گونگے و بہرے جانور کی قربانی
گونگے و بہرے جانور کی قربانی پر دارالعلوم کراچی کا موقف:
گونگے و بہرے جانور کی قربانی پر دارالعلوم کراچی کا موقف:
الجواب حامداً ومصلیاً:
حضراتِ احناف کے نزدیک قربانی میں جو عیوب ذکر کئے گئے ہیں ان میں (گونگا وبہرا) عیوب شامل نہیں، اور اس باب میں فقہائے کرام کی عبارات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عیب جو جانور کے گوشت پر اثر انداز نہ ہو اور اس سے جانور کا جمال بھی بالکلیہ ختم نہ ہو، تو ایسے جانور کی قربانی درست ہے۔
اور اگر عیب ایسا ہوکہ جواس جانور کے گوشت پر اثر انداز ہو یا اس سے جانورکی منفعت یا جمال بالکلیہ ختم ہوجائےتو اس جانور کی قربانی درست نہیں۔
اس تمہید کے پیش نظر بہراپن چونکہ عام طور پر جانور کے گوشت پر اثرانداز نہیں ہوتااور اس سے جانور کی منفعت مقصودہ پر بھی کوئی خاص اثر نہیں پڑتا لہذا فی نفسہ بہرے جانور کی قربانی جائز ہے
(ماخذٗالتبویب ۳۳/۵۶۸)
تاہم گونگے جانور کی قربانی کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ چھوٹے جانور (بکرا، بکری وغیرہ) میں گونگے جانور کی چاہئے زبان ہو یا نہ ہو، دونوں صورتوں میں اس چھوٹے جانور کی قربانی جائز ہے، اوربڑےجانور (گائے، بیل وغیرہ) میں اگر اسکی مکمل زبان نہ ہو یا زبان کا اکثر حصہ نہ تو ایسے بڑے جانور کی قربانی درست نہیں،اور اگر مکمل زبان ہو یا زبان کا اکثر حصہ ہو اورچارہ کھا سکتا ہو اگرچہ قوتِ گویائےنہ ہوتو ایسے جانور کی قربانی درست ہے۔
تاہم مستحب یہ ہے کہ اضحیہ کےجانور میں کسی قسم کا عیب نہ ہو ۔
الفتاوى الهندية - (5 / 298)
وفي اليتيمة كتبت إلى أبي الحسن علي المرغيناني، ولو كانت الشاة مقطوعة اللسان هل تجوز التضحية بها؟ . فقال: نعم إن كان لا يخل بالاعتلاف، وإن كان يخل به لا تجوز التضحية بها، كذا في التتارخانية.
وقطع اللسان في الثور يمنع، وفي الشاة اختلاف، كذا في القنية.
والتي لا لسان لها في الغنم تجوز، وفي البقر لا، كذا في الخلاصة.
حضراتِ احناف کے نزدیک قربانی میں جو عیوب ذکر کئے گئے ہیں ان میں (گونگا وبہرا) عیوب شامل نہیں، اور اس باب میں فقہائے کرام کی عبارات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عیب جو جانور کے گوشت پر اثر انداز نہ ہو اور اس سے جانور کا جمال بھی بالکلیہ ختم نہ ہو، تو ایسے جانور کی قربانی درست ہے۔
اور اگر عیب ایسا ہوکہ جواس جانور کے گوشت پر اثر انداز ہو یا اس سے جانورکی منفعت یا جمال بالکلیہ ختم ہوجائےتو اس جانور کی قربانی درست نہیں۔
اس تمہید کے پیش نظر بہراپن چونکہ عام طور پر جانور کے گوشت پر اثرانداز نہیں ہوتااور اس سے جانور کی منفعت مقصودہ پر بھی کوئی خاص اثر نہیں پڑتا لہذا فی نفسہ بہرے جانور کی قربانی جائز ہے
(ماخذٗالتبویب ۳۳/۵۶۸)
تاہم گونگے جانور کی قربانی کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ چھوٹے جانور (بکرا، بکری وغیرہ) میں گونگے جانور کی چاہئے زبان ہو یا نہ ہو، دونوں صورتوں میں اس چھوٹے جانور کی قربانی جائز ہے، اوربڑےجانور (گائے، بیل وغیرہ) میں اگر اسکی مکمل زبان نہ ہو یا زبان کا اکثر حصہ نہ تو ایسے بڑے جانور کی قربانی درست نہیں،اور اگر مکمل زبان ہو یا زبان کا اکثر حصہ ہو اورچارہ کھا سکتا ہو اگرچہ قوتِ گویائےنہ ہوتو ایسے جانور کی قربانی درست ہے۔
تاہم مستحب یہ ہے کہ اضحیہ کےجانور میں کسی قسم کا عیب نہ ہو ۔
الفتاوى الهندية - (5 / 298)
وفي اليتيمة كتبت إلى أبي الحسن علي المرغيناني، ولو كانت الشاة مقطوعة اللسان هل تجوز التضحية بها؟ . فقال: نعم إن كان لا يخل بالاعتلاف، وإن كان يخل به لا تجوز التضحية بها، كذا في التتارخانية.
وقطع اللسان في الثور يمنع، وفي الشاة اختلاف، كذا في القنية.
والتي لا لسان لها في الغنم تجوز، وفي البقر لا، كذا في الخلاصة.
فتاوى قاضيخان - (3 / 209)
(فصل في العيوب ما يمنع الأضحية و ما لا يمنع)
لا يجوز في الهدايا و الضحايا العمياء و العوراء و شق الأذن و الكي لا يمنع جواز الأضحية و لو ذهب عينها الواحدة أو كسر رجلها الواحدة في معالجة الذبح ينظر إن لم يرسلها جاز و إن أرسلها بعد ما أصابتها آفة و ضحى بها بوقت آخر في يومه ذلك أو يوم آخر من أيام النحر لم يذكر هذا في الأصل و اختلفوا به روى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه يجوز و به أخذ الزعفراني رحمه الله تعالى قال و قد قال بعض العلماء أنه لا يجوز و لا نأخذ به و لا يجوز العرجاء التي لا تقدر على القيام و المشي إلى المذابح و إن قدرت جاز و الشاة إذا لم يكن لها أذن و لا ذنب خلقة يجوز و إن لم يكن لها عينان خلقة لا يجوز و يجوز الجماء و هي التي لا قرن لها خلقة و كذلك مكسورة القرن و يجوز الثولاء و الجرباء إذا كانتا سمينتين و إن كانتا مهزولتين لا نبقى لا يجوز إذا ذهب مخ عظمها و إن بقي لها بعض الأسنان إن بقي من الأسنان قدر ما تعتلف جاز و إلا فلا و يجوز السكاء في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى و هي صغيرة الأذنين بعد أن يسمى أذنا
و إن كان لها ألية صغيرة مثل الذنب خلقة جاز أما على قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى فظاهر لأن عنده لو لم يكن لها أذن و لا ألية أصلا جاز فصغيرة الأذنين أولى و أما على قول محمد رحمه الله تعالى صغيرة الأذنين جائزة و إن لم يكن لها إلية و لا أذن خلقة لا يجوز و إن كانت صغيرة الأذنين جاز و مشقوقة الأذنين من قبل وجهها و هي المقابلة جاز *و كذلك المدابرة و هي التي تكون على العكس و كذا الشرقاء و هي التي قطع من وسط أذنيها فنفذ الخرق إلى الجانب الآخر و كذا الحولاء و هي التي في عينها حول و كذا المجزوزة و هي التي جز صوفها و لا تجوز الجلالة و هي التي تأكل العذرة و لا تأكل غيرها فإن كانت الجلالة ابلا تمسك أربعين يوما حتى يطيب لحمها و البقر تمسك عشرين يوما و الغنم عشرة أيام و الدجاجة ثلاثة أيام و لا يجوز المريضة البين مرضها في الأضحية و لا التي يبس ضرعها أو قطع ضرعها و إن ذهب بعض ضرعها فهو على الخلاف الذي ذكرنا في الأذن و العين و الألية إذا كان الذاهب أكثر من الثلث و أقل من النصف لا يجوز في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى و عند أبي يوسف و محمد رحمه الله تعالى إذا كان الذاهب أقل من النصف جاز و هو رواية عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى فيه روايتان و الصحيح أن الثلث و ما دونه قليل و مازاد عليه كثير
=========================
گونگے جانور کی قربانی جائز ہے خواہ وہ گاے ہو یا بکری یا اونٹ،کہ جانور میں نطق منافع مقصودہ نہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ نطق منافع سے ہے ہی نہیں،
نہ منافع مقصودہ سے،
جیسے آنکھ وغیرہ
نہ غیر مقصودہ سے جیسےسینگ وغیرہ،
یہی وجہ ہے کہ قدرت نے انہیں نطق سے محفوظ رکھا ہے اور فقہاے کرام نےاسے عیوب سے نہیں شمارفرمایا
اگر یہ عیب ہوتا تو فقہاء اسے ذکر فرماتے
واضح ہوکہ گونگے سے مراد ایسا جانور ہے جس کی زبان سلامت نہ ہو تواس میں تفصیل ہے۔۔۔۔۔پیدائش کے وقت سے ہی وہ زبان سے محروم ہےاور وہ بکری کی جنس سے ہے تو قربانی صحیح ہے اور اگر گاے یا اونٹ کی جنس سے ہےتو نہیں،
کہ بڑے جانور زبان سے چرتےاور اپنی غذا لیتے ہیں اور چھوٹے جانور دانت سے چرتے اور اپنی غذا لیتے ہیں-
فتاوی ھندیہ میں ہے
(فصل في العيوب ما يمنع الأضحية و ما لا يمنع)
لا يجوز في الهدايا و الضحايا العمياء و العوراء و شق الأذن و الكي لا يمنع جواز الأضحية و لو ذهب عينها الواحدة أو كسر رجلها الواحدة في معالجة الذبح ينظر إن لم يرسلها جاز و إن أرسلها بعد ما أصابتها آفة و ضحى بها بوقت آخر في يومه ذلك أو يوم آخر من أيام النحر لم يذكر هذا في الأصل و اختلفوا به روى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه يجوز و به أخذ الزعفراني رحمه الله تعالى قال و قد قال بعض العلماء أنه لا يجوز و لا نأخذ به و لا يجوز العرجاء التي لا تقدر على القيام و المشي إلى المذابح و إن قدرت جاز و الشاة إذا لم يكن لها أذن و لا ذنب خلقة يجوز و إن لم يكن لها عينان خلقة لا يجوز و يجوز الجماء و هي التي لا قرن لها خلقة و كذلك مكسورة القرن و يجوز الثولاء و الجرباء إذا كانتا سمينتين و إن كانتا مهزولتين لا نبقى لا يجوز إذا ذهب مخ عظمها و إن بقي لها بعض الأسنان إن بقي من الأسنان قدر ما تعتلف جاز و إلا فلا و يجوز السكاء في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى و هي صغيرة الأذنين بعد أن يسمى أذنا
و إن كان لها ألية صغيرة مثل الذنب خلقة جاز أما على قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى فظاهر لأن عنده لو لم يكن لها أذن و لا ألية أصلا جاز فصغيرة الأذنين أولى و أما على قول محمد رحمه الله تعالى صغيرة الأذنين جائزة و إن لم يكن لها إلية و لا أذن خلقة لا يجوز و إن كانت صغيرة الأذنين جاز و مشقوقة الأذنين من قبل وجهها و هي المقابلة جاز *و كذلك المدابرة و هي التي تكون على العكس و كذا الشرقاء و هي التي قطع من وسط أذنيها فنفذ الخرق إلى الجانب الآخر و كذا الحولاء و هي التي في عينها حول و كذا المجزوزة و هي التي جز صوفها و لا تجوز الجلالة و هي التي تأكل العذرة و لا تأكل غيرها فإن كانت الجلالة ابلا تمسك أربعين يوما حتى يطيب لحمها و البقر تمسك عشرين يوما و الغنم عشرة أيام و الدجاجة ثلاثة أيام و لا يجوز المريضة البين مرضها في الأضحية و لا التي يبس ضرعها أو قطع ضرعها و إن ذهب بعض ضرعها فهو على الخلاف الذي ذكرنا في الأذن و العين و الألية إذا كان الذاهب أكثر من الثلث و أقل من النصف لا يجوز في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى و عند أبي يوسف و محمد رحمه الله تعالى إذا كان الذاهب أقل من النصف جاز و هو رواية عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى فيه روايتان و الصحيح أن الثلث و ما دونه قليل و مازاد عليه كثير
=========================
گونگے جانور کی قربانی جائز ہے خواہ وہ گاے ہو یا بکری یا اونٹ،کہ جانور میں نطق منافع مقصودہ نہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ نطق منافع سے ہے ہی نہیں،
نہ منافع مقصودہ سے،
جیسے آنکھ وغیرہ
نہ غیر مقصودہ سے جیسےسینگ وغیرہ،
یہی وجہ ہے کہ قدرت نے انہیں نطق سے محفوظ رکھا ہے اور فقہاے کرام نےاسے عیوب سے نہیں شمارفرمایا
اگر یہ عیب ہوتا تو فقہاء اسے ذکر فرماتے
واضح ہوکہ گونگے سے مراد ایسا جانور ہے جس کی زبان سلامت نہ ہو تواس میں تفصیل ہے۔۔۔۔۔پیدائش کے وقت سے ہی وہ زبان سے محروم ہےاور وہ بکری کی جنس سے ہے تو قربانی صحیح ہے اور اگر گاے یا اونٹ کی جنس سے ہےتو نہیں،
کہ بڑے جانور زبان سے چرتےاور اپنی غذا لیتے ہیں اور چھوٹے جانور دانت سے چرتے اور اپنی غذا لیتے ہیں-
فتاوی ھندیہ میں ہے
"والتی لالسان لھا فی الغنم تجوز وفی البقر لا کذا فی الخلاصة"اھ(ج5ص298،الباب الخامس)
ایسا ہی فتاوی نظامیہ میں ہے
(آپ کے مسائل ص178)
واللہ تعالی اعلم
ایسا ہی فتاوی نظامیہ میں ہے
(آپ کے مسائل ص178)
واللہ تعالی اعلم
No comments:
Post a Comment