Monday, 9 July 2018

دو ہاتھ سے مصافحہ؛ اہل السنت و الجماعت کا موقف

دو ہاتھ سے مصافحہ؛ اہل السنت و الجماعت کا موقف
♦السنۃ فی المصافحۃ بکلتا یدیہ.
(الدر المختار: ج9 ص629 باب الاستبراء و غیرہ)
 ترجمہ: دو ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنت ہے۔
غیر مقلدین کا موقف:
ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنت ہے اور دو ہاتھ سے مصافحہ کرنے والے ناواقف لوگ ہیں۔
(ایک ہاتھ سے مصافحہ از عبد الرحمن مبارکپوری: ص 6 ملخصاً،
التحفۃ الحسنیٰ از حکیم محمد اسرائیل سلفی)
دلائل اہل السنت و الجماعت:
دلیل نمبر1⃣:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الصحیح “ میں ایک باب قائم فرمایا ہے:
”باب المصافحۃ“ [مصافحہ کرنے کا باب]اور اس کے تحت حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد نقل کیا ہے:
*عَلَّمَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّشَهُّدَ وَكَفِّي بَيْنَ كَفَّيْه.*
(صحیح البخاری: ج2 ص926)
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے التحیات اس حالت میں سکھائی کہ میرا ہاتھ نبی علیہ السلام کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب میں ثابت کیا کہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا تعلق مصافحہ کے ساتھ ہے، اس کے متصل بعد ایک اور باب قائم فرمایا: ”باب الأخذ باليدين“ [(مصافحہ کرتے وقت)دو ہاتھوں سے پکڑنے کا باب] اور اسی حدیث کودوبارہ اس باب میں ذکر فرمایا ہے، جس سے امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا ثابت ہے۔ نیز مصافحہ دونوں ہاتھوں سے اس طرح کیا جائے کہ ہاتھوں کو پکڑا جائے نہ یہ کہ آدمی اپنے ہاتھ دوسرے کے ہاتھ پر رکھ دے۔ لفظ ”اخذ“ کا یہی مفہوم ہے۔
اعتراض نمبر1⃣:
حکیم محمد اسرائیل لکھتے ہیں:
اس حدیث کا مصافحہ سے ذرا بھی تعلق نہیں۔
(التحفۃ الحسنیٰ: ص39)
مزید لکھتے ہیں:
سخت تعجب ہے ان مقلدین احناف پر کہ جو احادیث صحیحہ سے مصافحہ ثابت ہوتا ہے اس کے انکاری ہیں اور جو حدیث سے ثابت نہیں ہوتا اسے ثابت کرنے کی سعی لا حاصل کرتے ہیں اور بخاری شریف کی دہائی دے کرجاہل عوام کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر ان کو معلوم رہے کہ یہ حدیث دانی اور حدیث فہمی نہیں بلکہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ایک مذاق ہے۔
(التحفۃ الحسنیٰ: ص38)
جواب:
غیر مقلدین بظاہر تو احناف سے عناد، بغض اور مخالفت ظاہر کرتے ہیں لیکن دراصل یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو کھری کھری سنانے کے مترادف ہے۔ ”باب المصافحۃ“ قائم کرنے اور اس کے تحت حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ لانے کے سرخیل تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہیں تو ثابت یہی ہوا کہ غیر مقلدین کا روئے سخن احناف کی طرف نہیں بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف ہے۔ معلوم ہوا ان غیر مقلدین کا امام بخاری سے تعلق ہے نہ صحیح بخاری سے۔
لہذا ہم غیر مقلدین سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ :
امام بخاری رحمہ اللہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مصافحہ ثابت کرتے ہیں اور آپ اس کے منکر ہیں، آپ بتائیں کہ دونوں میں سے حق پر کون ہے اور باطل کون؟
اعتراض نمبر2⃣:
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی فقط ایک ہتھیلی آنحضرت کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھی۔ تو ظاہر ہے کہ اس دلیل سے دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنے والوں کا دعویٰ کسی طرح ثابت نہیں ہوسکتا۔
(ایک ہاتھ سے مصافحہ: ص44)
جواب:
اولاً۔۔۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تو دوہاتھ تھے، لہذا ہمیں سنت نبویہ اختیارکرنی چاہیے۔
ثانیاً۔۔۔ جب دوہاتھوں سے مصافحہ کیاجائے تودرمیان میں ایک ہاتھ آتاہے، دوسراباہرکی جانب رہتاہے، اس لیے دوہاتھ سے مصافحہ کرنے والا کہہ سکتاہے کہ میراہاتھ اس کے دوہاتھوں کے درمیان تھا، یہی کچھ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ لہذا اس سے یہ تو ثابت ہو ا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا مگر یہ ہرگز ثابت نہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا صرف ایک ہاتھ تھا۔ اور یہ کیسے ہوسکتاہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دوہاتھ ہوں اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ ہو؟ کیونکہ بڑے چھوٹے کے حوالے سے بھی اس صورت کو دیکھا جائے توبڑی بے ادبی اورگستاخی ہے کہ بڑاآدمی دو ہاتھ سے مصافحہ کرے اور چھوٹا ایک ہاتھ سے اور یہاں تو امتی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کامعاملہ ہے!
ثالثاً۔۔۔ باقی رہی یہ بات کہ حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ کا ذکر کیوں فرمارہے ہیں تو یہ اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے ایک ہاتھ سے مصافحہ کیا تھا بلکہ اس وجہ سے کہ دوہاتھ سےمصافحہ کرتے وقت آپ کا جوہاتھ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دوہاتھوں کے درمیان آیا تھا آپ بطورِاظہارِمسرت کے اپنے اس ہاتھ کی خصوصیت بتارہے ہیں کہ میرایہ ہاتھ اتنا خوش نصیب ہے جو سردار عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوہاتھوں کے درمیان آیاہے۔
اعتراض نمبر3⃣:
عبد الرحمن مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں:
امام بخاری کی مجرد تبویب سے دونوں ہاتھوں کے مصافحہ کا ثابت نہ ہونا ظاہر ہے کیونکہ مصنفین کی تبویب ان کا دعویٰ ہوتا ہے، جو بلا دلیل کسی طرح قابلِ قبول نہیں۔
(ایک ہاتھ سے مصافحہ: ص52)
جواب:
محترم! یہ مجرد دعویٰ نہیں بلکہ ترجمۃ الباب ہی میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث اور امام حماد بن زید اور امام عبد اللہ بن مبارک تبع تابعین حضرات کا عمل مبارک بھی نقل فرمایا ہے اور اسے ترجمۃ الباب کا حصہ بنایا ہے۔ یاد رہے کہ تبع تابعی بھی اس دور کا ہے جس کے خیر القرون ہونے کی گواہی خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے اگرچہ تابعی کا عمل فنِ حدیث کی روشنی میں بھی خود حدیث ہے، کیونکہ حدیث کی تعریف ہے:
الحدیث ہو قول النبی صلی اللہ علیہ و سلم والصحابی والتابعی و فعلہم و تقریرہم.
(خیر الاصول فی حدیث الرسول للشیخ خیر محمد الجالندھری: ص7. مترجم عربی)
ترجمہ: حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین کے قول و فعل و تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔
مزید اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل لائے تو اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے؟!
دلیل نمبر2⃣:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی”باب الأخذ باليدين“ میں دو مشہور محدثین کا عمل ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
*وَصَافَحَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ابْنَ الْمُبَارَكِ بِيَدَيْهِ*
(صحیح البخاری ج2 ص926)
ترجمہ: امام حماد بن زید نے حضرت عبد اللہ بن مبارک سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔
استدلال:
الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:
*قولہ صَافَحَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ابْنَ الْمُبَارَكِ بِيَدَيْهِ: اشارة الی ان ذلك هو المعروف بین الصحابة و التابعین۔*
(ج37 ص364 تحت العنوان: مصافحہ)
 *ترجمہ:* امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ”حماد بن زید نے ابن مبارک سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا“ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دو ہاتھ سے مصافحہ کرنا صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ میں معروف و مشہور عمل تھا۔
⚡ *فائدہ:* امام حماد بن زید اور امام عبد اللہ بن مبارک تبع تابعین ہیں، معلوم ہوا کہ دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے دو ہاتھ سے مصافحہ دورِ تابعین تک متوارث چلا آ رہاہے اور یہ متوارث عمل دلیل ہے کہ مصافحہ دو ہاتھ سے کرنا سنت ہے۔
 *تعریف سنت :*
1⃣:امام ابوبکر محمد بن احمد السرخسی الحنفی فرماتے ہیں:
*و اما السنۃ فھی الطریقة المسلوکة فی الدین.*
( اصول سرخسی ج 1 ص113)
 *ترجمہ:* سنت دین میں جاری طریقہ کو کہتے ہیں۔
2⃣: شیخ عبد الحق الحقانی فرماتے ہیں:
*السنة الطریقة المسلوکة فی الدین سواء سلکه النبی صلی اللہ علیہ وسلم او الصحابۃ.*
۰النامی بشرح الحسامی)
 *ترجمہ:* سنت دین میں جاری طریقہ کو کہتے ہیں چاہے اسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جاری فرمایا ہو یا آپ کے صحابہ نے۔
 *اعتراض:*
حکیم محمد اسرائیل سلفی لکھتے ہیں:
جب صحابی کا قول ہی حجت نہیں ہوتا تو تابعین اور تبع تابعین کے اقوال کیونکر حجت ہو سکتے ہیں؟
(التحفۃ الحسنیٰ)
 *جواب:*
1: قول صحابی حجت نہ ہو تو حدیث کا وجود ختم ہو جائے گا۔
2: قول صحابی حجت نہ ہو تو دین پر اعتبار ختم ہو جائے گا۔
3: یہ اعتراض امام بخاری رحمہ اللہ پر ہے کہ وہ غیر حجت کے فعل و عمل کو صحیح بخاری میں کیوں لائے۔
4: یہ محض عملِ تابعی نہیں بلکہ عملِ رسول کے توارث کی ایک شکل ہے۔
5: امام حماد بن زید اور امام عبد اللہ بن مبارک دونوں بزرگ دو ہاتھوں سے مصافحہ کر رہے ہیں، کیا یہ حضرات آپ کے موقف کے مطابق ناواقف ہیں؟؟ نیز بتائیں کہ یہ حضرات دو ہاتھ سے مصافحہ کر کے سنی رہے یا بدعتی ٹھہرے؟!
فائدہ: امام بخاری رحمہ اللہ کے والد سے بھی دو ہاتھ سے مصافحہ نقل کرنا ثابت ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی تاریخ میں اپنے والد محترم کے حالات میں لکھتے ہیں:
رای حمادَ بنَ زید، صافح ابنَ المبارک بکلتا یدیہ۔
(التاریخ الکبیر للبخاری: ج1 ص323 تحت ترجمۃ اسماعیل بن ابراہیم )
 *ترجمہ:* حضرت اسماعیل (والد امام بخاری) نے حضرت حماد بن زید کو دیکھا کہ انہوں نے عبد اللہ بن مبارک سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔
تبع تابعین کے اس فعل کو پیش کر کے مشرک ہوئے یا سنی رہے؟؟
*دلیل نمبر4⃣:*
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بیعت کے وقت بھی مصافحہ فرمایا ہے جیسا کہ روایت میں تصریح ہے:
اخرج ابو نعیم فی کتاب المعرفۃ من حدیث لہیۃ بنت عبد اللہ البکریۃ قالت: وفدتُّ مع ابی علَی النبی صلی اللہ علیہ و سلم فبایع الرجال و صافحہم و بایع النساء و لم یصافحہن
(التعلیق الممجد لعبد الحی اللکھنوی: ص394 باب ما یکرہ من مصافحۃ النساء)
 *ترجمہ:* ابو نعیم نے کتاب المعرفۃ میں لھیعہ بنت عبد اللہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کیا کہ میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مردوں سے بیعت لی اور ان سے مصافحہ کیا اور عورتوں سے بیعت لی لیکن ان سے مصافحہ نہیں کیا۔
اور یہ مصافحہ دو ہاتھ سے ہوتا تھا۔ چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن رزين فرماتے ہیں:
*مررنا بالربذة فقيل لنا ها هنا سلمة بن الأكوع فأتيته فسلمنا عليه فأخرج يديه فقال بايعت بهاتين نبي الله صلى الله عليه و سلم.*
(الادب المفرد للبخاری:ص289 رقم الحدیث973 باب تقبیل الید)
 *ترجمہ:* ہم مقامِ ربذہ کے قریب سے گزر رہے تھے کہ ہمیں بتایا گیا کہ یہاں حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ رہتے ہیں۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو ہم سب نے ان کو سلام کیا۔ (دورانِ گفتگو) انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ نکالے (یعنی ہمیں دکھائے) اور فرمایا: ان دونوں ہاتھوں سے میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیعت کی ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت آتی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:
*أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْتَحِنُ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِ مِنْ الْمُؤْمِنَاتِ بِهَذِهِ الْآيَةِ بِقَوْلِ اللَّهِ { يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ إِلَى قَوْلِهِ غَفُورٌ رَحِيمٌ } قَالَ عُرْوَةُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَمَنْ أَقَرَّ بِهَذَا الشَّرْطِ مِنْ الْمُؤْمِنَاتِ قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ بَايَعْتُكِ كَلَامًا وَلَا وَاللَّهِ مَا مَسَّتْ يَدُهُ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ فِي الْمُبَايَعَةِ مَا يُبَايِعُهُنَّ إِلَّا بِقَوْلِهِ قَدْ بَايَعْتُكِ عَلَى ذَلِكِ*
(صحیح البخاری:ج2 ص726 باب إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات)
 *ترجمہ:* آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جو عوررتیں آتیں آپ ان کا امتحان اس آیت کے مطابق لیتے
﴿ يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَاۗءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰٓي اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَـيْـــــًٔـا﴾
[ترجمہ:اے پیغمبر ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ خدا کے ساتھ نہ تو شرک کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی اور نہ نیک کاموں میں تمہاری نافرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لئے خدا سے بخشش مانگو۔ بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے]حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جو عورتیں یہ شرائط قبول کر لیتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان سے فرماتے کہ میں نے تم سے زبانی بیعت کر لی۔بخدا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہاتھ بیعت لیتے وقت کسی عورت کے ہاتھ سے مس نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں بیعت کے وقت صرف زبان سے بیعت فرماتے تھے۔
اور بیعت کا مصافحہ دونوں ہاتھوں سے فرماتے تھے۔ چنانچہ اس روایت کے لفظ ”قَدْ بَايَعْتُكِ كَلَامًا“ کے تحت علامہ عینی فرماتے ہیں:
(قد بایعتک کلاما)... كان يبايع بالكلام ولا يبايع باليد كالمبايعة مع الرجال بالمصافحة باليدين.
(عمدۃ القاری شرح البخاری:ج13 ص396 کتاب التفسیر، تحت سورۃ الممتحنۃ)
鹿 *ترجمہ:* رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں کو زبانی بیعت کرتے تھے، ہاتھ کے ساتھ بیعت نہیں کرتے تھے جیسے مردوں کو دو ہاتھ کے مصافحہ کے ساتھ بیعت کرتے تھے۔
 علامہ قسطلانی فرماتے ہیں:
*(قد بایعتک کلاما) ای بالکلام لا بالید کما کان یبایع الرجال بالمصافحۃ بالیدین*
(ارشادالساری: ج7 ص 380 کتاب التفسیر، تحت سورۃ الممتحنۃ)
 *ترجمہ:* یعنی زبانی بیعت مراد ہے نہ کہ ہاتھ کے ساتھ جیسے مردوں کو دو ہاتھ کے مصافحہ کے ساتھ بیعت کرتے تھے۔
اور بوقتِ بیعت دونوں ہاتھوں کا تذکرہ دلیل نمبر3 کے تحت آ چکا ہے۔ لہذا مباکپوری صاحب کی یہ کہنا کہ ”ان دونوں صاحبوں کا یہ محض دعویٰ ہی دعویٰ ہے ، انہوں نے اس دعویٰ کی کوئی دلیل نہیں لکھی ہے“ بالکل باطل ہے۔ (ایک ہاتھ سے مصافحہ: ص59) وللہ الحمد
*دلیل نمبر4⃣:* تصریحات فقہاء کرام:
1: در مختار میں علامہ علاء الدین الحصکفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
السنۃ فی المصافحۃ بکلتا یدیہ.
(الدر المختار: ج9 ص629 باب الاستبراء وغیرہ)
 *ترجمہ:* دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا سنت ہے۔
2: مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر میں علامہ عبد الرحمن بن محمد بن سلیمان رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
*والسنۃ فی المصافحۃ بکلتا یدیہ.*
(مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر: ج4 ص204 کتاب الاضحیۃ)
 *ترجمہ:* دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا سنت ہے۔
3: الفقہ الاسلامی و ادلۃ میں علامہ الشیخ الدکتور وہبۃ الزہیلی فرماتے ہیں:
والسنۃ فی المصافحۃ بکلتا یدیہ.
(الفقہ الاسلامی و ادلۃ: ج4 ص2660 تحت لفظۃ: اللمس)
 *ترجمہ:* دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا سنت ہے۔
 *اعتراض:*
درمختار میں یہ مسئلہ کتاب ”قنیہ“ سے نقل کیا گیا ہے۔۔ اس کتاب کا مصنف مختار بن محمود الزاہدی اعتقاداً معتزلی تھا۔۔ قنیہ غیر معتبر اور غیر مستند ہے۔
(ایک ہاتھ سے مصافحہ: ص12)
 *جواب:*
قنیہ اتنی بھی غیر معتبر نہیں جتنا غیر مقلدین نے سمجھ رکھا ہے بلکہ قنیہ کا صرف وہ حوالہ غیر معتبر ہو گا جس کی تائید دیگر کتب سے نہ ہوتی ہو۔ چنانچہ علامہ عبد الحئی لکھنوی لکھتے ہیں:
و تصانیفہ غیر معتبرۃ ما لم یوجد مطابقتہا لغیرہا
(الفوائد البہیۃ لعبد الحئی اللکھنوی: ص213)
اسی طرح وہ حوالہ بھی غیر معتبر ہو گا جو دیگر کتب سے ٹکرائے۔ چنانچہ علامہ عبد الحئی لکھنوی ہی ایک مقام پر لکھتے ہیں:
*لا عبرۃ لما یقولہ الزاہدی اذا خالف غیرَہ.*
(النافع الکبیر لعبد الحئی اللکھنوی: ص31)
 مسئلہ مذکورہ کی تائید مذکورہ احادیث و آثار اور فقہ کی دیگر کتب سے ہوتی ہے۔ پس موصوف کا شبہ باطل ہے۔
و للہ الحمد
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
......
مصافحہ کے معنی کیا ہیں؟
مُصافَحَہ {مُصا +فَحَہ} (عربی)
اسم نکرہ
معانی
1. ملتے یا جدا ہوتے وقت یا کسی مبارک یا خوشی کے موقعے پر، کوئی ارادہ یا عہدوپیمان کرتے وقت یا رفع نزاع کے بعد میل کرتے وقت ہاتھ ملانے کا عمل۔

No comments:

Post a Comment