نذر کا مصرف اور اس کے جانور کا تبادلہ
صدقات نافلہ اغنیاء پر بھی خرچ ہوسکتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ منت کا بکرا اگر مدرسہ میں بغرض اطعام طلاب دیا گیا لیکن تمام طلبہ کیلئے اسکا گوشت ناکافی ہے تو آیا اسکو بیچ کر اسی قیمت کا گائے گوشت کھلانا درست ہے؟
صدقات واحبہ اور صدقات نافلہ کے مصارف میں فرق کی قدرے تفصیل ارشاد فرماکر ممنون فرمائیے گا
مدلل جواب عنایت فرمائیں
محمد زبیر ناصری قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
نذر کے جانور میں مقصود اراقة الدم یعنی تقرب بالاراقہ ہوتا ہے اس لیے مدرسہ والے اسے بدل کر اس کی قیمت مستحقین میں نہیں لگاسکتے
ہاں صدقہ نافلہ کا اگر جانور ہو اور معطی کی اجازت صراحةً يا دلالةً پائی جاتی ہو تو مدرسہ والے کو فروخت یا تبادلے کی اجازت ہے
صدقات نافلہ اغنیاء پر بھی خرچ ہوسکتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ منت کا بکرا اگر مدرسہ میں بغرض اطعام طلاب دیا گیا لیکن تمام طلبہ کیلئے اسکا گوشت ناکافی ہے تو آیا اسکو بیچ کر اسی قیمت کا گائے گوشت کھلانا درست ہے؟
صدقات واحبہ اور صدقات نافلہ کے مصارف میں فرق کی قدرے تفصیل ارشاد فرماکر ممنون فرمائیے گا
مدلل جواب عنایت فرمائیں
محمد زبیر ناصری قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
نذر کے جانور میں مقصود اراقة الدم یعنی تقرب بالاراقہ ہوتا ہے اس لیے مدرسہ والے اسے بدل کر اس کی قیمت مستحقین میں نہیں لگاسکتے
ہاں صدقہ نافلہ کا اگر جانور ہو اور معطی کی اجازت صراحةً يا دلالةً پائی جاتی ہو تو مدرسہ والے کو فروخت یا تبادلے کی اجازت ہے
نذر کا مصرف وہی ہے جو زکات کا مصرف ہے
صدقہ نافلہ کی حیثیت ہبہ کی ہوتی ہے، اس لئے اس کو مصارف زکات پہ خرچ کرنا اگرچہ افضل وبہتر ہے! لیکن اغنیاء پر بھی صرف کیا جاسکتا ہے شرعا اس کے مصرف میں عموم ہے کوئی حد بندی نہیں
صدقہ نافلہ کی حیثیت ہبہ کی ہوتی ہے، اس لئے اس کو مصارف زکات پہ خرچ کرنا اگرچہ افضل وبہتر ہے! لیکن اغنیاء پر بھی صرف کیا جاسکتا ہے شرعا اس کے مصرف میں عموم ہے کوئی حد بندی نہیں
مصرف الزکاۃ الخ، کذا في الشامي تحت باب المصرف، وہو مصرف أیضاً لصدقۃ الفطر والکفارۃ والنذر وغیر ذٰلک من الصدقات الواجبۃ۔ (شامي، کتاب الزکاۃ / باب المصرف ۲؍۳۳۹ دار الفکر بیروت، ۳؍۲۸۳ زکریا، کذا في البحر الرائق / باب المصرف ۲؍۳۳۹ کراچی)
وأما ما سوي الزکاۃ من صدقۃ الفطر والکفارات والنذور فلاشک في أن صرفہا إلی فقراء أو المسلمین أفضل لأن الصرف إلیہم یقع إعانۃ لہم علی الطاعۃ۔ (الفقہ الإسلامي وأدلتہ، کتاب الزکاۃ، سابعًا:شروط المستحقین، ہدیٰ انٹرنیشنل بکڈپودیوبند۲/۷۹۰)
الأصل أن الصدقۃ تعطی للفقراء والمحتاجین، وہذا ہو الأفضل کما صرح بہ الفقہاء وذلک لقولہ تعالیٰ: اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ۔ [البلد:۱۶]
واتفقوا علی أنہا تحل للغني لأن صدقۃ التطوع کالہبۃ فتصح للغني والفقیر۔(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۲۶/۳۳۲)
وإنما تحرم علی ہؤلاء الصدقۃ الواجبۃ من العشور، والنذور، والکفارات، فأما الصدقۃ علی وجہ التصدق والتطوع فلا بأس۔ (المحیط البرہاني، کتاب الزکاۃ، الفصل الثامن: من یوضع فیہ الزکاۃ، المجلس العلمي۳/۲۱۵، رقم:۲۷۹۲)
الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الزکاۃ، الفصل الثامن من توضع فیہ الزکاۃ، مکتبہ زکریا دیوبند۳/۲۱۴، رقم:۴۱۵۵۔
وقال المصنف في الکافي: وہذا في والواجبات کالزکاۃ والنذر والعشر والکفارۃ، أما التطوع والوقف فیجوز الصرف إلیہم۔ (البحر الرائق، کتاب الزکاۃ، باب المصرف، مکتبہ زکریا دیوبند ۲/۴۳۰، کوئٹہ۲/۲۴۶)
ہندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف، مکتبہ زکریا قدیم۱/۱۸۹، جدید۱/۲۵۱۔)
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
۱۱/۱۰/۱۴۳۹ہجری
وأما ما سوي الزکاۃ من صدقۃ الفطر والکفارات والنذور فلاشک في أن صرفہا إلی فقراء أو المسلمین أفضل لأن الصرف إلیہم یقع إعانۃ لہم علی الطاعۃ۔ (الفقہ الإسلامي وأدلتہ، کتاب الزکاۃ، سابعًا:شروط المستحقین، ہدیٰ انٹرنیشنل بکڈپودیوبند۲/۷۹۰)
الأصل أن الصدقۃ تعطی للفقراء والمحتاجین، وہذا ہو الأفضل کما صرح بہ الفقہاء وذلک لقولہ تعالیٰ: اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ۔ [البلد:۱۶]
واتفقوا علی أنہا تحل للغني لأن صدقۃ التطوع کالہبۃ فتصح للغني والفقیر۔(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۲۶/۳۳۲)
وإنما تحرم علی ہؤلاء الصدقۃ الواجبۃ من العشور، والنذور، والکفارات، فأما الصدقۃ علی وجہ التصدق والتطوع فلا بأس۔ (المحیط البرہاني، کتاب الزکاۃ، الفصل الثامن: من یوضع فیہ الزکاۃ، المجلس العلمي۳/۲۱۵، رقم:۲۷۹۲)
الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الزکاۃ، الفصل الثامن من توضع فیہ الزکاۃ، مکتبہ زکریا دیوبند۳/۲۱۴، رقم:۴۱۵۵۔
وقال المصنف في الکافي: وہذا في والواجبات کالزکاۃ والنذر والعشر والکفارۃ، أما التطوع والوقف فیجوز الصرف إلیہم۔ (البحر الرائق، کتاب الزکاۃ، باب المصرف، مکتبہ زکریا دیوبند ۲/۴۳۰، کوئٹہ۲/۲۴۶)
ہندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف، مکتبہ زکریا قدیم۱/۱۸۹، جدید۱/۲۵۱۔)
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
۱۱/۱۰/۱۴۳۹ہجری
No comments:
Post a Comment