Friday 30 September 2016

اہل اسلام کو سال نو مبارک

ایس اے ساگر

وعن عبد الله بن هشام قال : 
كان أصحاب رسول الله ﷺ - 
يتعلمون هذا الدعاء إذا دخلت السنة أو الشهر : 
" اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان ، والسلامة والإسلام ، ورضوان من الرحمن ، وجوار من الشيطان " . 
رواه الطبراني في الأوسط ، 
وإسناده حسن .
-  كان أصحابُ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يتعلَّمون هذا الدُّعاءَ إذا دخَلَتِ السَّنَةُ أو الشَّهرُ اللهمَّ أدخِلْه علينا بالأمنِ والإيمانِ والسَّلامةِ والإسلامِ ورِضوانٍ مِنَ الرَّحمنِ وجَوازٍ مِنَ الشَّيطانِ
الراوي:
عبدالله بن هشام 
المحدث:  

الهيثمي      
-   المصدر:  مجمع الزوائد  -   الصفحة أو الرقم:  10/142خلاصة حكم المحدث:  إسناده حسن‏‏
ہجری سال قمری ہجری تقویم (ماہ و سال) کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے بعض ممالک میں اسلامی تقویم بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری تقویم سے مراد تواریخ کا حساب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے لگانا ہے۔ اس میں جو مہینے استعمال ہوتے ہیں ان کا استعمال اسلام سے پہلے بھی تھا۔ جس میں سے محرم پہلا مہینہ ہے۔ چونکہ ایک قمری تقویم ہے لہذا اس کا ہر مہینہ چاند کو دیکھ کر شروع ہوتا ہے۔سال کا کل دورانیہ 354.367056 دن اور ایک ماہ کا کل دورانیہ 29.530588 دن ہے۔
تکنیکی معلومات:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کو ہجرت 26 صفر کو ہوئی۔ مگر چونکہ عرب لوگ سال کا آغاز محرم سے کیا کرتے تھے اس لئے اسلامی سال کو ایک ماہ 25 دن پیچھے سے شمارکیا گیا۔ اس لئے پہلی قمری ہجری کی پہلی تاریخ یعنی اول محرم مؤرخہ 16 جولائی 622ء کے مطابق ہوئی۔ حسب سابق اس میں بارہ ماہ رکھے گئے۔
1 محرّم یا محرم الحرام
2 صفر یا صفر المظفر
3 ربیع الاول
4 ربیع الثانی
5 جمادی الاولی
6 جمادی الثانیہ
7 رجب یا رجب المرجب
8 شعبان یا شعبان المعظم
9 رمضان یا رمضان المبارک
10 شوال یا شوال المکرم
11 ذوالقعدۃ
12 ذوالحجۃ
ہر مہینہ انتیس یا تیس دن کا ہوتا ہے۔ جس کے شروع ہونے کا فیصلہ چاند کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ قمری ہجری سال ہر عیسوی سال کی نسبت دس یا گیارہ دن پہلے شروع ہوتا ہے یعنی ہر سال ہجری اور عیسوی سال کا وقفہ کم ہو جاتا ہے۔ اندازا ہے کہ سن 20842 میں ایک ہی قمری ہجری اور عیسوی سال ہوگا۔ ہر 33 یا 34 سال بعد ایسا موقع آتا ہے جب ایک قمری ہجری سال مکمل طور پر ایک عیسوی سال کا اندر ہی رہتا ہے جیسا سن 2008 عیسوی میں۔
عربوں کی اصل تقویم:
جامعہ بنوریہ عالمیہ، انچارج تخصص فی التفسیر وڈپٹی ایڈیٹر ہفت روزہ اخبارالمدارس سینئر ریسرچ اسکالر مولانا محمد جہان یعقوب رقمطراز ہیں کہ عربوں کی اصل تقویم قمری تقویم تھی، مگر وہ مدینہ منورہ کے پڑوس میں آباد یہودی قبائل کی عبرانی (یہودی) تقویم کے طرز پر اپنے تجارتی اور ثقافتی فائدے کی خاطر خالص قمری کی بجائے قمری شمسی تقویم استعمال کرتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس قمری شمسی تقویم کو ہمیشہ کیلئے منسوخ فرماکر خالص قمری تقویم کو بحال رکھا، جس کا آغاز ہجرت مدینہ کے اہم واقعے سے کیا گیا تھا، لہٰذا یہ تقویم ہجری تقویم کے نام سے موسوم ہوئی۔ اس کی ابتدا خود حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے ہوئی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں سرکاری مراسلات میں ’اسلامی قمری ہجری‘ تاریخ کا اندراج لازمی قرار دیا، یہ ان کا ایک ایسا کارنامہ ہے جوان کی یاد دلاتا رہے گا۔
احکام شرعیہ کا دارومدار:
انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ آج کے مسلمان اور بالخصوص نئی پود کو، جو مستقبل کی معمار و صورت گرہے، اسلامی ہجری تقویم کے مہینوں کے نام تک معلوم نہیں، اگرچہ دفتری ضروریات کے تحت گریگورین (عیسوی) کیلندڑ کا استعمال درست ہے، تاہم اسلامی مہینوں کے ناموں کا جاننا اور ان کی عظمت و فضیلت کا قائل ہونا بھی فرض کفایہ ہے۔ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم میں احکام شرعیہ مثلاً: حج و غیرکا دارومدار قمری تقویم پر ہے۔ روزے قمری مہینے رمضان کے ہیں۔ نزول قرآن بھی رمضان میں ہوا، عورتوں کی عدت، زکوٰۃ کے لیے سال گزرنے کی شرط وغیرہ سب قمری تقویم کے اعتبار سے ہیں. عیدین یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی کا تعلق بھی قمری تقویم سے ہے۔ ناس ہو لارڈ میکالے کے وضع کردہ نظام تعلیم کا، جس نے ہمیں اسلاف کی دوسری زریں روایات کے ساتھ ساتھ اپنی اصل ہجری قمری تقویم بھی بھلادی۔ ہمیں اپنے بچوں کو اہتمام وخصوصیت سے اسلامی سال کے مہینوں کے نام یاد کروانے چاہئیں۔
قمری تقویم کی بنیاد زمین کے گرد چاند کی ماہانہ گردش پر ہے اور ہر مہینے کا آغاز نئے چاند سے ہوتاہے ۔قمری تقویم میں تاریخ کا آغاز غروب شمس سے ہوتا ہے اور قمری مہینہ کبھی 29 دن کا اور کبھی 30 دن کا ہوتا ہے۔ یوں قمری سال عموما 354 دن اور بعض مرتبہ 355 دن کا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف موجودہ رائج عیسوی تقویم میں آج کل دن کا آغاز رات بارہ بجے سے ہوتا ہے اور اس میں یہ بھی طے ہے کہ ہر سال کون سامہینہ کتنے دنوں کاہوگا، جبکہ فروری کا مہینہ عام طور پر 28 دن کا لیاجاتا ہے اور لیپ یعنی چار پر تقسیم ہونے والا ہر چوتھے سال میں 29 دن کا ہوتا ہے۔ مہینوں کی یہ تعداد خود ساختہ ہے، کسی قاعدہ یا ضابطہ کے تحت نہیں البتہ سب مہینوں کے دنوں میں مجموعی تعداد 365 اور لیپ کے سال میں 366 دن ہوتی ہے۔
سال کے تمام موسم :
اس کے مقابل قمری تقویم میں ابہام ہے، جس میں کئی مصلحتیں پوشیدہ ہیں، مثلا: بعض اہم مواقع پر اس ابہام سے پیدا ہونے والی انتظاری کیفیت (سسپنس) نہایت مسرت افزا ہوتی ہے، اہل اسلام عید الفطرکے ہلال کی امکانی رویت و عدم رویت سے پیدا ہونے والی انتظاری کیفیت میں چاند دیکھنے کی والہانہ کوشش کرتے ہیں ۔بچوں، جوانوں ، بوڑھوں ، مردوں اور عورتوں کی چاند دیکھنے کی یہ مسرت آمیز مساعی ایک عجیب سماں پیدا کرتی ہیں۔ اگر عید وغیرہ کا دن پہلے سے ہی سو فیصد یقین کے ساتھ متعین اور مقرر ہوتا تو یقینا ہلال عید کی یہ خوشی نصیب نہ ہوتی۔ قمری مہینوں کی موسموں سے عدم مطابقت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بعض نہایت اہم احکام شرعیہ مثلا؛ صیام رمضان کی تعمیل زندگی بھر میں تمام موسموں میں ممکن ہوجاتی ہے، مثلا؛ ایک شخص بالغ ہونے پر رمضان کے روزے رکھنا شروع کرتا ہے اور پچیس برس روزے رکھنے پر جسمانی صحت کے لحاظ سے روزے رکھنے کے قابل رہتاہے، تو وہ موسم گرما، موسم سرما ،موسم بہار اورموسم خزاں یعنی سال کے تمام موسموں میں روزے رکھنے کی سعادت حاصل کرلیتا ہے۔ اگر اس طرح کے احکام کے لئے شمسی مہینے متعین کئے جاتے تو ساری عمر ایسے احکام کی تعمیل ایک ہی موسم میں ہوتی، بلکہ شمالی نصف کرہ اور جنوبی نصف کرہ کے موسمی تضاد کی وجہ سے بعض علاقوں اور ملکوں کے لوگ موسم گرمامیں اور دوسرے علاقوں کے لوگ موسم سرما میں ان احکام کی تعمیل کے لئے ہمیشہ پابند ہوکر رہ جاتے اور ان احکام کی بجاآوری کے سلسلے میں موسمی تغیرات کا فائدہ نہ اٹھاسکتے، اسلامی تقویم نے ہی یہ بات ممکن بنادی ہے۔ اس کے علاوہ ماہرین نے قمری ہجری تقویم کی بعض دیگر خصوصیات بھی بیان کی ہیں، من جملہ ان میں یہ بھی ہے کہ جب سے سن ہجری کا آغاز ہوا ہے، اس وقت سے لے کر آج تک اس میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، یہ خصوصیت غالباً صرف قمری تقویم ہی کو حاصل ہے۔ سن ہجری میں ہفتے کا آغاز جمعہ کے دن سے ہوتا ہے، جو سیدالایام یعنی تمام دنوں کا سردارہے۔ ہجری تقویم میں شرک ، نجوم پرستی یا بت پرستی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ مہینوں اور دنوں کے ناموں کو دوسری تقاویم کی طرح کسی بادشاہ، سیارے یا دیوی ، دیوتا سے کوئی نسبت نہیں. شرائع سابقہ میں بھی دینی مقاصد کیلئے یہی تقویم مستعمل تھی بعد میں لوگوں نے اس خالص قمری تقویم میں تحریف کرتے ہوئے اسے شمسی یا قمری شمسی تقویم میں بدل ڈالا۔ سال کا آغاز یکم محرم الحرام سے ہوتاہے، اور محرم الحرام کا یہ دن ہمیں ایک عظیم اور لازوال قربانی کی یاد دلاتا ہے کہ اس دن مراد رسول حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ایک بین الاقوامی سازش کے نتیجے میں شہید کردیا گیا تھا، اسی طرح اس مہینے کے ابتدائی دس دن ہمیں اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی فقید المثال قربانی کی یاد دلاتے ہیں کہ دین کی خاطر کیسی کیسی نابغہ روزگار شخصیات کو خاک و خون میں تڑپایا گیا، لہٰذایہ دین جب بھی قربانی کا تقاضا کرے، ان عظیم نفوس قدسیہ کی قربانیوں کو یاد کرکے قربانی کے لئے بصد دل وجان تیار ہوجانا،
کہ دانہ خاک میں مل کر گل وگل زار ہوتا ہے

اہل اسلام کو نئے سال کی مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ ہم یہ پیغام بھی دیناچاہتے ہیں کہ ہمیں اپنی اصل پہچان یعنی اسلامی ہجری سال کو بالکل نہیں بھلا دینا چاہئے، بلکہ اس کے نام بھی یاد رکھنے چاہئیں اور اسے استعمال بھی کرناچاہئے، کہیں ایسا نہ ہوکہ آئندہ چند سال میں ہماری نئی پود کے ذہنوں سے یہ تصور ہی محو ہوجائے کہ ہم بھی ایک زندہ جاوید تہذیب و تاریخ کے امین ہیں، ہمارا بھی ایک شاندار ماضی ہے، ہمارا بھی ایک تشخص ہے۔
ہجری سے عیسوی تاریخ میں منتقلی:
قمری ہجری سے عیسوی تاریخ میں منتقلی کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ہجری سال کو 0.970224 سے ضرب دیں اور اس میں 621.5774 جمع کر دیں۔ جواب میں اعشاریہ سے پہلے جو حصہ ہے وہ سال کو ظاہر کرے گا۔ اگر اعشاریہ کے بعد والے حصے کو 365 سے ضرب دے دی جائے تو جواب میں ان دنوں کی تعداد آ جائے گی جتنے دنوں کے بعد اس عیسوی سال میں یکم محرم ہوگی۔ یہ اعداد و شمار ایک یا دو دن کے فرق سے معلوم ہوں گے کیونکہ ایک ہی وقت میں دنیا کےمختلف حصوں میں دو مختلف اسلامی تاریخیں ممکن ہیں۔ 0.970224 اصل میں عیسوی سال کے حقیقی دورانیہ کو ہجری سال کے حقیقی دورانیہ پرتقسیم کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر 1428 کو 0.970224 سے ضرب دیں اور اس میں 621.5774 جمع کر دیں تو جواب میں 2007.057272 حاصل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ 1428 ہجری سن 2007 عیسوی میں شروع ہوگا۔ اگر 2007.057272 کے اعشاریہ کے بعد والے حصے کو 365 سے ضرب دی جائے تو 20.9 حاصل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ یکم محرم 1428 ہجری دنیا کے کچھ حصوں میں 20 جنوری 2007 عیسوی اور کچھ حصوں میں 21 جنوری 2007 عیسوی کو شروع ہوگا۔ یاد رہے کہ چونکہ عیسوی تقویم میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں اس لئے 1500 عیسوی سے پہلے کی تاریخوں سے یکم محرم کا حساب لگانے کے لئے 365 سے ضرب دینے کے بعد تین تفریق کرنا ضروری ہے۔

1 محرّماسلامی سال کا پہلا دن اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یوم شہادت
10 محرّمشہادت حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ يوم عاشوراء
28 صفررحلت حضور سرورکائنات حضرترسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اورشہادت حضرت  حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ
12 ربیع الاولولادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ بعض روایات کے مطابق 9 ربیع الاول اور بعض کے مطابق 17 ربیع الاول
22 جمادی الثانیابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وفات پائی
13رجبولادت حضرت علی کرم اللہ وجہہ
27 رجبواقعہ معراج
15 شعبانشب براتاور قبلہ تبديل كرنے كا حكم
3 رمضانحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی
17 رمضانحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی اور غزوہ بدر پیش آیا
19 رمضانحضرت علی کرم اللہ وجہہ پر قاتلانہ حملہ
21 رمضانشہادت حضرت علی کرم اللہ وجہہ
27 رمضانشب قدر۔ ویسے یہ رمضان کی آخری راتوں میں کسی بھی طاق رات میں ہو سکتی ہے
یکم شوالعید الفطراور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی وفات
7 شوالغزوہ احد پیش آیا
23 شوالغزوہ خندق پیش آیا
5 ذوالحجۃغزوہ سویق پیش آیا
10 ذوالحجۃعید الاضحیٰ اور آخرى وحی كا نزول
18 ذوالحجۃعثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یوم شہادت

اتقوا مقام التھمة

ایس اے ساگر
اغیار کی تقلید میں ہاتھ میں راکھی بندھوا کر اور جھوٹا دودھ پی کر امت لے پالک اور منہ بولے بھائی، بہن، اور بیٹے جیسے رشتوں کو حقیقی سمجھنے لگی ہے، قرآن و حدیث میں ایسے شخص کے بارے میں ممانعت آئی ہے جو اپنے حقیقی والد کو چھوڑ کر دوسرے شخص کو اپنا والد ظاہر کرے مثال کے طور پر کوئی شخص کسی بچے یعنی جس بچےکے والد کا علم ہو یا نہ ہو، کو لے پالک بناتا ہے یعنی اڈاپٹ Adopt کرکے اس کی پرورش کرتا ہے توپرورش کرنے والے کیلئے جائز نہیں ہے کہ اپنے آپ کو اس لے پالک بچے کا باپ ظاہر کرے، کیونکہ قرآن ِ کریم میں اللہ تعالی ٰ نے لے پالک کے بارے میں حکم دیا ہے کہ اُس کو اُس کے حقیقی والد کی طرف منسوب کیا جائے ،پرورش کرنے والا حقیقی باپ کے درجے میں نہیں ہوتا ، لہذا اُس کو والد کےطور پر پکارنا اور کاغذات میں لکھنا جائز نہیں ، گناہ ہے ، اور حدیث شریف میں ایسے شخص کے لئے جنت کو حرام قرار دیاگیا ہے جو اپنے والد کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے۔لہذا ہر موقع پر بچہ کی ولدیت میں اصل والد ہی کا نام لکھا جائےگا ، جیساکہ خود اللہ تبارک وتعالی نے سورت احزاب میں فرمایا ہے:
وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (4) ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ [الأحزاب : 4 ، 5]
اللہ تعالی نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنایا، یہ تو باتیں ہی باتیں ہیں جو تم اپنے منہ سے کہہ دیتے ہو ، اور اللہ وہی بات کہتا ہے جو حق ہو، اور وہی صحیح راستہ بتلاتا ہے۔تم ان (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے اپنے باپوں کے نام سے پکارا کرو۔یہی طریقہ اللہ کے نزدیک پورے انصاف کا ہے۔ اور اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں۔
مزید تفصیلات کیلئے مذکورہ آیات کی تفاسیر ملاحظہ فرمائیں، نیز مختلف احادیث میں بھی کسی دوسرے شخص کو اپنا والد ظاہر کرنے پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، جیساکہ بخاری شریف میں آیا ہے کہ :
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا ترغبوا عن آبائكم، فمن رغب عن أبيه فهو كفر» صحيح البخاري (8/ 156)
ترجمہ:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنے باپ کا کوئی انکار نہ کرے کیونکہ جو اپنے باپ سے منہ موڑتا ہے(اور اپنے کو دوسرے کا بیٹا ظاہر کرتا ہے تو)یہ کفر ہے۔“
عن سعد رضي الله عنه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام» صحيح البخاري (8/ 156)
ترجمہ:جس شخص نے اپنے آپ کو( حقیقی والد کے علاوہ)کسی اور شخص کی طرف منسوب کیا، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا والد نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔ قرآن و حدیث کے مذکورہ اور دیگر دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اپنے آپ کوحقیقی باپ کی بجائے کسی دوسرے شخص کا بیٹا ظاہر کرنا ناجائز و حرام ہے، جبکہ کسی لڑکی کا شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ اپنا والد تبدیل کررہی ہے اور اپنے آپ کو کسی اور کی بیٹی ثابت کررہی ہے،بلکہ یہ بات تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔

سینکڑوں خاندان تباہ :
آپ کے مسائل اور ان کا حل شہید الاسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ واضح طور پر فرماتے ہیں کہ شریعت میں منہ بولے بیٹے، باپ یا بھائی کی کوئی حیثیت نہیں، وہ بدستور اجنبی رہتے ہیں اور ان سے عورت کو پردہ کرنا لازم ہے، اس منہ بولے کے چکر میں سینکڑوں خاندان اپنی عزّت و آبرو نیلام کرچکے ہیں۔ اس لئے اس عورت کا یہ کہنا کہ: 
“میں منہ بولے بھائی سے ضرور ملوں گی.” 
خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اور بے حیائی کی بات ہے۔ اور یہ کہنا کہ: 
“میرا ضمیر صاف ہے!” 
کوئی معنی نہیں رکھتا، کیونکہ گفتگو ضمیر کے صاف ہونے نہ ہونے پر نہیں، کسی کے ضمیر کی خبر یا تو اس کو ہوگی یا اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں کہ کس کا ضمیر کس حد تک صاف ہے۔ گفتگو تو اس پر ہے کہ جب منہ بولا بھائی شرعاً اجنبی ہے تو اجنبی مرد سے (شوہر کی طویل غیرحاضری میں) مسلسل ملنا کیونکر حلال ہوسکتا ہے؟ اگر اس کا ضمیر صاف بھی ہو تب بھی تہمت اور اُنگشت نمائی کا موقع تو ہے، اور حدیث میں ایسے مواقع سے بچنے کی تاکید آئی ہے، حدیث میں ہے:
“اتقوا مقام التھمة!”
ترجمہ:… تہمت کے مقام سے بچو!”
لے پالک کی شرعی حیثیت:
دارالعلوم دیوبند کی سائٹ پر سوال:-{1776} 
زید نے بکر سے بکر کی لڑکی پیدائش کے دن رضامندی سے لے لیا تھا ، زید نے لڑکی کی پرورش کی ، پڑھایا اور دیگر ضروریات کے کام بھی سکھایا ، اب اس لڑکی کا رشتہ طے ہوا ہے اور عنقریب شادی ہونے والی ہے ، تو عقد کے دن سیاہ نامہ میں والد کی حیثیت سے بکر کا نام لکھایا جائے یا زید کا ؟ اب دونوں اس بات کے خواہاں ہیں کہ سیاہ نامہ میں والد کی حیثیت سے ان کا نام درج ہو ، اصل مسئلہ کیا ہے ؟ 
(محمد شرف الدین قریشی ، رحمت نگر)
جواب: اسلام میں گود لینے کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ، اسلام سے پہلے عربوں میں بھی گود لینے کا رواج تھا ، اسلام کے بعد بھی ابتدائی زمانہ میں یہ رواج باقی رہا ، حضرت زید بن حارثہ ص آپ ا کے غلام تھے ، ان کے والد اور چچا ان کو لینے کے لئے آئے اور آپ انے ان کو جانے کا اختیار دے دیا ، اس کے باوجود انہوں نے والد اور چچا کے ساتھ جانے کی بجائے رسول اللہ ا کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی ، آپ ا ان کی اس فدا کاری اور جاں نثاری سے بہت خوش ہوئے ، ان کو آزاد کر دیا اور اعلان فرما دیا کہ اب یہ میرے لے پالک بیٹے اور زید بن محمدا ہیں ، چنانچہ صحابہ ث حضرت زید ص کو’زید بن محمدا‘ کہنے لگے ۔ سورۂ احزاب کے آیت نمبر ۴؍ اور ۵؍ اسی سلسلہ میں نازل ہوئی ، اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
’’اللہ تعالی نے تمہارے منہ بولے ،، لے پالکوں کو تمہارا بیٹا نہیں بنا دیا ہے ، یہ محض تمہارے منہ کی باتیں ہیں ،اللہ حق بات ارشاد فرماتے ہیں اور صحیح راستہ کی ہدایت دیتے ہیں، ان کو ان کے والد کی طرف منسوب کر کے پکارا کرو ، اللہ کے نزدیک یہی قرین انصاف ہے ، اگر تم ان کے والد کو نہیں جانتے تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں ،جو کچھ غلطی تم سے ہوچکی ، اس میں کچھ حرج نہیں، لیکن تمہارے دل آئندہ ( جس غلطی کو ) بالارادہ کریں (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا ) اور اللہ بخشنے والے اور مہربان ہیں.‘‘
اس آیت کے ذریعہ یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ بچے اپنے باپ ہی کی طرف منسوب کئے جائیں گے ، گود لینے والوںکی طرف ان کی نسبت کرنا جائز نہیں ،کسی لڑکی کی پرورش کرنے کی وجہ سے وہ محرم نہیں ہوجاتی ، غیر محرم باقی رہتی ہے ، لہذا سیاہ نامہ میں اس لڑکی کے باپ کی حیثیت سے بکر ہی کا نام لکھا جائے ، نہ کہ زید کا ، البتہ زید کو لڑکی کی پرورش اور اس کی شادی کے سلسلہ میں ان شاء اللہ بہت اجر حاصل ہوگا۔
اسلام میں گود لینے کا مسئلہ :
اس سلسلہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ رکن مفتی فضیل الرحمن ہلال رقمطراز ہیں کہ "اسلام میں نکاح، طلاق اور وراثت کے قوانین پرنظر ڈالی جائے تواس کے لیے اس کے اپنے مستقل صابطے اور اس کی اپنی حدود ہیں، مثلاً نکاح کن لوگوں سے کن رشتوں میں ہوسکتا ہے، کن میں نہیں ہوسکتا․․․․ اسی طرح طلاق کا معاملہ ہے کہ طلاق کے بعد عورت کس سے نکاح کرسکتی ہے، کس سے نہیں․․․․ اسی طرح اسلام میں وراثت کا قانون خون کے حقیقی رشتوں کی بنیاد پر حصے مقرر کرتا ہے۔
          دوسری بات یہ کہ اسلامی معاشرت کا ایک اخلاقی معیار ہے۔ جن رشتوں میں یہ ضروری ہے کہ عورت اور مرد، لڑکا اور لڑکی ایک ساتھ رہیں، ایک ساتھ پلیں بڑھیں، ایک ساتھ زندگی گذاریں۔ ان رشتوں میں اسلام نے ایسا ذہنی تقدس پیدا کردیا ہے کہ کسی برے خیال کا ان کے درمیان گذر نہ ہوسکے، مثلاً بہن کا رشتہ، باپ بیٹی کا رشتہ، ماں اور اولاد کا رشتہ؛ تاکہ ان رشتوں میں خلا ملا ہونے کے باوجود کوئی غلط نتیجہ سامنے نہ آسکے․․․ منھ بولے رشتے میں خواہ کتناہی تقدس پیدا کردیا جائے، مصنوعی رشتوں کے رسمی تقدس پر بھروسہ کرکے اسلامی معاشرے کو گدلا نہیں کیا جاسکتا۔
عرب کا دستور
اسلام سے پہلے عرب کا دستور یہ تھا کہ یہ لوگ جس بچے کو گود لے کر متبنّیٰ بنالیتے تھے اس کو حقیقی اولاد کی طرح سمجھتے تھے، اسے وراثت ملتی تھی، منھ بولی ماں اورمنھ بولی بہنیں اس سے وہی خلا ملا رکھتی تھیں جو حقیقی بیٹے اور بھائی سے رکھا جاتا ہے۔ منھ بولے باپ کی بیٹیوں کا اور اس کے مرجانے کے بعداس کی بیوہ کا نکاح اسی طرح ناجائز سمجھا جاتا تھا، جس طرح سگی بہن اور حقیقی ماں کے ساتھ کسی کا نکاح حرام ہوتا ہے۔ اور یہی معاملہ اس صورت میں بھی کیا جاتا تھا جب منھ بولا بیٹا مرجائے یا اپنی بیوی کو طلاق دیدے․․․ منھ بولے باپ کے لیے وہ عورت سگی بہو کی طرح ہوتی تھی۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے منھ بولے بیٹے زید
۵۹۵ء میں جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ سے نکاح کیا تو حضرت خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے ایک پندرہ سالہ غلام زید بن حارثہ کو پیش کیا۔ زید یمن کے قبیلے بنوقضاعہ کے سردار حارثہ بن شراحیل کے لختِ جگر تھے۔ آٹھ سال کی عمر میں ڈاکوؤں کے ہاتھ لگ گئے تھے۔ زید کی والدہ سُعدیٰ بنتِ ثعلبہ قبیلہٴ طے کی شاخ بنی مَعن سے تھیں۔ یہ اپنی والدہ کے ساتھ نانیہال گئے، وہاں سفر میں ان کے پڑاؤ پر قین بن جسر کے لوگوں نے حملہ کیا، پکڑے جانے والوں میں نوعمر زید بھی تھے، ان لوگوں نے طائف کے قریب عُکاظ کے قبیلے میں ان کو بیچ دیا۔ خریدار تھے حضرت خدیجہ کے بھتیجے حکیم بن حزام۔ انھوں نے زید کو اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کی نظر کردیا۔ حضرت خدیجہ سے نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو حضرت خدیجہ کے یہاں دیکھا اور ان کی عادات واطوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حضرت خدیجہ سے مانگ لیا اور حضرت خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔ کافی دنوں کے بعد زید کے گھروالوں کو پتہ لگا کہ زید مکے میں ہیں، تو ان کے والد حارثہ بن شراحیل اور ان کے ساتھ زید کے چچا تلاش کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے اور عرض کیا کہ آپ جو فدیہ چاہیں ہم دینے کو تیار ہیں، ہمارا بچہ آپ ہمیں دے دیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میں لڑکے کو بلاتا ہوں اوراس کی مرضی پر چھوڑ ے رہتا ہوں اگر وہ آپ کے پاس جانا چاہے گا تو میں کوئی فدیہ نہ لوں گا اورآپ کا بچہ آپ کے حوالے کردوں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو بلایا اور ان سے کہا․․․․ ان دونوں صاحبوں کو جانتے ہو؟
انھوں نے عرض کیا: جی ہاں! یہ میرے والد ہیں اور یہ میرے چچا ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ لوگ تمھیں لینے آئے ہیں، اگر تم جانا چاہو تو ان کے ساتھ جاسکتے ہو، میری طرف سے تمھیں اجازت ہے۔ زید نے چھوٹتے ہی جواب دیا: میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔
والد اور چچا حیران ہوگئے اور کہا زید کیا تو آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتا ہے، اور اپنے ماں باپ اور خاندان کو چھوڑ کر غیروں کے پاس رہنا چاہتا ہے؟
زید نے جواب دیا․․․․ میں نے ان میں جو اوصاف دیکھے ہیں، اس کے بعد میں دنیا میں کسی کو بھی ان پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ زید کا یہ جواب سن کر باپ اور چچا بہ خوشی راضی ہوگئے کہ زید کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہنے دیں۔
جب وہ مایوس ہوکر لوٹنے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید اور ان کے والدین کو حرم میں لے جاکر قریش کے عام مجمع میں اعلان فرمایا کہ: میں زید کو آزاد کرتا ہوں آپ سب لوگ گواہ رہیں کہ آج سے زید میرا بیٹا ہے، یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے۔ اسی بنا پر لوگ ان کو زید بن محمد کہنے لگے․․․․ یہ سب واقعات نبوت سے پہلے کے ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت پر
۲/فروری ۶۱۰/ کو جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم منصبِ نبوت پر سرفراز ہوئے تو چار ہستیاں ایسی تھیں، جنھوں نے کسی تردد کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ نبوت سنتے ہی آپ کو اللہ کا سچا رسول تسلیم کرلیا۔ ایک حضرت خدیجہ، دوسرے حضرت زید، تیسرے حضرت علی اور چوتھے حضرت ابوبکر۔ اس وقت حضرت زید کی عمر تیس سال تھی اور ان کو حضور کی خدمت میں رہتے ہوئے پندرہ سال گزرچکے تھے۔ ہجرت مدینہ کے بعد ۴/ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کے لیے حضرت زینب کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا۔ حضرت زینب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی اُمیمہ بنت عبدالمطلب کی صاحبزادی تھیں۔ حضرت زینب اور ان کے رشتہ داروں نے اس رشتے کو نامنظور کردیا۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام دیا تو حضرت زینب نے کہا: اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ نَسَباً․ (میں اس سے نسب میں بہتر ہوں)۔
ابن سعد کا بیان ہے کہ حضرت زینب نے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ: لاَ اَرْضَاہُ لِنَفْسِیْ وَاَنَا اَیِّمُ قُرَیْشٍ․ (میں اسے اپنے لیے پسند نہیں کرتی، میں قریش کی شریف زادی ہوں)۔
حضرت زید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے، ان لوگوں کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی اور وہ بھی کوئی غیر نہیں؛ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی پھوپی زاد بہن اور اس کا پیغام آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آزاد کردہ غلام کے لیے دے رہے ہیں۔ مگر اسلام غلام اور آزاد کو ایک صف میں کھڑا کرنا چاہتا تھا، اس پر قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی کہ: وَمَا کَانَ لِمُوٴمِنٍ وَلاَ مُومِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِہِمْ، وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً مُّبِیْنَاً․ (سورئہ احزاب:۳۶)
”کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا۔“
اللہ کے اس حکم کو سنتے ہی حضرت زینب اور ان کے سب خاندان والوں نے بلاتامل سرِاطاعت خم کردیا۔ اس کے بعد نبی نے ان کا نکاح پڑھایا اور خود حضرت زید کی طرف سے دس دینار اور ساٹھ درہم مہر ادا کیا اور گھر بسانے کے لیے ان کو ضروری سامان عنایت فرمایا۔ حضرت زینب نے اگرچہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مان کر زید کے نکاح میں جانا قبول کرلیاتھا؛ لیکن وہ اپنے دل سے اس احساس کو کسی طرح نہ مٹاسکیں کہ زید ایک آزاد کردہ غلام ہیں، ان کے اپنے خاندان کے پروردہ ہیں۔ اس احساس کی وجہ سے زید سے ان کے ازدواجی تعلقات کبھی خوشگوار نہ ہوسکے۔ ایک سال سے کچھ ہی زیادہ مدت گذری تھی کہ نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔
اسلامی قانون- قدم بہ قدم
اسلام کا طریقہ ہے کہ: وہ جلدبازی میں کوئی قانونی آرڈی نینس جاری نہیں کرتا؛ بلکہ پہلے ذہن وفکر کو آمادہ کرتا ہے اور زمین کی تیاری کے بعد ہی تخم ریزی کرتا ہے۔
پہلا کام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے شروع ہوا کہ بچوں کو ان کے حقیقی باپوں کے نام سے پکارا جائے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ بولے فرزند کو زید بن محمد سے زید بن حارثہ کہا جانے لگا۔ قرآن مجید میں ہے: اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَائِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ․ (سورئہ احزاب:۵)
منھ بولے بیٹوں کو ان کے باپ کی نسبت سے پکارو! یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے۔
بخاری، مسلم اور ابوداؤد نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے رایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ اَدْعَیٰ اِلٰی غَیْرِ اَبِیْہ وَہُوَ یَعْلَمُ اَنَّہُ غَیْرُ اَبِیْہ فَالْجَنَّہُ عَلَیْہ حَرَامٌ․
”جس نے اپنے آپ کو باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا کہا دراں حالیکہ وہ جانتا ہو کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے اس پر جنت حرام ہے۔“
اس مصنوعی نسبت کو بول چال میں بھی ختم کردینے سے ذہن بدلنے لگے۔ اس بات کی تشریح کردی گئی کہ کسی کو پیار سے یا اخلاقاً بیٹا کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے؛ لیکن اس کو باقاعدہ بیٹا بنالینا اور مصنوعی رشتے کو حقیقی رشتے کی جگہ دینا غلط ہے۔ بیٹوں یا بیٹیوں جیسا حسنِ سلوک کرنا اور قانونی طورپر اس کو حقیقی رشتے کی جگہ دینا اس میں فرق ہے۔
 قرآن مجید میں ہے: وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَا اَخْطَاتُمْ بِہ وَلکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُکُمْ، وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمَا․ (احزاب:۵)
”نادانستہ جوبات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے؛ لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرو، اللہ درگذر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔“
اس طرح ہلکی سی ضرب اس رسم پرلگادی گئی اور ذہنوں کو تیار کردیا گیا۔ اب اس کو جڑ سے اکھاڑنے کی عملی ابتدا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرائی گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ رسمِ جاہلیت کا خاتمہ
اسی زمانے میں جب حضرت زید اور زینب کے درمیان تلخی بڑھتی چلی جارہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارہ ہوچکا تھا کہ زید جب اپنی بیوی کو طلاق دے دیں توان کی مطلقہ بیوی سے آپ کو نکاح کرنا ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ عرب کی سوسائٹی میں منھ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔
ایک مشکل کام اور سول صلی اللہ علیہ وسلم سماج کے نشانے پر
اسلام کے خلاف ہنگامہ اٹھانے کے لیے منافقین اور یہود ومشرکین کو جو پہلے ہی بپھرے بیٹھے ہیں ایک زبردست شوشہ ہاتھ آجائے گا۔ اس نام پر جب حضرت زید نے بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ: اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو طلاق نہ دو۔ آپ کا منشا یہ تھا کہ یہ شخص طلاق نہ دے تو مجھے نکاح کی نبوت نہیں آئے گی، ورنہ اس کے طلاق دینے کی صورت میں مجھے حکم کی تعمیل کرنی ہوگی اور مجھ پر وہ کیچڑ اچھالی جائے گی کہ پناہ بہ خدا؛ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اولوالعزمی کے اعلیٰ مرتبے پر دیکھنا چاہتا تھا اور ایک بڑی مصلحت کی خاطر آپ سے یہ کام لینا چاہتا تھا۔ قرآن مجید میں ہے: وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہ وَاَنْعَمْتَ عَلَیْہ اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ، وَاتَّقِ اللّٰہَ وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِیْہ وَتَخْشَیْ النَّاسَ․ وَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰہُ․ (احزاب:۳۷)
”اے نبی! یاد کرو وہ مواقع جب تم اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ تعالیٰ نے اور تم نے احسان کیا تھا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو۔ اس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ کھولنا چاہتاتھا۔ تم لوگوں سے ڈررہے تھے؛ حالانکہ اللہ ا س کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔“
آخر نوبت طلاق تک آگئی اور عدت پوری ہونے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت زینب سے نکاح کیا، لوگ منھ بولے رشتوں کے معاملے میں محض جذباتی بنیادوں پر جس قسم کے نازک اور گہرے تصورات رکھتے تھے وہ اس وقت تک ہرگز نہ مٹ سکتے تھے جب تک آپ خود آگے بڑھ کر اس رسم کو نہ توڑدیں۔
قرآن مجید میں ہے:
فَلَمَّا قَضٰیْ زَیجدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا لِکَیْ لاَ یَکُوْنَ عَلٰی الْمُوْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ اَزْوَاجِ اَدْعِیَائِہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا، وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہ مَفْعُوْلاً․ (احزاب:۳۷)
”جب زیداس سے اپنی حاجت پوری کرچکے (یعنی عدت پوری ہوگئی) تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون) کا نکاح تم سے کردیا؛ تاکہ مومنوں پر اپنے منھ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے؛ جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں اور اللہ کا حکم تو عمل میںآ نا ہی چاہیے تھا۔“
کہنے والوں کا ایک کہنا یہ تھا کہ: اچھا، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ منھ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح جائز قرار دیاگیا ہے، یہ صرف جائز ہے، ضروری تو نہیں، پھر ایسا کرنا ضروری کیوں تھا؟ اس کا جواب قرآن مجید میں دیاگیا:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ، وَلٰکِنْ رَسُوْلَ اللٰہ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ․ (احزاب:۴۰)
(لوگو!) محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں۔
ایک تو یہ کہ ان کے کوئی بیٹا نہیں ہے اس لیے ان کی بہو کہاں ہوئی؟ دوسرے یہ کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس حیثیت سے ان کی ذمہ داری ہے کہ جس حلال چیز کو تمہاری رسموں نے خوامخواہ حرام کررکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصبات کا خاتمہ کردیں اوراس کے حلال ہونے کے بارے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں۔ تیسرے یہ کہ وہ خاتم النّبیین ہیں، ان کے بعد نہ کوئی رسول آنے والا ہے اور نہ کوئی نبی کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح ان کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نبی یہ کسر پوری کردے۔
اس طرح جاہلیت کے اس بت کو ایک کاری ضرب سے توڑ کر رکھ دیاگیا۔
          * قرآن وحدیث اور اسوه رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ اسلام میں متبنّیٰ بنانا اور گود لینا اور دوسرے کے بچے کو گود لے کر اس کے ساتھ حقیقی اولاد کا معاملہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اور قیامت تک یہ رسم ختم ہوچکی ہے۔
          * گودلینا اکثر بے اولاد والدین کی اپنی خواہش ہوتی ہے یا پھر وہ لوگ گود لیتے ہیں، جن کے کوئی نرینہ اولاد نہیں ہوتی، اولاد ہونا نہ ہونا یا لڑکے کا نہ ہونا یہ سب اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہیں۔ دنیا میں انسان کی ساری خواہشیں نہ پوری ہوسکتی ہیں، نہ ہوسکیں گی۔ اسلام دینِ فطرت ہے اور گود لینا بہت سے اخلاقی، معاشرتی اور نفسیاتی مسائل پیدا کرتا ہے؛ اس لیے اسلام نے اس رسم کا دروازہ پورے طور پر بند کردیا ہے۔"


Tuesday 27 September 2016

من صلى لله أربعين يوما

ایس اے ساگر
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور ميں ایک عورت  جب بھی مسجد ميں نماز پڑھنے آتی تو ایک نوجوان اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو جاتا- دو چار دن نظر انداز کرنے کے بعد ایک دن وہ کھڑی ہوگئی اور پوچھا کہ
کيا ماجرا ہے!
نوجوان نے کہا
ميں تيرا چاہنے والا ہوں... میرے دل ميں تيرے لیے محبت کے بے پناہ جزبات ہیں... ميں تجھے حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تيار ہوں-
اس عورت نے کہا:
ٹھیک ہے میری کوئی شرط نہیں... اگر تو میرا اتنا ہی چاہنے والا ہے تو ایک شرط پوری کر دے تو پھر ميں تيرے لیے حاضر ہوں-
اس نے شرط رکھى کہ وہ چالیس دن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پيچھے نمازیں پڑھ لے.... آخری دن کی آخری نماز کے بعد يہيں ملاقات ہوگی-
اس نے کہا کہ يہ کون سا مشکل کام ہے.... تيرے لیے تو ميں کچھ بھی کرنے کو تيار تھا... يہ تو بہت آسان حل مل گیا-
چالیس دن نمازيں چلتی رہیں- وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی پر سوز اور رقت آمیز قرات سنتا رہا- چاليسويں دن کی آخری نماز کے بعد جب وہ واپس پلٹنے لگا تو وہ عورت وہاں کھڑی تھی.... وہ نظریں جھکا کے گزرنے لگا-
عورت نے کہا کہ ميں حسب وعدہ کھڑی ہوں-
نوجوان نے سر جھکا کر جواب دیا- میرے دل کا تعلق عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رب سے جوڑ ديا ہے- اب تم کھڑی بھی رہو تو ميں تمہاری طرف نظر التفات بھی نہیں کروں گا-

چالیس دن تک متواتر تکبیر اولی کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت

حدثنا عقبة بن مکرم ونصر بن علي الجهضمي قالا حدثنا أبو قتيبة سلم بن قتيبة عن طعمة بن عمرو عن حبيب بن أبي ثابت عن أنس بن مالک قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم من صلی لله أربعين يوما في جماعة يدرک التکبيرة الأولی کتبت له براتان براة من النار وبراة من النفاق قال أبو عيسی وقد روي هذا الحديث عن أنس موقوفا ولا أعلم أحدا رفعه إلا ما روی سلم بن قتيبة عن طعمة بن عمرو عن حبيب بن أبي ثابت عن أنس وإنما يروی هذا الحديث عن حبيب بن أبي حبيب البجلي عن أنس بن مالک قوله حدثنا بذلک هناد حدثنا وکيع عن خالد بن طهمان عن حبيب بن أبي حبيب البجلي عن أنس نحوه ولم يرفعه وروی إسمعيل بن عياش هذا الحديث عن عمارة بن غزية عن أنس بن مالک عن عمر بن الخطاب عن النبي صلی الله عليه وسلم نحو هذا وهذا حديث غير محفوظ وهو حديث مرسل وعمارة بن غزية لم يدرک أنس بن مالک قال محمد بن إسمعيل حبيب بن أبي حبيب يکنی أبا الکشوثی ويقال أبو عميرة

جامع ترمذی:جلد اول
عقبہ بن مکرم، نصر بن علی، سلم بن قتیبہ، طعمہ بن عمرو، حبیب بن ابوثابت، انس بن مالک سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس نے چالیس دن تک تکبیر اولی کے ساتھ خالص اللہ کی رضا کے لئے باجماعت نماز پڑھی اس کی دو چیزوں سے نجات لکھ دی جاتی ہے جہنم سے نجات اور نفاق سے نجات امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حضرت انس سے مرفوعا بھی مروی ہے ہم نہیں جانتے کہ اس حدیث کو روایت کیا ہے اسماعیل بن عیاش نے عمارہ بن غزیہ سے انہوں نے انس بن مالک سے انہوں نے عمر بن خطاب سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کی مثل اور یہ حدیث غیر محفوظ اور مرسل ہے کیونکہ عمارہ بن غزیہ نے انس بن مالک کو نہیں پایا۔

علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن لغیرہ کہا ہے؛
10 - من صلى لله أربعين يوما في جماعة يدرك التكبيرة الأولى كتبت له براءتان براءة من النار وبراءة من النفاق
الراوي: أنس بن مالك المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 2/15
خلاصة حكم المحدث: [حسن كما قال في المقدمة]

11 - من صلى لله أربعين يوما في جماعه ، يدرك التكبيرة الأولى ، كتب له براءتان : براءة من النار ، و براءة من النفاق
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 6365
خلاصة حكم المحدث: حسن

12 - من صلى لله أربعين يوما في جماعة يدرك التكبيرة الأولى ، كتب له براءتان ، براءة من النار و براءة من النفاق
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 1979
خلاصة حكم المحدث: له طرق تدل أن له أصلا

13 - من صلى لله أربعين يوما في جماعة ، يدرك التكبيرة الأولى ، كتبت له براءتان : براءة من النار ، و براءة من النفاق
الراوي: أنس بن مالك و أبو كاهل و عمر بن الخطاب المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 2652
خلاصة حكم المحدث: حسن بجموع الطرق

14 - من صلى لله أربعين يوما في جماعة ، يدرك التكبيرة الأولى ؛ كتبت له براءتان : براءة من النار ، وبراءة من النفاق
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الألباني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 1102
خلاصة حكم المحدث: صحيح لغيره

15 - من صلى لله أربعين يوما في جماعة ، يدرك التكبيرة الأولى ، كتب له براءتان : براءة من النار ، و براءة من النفاق
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 409

خلاصة حكم المحدث: حسن لغيره

40 نمازیں پڑھنے کی حکمت :
ثواب، نیکی اور اجر اللہ کا خصوصی انعام ہے۔ نظام کائنات کا پورا سسٹم نور اور روشنی پر قائم ہے۔ یہ نور اور روشنی لہروں میں نازل ہوتا رہتا ہے۔ ایک نیکی کا مطلب ہے کہ بندہ ایک روشنی سے سیراب ہو گیا ہے۔ صلوٰۃ کا مطلب ہے کہ اللہ سے تعلق قائم کرنا۔
ایک نماز کے ثواب کا مطلب یہ ہے کہ نمازی کا اپنے رب سے یک گونہ تعلق مزید بڑھ گیا ہے۔ اور ایک لاکھ ثواب کا مطلب ہے کہ صلوٰۃ قائم کرنے والے بندے یا بندی کا اپنے اللہ سے ایک لاکھ گنا تعلق میں اضافہ ہو گیا ہے۔
مذہبی اعتبار سے چالیس کے عدد کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ قرآن میں کئی جگہ اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر بلایا اور چالیس دن رات مستقل طور پر اللہ تعالیٰ کے دھیان میں رہنے کا حکم دیا۔ ان چالیس دن راتوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر لاشعوری حواس کا غلبہ رہا۔ چالیس دن بعد شریعت موسوی کے احکامات تختیوں پر لکھے ہوئے نازل فرمائے۔
حضرت محمدﷺ کو نبوت سے چالیس سال کی عمر میں سرفراز کیا گیا۔ اس کے علاوہ قرآن کی رو سے چالیس سال کی عمر تک بندے کو عارضی دنیا سے اپنا دامن ہٹا لینا چاہئے اور زیادہ وقت عبادت و ریاضت میں مصروف رہنا چاہئے۔ چالیس سال کی عمر تک عقل انسانی میں فہم داخل ہو جاتا ہے اور آدمی کائنات کے نظام کو سمجھنے لگتا ہے۔ وظائف اور چلے بھی عموماً چالیس دن کے ہوتے ہیں۔
روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لئے جو اسباق دیئے جاتے ہیں وہ بھی عموماً چالیس دن کے ہوتے ہیں۔ غرض کہ چالیس کا عدد ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ حضور پاکﷺ کے روضہ مبارک پر ۴۰ نمازیں پڑھنے کے متعلق روایت ہے۔
لوگ حج سے پہلے یا حج کے بعد مدینہ منورہ میں قیام کر کے چالیس نمازیں مسجد نبوی میں پابندی سے ادا کرتے تھے۔ مسجد نبوی میں حضور پاکﷺ کا روضہ مبارک ہے۔ جہاں آپ رسول اللہﷺ محو استراحت ہیں۔ مسجد نبوی آپ رسول اللہﷺ کا حرم ہے۔ یہاں جنت کا راستہ ہے۔ آپ رسول اللہﷺ کا مسجد نبوی میں آنا جانا رہتا ہے۔ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران اکثر زائرین آپ رسول اللہﷺ کی خواب میں یا حالت بیداری میں زیارت کرتے ہیں۔
چالیس نمازیں ادا کرنے کے لئے کم از کم آٹھ دن مسجد نبوی میں پانچوں وقت کی حاضری ہوتی ہے۔ ذہن زیادہ تر حضور پاکﷺ کی جانب متوجہ رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے حضور پاکﷺ کے انوار اور روشنیاں ذہن میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ لوگوں کے اندر آپ رسول اللہﷺ کی طرز فکر منتقل ہوتی ہے۔ آپ رسول اللہﷺ کی محبت کی کشش دلوں کو آپ کی جانب کھینچتی ہے۔
ذہن و دل میں یہ بات یقین کے درجے تک پہنچ جاتی ہے کہ آپ رسول اللہﷺ کی ذات اعلیٰ ترین تخلیق ہے۔ آپ رسول اللہﷺ کی ذات اقدس سید البشر ہے۔ جس کا بنانے والا احسن الخالقین ہے۔ بشری پیراہن میں رہتے ہوئے جس طرح آپ رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ بشر ہونے کے ناطے انسان کے دل میں یہ خواہش جاگ اٹھتی ہے کہ میں بھی اپنی اندر کی صلاحیتوں سے کام لوں اور میری وجہ سے آخرت میں میرے پیارے نبی حضورﷺ مجھ سے خوش ہوں۔
چالیس نمازیں قائم کرنے کی حکمت یہ ہے کہ مسجد نبوی میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جائے۔ تا کہ حضورﷺ سے ذہنی اور قلبی رابطہ قائم ہو جائے۔ ذہن نور نبوت کو قبول کرنے کے قابل ہو جائے۔ اور جس طرح آپ رسول اللہﷺ نے اللہ کو جانا، پہچانا اور اپنی روحانی صلاحیتوں کے ساتھ اللہ پاک کی ہستی کا مشاہدہ کیا۔ رحمت العالمین کی رحمت سے یہ صلاحیتیں آپ رسول اللہﷺ کے روضہ مبارک پر نمازیں ادا کرنے سے ہمارے اندر بھی بیدار ہو جائیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ کائنات میں ہر تخلیق معین مقداروں میں بنائی گئی ہے۔ چالیس کا عدد بھی ایک معین مقدار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی فکر میں اس کا تعلق پیغمبروں کے ساتھ ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چالیس دن رات کے لئے کوہ طور پر بلایا گیا۔
حضور پاکﷺ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت و رسالت سے سرفراز کیا گیا۔ مسجد نبوی میں چالیس نمازیں قائم کرنے سے رسول اللہﷺ کے امتی میں آپ رسول اللہﷺ کی روشنیاں منتقل ہوتی ہیں اور اللہ اور اس کے رسول دونوں کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔
شعور، قربت اور ماحول سے بنتا ہے۔ آدمی جس ماحول میں رہتا ہے۔ ماحول کے اثرات اس کے اوپر مرتب ہوتے ہیں۔ جب کوئی مسلمان بندہ مسجد نبوی میں مسلسل آٹھ دن آٹھ رات حضورﷺ کے حرم سے وابستہ رہتا ہے اور ذہنی مرکزیت قائم رہتی ہے تو مسجد نبوی کا منور ماحول اس کے اوپر اثر انداز ہوتا ہے اور بندے کا دل محبت و عشق کے جذبات سے معمور ہو جاتا ہے۔ مسجد نبوی میں نمازیں ادا کرنے اجر بھی بہت زیادہ ہے۔ اجر اور ثواب کا مطلب یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں نور کی لہریں حضورﷺ کے امتی میں ذخیرہ ہو جاتی ہیں۔ روح توانا اور سرشار ہو جاتی ہے۔ نماز میں حضور قلب نصیب ہو جاتا ہے۔ شکوک و شبہات اور وسوسوں سے نجات مل جاتی ہے اور بندہ اللہ کے فضل و کرم اور رسول اللہﷺ کی نسبت سے ایسی نمازیں قائم کرتا ہے جس کے بارے میں ارشاد ہے کہ
’’الصلوٰۃ معراج المومنین‘‘
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی 
صفحہ نمبر 127 / 130۔

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1279648025410501&id=194131587295489

Monday 26 September 2016

رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا ، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا ، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا

ایس اے ساگر

بسم اللہ الرحمن الرحیم​

177593: تحقيق حديث ( من قال رضيت بالله ربا ، وبالإسلام ديناً ، وبمحمد رسولا وجبت له الجنة )

السؤال : 

قرأت حديثاً عن أبي سعيد رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( من قال : رضيت بالله رباً ، وبالإسلام ديناً ، وبمحمد صلى الله عليه وسلم نبياً وجبت له الجنة ) . فهل هذا الحديث صحيح أم ضعيف ؟

الجواب :
الحمد لله
أولا :
هذا الحديث يرويه الصحابي الجليل أبو سعيد الخدري رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( مَنْ قَالَ : رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا ، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا ، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ )
رواه ابن أبي شيبة في " المصنف " (6/36)، وعبد بن حميد في " المسند " (ص308)، وأبوداود في " السنن " (رقم/1529)، والنسائي في " السنن الكبرى " (9/7)، وابن حبان في " صحيحه " (3/144)، والحاكم في " المستدرك " (1/699) وقال : " هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ".
جميعهم من طريق زيد بن الحباب ، حدثنا عبد الرحمن بن شريح الإسكندراني ، حدثني أبو هانئ الخولاني ، أنه سمع أبا علي الجنبي ، أنه سمع أبا سعيد الخدري رضي الله عنه . 
وهذا إسناد صحيح ، رجاله ثقات ، ليس فيه مطعن ظاهر .
وجاء الحديث أيضا بلفظ قريب من اللفظ السابق ، رواه أحد تلاميذ أبي هانئ الخولاني ، وهو عبدالله بن وهب ، عن أبي هانئ ، عن أبي عبد الرحمن الحبلي – وليس عن أبي علي الجنبي – عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( يَا أَبَا سَعِيدٍ ، مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا ، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا ، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ . فَعَجِبَ لَهَا أَبُو سَعِيدٍ ، فَقَالَ : أَعِدْهَا عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللهِ ، فَفَعَلَ ، ثُمَّ قَالَ : وَأُخْرَى يُرْفَعُ بِهَا الْعَبْدُ مِائَةَ دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ ، مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ، قَالَ : وَمَا هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ : الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ ، الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ ) .
رواه الإمام مسلم في " صحيحه " (رقم/1884) والنسائي في " السنن الكبرى " (9/7) وقال – منبها على الاختلاف على أبي هانئ - : " خالفه عبد الله بن وهب ، رواه عن أبي هانئ ، عن أبي عبد الرحمن ، عن أبي سعيد ", وقال الطبراني في " المعجم الأوسط " (8/ 317): " ورواه الليث بن سعد ، وعبد الله بن وهب ، عن أبي هانئ ، عن أبي عبد الرحمن ، عن أبي سعيد ".
وهذا الاختلاف في الإسناد على أبي هانئ لا يضر إن شاء الله ، فسياق الحديث واحد تقريبا ، وإن كان الأرجح هو السياق الثاني ، وذلك لثلاثة أدلة :
الدليل الأول : أن عبدالله بن وهب أوثق من عبد الرحمن بن شريح ، فقد كان أحد الأئمة الأعلام ، وجاء في ترجمته في " تهذيب التهذيب " (6/73): " قال الحارث بن مسكين : جمع ابن وهب الفقه ، والرواية ، والعبادة ، ورزق من العلماء محبة وحظوة من مالك وغيره . وكان يسمى ديوان العلم ، قال ابن القاسم : لو مات ابن عيينة لضربت إلى ابن وهب أكباد الإبل ، ما دون العلم أحد تدوينه ، وكانت المشيخة إذا رأته خضعت له ".
الدليل الثاني : أن السياق الثاني أخرجه واختاره الإمام مسلم رحمه الله ، وانتقاء مسلم أولى من انتقاء غيره ، فقد أجمعت الأمة على جلالة صحيحه ودقته وحسن انتقائه .
الدليل الثالث : ثم إن الطبراني في " المعجم الأوسط " (8/317)، والبيهقي في " شعب الإيمان " (6/ 118) روياه من طريق عبدالله بن صالح ، عن عبدالرحمن بن شريح ، عن أبي هانئ ، باللفظ الذي روى به عبدالله بن وهب عن أبي هانئ ، ما يدل على أن الأصل الثابت هو سياق حديث عبد الله بن وهب .
ثانيا : 
يقول ابن القيم رحمه الله – في التعليق على هذا الحديث ، وحديث ( ذاق طعم الإيمان من رضي بالله ربا ، وبالإسلام دينا ، وبمحمد رسولا ) -:
" هذان الحديثان عليهما مدار مقامات الدين ، وإليهما تنتهي ، وقد تضمنا الرضا بربوبيته سبحانه وألوهيته ، والرضا برسوله والانقياد له ، والرضا بدينه والتسليم له ، ومن اجتمعت له هذه الأربعة فهو الصديق حقا . وهي سهلة بالدعوى واللسان ، وهي من أصعب الأمور عند الحقيقة والامتحان ، ولا سيما إذا جاء ما يخالف هوى النفس ومرادها . 
فالرضا بإلهيته يتضمن الرضا بمحبته وحده ، وخوفه ، ورجائه ، والإنابة إليه ، والتبتل إليه ، وانجذاب قوى الإرادة والحب كلها إليه ، وذلك يتضمن عبادته والإخلاص له .
والرضا بربوبيته يتضمن الرضا بتدبيره لعبده ، ويتضمن إفراده بالتوكل عليه ، والاستعانة به ، والثقة به ، والاعتماد عليه ، وأن يكون راضيا بكل ما يفعل به .
فالأول يتضمن رضاه بما يؤمر به . والثاني يتضمن رضاه بما يُقدَّر عليه .
وأما الرضا بنبيه رسولا فيتضمن كمال الانقياد له ، والتسليم المطلق إليه ، بحيث يكون أولى به من نفسه ، فلا يتلقى الهدى إلا من مواقع كلماته ، ولا يحاكم إلا إليه ، ولا يحكم عليه غيره ، ولا يرضى بحكم غيره ألبتة ، لا في شيء من أسماء الرب وصفاته وأفعاله ، ولا في شيء من أذواق حقائق الإيمان ومقاماته ، ولا في شيء من أحكام ظاهره وباطنه ، لا يرضى في ذلك بحكم غيره ، ولا يرضى إلا بحكمه ، فإن عجز عنه كان تحكيمه غيره من باب غذاء المضطر إذا لم يجد ما يقيته إلا من الميتة والدم ، وأحسن أحواله أن يكون من باب التراب الذي إنما يتيمم به عند العجز عن استعمال الماء الطهور .
وأما الرضا بدينه فإذا قال ، أو حكم ، أو أمر ، أو نهى : رضي كل الرضا ، ولم يبق في قلبه حرج من حكمه ، وسلم له تسليما ولو كان مخالفا لمراد نفسه أو هواها ، أو قول مقلده وشيخه وطائفته ، وهاهنا يوحشك الناس كلهم إلا الغرباء في العالم ، فإياك أن تستوحش من الاغتراب والتفرد ، فإنه والله عين العزة ، والصحبة مع الله ورسوله ، وروح الأنس به ، والرضا به ربا ، وبمحمد صلى الله عليه وسلم رسولا ، وبالإسلام دينا ... فمن رسخ قدمه في التوكل والتسليم والتفويض حصل له الرضا ولا بد ، ولكن لعزته وعدم إجابة أكثر النفوس له وصعوبته عليها لم يوجبه الله على خلقه رحمة بهم ، وتخفيفا عنهم ، لكن ندبهم إليه ، وأثنى على أهله ، وأخبر أن ثوابه رضاه عنهم ، الذي هو أعظم وأكبر وأجل من الجنان وما فيها . 
فمن رضي عن ربه رضي الله عنه ، بل رضا العبد عن الله من نتائج رضا الله عنه ، فهو محفوف بنوعين من رضاه عن عبده : رضا قبله أوجب له أن يرضى عنه ، ورضا بعده هو ثمرة رضاه عنه ، ولذلك كان الرضا باب الله الأعظم ، وجنة الدنيا ، ومستراح العارفين ، وحياة المحبين ، ونعيم العابدين ، وقرة عيون المشتاقين " انتهى باختصار من " مدارج السالكين " (2/171). 
وقال بدر الدين العيني رحمه الله : 
" قوله : ( رضيت بالله ربا ) أي : قنعتُ به ، واكتفيت به ، ولم أطلب معه غيره . قوله : (وبالإسلام دينًا ) أي : رضيت بالإسلام دينا بمعنى : لم أسْع في غير طريق الإسلام ، ولم أسْلك إلا ما يوافق شريعة محمد- عليه السلام . قوله : ( وبمحمد رسولا ) أي : رضيت بمحمد رسولا بمعنى : آمنتُ به في كونه مُرسلا إليّ وإلى سائر المسلمين . وانتصاب " ربا " و " دينًا "
و" رسولا " على التمييز ، والتمييز وإن كان الأصل أن يكون في المعنى فاعلا يجوز أن يكون مفعولا أيضًا كقوله تعالى ( وفجرْنا الأرْض عُيُونًا ) ويجوز أن يكون نصبها على المفعولية لأن" رضِي " إذا عُدي بالباء يتعدى إلى مفعول آخر " انتهى من " شرح سنن أبي داود " (5/439)
والله أعلم .

موقع الإسلام سؤال وجواب
أضف تعليقا
.....................................................................................................

عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ: جس کسی نے اللہ کو رضا کے ساتھ رب مان لیا اور اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان لیا تو اس نے ایمان کا مزہ پالیا۔ (مسلم: کتاب الایمان، اس بات کا بیان کہ جس نے اللہ کو رضا کے ساتھ رب مان لیا تو اس نے ایمان کا مزہ پالیا: ٥٦)

عن العباس بن عبدالمطلب انہ سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، یقول: ذاق طعم الایمان من رضی باللہ ربا، وبالاسلام دینا، وبمحمد رسولا​

راوی حدیث: عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان کا مکمل نام عباس بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف ، ابوالفضل الہاشمی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سال بڑے تھے۔

ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ بڑے ہو یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟ انہوں نے جواب دیا:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہیں اور میری عمر ان سے زیادہ ہے۔ انہوں نے اسلام مکی ہی دور میں قبول کر لیا تھا لیکن اسے چھپائے رکھا تھا، اور جب اوس اور خزرج کے لوگوں نے عقبہ کی گھاٹی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ آنے کی دعوت دی تو اس وقت صرف عباس رضی اللہ عنہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور اس موقع پر انہوں نے ایک زبردست تقریر کی تھی جس میں انہوں نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ اگر تم ان کی مکمل طریقہ سے مدد کرو ، ان کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری لو تو میں انہیں تم لوگوں کے ساتھ بھیجنے کے لئے تیار ہوں ورنہ انہیں تم یہاں کمزور مت سمجھوبلکہ وہ یہاں اپنے خاندان میں بڑی شان و شوکت سے ہیں۔ اسی طرح غزوہ بدر کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

دورانِ جنگ اگر عباس رضی اللہ عنہ دکھیں تو انہوں قتل نہ کرنا کیوں کہ وہ مجبورا ًلائے گئے ہیں 

(ان کے ساتھ چند اور لوگوں کا بھی نام ذکر کیا تھا)۔

عباس رضی اللہ عنہ کی وفات بروز جمعہ ، ١٤ رجب ٣٢ ھ میں عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوئی۔ ٨٨ سال کی عمر پائی اور بقیع میں دفن ہوئے۔

(طبقات ابن سعد: جزء ٤، ص ٣)

الفاظ حدیث کی لغوی و اصطلاحی تشریح:

ذاق: اس کی اصل( ذال ، واو ، قاف) ہے۔ جس کے معنی ہے چکھنا، ظاہری یا باطنی حاسہ سے کسی چیز کے خوش مزہ یا بدمزہ ہونے کا اندازہ لے لینا، ذوق کم درجہ میں ہونے کے باجود زیادہ کے بارے میں خبر دے دیتا ہے ،قرآن کریم میں عذاب اور دنیاوی رحمت دونوں کے لئے لفظ ذوق کا استعمال ہوا ہے کیونکہ گرچہ وہ کم ہے لیکن تاثیرا اور احساس کے اعتبار سے زیادہ ہے۔

ذہنی اور قلبی کیفیت کے اعتبار سے مومن کے لئے ایمان کی حلاوت اور ذائقہ ہی دنیا میں کافی ہے اور وہ اس سے زیادہ کی طاقت بھی نہیں رکھ سکتا اس لئے احادیث میں ذوق اور حلاوت کا ذکر ہوا ہے اس کو ایمان کا مکمل مزہ جنت ہی میںدیا جائے گا۔

رضا: یہ غضب کی ضد ہے، اس سے مقصود یہ ہے کہ ظاہر اور باطن کو اللہ کے تابع کرے، اوراللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے اس کی آزمائشوں پر برضا صبر کرے۔

مفہوم حدیث:

رضا باللہ کا مفہوم:

اللہ پر مکمل طریقہ سے ایمان لایا جائے، اس کی ربوبیت اور الوہیت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے، اللہ رب العالمین کی ہر اچھی اور بری تقدیر سے ہمیشہ خوش رہا جائے ، اللہ رب العالمین کا ہر طرح سے ہر چیز پر شکر ادا کیا جائے، اللہ کے ہر کام اور ہر حکم میں خیر ہی ہوتا ہے۔ اور عبودیت کی حقیقت بھی یہی ہے کہ بندہ اللہ کی رضا اور غضب سے موافقت کرے ، یہ یقین رکھے کہ اللہ بندوں کے لئے جو کچھ بھی کرتا ہے اس میں خیر ہوتا ہے ۔

اللہ رب العالمین سے رضا کا اظہار بھی بندوں سے ہونا چاہیئے جو اس کے اجر و ثواب کو بڑھاتے ہیں اور وہی ایمان باللہ اور رضا باللہ کی علامت ہوتے ہیں ۔ اللہ سے رضامندی کی کئی ساری علامتیں اور نشانیاں ہیں جن میں سے چند یہ ہے:

ٔ٭ جب بھی بندے پر کوئی تکلیف آئے تو وہ اس پر غم نہ کرے بلکہ دل کی خوشی کے ساتھ اس پر صبر کرے ۔اور اللہ سے اس تکلیف کے دور کرنے کے لئے دعا کرے۔

٭ مصیبت کتنی بھی بڑی ہو ہاتھ پھیلائے تو صرف اللہ کے سامنے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے دعا کرے تو صرف اللہ رب العالمین سے، کیونکہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے جانا گویا یہ شہادت دینا ہے کہ وہ اللہ سے راضی نہیں اور نہ اللہ اس سے راضی ہے ۔

٭ اللہ رب العالمین کے فضل اور احسان کا ہمیشہ شکر ادا کرے ، اس کی نعمتوں کی نسبت اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف بالکل نہ کرے۔اللہ ہی ہر چیز کا سبب پیدا کرنے والا اور نعمتوں کو اتارنے والا ہے۔

٭ اس بات کو اپنے دل میں جازم کرلے کہ اللہ بہت ہی زیادہ مغفرت کرنے والا ہے وہ ہر گناہ کو معاف کرتا ہے ۔

٭ اور اس بات کو بھی اپنے دل میں راسخ کرلے کہ اللہ چاہے تو بہت ہی سخت عذاب بھی دے سکتاہے ۔

٭ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو۔

٭ گناہ ہونے پر فورا ً اللہ رب العالمین کی طرف رجوع ہو اس سے توبہ کر ے اور اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے۔

٭ اللہ سے محبت کرے ، اس کی اطاعت کرے ، ہر عبادت کو اسی کے لئے خالص کرے ، اور ریاکاری سے بچے۔

٭ اللہ رب العالمین کے انعامات اور احسانات کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھے ، کیونکہ یہ بندے کو اللہ سے قریب کرتی اور اس کی رضا کا حقدار بناتی ہے۔

٭ لفظ ''اگر '' سے بچے کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو ایسا ہوتا، یا اگر میں ایسا نہیں کرتا تو ایسا ہوتا۔ کیونکہ اس میں بھی اللہ کی قدر پر اعتراض ہے۔

رضا بالاسلام کا مفہوم:

صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جو اللہ رب العالمین کے نزدیک مقبول ہے ، اسلام کی ہر ہر تعلیم پر مکمل طریقہ سے عمل کرے، یہ یقین رکھے کہ اس کی تعلیمات ہر وقت کے لئے اور ہر انسان کے لئے ہے ۔اور اس کے ہی احکامات ہمیں تجارت اور لین دین کے نقصانات سے بچا سکتے ہیں۔ دنیا اور آخرت کی کامیابی صرف اسی میں ہے ۔ اور یہ یقین رکھے کہ اس کا ہی قانون دنیا میں امن اور شانتی پیدا کرسکتا ہے ۔ اسلام سے راضی نہ ہونے کی کئی ساری علامتیں ہیں جو آج کئی مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:

٭ اسلام کی تعلیمات پر نکتہ چینی کرنا، اس کی تعلیمات کو یہ کہہ کر رد کرنا کہ پندرہ سو سال پرانا قانون ہے۔

٭ تجارت اور لین دین میں یہ کہہ کر حرام کاری کرنا کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کریں گے تو کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔

٭ اس کے احکامات اور اوامر پر عمل کرنے والوں کو پچھڑی قوم کہہ کر مخاطب کرنا۔ یا پرانے خیالات والے کہنا۔

٭ اس کی تعلیمات پر ظالمانہ اور غیر عادلانہ ہونے کا الزام لگانا۔

٭ قرآن کی آیات اور احادیث کی تاویل منہج سلف کے خلاف کرنا۔

٭ اس کے بتائے ہوئے احکامات پر دل کی رضا کے ساتھ عمل نہ کرنا بلکہ ایک بوجھ سمجھ کر عبادت کرنا۔ اور احکامات کو دل کی تنگی کے ساتھ انجام دینا۔

رضا بالرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا نبی دل کی خوشی کے ساتھ تسلیم کرے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ سے آگے کسی کو نہ رکھے اور نہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے آگے کسی اور کی بات کو تسلیم کرے، ان کے ہر ہر طریقہ کو اپنی زندگی داخل کرنے کی کوشش کرے، ان کے ہی اسوہ اور طریقہ کو سب سے بہترین مانے اور اسے اپنائے، اس بات پر یقین رکھے کہ انہوں نے اللہ رب العالمین کی طرف سے آیا ہوا ہر ہر پیغام ہم تک پہنچایا اور اس میں سے کچھ بھی نہیں چھپایا۔ ان کی اطاعت کرے اور نافرمانی سے بچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راضی نہ ہونے کی بھی کئی ساری علامتیں ہیں جو آج ہم میں سے ہر ایک میں پائی جاتی ہے جن میں سے چند یہ ہیں:

٭ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو یہ کہہ کر رد کر ددینا کہ آج ماحول بدل گیا ہے۔

٭ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سے آگے کسی امام یا عالم کی بات کو رکھنا۔

٭ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل نہ کرنا۔

٭ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر کسی بھی طرح کا الزام لگانا، چاہے وہ ان کی ذات سے تعلق رکھے یا دین سے۔ کیونکہ ان پر الزام گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت پر الزام ہے ۔

٭ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے مقام سے نیچے کرنا ، ان کے فیصلوں سے راضی نہ ہونا۔

٭ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے مقام سے بڑھانا ، اور الوہیت تک پہنچا دینا۔

دین اسلام کے یہ تین بنیادی اصول ہیں اور انہی تین اصولوں کے بارے میں قبر میں سوال کیاجائے گا۔ جن کا جواب ایک بندہ اسی وقت دے سکتا ہے جب وہ دنیا میں ان سے راضی ہوگا اورن کے نواقضات سے بچتا رہے گا۔

ان کا ذکر صبح و شام کی دعا ئوں اور اذان کے بعد کی دعا میں بھی آیا ہے جن کی فضیلت یوں بیان ہوئی ہے:

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اذان کے بعد کہے '' اشھد ان لا الہ الا اللہ ، وحدہ لا شریک لہ، و ان محمداً عبدہ ورسولہ، رضیت باللہ ربا ،بمحمد رسولا ، بالاسلام دینا '' کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، میں نے اللہ کو رضا اور خوشی کے ساتھ رب مان لیا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اور اسلام کو دین تسلیم کرلیا۔ تو اس کے گناہوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ (صحیح مسلم: ٣٨٦)

ابو سلام بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم نے ان سے روایت کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے صبح اور شام کے وقت تین تین مرتبہ یہ دعا پڑھا '' رضیت باللہ ربا ، وبالاسلام دینا ، و بمحمد نبیا '' کہ میں نے اللہ کو رضا اور خوشی کے ساتھ رب مان لیا اور اسلام کو ددین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی تسلیم کرلیا ۔ تو اللہ اس سے قیامت کے روز یقینا راضی ہوجائے گا۔ (مسند احمد: ٣١، ص ٣٠٣، ١٨٩٦٨، شعیب الارنوط نے اس پر صحیح لغیر ہ کا حکم لگایا ہے۔) 

Saturday 24 September 2016

اَحَلَّ اﷲُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا

ایس اے ساگر
ان دنوں ایسی کمپنیاں وجود میں آرہی ہیں جن میں شریک ہونے والا شخص اپنے دائیں بائیں دو، دو یا اس سے زیادہ افراد کو ممبر بنانے کا پابند ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کا کاروبار جوا، سود، دھوکہ اور ان کے علاوہ بہت سے اسباب کی بنا پر صریحاً حرام نہیں ہے؟ جبکہ ان کمپنیوں کا حقیقی مقصد اپنی مصنوعات فروخت کرناہرگز نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ مصنوعات خریدنا ممبر بننے والوں کا مقصد ہوتا ہے بلکہ یہ مصنوعات محض حکومتوں کے عالمی قوانین سے بچنے کے لئے کہ جن میں کسی بھی کمپنی کو بغیر کسی پروڈکٹ کے اس قسم میں ممبر سازی کے پروگراموں سے روکا جاتاہے، رکھا جاتا ہے یا علمائے حق کے برائے راست فتاویٰ سے بچنے کے لئے ان مصنوعات کو حیلہ کے طور پر درمیان میں رکھا جاتا ہے. مصنوعات کے نام سے جو چیزیں جس قیمت پر پیش کی جاتی ہیں، اس جیسی یا اس سے بہتر معیار کی چیزیں کھلے بازار سے اس قیمت سے بہت کم قیمت پر میسر ہوتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتصادی اور اسلامی نقطئہ نظر کیا نیٹ ورک مارکیٹنگ جائز ہے؟ اس سلسلہ میں دارالعلوم حیدرآباد کے مولانااشتیاق احمد قاسمی‏ رقمطراز ہیں کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں ایجادات و اختراعات کی کمی نہیں، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نت نئی تبدیلیاں ہورہی ہیں، تجارت و معیشت کے فروغ کی بے شمار صورتیں وجود میں آگئی ہیں، جب کوئی نئی شکل سامنے آتی ہے تو اسے اختیار کرنے، یا نہ کرنے کے لیے ہر مسلمان جواز اور عدمِ جواز سے متعلق معلومات چاہتاہے؛ کیوں کہ ان کی تعیین کے بغیر عملی زندگی میں ایک قدم چلنا بھی مشکل ہے، اہلِ فقہ وفتاویٰ کے لیے ان احکام کابتانا تو مشکل نہیں ہوتا، جو قرآن، حدیث اور فقہ میں صراحت کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں، لیکن تغیر زمانہ کی وجہ سے جو نئی صورتیں پیدا ہوتی ہیں، ان کا شرعی حکم بتانا، ذرا مشکل ہوتا ہے؛ اس لیے کہ حلت و حرمت کی تعیین کے لئے پہلے علت معلوم کرنی ہوتی ہے، یا نظائرِ فقہیہ کو دیکھ کر علتِ مشترکہ کی بنیاد پر حکم لگایا جاتاہے، یہ بہت ہی نازک مرحلہ ہے؛ اس لئے کہ جس طرح کسی حرام کو حلال کہنا جائز نہیں، اسی طرح کسی حلال کو حرام کہنا بھی درست نہیں ہے، اس موڑ پر مسئلہ بتانے والا واقعتا اپنے کو جنت اورجہنم کے درمیان محسوس کرنے لگتا ہے۔
معیشت کے انھیں جدید طریقوں میں نیٹ ورکنگ Net working طریقہ آج کل بہت عام ہورہاہے، پہلے تو کمپنیاں کم تھیں، لیکن آج کل مختلف کمپنیاں اپنے کاروبار کو اس انداز پر پھیلارہی ہیں، دارالافتاء میں اس طرح کے سوالات کثرت سے آرہے ہیں کہ ان کمپنیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آیا ان میں شرکت جائز ہے یا ناجائز؟ زیرِ قلم مقالہ میں اسی سے متعلق تفصیلی بحث پیش کی جارہی ہے، اس کی شرعی عقلی اور معیشتی حیثیت پر بحث کرنے سے پہلے اس طریقہٴ تجارت کا تعارف پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
تعارف:
'نیٹ ورک مارکیٹنگ' یہ انگریزی تعبیر ہے، اس کا اردو ترجمہ 'بچھے ہوئے جال نما تجارت' سے کرسکتے ہیں، اس تجارت میں ایک آدمی کمپنی کا ممبر بنتا ہے، پھر چند دوسروں کو ممبر بناتا ہے، پھر یہ سب بہت سارے لوگوں کو اپنے تحت ممبر بناتے ہیں تو ایک دوسرے سے سلسلہ وار ملی ہوئی تجارت کی یہ صورت 'جال' کے مشابہ ہوجاتی ہے،اسے ملٹی لیول مارکیٹنگ Multi Level Marketing بھی کہتے ہیں، اس کو اردو میں 'مختلف السطح تجارت' کہہ سکتے ہیں؛ اس لئے کہ اس میں ہر رکن کی سطح اور اس کی حیثیت برابر نہیں ہوتی؛ بلکہ جو پہلے شامل ہوتے ہیں، ان کی اونچی، زیادہ نفع بخش اور بعد والے کی اس سے نیچی اور کم نفع والی سطح ہوتی ہے،اس میں پیڑامیڈ اسکیم Pyramid scheme کے نظریہ کے مطابق کام ہوتا ہے، پرامیڈ 'مخروطی' اور 'اہرامی' شکل کو کہتے ہیں، یعنی گاجر و مولی کو اُلٹ کر جو صورت بنتی ہے، وہی شکل اس کی ہوتی ہے، یعنی پہلے ایک ممبر ہوتا ہے، پھر اس سے متصل ممبران بڑھتے اورپھیلتے چلے جاتے ہیں۔ اس کا طریقہٴ کار یہ ہے کہ کمپنی کی مصنوعات کھلی مارکیٹ میں فروخت نہیں ہوتیں؛ بلکہ جو شخص کمپنی کا ممبر بنتا ہے،اسی کو کمپنی کی مصنوعات فراہم کی جاتی ہیں، خریدار کو خریدی ہوئی اشیاء تو ملتی ہیں، ساتھ ہی کمپنی اس کو ترغیب دیتی ہے کہ آپ اپنے تحت مزید ممبر بنائیے، کمپنی کا سامان فروخت کرنے میں تعاون کیجئے، لہٰذا خریدار جن لوگوں کو ممبر بناتا ہے، اور کمپنی سے سامان خریدنے کے لیے آمادہ کرتاہے،اس پر کمپنی کمیشن Commission دیتی ہے، پھر یہ کمیشن صرف ان خریداروں تک محدود نہیں رہتا، جن کو اس نے خریدار بنایا ہے؛ بلکہ اس کے ذریعہ بنے ہوئے خریداروں سے آگے جتنے خریدار تیار ہوئے ہیں، ان کی خریداری پر بھی پہلے شخص کو کمیشن ملتا رہتا ہے، اور مرحلہ وار یہ سلسلہ بہت آگے تک چلاجاتا ہے، مثال کے طورپر اگر پہلے مرحلہ میں دو ممبر بنے، پھر ہر ایک نے دو دو لوگوں کو ممبر بنایا تو دوسرے مرحلہ میں چارہوگئے، پھر ہر ایک نے دو دو ممبر بنائے تو تیسرے مرحلہ میں آٹھ ہوگئے، پھر ہر ایک نے دو دو ممبر بنائے تو چوتھے مرحلہ میں ممبروں کی تعداد سولہ تک پہنچ گئی، پہلے ممبر نے صرف دو ممبر خود بنائے تھے لیکن اس کو دوسرے تیسرے اور چوتھے مراحل میں بنے ہوئے سولہ ممبروں کی خریداری تک کا کمیشن ملتا رہے گا اوریہ سلسلہ آگے بھی بڑھے گا، جبکہ ہر مرحلہ میں ممبران کی تعداد اس سے اوپر کے مرحلہ کے مقابلہ میں دوگنی ہوتی ہے، اور آخری مرحلہ کے ممبران کی تعداد اوپر کے تمام مرحلوں کے ممبران کی مجموعی تعداد سے بھی کچھ بڑھی ہوئی ہوتی ہے، جیسا کہ مذکورہ نقشہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ چوتھے مرحلہ میں ممبران کی تعداد سولہ ہے جب کہ اوپر کے سارے ممبران کی تعداد چودہ ہی ہے، اس طرح مجموعی تعداد تیس ہوگئی، اگر یہ سلسلہ جاری رہے تو دسویں مرحلہ میں ممبروں کی تعداد ایک ہزار چوبیس ۱۰۲۴ اور کل ممبران کی تعداد دو ہزار چھیالیس ۲۰۴۶ ہوجائے گی۔
اس طرح نیچے کے ممبروں کی خریداری کاکميشن اوپر والے کو ملتا رہے گا، کمپنی کی ماہانہ خریداری جس طرح بڑھتی ہے، اسی طرح ممبروں کو دیے جانے والے کمیشن میں بھی ضابطہ کے مطابق فی صدی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
اوراس اضافہ کی حد بعض کمپنیوں میں متعین ہوتی ہے، مثلاً ایموے Amway میں اکیس فی صد 21% تک ہی کمیشن پہنچتی ہے؛ البتہ غیرمعمولی کارکردگی ظاہر ہونے اور خریداری کی ایک مخصوص اونچی سطح پر پہنچنے کی صورت میں کمپنی متعینہ کمیشن پر کچھ رقم اعزازی طورپر رائلٹی Royalty کے نام سے دیتی ہے۔
اپنے تحت مطلق ممبر بنانا ہی کمیشن پانے کے لیے کافی نہیں؛ بلکہ مخصوص تعداد کی شرط ہوتی ہے، مثلاً افراد کی مجموعی تعداد کم از کم نو اس طور پر ہونا کہ ہر مرحلہ میں کم از کم تین ممبر ہوں تب ہی کمپنی کمیشن جاری کرے گی، ایک بار کمیشن پالینے کے بعد پھر نو ممبران کی زیادتی شرط ہوتی ہے۔ حوالہ کے لئے سہ ماہی بحث ونظر ص:۱۶۵،۱۶۶ سے رجوع کیا جاسکتا ہے، البتہ ہر کمپنی کے ضابطہ میں تعداد کا تفاوت ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔
اگر کوئی آدمی راست ممبر بننا چاہے تو بعض کمپنیوں میں اس کی اجازت نہیں ہوتی، اس کو بھی کسی کے تحت ہی ممبر بننا پڑتا ہے، اس طرح کی کمپنیوں میں اکثر ایسی ہی ہیں، جن کی مصنوعات ممبر ہی کے توسط سے خریدی جاسکتی ہیں، البتہ بعض کمپنیاں بغیر ممبر بنے بھی اپنی مصنوعات کے خریدے جانے کی سہولت دیتی ہیں، مگر رعایت ممبر ہی کے ساتھ خاص ہوتی ہے، ان کے یہاں بھی اوپر والے ممبران کو نیچے اور کافی نیچے والے ممبران کا کمیشن دینا اصول میں داخل ہوتا ہے۔
ممبر بننے کے وقت کمپنی کچھ سامان، ان کے بقول، رعایتی قیمت پر دیتی ہے، اور کچھ متعین روپے ممبری فیس، اور لٹریچر وغیرہ کا معاوضہ بتاکر لے لیتی ہے، رعایت کے نام پر جن پیسوں کو واپس کرنا چاہیے، درحقیقت انہیں کو فیس وغیرہ کے نام سے وصول کرلیتی ہے، گویا ضابطہ میں کمپنی کے پاس ممبر کا ایک روپیہ بھی نہیں رہتا جس کا وہ مطالبہ کرسکے۔
کمپنی میں رکنیت عرف ممبر شپ Member ship کی برقراری کے لئے سالانہ کچھ متعین رقم تجدیدی فیس کے طور پر ادا کرنی پڑتی ہے، اور بعض میں ہر مہینہ کم از کم سورپے کا مال خریدناشرط ہے؛ مثلاً R.C.M کمپنی۔
اس تجارت سے وابستہ لوگوں کا نقطئہ نظر یہ ہے کہ عام طور پر مصنوعات کی تشہیر Advertise پر کافی اخراجات آتے ہیں، اس لئے کمپنی کی کوشش ہے، کہ جو رقم تشہیر پر خرچ ہوتی ہے، وہ اس کی بجائے خود گاہکوں یعنی ممبروں کو دی جائے، اس لئے ممبران کو کمیشن دیا جاتا ہے۔
حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے، اس لئے کہ یہ کمپنیاں تشہیر کے لئے لٹریچر چھاپتی اور تقریباً ہر ماہ ممبران کو بھیجتی ہیں، کیسٹ، اور سی ڈی بھی فراہم کرتی ہیں، ان کے علاوہ مختلف اوقات میں سیمینار کرواتی ہیں، کیا ان سب میں کچھ خرچ نہیں ہوتا؟ اگر مان لیا جائے کہ خرچ نہیں ہوتا تو ان کمپنیوں کے سامان نہایت سستے کیوں نہیں ملتے؟ یہ لوگ عام طور سے ٹھنڈے مشروب Cold drink کی مثال دیتے ہیں کہ اس میں ایک روپیہ صرفہ آتا ہے اور وہ دس روپے کے ملتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ درست ہے تو یہ کمپنیاں اپنے سامان کی قیمت بازاری بھاؤ سے دس گنی کم کیوں نہیں رکھتیں؟ درحقیقت یہ سب ممبر سازی کے ذریعہ روپے بٹورنے کے ڈھکوسلے ہیں، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
ہندوستان میں نیٹ ورک کمپنیاں:
ہندوستان میں غالباً سب سے پہلے ایموے انڈیا Amway India کمپنی ۱۹۹۵/ میں آئی، اور لوگوں کو اکٹھا کرکے بے تحاشا روپے بٹورنے لگی، اپنے ممبروں کو جلد سے جلد مالدار ہونے اور راتوں رات لکھ پتی بننے کا خواب دکھانے لگی، ۱۹۹۸/ میں یہ کمپنی بعض ذرائع سے دیوبند کے عوام اور دارالعلوم دیوبند کے طلبہ میں متعارف ہوئی، اور بہت سے طلبہ جائز وناجائزکی تحقیق کیے بغیر، بظاہر جائز خیال کرکے اس کے جال میں پھنس گئے، ان میں بعض میرے احباب بھی تھے، اس کی شرعی صورت دریافت کرنے کے لئے میں نے اس کے تعارف نامے پڑھے اور پروگراموں میں کئی بار شرکت کی، مجھے چند بنیادی اشکالات ہوئے اور جواز پر انشراح نہیں ہوا، پھر دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے جو عدمِ جواز کافتویٰ شائع ہوا، تو اس کمپنی میں بلا سوچے سمجھے شریک ہوجانے والے ساتھیوں کو افسوس ہوا، مجھے اس بات پر زیادہ افسوس تھا کہ کمپنی نےسبز باغ دکھلاکر کئی لاکھ روپے طلبہ کے ہاتھوں سے لے لیے تھے، یہ تذکرہ اس لئے کیا کہ اچھے معقول قسم کے لوگ اس قسم کی کمپنیوں کے دامِ تزویر میں پھنس جاتے ہیں اور خاص کربے روزگار نوجوانوں کے لئے ایسی کمپنیاں بہت ہی کشش کا باعث ہوتی ہیں، نوجوانوں کو جلد سے جلد کروڑپتی بننے کا خواب نظر آنے لگتا ہے،اور نسخہ بھی اتنا آسان کہ جس میں نہ سرمایہ کاری کرنی پڑے اور نہ ہی زیادہ محنت ہو بلکہ بعض مراحل میں محنت بھی نہیں کرنی پڑتی اور سرمایہ تو کمپنی میں سرے سے باقی ہی نہیں ہے، گویا بے محنت وبے سرمایہ بہ عجلت مالداری کی ہوس دماغ میں بھرجاتی ہے۔
'ایموے انڈیا' کے علاوہ آرسی، سی، ایم R.C.M وغیرہ دیگر کئی ناموں سے کافی تعداد میں کمپنیاں میدانِ عمل میں اتری ہوئی ہیں، اور جلد مالدار ہونے کا جھانسا دے کر ناعاقبت اندیش افراد سے سرمایہ جمع کررہی ہیں، اسی وجہ سے گذشتہ برسوں میں، غالباً ۲۰۰۶/ کے دوران روزنامہ 'منصف' حیدرآباد میں ہندوستان کے شعبہٴ اقتصادیات کی طرف سے ایسی کمپنیوں کے دھوکے اور ضرر سے بچے رہنے کی تلقین و تاکید کی گئی تھی، اس لئے کہ ایسی کمپنیاں ملکی اقتصاد کے لئے زہرِ ہلاہل ہیں، ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے 'ایموے' کا مالک سارے لوگوں کے پیسے جمع کرکے فرار ہوگیا تھا، جس سے اس کمپنی کے ممبران میں کافی تشویش پائی جارہی تھی، لیکن چند دنوں کے بعد ہی ازسرِ نو اس کمپنی نے سنبھالا لیا، تب جاکر ممبران کی جان میں جان آئی، اس لئے تعارف کرواتے وقت اب اس کمپنی کا نام لینے میں وہ لوگ ہچکچاتے ہیں۔
دیگر ممالک میں:
'ملٹی لیول کمپنیاں' ہندوستان میں تو بیسویں صدی کی آخری دہائی میں متعارف ہوئی ہیں، لیکن اس سے پہلے دیگر ممالک خاص کر یوروپی ممالک میں یہ تجربہ کے مرحلے سے گذرچکی ہیں، خود 'ایموے' کے پروگراموں میں بھی اس کی صراحت کی جاتی رہی ہے، تعارف کرانے والے اس انداز سے بیان بازی کرتے ہیں کہ جیسے یہ کمپنیاں ان ترقی یافتہ ممالک کو فیض یاب کرکے اب ہمارے ملک کو بھی فیض یاب کرنے آئی ہیں، حالانکہ بات ایسی نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اِن کو اُن ممالک سے راندئہ درگاہ کردیاگیا ہے، وہاں کے ماہرینِ اقتصادیات نے انھیں مسترد کردیا ہے اور چونکہ اس کے بنیادی ساخت System میں دھوکہ اور تجارتی چال بازی Busness fraud ہے؛ اس لئے دنیا کے بیشتر ممالک میں اس پر پابندی عائد کردی گئی ہے، اور حکومتوں نے ان کے ضرر سے بچنے کی تلقین کی ہے، ان کے نعرے ضرور دلکش ہیں لیکن حقیقت میں پرفریب ہیں، انجام کار ساری رقوم ان کمپنیوں اور اداروں کے مالکان کی جھولی میں چلی جاتی ہیں، ممبران کو سوائے سراب اور دھوکہ کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
پڑوسی ملک پاکستان میں بھی ملٹی لیول مارکیٹنگ کی دھوکہ بازی، غیراخلاقی اور ناجائز لین دین پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرکت سے گریز کرنے کی تلقین کی گئی ہے، تفصیل SECP کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ حوالہ کے لئے سہ ماہی بحث ونظرص:۳۶۱ کے لئے رجوع کیا جاسکتا ہے.
امریکہ میں اسی طرز کی ایک کمپنی اسکائی بزکوم Skybiz.com ہے،اس کمپنی کی شاخیں متعدد ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں، مگر خود امریکی حکومت نے مذکورہ کمپنی پر عوام کے ساتھ دھوکہ دہی اور چال بازی Fraud کا الزام عائد کیا ہے، اسی کے پیش نظر 'اوکلاہومااسٹیٹ' کی عدالت نے کمپنی کی سرگرمیاں روک دینے،اور کمپنی کے کارکنوں اورایجنٹ حضرات کا سرمایہ اوراجرت انھیں واپس کیے جانے کے پیش نظر اس کمپنی کے اثاثے منجمد کردینے کا فیصلہ کیاہے۔ تصدیق کے لئے امریکی وزارتِ تجارت کی ویب سائٹ سے رجوع کیا جاتا سکتا ہے :http://www.Ftc.gov/opa/2001/06sky.htm حوالہ کے لئے بحث ونظر شمارہ ۶۸، ۶۹ جنوری - جون ۲۰۰۵/ص:۱۶۳ کا شمارہ شاہد ہے. 
جاپان اور چین میں ۱۹۹۸/ میں ایموے Amway اوراس طرز کی کمپنیوں پر پابندی لگ چکی ہے۔ حوالہ کے لئے اخبار منصف: مینارئہ نور ۲۴/۳/۱۴۲۸ھ سے رجوع کیا جاسکتا ہے. 
مصنوعات محض بطورِ حیلہ:
جب بھی اس کمپنی کے تعارفی پروگراموں میں سمجھنے کی نیت سے شرکت کا اتفاق ہوا، یا اس کمپنی کے ممبران کو نئے ممبر کی تشکیل کرتے ہوئے دیکھا تو ایک خاص چیز محسوس ہوئی کہ وہ نئے افراد کی شمولیت سے حاصل ہونے والے کمیشن کا لالچ خوب خوب دلاتے ہیں، در حقیقت نیٹ ورکنگ سسٹم میں کمیشن کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہوتی ہے جبکہ مصنوعات ثانوی درجہ رکھتی ہیں، نئے ممبر کو شمولیت پر راضی کرنے کے لئے خیالی کمیشن کا ذکر ہی کافی سمجھاجاتا ہے، اس کے بغیرمصنوعات کی مارکیٹنگ ناممکن ہے۔
(۱) مصنوعات کے ثانوی درجہ میں ہونے کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ ایموے کمپنی جب شروع ہوئی تھی تو اس کی مصنوعات بہت تھوڑی تھیں اکثر دھونے پونچھنے کے سیال Liquid مواد ہی تھے، مثلاً شیمپو Shampoo کپڑا فرش اور کار دھونے کا سیال مادہ، ٹوتھ پیسٹ Tooth paste، کریم Cream وغیرہ اور ساری چیزیں نہایت مہنگی اورگراں قیمت تھیں، اکثر چیزیں بازاری قیمت سے تین، چار بلکہ چھ گنا مہنگی تھیں، اگرچہ یہ دعویٰ تھا کہ یہ چیزیں معیار میں اعلیٰ و ارفع ہیں، لیکن وہ شامل ہونے والے ممبران کی معاشی حیثیت سے بھی نہایت ہی وراء الوراء اور بلند تھیں۔ وہ ممبران ایسی بھی چیز لائے تھے، جن کی انھیں کبھی ضرورت پیش نہ آئی، وہ ساری چیزیں دھری کی دھری رہ گئیں، مثلاً کار اور فرش دھونے والے قیمتی مواد وغیرہ یہ صورتِ حال اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انھوں نے کمیشن حاصل کرنے ہی کے لئے شمولیت اختیار کی تھی، آج بھی یہ صورتِ حال باقی ہے کہ شامل ہونے والے محض کمیشن کی نیت سے شامل ہوتے ہیں، اگر انھیں لوگوں سے بالفرض یہ کہاجائے کہ بلاممبر بنے محض مصنوعات استعمال کرنے کے لیے مذکورہ کمپنی کی اشیاء خریدیں تو وہ ہرگز نہیں خریدیں گے، بلکہ اس کے بالمقابل اسی جنس کی اشیاء دوسری کمپنی کی خریدیں گے،جو بہ نسبت معیاری اورمعتدل قیمت کی ہوں گی، انھیں کو اپنے لیے مناسب حال سمجھیں گے، اسی طرح اگران کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان کے ممبر بن جانے کے بعد کمپنی بند ہوجائے گی اور ان کو کمیشن ملنے کی نوبت نہیں آئے گی، تو بھی ایسی صورت میں وہ ہرگز ہرگز مذکورہ کمپنی کی مصنوعات نہیں خریدیں گے، یہ صورت بھی ببانگِ دُہَل یہ پکاررہی ہے کہ ان کمپنیوں میں شامل ہونے والے کمیشن کو ہدف اور مقصدِ اصلی بناتے ہیں، مصنوعات محض بہانہ ہوتی ہیں۔
(۲) اور بالفرض مصنوعات اگر سستی بھی ہوں تو بھی ممبران کی نیت اور ان کا قصد وارادہ نئے ممبران بناکر کمیشن حاصل کرنا ہی ہوتا ہے، اس لیے کہ معاشرہ میں کوئی بے عقل ہی ہوگا، جو ابتدائی مرحلہ میں ہی، بقول ان کے رعایتی قیمت پر سامان حاصل کرلینے پر اکتفاء کرے اور کمیشن بلکہ بے تحاشا کمیشن حاصل کرنے کی نیت نہ کرے، یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اشیاء کی محض جودت و عمدگی اور رعایت بتاکر ایک ممبر تیار کرنا بھی مشکل بلکہ محال ہوگا، اس لئے کہ دنیا کی ساری کمپنیاں اپنی مصنوعات کی عمدگی اور ارزانی ہی بتاکر اشتہار دیتی ہیں، ایسی صورت میں نیٹ ورک مارکیٹنگ کی سرے سے کوئی خصوصیت باقی نہیں رہ جائے گی۔
(۳) مصنوعات کی حیثیت ثانوی اور کمیشن کی اوّلی ہونے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اس طرح کی کمپنیوں کے اصول و ضوابط کااکثر حصہ کمپنیوں میں شرکت اور اسی سے متعلق شرائط واحکام پر مشتمل ہوتا ہے، ان کے تعارف ناموں میں خریداری اور سامان کا ذکر چند فقرات میں ہی ہوتا ہے، اس جگہ یہ بات قابلِ غور ہے کہ کیا اس طرزِ عمل کا مقصد صرف مصنوعات کی خرید و فروخت ہے؟ اور شرکت و ممبرسازی ضمنی ہے؟ یا معاملہ اس کے برعکس ہے؟
(۴) جیسا کہ 'تعارف' میں یہ بتایاگیا تھا کہ اپنی ممبری باقی رکھنے کے لئے سالانہ متعین رقم جمع کرنی پڑتی ہے اور بعض میں ماہانہ متعین خریداری شرط ہے، یہ اس طرح کی کمپنیوں کے شرائط میں داخل ہے، ظاہر ہے کہ ادائیگی، مارکیٹنگ میں تسلسل باقی رکھنے کا عوض ہی ہے، یہ کوئی اور چیز نہیں ہے، اس لیے کہ مصنوعات کی خریداری اوراس کا معاوضہ تو ابتداء میں ہی پورا ہوچکا ہے، اگر مصنوعات کی فروخت مقصود ہوتی تو یہ رقم بلا سامان نہ لی جاتی۔
(۵) یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ یہ کمپنیاں ممبرسازی کے لیے پورا تعاون فراہم کرتی ہیں، لیکن مصنوعات کی فروخت میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا، بلکہ کھلی مارکیٹ میں لاکر فروخت کرنا ضابطہ کے خلاف بتاتی ہیں، ظاہر ہے کہ جہاں کھلی مارکیٹ میں مصنوعات آئیں گی تو سارا بھانڈا پھوٹ جائے گا، لوگ جب دوسری کمپنیوں کی مصنوعات سے موازنہ کریں گے، تو ان کی حیثیت گھٹ جائے گی اور حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔
(۶) ملٹی لیول کی بعض کمپنیاں خواہش مند حضرات کو مصنوعات خریدے بغیر بھی شرکت کی اجازت دیتی ہے،اگر مصنوعات کی فروخت ہی مقصود ہوتی تو ایسی اجازت ہرگز نہ دیتیں۔ دیکھئے بحث ونظر، ص:۱۷۴، ۱۷۵.
مذکورہ بالا تفصیل کا حاصل یہ نکلا کہ اس طرح کی کمپنیوں کا مصنوعات فروخت کرنا درحقیقت پروگرام میں شریک ہونے کا حیلہ اور بہانہ ہے، اصل مقصد ممبرسازی کے ذریعہ کمیشن حاصل کرنا ہے۔
بنیادی خرابی:
بنیادی خرابی جس کی وجہ سے عالمی پیمانے پر اس کمپنی کو مسترد کیا جارہا ہے، وہ یہ ہے کہ اس نظام میں دوام و استمرار کی صلاحیت نہیں ہے، اس کے ابتدائی مراحل میں تو ممکن ہے کہ آسانی سے کچھ ممبر بن جائیں، لیکن چند مرحلوں کے بعد ممبربنانا دشوار ہوجائے گا، اور ایک ایسا مرحلہ آئے گا کہ اس کے بعد مزید ممبربنانے کی گنجائش باقی نہ رہے گی، مثال کے طور پر کسی شہر میں کمپنی ایسے کاروبار کا آغاز کرے اور مختلف گاہکوں کے ذریعہ پہلے مرحلہ کے خریدار ساڑھے چھ ہزار ہوجائیں، اور ہر ممبر کے ذمہ نو ممبر بنانے کی ذمہ داری ہو، جیسا کہ بعض کمپنیوں میں ہے تو چوتھے ہی مرحلہ میں ان کی تعداد چوہتر لاکھ اڑتیس ہزار پانچ سو ۷۴۳۸۵۰۰ ہوجاتی ہے، یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ ہندوستان کے چھ سات بڑے شہروں کو چھوڑ کر پورے شہر کا احاطہ کرتی ہے، ظاہر ہے کہ یہ بات عملاً ممکن نہیں کہ کوئی شہر پورا کا پورا اس اسکیم سے جڑ جائے۔ حوالہ کے لئے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ روزنامہ منصف حیدرآباد ۲۴/ربیع الاول ۱۴۲۸ھ 'مینارئہ نور' ص:۱ سے رجوع کیا جاسکتا ہے، نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسی صورت میں اوپر کے لوگوں کو تو کثیر نفع حاصل ہوگا، لیکن آخری مرحلہ کے ممبران بلاکمیشن حاصل کئے گھاٹے میں رہ جائیں گے، حالانکہ اخیر کے مرحلہ میں اوپر کی بہ نسبت زیادہ ممبران ہوتے ہیں، یہ خرابی ایسی ہے کہ اسے ہر شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے۔
لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اس طرح کی کمپنیوں میں کمیشن حاصل کرنے کے لئے ممبروں کی تعداد اور مراحل کا آگے بڑھانا شرط ہوتا ہے، اس لئے جن کمپنیوں میں مثلاً تین مراحل میں نوممبران کی شرط ہے، ان میں نیچے سے تین مرحلوں کے لوگ بلاکمیشن رہ جائیں گے، اور یہ خرابی ایسی ہے کہ جس وقت بھی کمپنی موقوف ہوگی، اس سے نیچے کے چند مراحل کے لوگ محروم رہ جائیں گے اور چونکہ نیچے کے مراحل میں ممبروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اس لئے ہر لمحہ اکثر ممبران گھاٹے میں رہتے ہیں، تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کمپنی کے پانچ چھ فی صد لوگ تو بہت سارا نفع حاصل کرتے ہیں، بقیہ چورانوے فی صد لوگ امید و بیم میں رہ کر نقصان اٹھاتے ہیں یا یہ کہ اپنی اصل رقم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مختصر یہ کہ چند ممبران کے منافع کی خاطر اکثر ممبران کا نقصان برداشت کرنا، اس نظام کی سب سے بڑی بنیادی خرابی ہے۔
اس نظام کی تائید کرنے کا مطلب یہی ہوگا کہ کمپنی کے ذمہ داران اور چند دیگر لوگوں کے مفاد کی خاطر عوام کو دھوکہ میں مبتلا ہونے کی تائید کی جائے۔
نیٹ ورک مارکیٹنگ کامدار ہی 'پھنسنے پھنسانے' پر ہے، جہاں ایک آدمی ممبر بنتا ہے اور ممبری فیس کی ادائیگی کے ساتھ کچھ اور روپے سامان کی خریداری کے نام پرہاتھ سے چلے جاتے ہیں؛ بس اُسے اپنے پیسے کی بازیابی اور مزید کی ہوس سوار ہوجاتی ہے، چونکہ کمپنی سے محض سامان حاصل کرنا مقصد نہیں ہوتا بلکہ منافع اور کمیشن حاصل کرنا ہوتا ہے، اس لئے دوسروں کو مختلف انداز میں سچ اور جھوٹ بول کر پھانسنے کی کوشش کرنے لگتاہے، پھر اگلا آدمی بھی اسی مرض کا شکار ہوجاتا ہے، کمپنی کی خرابیاں سامنے آنے کے باوجود منافع کے لالچ میں اپنی زبان پرتالا لگا لیتا ہے، تنقید کا ایک لفظ نہ تو بولتا ہے اور نہ ہی بولنے دیتا ہے، اگر مصنوعات کی خریداری ہی مقصود ہوتی تو بات یہاں تک نہ پہنچتی۔
بہت سے لوگ ممبر بن تو جاتے ہیں مگر چرب زبان اور لسّان نہیں ہوتے، یا جھوٹ سچ ملاکر بولنے کی عادت نہیں ہوتی، وہ ممبر بنانے سے یا تو بالکل عاجز رہتے ہیں یا ممبر کی مطلوبہ تعداد مہیا نہ کرنے کی صورت میں وہ کمیشن اور منافع سے محروم رہتے ہیں۔
ماہرینِ اقتصادیات کی رائے:
چونکہ یہ نظام 'سودی نظام' سے بھی بدتر ہے؛ اس لئے کہ سودی نظام میں مخصوص محتاجوں اور سودی قرض لینے اور سودی معاملہ کرنے والوں کی دولت ساہوکاروں اور سودخوروں کی جیب میں جاتی ہے، نیٹ ورک سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے اتنے مرتب اور وسیع پیمانے پر سود اکٹھا نہیں ہوتا۔
نیٹ ورکنگ کے اس نظام میں کافی بڑے پیمانے پر دولت سمٹتی ہوئی، چند اوپر کے ممبران کے پاس مربوط انداز اور مخروطی Pyramid شکل میں جمع ہوتی رہتی ہے، نیچے کے ممبران منافع سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ دولت کی ترکیز دونوں میں ہے مگر نیٹ ورک مارکیٹنگ میں سودی نظام کی بہ نسبت زیادہ ہے، اس لیے عالمی پیمانے پر نیٹ ورک مارکیٹنگ کو مسترد کیا جارہاہے۔
ماہرینِ اقتصادیات ومعاشیات نے نیٹ ورکنگ سسٹم کو 'کینسر کی سوجن' سے تشبیہ دی ہے کہ جس طرح کینسر آلود خلیہ بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ پورے جسم کو مسموم کرکے جان لیوا ثابت ہوجاتا ہے، اسی طرح نیٹ ورک مارکیٹنگ میں ممبرسازی کے ذریعہ پورا معاشرہ لپیٹ میں آکر اقتصادی بحران کا شکار ہوجاتا ہے۔
”سودی نظام“ میں چونکہ بنیادی خرابی ترکیزِ دولت Collection of wealth ہے، اس میں مال دار زیادہ مال دار اور غریب زیادہ غریب ہوجاتا ہے؛ اس لیے اسلام نے اسے مسترد کردیا، تو ظاہر ہے کہ کوئی ایسا نظام یا ایسی معاشری صورت جس میں ترکیزِ دولت سودی نظام سے بھی زیادہ مہلک ہو، تو اس کی تائید اسلام کیسے کرسکتا ہے؟ اور جب خود سودی نظام نے 'نیٹ ورکنگ' کو مسترد کردیا ہے، تو 'اسلامی نظامِ دولت' اسے سینے سے لگالے، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔
یہاں تک پوری گفتگو 'نیٹ ورک مارکیٹنگ' کا تعارف، اس کے اقتصادی اور اخلاقی پہلو پر کی گئی، ماہرِ اقتصادیات کی آراء اور عالمی پیمانے پر اس طریقہٴ تجارت کی مخالفت کی وجوہات بیان کی گئیں، جن سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اس طرز کی مارکیٹنگ کسی طرح بھی سرمایہ کاروں اور ملک کے حق میں مفید نہیں ہے، اس سے معاشرہ شدید مالی بحران کا شکار ہوگا، دولت سمٹ کر چند افراد کے ہاتھوں میں اکٹھی ہوجائے گی اور بس۔
شرعی حیثیت:
اسلام نے ہر اس معاملہ کومسترد کردیا ہے، جس میں دغا فریب اور دھوکہ دھڑی پائی جاتی ہو؛ یا جس میں ملکی بدانتظامی اور لوگوں کی ضرررسانی کا عنصر پایا جائے، یا جس میں مفادِ عامہ کی چیزوں پر چند افراد کے قبضہ کی صورت پائی جائے، یا جس میں خرید وفروخت کے ساتھ کوئی شرط لگادی جائے، یا وہ معاملہ ایسا ہو کہ جس میں بیع کے ساتھ کسی دوسرے معاملہ کا قصد کیا جاتا ہو اور بیع کا صرف بہانہ ہو، اسی طرح وہ معاملہ بھی شریعت کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں، جس میں نزاع اور لڑائی کا احتمال ہو، جس میں دو معاملہ کو ایک کردیاگیا ہو وغیرہ وغیرہ۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة اللہ عليه نے 'حجة اللہ البالغہ' میں ایسے نو وجود بیان کی ہیں جن کی وجہ سے شریعت نے معاملات کو مکروہ و ناجائز قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لئے رحمة اللہ الواسعہ ج:۲/۵۶۲ تا ۵۸۴ سے رجوع کیا جاسکتا ہے.
نیٹ ورک مارکیٹنگ کا شرعی حکم دریافت کرنے کے لئے مذکورہ بالا اقتباس کو پڑھ کر اگراس طرزِ تجارت پر نگاہ ڈالی جائے تو ادنیٰ تأمل کے بعد ہی اس کا عدمِ جواز کھل کر سامنے آجائے گا؛ اس لئے کہ اس میں عدمِ جواز کی متعدد وجوہ پائی جاتی ہیں۔
ذیل میں مزید تفصیل سے عدم جواز کی وجوہ بیان کی جاتی ہیں:
(۱) نفع حاصل کرنے کے لیے شریعت نے جو اصول بتائے ہیں، ان میں یا تو سرمایہ اور محنت دونوں ہوتی ہیں، جیسے بیع وشرا؛ یا صرف محنت ہوتی ہے اور سرمایہ دوسرے کا ہوتا ہے، جیسے مضاربت وغیرہ، لیکن ایسی کوئی صورت شرعاً جائز نہیں ہے، جس میں نہ تو محنت ہو اور نہ ہی سرمایہ لگے۔
نیٹ ورٹ مارکیٹنگ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں آدمی ممبر بنتا ہے تو کمپنی ممبری فیس لے لیتی ہے،اور اپنی مصنوعات دے کر ان کی قیمت الگ سے لیتی ہے، قانونی لحاظ سے کمپنی کے پاس ممبر کا کوئی رقمی مطالبہ نہیں رہ جاتا، گویا کمپنی میں رقم اور سرمایہ لگاہوا نہیں ہے۔
پھر جب ممبرسازی ہوتی ہے، تو پہلے مرحلہ میں مان لیا جائے کہ اپنے تحت ممبربنانے میں محنت ہوئی، صرف انھیں ممبران کی تشکیل کا معاوضہ اگر ملے تو اسے کسی درجہ میں جائز کہا جاسکتا ہے؛ اس لیے کہ سرمایہ نہیں لیکن محنت تو پائی گئی، لیکن دوسرے تیسرے اور بعد کے مراحل میں ممبرسازی میں اس کی کوئی محنت نہیں ہوئی تو بعد کے ممبران کا تشکیلی معاوضہ کس طرح جائز ہوگا، جب کہ وہاں نہ تو محنت ہے اور نہ ہی سرمایہ!
اس تجارت سے وابستہ حضرات یہ کہتے ہیں کہ ”آئندہ مراحل میں بھی کارکنوں کے ساتھ تعاون کرنا پڑتا ہے، جیسے لوگوں کو سمجھانا، مال کی اہمیت بتانا، ان کے شکوک و شبہات کو دور کرنا وغیرہ“ لیکن تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پہلا ممبر براہِ راست ممبر بنانے کے بعد اگر آئندہ مرحلوں میں کوئی تعاون نہ کرے تب بھی وہ کمپنی کے اصول کے مطابق کمیشن کا مستحق قرار پاتا ہے، حاصل یہ کہ آئندہ مراحل میں بلا سرمایہ اور بلا محنت کمیشن آنا اس طرزِ تجارت کی سب سے بڑی خرابی ہے۔
پہلے مرحلہ کی ممبرسازی کا معاوضہ بھی درست نہیں:
اس طرح کی کمپنیوں میں ہر مرحلہ کی ممبرسازی کا معاوضہ الگ الگ نہیں دیا جاتا؛ بلکہ اپنے تحت چند مراحل میں مخصوص تعداد پورا کرنا ضروری ہوتا ہے، مثلاً بعض کمپنیوں میں یہ شرط ہے کہ جب ممبران کی تعداد نو ہوجائے اور وہ بھی تین مراحل میں ہوں تب ان سب کی خریداری کا متعین کمیشن اوپر کے ممبر کو دی جائے گی، ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں اپنے ہی نہیں دوسروں کے بنائے ہوئے ممبران کا معاوضہ بھی ساتھ ہوکر ملے گا، اس لیے حلال و حرام میں اجتماع کی وجہ سے یہ معاوضہ لینا بھی حرام ہوگا۔
فقہ کا قاعدہ ہے: 
اذَا اجْتَمَعَ الْحَلاَلُ وَالْحَرَامُ غُلِّبَ الْحَرَامُ 
(الاشباہ والنظائر:۱/۳۳۵) 
ترجمہ: جب حلال وحرام جمع ہوجائیں تو حرام کو غالب مانا جاتا ہے۔
(۲) شریعت میں 'سود' اس لئے حرام ہے کہ اس میں زر سے زر حاصل کرنے کا ذریعہ اور بہانہ بنایا جاتا ہے، اس میں نہ تو کوئی پیداوار سامنے آتی ہے اور نہ ہی محنت پائی جاتی ہے، اس طرح جب زر سے زر پیدا کرنے کی رسم چل پڑتی ہے، تو لوگ بنیادی ذرائع معاش مثلاً کھیتیاں اور کاریگریاں چھوڑ دیتے ہیں اور یہ مثل زبانِ حال سے دوہرائی جانے لگتی ہے، 'جب روٹی ملے یوں، تو کھیتی کرے کیوں؟' حوالہ کے لئے رحمة اللہ الواسعہ: ۴/۵۴۲ سے رجوع کیا جاسکتا ہے. 
نیٹ ورک مارکیٹنگ میں بھی ممبری فیس کے طور پر تھوڑا سرمایہ لگاکر پیسوں سے پیسے حاصل کرنے کا حیلہ اختیار کیاجاتا ہے، ہر ممبر کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اپنے نیچے زیادہ سے زیادہ ممبران آجائیں تاکہ اچھی خاصی رقم کسی محنت ومشقت کے بغیر کمیشن کے طور پر ان کے پاس جمع ہوجائے، حالانکہ زر سے زر کشید کرنا سود ہے، اس طرز کی تجارت کو ربوا سے کافی مشابہت ہے، جسے قرآنِ پاک میں حرام فرمایاگیا ہے:
”أَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا“ 
(بقرہ:۵۷۲)
ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال اور سود کو حرام قراردیا ہے.“
(۳) شرعی لحاظ سے ایک اور پہلو بھی قابلِ توجہ ہے، وہ یہ کہ اس کمپنی میں شریک ہونے والوں کا مقصد کمپنی کا سامان خریدنا نہیں ہوتا، بلکہ کمیشن اور نفع کمانا ہی مدِنظر رہتا ہے، گویا مقصود کمیشن ہے سامان نہیں، سامان کو ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے؛ اس لئے شرعی حکم معلوم کرتے وقت مقصود اور غلبہ کا ہی اعتبار ہوگا، جیسا کہ فقہی قواعد اس کی طرف مشیر ہیں:
(الف) العِبْرَةُ فِیْ الْعُقُوْدِ لِلْمَقَاصِدِ وَالْمَعَانِیْ لاَ لِلْألْفَاظِ وَالْمَبَانِیْ . (قواعد الفقہ ص:۹۱)
ترجمہ: ”معاملات میں مقاصد ومعانی ہی کا اعتبار ہوتا ہے، الفاظ و عبارت کا نہیں.“
(ب) اَلْعِبْرَةَ لِلْغَالِبِ الشَّائِعِ لاَ لِلنَّادِرِ. (ایضاً)
ترجمہ: ”رائج وغالب حیثیت کا ہی اعتبار ہوتا ہے، نادر و کم یاب کا نہیں.“
(ج) التابِعُ لا یَتَقَدَّمُ عَلَی الْمَتْبُوْعِ . (الاشباہ والنظائرج:۱/۳۶۵)
ترجمہ: تابع کو متبوع پر مقدم نہیں کیا جاسکتا۔
نیٹ ورک سسٹم میں شمولیت کا اصلی مقصد چونکہ کمیشن اور نفع حاصل کرنا ہی ہے، یہی پہلو شریک ہونے والوں کے لئے باعثِ کشش ہے؛ اس لئے اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ آدمی ممبر بننے کی فیس دے کر امید و بیم کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے، ہوسکتا ہے کہ اس بہانے کافی منافع ہاتھ آجائیں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو لگایا تھا وہ بھی ڈوب جائے یہی حقیقت ہے جوئے اور قمار کی۔
”ہُوَ کُلُّ لَعِبٍ یُشْتَرَطُ فِیْہِ غَالِبًا أن یَّأخُذَ الْغَالِبُ شَیْئًا مِنَ الْمَغْلُوْبِ وَأصْلُہ أن یَّأخُذَ الْوَاحِدُ مِنْ صَاحِبِہ شَیْئًا فَشَیْئًا فِی اللَّعِبِ“ (ص:۴۳۴)
ترجمہ: قمار (ہار جیت کا) ہر وہ کھیل ہے جس میں اکثر یہ شرط ہوتی ہے کہ جو غالب ہوگا، وہ مغلوب سے کچھ لے گا، اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک ساتھی دوسرے ساتھی سے کھیل میں تھوڑا تھوڑا کچھ لیتا رہتا ہے۔
اور قمار کی تعریف یوں لکھی ہے:
انَّہ تَعْلِیقُ الْمِلْکِ عَلَی الْخَطَرِ وَالْمَالُ فِی الْجَانِبَیْنِ (قواعد الفقہ ص:۴۳۴، فتاوی ابن تیمیہ ۱۹/۲۸۴)
ترجمہ: ملکیت کو جوکھم پر معلق کرنا، جب کہ دونوں جانب مال ہو۔
حاصل یہ کہ قمار (جوا) میں معاملہ نفع وضرر کے درمیان دائر ہوتا ہے؛ احتمال یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت سا مال مل جائے گا، اور یہ بھی کہ کچھ نہ ملے، اسی کو 'مخاطرہ' اور قرآن کی اصطلاح میں 'میسر' کہتے ہیں۔
جوئے کا مدار لالچ، جھوٹی آرزو اور فریب خوردگی کی پیروی پر ہے،جوا کمزوروں کے خون کا آخری قطرہ بھی چوس لیتا ہے، ہارنے والااگر خاموش رہتاہے تو محرومی اور غصہ میں خون کا گھونٹ پی کر خاموش رہتا ہے،اور اگر دوسرے فریق سے لڑتا ہے، تو اس کی کوئی نہیں سنتا کیوں کہ 'خود کردہ را علاجے نیست' جوئے کا تمدن اور باہمی تعاون میں کچھ حصہ نہیں۔ حوالہ کے لئے مستفاد از رحمة اللہ الواسعہ: ۴/۵۴۱ سے رجوع کیا جاسکتا ہے.
مفتی بغداد، صاحبِ 'روح المعانی' علامہ محمد آلوسی نے میسر کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:
المَیْسِرُ... امَّا من الیُسْرِ لأنہ أخذُ المال بِیُسْرٍ وَسُہُوْلَةٍ (روح المعانی: ۲/۱۱۳)
یعنی 'میسر' یا تو یُسر سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں، کسی کا مال آسانی اور سہولت سے مارلینا، میسر (جوا) کے ذریعہ لوگوں کے اموال آسانی سے جھپٹ لیے جاتے ہیں۔
نیٹ ورک مارکیٹنگ کی موجودہ شکل اگرچہ نئی ہے، لیکن بہرحال اس میں جوئے کی حقیقت پائی جارہی ہے، جیساکہ غور کرنے والوں پر مخفی نہیں، جوئے کی حرمت سود کی طرح نص قطعی سے ثابت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمنُوا انَّمَا الخمرُ وَالمَیْسِرُ والأنصابُ والأزلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ . (مائدہ:۹۰)
ترجمہ: اے ایمان والو، بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں اور شیطانی کام ہیں، سو ان سے بالکل الگ ہوجاؤ، تاکہ تم کو فلاح ہو۔ (بیان القرآن)
(۴) نیٹ ورک مارکیٹنگ میں وہی آدمی کامیاب و بامراد ہوتا ہے، جو تیز طرار، باتونی اور لسّان ہو، سامنے والوں کو متأثر کرکے ممبر بنالیتا ہو، جو لوگ اس طرح کی شاطرانہ چال نہیں چلتے، یا یہ صلاحیت ان میں نہیں ہوتی، وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں، ان کی ساری امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے اور وہ دھوکہ کھاکر مایوس ہوجاتے ہیں۔
ایسے دھوکہ کی بیع و شراء کو سرکارِ دوعالم صلى اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے: نَہَی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَنْ بَیْعِ الْغَرَرِ. (سنن ترمذی:۱/۲۳۳)
مبسوط میں علامہ سرخسی رحمة الله عليه نے غرر کی تعریف اس طرح کی ہے۔ 
الغَرَرُ مَا یَکُوْنُ مَسْتُوْرَ الْعَاقِبَةِ . 
(المبسوط:۱۲/۱۹۴)
جس کاحاصل یہ ہے کہ غرر میں انجام معلوم نہیں ہوتا، مذکورہ طرزِ تجارت میں نفع ملنے اور نہ ملنے کا پتا نہیں ہوتا، گویا قمار (جوا) ہی کی دوسری تعبیر 'بیع غرر' ہے۔
بعض لوگوں نے اس طرزِ تجارت کو لاٹری Lottery سے بھی بدتر بتایا ہے، اس لئے کہ لاٹری میں ٹکٹ خرید کر آدمی سکون سے انتظار کرتا ہے، لیکن اس میں ممبرشپ حاصل کرنے کے بعد ممبرسازی کے لئے خوب دوڑ دھوپ کرتا ہے، پیسے خرچ کرتا ہے پھر بھی ممبر نہ بنانے کی صورت میں اصل سرمایہ سے بھی ہاتھ دھولیتا ہے، اور کمپنی رُک جانے کے وقت نیچے کے تین درجوں کے لوگ یقینا محروم رہ جاتے ہیں، اس لئے اس میں نفع کا چانس لاٹری سے بھی کم ہے، اگر یہ معلوم ہوجائے کہ وہی سلسلہ کا آخری آدمی ہوگا، تو ہرگز سامان خرید کردہ ممبر نہیں بنے گا، حقیقت یہ ہے کہ اس میں 'غرر کثیر' ہے، جس سے باز رہنے کی تلقین سرکار دوعالم … نے فرمائی ہے۔ حوالہ کے لئے بحث ونظر ص:۱۷۲ سے رجوع کیا جاسکتا ہے. 
(۵) اسلام نے اپنے تجارتی اصول میں ملکی مصلحت کا خیال رکھا ہے، مصنوعی رکاوٹ ملکی مصلحت کے لئے نہایت ہی مضر ثابت ہوتی ہے، اس سے اشیاء کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ہے، تجارت کا مال تمام شہریوں تک پہنچنے کے بجائے چند لوگوں کے پاس ہی سمٹ کر رہ جاتا ہے۔
زمانہٴ جاہلیت میں جب کوئی دیہاتی سوداگر شہر میں اپنا سامانِ تجارت لے کر پہنچتا تھا، تو شہر کے بعض تُجّار اس سے کہتے کہ ابھی تم خود سے سامان نہ بیچو؛ اس لئے کہ ابھی بھاؤ کم ہے، سستا بک جائے گا؛ بلکہ تم ہمارے حوالے کردو! چند دنوں بعد تم کو ہم مہنگا بیچ کر دیں گے، اس میں بائع کا بھی ضرر ہوتاتھا؛ یہ تُجّار جھوٹی قیمت بتادیتے تھے، اور عوام کو بھی اشیاء مہنگی ملتی تھی،اس کو اصطلاح میں 'بیع الحاضر للبادی' کہتے ہیں۔
سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم نے اس طرزِ تجارت سے منع فرمادیا تاکہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو، اور 'مصنوعی رکاوٹ' کا رواج ختم ہوجائے۔ حوالہ کے لئے سنن ترمذی:۱/۲۳۲، ابواب البیوع، رحمة اللہ الواسعہ: ۴/۵۷۶، میں تفصیل ملاحظہ کیا جاسکتا ہے. 
زمانہٴ جاہلیت میں اسی سے ملتی جلتی یہ شکل بھی تھی کہ جب کوئی تاجر دیہات سے شہر میں آتا تھا تو شہر کے بعض تجار شہر سے باہر نکل کر ان سے پہلے ہی ملتے،اور سارا مال خرید لیتے تھے تاکہ یہ مال شہر میں نہ آسکے اور سارے لوگ ان سے خریدنے پر مجبور ہوں، اس کو اصطلاح میں 'تلقیِ جلب' کہا جاتاہے، سرکارِ دوعالم … نے ان دونوں صورتوں کو اس لئے منع فرمایاہے، حوالہ کے لئے سنن ترمذی: ۱/۲۳۲ شاہد ہے، اس لئے کہ دونوں میں اشیاء چند آدمیوں کے ہاتھوں میں جاکر عوام کے لئے مہنگی ہوجاتی ہیں۔ تفصیل کے لئے 'الدرالمختار مع ردالمحتار: ۴/۱۴۸ رشیدیہ پاکستان' سے رجوع کیا جاسکتا ہے. 
نیٹ ورک مارکیٹنگ میں بھی یہ خرابی ہے کہ ہر آدمی ان کمپنیوں کے سامان نہیں خرید سکتا، صرف ممبران ہی خریدسکتے ہیں؛ اس لیے بھی اشیاء نہایت ہی گراں ہوتی ہیں۔
(۶) اس طرح کی کمپنیوں میں اشیاء کی قیمت عام مارکیٹ ریٹ Market rate کے مقابلہ میں تین گنا بلکہ چھ گنا زیادہ ہوتی ہے، اشیاء کی جودت و عمدگی کا دعویٰ بھی فضول معلوم ہوتا ہے؛ اس لئے کہ اگر وہی اشیاء عام مارکیٹ میں رکھی جائیں، تو لوگ ہرگز اتنی قیمت میں نہیں خریدیں گے، دوسری کمپنیوں کی مصنوعات ہی کو ترجیح دیں گے۔
خلاصہ یہ کہ یہ گرانی فقہ کی اصطلاح میں 'غبن فاحش' کہلاتی ہے، جو مکروہ ہے، حتیٰ کہ شریعت نے مشتری کو غبنِ فاحش کی وجہ سے مبیع یعنی خریدی ہوئی چیز کے واپس کرنے کا حق دیا ہے۔ حوالہ کے لئے رد المحتار:۴/۱۷۸، رشیدیہ پاکستان سے رجوع کیا جاسکتا ہے. 
(۷) حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة الله عليه نے 'حجة اللہ البالغہ' میں ممنوع معاملات کی جملہ نو وجوہ میں سے چوتھی وجہ یہ بیان فرمائی ہے:
”وَمِنْہَا أن یُّقْصَدَ بِہٰذَا الْبَیْعِ مُعَامَلَةٌ أُخْریٰ یَتَرَقَّبُہَا فِیْ ضِمْنِہ أوْ مَعَہ “ الخ
ترجمہ: اور ممانعت کی انھیں وجوہ میں سے یہ ہے کہ اس بیع سے کسی ایسے دوسرے معاملے کا قصد ہو، جس کا وہ بیع کے ضمن میں یا بیع کے ساتھ انتظار کرتا ہو۔
خرید و فروخت کو خالص رکھنا ضروری ہے، اگر خرید وفروخت کے ساتھ کسی اور معاملہ کا قصد ہوجائے تو بیع فاسد ہوجاتی ہے۔ نیٹ ورک مارکیٹنگ میں بظاہر تو آدمی کمپنی کا سامان خریدتاہے؛ لیکن مقصد ممبرسازی کے ذریعہ کمیشن کمانا ہوتا ہے، اس وجہ سے بھی تجارت کی یہ شکل ناجائز معلوم ہوتی ہے۔
(۸) رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے 'بیع بالشرط' کو منع فرمایا ہے: 
أنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نَہٰی عَنْ بَیْعٍ وَشَرْطٍ . (مجمع الزوائد:۴/۸۵)
بیع اور شرط ایک ساتھ جمع کرناجائز نہیں ہے؛ اس لئے کہ شرطوں کی وجہ سے آدمی معاملہ تو ضرورت کی وجہ سے کرتا ہے اور شرط نہ چاہتے ہوئے بھی مان لیتا ہے، نیٹ ورک مارکیٹنگ میں کمپنی کا مال خریدنے کے ساتھ ہی یہ شرط ہوتی ہے، کہ مثلاً:
(الف) کمپنی کا مال بازار میں رکھ کر بیچ نہیں سکتے۔
(ب) کمپنی کے مال یا اس کے طریقہٴ کار کی خامیاں بیان نہیں کرسکتے۔
(ج) کمپنی کا سامان لینے کیلئے ایجنٹ اور ممبر بننا شرط ہے، ممبری فیس ضرور وصولی جائیگی۔
(د) بعض کمپنیوں میں رعایتی قیمت پر سامان لینے کے لیے ممبر ہونا اور ممبری فیس ادا کرنا ضروری ہے، بغیر ممبر بنے سامان خریدنے پر سامان مہنگا ملے گا۔
گویا اس طرزِ تجارت میں بیع کے ساتھ ایسی شرط؛ بلکہ چند شرطیں موجود ہوتی ہیں، جو مقتضائے عقد کے خلاف ہیں؛ اس لئے یہ معاملہ فاسد ہوگا، ہدایہ میں ہے: 
کُلُّ شَرْطٍ لاَیَقْتَضِیْہِ الْعَقْدُ وَفِیْہِ مَنْفَعَةٌ لِأَحَدٍ المُتَعَاقِدَیْنِ اَوْ لِلْمَعْقُوْدِ عَلَیْہِ وَہُوَ مِنْ اَہْلِ الْاِسْتِحْقَاقِ فَیْفْسُدُ. (مع فتح القدیر:۳/۲۶، البحرالرائق: ۵/۱۸۲)
(۹) نیٹ ورک مارکیٹنگ میں خرید و فروخت کے معاملہ کے ساتھ اجارہ (یعنی ایجنٹ بننے کی ملازمت) مشروط ہے؛ اس لئے ایسے عقدِ بیع اور عقدِ اجارہ کو دو معاملوں کا مجموعہ کہہ سکتے ہیں، اور یہ حدیث شریف کی رو سے ممنوع ہے، ترمذی شریف میں حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه کی ایک روایت ہے:
نَہٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم عَنِ الْبَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَةٍ . 
(ترمذی: ۱/۲۳۳، ابواب البیوع)
ترجمہ: ”آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک معاملہ میں دو معاملہ کرنے سے منع فرمایاہے“۔
مسند احمد کی ایک روایت میں ہے:
نَہٰی رَسُوْلَ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم عَنْ صَفْقَتَیْنِ فِیْ صَفَقَةٍ وَاحِدَةٍ . (مسند احمد حدیث نمبر:۳۷۷۴)
ترجمہ: ”آپ نے ایک معاملہ میں دو معاملہ کرنے سے منع فرمایا ہے“۔
(نوٹ: نیٹ ورک مارکیٹنگ کے ناجائز ہونے کی شرعی وجوہات میں سے ساتویں، آٹھویں اور نویں وجوہات ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ اشتیاق)
(۱۰) نیٹ ورٹ مارکیٹنگ پر گہری نگاہ ڈالنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں درحقیقت لوگوں کو موہوم کمیشن کا لالچ دلاکر باطل اور ناجائز طریقے سے مال کھانے کا طرز اپنایا گیا ہے، اس طرزِ معاملہ کو ماہرینِ اقتصادیات 'تعاملِ صغری' Zero sum game کہتے ہیں، جس میں بعض افراد نفع پاتے ہیں اور اکثر خسارہ میں رہتے ہیں۔ حوالہ کے لئے بحث ونظر ص:۱۷۰ سے رجوع کیا جاسکتا ہے. اللہ تعالیٰ نے باطل طریقہٴ کسب کو سختی سے منع فرمایا ہے:
یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَأکُلُوْا أمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ الاَّ أنْ تَکُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ . (نساء:۲۹)
اے ایمان والو، آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاؤ، لیکن کوئی تجارت ہو جو باہمی رضامندی سے واقع ہو۔
اہل فقہ و فتاویٰ کی آراء:
نیک ورک مارکیٹنگ چونکہ معاشی، اخلاقی اور شرعی ہرلحاظ سے ناقابلِ قبول ہے، اس لئے اکابرِ امت نے اس سے بچے رہنے کی تلقین فرمائی ہے، ذیل میں اختصار کے ساتھ چند اکابر اہلِ علم کے نام لکھے جاتے ہیں۔
عرب علماء میں:
شیخ محمد صالح المنجد، ڈاکٹر عبدالحئی یوسف، ڈاکٹر احمد بن موسیٰ (طائف) اوراحمد خالد ابوبکر زیدمجدہم۔
پاکستانی علماء میں:
مفتی محمد عصمت اللہ بتصدیق مفتی محمد تقی عثمانی زیدمجدہما دارالعلوم کراچی، مفتی محمد ہلال صاحب زیدمجدہ جامعة العلوم الاسلامیہ پاکستان، اور مفتی محمد نعیم صاحب زیدمجدہ خیرالمدارس ملتان۔ (تلخیص مقالات سولہواں فقہی سمینار فقہ اکیڈمی انڈیا)
ہندوستانی علماء میں:
حضرت الاستاذ مفتی حبیب الرحمن خیرآبادی زیدمجدہ صدر مفتی دارالعلوم دیوبند، حضرت الاستاذ مفتی محمد ظفیرالدین صاحب زیدمجدہ مفتی دارالعلوم دیوبند، حضرت مفتی کفیل الرحمن نشاط صاحب رحمة الله عليه نائب مفتی دارالعلوم دیوبند، حضرت الاستاذ مفتی محمودحسن صاحب بلند شہری مفتی دارالعلوم دیوبند، حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری شیخ الحدیث زیدمجدہ دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا محمد برہان الدین سنبھلی زیدمجدہ، حضرت مفتی محمد ظہور صاحب زیدمجدہ دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ، حضرت الاستاذ مفتی محمد طاہر زیدمجدہ مفتی مظاہر علوم سہارنپور، حضرت مفتی محمد سلمان منصور پوری زیدمجدہ مفتی مدرسہ شاہی مراد آباد، حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد رحمة الله عليه امارتِ شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ، حضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد، حضرت مفتی محمد جمال الدین صاحب دارالعلوم حیدرآباد، یہ فتاویٰ اور رائیں تو انفرادی طور پر ہیں، اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی کے سولہویں سمینار منعقدہ دارالعلوم مہذب پور اعظم گڑھ میں علماء اور مفتیان کرام کی ایک عظیم جماعت نے اتفاقِ رائے کے ساتھ عدمِ جواز کی تجویز پاس فرمائی ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ: 
”حوالہ (ب:۶۸۱) ... یہ کاروبار نہ تو شرکتِ مضاربت پر مبنی ہے، نہ ہی شرکتِ عنان کے طریقہ پر ہے، بلکہ یہ کاروبار خالص قمار اور سٹے پر مبنی ہے، ۴۴۰۰ آدمی جمع کرتا ہے، اگر کمپنی کے مزاج کے مطابق ممبرسازی میں وہ کامیاب ہوگیا تو اُسے گھر بیٹھے بیٹھے ایک بہت بڑی رقم ملتی رہے گی، اور اگر ممبرسازی میں ناکام رہا تو اس کے روپے بھی سوخت ہوجاتے ہیں، جو کام نفع و نقصان کے درمیان دائر ہو اور مبہم ہو، وہ شریعت کی اصطلاح میں 'قمار اور جوا' کہلاتا ہے، جو بنصِ قطعی حرام ہے، علاوہ اس کاروبار میں 'صَفْقَةٌ فِیْ صَفْقَتَیْنِ' کی صورت بھی پائی جاتی ہے، اس میں 'بیع و شرط' کے ایک ساتھ جمع ہونے کی بات بھی پائی جاتی ہے، جو 'نہی النبیُّ عن بَیْعٍ وَشَرْطٍ' کے خلاف ہے، اس طرح کی متعدد خرابیاں پائی جاتی ہیں، مسلمانوں کے لئے ایسی کمپنی میں شرکت کرنا جائز نہیں فقط واللہ اعلم، حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، مفتی دارالعلوم دیوبند ۲/۶/۱۴۲۶ھ، الجواب صحیح: (دستخط) ”کفیل الرحمن نشاط، محمدظفیرالدین عفی عنہ“ مع مہر دارالافتاء۔
مظاہر علوم سہارنپور کافتویٰ: حوالہ: (۴۴۲) ... ایم وے کمپنی کا لٹریچر ہم نے دیکھاہے، اس کے طریقہٴ تجارت میں بعض شرطیں مقتضائے عقد کے خلاف ہیں، مثلاً ایک شرط یہ ہے کہ اس کمپنی کا ممبر کمپنی کے سامان کو بازار میں باقاعدہ دوکان لگاکر فروخت نہیں کرسکتا وغیرہ، جب کہ مقتضائے عقد کے خلاف شرط لگانے سے معاملہ بیع فاسد ہوجاتا ہے، نیز اس میں قمار کی بھی مشابہت ہے،اس لیے اس کمپنی میں شرکت ناجائز ہے، ذاتی خریداری کے لئے بھی اس کا ممبر بننا درست نہیں ہے، فقط واللہ اعلم حررہ العبد محمد طاہر عفا اللہ عنہ، مظاہرعلوم سہارنپور ۲۰/۵/ ۱۴۲۶ھ، الجواب صحیح (دستخط) ”مقصود احمد ۲۲/۵/۱۴۲۶ھ“ مع مہر دارالافتاء۔
دارالعلوم ندوة العلماء کافتویٰ: (۲۳۱۳۶-۱۷۴۵۴) ... شرعی اعتبار سے ایموے کمپنی میں شرکت داری درست نہیں ہے،مسلمانوں کو اس میں شرکت سے احتراز کرنا ہوگا، فقط۔ محمد ظہور ندوی عفا اللہ عنہ، دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ ۱۸/۵/۱۴۲۶ھ، مع مہردارالافتاء و الاحکام۔
نوٹ: مذکورہ بالا فتاویٰ میں 'ایموے کمپنی' کی صراحت سے یہ خیال نہ ہو کہ فتاویٰ صرف ایک کمپنی کے ساتھ خاص ہیں بلکہ یہ حکم 'نیٹ ورک' طریقہٴ تجارت کے مطابق چلنے والی ساری کمپنیوں کے لئے ہے؛ چونکہ 'استفتاء' میں 'ایموے' کی صراحت تھی،اس لئے فتاویٰ میں اسی لفظ کو دوہرایا گیا ہے۔
امارتِ شرعیہ پٹنہ کا فتویٰ: حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد صاحب رحمة الله عليه نے کسی قسم کے ایک استفتاء کے جواب میں لکھا ہے کہ 
”بفحوائے حدیث: نہی رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم عن بَیْعِ الْغَرَرِ (مسلم، ابوداؤد: ۶۷۳۳) 
اور بحکم 
لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضَرَارَ فِیْ الاسلامِ (الاشباہ والنظائر:۱/۲۷۳) 
یہ معاملہ غیرشرعی اور یقینی طور پر سراسر باطل ہے، اگر کوئی اخیر کا ممبر اپنے ذریعہ سے کوئی ممبر نہ بناسکا، تو اسے کوئی کمیشن یا فائدہ نہیں ملے گا، اور اس کی اصل فیس بھی نہیں ملے گی، تو یہ ایک طرح کا دھوکہ اور غرر ہے۔ (بحوالہ تلخیص مقالات سولہواں سمینار اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی)
اشکال وجواب:
(۱) بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ممبر بنانے پر کمپنی کا کمیشن دینا انعام ہے، راست ممبر بنانے پر تو دیا ہی جاتا ہے، نیچے کے ممبران کے بنائے ہوئے ممبران؛ چونکہ پہلے ممبر کے واسطے سے ہیں؛ اس لئے کمپنی اگر بعد میں بھی انعام کا سلسلہ جاری رکھتی ہے، تو اس میں کیا حرج ہے؟
جواب: نیچے کے افراد سے لے کر اوپر کے لوگوں کو فی صدی کمیشن Commission دیناارتکازِ دولت اور مال ہتھیانے کا حیلہ ہے، یہ میسر کے مشابہ تو ہوسکتا ہے، انعام سے اس کاکوئی واسطہ نہیں؛ اس لیے کہ انعام صلبِ بیع میں کبھی داخل اور مشروط نہیں ہوتا۔
(۲) جس طرح ایک کارِ خیر کے ثواب کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، ایک آدمی نے کسی کو کسی نیک کام کی تلقین کی، دوسرے نے عمل کرنے کے ساتھ تیسرے کو تلقین کی، تو ظاہر ہے کہ بعد والے کا ثواب پہلے والے کو ضرور ملے گا، اسی طرح 'نیٹ ورک مارکیٹنگ' میں بھی کمپنی کمیشن کا سلسلہ جاری رکھتی ہے، تو اس میں کیا حرج ہے؟
جواب: ثواب دینا اللہ تعالیٰ کا فضل اوراحسان ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، اللہ کا فضل کسی ضابطہ کامحتاج نہیں، مذکورہ کمپنی کو ثوابِ آخرت پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے؛ اس لیے کہ یہ دنیا کا معاملہ ہے اور بندوں کے ذریعہ تکمیل کو پہنچتا ہے، بندوں کو اللہ تعالیٰ نے قانون کا پابند بنایا ہے، اسی کے لئے شریعت نازل فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ کسی قانون کے پابند نہیں، وہاں عدل کے ساتھ فضل کا ظہور ہوگا، بندوں کے معاملے اللہ تعالیٰ کے قانون سے سرِمو تجاوز نہیں کرسکتے، ثواب کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔
ہمیں ہمارے اساتذہ نے پڑھایا، ہم طلبہ کو پڑھاتے ہیں، وہ طلبہ دوسرے طلبہ کو پڑھاتے ہیں، ثواب تو نیچے والوں کا اوپر والوں کو ضرور ملتا ہے؛ لیکن نیچے والوں کی تنخواہ کا کوئی حصہ اُوپر والوں کو نہیں ملتا؛ آخر کیوں؟
(۳) ممبرسازی کی اُجرت دلالی کی طرح ہے، جس طرح دلال کو سامان خریدوانے اور بیچوانے کی اجرت ملتی ہے، اسی طرح یہاں بھی نئے ممبر بنانے پر اُجرت ملتی ہے، تو اس میں کیا خرابی رہ گئی؟
جواب: مذکورہ طرزِ تجارت اور دلالی میں کافی فرق ہے اس لئے کہ:
(الف) دلال کو سامان کی فروختگی پر اُجرت ملتی ہے، یہاں تو ایجنٹ بننے کے لیے خود ایجنٹ ہی اجرت ادا کرتا ہے، معلوم ہوا کہ یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے، مذکورہ تجارت میں سامان فروخت کرنا، اصل مقصد نہیں ہوتا؛ بلکہ نئے ایجنٹ تیار کرنا ہی اہمیت رکھتا ہے۔
(ب) دلال کو کوئی گھاٹا نہیں ہوتا، وہ مال فروخت کراتا اور اجرت و کمیشن پاتا رہتا ہے؛ لیکن یہاں ہر آخری مرحلہ کا ایجنٹ یقینی طورپر گھاٹے میں رہتا ہے، ظاہر ہے کہ کمپنی کبھی نہ کبھی رُکے گی، جب بھی رکے گی، آخری مرحلہ کے ایجنٹ کو کچھ نہیں ملے گا، پھر ظلم یہ کہ ممبری فیس بھی سوخت ہوجائے گی، 'یک نہ شد دو شد' ، اس لئے ان کمپنیوں کی ممبرسازی کی مہم کو دلالی سے تعبیر کرنا غلط ہے۔
خلاصہٴ بحث:
نیٹ ورٹ مارکیٹنگ دولت اِکٹھا کرنے کی ایک اَہرامی اور مخروطی اسکیم ہے، اس میں مصنوعات بطورِ حیلہ فروخت کی جاتی ہیں، اصل مقصد ممبر سازی کے ذریعہ نفع کمانا ہوتا ہے، اس میں سود سے بھی زیادہ ارتکازِ دولت کی تدبیر موجود ہے، لاٹری Lottery اور جوے سے مشابہت ہے، دھوکہ اور غرار اتنا زیادہ ہے کہ دولت مندی کے لالچ میں پوری کی پوری آبادی کو مالی بحران کا شکار بناسکتی ہے، اس میں چند لوگوں کو منافع پہنچانے کے لئے ایک کثیر تعداد زنجیر میں بندھی رہتی ہے، اخیر کے لواحقین وممبران ہمیشہ دھوکے اور گھاٹے میں رہتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں نیچے کے کئی مراحل بلاکمیشن منھ تکتے رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ 'سودی نظام' کے ماہرین نے بھی اس طرزِ تجارت کو مسترد کردیا ہے، متعدد ممالک میں اس پر پابندی عائد کی گئی ہے، ساتھ ہی عوام کو اس میں پھنسنے سے متنبہ بھی کیاگیا ہے، یہ اخلاقی اور اقتصادی لحاظ سے بھی قابلِ قبول نہیں ہے، شرعی اور فقہی نقطئہ نظر سے اس میں سود و قمار سے مشابہت؛ بیع مع شرط کا وجود؛ دو معاملوں کو ایک میں جمع کرنا؛ خرید و فروخت کے بہانے دوسری چیز یعنی کمیشن کا ارادہ؛ باطل طریقے سے مال جمع کرنا؛ ملکی مصلحت کا فقدان اور بعض صورتوں میں 'غبن فاحش' وغیرہ خرابیاں پائی جاتی ہیں؛ اس لیے اس میں شرکت جائز نہیں ہے، ہند، عرب کے مشاہیر علماء اور مفتیانِ کرام نے عدمِ جواز کے فتوے صادر فرمائے ہیں، اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی کے سولہویں اجلاس میں اہل علم وفقہ کی ایک عظیم جماعت نے اس کی حرمت پر اتفاق کیا ہے۔
جس شخص کو راست ممبربنایا جائے اس کی خریداری پر ملنے والا کمیشن اگرچہ فی نفسہ جائز ہوسکتا ہے، مگر وہ بھی چونکہ الگ کرکے نہیں دیا جاتا؛ بلکہ چند ممبران اور چند مرحلے گذرنے ضروری ہوتے ہیں، اور سب کا کمیشن ملاکر دیا جاتاہے؛ اس لیے حرام وحلال کے ملنے کی وجہ سے پہلے مرحلہ کے ممبران کی وجہ سے آنے والا کمیشن بھی حرام ہوگا، محض مصنوعات خریدنے کے لیے ایسی کمپنیوں کا ممبر بننا بیع مع شرط کی وجہ سے ناجائز ہے، بلا ممبر بنے سامان خریدنا جائز تو ہے، مگر ایسی کمپنیوں کا تعاون ہونے کی وجہ سے کراہت سے خالی نہیں، ایسی کمپنیاں نہ تو معاشی اور اقتصادی لحاظ سے فائدہ مند ہیں؛ نہ ہی اخلاقی اعتبار سے قابل شرکت اور نہ ہی اسلامی اصول کے تحت جائز ہیں، اس لیے ان کا ممبر بننا اور کمیشن حاصل کرنا، ناجائز اورحرام ہے۔
وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیرِ خلقہ محمدٍ وَّآلہ أجمعین، وَالحمد للّٰہ رب العالمین.

Islam Question and Answer
General Supervisor: Shaykh Muhammad Saalih al-Munajjid
Sat 22 DhH 1437 - 24 September 2016
- Principles of Fiqh » Jurisprudence and Islamic Rulings » Transactions » Forbidden Kinds of Wealth.
- Principles of Fiqh » Jurisprudence and Islamic Rulings » Transactions » Employment for a Salary » Prohibited Jobs.
arur

42579: Fatwa from the Standing Committee on the “Business and “Hibbat al-Jazeerah” companies and pyramid marketing schemes
The Standing Committee for Academic Research and Issuing Fatwas has received many questions about pyramid marketing companies such as the “Business” and “Hibbat al-Jazeerah” companies, whose work may be summed up as being the attempt to convince a person to buy a product on the basis that he will also convince others to buy; they in turn will convince others, and so on. The more levels of participants there are, the more the first person will gain in commission, reaching thousands of riyals. Every participant convinces others to join in return for a large commission, if he is successful in getting new customers to join his list of members. This is what is called pyramid marketing or network marketing.
Published Date: 2004-09-12
Praise be to Allaah. 
The Committee replied: This kind of dealing is haraam, because the purpose of this dealing is to earn commission, not to buy the product. The commission may reach tens of thousands, whilst the product is not worth more than a few hundred. Any smart person who is offered a choice between the two will choose the commission. Hence these companies rely on marketing and advertising of their product which emphasizes the size of the large commission which the participant can earn, and offers the incentive of a large profit in return for a small sum, which is the price of the product. The product marketed by such companies is merely a screen or a means of earning these commissions and profits. Because this commission is really the point of the transaction, it is haraam according to sharee’ah for several reasons:
1 – It involves riba of two types, riba al-fadl (involving exchange of goods of the same type but of different quantity) and riba al-nasi’ah (involving deferred payment of a larger amount than would be paid if it were paid immediately). The participant pays a small amount of money in order to gain a lot of money, in other words he pays cash for cash of a different amount and with deferred payment. This is the kind of riba that is forbidden according to the texts and to scholarly consensus. The product which the company sells to the agent is simply a screen for this transaction; it is not what the participant is seeking and it makes no difference to the ruling.
2 – It is a kind of gharar (ambiguous transaction) that is forbidden in sharee’ah, because the participant does not know whether he will be successful in finding the number of purchasers (participants) required or not. No matter how long pyramid or network marketing lasts, it must inevitably reach an end, and when a person joins the pyramid he does not know whether he will be in a higher level and thus make a profit, or in the lower levels and thus make a loss. The fact of the matter is that most of the members of the pyramid lose out, except for the few at the top. So what usually happens is loss, which is the case of all ambiguous transactions. One of two things may happen, and it is usually the one that is most feared. The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) forbade ambiguous transactions, as was narrated by Muslim in his Saheeh.
3 – These transactions involve consuming people’s wealth unlawfully, because these contracts benefit no one but the companies and some participants whom the company encourages with the aim of tricking others. This is what is forbidden in the Qur’aan, where Allaah says (interpretation of the meaning):
“O you who believe! Eat not up your property among yourselves unjustly”
[al-Nisa’ 4:29]
4 – This transaction involves cheating, deceiving and tricking people, by showing the product as if that is the purpose of this transaction, when that is not the case, and by enticing them with the idea of large commission which people do not usually earn. This is the kind of deceit that is forbidden in sharee’ah. The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “Whoever deceives us is not one of us.” Narrated by Muslim in his Saheeh. And the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “The two parties to a transaction have the choice, so long as they have not parted. If they are sincere and open in their dealings, the transaction will be blessed for them, but if they lie and conceal anything, the blessing of their transaction will be erased.” Agreed upon.
With regard to the view that this transaction is a kind of brokerage, this is not true. Brokerage is a transaction whereby the broker receives payment in return for selling the product, whereas in network marketing the participant pays a fee in order to market the product. Brokerage means marketing the product in a real sense, unlike network marketing where the real aim is to market the transaction, not the product, so the participant markets to others who will market to others who will market to others and so on, unlike brokerage in which the broker markets the product to those who really want the product. The difference between the two is quite clear.
With regard to the view that the transaction is a kind of gift, this is also not true. Even if we accept that, not every gift is permissible according to sharee’ah. A gift given in return for a loan is riba. Hence ‘Abd-Allaah ibn Salaam said to Abu Burdah (may Allaah be pleased with them both): “You are in a land where riba is widespread among them. If you have some right over a man and he gives you a load of straw or a load of barley or a load of fodder, this is riba.” Narrated by al-Bukhaari in his Saheeh.
Gifts are subject to the rulings on the reason for which they are given. Hence the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said, concerning the zakaat-collector who came and said: “This is for you and this is what was given to me as a gift”: “Why don’t you sit in the house of your father and mother and see whether you are given any gifts or not?” Agreed upon.
These commissions are only paid for the purpose of joining the network marketing scheme, no matter what names are given to them, whether they are called gifts or anything else. That does not change their nature or the ruling on them in the slightest.
It is worth mentioning that there are companies that have appeared in the market which follow the practices of network marketing or pyramid marketing, such as “Smartest Way”, “Gold Quest” and “Seven Diamonds”. The ruling on these companies is no different from the ruling on the companies mentioned above, even though the products they offer may vary.
And Allaah is the Source of strength. May Allaah send blessings and peace upon our Prophet Muhammad and his family and companions.
Standing Committee for Academic Research and Issuing Fatwas. Fatwa no. 22935, dated 14/3/1425 AH.