Monday, 23 July 2018

عدم ثبوت حرمت مصاہرت

عدم ثبوت حرمت مصاہرت
سوال: حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لئےـ مشتہاۃ عورت کو شہوت سے ہاتھ لگانا ہے. لیکن اگر انزال ہوگیا تو ثابت نہین هوگی. ایسا کیوں؟ جبکہ ہاتھ لگایا تھا تو حرمت ثابت ہوگئی تھی. اسی دوران انزال ہوگیا تو حرمت ختم. ایسا کیوں؟؟ اسکی وجہ بتائے.
الجواب بعون الملک الوھاب:
عورت کو شہوت کے ساتھ چھونے سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے لیکن اگر انزال بھی ہوجائے تو حرمت ثابت نہیں ہوتی۔۔
لمافی الھندیۃ (۲۷۵/۱): ووجود الشهوة من أحدهما يكفي وشرطه أن لا ينزل حتى لو أنزل عند المس أو النظر لم تثبت به حرمة المصاهرة كذا في التبيين قال الصدر الشهيد وعليه الفتوى كذا في الشمني شرح النقاية ولو مس فأنزل لم تثبت به حرمة المصاهرة في الصحيح لأنه تبين بالإنزال أنه غير داع إلى الوطء كذا في الكافي۔
وفی الدر المختار (۳۳/۳): هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به یفتى۔
وفی الرد تحتہ: قوله ( فلا حرمة ) لأنه بالإنزال تبين أنه غير مفض إلى الوطء هداية ۔

◀مس(چھونے) اور نظر (دیکھنے) سے حرمت مصاہرت کا ثبوت احادیث سے بھی ہوتا ہے ذیل میں چند احادیث ذکر کی جارہی ہیں:
۱) عن ابی ھانی قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’من نظر الی فرج امرأۃ لم تحل لہ أمھا ولا ابنتھا“ (المصنف لا بن ابی شیبۃ، ۹۹/۹)
علامہ ظفر احمد عثمانی نے اس حدیث کے راویوں کی تعدیل نقل کرکے اس حدیث کو قابل حجت قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے ” فالسند حسن إلا أنہ مرسل وھو حجۃ عندنا وعند الجمھور من السلف“(اعلاء السنن، ۱۱/۳۳، ط: ادارۃ القرآن)
۲) عن علقمۃ عن عبداللہ ؓ قال:’’ لا ینظر اللہ إلی رجل نظر الی فرج امرأۃ وابنتھا“
۳) عن مکحول أن عمر ؓ جرد جاریۃ لہ ونظر الیھا فسالہ إیاھا بعض ولدہ فقال: انھا لا تحل لک۔
۴) عن الحکم قال: قال مسروق حین حضرتہ الوفاۃ انی لم اصب من جاریتی ھذہ الا مایحرمھا ولدی اللمس والنظر۔
۵) عن ابن عمر رضی الله عنھماقال ایما رجل جرد جاریۃ فنظر منھا إلی ذلک ألا فانھا لا تحل لابنہ۔
۶)
سئل جابر بن زيد , عن جارية كانت لرجل فمس قبلها بيده ، أو أبصر عورتها ثم وهبها لابن له أيصلح له أن يتطئها قال : لا.(المصنف لابن ابی شیبۃ ۹۵/۹)
۷) عن ابراھیم قال إذا قبل الرجل المرأۃ من شھوۃ او مس أو نظر إلی فرجھا لا تحل لأبیہ ولابنہ۔ (المصنف لابن عبدالرزاق ۲۸۲/۶)
۸) عن ابن عمررضی الله عنھما أنہ قال: اذا جامع المرأۃ أو قبلھا أو لمسھا بشھوۃ أو نظر إلی فرجھا بشھوۃ حرمت علی ابیہ وابنہ وحرمت علیہ امھا وابنتھا“۔ (بحوالہ البنایہ ۶۶/۴)
۹) قالﷺ: ”ملعون من نظر إلی فرج امرأۃ وابنتھا“۔ (تبیین الحقائق، ۴۶۹/۲)
اسکے علاوہ بھی دیگر بہت سے آثار اور روایات سے حرمت مصاہرت کا ثبوت ہوتا ہے جن روایات میں ”من نظر إلی فرج امرأۃ الخ“ جیسے الفاظ ہیں یعنی صرف دیکھنے سے مصاہرت کے ثبوت کا حکم ذکر ہے ان سے دخول اور لمس سےمصاہرت کے ثبوت پر استدلال اس طرح کیا گیا ہے کہ جب نظر سے حرمت کا ثبوت ہورہا ہے تو لمس اور دخول تو درجہ میں نظر سے زیادہ ہیں لہٰذا ان سے مصاہرت کا ثبوت بدرجہ اولی ہوگا چنانچہ صاحب البدائع نظر کی احادیث نقل کرنے کے بعد تحریرفرماتے ہیں:
"فاذا ثبتت الحرمۃ بالنظر فبا لدخول أولی وکذا باللمس، لأن النظر دون اللمس فی تعلق الأحکام بھا"
صحابہ کرام میں سےحضرت عمر، ابن عمر، ابن مسعود، ابن عباس، عمران بن حصین، جابر بن عبداللہ، ابی بن کعب، حضرت عائشہ صدیقہ کا یہی مسلک ہے کہ شہوت کے ساتھ چھونے وغیرہ سے مصاہرت کا ثبوت ہوجاتا ہے۔
جمہور تابعین مثلا حسن بصری، شعبی، ابراہیم نخعی، محمد شہاب زہری، طائوس، مجاہد، سعید بن المسیب، سلیمان بن یسار، حماد، سفیان ثوری، اسحق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ 
ائمہ اربعہ میں سے امام ابو حنیفہ، امام مالک، اور ایک روایت کے مطابق امام شافعی و احمد کے نزدیک بھی شہوت کے ساتھ چھونے سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے۔
امام شافعی اور امام احمد کے راجح قول کے مطابق شہوت کے ساتھ چھونے سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ہے۔
علامہ ظفر احمد عثمانی لمس اور نظر وغیرہ سے حرمت مصاہرت کے اثبات پر دلائل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
فقول اصحابنا الحنفیۃ قوی روایۃ ودرایۃ‘‘ (اعلاء السنن ۲۳/۱۱)
ماخوذ از نجم الفتاوی 
نقلہ العبد محمد اسلامپوری

..........
صرف شہوت سے ظاہری اعضاء کو دیکھنے سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، نیز اگر شہوت کے ساتھ چھونا یاد نہیں تو محض شک سے  حرمت ثابت نہیں ہوگی، اس لیے آپ اپنی چچازاد بہن سے نکاح کرسکتے ہیں۔ البتہ یاد رہے کہ جس طرح شہوت کے ساتھ چھونا حرام ہے اسی طرح شہوت کے ساتھ دیکھنا بھی حرام اور گناہ کبیرہ ہے، اس فعل پر توبہ استغفار کرنا چاہیے۔ مجمع الانھر میں ہے:

''كذا يوجبها المس ولو بحائل ووجد حرارة الممسوس سواء كان عمدا أو سهوا أو خطأ أو كرها….و كذا يوجبها نظره إلىفرجها الداخلوهو المدور وعليه الفتوى كما في أكثر المعتبرات''۔[1/482] فقط واللہ اعلم
..........
ازدواجی تعلق قائم ہوجانے کی بنا پر جو رشتے حرام ہوجاتے ہیں اس کو حرمت مصاہرت کہتے ہیں اس کا تحقق جائز اور ناجائز دونوں طریقے پر ہوجاتا ہے جائز طریقہ تو یہ ہے کہ کوئی شخص کسی عورت سے نکاح صحیح کرلے تو اس نکاح کی وجہ سے منکوحہ عورت کی ماں اور نانی وغیرہ اوپر تک یہ عورتیں اس شخص پر حرام ہوجاتی ہیں اور اگر نکاح کے بعد منکوحہ سے وطی کرلے تو منکوحہ کی لڑکی (ربیبہ) بھی اس پر حرام ہوجاتی ہے۔ ناجائز طریقے پر حرمت مصاہرت کے ثبوت کی صورت یہ ہے کہ مثلاً کوئی کسی عورت سے زنا کرلے تو زانی اور مزنیہ دونوں کے اصول و فروع ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں، ثبوت حرمت مصاہرت کی کڑی شرطیں ہیں جو فقہ و فتاوی کی کتابوں میں مفصل مذکور ہیں، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
.............
حرمت مصاہرت کا مسئلہ
سوال: اگر کوئی لڑکا اپنی ماں کو غلط نظروں سے دیکھتا ہے یا ہاتھ لگاتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے اور کوئی سسر اپنی بہو کو غلط نظروں سے دیکھتا ہے یا ہاتھ لگاتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟
الجواب باسم ملھم الصواب
مرد کے لیے اس کی ماں اور بہو دونوں محارم عورتوں میں سے ہیں جو قرابت نسب اور قرابت سبب(رشتہ داری)کی وجہ سے ابدی طور پر حرام ہیں چنانچہ یہ دونوں نکاح کی راہ سے ہمیشہ کے لیے حرام ہیں اور ان سے وطی اور وہ امور جو وطی کے لوازم ہیں، جیسے: غلط نظر ڈالنا،ہاتھ لگانا ہیں وہ بھی ان عورتوں سے ہمیشہ کے لیے حرام ہیں۔
واضح رہےکہ جس طرح محارم سے بوجہ وطی کے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح شہوت سے ہاتھ لگانے سے بھی ثابت ہوجاتی ہےلیکن فرج کے علاوہ اور اعضائے جسم کو صرف شہوت کے ساتھ دیکھنے سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی بلکہ شھوت سے مس کرنے سے ہوتی ہے، البتہ مس سے حرمت مصاہرت ثابت ہونے کے لیے بھی چند شرائط ہیں اگر وہ پوری ہوں گی تو حرمت ثابت ہوں گی اگر ان میں سے ایک بھی کم ہو گی تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی:
۱۔ عورت نے شہوت سے مس کیا ہو تو لڑکا کم از کم بالغ یا مراہق ضرور ہویعنی لڑکا بارہ سال یا اس سے زیادہ کا ہو اور مرد نے شہوت سے مس کیا ہے تو لڑکی بالغہ یا کم ازکم مشتھاۃیعنی نو سال یا اس سے زیادہ کی ہو، لڑکا یا لڑکی کی عمر اس سے کم ہو تو حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی اگرچہ مس کرنے والا عاقل بالغ ہو۔
۲۔ مس بغیرحائل کے ہو، یعنی کپڑے کے ساتھ پکڑنے اورہاتھ لگانے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ ہاں! اگر کپڑے اتنے باریک ہوں کہ حرارت محسوس ہوتو حرمت ثابت ہوگی۔
۳۔ شھوت کے ساتھ مس کیا ہو،اگر مس کرنے والا تندرست ہو تواگرمس سے پہلے شھوت نہ ہومس کے وقت ہوئی تو آلے میں حرکت ہی شھوت سمجھی جائے گی شدت ضروری نہیں، اگر مس سے پہلے حرکت تھی تو مس کے وقت اس میں انتشار ضروری ہے اگرخوف وحیا کی وجہ سے شھوت ہی ختم ہوجائے
تو حرمت ثابت نہیں ہوگی، اسی طرح اگر آلے میں، مس سے پہلے حرکت اور انتشار دونوں موجود تھی تو مس کے وقت شدت ضروری ہوگی خلاصہ یہ ہے کہ مس کے وقت کی حالت ، مس سے پہلے کی حالت سے زیادہ ہونی ضروری ہے ورنہ حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
اگر مس کرنے والا تندرست نہ ہو تو اس کی شہوت، دل کی دھڑکن تیز ہونےاور طبیعت میں اضطراب ہونے سے ہوگی صرف میلان سے شہوت متحقق نہیں ہوگی واضح رہے مذکورہ شہوت مس کے ساتھ ہو، اگر شہوت مس سے پہلے ہو اس وقت نہ ہو یا بعد میں ہوگئی ہو لیکن مس کے وقت نہ ہو تو حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔
امداد الاحکام میں ہے:
“اور شرطِ حرمت شھوت عند المس و التقبیل ہے نہ شھوت سابقہ۔۔نہ لاحقہ۔” (امدادالاحکام: ج ۲ ص ۸۱۱)
۴۔ جس کو شہوت سے مس کیا ہو اسی کے ساتھ جماع کی خواہش بھی ہو اگر خواہش ہی نہ ہو یا اس کے ساتھ نہ ہو جس کو مس کیا ہے یا خواہش تو ہو لیکن کسی اور کے ساتھ ہو تو ان صورتوں میں حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔
“نیز یہ بھی ضروری ہے کہ جس عورت کو ہاتھ لگایا ہے میلان اسی کی طرف ہو اگر دوسرے کی طرف ہوگا تو حرمت ثابت نہ ہوگی۔ ۔ ۔ ۔الخ۔” (امداد الاحکام:ج ۲ ص ۸۰۱)
۵۔ انزال نہ ہو اگر انزال منی ہوجائے تو پھر حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔
۶۔ لواطت (پچھلے راستے سے جماع) چونکہ سبب للولد (بچہ پیدا کرنے کا سبب) نہیں ہے اس لیے اس سے اوراس کی خواہش سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، گو لواطت بہر صورت حرام فعل ہے۔
۷۔ حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لیے فاعل کا اقرار یا دو عادل گواہوں کی گواہی کا پایا جانا ضروری ہے نیز اگر بہو مثلا سسر پر شہوت کے ساتھ چھونے کا الزام لگائے تو شوہر کو اس کی سچائی کا غلبہ ظن یا تصدیق ضروری ہے۔
“حرمت مصاہرت کے لیے حجت تامہ یعنی دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شھادت ضروری ہے ایک مرد اور ایک عورت کی شھادت سے حرمت کا ثبوت نہیں ہوسکتا۔اگر خاوند منکر ہے اور دو معتمد علیہ گواہ موجود نہیں تو حرمت مصاہرت کے ثبوت کا حکم نہیں کیا جائے گا۔”
(فتاوی مفتی محمود: ج۵ص۱۷۰)
ان ساری تفصیل کے بعد اصل جواب ملاحظہ کریں:
سوال میں مذکور صورتوں میں اگر اوپر ذکردہ سب شرائط موجود ہیں تو حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی ؛ پہلی صورت میں ماں اپنے شوہر پر حرام ہوجائے گی اور دوسری صورت میں بہو اپنے شوہر پر حرام ہوجائے گی دونوں شوہروں پر لازم ہوگا کہ اپنی بیویوں کو فورا زبانی طلاق دے کر علیحدہ کریں اس کے بعد ان عورتوں کے لیے عدت پوری کرنے کے بعد دوسرا نکاح کرنا جائز ہوگا۔ لیکن ان میں سے کوئی ایک شرط بھی کم ہوئی تو حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔
عن ابراھیم :قال اذا قبّل الرجل امّ امراتِہ او لمسَھا من شھوۃ حُرِمتْ علیہ امراتُہ۔اخرجہ محمد فی الجمع ورجالہ ثقات (اعلاءالسنن: ج۱۱ص۱۳۱)
والمراد اذا لم تکن محرما:لان المحْرم بسبیلٍ منھا الا اذا خاف علی نفسہ او علیھا الشھوۃَفحینئیذٍ لا یمسُّھا ولا یَنظرُ الیھا ولا یَخلو بھا لقولہ علیہ السلام:العَینان یَزنیان۔ ۔ ۔ ۔فکان فی کل واحد منھما زناً والزنا محَرَّمٌ بجمیع انواعہ وحرمۃُ الزنا بالمحارم اشدّ واغلظُ فیجتنبُ الکلَّ۔ (البحر الرائق :ج۳ص۱۷۳)
قال ایضا:ثم المسُّ انما یُوجِبُ حرمۃَ المصاھرۃِ اذا لم یکن بینھما ثَوبٌ۔(الفتاوی الھندیۃج۱ص۲۷۵)
وما ذکر فی حد الشھوۃِ من انَّ الصحیحَ انْ تنتشرَ الآلۃُ او تزداد انتشارا کما فی الھدایۃ وفی الخلاصۃ وبہ یفتی فکان ہو االمذھب۔(مجمع الانھر ج۱ص۴۸۱)
وثبوتُ الحرمۃِ بلمسھا مشروطٌ بان یصْدُقھا ویقع فی اکبر رایھا صدقُھا۔۔۔۔الخ(الدر المختار:ج۳ص۳۳)
ونصابھا (لغیرھا من الحقوق سواء کان)الحق (مالااو غیرہ کنکاح۔ ۔ ۔ (او رجل وامراتان)۔ ۔۔الخ
فقط۔ واللہ تعالی اعلم بالصواب
بنت عبدالباطن غفر لھا
۱۶جمادی الاولی۱۴۳۹ھ

2 فروری 2018

No comments:

Post a Comment