Tuesday 31 March 2020

پانچوں نمازیں کیسے شروع ہوئیں؟

پانچوں نمازیں کیسے شروع ہوئیں؟
پانچوں نمازوں کے بارے میں کسی نے بتلایا ہے کہ ہر نبی نے پڑھی ہیں جیسے
فجر سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے ظہر ابراہیم علیہ السلام بے 
عصر داؤد علیہ السلام نے مغرب یونس علیہ السلام نے عشاء موسی علیہ السلام اورمحمد صل الا علیہ وسلم دونوں کی روایات موجود ہیں. مجھے یہ بتلائیۓ کہ یہ درست ہے کیا اور اس کے بارے میں اگر مزید معلومات بھی مل سکے تو بڑی مہربانی ہوگی
الجواب وباللہ التوفیق:
امام طحاوی رحمہ اللہ نے روایت بایں الفاظ نقل کی ہے:
حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ بَحْرَ بْنَ الْحَكَمِ الْكَيْسَانِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ عُبَيْدَ اللهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَائِشَةَ يَقُولُ: إِنَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، لَمَّا تِيبَ عَلَيْهِ عِنْدَ الْفَجْرِ ، صَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَصَارَتِ الصُّبْحُ ، وَفُدِيَ إِسْحَاقُ عِنْدَ الظُّهْرِ فَصَلَّى إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَرْبَعًا، فَصَارَتِ الظُّهْرُ، وَبُعِثَ عُزَيْرٌ، فَقِيلَ لَهُ: كَمْ لَبِثْتَ ؟ فَقَالَ: يَوْمًا، فَرَأَى الشَّمْسَ فَقَالَ: أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَصَارَتِ الْعَصْرُ . وَقَدْ قِيلَ: غُفِرَ لِعُزَيْرٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَغُفِرَ لِدَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ الْمَغْرِبِ، فَقَامَ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، فَجَهَدَ فَجَلَسَ فِي الثَّالِثَةِ، فَصَارَتِ الْمَغْرِبُ ثَلَاثًا. وَأَوَّلُ مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ نَبِيُّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ: بحر بن حکم الکیسانی کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبد الرحمن عبید اللہ بن محمد بن عائشہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب صبح کے وقت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پس وہ نماز فجر ہوگئی۔ اور اسحاق علیہ السلام کا فدیہ ظہر کے وقت ادا کیا گیا تو ابراہیم علیہ السلام نے چار رکعات ادا کیں، پس وہ نماز ظہر ہوگئی۔ اور جب عزیر علیہ السلام کو اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا: آپ اس حالت میں کتنا عرصہ رہے؟ تو انہوں نے کہا: ایک دن پھر انھوں نے سورج کو دیکھا تو کہا: یا دن کا بھی کچھ حصہ۔ پھر انہوں نے چار رکعات ادا کیں تو وہ نماز عصر ہوگئی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عزیر اور داؤد علیہما السلام کی مغرب کے وقت مغفرت ہوئی تو انہوں نے چار رکعات نماز شروع کی لیکن تھک کر تیسری رکعت میں بیٹھ گئے۔ پس وہ نماز مغرب ہوگئی۔ اور جس ہستی نے سب سے پہلے آخری نماز (یعنی نماز عشاء) ادا کی وہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
(شرح معانی الآثار ط عالم الکتاب: 1/175، حدیث نمبر: 1046)
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_31.html?m=1

Sunday 29 March 2020

کورونا وبا کے دوران ہمبستری کا حکم

کورونا وبا کے دوران ہمبستری کا حکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب
کورونا وائرس کی وباء میں وقتاً فوقتاً اضافہ ہوتا جارہا ہے کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ غیروں سے تو دور کی بات اپنوں سے بھی دور رہا جائے، کیا ایسی صورت میں ان حالات کے پیش نظر بیوی سے ہمبستری نہیں کرنی چاہئے جبکہ ہمبستری عین فطری تقاضہ ہے؟ محترم مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ سے ادبا درخواست ہے کہ اس مسئلہ پر شرعی روشنی ڈالیں تو عین نوازش ہوگی.
جواب نمبر 2407
بسم اللہ الرحمن الرحیم:-
الجواب وبااللہ التوفیق:-
حضرت سیدنا جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
 کہ انسان کو جماع کی ایسی ہی ضرورت ہے جیسے غذا کی کیونکہ بیوی کے طہارت کا سبب ہے۔ (احیاء العلوم جلد 2 ص: 29)
جماع سے بلکہ ملاقات سے پہلے یہ مناسب ہے کہ مسواک یا منجن وغیرہ سے منہ صاف کرلینا چاہئے۔
منہ صاف رکھنا ویسے بھی مسنون اور فطرت میں داخل ہے مگر اس موقع پر اس کا اور زیادہ اہتمام کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ کوئی خوش بودار چیز کا استعمال بھی کرے۔
جماع کرنے سے پہلے مذکورہ دعا کا پڑھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے:
عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لو ان احدھم اذا اراد ان یاتی اھلہ قال 
بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا... (رواہ البخاری رقم:٦٣٨٨)
دعا اگر یاد نہ ہوں تو یاد کرلیں یا کم از کم 'بسم اللہ الرحمن الرحیم" پڑھیں
یاد رہے موجودہ حالات کے پیش نظر کرونا وائرس انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے اگر کوئی اپنے فطری تقاضہ کو پورا کرنا چاہتا ہے تو زوجین کو چاہئے کہ باوضوء ہوکر اپنی حاجت پوری کرے اور اپنی شرمگاہ کو دھوکر آرام کرلے 
 اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تعلیمات ہیں مباشرت کے متعلق اسے اپنائیں۔ جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے:
"حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے رات کو جنابت لاحق ہوتی ہے (یعنی احتلام یا جماع سے غسل واجب ہوتا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اسی وقت) وضو کرکے عضو کو دھوکر سوجایا کرو''۔
(عن ابن عمر قال ذکر عمر بن الخطاب رضي الله عنه لرسوﷲ صلي الله عليه وسلم أنه تصیبه الجنابة من اللیل فقال له رسول الله صلي الله عليه وسلم تو ضأ واغسل ذکرک ثم نم ـ) متفق علیه (مشکوٰة ۴۹) ظفیر۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبندج۱/۱۴۹)
ان حالات میں اگر کوئی احتیاطی طور کنڈوم استعمال کرنا چاہتا ہے تو بہتر ہے استعمال کرے اس کی بھی گنجائش ہے۔
ھذا ما عندی فقط واللہ اعلم بالصواب
محمد اظہر الدین حسامی

اصل تصوف تو خدمت خلق ہے

اصل تصوف تو خدمت خلق ہے!

مذہب اسلام کا خلاصہ: 
ومقصد ہی دوسروں کو نفع پہنچانا ہے. اسلام کے علاوہ دنیا کے کسی مذہب نے بھی خلق خدا کی داد رسی  کو عبادت قرار نہیں دیا۔ یہ مذاہب کی تاریخ کا خاص امتیاز ہے کہ اسلام نے انسانیت کے رشتہ کی بنیاد پہ انسانوں کی خدمت کو عبادت کا درجہ دے کر سب سے بہتر اس شخص کو قرار دیا ہے جو ذاتی منفعت کے لئے نہیں، بلکہ اجتماعی مفاد کے لئے جیتا ہو۔
فقال: خيرُ الناسِ من ينفعُ الناسَ فكن نافعًا لهم. (عن خالد بن الوليد  مجموع فتاوى ابن باز -  الرقم: 26/330 )
محبوبیت خداوندی کے حصول کا سب سے  "شارٹ کٹ" اور مختصر راستہ"خدمت خلق" ہے۔۔۔۔۔
اس کی اتنی ترغیب دی گئی ہے کہ جو شخص دنیا میں کسی کے دکھ درد دور کرے ۔اللہ اس کے بدلہ قیامت میں اس کی مشکلات دور فرمائیں گے۔
(مَن نفَّس عن مُؤمِنٍ كُربةً مِن كُرَبِه نفَّس اللهُ عنه كُرَبَه يومَ القيامةِ ومَن ستَر على مُؤمِنٍ عورةً ستَر اللهُ عَوْرتَه ومَن فرَّج عن مُؤمِنٍ كُرَبَه فرَّج اللهُ عنه كُرْبَتَه ۔ عن كعب بن عجرة . الطبراني في المعجم الأوسط - الصفحة: 6/12).
ہاتھ میں تسبیح، بدن پہ گڈری ودرویشانہ لباس کا نام تصوف نہیں۔۔۔بلکہ اصل تصوف تو 
خدمت خلق ہے!
زتسبیح وسجادہ ودلق نیست 
طریقت بجز خدمت خلق نیست
اسی لئے اسلام نے "بیت المال" کا تصور دیا ہے تاکہ حالات گزیدہ لوگوں کی راحت رسانی کا کام بآسانی انجام پاتا رہے۔اور کوئی کسی شخص واحد کا دست نگر بن کے نہ رہ جائے۔
خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس "رفاہی سسٹم" میں جو توسیع فرمائی تھی اسے آج چودہ سو سال بعد اسلام کی سخت مخالف حکومتیں بھی  نہ صرف رول ماڈل کے بطور  دیکھ رہی ہیں بلکہ اسے  غربت و افلاس کی موجودہ ناہمواریوں میں نجات دہندہ تصور کررہی ہیں ۔۔۔۔
جہانگیر بادشاہ جیسا بھی تھا!
لیکن شاہی محل کے سامنے مجبوروں ولاچاروں کی داد رسی کے لئے گھنٹی آویزاں کرنے کی وجہ سے تاریخ کے صفحات میں "عدل جہانگیری" ایک استعارہ کے طور پہ محفوظ ہوگیا۔۔۔۔
انہی فضائل وترغیبات کی وجہ سے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی ذوات قدسیہ مشکل ترین لمحات میں بھی اس عالی تصور کا خیال ملحوظ رکھا۔ خود بھوکے رہتے لیکن اوروں کا پیٹ بھرنا ان کی ترجیح ہوتی۔
اس وقت ہمارا ملک کورونا وائرس کی لپیٹ میں کراہ رہا ہے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریب ومفلوک الحال  لاچار وبے بس لوگ گھروں میں پھنس کر رہ گئے ہیں 
اصحاب خیر اور متمول طبقہ باہر آئیں "ذات، مذہب، برادری، علاقائی، وطنی، لسانی تنگنیوں" سے اوپر اٹھ کر محض انسانی رشتوں کی بنیادپر حالات گزیدہ دُکھی انسانیت کی مدد کریں ، راحت رسانی اور فلاح انسانیت کے کاموں میں بیش بہا خدمات میں جُٹ جائیں  اور خیر امت ہونے کا عملی ثبوت پیش کریں! ہمارے مذہب کی یہ بنیادی تعلیم ہے۔ محبوبیت خداوندی کے حصول کا یہ اقرب ترین ذریعہ ہے۔۔۔
الحمد للہ ملک کے علماء وملی تنظیمیں راحت رسانی میں اپنی بساط کی حد تک مصروف عمل ہیں، ہر فرد اپنے طور پر اس عمل خیر میں لگ جائے تو غریب ومحنت کُش طبقہ فقر و افلاس کے باعث ہلاکتوں سے بچ سکتا ہے ۔
شکیل منصور القاسمی 
بیگوسرائیوی 
4 شعبان 
1441ہجری

ماسک پہن کر نماز پڑھنا

ماسک پہن کر نماز پڑھنا 
نارمل حالات میں دوران نماز ناک منہ ڈھکنا مجوسیوں کے عمل سے مشابہت رکھنے کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہے:
"يكره اشتمال الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وكل عمل قليل بلا عذر".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 652)
متعدی وموذی و مہلک امراض سے بچاؤ جیسے معقول ومعتبر عذر کی وجہ سے ناک منہ ڈھک کر نماز پڑھنے کی رخصت ہے 
کوئی کراہت نہیں 
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی 
۲۲مارچ سنہ ۲۰۲۰
-------
ضروت اور حاجت کے درمیان عندالفقھاء فرق ہے. اس کے پیش نظر یہ جزئیہ بمطابق غالب گمان منطبق نہ ہو 
باقی  اللہ اعلم بالصواب 
 :"يكره اشتمال الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وكل عمل قليل بلا عذر".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 652):
یہ عبارت ماسک لگاکر مسئلہ نماز پڑھنے پر کس اعتبار. سے منطبق ہوگی؟؟؟ 
جواب دیکر عند اللہ ما جور ہوں
الجواب وباللہ التوفیق:
ماسک لگاکر نماز پڑھنے کا مسئلہ عذر اور بلاعذر پہ متفرع ہ، 
یہاں عذر ہے؛ 
اس لیے ناک منہ ڈھکنا کراہت سے خالی ہوگا 
“تلثم” ناک منہ ڈھکنے کو کہتے ہیں 
عذر کی صورت میں ایسا کرنا مکروہ نہیں ہے 
"(قوله: والتلثم) وهو تغطية الأنف والفم في الصلاة؛ لأنه يشبه فعل المجوس حال عبادتهم النيران، زيلعي. ونقل ط عن أبي السعود: أنها تحريمية".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 652)
فقط 
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_47.html?m=1

کیا چاند الٹا ہوگیا ہے؟

کیا چاند الٹا ہوگیا ہے؟

سوال: آج بہت سے لوگ سوال کررہے ہیں کہ چاند الٹا نظر آرہا ہے، میں نے بھی دیکھا، مجھے بھی الٹا نظر آیا، آپ بتائیں کہ ایسا کیوں ہے؟ 
مستفتی: 
جاوید احمد، 
لہر پور، سیتا پور

بسم اللہ الرحمن الرحیم، 
الجواب وباللہ التوفیق:۔ 
ابھی ۲؍ بجے سے پہلے احقر کے پاس متعدد لوگوں کے فون آئے، انہوں نے بھی یہی کہا کہ چاند الٹا نظر آرہا ہے، ایسا کیوں؟ احقر بھی گھر سے باہر نکلا اور چاند دیکھا تو معلوم یہ ہوا کہ چاند حسب معمول سیدھا نکلا ہوا ہے، الٹا نہیں ہے؛ البتہ لوگ الٹے ہوکر دیکھ رہے ہیں، یعنی: عربی مہینہ کی انتیسویں یا تیسویں تاریخ میں چاند دیکھنے کا طریقہ  یہ ہوتا ہے کہ چاند دیکھنے والی کی پشت مشرق کی طرف اور چہرہ مغرب کی طرف ہوتا ہے اور اسی حساب سے لوگوں کے ذہنوں میں چاند کی ہیئت بیٹھی ہوئی ہے۔ اور اِس وقت(۲؍ بجے، دوپہر) ابھی چاند مشرق کی طرف ہے؛ کیوں کہ آج عربی مہینہ کی ۳؍ تاریخ ہے؛ اس لیے مغرب کی طرف پشت کرکے اور مشرق کی طرف رخ کرکے دیکھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے انھیں چاند الٹا نظر آرہا ہے، یہی چاند آج رات جب مغرب کی طرف پہنچے گا اور چاند دیکھنے والا مشرق کی طرف پشت اور مغرب کی طرف رخ کرکے دیکھے گا تو ۲۹ یا ۳۰؍ تاریخ کی طرح ہی نظر آئے گا؛ لہٰذا لوگوں کو چاہیے کہ چاند دیکھنے کی سمت درست کریں، نہ کہ خود الٹی سمت ہوکر چاند کو الٹا سمجھنے کی کوشش کریں ۔فقط واللہ تعالی أعلم، 
کتبہ: محمد نعمان سیتا پوری غفرلہٗ،
 ۲؍ شعبان، سنہ: ۱۴۴۱ھ، 
بہ روز: شنبہ، بہ وقت: ۲؍ بجے، ۱۲ منٹ۔
--------
کیا آپ جانتے ہیں نصف کرہ جنوبی میں چاند الٹا نظر آتا ہے؟
فلکیات ایک شاندار مضمون ہے. اس کارخانہِ قدرت میں ایسے ایسے حیرت کدے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے. آپ جیسے جیسے مطالعہ کرتے جاتے ہیں آپ اس کے سحر میں گرفتار ہوتے جاتے ہیں.
ایسا ہی ایک حیرت انگیز مظہر چاند کے ساتھ جڑا ہے. جب آپ جنوبی نصف کرہ میں چاند کو دیکھتے ہیں تو وہ آپ کو الٹا نظر آتا ہے.
وضاحت:
دراصل شمالی نصف کرہ کی نسبت جنوبی نصف کرہ میں آپ کا پوائنٹ آف ویو بدل جاتا ہے. اس کو مزید سمجھنے کیلئے یہ تصویر دیکھیں.

ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہم rotate ہوگے مگر درحقیقت چاند کو لے کر شمالی نصف کرہ کی نسبت ہمارا اینگل کافی زیادہ بدل جاتا ہے جس بنا پر ہمیں چاند الٹا نظر آتا ہے
اوائل تاریخوں کا چاند زیادہ مسحور کن نظر آتا ہے کیونکہ کریسنٹ الٹا نظر آنا زیادہ نوٹس کیا جاتا ہے.
چاند کا پلین تقریباً خط استوا پر ہے اس لئے اگر آپ خط استوا سے کریسنٹ کو دیکھیں گے تو ویسا ہی نظر آئے گا جیسے ہمارے موبائل میں سمائل ایموجی ہوتا ہے.
ایسا صرف چاند کے ساتھ نہیں ہے، کوئی بھی ستارہ، نیبولا یا گلیکسی وغیرہ اگر خط استوا کے پلین پر ہوگی تو وہ جنوبی نصف کرہ میں شمالی کی نسبت الٹی نظر آئے گا نیچے orion constellation کی تصویر دی گئی ہے جو کہ شمالی نصف کرہ میں جنبونی نصف کرہ کی نسبت الٹی نظر آتی ہے۔
تحریر: محمد سلیم
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_29.html?m=1

Friday 27 March 2020

متوفیہ بیوی کا مہر مؤجل کس حساب سے دیں اور کس کو دیں؟

متوفیہ بیوی کا مہر مؤجل کس حساب سے دیں اور کس کو دیں؟
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام
زید کی عمر ساٹھ سال ہے اسکی اہلیہ کا نتقال ہوچکا ہے زید پر بیوی کا مہر باقی ہے اب وہ ادا کرنا چاہتا ہے۔ 
سوال یہ ھیکہ اب وہ مہر کیسے ادا کرے اور کس کو دے؟
کیونکہ اس وقت کے مہر کی رقم کی موجودہ زمانے میں کوٸی حیثیت نہیں ہے کیا وہ پرانی رقم مہر میں دے سکتا ہے؟ 
کسی نے بتایا ہے کہ اس رقم کو صدقہ کردو
 تو کیا صدقہ کردینے سے مہر ادا ہوجاٸیگا یا اس پر وارثوں کا حق ہوگا؟
بینوا تٶجروا
الجواب وباللہ التوفیق:
دیر طلب مہر (مہر مؤجل) شوہر کے ذمہ قرض ہوتا ہے 
انتقال احد الزوجین سے قبل یہ قرض مختلف وجوہات کے باعث کم ہونے یا سقوط کا بھی احتمال رکھتا ہے 
لیکن خلوت صحیحہ اور زوجین میں سے کسی ایک کے انتقال سے یہ مہر قطعی طور پہ شوہر کے ذمہ واجب الاداء ہوجاتا ہے 
بیوی اگر مرجائے تو اس کا ادھار مہر دین شوہر کے ذمہ اس کا واجبی حق ہے 
اگر مہر دین رقم کی شکل میں متعین تھا تو ساٹھ سال یا اسی سال کے بعد بھی وہ متعینہ رقم ہی واجب الاداء ہوگی.
اس کی مالیت کی کمی بیشی سے کوئی فرق نہیں پڑتا 
بعد انتقال بیوی کا مہر دین اس کے ترکہ میں شامل ہوجائے گا اور بیوی کے وارثین حسب حصص شرعیہ اس کے حقدار ہونگے۔ شوہر اسے ہرگز صدقہ نہیں کرسکتا، شوہر کو یہ اختیار قطعی نہیں ہے 
شوہر خود بھی حصہ رسد کے مطابق اس کا حقدار ہوگا.
متوفیہ بیوی کے وارثین کی فہرست اور مہر دین کی رقم سمیت کل متروکہ جائیداد کی تفصیل وفہرست بناکر پیش کریں تو ہر وارث کو ملنے والے حصہ شرعی سے آگاہ کردیا جائے گا۔
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_27.html?m=1

Tuesday 24 March 2020

رمضان المبارک وعیدین کی متوقع تاریخیں کیا ہیں؟

رمضان المبارک وعیدین کی متوقع تاریخیں کیا ہیں؟

برصغیر ہند پاک میں سال 1441ھ کے رمضان المبارک وعیدین کی متوقع تاریخیں کیا ہیں؟
رمضان المبارک 1441ھ کی تیاری اور آئندہ آنے والے مہینوں میں اپنے نظام الاوقات کو ترتیب دینے کے لئے آپ کے ذہن میں عیدین کی تاریخیں ہونا ضروری ہیں۔
یہ تاریخیں جامعۃ الرشید کے شعبہ فلکیات کی طرف سے جاری کردہ ہجری کیلنڈر 1441ھ  سے حاصل کی گئی ہیں ۔
ہلالِ شعبان 1441ھ کا امکان:
بدھ 29 رجب (25 مارچ) کی شام اکثر مقامات پر چاند نظر آنے کا واضح امکان ہے۔
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_98.html?m=1

سینیٹائیزر پاک ہے یا ناپاک؟

سینیٹائیزر پاک ہے یا ناپاک؟

کھجور انگور اور منقی سے بنی الکوحل نجس اور حرام ہے 
پھل یا دیگر مائعیات سے کشید کردہ الکحول نجس وحرام نہیں ہے 
جراثیم کُش لیکویٹ سینیٹائیزر جو ان دنوں ہاتھ دھونے کے لئے زیادہ مستعمل ہے 
ماہرین امراض جلد کی ہدایات کے مطابق ہینڈ سینیٹائیزر کا استعمال جلد کے لئے کافی نقصان دہ ہے 
لیکن چونکہ الکوحل مخلوط ہونے کی وجہ سے کورونا وائرس کے لئے اس کی طلب زیادہ ہوگئی ہے 
اس میں ملا ہوا الکوحل کھجور اور انگور کے علاوہ سے کشید کیا جاتا ہے 
اس لئے اس کا خارجی استعمال نہ تو نجس ہے نہ ہی ناقض وضو!
اگر اس میں مخلوط الکحل انگور اور کھجور کے علاوہ کسی اور اشیاء سے بنایا گیا ہو توامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب میں اس کا حکم سہولت پر مبنی ہے اسی طرح دوائیوں اور کسی دوسری مباح اشیاء میں اس کا استعمال حرام نہیں ہے جب تک کہ یہ نشے کی حد یا مقدار کے برابر نہ پہنچ جائے کیونکہ یہ دیگر دوسرے مرکبات میں استعمال ہوتا ہے اور اس پر نجاست کا حکم نہیں ہے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق۔ آج الکحل کا بیشتر حصہ دوائیوں، عطروں اور دوسری چیزوں میں استعمال ہوتا ہے جوکہ انگور یا کھجور سے نہیں بنایا جاتا بلکہ دانوں، چھلکوں یا پیٹرول سے بنایاجاتا ہے یا ان جیسی دوسری چیزوں سے بنایا جاتا ہے 
آج کل اس (معاملے) میں کشادگی پائی جاتی ہے. امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق کیونکہ "اس میں عموم ِ بلوی ہے (یعنی اکثریت کا اس پر عمل ہے)۔‘‘ (تکملہ فتح الملہم / مفتی تقی عثمانی صاحب)
میں ہے:
"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسة عند الإمام ابي حنيفة رحمه الله تعالي. و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخري، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل الي حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل علي مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالي، و لايحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخري ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبةً مع المواد الأخري، ولايحكم بنجاستها أخذًا بقول أبي حنيفة رحمه الله.
و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع". (كتاب الأشربة، حكم الكحول المسكرة، ٣/ ٦٠٨، ط: مكتبة دار العلوم)
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_81.html?m=1

دفع وباء کے واسطے اذان دینے کا حکم

دفع وباء کے واسطے اذان دینے کا حکم
دریافت طلب امر یہ ہے کہ آج صبح سے واٹس ایپ پر ایک میسیج چل رہا پے کہ رات دس بجے اپنے اپنے گھر کی چھت سے اذان دی جاۓ اور لوگوں کے اذان دینے کی آوازیں بھی آرہی ہے. اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
بارش اور وبا کے وقت اذان دینا شرعاً ثابت نہیں، اس کو سنت یا مستحب سمجھنا درست نہیں۔ 
(أحسن الفتاویٰ : ۱/۳۷۵ ، فتاویٰ رشیدیہ: ۱۵۲)
تسہیل بہشتی زیور
فقہی اعتبار سے یہ حکم ھے
-------
سوال (۲۶۹۵): قدیم ۴/ ۳۱۳- اذان دینا واسطے دفع وبا کے جائز ہے یا ناجائز؟ اور جو لوگ جواز استدلال میں حصن حصین إذا تغولت الغیلان نادوا بالأذان پیش کرتے ہیں یہ استدلال ان کا درست ہے یا نہیں ؟ اور اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟ اور ایسے ہی یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ شیطان اذان سے اس قدر دُور بھاگ جاتا ہے جیسے روحا اور طاعون اثر شیاطین سے ہے اس کا کیا مطلب ہے؟
الجواب: اس میں دو حدیثیں معروف ہیں: ایک حصن حصین کی مرفوع إذا تغولت الغیلان نادوا بالأذان (۱)۔ دوسری صحیح مسلم کی موقوف حضرت سہل سے:
قال: أرسلني أبي إلی بني حارثۃ قال: ومعي غلام لنا أو صاحب لنا فناداہ مناد من حائط باسمہ، قال: وأشرف الذي معي علی الحائط فلم یرشیئا -إلی قولہ- إذا سمعت صوتا فناد بالصلوٰۃ، فإني سمعت أبا ہریرۃ یحدث عن رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ قال: إن الشیطان إذا نودي بالصلوٰۃ ولی الشیطان ولہ حصاص (۲)۔
حصن حصین میں مسلم کا جو حوالہ دیا ہے وہ یہی حدیث ہے اور دونوں حدیثیں مقید ہیں ۔ إذا تغولت اور إذا سمعت صوتا کے ساتھ اور تغول کے معنی حرزثمین میں نہایہ سے منقول ہیں یتغول تغولاً أی یتلون تلونا۔ اور حاصل اس حدیث کا لکھا ہے:
إذا رأی أشیاء منکرۃ أو تخیلت لہ خیالات مستنکرۃ أو تلونت لہ أجسام مکروھۃ۔ اھ (۱)۔
اور جو حکم مقید ہوتا ہے کسی قید کے ساتھ اس میں قائلین بمفہوم المخالف کے نزدیک تو عدم القید مفید ہوتی ہے عدم الحکم کو اور غیرقائلین بالمفہوم کے نزدیک گو عدم الحکم کو مفید نہ ہو مگر حکم کو بھی مفید نہیں ؛ بلکہ عدم القید کی صورت میں حکم اپنے وجود میں محتاج دلیل مستقل کا ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ طاعون میں دونوں قیدیں منتفی ہیں ؛ کیونکہ اس میں نہ شیاطین کا تشکل اور تمثل ہے اور نہ اُن کی آواز مسموع ہوتی ہے صرف کوئی اثر مبطن ہے جس کے بارہ میں یہ حدیث مرفوع آئی ہے۔
فما الطاعون قال رسول اللّٰہ ﷺ: وخز أعداء کم من الجن أخرجہ أحمد عن أبی موسیؓ لحذا في بعض الرسائل عن فتح الباري للحافظ ابن حجر (۲)۔
پس جب اس میں قیدیں منتفی ہیں تو حدیثین مذکورین سے اس میں حکم اذان کا بھی ثابت نہ ہوگا، پس دوسری دلیل شرعی کی حاجت ہوگی، اور چونکہ بوجہ اشتمال اذان کے حی علی الصَّلوٰۃ اور حی علی الفلاح پر غیر صلوٰۃ کے لئے اذان کہنا حکم غیر قیاسی ہے اور ایسے حکم کاتعدیہ قیاس سے صحیح نہیں (۳) اس لئے وہ دلیل شرعی کوئی نص ہونا چاہئے محض قیاس کافی نہیں اور طاعون میں کوئی نص موجود نہیں ، اگر کہا جاوے کہ حدیث مسلم میں صحابی کا سماع صوتِ شیطان کے وقت حکم بالاذان کو معلل کرنا علت تولی شیطان بالأذان کے ساتھ متقضی ہے صحت تعدیہ اس حکم کو دوسرے محل پر بھی جہاں دفع شیطان کی حاجت ہو اور طاعون میں اس کی حاجت ہے، پس اُسی علت سے طاعون کو بھی سماع صوت پر قیاس کر لیا جاوے گا، جواب یہ ہے کہ اول تو بدلیل مذکور یعنی بوجہ اشتمال اذان کے حی علی الصلوٰۃ وحی علی الفلاح پر غیرنماز کے لئے اذان کہنا حکم مخالف قیاس ہے اور ایسے حکم کا تعدیہ قیاس سے جائز نہیں ہوتا؛ بلکہ مورد نص پر مقتصر رہا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ غیر صلوٰۃ کے جن مواقع پر اذان وارد ہوئی ہے اُن میں احادیث سے استدلال کیا گیا ہے، چنانچہ ردالمحتار میں ایسے مواقع نقل کرکے کہا ہے:
لأن ماصح الخبر فیہ بلا معارض فھو مذھب للمجتھد۔ اورآگے کہا ہے: ونقل الأحادیث الواردۃ في ذٰلک۔ 
اور یہی وجہ ہے کہ جس میں نص نہ تھی اس کو علماء نے رد کردیا ہے۔ چنانچہ شامی نے موقع مذکور میں کہا ہے:
قیل؛ وعند إنزال المیت القبر قیاساً علی أول خروجہ للدنیا، لکن ردہ ابن حجر في شرح العباب (۱)۔
اوراحادیث بالا میں ممکن ہے کہ صحابیؓ نے رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے بالخصوص یہ حکم سُنا ہو جیسا غیر مدرک بالرائے میں حدیث موقوف کو مرفوع حکمی کہا جاتا ہے، اور حدیث تولی کو ذکر کرنا تعلیل کے لئے نہ ہو بلکہ بیان حکمت منصوص کے لئے ہو، اور اگر اس سے غض بصر کرکے اس حکم کو قیاس ہی مان لیا جاوے تب بھی صحت قیاس کے لئے اوّل تو مجتہد ہونا قائس کا شرط ہے، اورطاعون میں اذان کہنا کسی مجتہد سے منقول نہیں ، اور اب قیاس مفقود ہے، دوسرے قیاس کی صحت کے لئے اشتراک علّت موثرہ کا درمیان مقیس اور مقیس علیہ کے شرط ہے اور یہاں علّت مؤثرہ اگر محض الی دفع الشیطان ہوتو لازم آتا ہے کہ جتنے امور از قسم تصرفات خفیہ شیطانیہ ہیں سب کے لئے اذان مشروع ہو، مثلاً استحاضہ کی نسبت حدیث میں ہے (رکضۃ من رکضات الشیطان (۲)۔ تو اس کا علاج بھی اذان سے مشروع ہونا چاہئے ولاقائل بہ۔ اس سے معلومہوا کہ یہاں علّت مؤثرہ میں کوئی اور وصف بھی معتبر ہے سو ممکن بلکہ غالب یہ ہے جیسا کہ اُن مواقع میں تأمل کرنے سے جہاں اذان بہیئت اذان صلوٰۃ وارد ہوئی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ وہ وصف یہ ہو کہ وہ حادثہ دفعۃً پیش آجائے اور فی الفور ہی اس کے علاج کی احتیاج ہو، چنانچہ وہ مواقع یہ ہیں :
عند مزدحم الجیش، وعند الحریق، وعند تغول الغیلان، وخلف المسافر، ولمن ضل الطریق في أرض قفر، کذا في ردالمحتار۔
ان سب مواقع میں وصف مذکور مشترک ہے، اور جو اذان بہیئت اذان صلوٰۃ نہ ہو اس میں بحث نہیں ۔
کالأذان في أذن المولود، والمھموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقہ من إنسان أو بھیمۃ کما في ردالمحتار أیضًا (۱)۔
اور ظاہر ہے کہ طاعون میں یہ وصف نہ وقوعاً ہے، چنانچہ اس کا عروض ومعالجہ دونوں اس قدر متدرج اور ممتد ہیں کہ عین اُس کے دوران میں خود نماز کی متعدد اذانیں ہو جاتی ہیں جو دفع اثر جنّات کے لئے کافی ہے، خود اُس کے لئے مستقل اذان کی کچھ حاجت نہیں ، اور یہی سرّ ہے وصف مذکور کے علّت مؤثرہ ہونے میں؛ کیونکہ جو امر فوری نہ ہو اس کے لئے اذان صلوٰۃ کافی ہو سکتی تھی؛ البتہ جہاں کان میں اذان کہی جاوے، چونکہ اذان صلوٰۃ کان سے منھ قریب کرکے نہیں ہوتی؛ لہٰذا اُس میں یہ علت نہ ہوگی، اور نہ طاعون میں یہ وصف عملاً ہے؛ کیونکہ جب مریض کو عین عروض مرض کا وقت ہو اُس وقت کوئی بھی اذان نہیں کہتا؛ بلکہ شب وروز میں کیف ما اتفق یا کسی وقت کی تعیین کے ساتھ اذان کا معمول ہے خواہ عروض مرض اس کے قبل ہو یا بعد ہو سو اوپر معلوم ہو چکا ہے کہ بلا وصف فور پانچ وقت کی اذان ہی کافی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اذان میں جو علاوہ خاصیت تولی شیطان کے اور خواص حدیثوں سے ثابت ہوئے ہیں مثل اجابت دُعاعنداللہ اور شہادت اشیاء علی ایمان المؤذن (۱) اُن کی تحصیل کے لئے مستقل اذان کی کسی نے اجازت نہیں دی؛ کیونکہ اذان نماز کی اس کے لئے کافی ہے، ورنہ چاہئے کہ جب دُعا کرنا ہو پہلے اذان کہہ لینا جائز ہو، خواہ کوئی وقت ہو، یا اسی طرح جب اشیاء کو شاہد ایمان بنانا ہو، ولا قائل بہ، اور جاننا چاہئے کہ جواب ثانی میں جوکہ علی سبیل التنزل ہے تبرعاً غض بصر کر لیا گیا ہے تاکہ طاعون میں اذان کا ثبوت اس تقدیر پر بھی نہ ہوسکے، ورنہ نفس الامر میں یہ حکم غیرقیاسی ہے، پس اس قیاس سے زلزلہ وغیرہ کے وقت بھی اذان کی گنجائش نہیں ہوسکتی۔ تیسرے خود یہی امر معرض کلام میں ہے کہ آیایہ طاعون مسبب وخزجن سے ہے جیسا کہ اطلاق حدیث اس کا مرجح ہے یا بعض طاعون اس کا مسبب ہے جیسا کہ مہملہ کا قوت جزئیہ میں ہونا اس کامصحح ہے جب خود مبنی یعنی وخزجن ہی مشکوک فیہ ہے تو مبنی یعنی اذان کا کیسے ثبوت ہو جاوے گا۔ چوتھے اس میں بہت سے مفاسد لازم آتے ہیں ، مثلاً التباس مصلین بوجہ غلبہ جہل اہل زمانہ کے اور توحش ضعیف القلب لوگوں کا کہ وہ ان کے ذہن میں تخیل ہجوم مرض کی تجدید کردیتا ہے اور عوام الناس کا اذان کے بھروسے اصلاح اعمال واستغفار ودعاء الٰہی سے بے فکر ہوجانا اور اس کو احکام مقصودہ سے سمجھنے لگنا وغیرہ وغیرہ تو ایسی حالت میںتوجائز بھی ناجائز ہوجاتا ہے (۱) چنانچہ تغول وغیرہ کے مواقع میں جو اذان وارد ہے اس میں بھی عدم لزوم مفسدہ شرط، پس تقریر مذکور سے ثابت ہوگیا کہ حدیث تغیل سے استدلال کرنا اس باب میں درست نہیں، اور یہ اذان محض إحداث في الدین ہے اور یہی وجہ ہے کہ طاعون عمواس میں باوجود شدت احتیاج کے کسی صحابی سے منقول نہیں کہ طاعون کے لئے اذان کا حکم دیا ہو یا خود عمل کیا ہو، اور سوال ثانی میں حدیث کا مدلول تو ظاہر، اگر اس کے متعلق کوئی خاص امر پوچھنا ہو تو تصریح اور تعیین کرنا چاہئے، اور سوال ثالث میں جس حدیث کی طرف اشارہ ہے اس کے تحقق کی صورت قریب الی الفہم یہ ہو سکتی ہے کہ وخزجن سے مادہ سمیہ کا حدوث ہوجاتا ہو جس سے ہیجان دم یا انصباب دم عارض ہوتا ہو خواہ ہمیشہ یا کبھی کبھی، جیساکہ اوپر گذرا، باقی حقیقت حال اللہ کو معلوم ہے۔ ربیع الثانی ۱۳۲۵؁؁ ھ
---------------------------------------------
مسئلے کی تحقیق وتفصیل
کسی وبا طاعون یا زلزلہ کے وقت اذان پکارنا:
سوال: دفعِ وبا (مثلاً طاعون) کے واسطے اذان دینا جائز ہے یا ناجائز؟ اور جو لوگ استدلال میں ’’حصنِ حصین‘‘ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں:إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأَذَانِ۔ان کا یہ استدلال درست ہے یا نہیں؟ اور اس حدیث کا کیا مطلب ہے اور ایسے ہی یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ شیطان اذان سے اس قدر دوربھاگتا جاتا ہے جیسے (مدینہ کے فاصلہ پر ایک مقام کا نام ہے) اور طاعون اثرِ شیطان سے ہے اس کا کیا مطلب ہے؟
الجواب:
اس باب میں دو حدیثیں معروف ہیں، ایک ’’حصن حصین‘‘ کی مرفوع حدیث: إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأَذَانِ۔
دوسری حدیث ’’صحیح مسلم‘‘ کی حضرت سہل رضی اللہُ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: إِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا فَنَادِ بِالصَّلَاۃِ؛ فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ: إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلَاۃِ وَلَّی الشَّیْطَانُ وَلَہٗ حُصَاصٌ۔
اور ’’حصنِ حصین‘‘ میں ’’مسلم‘‘ کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ یہی حدیث ہے۔ اور دونوں حدیثیں مقید ہیں: ’’إِذَا تَغَیَّلَتْ‘‘ ’’وَإِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا‘‘ کے ساتھ، اور جو حکم مقید ہوتا ہے کسی قید کے ساتھ اس میں قید نہ پایے جانے کی صورت میں وہ حکم اپنے وجود میں مستقل دلیل کا محتاج ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ طاعون میں دونوں قیدیں نہیں پائی جاتیں، کیوں کہ نہ اس میں شیطان کا تشکل وتمثل (یعنی صورتیں نمودار ہوتی ہیں) اور نہ ان کی آواز سنائی دیتی ہے، صرف کوئی باطنی اثر ہے (جس کی وجہ سے طاعون ہوتا ہے)۔ پس جب اس میں دونوں قیدیں نہیں پائی گئیں تو مذکورہ دونوں حدیثوں سے اس میں اذان کا حکم بھی ثابت نہ ہوگا۔
اور دوسری شرعی دلیل کی حاجت ہوگی (اور دوسری کوئی ایسی دلیل ہے نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ طاعون یا اس جیسی وبا کے وقت اذان پکاری جائے)۔
اور قیاس بھی نہیں کرسکتے، کیوں کہ اذان حی علی الصلوٰۃ وحی علی الفلاح پر مشتمل ہے، اس لیے غیرصلوٰۃ کے لئے اذان کہنا غیرِقیاسی حکم ہے۔ قیاس سے ایسے حکم کا تعدیہ نہیں، اس لیے وہ دلیلِ شرعی کوئی نص ہونا چاہئے، محض قیاس کافی نہیں اور طاعون میں کوئی نص موجود نہیں۔
الغرض نفس الامر میں یہ حکم غیرِقیاسی ہے پس اس قیاس سے زلزلے وغیرہ کے وقت بھی اذان کی گنجائش نہیں ہوسکتی۔
(خلاصہ کلام یہ کہ) اس بات میں حدیث تغیل سے استدلال کرنا درست نہیں۔ اور یہ اذان (جو طاعون یا زلزلہ کے وقت دی جایے) إحداث في الدین (یعنی بدعت) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاعونِ عمو اس میں (جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں ہوا) شدتِ احتیاط کے باوجود کسی صحابی سے منقول نہیں کہ طاعون کے لئے اذان کا حکم دیا ہو یا خود عمل کیا ہو.
واللہ اعلم
اشرف العملیات:120/121
افادات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ
مؤلف: حضرت مولانا مفتی محمد زید مظاہری ندوی صاحب
-----------------------------------------------------------------------
وبائی امراض کے  دفعیہ کے لئے اذان دینے کا شرعی حکم
_________
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب باسم الملک الوھاب۔
واضح ہوکہ اذان ایک مخصوص طریقہ عبادت کا نام ہے ...... اور اہم عبادت نماز کے لئے داعی ہے. چونکہ اذان کی وضع خاص عبادت کے لئے ہے اسی لئے  کسی دوسرے امر میں اذان کہنا نقلا وعقلا درست نہیں .. نیز نماز کے علاوہ اذان دینے کے جو مواقع  ائمہ مجتہدین نے ذکر کئے ہیں ان میں بھی مذکورہ مواقع پر اذان دینے کا ذکر نہیں ہے (ان مواقع کی تفصیل علامہ شامی نے ردالمحتار میں اور ابن نجیم مصری نے البحرالرائق میں کتب شافعیہ کے حوالے سے  ذکر کی ہے)  اس لئے اگر سنت اور مستحب سمجھے بغیر محض تدبیر اور علاج کے طور پر دفع بلاء اور مصائب کے لئے اذان دی جائے تو شرعاً اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے جیساکہ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی نوراللہ مرقدہ نے "کفایت المفتی" جلد :۳/ ۵۱ ، کتاب الصلاۃ، 
اور فقیہ الامت مفتی محمود الحسن گنگوہی علیہ الرحمہ نے "فتاوی محمودیہ" جلد : ۵/ ۴۰۷، باب الاذان، میں تحریر فرمایا ہے 

مزید بعض کتب حدیث میں موقوف یا ضعیف روایت  یا بعض مجتھدین کی آراء ملتی ہیں لیکن غور وفکر سے واضح ہوتا ہے کہ انکا وہ عمل اجتماعی نہیں تھا   اور انکا اذان کہنا شیطانی اثرات کو دور کرنے کے لئے تھا ....... اور حدیث میں ہے کہ اذان کی آواز سے شیطان بھاگتا ہے اس لئے بلاکسی التزام کے کبھی کسی مرض یا وبا سے حفاظت کے لئے بطور علاج  اذان کی گنجائش نکل سکتی ہے .. موجودہ مرض ....... ممکن ہے کہ بندوں کے گناہوں کے اثرات ہوں. اس لئے ایسے موقع پر نماز پنجگانہ دعاء کثرت استغفار اور صدقہ کا معمول ہونا چاہئے. نماز دعاء استغفار صدقہ بڑی بڑی بلاؤں اور مصیبتوں کو ٹال دیتے ہیں یہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے
اس لئے معروف طریقہ چھوڑکر غیر معروف طریقہ (اذان دینا)   اختیار کرنا غیر معقول بات ہے بلکہ بدعت کی طرف لے جانے والا عمل بھی ہوسکتا ہے جو بھلائی کے بجائے شر کا پیش خیمہ ہوگا. ان تفصیلات کے بعد اب اصل جواب سمجھیں 
لوگوں کو ترغیب دے کر ... اجتماعیت کے ساتھ .... اذان دینا بالکل جائز نہیں جیساکہ آج کل اشتہارات وپوسٹس کے ذریعہ لوگوں کو بتایا جارہا ہے. اگر کسی نے ذاتی طور پر اذان کہہ دی اور معمول نہیں بنایا ... اور مقصد علاج ہے تو گنجائش ہے لیکن چونکہ عوام اس کی حدود وقیود کا پاس ولحاظ نہیں رکھتے اور اسے شریعت کا حکم سمجھنے لگتے ہیں، نیز ملک میں پھیلی وبائی مرض کی وجہ سے اگر ہر شخص اپنے اپنے گھروں کی چھتوں پر اذان کا اہتمام کرے تو ظاہر ہے کہ عوام الناس شریعت کا ایک حکم سمجھ کر اس پر عمل کریں گے حالانکہ شریعت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ دوسری طرف شریعت کا ضابطہ ہے کہ اگر کسی امر مباح کو لازم اور ضروری قرار  دیا جانے لگے اور عوام اسے سنت یا مستحب سمجھنے لگے تو پھر وہ مباح عمل مباح نہیں رہتا بلکہ وہ مکروہ اور قابل ترک عمل ہوجاتا ہے، بلکہ فقہاء نے تو امر مستحب کے اصرار کو  بھی ممنوع اور مکروہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ  "تنقیح الفتاوی الحامدیۃ" میں ہے: 
كل مباح يؤدي إلى زعم الجهال سنيۃ أمر أو وجوبہ فهو مكروه ، كتعيين السورة للصلاة، وتعيين القراءة لوقت ونحوه . (تنقيح الفتاوى الحامديۃ : ٢/ ٥۷۴ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ارشاد الساری میں ہے: 
إن المندوب ربما انقلب مکروها إذا خیف علی الناس أن یرفعوہ عن رتبتہ۔ (إرشاد الساري شرح صحیح البخاري : ٢/ ۵۸۶،  کتاب الأذان، باب الانتقال والانصراف عن الیمین والشمال  دارالفکر بیروت)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
من أصر علی مندوب وجعلہ عزماً ولم یجعل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال ، فکیف من أصر علی بدعۃ أو منکر ۔ (مرقاۃ المفاتیح : ۳/۲۶، المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)
چنانچہ فقیہ النفس حضرت اقدس مفتی عزیز الرحمن صاحب نوراللہ مرقدہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: 
سوال ( ۹۳): زمانہ قحط اور وباء میں اور دیگر حوادثات میں اور دفن میت کے بعد اذن کہنا کیسا ہے۔
                  جواب
ان حوادثات میں اذان شارع علیہ السلام سے اور اقوال وافعال سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے بلکہ بدعت ہے۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند: ۲/ ۶۷، باب الاذان، عنوان : دفن اور قحط وباء اذان دینا ثابت ہے یا نہیں، ۔۔ ۱/ ۷۳، باب الاذان، سوال وجواب نمبر: ۱۱۱، عنوان: خشک سالی اور طاعون کے موقع پر اذان دینا ثابت ہے یا نہیں، مکتبہ دارالاشاعت کراچی، پاکستان) 
============================
مفتی نظام الدین صاحب اعظمی سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: 
"اذان طاعت وقربت ہے اس کا اجراء شارع علیہ السلام کی تجویز اور فقہاء کرام کی تخریج وبیان پر موقوف ہے"
حررہ العبد سعود مرشد بانکوی عفاللہ عنہ
خادم جامعہ محمودیہ اشرف العلوم جامع مسجد اشرف آباد جاجمؤ کانپور
۲۸ رجب المرجب ۱۴۴۱ ھ مطابق ۲۵ مارچ ۲۰۲۰
_________________
سوال: بیماری کے موسم میں جو اذانیں کہی جاتی ہیں ان کا کیا حکم ہے؟
فرمایا: بدعت ہے، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وبا جنات کے اثر سے ہوتی ہے اور اذان سے جنات بھی بھاگتے ہیں۔ اس واسطے اس اذان میں کیا حرج ہے؟ ایک شخص کو میں نے جواب دیا کہ اذان شیطان کے بھگانے کے لیے ہے، مگر کیا وہ اذان اس کے لیے کافی نہیں جو نماز کے لیے کہی جاتی ہے؟ اگر کہا جائے کہ وہ صرف پانچ دفعہ ہوتی ہے، تو اس وقت شیاطین ہٹ جاتے ہیں، مگر پھرآجاتے ہیں، تو یہ تو اس اذان میں بھی ہے کہ جتنی دیر تک اذان کہی جائے اتنی دیر ہٹ جائیں گے اور پھر آجائیں گے۔ اور نماز کی اذان سے تو رات دن میں پانچ دفعہ بھی بھاگتے ہیں۔ یہ تو صرف ایک ہی دفعہ ہوتی ہے ذرا اوپر بھاگ جائیں گے اور اس کے بعد تمام وقت رہیں گے۔ تو شیاطین کے بھاگنے کی ترکیب صرف یہ ہوسکتی ہے کہ ہر وقت اذان کہتے رہو۔ پھر صرف ایک وقت کیوں کہتے ہو؟
آج کل بعض علما کو بھی اس کے بدعت ہونے میں شبہ پڑگیا ہے، حالاں کہ یہ یقیناً بدعت ہے، اور اس کی کچھ بھی اصلیت نہیں، یہ صرف اختراع ہے۔
مسئلے کی تحقیق وتفصیل
کسی وبا طاعون یا زلزلہ کے وقت اذان پکارنا:
سوال: دفعِ وبا (مثلاً طاعون) کے واسطے اذان دینا جائز ہے یا ناجائز؟ اور جو لوگ استدلال میں ’’حصنِ حصین‘‘ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں: إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأَذَانِ۔ان کا یہ استدلال درست ہے یا نہیں؟ اور اس حدیث کا کیا مطلب ہے اور ایسے ہی یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ شیطان اذان سے اس قدر دوربھاگتا جاتا ہے جیسے (مدینہ کے فاصلہ پر ایک مقام کا نام ہے) اور طاعون اثرِ شیطان سے ہے اس کا کیا مطلب ہے؟
الجواب: اس باب میں دو حدیثیں معروف ہیں، ایک ’’حصن حصین‘‘ کی مرفوع حدیث :إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأَذَانِ۔
دوسری حدیث ’’صحیح مسلم‘‘ کی حضرت سہل ؓسے مرفوعاً مروی ہے:
إِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا فَنَادِ بِالصَّلَاۃِ؛ فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ: إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلَاۃِ وَلَّی الشَّیْطَانُ وَلَہٗ حُصَاصٌ۔
اور ’’حصنِ حصین‘‘ میں ’’مسلم‘‘ کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ یہی حدیث ہے۔ اور دونوں حدیثیں مقید ہیں: ’إِذَا تَغَیَّلَتْ‘‘ ’’وَإِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا‘‘
 کے ساتھ، اور جو حکم مقید ہوتا ہے کسی قید کے ساتھ اس میں قید نہ پایے جانے کی صورت میں وہ حکم اپنے وجود میں مستقل دلیل کا محتاج ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ طاعون میں دونوں قیدیں نہیں پائی جاتیں، کیوں کہ نہ اس میں شیطان کا تشکل وتمثل (یعنی صورتیں نمودار ہوتی ہیں) اور نہ ان کی آواز سنائی دیتی ہے، صرف کوئی باطنی اثر ہے (جس کی وجہ سے طاعون ہوتا ہے)۔ پس جب اس میں دونوں قیدیں نہیں پائی گئیں تو مذکورہ دونوں حدیثوں سے اس میں اذان کا حکم بھی ثابت نہ ہوگا۔
اور دوسری شرعی دلیل کی حاجت ہوگی (اور دوسری کوئی ایسی دلیل ہے نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ طاعون یا اس جیسی وبا کے وقت اذان پکاری جائے)۔
اور قیاس بھی نہیں کرسکتے، کیوں کہ اذان حی علی الصلوٰۃ وحی علی الفلاح پر مشتمل ہے، اس لیے غیرصلوٰۃ کے لیے اذان کہنا غیرِ قیاسی حکم ہے۔ قیاس سے ایسے حکم کا تعدیہ نہیں، اس لیے وہ دلیلِ شرعی کوئی نص ہونا چاہیے، محض قیاس کافی نہیں اور طاعون میں کوئی نص موجود نہیں۔
الغرض نفس الامر میں یہ حکم غیرِ قیاسی ہے پس اس قیاس سے زلزلے وغیرہ کے وقت بھی اذان کی گنجایش نہیں ہوسکتی۔
خلاصہ کلام یہ کہ) اس بات میں حدیث تغیل سے استدلال کرنا درست نہیں۔ اور یہ اذان (جو طاعون یا زلزلہ کے وقت دی جایے) إحداث في الدین (یعنی بدعت) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاعونِ عمواس میں (جو صحابہ ؓ کے زمانہ میں ہوا) شدتِ احتیاط کے باوجود کسی صحابی سے منقول نہیں کہ طاعون کے لیے اذان کا حکم دیا ہو یا خود عمل کیا ہو۔۔
(اشرف العملیات ۔۔۔ پوری تفصیل)
(امداد الاحکام سے بھی کچھ مستفاد ہے۔۔)
واللہ اعلم۔۔
محمد طارق قاسمی دیوبندی ۔۔
تائید  از مجیبین مدنی دارالافتاء
 اس تحریر میں کسی بھی قسم کی کتربیونت کی اجازت نہیں ہے نام وغیرہ حذف کرکے اپنے نام سے شائع کرنا خیانت ہے۔ اور خیانت کرنے والے خدا کے یہاں ماخوذ ہونگے
درج ذیل تمام مفتیان مذکورہ فتویٰ کے تصحیح کرچکے ہیں۔ 
اور بھی کچھ مفتیان کرام نے تصحیح کی ہے۔۔ 
الجواب صحیح۔۔
مفتی طارق قاسمی
مفتی پیغام احمد قاسمی
مفتی عظیم اللہ قاسمی
مفتی مکرم پالنپوری
مفتی زبیر بجنوری
مفتی عبداللہ بن مسعود پالنپوری
مفتی مقصود امدادی
مفتی اسجد قاسمی احمدآباد
مفتی ندیم اختر قاسمی
مفتی مجیب الرحمن رچیٹہ سنبھل
مدرسہ دارالعلوم المحمدیہ روضہ والی مسجد دیپا سراۓ سنبھل
مفتی سرفراز احمد
مفتی محمد لقمان
قاضی شاھدعلی قاسمی
مفتی عظیم شمیم قاسمی
مفتی افتخارالحسن
مفتی عرفان قاسمی گجرات
مفتی عمار مزمل قاسمی
مفتی حمزہ بھوپال
مفتی ارشاد رحمانی
مفتی عثمان غنی سہارنپوری
مفتی اویس امروہہ

 عبدالقادر حسینی سورت
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_75.html?m=1

وباء، طاعون اور کورونا؟

وباء، طاعون اور کورونا؟
           ————
بہت کم وقت میں انسانی معاشرہ کے متعدد افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لینے والے سریع الانتشار ہر  متعدی مرض کو “وباء“  کہتے ہیں۔ جیسے ملیریا، ہیضہ اور پلیگ وغیرہ ۔
عالمی ادارہ صحت نے نومولود “کورونا وائرس“ کو بھی وباء ڈکلئیر کردیا ہے 
وباء کبھی نیشنل ہوتا ہے اور کبھی انٹر نیشنل!
کورونا کی ایذاء رسانی کا دائرہ سرحدوں اور مذہبوں سے ماوراء ہے، اسے قطعی لحاظ نہیں ہوتا کہ آپ موحد ہیں یا مشرک؟  مسلم ہیں یا یہودی وعیسائی وملحد، عربی ہیں یا عجمی؟ حکمراں ہیں یا رعایا؟ امیر ہیں یا غریب؟ 
اس لئے یہ وباء ہی نہیں عالمی وباء ہے۔
ہاں اس وبائی مرض میں اموات کی شرح طاعون و ملیریا کی بہ نسبت برائے نام ایک یا دو فی صد ہے 
جبکہ ملیریا اور طاعون جیسے وبائی مہلک بیماریوں میں شرح اموات کورونا کی بہ نسبت بہت زیادہ چالیس فی صد سے زیادہ ہے 
طاعون (پلیگ) بھی وبائی مہلک مرض ہے، جو بیکٹیریا کے ذریعہ دوسرے شخص میں متعدی ہوجاتا ہے 
طاعون میں گردن، بغل اور ران کی جڑ میں آم کی گٹھلی کے برابر گلٹیاں نکل آتی ہیں، جن میں سوزش  وجلن کے ساتھ ناقابل برداشت تکلیف ہوتی ہے، سخت بخار آتا ہے اور آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں، مریض شدت درد اور شدید بے چینی وبے قرری میں تڑپ تڑپ کر مرجاتا ہے 
جناتی اور شیطانی دخل واثر انگیزی سے یہ بیماری پھیلتی ہے۔ یہ خدائی عذاب ہے 
بنی اسرائیل پہ خدا نے اسے نازل کیا تھا:
فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (البقرہ :59)
چونکہ سریع الانتشار اور متعدی ہونے میں طاعون کی طرح کورونا بھی مشترک ہے؛
اس لئے وباء کا اطلاق دونوں پہ ہوگا، یعنی یہ دونوں کا “مابہ الاشتراک“ وصف ہوا 
البتہ طاعون کی گلٹی وتکلیف کورونا سے علیحدہ ہے؛ اس لئے مرض کی اس تکلیف میں دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوئے اور یہ دونوں کا “مابہ الامتیاز“ وصف ہوا 
منطقی اصطلاح میں ہر طاعون وباء ہوگا؛ لیکن ہر وباء طاعون نہیں ہوسکتی۔
یعنی کورونا کو اصالۃً طاعون نہیں کہہ سکتے؛ جبکہ طاعون  کو کورونا کہا جاسکتا ہے 
کورونا کو اصلاً طاعون نہ کہنے 
کی دلیل یہ ہے کہ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ طاعون مدینہ داخل نہیں ہوسکتا (عَلَى أنْقَابِ المَدِينَةِ مَلَائِكَةٌ لا يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ، ولَا الدَّجَّالُ.صحيح البخاري: 1880.ومسلم (1379)
جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مدینہ ہجرت کے بعد وہاں لوگ طرح طرح کی بلائوں میں مبتلا ہوگئے ، یوں لگتا تھا جیسے دنیا میں سب سے زیادہ وبائیں یہی ہو (قالَتْ: وقَدِمْنَا المَدِينَةَ وهي أوْبَأُ أرْضِ اللَّهِ، قالَتْ: فَكانَ بُطْحَانُ يَجْرِي نَجْلًا تَعْنِي مَاءً آجِنًا۔عن عائشة أم المؤمنين.
صحيح البخاري.الرقم: 1889.)
نیز قبیلہ عُکل اور عُرَینہ کے کچھ نوجوانوں کو مدینہ آنے کے بعد وہاں کی آب وہوا راس نہ آئی اور وہاں کی وباء کی لپیٹ میں وہ آگئے، جس کے بعد صدقہ کے اونٹ کا دودھ وپیشاب پینے کی تجویز بطور علاج انہیں دی گئی۔ (بخاری حدیث نمبر 5727)
ان روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ 
مدینہ میں وباء تو موجود تھی اور موجود رہے گی؛ 
لیکن طاعون داخل نہیں ہوسکتا، اگر طاعون اور وباء ایک ہی چیز کے دو نام ہوں تو مذکورہ روایتوں میں تطبیق کی کیا شکل ہوگی؟
روز مرہ نئے نئے متعدی امراض اور وائرس پیدا ہورہے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگوں کو اپنے لپیٹ میں لے لیتے ہیں، ان سے اموات کی جو کثرت ہورہی ہے انہیں  یقیناً وباء کہا جائے گا 
لیکن طاعون ایک خاص قسم کی وباء ہے، طاعون سے مرنے والے کو شہید کا ثواب ملتا ہے 
کرونا وائرس کو حقیقی طور پہ طاعون کہنا بہت مشکل ہے 
مجاز میں چونکہ توسع ہوتا ہے 
اس لئے مجازا اگر کوئی کورونا کو طاعون کہہ دے تو کہہ سکتا ہے، لیکن اطلاق حقیقی میں بہت  کچھ موقع کلام ہے 
درج ذیل “الاسلام“ سوال وجواب پیج پہ اس سے متعلق تفصیلی تحریر موجود ہے، بعض احباب کی طلب پر اس کا خلاصہ یہاں پیش کردیا گیا:
https://islamqa.info/ar/answers/
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_24.html?m=1

Monday 23 March 2020

اسلامی قانونِ وراثت: غیرمنصفانہ تقسیم کی خطرناکیاں

اسلامی قانونِ وراثت: غیرمنصفانہ تقسیم کی خطرناکیاں 

اسلام کے علاوہ دنیا کے کسی بھی مذہب یا قوم میں میراث کی تقسیم کے حوالے سے اعتدال و انصاف نہیں ہے ، کہیں افراط ہے تو کہیں تفریط !بعض قوموں کے یہاں عورتیں اور بچوں کو حصے ہی نہیں دیئے جاتے ؛ 
جبکہ بعض کے یہاں عورت کو مرد کے برابر حصہ دیدیا جاتا ہے ،تو کہیں طاقتور کمزور کا حصہ ہضم کئے بیٹھا ہے 
اسلام نے اپنے دیگر احکام شرع کی بہ نسبت میراث کے احکام بالکل واضح اور دو ٹوک انداز میں تفصیل کے ساتھ قرآن کریم میں بیان کردیئے ہیں 
اتنی تفصیل دیگر کسی بھی حکم کے بابت نہیں آئی ہے۔
چونکہ مال کہتے ہی اس کو ہیں جدھرانسان کا دل مائل ہو 
مال کی محبت طبعی اور فطری ہے ،اسی لئے مرنے والے کے چھوڑے ہوئے مال کی تقسیم کے بارے میں اسلام نے واشگاف انداز میں احکام دیئے ہیں۔
مرنے والا جو کچھ چھوڑ کر مڑے اس میں بالترتیب چار حقوق وابستہ ہوتے ہیں :
۱۔ مرحوم کے کفن و دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں، اگر کوئی دوسرا شخص اپنی طرف سے کفن و دفن کا انتظام کر دے تو ترکہ سے یہ رقم نہیں لی جائے گی۔
۲۔ مرحوم کے ذمہ کسی کا کوئی قرض واجب الادا ہو تو اس کو ادا کیا جائے، چاہے قرضوں کی ادائیگی میں سارا مال خرچ کرنا پڑ جائے۔ اسی طرح اگر مرحوم نے اپنی بیوی کا مہر ادا نہ کیا ہو اور بیوی نے خوش دلی سے معاف بھی نہ کیا ہو تو یہ بھی قرضہ ہے، اسے ادا کرنا ضروری ہے اور بیوی کو یہ مہر میراث کے علاوہ ملے گا، مہر کا بیوی کے میراث کے حصہ سے کوئی تعلق نہیں، مہر الگ دیا جائے گا اور میراث کا حصہ الگ دیا جائے گا۔
۳۔ تیسرا حق ’’وصیت‘‘ ہے، یعنی قرضوں کی ادائی کے بعد دیکھا جائے گا کہ مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہے یا نہیں؟ اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال و جائیداد کے ایک تہائی (۱/۳) حصے کی حد تک ان وصیتوں کو پورا کیا جائے گا اور اگر وصیت تہائی مال سے زیادہ کی ہو تو ایک تہائی کی حد تک وصیت پورا کرنا ورثاء پر ضروری ہے، اس سے زیادہ وارثوں کے اختیار میں ہے، چاہے پورا کریں یا نہ کریں۔ البتہ مرحوم کی ناجائز وصیتوں کوپورا کرنا جائز نہیں۔
۴۔ وصیت پوری کرنے کے بعد جو کچھ مال باقی بچے اس کو شریعت کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق تمام ورثاء میں بلا تاخیر تقسیم کر دیا جانا ضروری ہے ۔
قرآن کے بتائے ہوئے قانون میراث کے مطابق وراثت تقسیم نہ کرنا آئین خداوندی کو پامال کردینا ہے ، جس پر ہمیشگی کے عذاب جہنم کی وعید سنائی گئی ہے: 
وَ مَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہُ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَہُ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَا وَ لَہُ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ۔ (النساء: ۱۴)
ترجمہ:اور جو شخص اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا اُسے اﷲ تعالیٰ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ایسا عذاب ہو گا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔ (آسان ترجمہ قرآن)
عن سعید بن زید قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من اخذ شبرا من الارض ظلما فانہ یطوقہ یوم القیامۃ من سبع ارضین (مشکوٰۃ المصابیح، ۱۶۳/۲)
ترجمہ: حضرت سعید بن زید رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ظلماً کسی کی زمین ایک بالشت بھی لی تو یہ زمین قیامت کے دن سات زمینوں تک اس کی گردن میں طوق بنا کر ڈالی جائے گی۔
عن انس قال قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: من قطع میراث وارثہ قطع اللّٰہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ۱۹۷/۲)
ترجمہ: حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی وارث کو میراث سے محروم کر دیا تو اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت میں اس کے حصے سے محروم فرمائیں گے۔
عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ وسلّم: من کانت لہ مظلمۃ لاخیہ من عرضہ او شئی فلیتحﷲ منہ الیوم قبل ان لا یکون دینار و لا درہم ان کان لہ عمل صالح أخذ منہ بقدر مظلمتہ وان لم تکن لہ حسنات اخذ من سیئات صاحبہ فحمل علیہ۔ (صحیح البخاری، ۲۸۹/۱)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہے تو آج ہی اس کو معاف کروالے، اس دن کے آنے سے پہلے پہلے جس دن نہ درہم ہوں گے، نہ دینار، (بلکہ اس دن یہ ہو گا کہ) اگر ظالم کے پاس کوئی نیک عمل ہو گا تو اس نے اپنے بھائی پر جتنا ظلم کیا ہوگا اس کے بقدر نیکیاں مظلوم بھائی کو دے دی جائیں گی اور اگر ظالم کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو پھر مظلوم کے گناہ اس ظلم کے برابر ظالم کے اوپر ڈال دیے جائیں گے۔۔
میراث کو قرآن مجید کے احکام کے مطابق تقسیم کرنا وارثوں پر فرضِ عین ہے اور دوسروں رشتہ داروں اور برادری اور خاندان کے بزرگوں پر فرض کفایہ ہے۔
قانون وراثت کے مطابق میراث تقسیم نہ کرنا اور کچھ لوگوں کا میراث پہ قبضہ جمائے بیٹھے رہنا کافرانہ، یہودانہ اور مجرمانہ عمل ہے ، جو حرام ہے اور مستوجب جہنم گناہ کبیرہ ہے 
قرآن مجید میں اسے کافروں کا فعل اور کردار بتایا گیا ہے۔ ارشاد ہے:’’اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال کی محبت میں پوری طرح گرفتار ہو‘‘۔(الفجر: 20-19)
اگر والد کے ساتھ کوئی بیٹا کام دھندہ میں معاونت کرتا تھا تو اس کی وجہ سے وہ تمام میراث کا تن تنہا مالک نہیں بن جاتا، اگر والد نے محنت یا خدمت کے پیش نظر ہمت افزائی کے طور پر اپنی زندگی میں بعض بیٹوں کو کچھ دیدیا ہو تو یہ امر آخر ہے جو ہدیہ اور گفٹ کے حکم میں ہے 
لیکن اگر ایسا نہ ہو تو والد کی وفات کے بعد ایک سوئی میں بھی سارے ورثاء حسب حصص حقدار ہونگے۔ 
شریعتِ مطہرہ کے مطابق تقسیم میراث کی برکتیں اور رحمتیں اور اجروثواب بہت زیادہ ہے:
1۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور ایسے بندے سے اللہ محبت کرتا ہے۔
2۔ میراث کے شرعی حکم پر عمل کرنے والا جنت کا حق دار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اسے بہت بڑی کامیابی بیان فرمایا ہے۔
3۔ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہُ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی اور اس دن کے عذاب سے نجات حاصل ہوجائے گی۔
4۔ ایسے شخص کا مال حلال ہونے کی وجہ سے مالی عبادتیں قبول ہوتی ہیں جوآخرت کے دن بڑا سرمایہ ہوگا۔ 
5۔ جن عزیز و اقربا اور عورتوں کومیراث میں سے حصہ ملتا ہے وہ اس کے لئے دل سے دعائیں کرتے ہیں اور محروموں کوجب حق ملتا ہے تو وہ ایسے شخص کے ہمدرد بن جاتے ہیں۔
میراث تقسیم نہ کرنے اور مستحقین کو محروم رکھنے کے درج ذیل خطرناک پہلو ہیں:
1۔ میراث کو قرآن و سنت کے مطابق تقسیم نہ کرنا اور دیگر وارثوں کا حق مارنا کفار، یہودونصاریٰ اور ہندوؤں کا طریقہ ہے۔
2۔ میراث کا شرعی طریقے پر تقسیم نہ کرنا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہُ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے۔ یہ صریح فسق ہے، لہٰذا ایسا شخص فاسق ہے، خاص طور پر برسہابرس اس رویے پر اصرار کرنا اور توبہ نہ کرنا تو اور بڑا گنا اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔
3۔ میراث کے حقداروں کا مال کھا جانا یا کسی ایک وارث کی طرف سے تمام میراث پر قبضہ کر لینا بہت بڑا ظلم ہے، اگر کوئی دنیا میں ادا نہیں کرے گا تو آخرت میں لازماً دینا ہوگا۔
4۔ ایسا مال جس میں میراث کا مال شامل ہو اس سے خیرات وصدقہ اور تقرب کے طور پر انفاق کرنا، حج و عمرہ کرنا اگرچہ فتویٰ کے لحاظ سے جائز ہے اور اس سے حج کا فریضہ ادا ہو جائے گا لیکن ثواب حاصل نہیں ہو گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ پاک و طیب مال قبول کرتا ہے۔
5۔ جومیراث کا مال کھا جاتا ہے اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
6۔ میراث شریعت کے مطابق تقسیم نہ کرنے والا دوزخ میں داخل ہوگا۔
7۔ میراث مستحقین کو نہ دینے والا بندوں کے حقوق ضائع کرنے کا مجرم ہے۔
وراثت میں جتنے لوگوں کا شرعا حق بنتا ہے تمام  حقدار لوگوں، عورتوں، بیٹیوں، بہنوں، ماں اور بیویوں کے لئے ضروری ہے کہ  اپنے حق کا نہ صرف مطالبہ کریں، بلکہ آگے بڑھ کر زوردار تقاضا کرکے اپنا حق وصولیں، ورنہ فرضِ عین پہ ترک عمل کا گناہ انہیں بھی ہوگا ۔
واللہ اعلم  
شكيل منصور القاسمی
  مركز البحوث الإسلامية العالمي
muftishakeelahmad@gmail.com
https://www.facebook.com/muftishakeelqasmi/
https://t.me/muftishakeelqasmi
       رابطہ نمبر: 
+5978836887

Saturday 21 March 2020

کورونا وائرس کے خوف سے مساجد بند کردینا؟

کورونا وائرس کے خوف سے مساجد بند کردینا؟

تیزی سے پھیل رہے بے قابو کورونا وائرس کے خطرات کے پیش نظر حکومت ہند بے حد پریشان ہے، ممکن ہے حکومت کی جانب سے انتظامی طور پہ جبراً مساجد بند کئے جانے کا فرمان بھی جاری ہوجائے (اللہ نہ کرے ایسا ہو)
اگر یہ صورت حال پیش آجائے تب تو “خوف ظلم“ اور “دفع حرج“ کے پیش نظر مسلمانان ہند اس پہ عمل درآمد کے لئے مجبور ہونگے ۔
تاہم وبائی صورت حال میں یہ شدت آنے اور حکومت کی طرف سے اس نوع کے دباؤ آنے سے قبل مسلمانوں کا از خود مساجد بالکلیہ اس طرح بند کردینا کہ جمعہ و جماعت  متروک ہوجائے ظلم وتعدی کے ذیل میں آتا ہے جس کی شریعت میں گنجائش نہیں ہے۔
پولیس کمشنر اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے  اذان وجماعت پہ جبری پابندی کی صورت میں بھی مساجد انتظامیہ کوشش کرکے اسے یقینی بنائے کہ اس طرح کی پابندی کا اطلاق مؤذن، خدام اور ائمہ مساجد (اصل اور نائبین)  کے علاوہ بقیہ عام لوگوں پہ ہو ۔
 موذن ، خدام اور امامِ مسجد  تین چار افراد ملکر اذان و جماعت کے ساتھ نماز پنجگانہ وجمعہ ادا کرتے رہیں اور مسجدوں کو اعمال سے آباد رکھیں۔
یہ سب سے آسان شکل ہے 
اس پہ عمل کرنے سے کورونا کے انتشار سے بھی بچا جاسکتا ہے اور مساجد کی بندش جیسی مخالف شرع ناجائز کام کے ارتکاب سے بھی حفاظت رہے گی۔
وبائی امراض کے ماہرین کے مطابق کورونا سے ہلاکت کے امکان کا تناسب بہت ہی کم ہے 
جن لوگوں نے مساجد بند کرنے کی  شرعی اجازت دی ہے وہ “سد ذریعہ کے طور“ پہ دی ہے؛ تاکہ مسجدوں میں عمومی حاضری “نفس انسانی“ کی ہلاکت کا موجب نہ بنے؛  کیونکہ “حفظ نفس“ شریعت کے مقاصد خمسہ میں داخل ہے۔
لیکن قابل غور  ہے کہ “سد ذریعہ“ وہاں مُثبت حکم ہوتا ہے جہاں اس کی وجہ سے کسی “امر مُحرَّم “ کا ارتکاب نہ ہوتا ہو ! 
یہاں موہوم ہلاکت کو “سد ذریعہ “ تسلیم کرلیا جائے تو “ویرانیِ مسجد“ جیسی محرم بالنص چیز کا ارتکاب ہوجارہا ہے، جس کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔
 اذان و جماعت شعائر اسلام میں داخل ہے ، اجتماعی طور پر اختیاراً اسے چھوڑدینے سے پورا محلہ گنہگار ہوگا ۔انتشار وباء کے خطرات  کے پیش نظر  جماعت  میں شریک مصلیان  کی تعداد  لازماً  محدود کردی جائے؛ لیکن مسجدوں میں  شرعی اذان اور نماز باجماعت کا نظام بلا تعطل جاری رہنا ضروری ہے۔
حکومتی سطح سے لاک ڈائون کا حکم آجانے کے بعد کوشش کی جائے کہ ائمہ  مساجد (اصل اور نائبین) خدام اور مؤذن کے علاوہ  بقیہ اشخاص پہ مسجد حاضری کی  پابندی عائد ہو ؛ تاکہ اذان، جمعہ اور جماعات کا نظام بھی چلتا رہے اور کورونا سے حفاظتی تدابیر کے تحت عوامی بھیڑ کی کمی پر بھی عمل ہوجائے۔ 
 اگر انتظامی طور پہ یہ استثناء نہ مل سکے پہر تو عذر، معتبر اور شرعی ہوگا.
اور مساجد بند کرنے کا وبال ہمارے سر نہ ہوگا۔
حکمراں کی طرف سے جبریہ مسجد بند کردیئے جانے  کی صورت میں گھروں پہ باجماعت نماز  ادا کریں، جمعہ کی نماز بھی گھر پہ پڑھیں، نماز جمعہ کے لئے مسجد کا ہونا ویسے بھی شرط نہیں ہے،  امام کے علاوہ کم از کم تین مقتدی ہوں تو جمعہ کی نماز صحیح ہوجاتی ہے ؛ لہذا مسجد کی اذان  کے بعد (اگر مسجد میں اذان نہ ہو تو خود اذان دے دیں) امام خطبہ مسنونہ پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھا دے۔
رہا مسئلہ صحت جمعہ کے لئے “اذن عام” کی شرط کا، تو اولاً ہمارے فقہاء احناف کے یہاں یہ شرائط جمعہ کی متفقہ شرائط میں نہیں ہے، صاحب ہدایہ وغیرہ نے اسے بطور شرط ذکر نہیں کیا  ہے، 
جن فقہاء کے یہاں یہ شرط ہے بھی تو اس وقت ہے جبکہ پورے شہر یا قلعہ میں صرف ایک جگہ جمعہ ہورہا ہو، مختلف مقامات پر متعدد جمعہ قائم ہونے کی صورت میں یہ شرط از خود بے اثر ہوجاتی ہے.
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی
۲۲مارچ سنہ ۲۰۲۰
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_90.html?m=1

پرت دار خضاب بالوں سے اگر نہ چھوٹ سکے تو پاکی حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

پرت دار خضاب بالوں سے اگر نہ چھوٹ سکے تو پاکی حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

السلام عليكم ورحمت اللہ وبرکاتہ
 حضرت اگر کسی مرد یا عورت نے پرت جمانے والا خضاب اپنی داڑھی یا بالوں کو لگا لیا. اب وہ اتارنے کی  بار بار کوششوں سے بھی اتر نہیں رہا ہے. تو اب طہارت یا پاکی کیسے حاصل کی جائے؟
آیا بالوں کو بلکل ریزر سے صاف کر دیا جائے؟ ایسی صورتحال میں کیا راستہ اختیار کیا جائے؟ 
مفصل جواب دے کر مشکور و ممنون فرمائیے. 
شکریہ. @⁨Mft Shakeel Ah⁩
الجواب وباللہ التوفیق:
خالص سیاہ رنگ کے علاوہ ہر رنگ سے بالوں کو رنگنے کی اجازت ہے؛ بشرطیکہ ناخن پالش کی طرح رنگ کی تہہ نہ جمتی ہو، اگر رنگ اس طرح پرت اور تہہ دار ہو تو اس سے بالوں کو رنگنے کی اجازت نہیں ہے؛ کیونکہ ایسا رنگ بالوں تک پانی پہنچنے نہیں دیتا ہے جس سے وضو وغسل جائز ہوگا نہ نماز!
اگر مباح رنگ ایسا ہو جو کھال تک پانی پہنچنے سے مانع ہو تو وضو سے پہلے اسے کسی بھی طرح رگڑکر یا صابن یا آلہ جیسی لیکویڈ وغیرہ کے ذریعہ چھڑانے کی پوری کوشش لازم وضروری ہے، اگر پوری کوشش کے باوجود بھی نہ چھوٹ سکے تو حرج کی وجہ سے معاف ہے. اسی حال میں وضو ہوجائے گا۔ بال و ڈاڑھی کو لیزر سے بالکلیہ صاف کردینے کی ضرورت نہیں۔ آئندہ اس طرح کا رنگ استعمال کرنا جائز نہ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور القاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_21.html?m=1

Wednesday 18 March 2020

کیا صحت مند مسلمانوں کے لئے جائز ہے کہ "کورونا وائرس" کے خوف سے جمعے اور جماعت کی نمازوں کو ترک کردے؟

کیا 
صحت مند مسلمانوں 
کے لئے جائز ہے کہ "کورونا وائرس" 
کے خوف سے جمعے اور جماعت کی نمازوں کو ترک کردے؟

بسم الله الرحمن الرحيم.
هل يجوز للمسلمين الأصحاء ترك الجمعة والجماعة خوفا من المرض (كورونا) ؟!
أولا. 
في الخوف من العدو المحقق عند القتال في سبيل الله لم تسقط الجماعة فكيف تسقط بسبب الخوف المتوهم من المرض ؟!
《وإذا كنت فيهم فأقمت لهم الصلاة فلتقم طائفة منهم معك...》الآية.
ثانيا .
هذه الأوبئة والأمراض سببها الحقيقي هو الذنوب والمعاصي. قال تعالى: 《وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم》.
وقال:《ظهر الفساد في البر والبحر بما كسبت أيدي الناس ليذيقهم بعض الذي عملوا لعلهم يرجعون》.
ألم يبين تعالى أن العلاج إنما هو في الرجوع إلى الله بالتوبة والاستغفار والصلاة والتلاوة والدعاء ... وليس في ترك بعض ما أوجب علينا من جمعة وجماعة ؟!!
ثالثا.
قول الله تعالى: 《ما أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسكم إلا في كتاب من قبل أن نبرأها》. وقال: 《قل لن يصيبنا إلا ما كتب الله لنا》.
وقال:《قل لو كنتم في بيوتكم لبرز الذي كتب عليهم القتل إلى مضاجعهم》.
وقال صلى الله عليه وسلم((واعلم أن الأمة لواجمعت على أن ينفعوك لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك ولو اجتمعوا على أن يضروك لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك))  رواه أحمد والترمذي وقال حسن صحيح . 
فإيماننا بالقضاء والقدر وتوكلنا على الله جل وعلا  ألا يمنعنا من ترك ما أوجب علينا من صلاة الجمعة والجماعة خوفا من المرض وغيره ؟!!!
رابعا.
ألم يتحدث صلى الله عليه وسلم عن كيفية التعامل مع الطاعون وأنه لا يجوز دخول الأرض التي فيها الطاعون ولا الخروج من الأرض التي فيها .. فهل ذكر  فيه ترك صلاة الجماعة؟!!
خامسا.
وقع الطاعون في عهد عمر بن الخطاب رضي الله عنه وتشاور في أمره مع المهاجرين ثم الأنصار ثم مسلمة الفتح ..
 فهل عطلوا بسببه جمعة أو جماعة ؟ !
سادسا.
يقول الله سبحانه وتعالى (واستعينوا بالصبر والصلاة) فهل الإستعانة هنا بإقامة الصلاة في المسجد كما كان النبي صلى الله عليه وسلم يؤديها أم بترك الجمع والجماعات ؟!!
سابعا.
يقول صلى الله عليه وسلم 《من صلى الصبح في جماعة فهو في ذمة الله ..》 ألا يكفينا أننا في ذمة الله  ؟! 《أليس الله بكاف عبده》؟!!
ثامنا.
إذا كان صلى الله عليه وسلم لم يأذن للأعمى في التخلف عن الجماعة مع قوله بأنه لا قائد له وأن  المدينة كثيرة الهوام والسباع ... كيف يؤذن للصحيح في التخلف عنها لمجرد خوف المرض ؟!
تاسعا.
لقد كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا حزبه أمر بادر إلى الصلاة .. فهل إذا حزبنا فيروس الكورونا نترك صلاة الجمعة والجماعة ؟!!
عاشرا.
لقد كان في كل مدينة إسلامية جامع واحد يصلي فيه الجميع .. وقد كان يصيب المسلمين الوباء والطاعون من حين لآخر .. 
فهل أفتى أحد من علماء المسلمين عبر التاريخ بغلق المساجد بسبب وباء أو طاعون ؟!!
✏ كتب الشيخ:أحمد الكوري:
الموريتانى

سوال: کیا صحت مند مسلمانوں کے لئے جائز ہے کہ "کورونا وائرس" کے خوف سے جمعے اور جماعت کی نمازوں کو ترک کردے؟
الجواب وبالله التوفيق:
پہلی بات:
 یہ بات یقینی طور پر ثابت شدہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں دشمن کے سامنے جہاد کے دوران بھی جماعت کی نماز ساقط نہیں ہوتی تو یہ کیسے سمجھ لیا جائے کہ صرف ایک بیماری کے وہم سے جمعہ اور جماعت کو ترک کر دیا جائے۔
چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وإذا كنت فيهم فأقمت لهم الصلاة فلتقم طائفة منهم معك....الآية.
ترجمہ: اور جب آپ ان کے ساتھ (میدانِ جہاد میں) ہوں، پس آپ ان کے ساتھ جماعت کی نماز قائم کریں، پھر ان میں سے ایک ٹولی آپ کے ساتھ جماعت میں شریک رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔إلخ
دوسری بات: 
یہ وبائیں اور بیماریاں درحقیقت گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے آتی ہیں۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم.
ترجمہ: "اور جو بھی مصیبت تم کو پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے۔"
مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ظهر الفساد في البر و البحر بما كسبت أيدي الناس ليذيقهم بعض الذي عملوا لعلهم يرجعون.
ترجمہ: "خشکی اور تری میں جتنی خرابی ہے وہ سب انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے ، (یہ سب اس لئے ہے) تاکہ انہیں چکھائے ان کی بعض بد اعمالیوں کی سزا، (اور یہ اس لئے) تاکہ وہ (اپنی بد اعمالیوں) سے توبہ کرلیں۔"
کیا اللّٰہ تعالیٰ نے وبائوں کے علاج کے طور پر توبہ، استغفار، نماز، تلاوت اور دعا کو سبب قرار نہیں دیا؟؟؟ 
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ فرائض و واجبات، جمعہ اور جماعت کی نماز کو چھوڑ دینے میں وبائوں کا علاج نہیں رکھا گیا ہے۔
تیسری بات:
اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
ما أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسكم إلا في كتاب من قبل أن نبرأها.
ترجمہ: "جو بھی مصیبت زمین پر آتی ہے یا تمہاری جانوں پر آتی ہے وہ پہلے سے اٹل شدہ تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔"
مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
قل لن يصيبنا إلا ما كتب الله لنا.
ترجمہ:" آپ کہہ دیں! ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللّٰہ تعالیٰ نے ہماری لیے لکھ دی ہو۔"
مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
قل لوكنتم في بيوتكم لبرز الذي كتب عليهم القتل إلى مضاجعهم.
ترجمہ:" آپ ان سے کہہ دیں! اگر تم اپنے گھروں میں رہوگے تب بھی تمہارے مقدر میں لکھا ہوا قتل  وہ تمہاری خواب گاہوں تک پہنچ کر رہے گا ( یعنی تقدیر کا لکھا ہوا بہرحال نافذ ہو کررہے گا)."
نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 
"اچھی طرح جان لو کہ اگر ساری امت تم کو نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تب بھی اللّٰہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے سے زیادہ نفع دینے پر قدرت نہیں رکھ سکتی اور اگر ساری امت تم کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائے تب بھی اللّٰہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق ہی نقصان پہنچا سکے گی (اس سے زیادہ نہیں). "
(مسندِ احمد۔جامع ترمذی۔).
پس ہمارا اللّٰہ تعالیٰ کی تقدیر پر ایمان اور اس کی ذات پر بھروسہ ہمیں کسی بیماری وغیرہ کے وہم سے فرائض و واجبات، جمعہ اور جماعت سے روک نہیں سکتا۔
چوتھی بات: 
نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون وغیرہ سے نمٹنے کے سلسلے میں یہ ہدایت ارشاد فرمائی ہے جہاں طاعون پھیل جائے وہاں سے کوئی باہر نہ جائے اور باہر والے طاعون کے علاقے میں داخل نہ ہوں۔
کیا نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ اور جماعت کو ترک کرنے کی بھی ہدایت ارشاد فرمائی ہے؟؟
ہرگز نہیں۔
پانچویں بات:
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے زمانے میں طاعون پھیل گیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے مہاجرین اور انصار سے مشاورت فرمائی اور مختلف اقدامات کیے۔
کیا ان حضرات نے جمعہ اور جماعت کی نماز کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا تھا؟؟
ہرگز نہیں۔
چھٹی بات: 
اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
واستعينوا بالصبر و الصلاة .
ترجمہ: "اور مدد حاصل کرو صبر اور نماز کے ذریعے۔"
اس آیت کی روشنی میں نماز کو قائم کرنے کے ذریعے مدد حاصل کی جائے گی یا جمعے اور جماعت کی نماز کو ترک کر کے مدد حاصل ہوگی؟
اور نماز کو قائم کرنے کا طریقہ وہ ہوگا جو نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ادا کرکے دکھایا یا جماعت کی نماز کو چھوڑ کر؟
ساتویں بات:
نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 
"جو شخص فجر کی نماز جماعت سے پڑھے تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کی ضمانت میں آجاتا ہے۔"
کیا جماعت کی نماز کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کی ضمانت میں آجانا ہمارے لیے کافی نہیں ہے؟؟
کیا اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟؟
آٹھویں بات: 
نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا صحابی کو بھی جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں دی تھی حالانکہ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے کوئی لانے والا نہیں اور مدینے میں حشرات اور درندوں کا بھی خطرہ تھا۔
پس ہمارا کیا خیال ہے کہ صرف ایک بیماری کے وہم کے پیشِ نظر صحت مند لوگوں کو جمعہ اور جماعت کی نماز ترک کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟؟
نویں بات: 
نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی سخت اور ناگوار بات پیش آتی تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام فورا نماز کے لیے دوڑتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ہمارے لئے یہ راہنمائی نکلتی ہے کہ کورونا وائرس کے حملے کے موقع پر ہم بھی نماز کی طرف دوڑنے والے ہوں۔ نا یہ کہ جمعہ اور جماعت کی نماز کو ہی ترک کردیں۔
دسویں بات:
اسلامی مملکتوں میں ایک جامع مسجد میں سارے شہر کے لوگ اکٹھے ہوکر کورونا وائرس 
کی بنا پر جمعہ اور 
جماعت پر پابندی صحیح یا غلط؟
جمعے کی نماز ادا کیا کرتے تھے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
کیا اسلامی تاریخ میں یہ ملتا ہے کبھی کسی زمانے میں علماء کرام نے کسی وبا اور طاعون کے پیشِ نظر مسجدوں کو تالے لگانے کا فتویٰ دیا ہو؟؟۔
شیخ احمد کوری حفظه الله ورعاه (موريتانى) کا فتویٰ: 
ترجمہ: فیصل احمد خان۔ فاضل جامعہ فاروقیہ کراچی۔
(ایس اے ساگر)
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_51.html?m=1

اگر کسی شخص نے امام کو حالت رکوع میں ایسےحالت میں پایا کہ ایک تسبیح بھی پڑھنے کا موقع نہ پایا کہ امام نے اپنا سر اٹھالیا آیا وہ شخص رکوع پایا ہے یا نہیں؟

سوال: اگر کسی شخص نے امام کو حالت رکوع میں ایسےحالت میں پایا کہ ایک تسبیح بھی پڑھنے کا موقع نہ پایا کہ امام نے اپنا سر اٹھالیا آیا وہ شخص رکوع پایا ہے یا نہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق:
امام رکوع کی حالت میں ہو اور کوئی مقتدی قیام کی حالت میں تکبیرِ تحریمہ کہہ کر نماز میں شامل ہو تو اگر امام کے رکوع سے سر اُٹھانے سے پہلے پہلے ایک لمحہ بھی مقتدی نے امام کو رکوع میں پالیا ا گرچہ ایک تسبیح سے کم ہو، تو وہ اس رکعت کو پانے والا سمجھا جائےگا؛ اگر امام رکوع سے اُٹھنے کی حالت میں ہو اور مقتدی جانے کی حالت میں تو اس رکعت کو دہرانا ہوگا۔
بنوریہ ۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 82):
"(قوله: وإن أدرك إمامه راكعا فكبر ووقف حتى رفع رأسه لم يدرك الركعة) خلافا لزفر هو يقول أدرك الإمام فيما له حكم القيام ولنا أن الشرط هو المشاركة في أفعال الصلاة ولم يوجد لا في القيام ولا في الركوع وذكر قاضي خان أن ثمرة الخلاف تظهر في أن هذا عنده لاحق في هذه الركعة حتى يأتي بها قبل فراغ الإمام وعندنا هو مسبوق بها حتى يأتي بها بعد فراغ الإمام وأجمعوا أنه لو انتهى إلى الإمام وهو قائم فكبر ولم يركع مع الإمام حتى ركع الإمام ثم ركع أنه يصير مدركا لتلك الركعة وأجمعوا أنه لو اقتدى به في قومة الركوع لم يصر مدركا لتلك الركعة اهـ".

Tuesday 17 March 2020

فرض اور سنن موکدہ کے مابین وقفہ کی مقدار: درمیان میں قرآنی تعلیم کے حلقے لگانا؟

فرض اور سنن موکدہ کے مابین وقفہ کی مقدار: درمیان میں قرآنی تعلیم کے حلقے لگانا؟
----------------------------------
----------------------------------
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع عظام اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد میں عشاء کی نماز کے بعد دعاء سے پہلے امام صاحب دائیں جانب مقتدیوں کے طرف رخ کرکے (مانند فجر وعصر کے) سارے مقتدیوں کو تعوذ تسمیہ کے ساتھ بلند آواز سے قرآن مجید کی ایک دو آیات کا مشق کرواتے ہیں اور سارے مقتدی بلند آواز سے دوہرایا کرتے ہیں اور اس کے بعد حسب معمول دعاء ہوتی ہے جبکہ مسبوق حضرات اپنی بقیہ نمازیں ادا کرتے رہتے ہیں جس میں خلل ہونے کا سو فیصد اندیشہ ہے کیونکہ خود سائل کے لئے فرائض کے بعد مختصر معمولات واذکار ماثورہ کے پڑھنے میں حرج ہوا تو نماز میں حرج ہونا تو یقینی ہے ایسی صورت میں اس مسجد کے امام صاحب اور ذمہ داروں کا یہ عمل کیسا ہے؟؟؟
جن حضرات کی نماز خراب ہوگی اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
اور سلام ودعا کے درمیان غیرضروری فصل کیسا ہے؟
براہ کرم از روئے شرع شریف جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں
سبیل قاسمی، عالمی تحریک اصلاح گروپ 
الجواب وباللہ التوفیق: 
مسجدوں میں نمازیوں کو  تعلیم وتعلم ذکر واذکار اور وعظ ونصیحت کرنا اصلا جائز ہے:
كَانَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم إِذَا صَلَّى صَلاَةً أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز پڑھ لیتے تو رخ انور کو ہماری طرف فرمالیا کرتے تھے۔
(بخاري: كتاب صفة الصلاة، باب يستقبل الإمام الناس إذا سلم، 1: 290، رقم: 809، بيروت، لبنان: دار ابن كثير اليمامة) 
صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً.
ابن ماجه، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين، 1: 17، رقم: 44، بيروت: دارالفكر۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نماز صبح پڑھائی اور اس کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوکر ایک موثر وعمدہ نصیحت فرمائی۔) نمازیوں کے سامنے ذکر واذکار، تلاوت اور درس وتدریس کی اجازت مطلق نہیں ہے؛ بلکہ جواز اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ مسجد میں نمازوں میں مشغول دیگر مصلیوں کو اس سے تکلیف نہ ہو اور ان کا ذہن اس جہری ذکر، تلاوت اور وعظ وتعلیم سے منتشر نہ ہو، اگر تلاوت قرآن وغیرہ نمازوں میں مشغول مصلیوں کے انتشار ذہن کا باعث بنتی ہو تو ایسی تلاوت یا تعلیم وتدریس کی اجازت نہیں ہے، حدیث وآثار میں اس کی ممانعت آئی ہے:
(کُلُّکُم یُناجی اللّٰہَ؛ فلَا یُؤذِ بَعضُکم بعضًا، مسند احمد 4909)
’’تم میں ہر کوئی اللہ سے سرگوشی کررہا ہے۔ لہٰذا کوئی دوسرے شخص کو ایذا نہ دے۔‘‘
الإجابة: أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج على الناس وهم يصلون وقد علت أصواتهم بالقراءة، فقال: "إن المصلي يناجي ربه فلينظر بما يناجيه به ولا يجهر بعضكم على بعض بالقرآن". أخرجه أحمد (5349)  والطبراني (12/428) (13572).
وعن أبي سعيد رضي الله عنه قال:"اعتكف رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد فسمعهم يجهرون بالقراءة فكشف الستر وقال: ألا إن كلكم مناج ربه فلا يؤذين بعضكم بعضا ولا يرفع بعضكم على بعض في القراءة أو قال في الصلاة". {أخرجه أحمد (5349) واللفظ له، وابن أبي شيبة (8549)، والبزار (6148)
فرض نماز میں سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رو ہوکے اپنی سابقہ حالت پہ امام کا بیٹھے رہنا مکروہ ہے، یا تو مقتدی کی طرف سیدھا رخ کرے یا دائیں بائیں رخ کرکے بیٹھے۔ جن فرض نمازوں کے بعد سنن مؤکدہ ہیں، مثلا ظہر مغرب عشاء، ان میں سلام پھیرنے کے بعد دو تین منٹ سے زیادہ وقفہ کرنا اور سنتوں کی ادائی میں تاخیر وفصل کرنا مکروہ وناپسندیدہ ہے: 
حضرت ثوبان رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوتے تو ۳ مرتبہ استغفار پڑھتے اور یہ دعاء پڑھتے:
 كانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، إذَا انْصَرَفَ مِن صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقالَ: اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الجَلَالِ وَالإِكْرَامِ. قالَ الوَلِيدُ: فَقُلتُ لِلأَوْزَاعِيِّ: كيفَ الاسْتِغْفَارُ؟ قالَ: تَقُولُ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ. (عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم.صحيح مسلم.الرقم: 591)
حضرت عائشہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس دعا کی مقدار بیٹھتے (پھر سنت پڑھنے لگ جاتے)
كانَ النبيُّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ إذَا سَلَّمَ لَمْ يَقْعُدْ إلَّا مِقْدَارَ ما يقولُ: اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الجَلَالِ وَالإِكْرَامِ. وفي رِوَايَةِ ابْنِ نُمَيْرٍ يا ذَا الجَلَالِ وَالإِكْرَامِ.۔۔عن عائشة أم المؤمنين.صحيح مسلم الرقم: 592.) 
وروی عبدالرزاق في "المصنف" (2/246) عن ابن جريج قال: حدثت عن أنس بن مالك قال: (صليت وراء النبي صلى الله عليه وسلم، وكان ساعة يسلم يقوم، ثم صليت وراء أبي بكر فكان إذا سلم وثب، فكأنما يقوم عن رضفة)
ورواه الطبراني في "المعجم الكبير" (1/252)، والبيهقي في "السنن الكبرى" (2/182) كلاهما من طريق عبدالله بن فروخ، عن ابن جريج، عن عطاء، عن أنس بن مالك).
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جن فرض نمازوں کے بعد سنت مؤکدہ ہو اس میں سلام کے بعد مذکورہ مقدار  کے علاوہ طویل دعاء مانگنا یا تعلیم وتدریس میں مشغول ہوجانا خلاف سنت اور مکروہ ہے، فرض نماز کے فورا بعد جو دعائیں پڑھنا مروی ہیں وہ سب سنن موکدہ ادا کرنے کے بعد پڑھی جائیں، معمولی فصل عقبیت اور فورا بعد میں مخل نہیں ہوگا. ہاں جن نمازوں کے بعد سنن موکدہ نہیں ہیں، ان میں بعد سلام طویل دعاء مانگی جاسکتی ہے بشرطیکہ مسبوق اور دیگر نمازوں میں مشغول مصلیوں کے لئے موجب خلل نہ ہو. علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
"أما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة، بل يحمل على الإتيان بها بعدها; لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها، فلم تكن أجنبية عنها، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة .
وقول عائشة: (بمقدار) لا يفيد أنه كان يقول ذلك بعينه، بل كان يقعد بقدر ما يسعه ونحوه من القول تقريبا، فلا ينافي ما في الصحيحين من أنه صلى الله عليه وسلم كان يقول في دبر كل صلاة مكتوبة: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت، ولا معطي لما منعت ، ولا ينفع ذا الجد منك الجد) "رد المحتار" (1/531)
امام محمد کی الحجہ کے حوالہ سے ہے کہ ظہر، مغرب وعشاء کے بعد طویل دعائیں نہ مانگے۔ (ہندیہ: ۱/۷۷)
اسی طرح طحطاوی علی المراقی میں ہے:
کل صلوۃ بعدھا سنۃ یکرہ القعود بعدھا والدعاءبل یشتغل بالسنۃ کی لا یفصل بین السنۃ والمکتوبۃ۔ (صفحہ: ۱۸۲۔ ہر ایسی نماز جس کے بعد سنتیں ہوں اس نماز کے بعد بیٹھنا اور دعا کرنا مکروہ ہے؛ بلکہ سنتوں میں مشغول ہوجائے سنت نماز اور فرض نماز کے درمیان فصل نہ کرے۔) 
وعن عائشۃ ان النبی صلی الله علیه وآله وسلم کان یقعد مقدار مایقول اللھم انت السلام الخ، کما تقدم فلا یزید علیہ او علی قدرہ ۔۔۔۔ 
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضوراکرم صلی اللہُ علیہ وسلم "اللہم انت السلام..الخ"، کی مقدار بیٹھا کرتے تھے، جیسا کے گزرچکا پس نہ اس سے زیادہ کرے اور نہ اس سے کم کرے (صفحہ: ۱۸۲)
علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"إن كانت صلاة لا تصلى بعدها سنة، كالفجر والعصر: فإن شاء الإمام قام، وإن شاء قعد في مكانه يشتغل بالدعاء; لأنه لا تطوع بعد هاتين الصلاتين، فلا بأس بالقعود، إلا أنه يكره المكث على هيئته مستقبل القبلة، لما روي عن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا فرغ من الصلاة لا يمكث في مكانه إلا مقدار أن يقول: (اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام); ولأن مكثه يوهم الداخل أنه في الصلاة فيقتدي به فيفسد اقتداؤه، فكان المكث تعريضا لفساد اقتداء غيره به فلا يمكث ، ولكنه يستقبل القوم بوجهه إن شاء ("بدائع الصنائع" (1/159) 
سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق عشاء نماز کا سلام پھیرنے کے بعد امام کا قرآنی حلقہ لگاکر بیٹھ جانا اور زور زور سے تلاوت قرآن کی مشق کروانا جس کی وجہ سے مسبوق کی نمازوں میں خلل پڑتا ہو اور ان کا خشوع وخضوع اور مناجات باری متاثر ہوتی ہو درج ذیل احادیث کی وجہ سے ناجائز ہے: 
(کُلُّکُم یُناجی اللّٰہَ؛ فلَا یُؤذِ بَعضُکم بعضًا، مسند احمد 4909)
’’تم میں ہر کوئی اللہ سے سرگوشی کررہا ہے۔ لہٰذا کوئی دوسرے شخص کو ایذا نہ دے۔‘‘
الإجابة: أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج على الناس وهم يصلون وقد علت أصواتهم بالقراءة، فقال: "إن المصلي يناجي ربه فلينظر بما يناجيه به ولا يجهر بعضكم على بعض بالقرآن". أخرجه أحمد (5349)  والطبراني (12/428) (13572).
وعن أبي سعيد رضي الله عنه قال: "اعتكف رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد فسمعهم يجهرون بالقراءة فكشف الستر وقال: ألا إن كلكم مناج ربه فلا يؤذين بعضكم بعضا ولا يرفع بعضكم على بعض في القراءة أو قال في الصلاة".{أخرجه أحمد (5349) واللفظ له، وابن أبي شيبة (8549)، والبزار (6148)
فرض اور سنن مؤکدہ کے مابین اجتماعی اور جہری طور پر مواظبت کے ساتھ تعلیم وتدریس کا حلقہ لگانا شریعت اور سنت سے ثابت نہیں ہے، اسے ترک کیا جائے اور سنتوں سے فراغت کے بعد اس طرح کے حلقوں کے قیام کی کوشش کی جائے.
أجمع العلماء سلفاً وخلفاً علی استحباب ذکر الجماعة فی المساجد وغیرھا، إلا أن یشوش جہرھم علی نائمٍ، أو مصلٍ، أو قاريء (شامی: 434/2، زکریا) 
سوال: حدیث میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں کی جانب متوجہ ہوکر بیٹھتے تھے، اس روایت میں کسی خاص نماز کی تخصیص تو ہے نہیں پھر ہمارے یہاں امام صرف عصر و فجر میں مقتدیوں کی جانب رخ کرتا ہے. باقی نمازوں میں نہیں۔
ایسا کیوں؟
ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی سہارنپور 
الجواب وباللہ التوفیق:
سلام پھیرنے کے بعد امام کا مستقبل قبلہ بیٹھے رہنا اجماعی و اتفاقی طور پہ مکروہ بلکہ بدعت ہے. اس کی مختلف علتیں بیان کی گئی ہے، نئے آنے والے نمازی کو امام کے نماز میں مشغول سمجھنے کے اشتباہ سے بچانا بھی من جملہ حکمتوں کے اہم حکمت ہے. بعد سلام "اللهم أنت السلام ومنك السلام إلخ" یا تین مرتبہ استغفار یا اس جیسی دیگر ماثور مختصر دعاء پڑھ کے امام کو استقبال قبلہ سے ہٹ جانا مستحب ہے، مزید نماز کی سابقہ ہیئت کی طرح قبلہ رو بیٹھے رہنا امام کے لئے مکروہ ہے (کوئی دعاء پڑھنا مخصوص نہیں ہے، "انت السلام ومنک السلام" کے دورانیے کے بقدر کوئی بھی ماثور دعاء پڑھ کے امام جگہ، رخ وہیئت تبدیل کردے)
اس استحباب پر بھی علماء کا اجماع قائم ہے، ہر نماز کا یہی حکم ہے. بعد سلام امام کا قبلہ سے رخ پھیر دینے کی تین کیفیات احادیث میں وارد ہوئی ہیں: 
۱: امام اپنا دایاں جانب مقتدی کی طرف جبکہ یسار قبلہ کی طرف کرے.
۲: امام اپنا یمین محراب و قبلہ کی طرف جبکہ یسار مقتدی کی طرف کرے. 
۳: مقتدی کے سیدھ میں استدبار قبلہ کرکے بیٹھ جائے بشرطیکہ امام کے سامنے کوئی مسبوق نماز نہ پڑھ رہا ہو.
ان تینوں طرح بیٹھنے میں ہمارے ہاں امام کو اختیار ہے. البتہ اوّل الذکر دو ہیئتوں میں بیٹھنا عینی کی نقل کے مطابق صاحب مذہب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے افضلیت کی روایت مروی ہے. حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نماز کے سلام پھیرنے کے بعد "انصراف" اور "انفتال" جیسے الفاظ وارد ہوئے ہیں. شارح بخاری علامہ قسطلانی وغیرہ "انصراف" کو اٹھ کر چلے جانے اور گھر میں بقیہ نوافل ادا کرنے پہ محمول کیا ہے، جبکہ انفتال کو استقبال ماموم پہ محمول کیا ہے. بعض روایتوں میں صراحت ہے کہ فجر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعد سلام مختصر ذکر ماثور و تکبیر کے بعد مقتدیوں کی طرف رخ کرتے. مسائل کی تعلیم کرتے. کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اس کی تعبیر مرحمت فرماتے. ابن حجر کے بقول تعلیم مسائل کے مقصد سے امام استقبال ماموم کرسکتا ہے ورنہ انصراف و انفتال پہ عمل کرے. ہر نماز کے سلام کے بعد مختصر ماثور دعاء پڑھ کے تبدیلی ہیئت (انصراف، انفتال، اقبال الناس بوجہ) تمام علماء کے ہاں مستحب ہے. احناف بھی تبدیلی ہیئت کے استحباب کے قائل ہیں. البتہ دیگر مختلف روایات وآثار صحابہ کی وجہ سے احناف فرض کے سلام اور سنن رواتب کے درمیان طویل اوراد وظائف میں اشتغال کے ذریعہ فصل کو مکروہ گردانتے ہیں. اس لئے مختصر دعاء ("اللھم انت السلام" جیسی دعاء) پڑھ کر اٹھ جانے، رفع یدین کے ساتھ دعاء انفرادی کرلینے گھر چلے جانے یا سنن رواتب میں مشغول ہوجانے کو بہتر سمجھتے ہیں. فجر وعصر کے بعد چونکہ سنن رواتب نہیں ہیں؛ اس لئے فرض کے بعد طویل اوراد ووظائف میں اشتغال سے تاخیر سنن رواتب کی کراہت کا ارتکاب نہیں ہوگا. اس لئے ان دو نمازوں میں فرض کے سلام کے بعد تبدیلی ہیئت کے ساتھ وظائف میں مشغول ہونے کی اجازت ہے. لیکن فرض کے بعد سنن رواتب والی نماز میں تبدیلی ہیئت کے بعد سنن رواتب میں مشغول ہوجانا چاہئے۔ نماز کے فورا بعد 
(دبرالصلوۃ وعقیب الصلوۃ) 
پڑھی جانے والی ادعیہ سنن رواتب کے بعد پڑھے، سنن رواتب مکملات وتوابع مکتوبات ہیں اس لئے اس کے بعد اوراد پڑھنے پر بھی دبریت وعقبیت کا تحقق ہوجائے گا یعنی تب بھی فرائض کے بعد پڑھنا ہی کہا جائے گا؛ کیونکہ یہ بھی کسی حدیث میں نہیں ہے کہ سنت راتبہ سے پہلے فرض کی جگہ میں ہی بیٹھے بیٹھے عقیب الصلوۃ والی دعائیں پڑھی جائیں! ابن حجر ہیتمی نے صراحت کی ہے کہ سنن رواتب کے بعد اوراد ووظائف عقبیہ پڑھی جاسکتی ہیں. ثواب میں کوئی کمی نہیں کمال میں فرق آسکتا ہے. اگر کوئی فرض کے سنن رواتب گھر جاکر پڑھنا چاہے تو راستہ چلتے اوراد عقبیہ پڑھ سکتا ہے. 
حنفیہ کے یہاں جن نمازوں کے بعد سنن رواتب ہیں ان کے سلام کے بعد طویل وظائف میں مشغول ہونا مکروہ ہے۔
محقق ابن الہمام، حلبی، شمس الائمہ حلوانی وغیرہم کراہت تنزیہی کے قائل ہیں، جبکہ صاحب اختیار کراہت تحریمی کے قائل ہیں. عادت بنائے بغیر کبھی کبھار اشتغال بالاوراد بین الفریضہ والسنہ ہوجائے تو مضائقہ نہیں:
ائمہ ثلاثہ کے یہاں امام مقتدی منفرد ہر ایک کے لئے اشتغال بالاوراد بین الفریضہ والسنہ مستحب ہے، دبرالصلوۃ وعقیب الصلوۃ کے ظاہر سے وہ استدلال کرتے ہیں. 
احناف کے چند دلائل یہ ہیں:
عن عائشة رضي الله عنها قالت:
(كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَلَّمَ لَمْ يَقْعُدْ إِلَّا مِقْدَارَ مَا يَقُولُ: اللهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ) رواه مسلم (592)
وروا عبدالرزاق في "المصنف" (2/246) عن ابن جريج قال: حدثت عن أنس بن مالك قال: (صليت وراء النبي صلى الله عليه وسلم، وكان ساعة يسلم يقوم، ثم صليت وراء أبي بكر فكان إذا سلم وثب، فكأنما يقوم عن رضفة)
ورواه الطبراني في "المعجم الكبير" (1/252)، والبيهقي في "السنن الكبرى" (2/182) كلاهما من طريق عبدالله بن فروخ، عن ابن جريج، عن عطاء، عن أنس بن مالك.
يقول العلامۃ ابن عابدين رحمه الله:
"أما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة، بل يحمل على الإتيان بها بعدها; لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها، فلم تكن أجنبية عنها، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة. 
وقول عائشة: (بمقدار) لا يفيد أنه كان يقول ذلك بعينه، بل كان يقعد بقدر ما يسعه ونحوه من القول تقريبا، فلا ينافي ما في الصحيحين من أنه صلى الله عليه وسلم كان يقول في دبر كل صلاة مكتوبة: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد)" انتهى من "رد المحتار" (1/531)
"ويكره تأخير السنة إلا بقدر اللهم أنت السلام إلخ. قال الحلواني: لا بأس بالفصل بالأوراد واختاره الكمال. قال الحلبي: إن أريد بالكراهة التنزيهية ارتفع الخلاف قلت: وفي حفظي حمله على القليلة؛ ويستحب أن يستغفر ثلاثاً ويقرأ آية الكرسي والمعوذات ويسبح ويحمد ويكبر ثلاثاً وثلاثين؛ ويهلل تمام المائة ويدعو ويختم بسبحان ربك.
(قوله: إلا بقدر اللهم إلخ) لما رواه مسلم والترمذي عن عائشة قالت «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لايقعد إلا بمقدار ما يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام» وأما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة، بل يحمل على الإتيان بها بعدها؛ لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها فلم تكن أجنبية عنها، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة.
وقول عائشة بمقدار لايفيد أنه كان يقول ذلك بعينه، بل كان يقعد بقدر ما يسعه ونحوه من القول تقريباً، فلاينافي ما في الصحيحين من «أنه صلى الله عليه وسلم كان يقول في دبر كل صلاة مكتوبة: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولاينفع ذا الجد منك الجد» وتمامه في شرح المنية، وكذا في الفتح من باب الوتر والنوافل (قوله: واختاره الكمال) فيه أن الذي اختاره الكمال هو الأول، وهو قول البقالي. ورد ما في شرح الشهيد من أن القيام إلى السنة متصلا بالفرض مسنون، ثم قال: وعندي أن قول الحلواني لا بأس لا يعارض القولين لأن المشهور في هذه العبارة كون خلافه أولى، فكان معناها أن الأولى أن لايقرأ قبل السنة، ولو فعل لا بأس، فأفاد عدم سقوط السنة بذلك، حتى إذا صلى بعد الأوراد تقع سنة لا على وجه السنة، ولذا قالوا: لو تكلم بعد الفرض لاتسقط لكن ثوابها أقل، فلا أقل من كون قراءة الأوراد لا تسقطها اهـ.
وتبعه على ذلك تلميذه في الحلية، وقال: فتحمل الكراهة في قول البقالي على التنزيهية لعدم دليل التحريمية، حتى لو صلاها بعد الأوراد تقع سنة مؤداة، لكن لا في وقتها المسنون، ثم قال: وأفاد شيخنا أن الكلام فيما إذا صلى السنة في محل الفرض لاتفاق كلمة المشايخ على أن الأفضل في السنن حتى سنة المغرب المنزل أي فلا يكره الفصل بمسافة الطريق (قوله قال الحلبي إلخ) هو عين ما قاله الكمال في كلام الحلواني من عدم المعارضة ط (قوله: ارتفع الخلاف) لأنه إذا كانت الزيادة مكروهة تنزيهاً كانت خلاف الأولى الذي هو معنى لا بأس (قوله: وفي حفظي إلخ) توفيق آخر بين القولين، المذكورين، وذلك بأن المراد في قول الحلواني لا بأس بالفصل بالأوراد: أي القليلة التي بمقدار "اللهم أنت السلام إلخ" لما علمت من أنه ليس المراد خصوص ذلك، بل هو أو ما قاربه في المقدار بلا زيادة كثيرة فتأمل. وعليه فالكراهة على الزيادة تنزيهية لما علمت من عدم دليل التحريمية فافهم وسيأتي في باب الوتر والنوافل ما لو تكلم بين السنة والفرض أو أكل أو شرب، وأنه لا يسن عندنا الفصل بين سنة الفجر وفرضه بالضجعة التي يفعلها الشافعية (قوله: والمعوذات) فيه تغليب، فإن المراد الإخلاص والمعوذتان ط (قوله: ثلاثاً وثلاثين) تنازع فيه كل من الأفعال الثلاثة قبل"
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 530)
ملک العلماء علامہ كاساني رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"إن كانت صلاة لا تصلى بعدها سنة، كالفجر والعصر: فإن شاء الإمام قام، وإن شاء قعد في مكانه يشتغل بالدعاء; لأنه لا تطوع بعد هاتين الصلاتين، فلا بأس بالقعود، إلا أنه يكره المكث على هيئته مستقبل القبلة، لما روي عن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا فرغ من الصلاة لا يمكث في مكانه إلا مقدار أن يقول: (اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام); ولأن مكثه يوهم الداخل أنه في الصلاة فيقتدي به فيفسد اقتداؤه، فكان المكث تعريضا لفساد اقتداء غيره به فلا يمكث، ولكنه يستقبل القوم بوجهه إن شاء" انتهى من "بدائع الصنائع" (1/159)
علامہ عینی نے عمدہ القاری 599/4, حضرت شیخ نے اوجز 500/7 میں اور فیض الباری وغیرہ میں اس بابت تشفی بخش بحث کی گئی ہے؛ فليراجع ثمةً.
واللہ اعلم بالصواب 
مركز البحوث الإسلامية العالمي 
ہفتہ 20 ربیع الاول 1442 ہجری  
7 نومبر 2020 (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_17.html?m=1