمسكا بأن الحديث غير ثابت أو محمول على من يخاف الضعف بالصوم ورده المحققون بما تقرر أن الحديث ثابت بل صحيح وبأنه مظنة للضعف وما نيط بالمظنة لا يشترط فيه تحققها۔
تحفة الألمعي: (114/3، ط: زمزم ببلشرز)
صحیح البخاري: (رقم الحدیث: 1914، 28/3، ط: دار طوق النجاة)
عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا يتقدمن أحدكم رمضان بصوم يوم أو يومين، إلا أن يكون رجل كان يصوم صومه، فليصم ذلك اليوم»
تخریج حدیث:
أخرجه مسلم في صحيحه: (762/2، رقم الحدیث: 1082، ط: دار إحياء الترث العربي) و الترمذي في سننه: (62/2، رقم الحدیث: 685، ط: دارالغرب الاسلامي) و أبوداؤد في سننه: (300/2، رقم الحدیث: 2335، ط: المكتبة العصرية) و النسائي في سننه: (149/4، رقم الحدیث: 6172۔6173۔ 6190، ط: مكتب المطبوعات الاسلامية) و احمد في مسنده: (128/12، رقم الحدیث: 7200، 191/13، رقم الحدیث: 7779، 241/14، رقم الحدیث: 8575، 163/15، رقم الحدیث: 9287، 409/15، رقم الحدیث: 9654، 148/16، رقم الحدیث: 10184، 278/16، رقم الحدیث: 10451، 387/16، رقم الحدیث: 10662، 440/16، رقم الحدیث: 10755، ط: مؤسسة الرسالة) و الطبراني فى معجمه الأوسط: (73/1، رقم الحدیث: 207، 329/3، 329/3، رقم الحدیث: 3309، ط: دار الحرمين) و ابن حبان في صحيحه: (352/7، رقم الحدیث: 3586) و ابن ابى شيبة فى مصنفه: (285/2، رقم الحدیث: 9036، ط: مكتبة الرشد) و دار قطني في سننه: (105/3، رقم الحدیث: 2161، ط: مؤسسة الرسالة)
(18) سنن الدار قطني: (رقم الحدیث: 2174، 111/3، ط: مؤسسة الرسالة)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أحصوا هلال شعبان لرمضان ولا تخلطوا برمضان إلا أن يوافق ذلك صياما كان يصومه أحدكم وصوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته فإن غم عليكم فإنها ليست تغمى عليكم العدة»
(19) مجموع الفتاوي لابن تیمیة: (203/24، ط: دارالوفاء)
فأما صوم ما قبله ففي التحفة قال والصوم قبل رمضان بيوم أو يومين مكروه أي صوم كان لقوله عليه الصلاة والسلام لا تتقدموا رمضان الحديث قال وإنما كره عليه الصلاة والسلام ذلك خوفا من أن يظن إنه زيادة على صوم رمضان إذا اعتادوا ذلك (مرقاۃ) وفي هذا من الحكمة التمييز بين الفرض وغير الفرض كما يميز بين العبادة وغير العبادة . ولهذا استحب تعجيل الفطور وتأخير السحور والأكل يوم الفطر قبل الصلاة ونهي عن استقبال رمضان بيوم أو يومين فهذا كله للفصل بين المأمور به من الصيام وغير المأمور به والفصل بين العبادة وغيرها .
فيض الباري لأنور شاه الكشميري: (334/3، ط: دارالکتب العلمیة)
قلتُ: والنهيُ عندي في الحديث الأوَّلِ لمعنىً شرعيَ، وفي الحديث الثاني إرشادًا وشفقةً فقط. فإن رمضانَ أمامه، فَلْيَتَأَهَّبْ له، ولْيَتْرُكْ الصِّيَامَ لئلا يَضْعُف قبل رمضان. بخلاف الأول، فإن الناسَ اعتادوا به. ويَصُومُوْنَهُ، وهذا يُوجِبُ هَدْرَ حدود الشرع والتخليط بينها. فأَحَبَّ أن يبقى الفرضُ متميِّزًا عن النفل، فنهى عن صوم يومٍ أو يومين قبله.
وحاصلهُ: أن النهيَ عن التقدُّم بيومٍ أو يومين مُؤَكَّدٌ، بخلاف النهي عن الصوم من نصف شعبان، فإنه بالنظر إلى أُهْبَتِهِ لرمضان. وذلك لأن ليلةَ القدر، وإن كانت في رمضانَ، إلا أنه يُعْلَمُ من بعض الروايات أنها في النصف من شَعْبَان. والوجهُ عندي أنها في رمضانَ. نعم بعض متعلقاتها وتمهيداتها من نصف شعبان، فيُمْكِنُ أن يَصُومَ أحدٌ من نصف شعبانَ لهذا، فنهاه شفقةً، ليستقبلَ شهر رمضان. وإنما كان النبيُّ صلى الله عليه وسلّم يَصُومُ شعبانَ كلَّه، أو أكثره لتتمكن نساؤه بقضاء صيامهن، قبل أن يَهْجُمَ عليهنَّ رمضانُ، كما في الحديث.
سنن الترمذي: (62/2، ط: دارالغرب الاسلامي)
وفي الباب عن بعض أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم
قال أبوعيسى حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح والعمل على هذا عند أهل العلم كرهوا أن يتعجل الرجل بصيام قبل دخول شهر رمضان لمعنى رمضان وإن كان رجل يصوم صوما فوافق صيامه ذلك فلا بأس به عندهم
(20) لطائف المعارف لابن رجب الحنبلي: (ص: 258، ط: دار ابن کثیر)
ولما كان شعبان كالمقدمة لرمضان شرع فيه ما يشرع في رمضان من الصيام وقراءة القرآن ليحصل التأهب لتلقي رمضان وترتاض النفوس بذلك على طاعة الرحمن روينا بإسناد ضعيف عن أنس قال: كان المسلمون إذا دخل شعبان اكبوا على المصاحف فقرؤها وأخرجوا زكاة أموالهم تقوية للضعيف والمسكين على صيام رمضان وقال سلمة بن كهيل: كان يقال شهر شعبان شهر القراء وكان حبيب بن أبي ثابت إذا دخل شعبان قال: هذا شهر القراء وكان عمرو بن قيس الملائي إذا دخل شعبان أغلق حانوته وتفرغ لقراءة القرآن۔
(21) الترغیب و الترھیب للمنذري: (307/3، ط: دارالکتب العلمیة)
عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ يطلع الله إِلَى جَمِيع خلقه لَيْلَة النّصْف من شعْبَان فَيغْفر لجَمِيع خلقه إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَو مُشَاحِن۔
تخریج حدیث:
أخرجه الطبراني فى المعجم الأوسط: (36/7، رقم الحدیث: 676، ط: مكتبة الرشد) و في المعجم الكبير: (108/20، رقم الحدیث: 215) و في مسند الشاميين: (128/1، رقم الحدیث: 203، 130/1، رقم الحدیث: 205، 365/4، رقم الحدیث: 3570، ط: مؤسسة الرسالة) و أبو نعيم الاصبهاني في حلية الاولياء: (191/5، ط: دار الفكر) و البيهقي في شعب الإيمان: (360/5، رقم الحدیث: 3556، 24/9، رقم الحدیث: 6203، ط: مكتبة الرشد) و في فضائل الاوقات: (22۔ 118، ط: مكتبة المنارة) و ابن حبان في صحيحه: (481/12، رقم الحدیث: 5665، ط: مؤسسة الرسالة) و ابن أبي عاصم في كتاب السنة: (224/1، رقم الحدیث: 512، ط: المكتب الإسلامي) و الدار قطني في كتاب النزول: (77۔ 158)
(22) الترغیب و الترھیب للمنذري: (کتاب الأدب، 307/3، ط: دارالکتب العلمیة)
رواه الطبراني في الأوسط وابن حبان في صحيحه والبيهقي ورواه ابن ماجه بلفظه من حديث أبي موسى الأشعري والبزار والبيهقي من حديث أبي بكر الصديق رضي الله عنه بنحوه بإسناد لا بأس به
(23) مجمع الزوائد للھیثمي: (رقم الحدیث: 12960، 126/8، ط: دار الفکر)
رواه الطبراني في الكبير والأوسط ورجالهما ثقات
(24) السنة لابن أبي عاصم: (رقم الحدیث: 512، 224/1، ط: المکتب الاسلامي، بیروت)
حديث صحيح ورجاله موثقون لكنه منقطع بين مكحول ومالك بن يخامر ولولا ذلك لكان الإسناد حسنا ولكنه صحيح بشواهده المتقدمة وهو مخرج في "الصحيحة" كما سبقت الإشارة إلى ذلك.
(25) سلسلة الأحادیث الصحیحة: (135/3، ط: مکتبة المعارف)
حديث صحيح، روي عن جماعة من الصحابة من طرق مختلفة يشد بعضها بعضا وهم معاذ ابن جبل وأبو ثعلبة الخشني وعبد الله بن عمرو وأبي موسى الأشعري وأبي هريرة وأبي بكر الصديق وعوف ابن مالك وعائشة.۔۔۔۔ وجملة القول أن الحديث بمجموع هذه الطرق صحيح بلا ريب والصحة تثبت بأقل منها عددا ما دامت سالمة من الضعف الشديد كما هو الشأن في هذا الحديث

(26) شعب الإیمان للبیھقي: (رقم الحدیث: 3551، 359/5، ط: مکتبة الرشد)
عن أبي ثعلبة الخشني، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا كان ليلة النصف من شعبان اطلع الله إلى خلقه فيغفر للمؤمن، ويملي للكافرين، ويدع أهل الحقد بحقدهم حتى يدعوه۔
تخریج حدیث:
أخرجه الطبراني فى المعجم الكبير:(223/22، رقم الحدیث: 590، 593، 264/22، رقم الحدیث: 678، ط: مكتبة ابن تيمية) و ابن أبي عاصم في كتاب السنة: (223/1، رقم الحدیث: 511، ط: المكتب الإسلامي) وفي فضائل الاوقات: (23۔ 120، ط: مكتبة المنارة) و في سننه الصغير: (122/2، رقم الحدیث: 1426، ط: جامعة الدراسات الإسلامية) و الدار قطني في كتاب النزول: 78۔ 159) و ابن قانع في معجم الصحابة: (160/1، ط: مكتبة الغرباء)
(27) السنة لابن أبي عاصم: (224/1، ط: المکتب الاسلامي)
حديث صحيح ورجاله ثقات غير الأحوص بن حكيم فإنه ضعيف الحفظ كما في التقريب فمثله يستشهد به فيتقوى بالطريق التي بعده وبشواهده المتقدمة وغيرها مما سبقت الإشارة إليه ۔
(28) سنن ابن ماجة: (رقم الحدیث: 1390، 400/2، ط: دار الرسالة العالمیة)
عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ

أخرجه ابن أبي عاصم في كتاب السنة: (223/1، 510، ط: المكتب الإسلامي) و البيهقي في فضائل الاوقات: 123 (29)، ط: مكتبة المنارة) و الدار قطني في كتاب النزول: (173، (94) وابو القاسم اللالكائی: في شرح اصول العقائد اهل السنة و الجماعة: (459/3، (763)، ط: دار طيبة) وابن کثیر فی جامع المسانیدو السنن: 282/10، (13076)، ط : دار خضر) وعلی المتقی فی کنز العمال: (315/12، (35181) ط: مؤسسة الرسالة) والمزی فی تحفۃ الأشراف بمعرفة الأطراف: (320/6، (9006)، ط: المكتب الإسلامي)

سنن ابن ماجة: (رقم الحدیث: 1390، 400/2، ط: دار الرسالة العالمیة)
حسنہ شعیب الازنؤط بشواهده، و قال وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة -وهو عبد الله-، وقد اختلف عليه فيه، فرواه الوليد بن مسلم عنه كما في رواية ابن ماجه هذه عن الضحاك بن أيمن، عن الضحاك بن عبد الرحمن بن عرزب، عن أبي موسى الأشعري، ورواه أبو الأسود النضر بن عبد الجبار عنه، عن الزبير بن سليم، عن الضحاك بن عبد الرحمن بن عرزب، عن أبيه، عن أبي موسى الأشعري، وتابع أبا الأسود على ذلك سعيد بن كثير بن عفير.

(29) السنة لابن أبي عاصم: (224/1، ط: المکتب الاسلامي)
حديث صحيح وإسناده ضعيف لجهالة عبد الرحمن وهو ابن عزوب وضعف ابن لهيعة والحديث أخرجه ابن ماجه من طريقين آخرين عن ابن لهيعة به إلا أن أحدهما لم يقل في إسناده عن أبيه ۔
(30) سنن الترمذي: (رقم الحدیث: 739، 108/2، ط: دار الغرب الاسلامي)
حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرناالحجاج بن ارطاة، عن يحيى بن ابي كثير، عن عروة، عن عائشة، قالت: فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة، فخرجت فإذا هو بالبقيع، فقال: " اكنت تخافين ان يحيف الله عليك ورسوله؟ " قلت: يا رسول الله، إني ظننت انك اتيت بعض نسائك، فقال: " إن الله عز وجل ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا، فيغفر لاكثر من عدد شعر غنم كلب ". وفي الباب عن ابي بكر الصديق. قال ابو عيسى: حديث عائشة لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث الحجاج، وسمعت محمدا يضعف هذا الحديث، وقال يحيى بن ابي كثير: لم يسمع من عروة، والحجاج بن ارطاة، لم يسمع من يحيى بن ابي كثير.

أخرجه ابن ماجة في سننه: (رقم الحدیث: 1389، 200/2، ط: دار الرسالة العالمية) و اسحاق بن راهويه في مسنده: ( رقم الحدیث: 750، 326/2، رقم الحدیث: 1700، 979/3، ط: مكتبة الإيمان) احمد في مسنده: (رقم الحدیث: 26018، 146/43، ط: مؤسسة الرسالة) و ابن حميد في مسنده:(رقم الحدیث: 1509، 437، ط: مكتبة السنة) و البيهقي في شعب الإيمان: (رقم الحدیث: 3544، 355/5، رقم الحدیث: 3543، 365/5، ط: مكتبة الرشد) و في فضائل الاوقات:( 28، 130، ط: مكتبة المنارة) و ابن أبي شيبة فى مصنفه: (رقم الحدیث: 29858، 107/6، ط: مكتبة الرشد) و اللالكائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: ( رقم الحدیث: 764، 496/3، ط: دار طيبة) و ابن بطة في الابانة الكبريٰ: (رقم الحدیث: 176، 226/7، ط: دار الراية) و الدار قطني في كتاب النزول:(89، 90۔ 169)

(31) لطائف المعارف: (ص: 261، ط: دار ابن کثیر)
وفي فضل ليلة نصف شعبان أحاديث أخر متعددة وقد اختلف فيها فضعفها الأكثرون وصحح ابن حبان بعضها وخرجه في صحيحه ومن أمثلها حديث عائشة قال: فقدت النبي صلى الله عليه وسلم فخرجت فإذا هو بالبقيع رافعا رأسه إلى السماء فقال: "أكنت تخافين أن يحيف الله عليك ورسوله" فقلت يا رسول الله ظننت أنك أتيت بعض نسائك فقال: " إن الله تبارك وتعالى ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا فيغفر لأكثر من عدد شعر غنم كلب" خرجه الإمام أحمد والترمذي الإمام أحمد ابن ماجه وذكر الترمذي عن البخاري أنه ضعفه.

(32) سنن ابن ماجة: (رقم الحدیث: 1388، 399/2، ط: دار الرسالة العالمیة)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي سَبْرَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا فَإِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ أَلَا مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ أَلَا كَذَا أَلَا كَذَا حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ۔
تخریج حدیث:
أخرجه البيهقي في شعب الإيمان: (354/5، رقم الحدیث: 3542، 365/5، ط: مكتبة الرشد) وفي فضائل الاوقات: (122۔ 24، ط: مكتبة المنارة)
و الفاکھي في أخبار مکة: (66/3، رقم الحدیث: 1804 ط: دار خضر) و المنذري في الترغيب والترهيب: (72/2، رقم الحدیث: 1550، ط: دار الكتب العلمية) و أبو القاسم الأصبھاني في الترغیب: (297/2، رقم الحدیث: 1860، ط: دارالحديث) و الشجري في الأمالي الخميسية: (372/1، رقم الحدیث: 1320، ط: دارالكتب العلمية)
(33) سیر أعلام النبلاء: (332/7، ط: مؤسسة الرسالة)
ابن أبي سبرة أبو بكر بن عبد الله العامري:
الفقيه الكبير، قاضي العراق، أبو بكر بن عبد الله بن محمد بن أبي سبرة بن أبي رهم - وكان جد أبيه أبو سبرة بدريا من السابقين المهاجرين - ابن عبد العزى القرشي، ثم العامري.
توفي: زمن عثمان -رضي الله عنهما-۔۔۔۔ حدث أبو بكر بن أبي سبرة عن: عطاء بن أبي رباح، والأعرج، وزيد بن أسلم، وهشام بن عروة، وشريك بن أبي نمر، وطائفة.
وهو ضعيف الحديث من قبل حفظه.... عن ابن معين، قال:
ليس حديثه بشيء، قدم ها هنا، فاجتمع عليه الناس، فقال: عندي سبعون ألف حديث، إن أخذتم عني كما أخذ عني ابن جريج، وإلا فلا.
وقال البخاري: ضعيف الحديث.
وقال النسائي: متروك.
وروى: عبد الله وصالح ابنا أحمد، عن أبيهما، قال: كان يضع الحديث.
قلت: يقال: اسمه محمد.
وقيل: عبد الله...... قال ابن عدي: عامة ما يرويه غير محفوظ، وهو في جملة من يضع الحديث.

تهذيب الكمال في أسماء الرجال: (105/33، ط: مؤسسة الرسالة)
وَقَال صالح بْن أحمد بْن حنبل ، عَن أبيه: أبو بكر مُحَمَّدِ ابْنِ عَبداللَّهِ بْنِ أَبي سبرة يضع الحديث، وكان ابن جُرَيْج يروي عنه.وَقَال عَبد اللَّهِ بْن أَحْمَد بْن حنبل ، عَن أبيه: ليس بشيءٍ. كان يضع الحديث ويكذب....وَقَال الغلابي ، عَن يحيى بْن مَعِين: ضعيف الحديث.
وَقَال أَحْمَد بْن سعد بْن أَبي مريم ، عَن يحيى بْن مَعِين: ليس بشيءٍ. وَقَال علي ابن المديني: كان ضعيفا فِي الحديث، وكان ابن جُرَيْج أخذ منه مناولة.
وَقَال أيضا : كان منكر الحديث، هو عندي مثل ابن أَبي.
وَقَال إِبْرَاهِيم بْن يعقوب الجوزجاني : يضعف حديثه.
وذكره يعقوب بْن سفيان في باب" من يُرْغَبُ عَنِ الرِّوَايَةِ عَنْهُمْ" .وقَال البُخارِيُّ : ضعيف.
وَقَال في موضع آخر : منكر الحديث.وَقَال أَبُو عُبَيد الآجُرِّيّ، عَن أبي دَاوُد: مفتي أهل المدينة.وَقَال النَّسَائي : متروك الحديث.وَقَال أبو أحمد بْن عدي : عامة ما يرويه غير محفوظ، وهو فِي جملة من يضع الحديث.قال مُحَمَّد بْن سعد : كان كثير العلم والسماع والرواية، ولي قضاء مكة لزياد بْن عُبَيد اللَّه، وكان يفتي بالمدينة. وقدم بغداد، فمات بها سنة اثنتين وستين ومئة فِي خلافة المهدي، وكان ابن ستين سنة، وهو على قضاء المهدي، ثم ولى بعده أَبُو يوسف.

تهذيب التهذيب للابن حجر العسقلاني: (27/12، ط: دائرة المعارف النظامیة)
وقال الدوري ومعاوية بن صالح عن ابن معين ليس حديثه بشيء وقال الغلابي عن ابن معين ضعيف الحديث وقال ابن المديني كان ضعيفا في الحديث وقال مرة كان منكر الحديث هو عندي مثل بن أبي يحيى وقال الجوزجاني يضعف حديثه وذكره يعقوب بن سفيان في باب من يرغب في الرواية عنهم وقال البخاري ضعيف وقال مرة منكر الحديث وقال النسائي متروك الحديث وقال ابن عدي عامة ما يرويه غير محفوظ وهو في جملة من يضع الحديث ....وقال ابن حبان كان ممن يروي الموضوعات عن الثقات لا يجوز الاحتجاج به وقال أبو إسحاق الحربي غيره أوثق منه وقال الساجي عنده منا كير وقال أبو أحمد الحاكم في الكنى أبو بكر محمد بن عبد الله بن أبي سبرة ولي القضاء لزياد الحارثي ثم ولي القضاء لموسى يعني الهادي وهو ولي عهد وليس بالقوي عندهم وقال الحاكم أبو عبد الله يروي الموضوعات عن الاثبات مثل هشام بن عروة وغيره.

(34) الرفع و التکمیل فی الجرح و التعدیل لعبد الحيي اللکنوي: (ص: 80، ط: مکتب المطبوعات الإسلامیة)
واما الْجرْح فانه لَا يقبل إِلَّا مُفَسرًا مُبين سَبَب الْجرْح لِأَن الْجرْح يحصل بِأَمْر وَاحِد فَلَا يشق ذكره وَلِأَن النَّاس مُخْتَلفُونَ فِي أَسبَاب الْجرْح فيطلق أحدهم الْجرْح بِنَاء على مَا اعتقده جرحا وَلَيْسَ الْجرْح فينفس الْأَمر فَلَا بُد من بَيَان سَببه ليظْهر اهو فادح أم لَا

(35) سير أعلام النبلاء للذهبي: (332/7، ط: مؤسسة الرسالة)
ابن أبي سبرة أبو بكر بن عبد الله العامري
الفقيه الكبير، قاضي العراق، أبو بكر بن عبد الله بن محمد بن أبي سبرة بن أبي رهم ۔۔۔۔۔وهو ضعيف الحديث من قبل حفظه....وقال البخاري: ضعيف الحديث.
(36) الحاوي للفتاوي للسیوطي: (346/1، ط: دار الفکر)
وَإِذَا عَلِمْتُمْ أَنَّ الْحَدِيثَ فِي سَائِرِ الْكُتُبِ السِّتَّةِ أَوْ مُسْنَدِ الْإِمَامِ أَحْمَدَ فَارْوُوهُ مُطْمَئِنِّينَ، وَكَذَلِكَ مَا كَانَ مَذْكُورًا فِي تَصَانِيفِ الشَّيْخِ محيي الدين النووي، أَوِ المنذري صَاحِبِ التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيبِ، فَارْوُوهُ مُطْمَئِنِّينَ.
(37) الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة للشوكاني: (ص: 51، ط: دارالکتب العلمیة)
وَلابْنِ حِبَّانَ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ: إِذَا كَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا.
ضَعِيفٌ
(38) القَولُ البَدِيعُ للسخاوي: (ص: 472، ط: مؤسسة الریان)
قال شيخ الإسلام أبو زكريا النووي - رحمه الله - في الأذكار قال العلماء من المحدثين والفقهاء وغيرهم يجوز ويستحب العمل في الفضائل والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعاً .....وقد سمعت شيخنا مراداً يقول وكتبه لي بخطه أن شرائط العمل بالضعيف ثلاثة، الأول متفق عليه أن يكون الضعف غير شديد فيخرج من أنفرد من الكذابين والمتهمين بالكذب ومن فحش غلطه، الثاني أن يكون مندرجاً تحت أصل عام فيخرج ما يخترع بحيث لا يكون له أصل أصلاً، الثالث أن لا يعتقد عند العمل به ثبوته لئلا ينسب إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - ما لم يقله
(39) تحفة الأحوذي: (باب ما جاء فی لیلة النصف من شعبان، 365/3، ط: دارالکتب العلمیة)
” اعلم أنه قد ورد في فضيلة ليلة النصف من شعبان عدة أحاديث مجموعها يدل على أن لها أصلا۔۔۔۔ فهذه الأحاديث بمجموعها حجة على من زعم أنه لم يثبت في فضيلة ليلة النصف من شعبان شيء والله تعالى أعلم
(40) المدخل لابن الحاج: (299/1، ط: دار التراث)
ولا شك أنها ليلة مباركة عظيمة القدر عند الله تعالى ۔۔۔۔۔ وكان السلف - رضي الله عنهم - يعظمونها ويشمرون لها قبل إتيانها فما تأتيهم إلا وهم متأهبون للقائها، والقيام بحرمتها على ما قد علم من احترامهم للشعائر على ما تقدم ذكره هذا هو التعظيم الشرعي لهذه الليلة
(41) الدر المختار: (25/2، ط: دارالفکر)
وإحياء ليلة العيدين، والنصف من شعبان، والعشر الأخير من رمضان، والأول من ذي الحجة، ويكون بكل عبادة تعم الليل أو أكثره
(42) البحر الرائق: (56/2، ط: دار الکتاب الاسلامي)
ومن المندوبات إحياء ليالي العشر من رمضان وليلتي العيدين وليالي عشر ذي الحجة وليلة النصف من شعبان كما وردت به الأحاديث وذكرها في الترغيب والترهيب مفصلة والمراد بإحياء الليل قيامه وظاهره الاستيعاب ويجوز أن يراد غالبه۔
(43) الدعوات الكبير للبيهقي: (رقم الحدیث: 530- 531، 147/2، ط: غراس للنشر)
حدثنا أبو عبدالله الحافظ أخبرني أبو صالح خلف بن محمد ببخارى حدثنا صالح بن محمد البغدادي الحافظ، حدثنا محمد بن عباد حدثني حاتم بن إسماعيل المدني، عن نصر بن كثير، عن يحيى بن سعد، عن عروة بن الزبير، عن عائشة، رضي الله عنها، قالت: لما كانت ليلة النصف من شعبان انسل رسول الله صلى الله عليه وسلم من مرطي، ثم قالت: والله ما كان مرطنا من خز، ولا قز، ولا، كرسف، ولا كتان، ولا صوف فقلنا: سبحان الله فمن أي شيء؟ قالت: إن كان سداه لشعر، وإن كانت لحمته لمن وبر الإبل، قالت: فخشيت أن يكون أتى بعض نسائه، فقمت ألتمسه في البيت فتقع قدمي على قدميه وهو ساجد , فحفظت من قوله وهو يقول: سجد لك سوادي وخيالي، وآمن لك فؤادي، أبوء لك بالنعم، وأعترف بالذنوب العظيمة، ظلمت نفسي فاغفر لي إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت، أعوذ بعفوك من عقوبتك، وأعوذ برحمتك من نقمتك، وأعوذ برضاك من سخطك، وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك قالت: فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قائما وقاعدا حتى أصبح، فأصبح وقد اضمغدت قدماه، فإني لأغمزها و أقول: بأبي أنت وأمي، أتعبت نفسك، أليس قد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر؟ أليس قد فعل الله بك؟ أليس أليس؟ فقال: يا عائشة، أفلا أكون عبدا شكورا؟ هل تدرين ما في هذه الليلة؟ قالت: ما فيها يا رسول الله؟ فقال: فيها أن يكتب كل مولود من مولود بني آدم في هذه السنة، وفيها أن يكتب كل هالك من بني آدم في هذه السنة، وفيها ترفع أعمالهم، وفيها تنزل أرزاقهم، فقالت: يا رسول الله: ما من أحد يدخل الجنة إلا برحمة الله؟ قال: ما من أحد يدخل الجنة إلا برحمة الله قلت: ولا أنت يا رسول الله؟ فوضع يده على هامته فقال: ولا أنا إلا أن يتغمدني الله منه برحمة , يقولها ثلاث مرات
531- حدثنا أبو عبد الله الحافظ، قال: حدثنا أبو جعفر محمد بن صالح بن هانئ قال: حدثنا إبراهيم بن إسحاق الغسيلي حدثنا وهب بن بقية، أخبرنا سعد بن عبد الكريم الواسطي، عن أبي النعمان السعدي، عن أبي الرجاء العطاردي، عن أنس بن مالك رضي الله عنه، قال: بعثني النبي صلى الله عليه وسلم إلى منزل عائشة رضي الله عنها في حاجة، فقلت لها: أسرعي فإني تركت رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدثهم عن ليلة النصف من شعبان، فقالت: يا أنيس اجلس حتى أحدثك بحديث ليلة النصف من شعبان، إن تلك الليلة كانت ليلتي من رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاء النبي صلى الله عليه وسلم ودخل معي في لحافي، فانتبهت من الليل فلم أجده، فقمت فطفت في حجرات نسائه فلم أجده فقلت لعله ذهب إلى جاريته مارية القبطية فخرجت فمررت في المسجد فوقعت رجلي عليه وهو ساجد
وهو يقول: سجد لك خيالي وسوادي، وآمن بك فؤادي، وهذه يدي التي جنيت بها على نفسي، فيا عظيم، هل يغفر الذنب العظيم إلا الرب العظيم، فاغفر لي الذنب العظيم قالت: ثم رفع رأسه وهو يقول: اللهم هب لي قلبا تقيا نقيا من الشر، بريئا لا كافرا ولا شقيا ثم عاد فسجد، وهو يقول: أقول لك كما قال أخي داود عليه السلام: أعفر وجهي في التراب لسيدي وحق لوجه سيدي أن تعفر الوجوه لوجهه، ثم رفع رأسه فقلت: بأبي وأمي أنت في واد وأنا في واد، قال: يا حميراء، أما تعلمين أن هذه الليلة ليلة النصف من شعبان؟ إن لله في هذه الليلة عتقاء من النار بعدد شعر غنم كلب قلت: يا رسول الله، وما بال شعر غنم كلب؟ قال: لم يكن في العرب قبيلة قوم أكبر غنما منهم، لا أقول ستة نفر: مدمن خمر، ولا عاق لوالديه، ولا مصر على زنا، ولا مصارم، ولا مضرب، ولا قتات.
في هذا الإسناد بعض من يجهل وكذلك فيما قبله , وإذا انضم أحدهما إلى الآخر أخذا بعض القوة والله أعلم.

شعب الإیمان للبیھقي: (رقم الحدیث: 3558، 365/5، ط: مکتبة الرشد)
عن عثمان بن محمدبن المغيرة بن الأخنس قال : تقطع الآجال من شعبان إلى شعبان قال : إن الرجل لينكح و يولد له و قد خرج اسمه في الموتى۔

عمدة القاري لبدر الدین العیني: (119/11، ط: دار الکتب العلمیة)
عن عائشة، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم " يصوم حتى نقول لا يفطر، ويفطر حتى نقول لا يصوم , وكان أكثر صيامه في شعبان، فقلت: يا رسول الله، مالي أرى أكثر صيامك في شعبان؟ فقال: يا عائشة، إنه شهر ينسخ الملك من يقبض، وأنا أحب أن لا ينسخ اسمي , إلا وأنا صائم "

(44) الأمالي المطلقة لابن الحجر العسقلاني: (ص: 121، ط: المکتب الاسلامي)
أخرجہ ابن الحجر العسقلانی فی الأمالی المطلقۃ وقال:هذا حديث غريب و رجاله موثوقون إلا سليمان بن أبي كريمة ففيه مقال و قد رواه بطوله النضر بن كثير عن يحيى بن سعيد الأنصاري عن عروة، أخرجه البيهقي في فضائل الأوقات من طريقه والنضر بن كثير أيضا فيه مقال لكنه أصلح حالا من سليمان۔
(45) مرقاة المفاتیح: (350/3، ط: دار الکتب العلمیة)
وعن كثير من السلف، كعمر بن الخطاب، وابن مسعود وغيرهما، أنهم كانوا يدعون بهذا الدعاء: اللهم إن كنت كتبتنا أشقياء فامحه واكتبنا سعداء، وإن كنت كتبتنا سعداء فأثبتنا، فإنك تمحو ما تشاء وتثبت وعندك أم الكتاب، وهذا الدعاء قد نقل في الحديث قراءته ليلة النصف من شعبان، لكن الحديث ليس بقوي كذا في تفسير السيد معين الدين الصفوي

الدعوات الکبیر للبیھقي: (رقم الحدیث: 530، 146/10، ط: غراس للنشر)
عن ”عائشة“رضي اللہ عنھا عن”النبي“ صلى الله عليه وسلم قال هل تدرين ما في هذه الليلة؟» قالت: ما فيها يا رسول الله؟ فقال: " فيها أن يكتب كل مولود من بني آدم في هذه السنة، وفيها أن يكتب كل هالك من بني آدم في هذه السنة، وفيها ترفع أعمالهم، وفيها تنزل أرزاقهم۔

فضائل الأوقات للبیھقي: (رقم الحدیث: 26، ص: 126، ط: مکتبة المنارة)

(46) شعب الإیمان للبیھقي: (363/5، ط: مکتبة الرشد)
وروي عن عائشة رضي الله عنها قالت دخل علي رسول الله صلى الله عليه ۔۔۔۔۔۔ فقال هذه ليلة النصف من شعبان ولله فيها عتقاء من النار بعدد شعور غنم كلب لا ينظر الله فيها إلى مشرك ولا مشاحن ولا إلى قاطع رحم ولا إلى مسبل ولا إلى عاق لوالديه ولا إلى مدمن خمر
الترغیب و الترھیب للمنذري: (رقم الحدیث: 4191، 307/3، ط: دار الکتب العلمیة)

شعب الإیمان للبیھقي: (رقم الحدیث: 3555، 362/5، ط: مکتبة الرشد)
عن عثمان بن أبي العاص : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : إذا كان ليلة النصف من شعبان فإذا مناد هل من مستغفر فاغفر له هل من سائل فأعطيه فلا يسأل أحد إلا أعطي إلا زانية بفرجها أو مشرك۔

مظاہر حق: (824/1، ط: دارالاشاعت)

(47) معارف القرآن: (758/7، ط: مکتبة معارف القرآن)

(48) مرقاۃ المفاتیح: (347/3، ط: دارالکتب العلمیة)
ولا نزاع في أن ليلة نصف شعبان يقع فيها فرق، كما صرح به الحديث، وإنما النزاع في أنها المرادة من الآية، والصواب أنها ليست مرادة منها، وحينئذ يستفاد من الحديث والآية وقوع ذلك الفرق في كل من الليلتين إعلاما بمزيد شرفهما اه.
ويحتمل أن يقع الفرق في ليلة النصف ما يصدر إلى ليلة القدر، ويحتمل أن يكون الفرق في إحداهما إجمالا، وفي الأخرى تفصيلا، أو تخص إحداهما بالأمور الدنيوية، والأخرى بالأمور الأخروية، وغير ذلك من الاحتمالات العقلية.
(49) حسن البیان فی لیلة النصف من شعبان للشیخ عبد اللہ الغماري: (ص: 230، ط: عالم الکتب)
و لک ان تسلک طریقۃ الجمع بمارواہ أبو الضحی عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهماقال : إ ن اللہ یقضى الأقضية فی ليلة النصف من شعبان ویسلمھا إلى أربابها فی ليلة القدر، وحاصل ھذا أن اللہ یقضی مایشاء فی اللوح المحفوظ لیلۃ النصف من شعبان فإذا کان لیلۃ القدرسلم الی الملائکۃ صحائف بماقضاہ فیسلم الی ملک الموت صحیفۃ الموتی والی ملک الرزق صحیفۃ الأرزاق، وھکذا کل ملک یتسلم مانیط بہ ، وفی قولہ تعالی ’’فیھا یفرق امرحکیم ‘‘أشارالی ھذا واللہ اعلم حیث قال یفرق ولم یقل یقضی أو یکتب و الفرق :التمییز بین الشیئین فالآیۃ تشیرالی أن المقضیات تفرق لیلۃ القدر بتوزیعھا علی الملائکۃ الموکلین بھا ،أما کتابتھا و تقدیرھا فھو حاصل فی لیلۃ نصف شعبان کما فی الأحادیث المذکورۃ و بھذایجمع شمل الأقوال المتضاربۃ فی ھذاالباب و یرأب صدعھا و الحمدللہ رب العلمین
(50) احکام شب برأت و شب ِقدر للشیخ اشرف علی تھانوي: (ص: 18، ط: ادارة افادات اشرفیة)
(51) مراقي الفلاح شرح نورالإیضاح: (ص: 151، ط: المکتبة العصریة)
"ويكره الاجتماع على إحياء ليلة من هذه الليالي" المتقدم ذكرها "في المساجد" وغيرها لأنه لم يفعله النبي صلى الله عليه وسلم ولا الصحابة فأنكره أكثر العلماء من أهل الحجاز منهم عطاء وابن أبي مليكة وفقهاء أهل المدينة وأصحاب مالك وغيرهم وقالوا ذلك كله بدعة۔
(52) عمدة القاري: (138/17، ط: داراحیاء التراث العربي)
وكانت غزوة أحد في شوال سنة ثلاث يوم السبت لإحدى عشرة ليلة خلت منه ۔
(53) اصلاحي خطبات: (307/4- 318، ط: میمن اسلامک ببلشرز)
(54) آپ کے مسائل اور ان کا حل: (85/3- 88، ط: مکتبة لدھیانوي)
(55) مرقاة المفاتیح: (350/3، ط: دارالکتب العلمیة)
ومما أحدث في ليلة النصف الصلاة الألفية مائة ركعة بالإخلاص عشرا عشرا بالجماعة واهتموا بها أكثر من الجمع والأعياد ولم يأت بها خبر ولا أثر إلا ضعيف أو موضوع ولا يغتر بذكره لها صاحب القوت والإحياء وغيرهما ولا بذكر تفسير الثعلبي أنها ليلة القدر وكان للعوام بهذه الصلاة افتتان عظيم حتى التزم بسببها كثرة الوقود وترتب عليه من الفسوق وانتهاك المحارم ما يغني عن وصفه حتى خشي الأولياء من الخسف وهربوا فيها إلى البراري۔

تذکرة الموضوعات لطاھر الفتني: (ص: 45، ط: ادارة الطباعة المنیریة)

(56) المنار المنیف لابن قیم: (ص: 99، ط: مکتبة المطبوعات الإسلامیة)
والعجب ممن شم رائحة العلم بالسنن أن يغتر بمثل هذا الهذيان ويصليها
وهذه الصلاة وضعت في الإسلام بعد الأربع مئة ونشأت من بيت المقدس فوضع لها عدة أحاديث:
منها: "من قرأ ليلة النصف من شعبان ألف مرة {قل هو الله أحد} في مئة ركعة الحديث بطوله وفيه بعث الله إليه مئة ملك يبشرونه". وحديث "من صلى ليلة النصف من شعبان ثنتي عشرة ركعة يقرأ في كل ركعة ثلاثين مرة {قل هو الله أحد} شفع في عشرة من أهل بيته قد استوجبوا النار" وغير ذلك من الأحاديث التي لا يصح منها شيء۔
(57) عمدة القاري: (83/11، ط: دار احیاء التراث العربي)
وأما الوقود في تلك الليلة فزعم ابن دحية أن أول ما كان ذلك زمن يحيى بن خالد بن برمك، أنهم كانوا مجوسا فأدخلوا في دين الإسلام ما يموهون به على الطعام. قال: ولما اجتمعت بالملك الكامل وذكرت له ذلك قطع دابر هذه البدعة المجوسية من سائر أعمال البلاد المصرية.

(58) البحر الرائق: (232/5، ط: دار الکتاب الإسلامي)
ولا يجوز أن يزاد على سراج المسجد لأن ذلك إسراف سواء كان ذلك في رمضان أو غيره ولا يزين المسجد بهذه الوصية. اه.
ومقتضاه منع الكثرة الواقعة في رمضان في مساجد القاهرة ولو شرط الواقف لأن شرطه لا يعتبر في المعصية وفي القنية وإسراج السرج الكثيرة في السكك والأسواق ليلة البراءة بدعة۔
”اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْن“ (سورہ بنی اسرائیل، الایة: 27)

(59) سنن أبي داؤد: (رقم الحدیث: 4031، ط: 44/4، ط: المکتبة العصریة)
عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من تشبه بقوم فهو منهم»

(دارالافتاء الاخلاص) (صححہ: #ایس_اے_ساگر )
http://saagartimes.blogspot.com/2023/02/blog-post_22.html