Thursday 23 June 2022

لباس التقویٰ: اسلام میں لباس کے احکام

لباس التقویٰ 
اسلام میں لباس کے احکام
سوال: "لباس کے سلسلہ میں اصل حکم 
یہ ہے کہ مرد کا لباس عورتوں کے لباس کے مشابہ 
نہ ہو اور نہ عورتوں کا لباس مرد کے لباس کے مشابہ ہو۔ 
نیز ایسا لباس نہ ہو جو غیرمسلموں کا شعار شمار ہوتا ہو۔ اسی طرح لباس کا ساتر ہونا (ستر چھپانے والا ہونا) اور چست نہ ہونا شرعاً ضروری ہے، پس صورتِ مسئولہ میں ایسے کڑھائی یا ڈیزائن والے کپڑے جو عورتوں کے مشابہ نہ ہوں مردوں کے لئے پہننا شرعاً جائز ہے۔"
مذکورہ فتوی کا حوالہ مطلوب ہے؟
جواب: لباس کے سلسلے میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوالِ مبارکہ ہیں ان کو محدثینِ کرام نے  جمع کیا ہے اور  فقہاءِ کرام نے ان ہی احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں مرد اور عورت  کے  لباس اور مسلم  و غیرمسلم کے لباس کے احکام بتلائے ہیں۔ ان احادیثِ مبارکہ میں غور کرنے سے چند اَحکام  معلوم ہوتے ہیں:
1- لباس کا  سب سے اولین مقصد ستر کو چھپانا ہے، اسی لیے اگر لباس ایسا ہو کہ وہ سترپوشی کا کام نہیں دیتا، خواہ ناقص لباس ہو یا  لباس  تو پورا ہو  لیکن اتنا تنگ اور چست لباس ہو جس سے اعضاء مستورہ کی حکایت اور ان کی تصویر  سامنے آتی ہو تو ایسا لباس خواہ مرد کا ہو یا عورت کا، سب کے لئے ناجائز ہے۔
اسی وجہ سے الله تعالیٰ نے انسانوں كو مخاطب كركے فرمايا هے:
{يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ} [الأعراف: 26]
ترجمه: اے اولاد آدم كي هم نے اتاري تم پر پوشاك جو  ڈھانكے تمہاری شرمگاہیں اور اتارے آرائش کے کپڑے اور لباس پرہیزگاری کا وہ سب سے بہتر  ہے، یہ نشانیاں ہیں اللہ کی قدرت کی؛ تاکہ وہ لوگ غور کریں۔
اس آیت کی تفسیر میں تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے:
"یمتنّ تبارك و تعالى على عباده بما جعل لهم من اللباس و الريش، فاللباس المذكور هاهنا لستر العورات -و هي السوءات- و الرياش و الريش: هو ما يتجمل به ظاهرًا، فالأول من الضروريات، و الريش من التكملات و الزيادات."
ترجمہ: اللہ تبارک وتعالی (اس آیتِ مبارکہ میں) اپنے بندوں پر  اپنا احسان بیان کر رہے ہیں،بوجہ  لباس اور آرائش کے کپڑوں کے جو  اُن کو عطا فرمائے ہیں، اور لباس جس کا یہاں پر بیان ہے، اس کے دو مقصد ہیں: قابلِ شرم اعضاء  (یعنی شرم گاہوں) کو چھپانا  اور "ریاش" یعنی ظاہری زینت و جمال، پہلا مقصد (ستر چھپانا) ضروریات میں سے ہے اور دوسرا اضافی زینت کے لئے۔"
2- اسی طرح مرد اور عورت یا کافر اور مسلمان کے درمیان ظاہری فرق لباس سے حاصل ہوتا ہے اور اگر ایک دوسرے کا لباس پہنا جائے تو  مشابہت کی وجہ سے امتیاز ختم ہونے کا اندیشہ ہے؛ اس لئے ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ حدیثِ مبارک  میں ہے:
"لعَنَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ الْمُتَخَنِّثِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالْمُتَرَجّلاَتِ مِنَ النِّسَاءِ، وَ قَالَ: أخْرِجُوْهمْ مِنْ بُیُوْتِکُمْ." (صحيح البخاری، رقم الحدیث: 5547)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ: تم ایسے لوگوں کو اپنے گھروں سے نکال دو۔
3- جب ممانعت کی بنیادی علت مشابہت ہے اور اور جہاں یہ علت نہیں ہوگی وہاں ممانعت بھی نہیں ہوگی؛ اس لیے ایسی کڑھائی یا ڈیزائن والے کپڑے جو عورتوں کے کپڑوں کے مشابہ نہ ہوں (اور ان میں کفار کی مشابہت بھی نہ ہو)،  ایسے کپڑوں کا مردوں کے  لیے پہننا جائز ہوگا۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے:
"عنْ عائِشَةَ أنَّ النبيَّ صلَّى فِي خمِيصةٍ لَها أعْلاَمٌ فَنَظَرَ إِلَى أعْلاَمِها نَظْرَةً  فَلَمَّا انْصَرَف، قالَ: اذْهَبُوا بِخَمِيصَتِي هَذِهِ إِلَى أبي جَهْمٍ، وأتُونِي بأنْبِجانِيَّةِ أبي جَهْمٍ، فإِنَّهَا ألْهَتْنِي آنِفاً عنْ صَلاَتي."
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے دھاری دار چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش ونگار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ان نقش و نگار کو دیکھا، پھر جب آپ نماز سے فارغ  ہوئےتو فرمایا: اسے لے جا کر ابوجہم کوواپس کردو اور ان سے (بجائے اس کے) سادی چادرلاؤ، اس نے مجھے میری نماز سے ابھی غافل کردیا ۔
اس کی شرح میں علامہ عینی عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں:
"ذكر مَا يستنبط مِنْهُ من الْأَحْكَام فِيهِ: جَوَاز لبس الثَّوْب الْمعلم وَ جَوَاز الصَّلَاة فِيهِ. وَ فِيه: أَن اشْتِغَال الْفِكر الْيَسِير فِي الصَّلَاة غير قَادِح فِيهَا، وَهُوَ مجمع عَلَيْهِ ..."
اس حدیث سے جو احکام مستنبط ہوئے ہیں: ان (میں  ایک یہ کہ) نقش ونگار والے کپڑوں کا پہننا ہے اور ان میں نماز کا درست ہونا ہے اور  یہ کہ نماز سے ہٹ کر  معمولی سے مشغولیت  نماز میں مضر نہیں اور اسی پر اتفاق ہے۔
اس کے علاوہ دیگر احادیث سے لباس کے بارے میں مزید درج ذیل احکام بھی ثابت ہیں:
4- مرد شلوار، پائجامہ یا تہبند وغیرہ اتنا نیچے نہ پہنیں کہ ٹخنے یا ٹخنوں کا کچھ حصہ چھپ جائے اور نہ ہی خواتین شلوار وغیرہ اتنی اونچی پہنیں کہ ان کے ٹخنے ظاہر ہوجائیں۔
5-  لباس میں سادگی ہو، تصنع، بناوٹ یا نمائش مقصود نہ ہو۔
6-  مال دار شخص نہ تو فاخرانہ لباس پہنے اور نہ ہی ایسا لباس پہنے کہ اس سے مفلسی جھلکتی ہو۔
7-  اپنی مالی استطاعت کے مطابق ہی لباس کا اہتمام ہونا چاہئے۔
8-  مرد کے لیے خالص ریشم (یا جس کپڑے کا بانا ریشم کا ہو) پہننا حرام ہے۔
9-  مرد کے لیے خالص سرخ یا زعفرانی رنگ مکروہ ہے، البتہ سرخ کے ساتھ کسی اور رنگ کی بھی آمیزش ہو تو جائز ہے۔
10لباس صاف ستھرا ہو، نیز مردوں کے لئے سفید رنگ پسندیدہ ہے۔
شرح ابن بطال لصحیح البخاری (9/140):
"قال الطبرى: فيه من الفقه أنه لايجوز للرجال التشبه بالنساء في اللباس و الزينة التي هي للنساء خاصة، و لايجوز للنساء التشبه بالرجال فيما كان ذلك للرجال خاصة. فمما يحرم على الرجال لبسه مما هو من لباس النساء: البراقع و القالائد و المخانق و الأسورة و الخلاخل، و مما لايحل له التشبه بهنّ من الأفعال التي هنّ بها مخصوصات فانخناث في الأجسام، و التأنيث في الكلام. و مما يحرم على المرأة لبسه مما هو من لباس الرجال: النعال و الرقاق التي هي نعال الحد و المشي بها في محافل الرجال، و الأردية و الطيالسة على نحو لبس الرجال لها في محافل الرجال و شبه ذلك من لباس الرجال، و لايحلّ لها التشبه بالرجال من الأفعال في إعطائها نفسها مما أمرت بلبسه من القلائد و القرط و الخلاخل و السورة، و نحو ذلك مما ليس للرجل لبسه، و ترك تغيير اليدي و الأرجل من الخضاب الذي أمرن بتغييرها به."
 مرقاۃ المفاتیح (7/2782):
"وَعَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "«مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ»" رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُودَاوُدَ.
(4347- وَعَنْهُ) : أَيْ عَنِ ابْنِ عُمَرَ (قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  (مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ): أَيْ مَنْ شَبَّهَ نَفْسَهُ بِالْكُفَّارِ مَثَلًا فِي اللِّبَاسِ وَغَيْرِهِ، أَوْ بِالْفُسَّاقِ أَوِ الْفُجَّارِ أَوْ بِأَهْلِ التَّصَوُّفِ وَالصُّلَحَاءِ الْأَبْرَارِ. (فَهُوَ مِنْهُمْ): أَيْ فِي الْإِثْمِ وَالْخَيْرِ. قَالَ الطِّيبِيُّ: هَذَا عَامٌّ فِي الْخَلْقِ وَالْخُلُقِ وَالشِّعَارِ، وَلِمَا كَانَ الشِّعَارُ أَظْهَرُ فِي التَّشَبُّهِ ذُكِرَ فِي هَذَا الْبَابِ."
فقط واللہ اعلم 
فتوی نمبر : 144203200495
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (S_A_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/06/blog-post_23.html

Wednesday 22 June 2022

سورۃ النمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے قصہ پر ایک استنباطی نظر اور تین کا عدد

سورۃ النمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے قصہ پر ایک استنباطی نظر اور تین کا عدد
بقلم: مولانا فخرالاسلام المدنی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وَلَقَدْ أٰتَیْْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْْمَانَ عِلْمًا وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَوَرِثَ سُلَیْْمَانُ دَاوٗدَ وَقَالَ یَا أَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْْرِ وَأُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْْئٍ إِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّیْْرِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ حَتّٰی إِذَا أَتَوْا عَلٰی وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یَّا أَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسَاکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْْمَانُ وَجُنُوْدُہٗ وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۔‘‘ (النمل: ۱۵-۱۸) 
إلٰی قولہٖ تعالٰی: ’’قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔‘‘ (النمل: ۴۴)
مذکورہ آیات دو رکوع پر مشتمل ہیں، ان میں غوروفکر کرنے کے بعد حیرت انگیز طور پر ثلاثیات کی شکل میں فوائد کا ایک بڑا ذخیرہ سامنے آگیا، جو نذرِقارئین ہے۔ 
ہم سب اس بات کو جانتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں طاق عدد کو ایک بڑی اہمیت حاصل ہے، خاص طور پر تین کے عدد کو، مثلاً: نماز میں تسبیحات یا طہارت کے مسائل میں، اسی طرح وتر کی بھی تین رکعتیں ہیں، نیز نماز کے بعد تین قسم کی تسبیحات، وغیرہ۔
 البتہ جس طرح بلاغت کے فنِ بدیع میں محسناتِ معنویہ اور محسناتِ لفظیہ ہوتے ہیں، اسی طرح ان فوائد میں کچھ کا تعلق لفظ سے ہے، اور کچھ کا تعلق معنی سے ہے، تاہم ہمارے لیے قرآن کے الفاظ بھی اتنا اہم ہیں جتنا معنی ہے۔ 
مذکورہ آیاتِ کریمہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا قصہ تین قسم کی مخلوقات کے ساتھ متعلق ہے:
۱:- چیونٹی        
۲:- پرندہ (ھد ھد)        
۳:- انسان (بلقیس)
آیت کریمہ میں تین طرح کے لشکر کا تذکرہ ہے:
۱:- جن        
۲:- انس       
 ۳:- طیر 
’’وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّیْْرِ فَہُمْ یُوزَعُوْنَ ۔‘‘
نیز ’’جُنُوْد‘‘ کا لفظ بھی تین مرتبہ استعمال ہوا ہے:
۱:-’’وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّیْْرِ فَہُمْ یُوزَعُوْنَ۔‘‘
۲:- ’’لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْْمَانُ وَجُنُوْدُہٗ وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۔‘‘
۳:- ’’اِرْجِعْ إِلَیْْہِمْ فَلَنَأْتِیَنَّہُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَہُم بِہَا.‘‘
’’جُنْد‘‘ کا معنی فوج اور لشکر، جس سے بری، بحری اور فضائی تین قسم کی فوج کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے: ’’وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّیْْرِ فَہُمْ یُوزَعُوْنَ ۔‘‘
۱:- ’’الطَّیْْرِ‘‘ فضائی قوت کی طرف اشارہ ہے: ’’ثُمَّ تَوَلَّ عَنْہُمْ فَانْظُرْ مَاذَا یَرْجِعُوْنَ‘‘ جو ایک ڈرون کی طرح جاسوسی کا تصور ہے۔
۲:- ’’الْإِنْسِ‘‘ سے مراد بری فوج ہے۔ 
۳:- اور ’’الْجِنِّ‘‘ سے بحری قوت مراد ہے، اس لیے کہ ’’وَالشَّیَاطِیْنَ کُلَّ بَنَّائٍ وَّغَوَّاصٌ‘‘ فرمایا، نیز ’’وَالشَّیَاطِیْنَ یَغُوْصُوْنَ لَہٗ وَیَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِکَ۔‘‘ عربی میں غواص آج کل آبدوز کو کہتے ہیں، جو بحری قوت کا اہم حصہ شمار ہوتا ہے۔ 
 مذکورہ تینوں مخلوقات میں سے ہر ایک کی عملی مثال و نمونہ بھی پیش کیا گیا:
۱:- ’’وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ‘‘ (عفریت کا تذکرہ)
۲:- ’’وَالْإِنْسِ‘‘ (آصف بن برخیا کا قصہ)
۳ :- ’’وَالطَّیْْرِ‘‘ (ھدھد کا واقعہ)
حضرت سلیمان علیہ السلام کا تذکرہ تین مرتبہ تبعاً اور تین مرتبہ قصہ کے ضمن میں اصالۃً (یعنی بنیادی طور پر) ہوا ہے، کیونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام قصہ کا محور ومرکز ہیں، تو ان کا تذکرہ نسبۃً دوگنا ہوا ہے:
۱:- ابتدائے قصہ میں: ’’وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ‘‘
۲:- درمیان میں: ’’فَلَمَّا جَائَ سُلَیْْمَانَ‘‘
۳:- آخر میں: ’’وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْْمَانَ لِلّٰہِ‘‘
علم (مصدر) کا لفظ تین مرتبہ آیا ہے:
۱:- ’’وَلَقَدْ أٰتَیْْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْْمَانَ عِلْمًا‘‘
۲:- ’’قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَابِ‘‘
۳:- ’’وَأُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ‘‘
کتاب کا لفظ تین مرتبہ آیا ہے:
۱:-’’اِذْہَبْ بِّکِتَابِیْ ہٰذَا‘‘
۲:- ’’قَالَتْ یَا أَیُّہَا الْمَلَأُ إِنِّیْ أُلْقِیَ إِلَیَّ کِتَابٌ کَرِیْمٌ‘‘
۳:- ’’قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَابِ‘‘
 ان آیاتِ کریمہ میں تین مرتبہ فضل کا لفظ آیا ہے:
۱:- ’’وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ ‘‘
۲:- ’’وَأُوتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْْئٍ إِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ‘‘
۳:- ’’ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ لِیَبْلُوَنِیْ أَ أَشْکُرُ أَمْ أَکْفُرُ وَمَنْ شَکَرَ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ رَبِّيْ غَنِيٌّ کَرِیْمٌ۔‘‘
واضح رہے کہ مذکورہ آخری آیت میں شکر کا کلمہ بھی تین مرتبہ مذکور ہے، جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ فضل کا تذکرہ تین مرتبہ آیا ہے، شا ید اسی کی مناسبت سے حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین انعامات کی بناپر تین مرتبہ شکر کے کلمات ادا کیے:
۱:- ابتدا میں: ’’یَا أَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْْرِ وَأُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْْئٍ ۔‘‘
۲:- درمیان میں: ’’فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنْ قَوْلِہَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰی وَالِدَيَّ ۔‘‘
۳:- آخر میں: ’’فَلَمَّا رأَٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ۔‘‘
واضح رہے کہ ’’الطَّیْْرِ‘‘ کا لفظ بھی ان آیات کریمہ میں تین مرتبہ استعمال ہوا ہے:
۱:- ’’وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّیْْرِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ ۔‘‘
۲:- ’’ یَا أَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْْرِ وَأُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْْئٍ ۔‘‘
۳:- ’’وَتَفَقَّدَ الطَّیْْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَی الْہُدْہُدَ‘‘
آیت میں نمل کا لفظ تین مرتبہ استعمال ہوا ہے:
۱:- ’’حَتّٰی إِذَا أَتَوْا عَلٰی وَادِ النَّمْلِ‘‘
۲ ،۳:- ’’قَالَتْ نَمْلَۃٌ یَّا أَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسَاکِنَکُمْ ‘‘ (وادی نملہ، ملکہ نملہ، رعیت)
چیونٹی کے قصے سے تین چیزوں کی ضرورت اور اہمیت ثابت ہوتی ہے۔
۱:- راڈار سسٹم کا تصور (تین کلومیٹر کے فاصلہ سے لشکر کی آمد کا چیونٹی کو پتہ لگ گیا) ۔
۲ :- ٹیلی گراف (برقی لہروں کا تصور) تین کلومیٹر کے فاصلہ سے آواز کا حضرت سلیمان علیہ السلام تک پہنچنا۔
۳:- ٹرانسلیشن کی اہمیت (حضرت سلیمان علیہ السلام کا چیونٹی کی بات کو سمجھنا): ’’عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْْر‘‘
چیونٹی نے تین کام کیے جو کسی بھی قیادت کے حوالہ سے اہم ہیں:
۱:- بروقت خطرہ کی اطلاع (خطرہ کا الارم): ’’یَّا أَیُّہَا النَّمْلُ‘‘
۲:- خطرات کی نشاندہی: ’’لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْْمَانُ وَجُنُوْدُہٗ‘‘
۳ :- حفاظتی تدابیر: ’’ادْخُلُوْا مَسَاکِنَکُمْ‘‘
اس موقع پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو شکر کے کلمات ادا کیے ہیں، وہ تین دعاؤں پر مشتمل ہیں:
۱:- شکر کی توفیق: ’’رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰی وَالِدَيَّ‘‘
۲:- عمل صالح کی توفیق: ’’وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاہُ‘‘
۳:- حسنِ خاتمہ: ’’وَأَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصَّالِحِیْنَ‘‘
واضح رہے کہ حسن خاتمہ سے متعلق قرآن مجید میں تین انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ آیا ہے:
۱:- حضرت ابراہیم علیہ السلام: ’’رَبِّ ہَبْ لِیْ حُکْمًا وَّ أَلْحِقْنِیْ بِا الصَّالِحِیْنَ‘‘
۲:- یوسف علیہ السلام: ’’تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّأَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْنَ‘‘
۳:- حضرت سلیمان علیہ السلام: ’’وَأَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصَّالِحِیْنَ‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد پرندے سے متعلق تین ہدایات دیں:
۱:- ’’لَأُعَذِّبَنَّہٗ ‘‘    
۲:- ’’أَوْ لَأَذْبَحَنَّہٗ ‘‘     
۳:- ’’أَوْ لَیَأْتِیَنِّیْ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ‘‘
 ملازمین کے لیے حاضری کے نظام سے متعلق تین اُمور معلوم ہوتے ہیں:
۱:- ضرورت کے مطابق وقتاً فوقتاً حاضری: ’’وَتَفَقَّدَ الطَّیْْرَ‘‘
۲:- غیر حاضری پر سزا: ’’لَأُعَذِّبَنَّہٗ عَذَاباً شَدِیْداً‘‘
۳:- مناسب عذر پر سزا معطل: ’’أَوْ لَیَأْتِیَنِّیْ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ‘‘
 ہد ہد نے واپسی پر علاقہ کا سیاسی، فوجی اور اقتصادی نقشہ تین باتوں میں پیش کیا:
۱:- ’’إِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَأَۃً تَمْلِکُہُمْ‘‘    
۲:- ’’وَأُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْْئٍ‘‘
۳:- ’’وَلَہَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ‘‘
پھر مذہبی نقشہ بھی تین باتوں میں پیش کیا:
۱:- ’’یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ‘‘ (فسادِ عقیدہ)
۲:-’’وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْْطَانُ أَعْمَالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ‘‘ (سبب فساد)
۳:- ’’فَہُمْ لَا یَہْتَدُوْنَ‘‘ (امکان ہدایت)
حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہدہد کے واقعہ سے بھی سلطنت کی تین اہم چیزوں کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے:
۱:- ڈاک کا نظام: ’’اِذْہَبْ بِّکِتَابِیْ ہٰذَا‘‘
۲:- خفیہ جاسوسی نظام: ’’ثُمَّ تَوَلَّ عَنْہُمْ فَانظُرْ مَاذَا یَرْجِعُوْنَ‘‘
۳:- بیرونی ممالک کے ساتھ تعلقات (سفارتی نظام)
انہی آیات میں سنی سنائی باتوں سے متعلق تین احکام:
۱:- سنی سنائی بات نہیں کرنی چاہیے: ’’وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ یَّقِیْنٍ‘‘
۲:- سنی سنائی بات پر یقین بھی نہیں کرنا چاہیے: ’’سَنَنْظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ کُنْتَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ‘‘
۳:- سنی سنائی بات کو بالکل نظر انداز نہیں کرنا چاہیے: ’’اِذْہَبْ بِّکِتَابِیْ ہٰذَا‘‘
خط کے مندرجات تین ہیں:
۱:- مرسل منہ:’’إِنَّہٗ مِنْ سُلَیْْمَانَ‘‘
۲:- ابتداء خط: ’’وَإِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘
۳:- مضمون: ’’أَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَأْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ‘‘
 بلقیس کے قصہ سے تین باتیں واضح ہوتی ہیں:
۱:- قومی اسمبلی یعنی شورائی نظام: ’’مَا کُنْتُ قَاطِعَۃً أَمْرًا حَتّٰی تَشْہَدُوْنِ‘‘
۲ :- سیاست بلقیس: ’’وَإِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ إِلَیْْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ فَنَاظِرَۃٌ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ‘‘
۳:- مغربی امداد کی حقیقت: ’’أَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ‘‘
بلقیس کا خطاب قرآن کریم میں تین جگہ ’’قَالَتْ‘‘ کے صیغہ کے ساتھ مذکور ہے:
۱:- ’’قَالَتْ یَا أَیُّہَا الْمَلَأُ إِنِّيْ أُلْقِيَ إِلَيَّ کِتَابٌ کَرِیْمٌ‘‘
۲:- ’’قَالَتْ یَا أَیُّہَا الْمَلَأُ أَفْتُوْنِيْ فِیْ أَمْرِيْ مَا کُنْتُ قَاطِعَۃً أَمْرًا حَتّٰی تَشْہَدُوْنِ‘‘
۳:- ’’قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوْکَ إِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً أَفْسَدُوْہَا‘‘
بلقیس ایک عقلمند خاتون تھی، جس کے تین نتائج نکلے:
۱:- عقلمندی قیادت کا سبب ہے: ’’إِنِّیْ وَجَدتُّ امْرَأَۃً تَمْلِکُہُمْ‘‘
۲:- عقلمندی سیاست کا سبب ہے: ’’وَإِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ إِلَیْْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ فَنَاظِرَۃٌ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ‘‘
۳:-عقلمندی ہدایت کا سبب ہے: ’’قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین جملوں میں اپنا رد عمل پیش کیا:
۱:- ’’أَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ‘‘
۲:- ’’فَمَا أٰتَانِيَ اللّٰہُ خَیْْرٌ مِّمَّا أٰتَاکُمْ‘‘
۳:- ’’بَلْ أَنْتُمْ بِہَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُوْنَ‘‘
مغربی سیاست سے متعلق تین باتیں:
۱:- مغربی امداد کی حقیقت :ہمارا امتحان: ’’وَإِنِّيْ مُرْسِلَۃٌ إِلَیْْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ فَنَاظِرَۃٌ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ‘‘
۲:- مغربی امدا د کا حق: فوری مسترد اور اپنے وسائل پر انحصار: ’’أَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ‘فَمَا أٰتَانِيَ اللّٰہُ خَیْْرٌ مِّمَّا أٰتَاکُمْ‘‘
۳:- مغربی امداد کا متبادل: (روحانی قوت کی قدر وحفاظت جس کی بنیاد پر حضرت سلیمان علیہ السلام کو بلقیس پر ترجیح حاصل تھی، اور روحانیت کی حفاظت میں مدارس بنیادی طور پر سر فہرست ہیں) ’’قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَابِ أَنَا أٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ أَنْ یَّرْتَدَّ إِلَیْْکَ طَرْفُکَ‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے قوم سبا کے متعلق دھمکی میں تین چیزوں کا ذکر کیا:
۱:- ’’ارْجِعْ إِلَیْْہِمْ‘‘ (ہدیہ کی واپسی)
۲:- ’’فَلَنَأْتِیَنَّہُمْ بِجُنُودٍ لَّا قِبَلَ لَہُم بِہَا‘‘ (فوجی کارروائی کی دھمکی)
۳:- ’’وَلَنُخْرِجَنَّہُم مِّنْہَا أَذِلَّۃً وَہُمْ صَاغِرُوْنَ‘‘ (کارروائی کا مقصد یا نتیجہ)
 ایک ملازم یا مزدور میں تین خصوصیات ہونی چاہئیں:
۱:- کام میں تاخیر نہ کرے: ’’آتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ أَنْ تَقُوْمَ‘‘
۲:- قوی ہو: ’’وَإِنِّيْ عَلَیْْہِ لَقَوِیٌّ أَمِیْنٌ‘‘
۳:- امانت دار ہو: ’’وَإِنِّيْ عَلَیْْہِ لَقَوِيٌّ أَمِیْنٌ‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے عرشِ بلقیس کا تذکرہ تین مرتبہ کیا ہے:
۱:- ’’أَیُّکُمْ یَأْتِیْنِيْ بِعَرْشِہَا‘‘
۲:- ’’قَالَ نَکِّرُوا لَہَا عَرْشَہَا‘‘
۳:-’’أَہٰکَذَا عَرْشُکَ‘‘
اس واقعہ میں مذکورہ تین قوتوں کے استعمال کی نوبت نہیں آئی :
۱:- ’’قَالُوْا نَحْنُ أُوْلُوْا قُوَّۃٍ وَأُولُوْا بَأْسٍ شَدِیْدٍ‘‘
۲:- ’’قَالَ عِفْریْتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا أٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ أَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ‘‘
۳:- ’’ارْجِعْ إِلَیْْہِمْ فَلَنَأْتِیَنَّہُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَہُم بِہَا‘‘
سب سے پہلے بیرونِ ممالک کا تبلیغی سفر ھدھد نے کیا، جس کے کل تین مراحل ہیں:
۱:- تقاضائے دعوت و تبلیغ: ’’وَجَدْتُّہَا وَقَوْمَہَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ‘‘
۲:- دعوت و تبلیغ: ’’إِنَّہٗ مِنْ سُلَیْْمَانَ وَإِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘
۳:- نتیجۂ دعوت: ’’قَالَتْ رَبِّ إِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ یوں اللہ تعالیٰ نے ایک پرندہ کو ایک پوری قوم کی ہدایت کا سبب بنادیا۔
عام طور پر معاشرہ میں تین چیزوں کو کمزور سمجھا جاتا ہے، اس واقعہ میں اُن کا تذکرہ کرکے ان کی اہمیت کو بتایا گیا:
۱:- چیونٹی (نملۃ)        
۲:- پرندہ (ھدھد)        
۳:- عورت (ملکہ سبا)
یَا أَیُّہَا الْمَلَأُ  کا جملہ بھی تین مرتبہ استعمال ہوا ہے، دو مرتبہ بلقیس اور ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے استعمال کیا:
۱:- ’’یَا أَیُّہَا الْمَلَأُ إِنِّیْ أُلْقِيَ إِلَيَّ کِتَابٌ کَرِیْمٌ‘‘
۲:- ’’یَا أَیُّہَا الْمَلَأُ أَفْتُوْنِیْ فِیْ أَمْرِیْ‘‘
۳:- ’’یَا أَیُّہَا الْمَلَأُ أَیُّکُمْ یَأْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا‘‘ 
’’مُسْلِمِیْنَ‘‘ کا کلمہ تین مرتبہ آیا ہے :
۱:- ’’أَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَأْتُوْنِيْ مُسْلِمِیْنَ‘‘
۲:- ’’قَبْلَ أَنْ یَأْتُونِیْ مُسْلِمِیْنَ‘‘
۳:-’’وَأُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ‘‘
پورے قصہ کاخلاصہ تین باتوں میں نکلتا ہے:
۱:- خلافتِ سلیمان 
۲:- قیادتِ نملہ    
۳:- سیاستِ بلقیس
مجموعی طور پر آیاتِ کریمہ میں دیگر فوائد ملاحظہ فرمائیں:
بلقیس کے عرش کے مقابلہ میں ھدھد نے اللہ کے عرش کا ذکر کیا: ’’اَللّٰہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘‘ اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں ’’وَأُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْْئٍ ‘‘ آیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں بلقیس کے لیے ’’وَأُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْْئٍ‘‘ کا ذکر ہے۔ اور دونوں میں تقابل کیا گیا تو نتیجہ : ’’فَمَا أٰتَانِيَ اللّٰہُ خَیْْرٌ مِّمَّا أٰتَاکُمْ‘‘
اسباب کا بھرپور استعمال توکل کے منافی نہیں: ’’اِذْہَبْ بِّکِتَابِیْ ہٰذَا، أَیُّکُمْ یَأْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا‘‘
خلقِ خدا میں کسی چیز کو حقیر نہ سمجھیں (چیونٹی اور پرندہ کا کردار) 
کثرتِ شکر‘ کثرتِ نعمت کا سبب ہے: ’’ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ‘‘
روحانی قوت مادی قوت پر حاوی ہے: ’’قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَابِ‘‘
الہدایا قد تکون وراء ہا خبایا (ہدیہ قبول کرنے میں احتیاط): ’’وَإِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ إِلَیْْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ‘‘
حاملینِ علومِ نبوت کو احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے: ’’فَمَا أٰتَانِيَ اللّٰہُ خَیْْرٌ مِّمَّا أٰتَاکُمْ‘‘
جب بڑا کردار ادا کرنے کا موقع مل جائے تو عاجزی کا اظہار کرنا چاہیے: ’’ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ‘‘
عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے: ’’مَالِيَ لَا أَرَی الْہُدْہُد‘‘، ’’أَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہ‘‘
عقیدۂ توحید کی اہمیت: ’’إِنَّہٗ مِنْ سُلَیْْمَانَ وَإِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘
بعض معاملات میں جلدی کرنا بہتر ہے: ’’أَیُّکُمْ یَأْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا قَبْلَ أَن یَّأْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ‘‘
مخالف کو کمزور نہ سمجھیں: ’’قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوْکَ إِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً أَفْسَدُوْہَا‘‘
خط کے مضمون میں اختصار سے کام لینا چاہیے: ’’أَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَأْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ‘‘
بڑوں کو عزت کی فکر ہوتی ہے: ’’وَجَعَلُوْا أَعِزَّۃَ أَہْلِہَا أَذِلَّۃً‘‘
ہر عورت کم عقل نہیں ہوتی، جیسا کہ بلقیس کے اس واقعے سے اس کی سمجھداری کا پتہ چلتا ہے۔
وقتاً فوقتاً دشمن کے خلاف زبانی دھمکی کارگر ہوتی ہے: ’’فَلَنَأْتِیَنَّہُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَہُمْ بِہَا وَلَنُخْرِجَنَّہُمْ مِّنْہَا أَذِلَّۃً وَّہُمْ صَاغِرُوْنَ‘‘
دین کو عقل پر مقدم رکھنا چاہیے، جیسا کہ چیونٹی کا قصہ اور ہدہد پرندے کا جو بظاہر ہماری سمجھ میں نہیں آتا، مگر ہمارا ایمان ہے کہ یہ سچ ہے۔
علم‘ فضیلت کا سبب ہے: ’’وَلَقَدْ أٰتَیْْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْْمَانَ عِلْمًا وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘
’’إِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ‘‘ (جو ذات چیونٹی سے غافل نہیں، وہ ہم سے کیوں غافل ہوگی)
ملکۂ سبا اور ملکۂ نملہ میں ایک مناسبت: دونوں نے اپنی اپنی قوم کو خطرات سے بچانے کی کوشش کی۔
ہم چیونٹیوں کے بارے میں ’’لَا یَشْعُرُوْنَ‘‘ کی رائے رکھتے ہیں، جب کہ وہ ہمارے بارے میں کہتی ہیں: ’’وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ‘‘
نعمتوں کا برملا اظہار کرنا چاہیے: ’’یَا أَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْْرِ‘‘
شکر توفیق کے بغیر نہیں ہوتا: ’’رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ‘‘
ترتیب زمانی: پہلے حضرت داؤد علیہ السلام کا تذکرہ ہوا جو کہ باپ ہیں اور پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کا تذکرہ ہوا جو اُن کے بیٹے ہیں، اسی طرح پہلے جن اور پھر انسان کا تذکرہ ہوا۔
واضح رہے کہ پورے قرآن کریم میں جہاں کہیں جن و انس کا تذکرہ ایک ساتھ ہوا، غالباً وہاں جن کو ان کی پیدائش کی وجہ سے مقد م کیا گیا ہے۔
توبہ سے پہلے گناہ کا اعتراف ہونا چاہیے: ’’رَبِّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘
حکمرانوں کو دعوتی اور اصلاحی خط لکھنا ایک سنت عمل ہے: ’’اِذْہَبْ بِّکِتَابِیْ ہٰذَا‘‘
پہلی آیت میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول مذکورہے: ’’الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا‘‘ اور آخری آیت میں بلقیس کا قول: ’’وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ گویاکہ ہمارے مضمون کی ابتدا ’’الْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ اور انتہا ’’رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ پر ہے۔ اس فائدے کو آخر میں رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے: وأٰخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین (S_A_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/06/blog-post_22.html


 

Tuesday 21 June 2022

نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے کسی مرحوم کی طرف سے قربانی کرنا؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے کسی مرحوم کی طرف سے قربانی کرنا؟
---------------------------------
----------------------------------
جس صاحب استطاعت بندہ کے پاس گنجائش ہو وہ اپنے مرحوم بزرگوں کی طرف سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرے، یہ عمل بہت ہی مبارک اور موجب اجر و ثواب ہے، ان سب کو اس کا ثواب اِن شآءاللہ پہنچے گا ۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دو بھیڑ ذبح فرمائے ہیں، ایک اپنی طرف سے اور ایک اپنی ان تمام امتیوں کی طرف سے جہنوں نے توحید کا اقرار کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دین پہنچا دینے کی گواہی دی۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ضَحَّى اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوأَيْنِ قَالَ فَيَذْبَحُ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ وَيَذْبَحُ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ (مسند أحمد: 25315) و(سنن ابن ماجہ: 3122) 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی اتنی پسند تھی کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایسا کرنے کی باضابطہ وصیت: یعنی  یعنی تاکیدی حکم فرمایا؛ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بلا ناغہ دو بھیڑ ذبح فرماتے تھے، ایک اپنی طرف سے اور ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے۔ وہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے کبھی ناغہ نہ کیا۔
عَنْ حَنَشٍ قَالَ رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ مَا هَذَا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ (سنن ابي داؤد: 2790، بَاب الْأُضْحِيَّةِ عَنْ الْمَيِّت)۔
 عَنْ حَنَشٍ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ أَحَدُهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ فَقِيلَ لَهُ فَقَالَ أَمَرَنِي بِهِ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا أَدَعُهُ أَبَدًا قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُضَحَّى عَنْ الْمَيِّتِ وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُضَحَّى عَنْهُ وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُتَصَدَّقَ عَنْهُ وَلَا يُضَحَّى عَنْهُ وَإِنْ ضَحَّى فَلَا يَأْكُلُ [ص: 72] مِنْهَا شَيْئًا وَيَتَصَدَّقُ بِهَا كُلِّهَا قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ شَرِيكٍ قُلْتُ لَهُ أَبُو الْحَسْنَاءِ مَا اسْمُهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ قَالَ مُسْلِمٌ اسْمُهُ الْحَسَنُ (سنن الترمذي: 1495، بَاب مَا جَاءَ فِي الْأُضْحِيَّةِ عَنْ الْمَيِّتِ ، مسند احمد 152/2)
یہ تمام احادیث اس باب میں صریح ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے کسی مرحوم شخص کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اور ان کے نام سے قربانی کرنے سے انہیں ثواب پہنچے گا. امام ابوداؤد و ترمذی وغیرہما نے باضابطہ میت کی طرف سے قربانی کئے جانے کا باب قائم فرمایا یے اور اس کے تحت انہی احادیث سے استدلال فرمایا ہے. ائمہ متبوعین میں حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کا یہی مذہب ہے۔ شافعیہ کے یہاں کراہت کے ساتھ میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت کے راوی شریک اور ابوالحسناء کے بارے میں بعض ائمہ جرح وتعدیل نے جو کلام کیا ہے اس سے کچھ لوگ، سادہ لوحوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنا ضعیف روایت سے ثابت ہے؛ لہذا وہ ناقابل اعتبار ہے. اس سلسلہ میں یہ حضرات یہ کہتے ہیں کہ علامہ ابن حجر نے ابوالحسناء کو مجہول، اور ذہبی نے  غیرمعروف کہا ہے؛ لہذا یہ حدیث ضعیف ہوگئی ۔الخ ..... تو اس کی حقیقیت یہ ہے کہ علامہ دولابی "الکنی" 151/1 میں فرماتے ہیں:
حدثنا العباس بن محمد عن یحی بن معین قال: ابوالحسناء: روی عنه شریك و الحسن بن صالح، كوفي.
فن اسماء الرجال سے اشتغال وآگاہی رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ یحییٰ بن معین اس فن کے امام ہی نہیں؛ بلکہ امام الائمہ سمجھے جاتے ہیں، ان کے عہد میں اس فن کے متعدد ائمہ تھے، مثلاً امام احمد بن حنبل، ابن مدینی، سعید القطان، ابن مہدی وغیرہم؛ مگر ابن معین کو ان سب بزرگوں میں ایک خاص امتیاز حاصل تھا۔ راوی کی عقل وفہم، خداترسی، قوت فہم، حافظہ، مبلغ علم، قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے کی جو تفصیلی خداداد صلاحیت ابن معین کو حاصل تھی وہ انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی تھی۔ فن اسماء الرجال کے اتنے بڑے امام یحی ابن معین نے ابوالحسناء پہ کوئی جرح نہیں فرمائی. اتنے بڑے امام الجرح والتعدیل کا سکوت فرمانا اورجرح نہ کرنا بجائے خود دلیل ہے کہ ابو الحسناء معروف اور ثقہ راوی ہیں. ابن معین کی تعدیل کے بعد اب ذھبی کا اس راوی کے بارے میں "لایُعرَف" کہنا غیرمقبول ہے۔ بھلا جس راوی سے دو دو ثقہ راوی (شریک اور حسن بن صالح) روایت  کریں کیا وہ مجہول رہ سکتا ہے؟ لہذا ابن حجر کا  انہیں مجہول کہنا بھی ناقابل احتجاج ہے۔ ابن معین کی اس تعدیل کے بعد علامہ ہیتمی کا  مجمع الزوائد میں "فیه ابو الحسناء ولا یعرف، روی عنه غیر شریک" ۔(23/4) کہنے کی  اصلیت بھی واضح ہوگئی. مجمع الزوائد میں ہے:
أمَرَني رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أنْ أُضَحِّيَ عنه بِكَبْشَيْنِ فَأَنَا أُحِبُّ أنْ أَفْعَلَهُ ، وقال المحَارِبِيُّ في حديثِهِ ضَحَّى عنه بكبشينِ واحدٍ عنِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم والآخرِ عنه فقيل له فقال إنه أمَرَني فلَا أدَعُهُ أَبَدًا (مجمع الزوائد: 26-4 فيه أبو الحسنا ولا يعرف روي عنه غير شريك)۔
لیکن اوپر کی سطروں میں ابن معین کے حوالے سے ثابت کردیا گیا کہ ابوالحسناء سے شریک کے علاوہ حسن بن صالح نے بھی روایت کی ہے اور وہ دونوں ثقہ ہیں.
امام ابوداؤد نے اس روایت پہ سکوت فرمایا ہے. حدیث کے علل مخفیہ کے اتنے بڑے امام جس روایت پہ سکوت فرمائیں وہ قابل حجت ہوتی ہے:
رأيت عليا يضحي بكبشين فقلت له ما هذا فقال إن رسول اللهِ صلى الله عليه وسلم أوصاني أن أضحي عنه فأنا أضحي عنه، عن علي بن أبي طالب، سنن أبي داؤد: 2790، سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
حافظ عسقلانی نے بھی تخریج مشکوة میں اسے حسن کہا ہے:
إنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أوصاني أن أضحِّيَ عنهُ فأنا أضحِّي عنهُ، عن علي بن أبي طالب، تخريج مشكاة المصابيح: 2/129 [حسن كما قال في المقدمة]
مسند احمد میں یہی روایت صحیح سند کے ساتھ آئی ہے:
أمرَني رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أَن أُضحِّيَ عنهُ، فأَنا أضحِّي عنهُ أبدًا. (عن علي بن أبي طالب، أحمد شاكر - مسند أحمد: 2/152، إسناده صحيح)
امام حاکم نے بھی صحیح سند کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ والی روایت نقل فرمائی ہے. حاکم کی تصحیح کے بعد بھی اب کچھ باقی رہ جاتا ہے کیا؟ سیدہ عائشہ، حضرت ابوہریرہ، جابر اور ابو رافع رضی اللہ عنہم اجمعین کی روایت سے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت کی تائید ہوتی ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ضَحَّى اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوأَيْنِ قَالَ فَيَذْبَحُ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ وَيَذْبَحُ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ (مسند أحمد: 25315)
پھر سوچنے کی بات ہے کہ جب میت کی طرف سے حج، صدقہ اور خیرات جیسی عبادات انجام دی جاسکتی ہیں تو قربانی کیوں نہیں؟ حدیث کے لفظ  "امرنی" غور طلب ہی  نہیں، بلکہ اس بابت بمنزلہ نص صریح کے ہے کہ "میت کی طرف سے قربانی جائز ہے۔" عدم جواز کی سوائے تاویلات کے کوئی صریح دلیل نہیں۔ علامہ شمس الحق عظیم آبادی شرح میں لکھتے ہیں: 
قال في غنية الألمعي: قول بعض أهل العلم الذي رخص في الأضحية عن الأموات مطابق للأدلة، وقول من منعها ليس فيه حجة فلا يقبل كلامه إلا بدليل أقوى منه ولا دليل عليه.
والثابت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يضحي عن أمته ممن شهد له بالتوحيد وشهد له بالبلاغ وعن نفسه وأهل بيته، ولا يخفى أن أمته صلى الله عليه وسلم ممن شهد له بالتوحيد وشهد له بالبلاغ كان كثير منهم موجودا زمن النبي صلى الله عليه وسلم ، وكثير منهم توفوا في عهده صلى الله عليه وسلم فالأموات والأحياء كلهم من أمته صلى الله عليه وسلم دخلوا في أضحية النبي صلى الله عليه وسلم. 
والكبش الواحد كما كان للأحياء من أمته كذلك للأموات من أمته صلى الله عليه وسلم بلا تفرقة . 
وهذا الحديث أخرجه الأئمة من حديث جماعات من الصحابة عائشة وجابر وأبي طلحة وأنس وأبي هريرة وأبي رافع وحذيفة عند مسلم والدارمي وأبي داود وابن ماجه وأحمد والحاكم وغيرهم. 
ولم ينقل عن النبي صلى الله عليه وسلم أن الأضحية التي ضحى بهما رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نفسه وأهل بيته وعن أمته الأحياء والأموات تصدق بجميعها أو تصدق بجزء معين بقدر حصة الأموات بل قال أبو رافع " إن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، كان إذا ضحى اشترى كبشين سمينين أقرنين أملحين ، فإذا صلى وخطب الناس ، أتى بأحدهما وهو قائم في مصلاه فذبحه بنفسه بالمدية ثم يقول : اللهم هذا عن أمتي جميعا من شهد لك بالتوحيد وشهد لي بالبلاغ ، ثم يؤتى بالآخر فيذبحه بنفسه ويقول هذا عن محمد وآل محمد فيطعمهما جميعا المساكين ويأكل هو وأهله منهما ، فمكثنا سنين ليس الرجل من بني هاشم يضحي قد كفاه الله المؤنة برسول الله صلى الله عليه وسلم والغرم رواه أحمد وكان دأبه صلى الله عليه وسلم دائما الأكل بنفسه وبأهله من لحوم الأضحية وتصدقها للمساكين وأمر أمته بذلك ولم يحفظ عنه خلافه). 
خلاصہ کلام یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا  اپنی تمام امتی کی طرف سے قربانی کرنا جس میں آپ کی وفات یافتہ متعدد ازواج مطہرات کے علاوہ متعدد صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) بھی تھے۔ اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس عمل کی  وصیت کرنا بتاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امتی کی طرف سے قربانی کرنا کتنا محبوب عمل ہے؟ ۔۔۔۔ اتنی کھلے اور بین ثبوتوں کے بعد اب کسی کا یہ کہنا کہ: "کیا حضور نے کبھی اپنی وفات یافتہ ازواج کی طرف سے قربانی فرمائی ہے؟؟؟" دریدہ دہنی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟؟؟؟ سند حدیث کے تعلق سے جو شبہات کے گرد اڑائے گئے تھے وہ کافور ہوگئے ۔۔۔۔اب ثابت یہ ہوا کہ صاحب استطاعت احباب ہرسال اپنی طرف سے بھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی، اہل بیت رسول  کی طرف سے بھی مستقل جانور یا کم ازکم ساتویں حصے میں شریک ہوکے ضرور قربانی کریں. یہ بہت بڑے اجر وثواب کا باعث ہے۔ یہاں مسئلہ بھی ضرور ملحوظ رہے کہ اگر میت نے اپنی طرف سے قربانی کی وصیت کررکھی ہو اور اس کے لئے ثلث مال چھوڑ گیا ہو تو میت کے ثلث مال سے کی جانے والی قربانی کا مکمل گوشت واجب التصدق ہے۔ اگر وصیت تو کی ہو لیکن مال نہ چھوڑا ہو یا رشتہ دار اپنے نام سے قربانی کرکے صرف ثواب میت کو پہنچانا چاہے تو آخر کی ان دونوں صورتوں میں گوشت خود بھی کھاسکتا ہے. عام گوشتوں کی طرح اس کا حکم ہوگا۔ اس ضمن میں یاد رکھے جانے کے قابل یہ بات بھی ہے کہ اپنے نام سے  قربانی کرکے متعدد اموات کو صرف ثواب  میں شریک کیا جاسکتا یے لیکن میت کی طرف سے ان کے نام سے مستقلاً قربانی کرنا چاہیں تو ایک میت کی طرف  سےایک چھوٹا جانور یا بڑے جانور میں ساتواں حصہ ضروری ہے. چھوٹے جانور یا ساتویں حصے میں قربانی کی نیت سے ایک سے زائد ناموں کی گنجائش نہیں ہے. خواہ ایک فیملی کے متعدد لوگ ہوں یا الگ الگ فیملی کے۔ ادائیِ سنت کے لئے ایک سے زیادہ کی شرکت جائز نہیں ہے. ہاں ثواب میں شرکت کے لئے تعدد کی گنجائش ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی طرف سے کی جانے والی قربانی اسی قبیل سے تھی۔
عَنْ عَائِشَةَ وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ لِمَنْ شَهِدَ لِلَّهِ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ وَذَبَحَ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (سنن إبن ماجة 3122) 
قوله: (موجوءين) تثنية موجوء اسم مفعول من وجأ مهموز اللام وروي بالإثبات للهمزة وقلبها ياء ، ثم قلب الواو ياء وإدغامها فيها كرمي، أي: منزوعتين قد نزع عرق الأنثيين منهما وذلك أسمن لهما (عن محمد وآل محمد) استدل به من يقول الشاة الواحدة تكفي لأهل البيت في أداء السنة ومن لا يقول به يحمل الحديث على الاشتراك في الثواب كيف وقد ضحى عن تمام الأمة بالشاة الواحدة وهي لا تكفي عن أهل البيوت المتعددة بالاتفاق، وفي الزوائد: في إسناده عبدالله بن محمد مختلف فيه. (حاشية السندي على إبن ماجة)
حضرات مالکیہ کا رجحان یہ ہے کہ ایک چھوٹے جانور میں ایک خانوادہ کے متعدد لوگوں کی شرکت ہوسکتی ہے جبکہ مختلف گھرانے کے لوگ ان کے یہاں بھی ایک چھوٹے جانور میں شریک نہیں ہوسکتے۔ ائمہ ثلاثہ کے یہاں کسی طرح سے بھی تعدد جائز نہیں ۔جواز کے قائلین یہ حدیث پیش تو فرمادیتے ہیں! لیکن انہیں اس پہ غور کرنے کی یا تو فرصت نہیں ملتی یا شاید غور وتدبر کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں! کہ حضور نے اپنی تمام کلمہ گو امتی کی طرف سے ایک دنبہ ذبح فرمایا. آیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ساری امت ایک خاندان سے ہیں یا مختلف خاندان سے؟؟؟ مختلف خانوادے کے کے متعدد لوگوں کے لئے ایک بھیڑ تو آپ کے یہاں یہاں بھی جائز نہیں؛ تو پھر یہاں ایسا کیوں ہوا؟؟؟ اصل بات یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ قربانی ایصال ثواب کے لئے تھی نہ کہ ادائی سنت کے لئے! اور ایصال ثواب کے لئے ایک جانور میں متعدد لوگوں کی شرکت ہمارے یہاں بھی جائز ہے جیساکہ اوپر مذکور ہوا. 
واللہ اعلم بالصواب 
مركز البحوث الإسلامية العالمي
پیر 20 ذی قعدہ 1443 ہجری، 20 جون 2022 عیسوی
https://saagartimes.blogspot.com/2022/06/blog-post_21.html (S_A_Sagar#)


Saturday 18 June 2022

میت سے متصل برف کے پانی کا حکم

میت سے متصل برف کے پانی کا حکم

---------------------------------
----------------------------------

دیہاتوں میں گرمی کے موسم کے دوران میت سے متصل برف رکھتے ہیں. اس برف سے پگھلا ہوا پانی اگر کسی کے بدن یا کپڑے میں لگ جائے تو کیا بدن ناپاک ہوجائے گا؟ رہنمائی فرمائیں بڑی مہربانی ہوگی. 

الجواب وباللہ التوفیق:

اگر مردے کے جسم سے پانی مس نہ ہو تو نجس نہیں ہوگا. بدن انسان سے روح کے انفصال یعنی موت کے بعد جسم انسانی ناپاک ہوجاتا ہے. چاہے اس پہ کوئی ظاہری نجاست نہ ہو. تغسیل سے قبل جسم سے مس ہوکے برف کا جو پانی بھی بہے گا وہ بھی ناپاک ہوگا. کپڑے یا بدن پہ لگنے سے اسے پاک کرنا ضروری ہے.

(قوله: والمسلم المغسول) أما قبل غسله فنصوا على أنه يفسد الماء القليل ولا تصح صلاة حامله، وبذلك استدل في المحيط على أن نجاسة الميت نجاسة خبث؛ لأنه حيوان دموي فينجس بالموت كغيره من الحيوانات لا نجاسة حدث وصححه في الكافي، ونسبه في البدائع إلى عامة المشايخ كما في جنائز البحر.أقول: وهذا يؤيد ما حملنا عليه كلام محمد في الأصل من أن غسالة الميت نجسة؛ ويضعف ما مر من تصحيح أنها مستعملة فافهم (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 211)

واللہ اعلم

شکیل منصور القاسمی  (S_A_Sagar#)

https://saagartimes.blogspot.com/2022/06/blog-post_42.html




جی ایس ٹی میں سودی رقم صرف کرنا؟

جی ایس ٹی میں سودی رقم صرف کرنا؟ 

---------------------------------
----------------------------------

جو شخص بھی دوسروں کا مال بلا عوض اس کی مرضی واجازت کے بغیر ناحق لے لے، جیسے چوری، غصب، دھوکہ دہی، رشوت، بینک انٹرسٹ وغیرہ کے ذریعے حاصل شدہ مال، تو اس مال کو اس کے مالک تک جیسے بھی ممکن ہو پہنچانا ضروری ہے، مالک تک پہنچائے بغیر وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ جس نام وعنوان سے بھی ممکن ہو مالک کو پہنچائے. مالک نہ رہے تو اس کے ورثاء کو دے ،یہ بھی ممکن نہ ہو تو اب مال حرام کے وبال سے جان چھڑانے کی نیت سے مستحقین زکات پہ صدقہ کردے۔ امام ابن قیم جوزیہ لکھتے ہیں:

"فَإِنْ كَانَ الْمَقْبُوضُ قَدْ أُخِذَ بِغَيْرِ رِضَى صَاحِبِهِ ، وَلَا اسْتَوْفَى عِوَضَهُ : رَدَّهُ عَلَيْهِ ، فَإِنْ تَعَذَّرَ رَدُّهُ عَلَيْهِ : قَضَى بِهِ دَيْنًا يَعْلَمُهُ عَلَيْهِ ، فَإِنْ تَعَذَّرَ ذَلِكَ : رَدَّهُ إِلَى وَرَثَتِه ِ، فَإِنْ تَعَذَّرَ ذَلِكَ: تَصَدَّقَ بِهِ عَنْهُ. فَإِنِ اخْتَارَ صَاحِبُ الْحَقِّ ثَوَابَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : كَانَ لَهُ ، وَإِنْ أَبَى إِلَّا أَنْ يَأْخُذَ مِنْ حَسَنَاتِ الْقَابِضِ: اسْتَوْفَى مِنْهُ نَظِيرَ مَالِهِ ، وَكَانَ ثَوَابُ الصَّدَقَةِ لِلْمُتَصَدِّقِ بِهَا ، كَمَا ثَبَتَ عَنِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ"انتهى من "زاد المعاد" (5/690).

مال کی ذات میں کوئی قبح نہیں ہوتا ہے۔ مال میں خرابی خارجی چیز کی وجہ سے آتی ہے. سودی بنک میں حصول سود کے لئے ہی رقم رکھنا جائز نہیں ہے۔مال کے تحفظ کی مجبوری سے بینک میں رقم رکھنے کی گنجائش ہے، سیونگ اکاؤنٹ میں بینک کی طرف سے جو کچھ بھی انٹرسٹ ملتا ہے اس رقم کی ذات میں کوئی خرابی نہیں. اگر اسے نہ لیا جائے  اور بینک میں ہی چھوڑ دیا جائے تو سودی ادارے کو سودی کاروبار میں ممد ومعاون بننا اور مفسدین کو فساد میں مدد فراہم کرنا لازم آئے گا؛ اس لئے اخف الضررین کے تحمل کے ساتھ بنک کے اضافے کو لینے کی گنجائش ہے، اسے سود وصولنا نہیں کہا جائے گا۔ یہ اضافی رقم شرعاً مال حرام و خبیث ہے۔ مال حرام کا شرعی مصرف بالترتیب اوپر مذکور ہوچکا، لینے والے شخص کا یا اس کے اہل وعیال کا اس مال سے شخصی انتفاع ناجائز ہے۔ بالترتیب مذکورہ تینوں مصارف میں سے کسی میں اسے صرف کرے۔

حکومت کی جانب سے جو ظالمانہ ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں شرعاً وہ ظلم وجور ہے.

حکومتی بینک یا حکومتی ادارے کے طرف سے وصول کردہ سودی رقم کو ہر قسم کے ظالمانہ وغیر واجبی ٹیکس میں صرف کرنا جائز ہے، اس سے مال حرام کو اس کے مالک تک پہنچادینا پایا جائے گا ۔اور یوں آخذ فارغ الذمہ ہوجائے گا۔ جی ایس ٹی بھی ظالمانہ اور غیرواجبی ٹیکس ہے۔ سرکاری اداروں سے (نہ کہ پرائیویٹ سے) حاصل شدہ سودی رقم کو جی ایس ٹی میں ادا کرنا بھی درست ہے۔ حکومت جی ایس ٹی اصلاً دوکاندار یعنی بائع سے وصولتی ہے، لیکن بائع کو پھر بعد میں ریٹرن فائل کرنے کے بعد اتنی رقم واپس مل جاتی ہے. اگر ریٹرن فائل کرنے کے بعد بائع کو اتنی رقم واپس مل جاتی ہے تو یوں بائع کے حق میں جی ایس ٹی ناروا ٹیکس نہ ہوا، پھر اس کے لئے مال خبیث سے اس کی بھرپائی بھی جائز نہ ہوگی۔ جی ایس ٹی کی اصل مار آخری خریدار یعنی صارف کو پڑتی ہے، اسے حکومت کی طرف سے کوئی ریلیف نہیں ملتا، مہنگائی کی مار اصلاً اسی کو جھیلنا ہوتی ہے، تو جی ایس ٹی درحقیقت اسی کے لئے جابرانہ ٹیکس سمجھا جائے گا اور صرف اسی گاہک و صارف کے لئے یہ گنجائش ہوگی کہ سرکاری اداروں کے سودی رقوم اس میں صرف کرے. لیکن اس میں پھر دو خرابی لازم آتی ہے:

(۱) بائع حکومت کی طرف سے جی ایس ٹی وصولی کا مجاز نہیں ہوتا۔

(۲) گاہک سے جی ایس ٹی کے نام سے وصول کردہ اضافی رقم کی بھرپائی اگر سودی رقم سے کروائی جائے تو گاہک اس کے بدلے خرید کردہ ذاتی وشخصی سامان سے مستفید ہوتا ہے، پھر تو یک گونہ سودی رقم سے انتفاع لازم آتا ہے جو اکل اموال الناس بالباطل کے ذیل میں داخل ہوکر ممنوع قرار پاتا ہے۔ 

دوسری خرابی کے مدنظر جی ایس ٹی کے نام سے وصول کردہ اضافی رقم سامان کی مکمل قیمت قرار دی جانی چاہیے، یہ سمجھا جائے گا کہ اصل واضافی رقم سب من جملہ ثمن ہے، جس میں گاہک سودی رقم نہیں لگا سکتا، نیز بائع و دوکاندار اس اضافی رقم کو خود بھی رکھ سکتا ہے۔ ہاں! کذب بیانی کا وبال علیحدہ رہا، اگر دوکاندار جی ایس ٹی کی رقم کی پرچی کاٹ کر پکا بل بنادے تو اسے حکومتی مجاز قرار دیا جاسکتا ہے اور تب مشتری اس میں سودی رقم لگاسکتا ہے لیکن مال خبیث سے شخصی انتفاع کے شائبہ کی خرابی علی حالہ باقی رہے گی۔ سرکاری بینک یا ادارے کا سود ذاتی استعمال میں لانے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے انکم ٹیکس کے نام سے ناجائز طور پر انسان کی جو حلال رقم لے لی، اس نے دوسرے راستہ سے وہ رقم حکومت سے وصول کرلی، چنانچہ اگر کوئی شخص جی ایس ٹی پہلے جمع کردے اور بعد میں اس کے اکائونٹ میں سودی رقم حاصل ہوئی تو وہ جمع کی ہوئی جی ایس ٹی رقم کے بقدر سودی رقم سے استفادہ کرسکتا ہے؛ کیونکہ مالی معاملات میں "حسابی زر" ومالیت کا اعتبار ہے، بعینہ سودی مال کی ادائی لازم نہیں۔ سودی رقم سے استفادے کی حرمت ذمے سے متعلق تھی، عین مال سے نہیں، ذمہ پہ تفصیل اوپر کی سطروں میں آچکی ہے، الزامات و التزامات کے محل کو ذمہ کہتے ہیں۔ جی ایس ٹی جمع کردینے سے صارفِ بنک وکھاتہ دار بری الذمہ ہوگیا، لہذا اسی مقدار کی سودی رقم سے استفادہ شرعاً جائز ہوگا۔

وذهب الحنفية والمالكية في المشهور وهو رواية عن أحمد، إلى أن النقود لا تتعين بالتعيين في العقد، لأنه يجوز إطلاقها فيه، كالمكيال والصنجة، ولأن الثمن اسم لما في الذمة، فلا يكون محتملا للتعيين بالإشارة.

وهذا عندالحنفية في غير الصرف فتتعين الدراهم والدنانير في الصرف بالتعيين فيه لاشتراط القبض فيه في المجلس. وذكر الحنفية أيضا أنها تتعين في الصرف بعد فساده، وبعد هلاك المبيع، وفي الدين المشترك، فيؤمر القابض منهما بردّ نصف ما قبض على شريكه، وفيما إذا تبين بطلان قضاء الدين، فلو ادعى على آخر مالا، فأخذه ، ثم أقر أنه لم يكن له على خصمه حق، فعلى المدعي رد ما أخذه بعينه ما دام قائما.

ونقل ابن عابدين أن النقود لا تتعين في المهر ولو بعد الطلاق قبل الدخول فترد مثل نصفه، ولا في النذ، والوكالة قبل التسليم ، وأنها تتعين في الأمانات، والهبة، والصدقة، والشركة، والمضاربة، والغصب .وفي العقد الفاسد عند الحنفية روايتان، ورجح بعضهم تفصيلا أن ما فسد من أصله تتعين فيه، لا فيما انتقض بعد صحته.

وأما الفلوس فإنها لا تتعين بالتعيين عند الحنفية إن كانت رائجة لأنها بالاصطلاح صارت أثمانا. (الموسوعة الفقهية الكويتية: 6/129)

فإذا ظفر بمال مدیونه له الأخذ دیانة؛ بل له الأخذ من خلاف الجنس (رد المحتار، کتاب السرقة، مطلب في أخذ الدائن من مال مدیونه من خلاف جنسہ، 6: 157، ط: مکتبة زکریا دیوبند)

اس ضمن میں نوٹ کی شرعی حیثیت کا مختصر تذکرہ بھی مفید معلوم ہوتا ہے:

فرانسیسی زبان کی اصطلاح میں "نوٹ" بینک کے اس کاغذی ٹکڑے یا معدنیاتی سکے کو کہتے ہیں جس کے حامل کو اطلاع کے وقت بینک یا ملکی خزانہ نقد دینے کی ضمانت لیتا ہے: 

 ورقة البنك هى عملة قابلة لدفع قیمتها عیناً لدی الاطلاع لحاملها وهى یتعامل بها کما یتعامل بالعملة  المعدنية  نفسها غیر أنه  ینبغی أن  تکون مضمونة  لیثق الناس بها. (بہجة  المشتاق صفحہ ٤٨.....بحوالہ مفتی سعید احمد صاحب سہارنپوری رحمہ اللہ) 

بنک کا کاغذ (عملہ) وسکہ معدنیہ کا کاغذ ہے. اس کی قیمت نقد اس کے حامل کو اطلاع کے وقت اداکرنے کے قابل ہے. اس کے ساتھ بالکل معدنی سکہ کی طرح معاملہ کیا جاتا ہے لیکن یہ بات ضروری ہے کہ اس کی ضمانت ہونی چاہئے تاکہ لوگ اس سے معاملہ کرنے میں بھروسہ کرسکیں۔" 

اب کرنسی نوٹ سکہ ہے؟ مال متقوم؟ یا سند وحوالہ؟؟ یہ پرانا اختلافی موضوع ہے جس پر علماء کے مختلف نقطہائے نظر ہیں اور ہر فریق کے پاس اپنے موقف پر دلائل بھی ہیں، ہمیں یہاں اس کی فقہی حیثیت پہ بحث نہیں کرنی ہے۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر ملک اپنی آسانی کی خاطر مختلف مالیت کے چھوٹے بڑے نوٹ چھاپتا ہے، ان تمام مختلف مالیت والے نوٹوں کے لئے ایک بنیادی اکائی مقرر ہوتی ہے، جسے  حسابی زر' حسابی نوٹ' اور حسابی اکائی کہتے ہیں' اس حسابی اور بنیادی اکائی کے ذریعہ رقم کی گنتی ہوتی ہے ' چیزوں کی قیمت بتائی جاتی ہے' اسی طرح اشیاء وخدمات کا حساب کیا جاتا ہے،  یہ بنیادی اور حسابی اکائی ایک روپیہ سے لیکر بڑے تمام نوٹوں میں موجود ہوتی ہے' اور نوٹوں کے ذریعہ لین دین میں یہی مالیت اور حسابی اکائی ملحوظ ہوتی ہے، متعینہ کاغذی پیپر یا معدنیاتی سکہ کسی کا مقصود نہیں ہوتا۔ احناف کا مسلک یہ ہے کہ عرض واجناس تو لین دین میں متعین ہوجاتے ہیں؛ لیکن کرنسی نوٹ وسکہ متعین نہیں ہوتے: 

والأصل فیه أن المال نوعان نوع لا یتعین فی العقود کالدراھم والدنانیر و نوع یتعین کالعروض (البحرالرائق، شرح کنزالدقائق، کتاب البیع، فصل فی احکام البیع الفاسد، ج 6 ص 161)

غیرمشروع طریقے سے حاصل کردہ مال کے تئیں اولیں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جہاں سے مال ملا ہے وہیں پہونچادے یعنی اس کے مالک کو لوٹایا جائے، رد الی المالک ہی پہلے نمبر پر واجب ہے، جب کسی بھی وجہ سے مالک تک رسائی ممکن ہو تب دوسرے آپشن کی طرف عدول کیا جائے گا، یعنی تب مال حرام کا تصدق علی الفقراء بلا نیت ثواب علی اصح الاقاویل ضروری ہے اور صدقات واجبہ کی طرح اس میں بھی تملیک  فقراء واجب ہے ۔بینک سے ملنے والے سود کو پہر بینک ہی میں لوٹانے یا چھوڑدینے سے بڑا مفسدہ لازم آئے گا، سودی کاروبار یا اسلام دشمن سرگرمیوں میں تعاون کو مستلزم ہوگا جوکہ حرام ہے اور تعاون علی الحرام بھی حرام ہے۔ لہذا بینک یا دیگر سرکاری اداروں سے موصول سودی رقومات کو کسی بھی نام وعنوان سے سرکاری خزانے میں پہنچانا (خواہ ناروا ٹیکس کی بھرپائی کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو) واجب ہے۔

پہلا اختیار ہوتے ہوئے دوسرے (تصدق علی الفقراء) کی طرف عدول جائز نہیں ہے، بلکہ رد الی المالک ہی واجب ہے. شامی میں ہے: 

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه". (5/99، مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)

’’الدر المختار مع رد المحتار‘‘: "غصب دراهم إنسان من کیسه، ثم ردها فیه بلا علمه برئ، وکذا لو سلمه إلیه بجهة أخری کهبة، أو إیداع، أو شراء، وکذا لو أطعمه فأکله خلافاً للشافعي. زیلعي". الدر (المختار مع رد المحتار 9/267) کتاب الغصب، مطلب في رد المغصوب وفیما لو أبی المالک قبوله)

یجب علیه أن یردہ إن وجد المالك وإلا ففي جمیع الصور یجب علیه أن یتصدق بمثل ملك الأموال علی الفقراء۔ (بذل المجہود، کتاب الطہارۃ / باب فرض الوضوء ۱؍۳۷ سہارنفور، ۱؍۳۵۹ مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي)

الغرض ناروا ٹیکس میں لوٹانا ہی متعین نہیں، سرکاری خزانے میں کسی بھی طرح مال خبیث کو لوٹانا واجب ہے، اختیاری نہیں! ناروا ٹیکس کی بھرپائی اسی کی ایک شکل ہے، اس پہ منحصر نہیں، یہ آپشن کسی باعث ممکن نہ رہے تب تصدق علی الفقراء یا بعض علماء کے خیال کے مطابق وجوہ خیر میں صرف کرنا واجب ہوگا۔

واللہ اعلم

شکیل منصور القاسمی

 (S_A_Sagar#) https://saagartimes.blogspot.com/2022/06/blog-post_18.html



Monday 13 June 2022

اللہ تعالی کے نناوے اسماء حسنی ایک ساتھ کسی حدیث میں ہیں یا نہیں؟

اللہ تعالی کے نناوے اسماء حسنی ایک ساتھ کسی حدیث میں ہیں یا نہیں؟
سوال: ایک حدیث مبارک ہےجس کا مفہوم غالبا
یہ ہے کہ اللہ تعالی کےنناوے نام ہیں، جس نے ان کو یاد کرلیا اس کی بخشش کردی جائےگی۔ کیا اس حدیث میں اللہ تعالی کے وہ نناوے نام دئیے گئے ہیں جو اس حدیث کا مصداق ہیں یا کسی اور حدیث میں ان نناوے ناموں کا تذکرہ ہے؟ یہ نناوے نام کس جگہ مل سکتے ہیں؟ مختلف فہرستوں میں تھوڑابہت فرق پایا جاتا ہے۔ براہ کرم وضاحت فرمادیں وہ نناوے نام جو اس حدیث مبارکہ کے مصداق ہیں وہ کون سے ہیں؟
جواب: احادیث صحیحہ میں صرف اتنا مذکور ہے کہ: "اللہ تعالی کے نناوے نام جس کسی نے یاد کرلئے وہ جنت میں داخل ہوگا." البتہ بعض کمزور اسانید والی احادیث میں مندرجہ بالا مفہوم کے بعداللہ تعالی کے نناوے نا موں کاتذکرہ بھی ملتا ہے، لیکن یہ نناوے نام بعض احادیث میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اور بعض میں کافی زیادہ فرق (جیساکہ ترمذی اور الجامع للسیوطی کی روایات میں ہے) کے ساتھ مذکور ہیں ،اس لئے بعض محدٕثین نےکاخیال یہ ہےکہ ترمذی اور دیگرکتب کی روایت میں مذکوراللہ تعالی کے اسماء حسنی یہ حدیث کا جزء نہیں، بلکہ یہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بلاواسطہ یابالواسطہ کسی شاگرد نےحدیث کےاجمال کی تفصیل اورابہام کی تفسیر کے طور پر قرآن وحدیث میں مذکورہ اسماء حسنی جمع کرکے ذکر کردئیے ہیں، جس کو محدثین کی اصطلاح میں مدرج سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں اس حدیث سے اللہ تعالی کے ناموں کا حصر کرنا مقصود نہیں، صرف یہ بتانا ہے جس نے بھی اللہ تعالی کے نناوے ناموں کو یاد کرلیا تو وہ جنت میں جائے گا۔ اس تفصیل کی روشنی میں بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وحدیث میں مذکور کوئی سے بھی نناوے نام اللہ تعالی کے یاد کرنے والا اور اس کے تقاضے پر عمل کرنے والا اس حدیث کی بشارت کا مستحق ہوگا۔
اس کی مزید تفصیل معارف الحدیث حصہ پنجم، کتاب الاذکاروالدعوات میں دیکھی جاسکتی ہے۔
حوالہ جات:
"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن لله تسعة وتسعين اسما مائة إلا واحدة من أحصاها دخل الجنة إنه وتر يحب الوتر هو الله الذي لا إله إلا هو الرحمن الرحيم الملك القدوس السلام المؤمن المهيمن العزيز الجبار المتكبر الخالق الباريء المصور الغفار القهار الوهاب الرزاق الفتاح العليم القابض الباسط الخافض الرافع المعز المذل السميع البصير الحكم العدل اللطيف الخبير الحليم العظيم الغفور الشكور العلي الكبير الحفيظ المغيث وقال صفوان في حديثه المقيت وإليه ذهب أبو بكر محمد بن إسحاق في مختصر الصحيح الحسيب الجليل الكريم الرقيب المجيب الواسع الحكيم الودود المجيد الباعث الشهيد الحق الوكيل القوي المتين الولي الحميد المحصي المبدي المعيد المحيي المميت الحي القيوم الواجد الماجد الواحد الصمد القادر المقتدر المقدم المؤخر الأول الآخر الظاهر الباطن الوالي المتعالي البر التواب المنتقم العفو الرؤوف مالك الملك ذو الجلال والاكرام المقسط الجامع الغني المغني المانع الضار النافع النور الهادي البديع الباقي الوارث الرشيد الصبور، هذا حديث قد خرجاه في الصحيحين بأسانيد صحيحة دون ذكر الأسامي فيه والعلة فيه عندهما أن الوليد بن مسلم تفرد بسياقته بطوله وذكر الأسامي فيه ولم يذكرها غيره، وليس هذا بعلة فإني لا أعلم اختلافا بين أئمة الحديث أن الوليد بن مسلم أوثق وأحفظ وأعلم وأجل من أبي اليمان وبشر بن شعيب وعلي بن عياش وأقرانهم من أصحاب شعيب ثم نظرنا فوجدنا الحديث قد رواه عبدالعزيز بن الحصين عن أيوب السختياني وهشام بن حسان جميعا عن محمد بن سيرين عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم بطوله"
سنن الترمذي لمحمد الترمذي (ج 5 / ص 530):
"عن أبي هريرة قال :قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :إن لله تعالى تسعة وتسعين اسما من أحصاها دخل الجنة هو الله الذي لا إله إلا هو الرحمن الرحيم الملك القدوس السلام المؤمن المهيمن العزيز الجبار المتكبر الخالق البارئ المصور الغفار القهار الوهاب الرزاق الفتاح العليم القابض الباسط الخافض الرافع المعز المذل السميع البصير الحكم العدل اللطيف الخبير الحليم العظيم الغفور الشكور العلي الكبير الحفيظ المقيت الحسيب الجليل الكريم الرقيب المجيب الواسع الحكيم الودود المجيد الباعث الشهيد الحق الوكيل القوي المتين الولي الحميد المحصي المبدئ المعيد المحيي المميت الحي القيوم الواجد الماجد الواحد الصمد القادر المقتدر المقدم المؤخر الأول الآخر الظاهر الباطن الوالي المتعالي البر التواب المنتقم العفو الرؤوف مالك الملك ذو الجلال والإكرام المقسط الجامع الغني المغني المانع الضار النافع النور الهادي البديع الباقي الوارث الرشيد الصبور"
قال أبو عيسى :هذا حديث غريب
جمع الجوامع أو الجامع الكبير للسيوطي (ج 1 / ص 7802):
"إن لله تسعا وتسعين اسما من أحصاها كلها دخل الجنة أسأل الله الرحمن الرحيم الإله الرب الملك القدوس السلام المؤمن المهيمن العزيز الجبار المتكبر الخالق البارئ المصور الحكيم العليم السميع البصير الحى القيوم الواسع اللطيف الخبير الحنان المنان البديع الودود الغفور الشكور المجيد المبدئ المعيد النور البارئ الأول الآخر الظاهر الباطن العفو الغفور الوهاب الفرد الأحد الصمد الوكيل الكافى الباقى الحميد المقيت الدائم المتعالى ذو الجلال والإكرام الولى النصير الحق المبين المنيب الباعث المجيب المحيى المميت الجميل الصادق الحفيظ المحيط الكبير الرقيب القريب الفتاح التواب القديم الوتر الفاطر الرزاق العلام العلى العظيم الغنى المليك المقتدر الأكرم الرءوف المدبر المالك القاهر الهادى الشاكر الكريم الرفيع الشهيد الواحد ذو الطول ذو المعارج ذوالفضل الخلاق الكفيل الجليل (ابن مردويه، وأبو الشيخ فى التفسير، وأبو نعيم فى الأسماءوالحاكم عن أبى هريرة)"
فتح الباري لابن حجر (ج 5 / ص 371):
"قد اختلف في هذا العدد هل المراد به حصر الاسماءالحسنى في هذه العدة أو انها أكثر من ذلك؟ولكن اختصت هذه بأن من أحصاها دخل الجنة فذهب الجمهور إلى الثاني ونقل النووي اتفاق العلماء عليه فقال :ليس في الحديث حصر أسماء الله تعالى، وليس معناه انه ليس له اسم غير هذه التسعة والتسعين، وانما مقصود الحديث ان هذه الاسماء من أحصاها دخل الجنة فالمراد الاخبار عن دخول الجنة باحصائها لا الاخبار بحصر الاسماء."
مجيب
محمد اویس صاحب
مفتیان
مفتی آفتاب احمد صاحب
مفتی محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ: دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :56568
تاریخ اجراء :2017-01-09 (صححہ: #S_A_Sagar)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/06/blog-post_43.html

رسالتِ محمدی کا مقام و مرتبہ اور توہین رسالت کے محرکات واسباب

رسالتِ محمدی کا مقام و مرتبہ اور توہین رسالت کے محرکات واسباب 
----------------------------------
-----------------------------------
ظلمت و تاریکی کا دشمن روشنی ہوتی ہے 
ظلم وجبر کو عدل وانصاف کب برداشت ہوتا ہے؟
نجاست و گندگی کا تعفن طہارت و پاکیزگی کی بوے جاں نواز کو پابند سلاسل دیکھنا چاہتا ہے 
غارحراء سے پھوٹنے اور پھوٹ کر پوری دنیا پہ چھا جانے والے  سراج منیر "اسلام" کی روحانی اور غیبی طاقت سے تمام طاغوتی طاقتیں خوفزدہ ہوگئیں، اس چراغ کو گل کردینے کی سازشیں ہونے لگیں، اس کی روز افزوں مقبولیت اور ترقی سے خوف کھاکر اس کے خلاف سازشی تانے بانے بنے جانے لگے، دین اسلام کی شبانہ روز کی ترقی دشمنان اسلام کو کبھی ہضم نہ ہوئی ،اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف، اوچھے ہتھکنڈوں، نازیبا اتہامات و الزامات اور اہانت آمیز ریمارکس کے ذریعے اس کی صاف ستھڑی شبیہ خراب کرنے کی نت نئی کوششیں شروع دن سے جاری وساری ہیں: 
قَدْ بَدَتِ ٱلْبَغْضَآءُ مِنْ أَفْوَٰهِهِمْ وَمَا تُخْفِى صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ (آل عمران - 118)
ان کے منہ سے عداوت ظاہر ہوچکی ہے اور جو کچھ ان کے دلوں میں پوشیدہ ہے وہ تو بہت ہی بڑھ کر ہے۔) 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر ومجنون وغیرہ جیسی ہفوات سے تمسخر اڑانا، ٹھٹھہ اور تنقیص وتوہین شان کرنا اسی قلبی بغض وحسد کا مظہر ہے جو شروع دن سے اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف چلا آرہا ہے : 
﴿وَإِذَا رَأَوْكَ إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَٰذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ رَسُولًا﴾ (الفرقان: 41)
اور (اے نبی !) یہ جب آپ کو دیکھتے ہیں تو ایسے تمسخر ہی کرتے ہیں کہ کیا یہ وہی ہے کہ جس کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے۔]
اسلام اور پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخیاں کرنا ابتداے اسلام سے ہی اسلام دشمن عناصر کا وطیرہ رہا ہے؛ بلکہ پیش رو انبیاء کے ساتھ بھی یہ جاہلانہ سلوک روا رکھا گیا:
وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (الأنبياء - 41)
اور تم سے پہلے بھی (بہت) سے رسولوں کی ہنسی اڑائی۔ پھر ہنسی اڑانے والوں پر (وہی) بلا آپڑی کہ جس کی وہ ہنسی اڑایا کرتے تھے۔)
﴿وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ﴾ (الرعد: 32)
اور البتہ آپ سے پہلے بھی رسولوں کے ساتھ ہنسی کی گئی ہے۔ پھر ہم نے منکروں کو مہلت دی۔ پھر ان کو پکڑ لیا پھر دیکھو ہمارا کیسا عذاب تھا۔]
اسلام اور مسلَّماتِ اسلام کے خلاف  ہرزہ سرائی اور بد گوئی گرچہ جرم عظیم اور بعض شرطوں کے ساتھ موجب گردن زدنی ہے، ایسا ہذیان گو اپنے عبرتناک انجام بد کو ضرور پہنچتا ہے؛ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اس شرانگیزی کے جلو میں بعض مثبت اور خیر کے پہلو بھی نہاں ہوتے ہیں. دین ومذہب سے دور اور کوتاہ عمل بعض مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی اسی موقع سے جاگ اٹھتی ہے اور اس کے دل میں رگ ایمانی پہرک اٹھتی ہے، وہ گستاخانہ حرکتوں کے رد عمل میں محبت رسول سے سرشار ہوجاتا اور دین اور اس کے احکام کے دفاع پہ تن من لٹا بیٹھتا ہے۔
ذرا یاد کیجئے! ابوجہل نے ناموس رسالت میں گستاخی کی تھی اور نازیبا کلمات کہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس وقت تک کافر تھے. شکار سے لوٹ کر گھر پہنچے تو باندیوں کے ذریعے اطلاع ملی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے محمد کے ساتھ  گستاخانہ اور تکلیف دہ سلوک کیا ہے۔ یہ سنتے ہی جوشِ غضب میں آپے سے باہر ہوگئے، کمان ہاتھ میں پکڑے حرم ِکعبہ میں جاپہنچے، اور ابوجہل وہاں مجلس جماے بیٹھا تھا، اس کے سر پر اس زور سے ضرب لگائی کہ اس کا سر پھٹ گیا اور خون نکلنے لگا، پھر فرمایا: میرا دین وہی ہے جو میرے بھتیجے کا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللّٰہ کے رسول ہیں، اگر تم سچے ہو تو مجھے مسلمان ہونے سے روک کر دکھاؤ۔ (معجمِ کبیر، ج 3 ، ص 140، حدیث: 2926) 
ان أبا جهل نال من رسول الله صلى الله عليه وسلم وآذاه وشتمه، وكان حمزة في قنص له، فأقبل متوحشا فرجع إلى بيته، قالت له مولاته: يا أبا عمارة، لو رأيت ما لقي ابن أخيك آنفا من أبي الحكم بن هشام، فاحتمل حمزة الغضب لما أراد الله به من كرامته، فخرج سريعا، حتى إذا قام على رأسه رفع قوسه، فضرب بها أبا جهل ضربة شجه شجة منكرة وقال: أتشتمه وأنا على دينه، أقول ما يقول، فرد علي إن استطعت. (مختصر تلخيص الذهبي للمستدرك ج 4/ ص1740) وأبونعيم الأصبهاني في حلية الأولياء (ج 2/ ص 673) وابن هشام في السيرة ت السقا (ج1/ص291) والطبري في التاريخ (ج 2/ ص 333)
گھر لوٹے تو شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ تمہارا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا ہے کیا تم اپنا دین بدل دوگے؟ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی پوری رات بے چینی اور اضطراب میں گزری، صبح ہوتے ہی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اوراس پریشانی کا حل چاہا تو رحمت ِعالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کی طرف توجہ فرمائی اور اسلام کی حقانیت اور صداقت ارشاد فرمائی، کچھ ہی دیر بعد آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے دل کی دنیا جگمگ جگمگ کرنے لگی اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں (مستدرک، ج 4، ص 196، حدیث: 4930)
اگر ابوجہل یہ شرانگیزی نہ کرتا تو حضرت حمزہ کی غیرت وحمیت نہ جاگتی اور وہ باوجود کافر ہونے کے اپنے بھتیجے کے دفاع ونصرت پہ یوں کمر بستہ نہ ہوتے! اسی گستاخی نے انہیں اسلام اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا اور جانباز ووفاشعار سپاہی بنایا۔ دنیا میں تغیر پذیر بعض واقعات وحوادث گوکہ اپنے ظاہر کے لحاظ سے کتنے ہی دل خراش واشتعال انگیز کیوں نہ ہوں ؛پَر ان میں بعض خیر کے مثبت پہلو بھی موجود ہوتے ہیں جو مآل کار کے اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں ہی جاتے ہیں. ابوجہل کی شر انگیزی کے باعث سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بصیرت نور حق سے منور ہوئی یہاں تک کہ وہ اسلام کے بہترین لوگوں میں سے ایک بن گئے ، انہیں "اسد اللہ" (شیر خدا) کا لقب ملا، مسلمانوں میں سب سے زیادہ غیرت رکھنے والے  اور دین کے دشمنوں کے مقابلے میں ان میں سب سے زیادہ مضبوط اعصاب کے مالک تھے ۔ اور  عظیم ترین دین کے دفاع پہ اپنا  تن من سب کچھ وارتے ہوئے حرمت دین اور اس کے تقدس کے تحفظ میں شہید ہوگئے. "محمد عربی" (صلی اللہ علیہ وسلم) روئے زمین کی تمام ارواح میں سب سے پاکیزہ ومقدس شخصیت کا نام ہے، "محمّد" (صلی اللہ علیہ وسلم) رب کائنات کا انتخاب ہیں، محمد عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تربیت خود رب ذو الجلال نے براہ راست کی ہے، سب سے با اخلاق، سب سے راست گو، سب سے پاک باز وپاک طینت، دوشیزہ سے زیادہ باحیاء، سب سے کشادہ دست و کشادہ قلب ، نفس ونسب میں سب سے اشرف، اعلی وبالا، دشمنِ جان بھی جن کے صدق وامانت کی گواہی دیں، سخی پیشہ، شائستہ خلق، پاکیزہ طبعیت، منبعِ خیر ومنتہاے  جود وسخاء، محسن انسانیت، غلاموں، بے سہارا وبے آسرا کا ملجا وماوی، جبر واستبداد، ظلم وتعدی اور لوٹ کھسوٹ کے سخت خلاف، رعایا کے حقوق کا ضامن و محافظ، صبر وضبط، عفو ودرگزر اور حلم وبردباری کے پیکر مجسم، مالک ومملوک، جوان، بوڑھے، بچے، مرد وعورت، امیر وغریب، اجنبی و شناسا، قریب وبعید، اپنے وپرائے، سب کے محبوب وچہیتے، اپنے محاسن و محامد اور کرم گستری کے باعث سب کے دلوں پہ راج کرنے والے دنیا کے اکلوتے "دلوں کا حکمراں". وحی الہی، عنایت ربانی ہمہ وقت ہو جن کی نگہباں، جبرئیل ہوں جن کے رہبر ورہنما، اور توفیق الہی ہو جن کے شانہ بہ شانہ! اس ذات کے بلندیِ مرتبہ کا کیا ہے کوئی  ٹھکانہ؟ 
بدر منیر سا چمکتا چہرہ، ہونٹوں پہ مسکراہٹ، نرم گفتار، نرم گداز وشیریں سخن، پیشانی پہ نور، دل خلق خدا کی محبت سے معمور،  
ہاتھ میں فتح مبین اور انقلاب واصلاح کی ایسی کنجی کہ:
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا
سوچئے تو سہی! کوئی حد ہے ان کے عروج وکمال کی؟ 
تلوار کی چھائوں اور تیر وتفنگ کی بوچھار کے لمحات میں بھی صدق وصفاء ، رب کے حضور طاعت و انقیاد کا درس انسانیت کو دیتے رہے۔
وہ رب کے ایسے دلارے ہیں، جو ہر قسم کے زیغ وضلال اور انحراف سے یکسر پاک، ان کا کلام "قانون شریعت"، ان کافرمان "دین متین" اور ان کی سنت "وحی ربانی" ہے. ایسے بدرمنیر اور اکمل و اطہر پہ ہرزہ سرائی کرنا سورج پہ تھوکنے کی حماقت کرنے کے مرادف ہے، اس نبی مختار کی عزت وحرمت اور اس کے لائے ہوئے دین وکتاب کی نصرت و حمایت  تاقیامت زندہ و جاوید رکھنے کی ذمہ داری رب کائنات کے ذمے ہے، بد زبانوں کی  بدگوئی اور گستاخوں کی گستاخی سے ناموس رسالت کو کوئی خطرہ ہے نہ اس کی عزت وشان میں سر مو فرق آنا ممکن ہے، ابوجہل وابولہب، کعب بن اشرف، ابورافع اور اس کے حواری موالی سب اپنے عبرتناک انجام بد کو پہنچے ہیں اور پہنچتے رہیں گے. ان شآء اللہ! ایسا ممکن نہیں کہ ناموس رسالت میں بے ادبی کا مرتکب خداوند کریم کی پکڑ سے بچ جائے:
فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (الأنبياء - 41)
اور تم سے پہلے بھی (بہت) سے رسولوں کی ہنسی اڑائی۔ پھر ہنسی اڑانے والوں پر (وہی) بلا آپڑی کہ جس کی وہ ہنسی اڑایا کرتے تھے)
توہین رسالت کے منصوبہ بند طاغوتی کوششوں کے موقع سے در اصل ہم مسلمانوں کے دین و ایمان کے بقاء کا خطرہ ہے، ہمارے ایمان اور حب رسول کی آزمائش ہے کہ آیا ہم جماعتی، ادارتی، مسلکی، قومی، وطنی اور لسانی خولوں میں بٹ کر خاموش تماشائی بن کر دین و ایمان کا سودا کربیٹھتے ہیں یا ان تمام خولوں  سے باہر نکل محض کلمے کی بنیاد پر متحد ہوں اور  اس طوفان بلاخیز کے سامنے سینہ سپر ہوکر اس موج بلا کو پیچھے دھکیل دیں:
غبار آلودۂ رنگ و نَسب ہیں بال و پر تیرے
تُو اے مُرغِ حرم! اُڑنے سے پہلے پَرفشاں ہو جا
لعنت ہو ایسی زندگی پر 
اس کے شب وروز پر 
کہ ناموس رسالت پہ حملے ہورہے ہوں 
سر مجلس حرمت رسول کا استہزاء کیا جارہا ہو اور ہم مصلحت اندیشی کی چادر تانے سو رہے ہوں 
اگر ہم رسول بر حق کے دفاع کرنے سے عاجز ہوجائیں تو ہمارے لئے زمین کا اندرونی حصہ ظاہری حصہ سے زیادہ بہتر ہے 
ضرورت ہے کہ فسطائی قوتوں کی اس شر انگیزی میں تمام مسلم تنظیموں، جماعتوں، اداروں، دوراندیش قائدین، اورعاقبت اندیش مذہبی رہنما اپنے مسلکی، نظریاتی اور طریقہ کار میں اختلافات کے باوجود متحد ہوں، ملکی آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کے خلاف متحدہ آواز بلند کریں، گستاخوں کو گرفتار کر قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کریں ، دنیا کی مختلف زبانوں میں مضامین لکھے جائیں، مسلمانان عالم اور ان کے قائدین کی توجہ ادھر مبذول کرائی جائیں، عالمی پیمانے پہ مذہبی شخصیات کے احترام وتکریم کو لازمی بنانے کے لئے مؤثر قانون سازی کا پرزور مطالبہ کیا جائے۔
+5978836887
https://saagartimes.blogspot.com/2022/06/blog-post_13.html> #S_A_Sagar>