Sunday 31 December 2023

وٹامن ڈی کی کمی سے بینائی متاثر ہونے کا انکشاف

 وٹامن ڈی کی کمی سے بینائی متاثر ہونے کا انکشاف

عام طور پر لوگوں کو علم نہیں ہے کہ وٹامن ڈی انسانی صحت کیلئے اہم ترین جز ہے، جسم میں اس کی کمی صحت کے متعدد مسائل کا سبب بن سکتی ہے، تاہم اب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس کی کمی بینائی کیلئے بھی خطرات پیدا کر سکتی ہے۔طیی ویب سائٹ ہیلتھ لائن کے مطابق متعدد تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہےکہ وٹامن ڈی کی کمی سے جہاں دیگر مسائل ہوسکتے ہیں، وہیں آنکھوں کی بیماری میکولر ڈجنریشن (macular degeneration) بھی ہوسکتی ہے۔ مذکورہ بیماری اگرچہ زائد العمری میں عام ہوتی ہے، تاہم اس سے وٹامن ڈی کی وجہ سے ادھیڑ عمر اور یہاں تک کے نوجوان بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس مسئلے کے دوران متاثرہ شخص کا وژن یا بصارت دھندلی یا بلر ہوجاتی ہے، اسے تمام چیزیں غیرواضح دکھائی دیتی ہیں اور مذکورہ مسئلہ مسلسل رہنے سے بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ اگرچہ میکولر ڈجنریشن (macular degeneration) مختلف وجوہات کی وجہ سے ہوسکتی ہے اور اس کا کوئی مستند علاج بھی دستیاب نہیں، تاہم وٹامن ڈی کی کمی بھی اس کا ایک سبب ہے اور متعدد تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وٹامن ڈی کی اچھی مقدار اس بیماری سے بچاسکتی ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق اگرچہ وٹامن ڈی کی مناسب مقدار سے میکولر ڈجنریشن (macular degeneration) بیماری کو ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے یہ بیماری ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں میکولر ڈجنریشن (macular degeneration) دیگر وٹامنز جن میں وٹامن ای، وٹامن اے، زنک، وٹامن سی، کوپر اور لیوٹین کی کمی سے بھی ہوسکتی ہے، تاہم وٹامن ڈی کی کمی سے اس کے خدشات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ عام طور پر وٹامن ڈی کو انسانی جسم سورج کے درجہ حرارت سے حاصل کرتا ہے لیکن اس باوجود جسم کو وٹامن ڈی کی مطلوبہ مقدار نہیں مل پاتی، اس لئے ماہرین صحت وٹامن ڈی سے بھرپور پھل اور سبزیاں کھانے سمیت وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس کھانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ وٹامن ڈی سے بھرپور سپلیمنٹس میں ایکتو وٹامن ڈی ہوتی ہے جو کہ اس کی کمی کو فوری طور پر مکمل کرنے میں مددگا ثابت ہوتی ہیں۔


اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

 اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

#ایس_اے_ساگر

کیا کسی کی بھی سمجھ میں آ رہا ہے کہ ہونا کیا چاہئے، ہو کیا رہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ ہونی کو انہونی اور انہونی کو ہونی بنانے کے مشاقینِ کرام کے سوا سب کی سمجھ میں آ رہا ہے۔ ضروری تو نہیں کہ دائیں بائیں اور نیچے ہر طرح کی زیادتیوں کے جواب میں خاموشی کا مطلب صرف بے حسّی بزدلی، مصلحت کوشی اور منافقت ہی ہو۔ خاموشی لاتعلقی و اکتاہٹ کا استعارہ بھی تو ہے، مزاحمت کی کم ازکم شکل بھی تو ہے، خاموشی معنی خیز بھی تو ہوسکتی ہے، دل و دماغ کے درمیان جاری کش مکش کو پوشیدہ رکھنے کا بھیس بھی تو ہوسکتی ہے۔ خاموشی سوچ بچار کی مہلت بھی تو ہو سکتی ہے اور خاموشی کسی طوفان یا جھکڑ سے پہلے کا سناٹا بھی تو ہوسکتی ہے۔ جبھی تو جون ایلیا کہتے ہیں:

کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے

یہ تو آشوب ناک صورت ہے

انجمن میں یہ میری خاموشی

بردباری نہیں ہے وحشت ہے

آج کا دن بھی عیش سے گذرا

سر سے پا تک بدن سلامت ہے

ہر ریاست کا بیانیہ جھوٹ اور سچ کے آمیزے سے تیار ہوتا ہے۔ کھوٹ ملائے بغیر نہ زیور بن سکتا ہے نہ ہی بیانیہ۔ یونیورسل سچائیاں اگرچہ ابدی ہیں انھیں کسی تعارف یا تفسیر کی ضرورت نہیں۔ مگر بیانیہ گھڑا جاتا ہے۔ قبولِ عام بنانے کیلئے اپنی مرضی اور پسند کے پتھر ، ہیرے موتی جڑے جاتے ہیں۔ اس میں ایسے باریک باریک منطقی سوراخوں سے گذارا جاتا ہے کہ اس عمل کے ذریعے بیانیہ لچکدار رہے اور حسبِ ضرورت موقع محل اور مفاد کے اعتبار سے اسے بدلنے میں آسانی رہے۔سچ، جھوٹ، ڈھٹائی، غیرت، اصول پسندی، بے اصولا پن، چکنا گھڑا، دورخا پن، ایثار، قربانی، بے حسّی، تعصّب، دنیا دکھاوا، قول و فعل میں تضاد وغیرہ وغیرہ یہ سب انسانی خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ ریاست بھی انسان ہی چلاتے ہیں۔ جیسی اقدار ورثے میں ملیں گی وہی تو نافذ ہوں گی وہی تو آگے بڑھیں گی۔

 ایک عام آدمی اور کرسی نشین میںبس اتنا فرق ہوتا ہے کہ عام آدمی کو نشہ کرنا پڑتا ہے۔ کرسی کا نشہ خود بخود ہوتا ہے۔ اس نشے پر قابو پا لیا جائے تو رعایا کیلئے رحمت، چڑھ جائے تو تہہ در تہہ عذاب ہے۔ مگر جیسے جیسے نام نہاد تہذیبی بیانیہ آگے بڑھ رہا ہے توں توں ریاستی سفاکی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ جب بڑی بڑی ذمہ دار ریاستیں سفاکی پر اترتی ہیں تو ان کی طفیلی ریاستیں اسے لائسنس سمجھ کے دس ہاتھ آگے بڑھ جاتی ہیں۔

ہمیں پسند آئے نہ آئے مگر انسانی جبلت ہے کہ جب وہ بے دست و پا ہوتا ہے تو اس سے زیادہ مظلوم کوئی نہیں ہوتا اور اسی کے ہاتھ میں طاقت آجاتی ہے تو بتدریج ویسا ہی ظالم بنتا چلا جاتا ہے کہ جس سے وہ دورِ مظلومیت میں نفرت کرتا رہا ہے۔ روزِ گذشتہ کا یہ مظلوم اپنے ہر جائز ناجائز قدم کیلئے وہی منطق اور تاویل اپنا لیتا ہے کہ جس سے اسے دورِ مظلومیت میں انتہائی چِڑ ہوتی ہے۔ اور جب یہ فرد ایک گروہ اور پھر گروہ سے ریاست بنتا ہے تو غیرمحسوس انداز میں کلر بلائنڈ ہوتا چلا جاتا ہے۔ احمد نوید نے کیا خوب کہا ہے:

سب کا حق لے کے بھی محروم نظر آتا ہے

اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

(بشکریہ :وسعت اللہ خان)



کیا سردیوں میں ورزش یا جاگنگ کرنے سے دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے؟

 کیا سردیوں میں ورزش یا جاگنگ کرنے سے دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے؟

#ایس_اے_ساگر

ایسی صورت میں جبکہ محکمہ موسمیات نے دہلی این سی آر کیساتھ ساتھ پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش میں اتوار سے کل نئے سال تک گھنے دھند کا ریڈ الرٹ جاری کردیا ہے۔ نئے سال کی شام یعنی 31 دسمبر2023 کی شام سے لے کر یکم جنوری 2024 کو نئے سال کے آغاز تک مرکزی دارالحکومت دہلی این سی آر سمیت کئی ریاستیں گھنی دھند کی چادر میں لپٹی رہیں گی۔محکمہ موسمیات نے اتوار یعنی 31 دسمبرکی صبح دھند کا ریڈ الرٹ جاری کیا ہے۔ اس کے مطابق نئے سال کے موقع پر ملک کی دارالحکومت دہلی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں گھنے دھند کی وجہ سے ٹریفک پر بڑا اثر پڑنے والا ہے۔ سڑک ٹریفک کیساتھ ساتھ ریل اور فضائی خدمات بھی متاثر ہوں گی۔محکمہ موسمیات کے مطابق دہلی، پنجاب اور ہریانہ میں 31 دسمبر کی شام سے گھنی دھند شروع ہوگی اور یکم جنوری کی صبح تک جاری رہے گی۔ جس کی وجہ سے حد نگاہ کم ہو جائے گی جس سے ٹریفک متاثر ہو گا۔محکمہ موسمیات کے مطابق اگلے 7 دنوں تک دہلی کا کم سے کم درجہ حرارت 7 سے 11 ڈگری سیلسیس اور زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 18 سے 20 ڈگری سیلسیس کے درمیان رہے گا۔ دارالحکومت میں ہفتہ بھر دھند چھائی رہے گی، جس کی وجہ سے شدید سردی ہوگی۔ایسے میںعام طور پر یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ ’سردی‘ ورزش کرنے کا بہترین وقت ہے۔ برصغیر سمیت شمالی کرے پر آباد تمام ممالک میں سردیوں کا موسم اپنے شباب پر ہے اور بعض علاقے تو برف باری کی وجہ سے جم سے گئے ہیں۔

عام خیال کے مطابق اس موسم میں بہت سے لوگ جسمانی سرگرمیوں کو ترجیح دیتے ہیں جن میں ورزش کرنا، دوڑنا اور دوسرے آوٹ ڈور اور انڈور کھیل کھیلنا شامل ہے۔ لیکن آج کل ورزش کے دوران یا پھر محض چہل قدمی یا کرکٹ کھیلنے کے دوران دل سے متعلق مسائل کی وجہ سے لوگوں کے فوت ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔امریکی حکومت کی نیشنل لائبریری آف میڈیسن کی ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دل کی بیماریاں اور موت گرمیوں کی نسبت سردیوں میں زیادہ ہوتی ہیں۔تو ایسی صورت حال میں سوال یہ ہے کہ کیا سردیوں میں ورزش کرنا واقعی زیادہ فائدہ مند ہے؟ یا کیا سردیوں میں ورزش یا جاگنگ کرنے سے دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے؟بی بی سی گجراتی سروس نے ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کیلئے انڈیا کے کچھ ماہرین صحت سے بات کی ہے۔

گجرات کے معروف ہارٹ سپیشلسٹ سرجن ڈاکٹر سوکمار مہتا سردی کے موسم میں دل کی حالت کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’شدید سردی میں ہمارے جسم کی شریانیں تنگ ہو جاتی ہیں۔ یہ تبدیلی بہت اہم ہے اور ورزش کے دوران اس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔‘ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں ماہر امراض قلب اور میکس ہسپتال کے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر چندر شیکھر ہمارے دل پر سردی کے اثرات کے بارے میں بتاتے ہیں: ’سردی کا موسم ہمارے دل پر زیادہ دباو¿ ڈالتا ہے۔ کیونکہ جسم کو گرم رکھنے کیلئے دل کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔‘راجکوٹ کے گریراج ہسپتال کے کریٹیکل کیئر سپیشلسٹ میانک ٹھاکر نے ڈاکٹر مہتا کی بات کی تاعید کرتے ہوئے کہا کہ ’سردی کا موسم عام طور پر دل کی نالیوں (شریانوں) کے سکڑنے کا سبب بنتا ہے۔ یہ موسم دل تک خون لے جانے والی نالیوں کے تنگ ہونے کا بھی سبب بنتا ہے۔‘جاڑے کے موسم اور اس کے دوران دل کی شریانوں میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں جاننے کے بعد بی بی سی گجراتی نے اس موسم میں ورزش، چہل قدمی یا جاگنگ اور ہارٹ اٹیک سے اس کا تعلق جاننے کی کوشش کی ہے۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر مہتا کہتے ہیں: ’ایسا نہیں ہے کہ سردیوں میں ورزش کرنا زیادہ فائدہ مند ہے۔ کسی بھی موسم میں ورزش کرنا اتنا ہی فائدہ مند ہے جتنا کہ سردیوں میں۔‘اسی طرح ڈاکٹر ٹھاکر نے بھی کہا کہ ’سردیوں یا گرمیوں میں ورزش کرنا عموماً نقصان دہ نہیں ہوتا۔ لیکن ورزش شروع کرنے سے پہلے کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ورزش کرتے وقت کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے؟

ڈاکٹر ٹھاکر کہتے ہیں: ’جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ سردی میں دل کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں۔ جب دل کی شریانیں چربی سے بھری ہوتی ہیں تو قدرتی طور پر شریانوں سے خون کے بہنے کا راستہ پہلے ہی تنگ ہو جاتا ہے۔‘’ایسی صورت حال میں جب سردیوں کی وجہ سے ٹیوب زیادہ سکڑ جاتی ہے تو راستہ مزید چھوٹا ہو جاتا ہے۔ اس سے سردی میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘ورزش اور جسم پر اس کے اثرات کے بارے میں وہ کہتے ہیں: ’سردی میں ورزش، چہل قدمی، ایروبکس اور یوگا جیسی سرگرمیاں زیادہ آسانی سے کی جا سکتی ہیں کیونکہ جسم زیادہ توانا اور قوت سے بھرا ہوتا ہے۔ عام طور پر جب آپ ورزش کرتے ہیں تو جسم میں حرارت پیدا ہوتی ہے۔ جو آپ کی شریانوں کی تنگی کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔‘’لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سردی میں ورزش کرنے سے ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بلکہ، ورزش سے دل کے دورے کے خطرے کو نمایاں طور پر کم ہوتے دیکھا گیا ہے۔‘ ڈاکٹر ٹھاکر مزید کہتے ہیں: ’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ورزش شروع کرتے وقت خیال رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ورزش شروع کرنے یا کوئی بھی کھیل کھیلنے سے پہلے ایک بار اپنی صحت کا معائنہ ضرور کروا لینا چاہیے۔ اور اپنی رپورٹ اور ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق حدود میں رہتے ہوئے ورزش کرنی چاہیے۔‘

ورزش میں برتیں احتیاط:

ڈاکٹر مہتا بھی اس بات سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’چاہے آپ سردیوں میں ورزش کریں یا گرمیوں میں، وقتاً فوقتاً طبی رائے حاصل کرنا ضروری ہے۔ تاکہ آدمی کو معلوم ہو کہ وہ خود ورزش کیلئے موزوں ہے یا نہیں۔‘’اگر کوئی فٹنس کے بارے میں جانتا ہے، تو وہ یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ کس قسم کی اور کس شدّت کی ورزش ضروری ہے۔ تاکہ ہمارے ساتھ صحت کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔‘ڈاکٹر چندر شیکھر کے مطابق: ’پہلے سے دل کے مسائل سے دوچار لوگوں کو خاص طور پر سردیوں میں خطرہ رہتا ہے۔ اس لیے سردیوں میں ورزش کرتے ہوئے کچھ چیزوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، گرم کپڑوں میں ورزش کرنا اور ورزش شروع کرنے سے پہلے مناسب وارم اپ کرنا وغیرہ اہم ہے۔‘اس کے علاوہ آج کل ورزش کرتے ہوئے یا کھیل کے دوران اچانک دل کا دورہ پڑنے یا موت کے ذمہ دار دوسرے عوامل کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر میانک ٹھاکر کہتے ہیں: ’آج کل بہت سے لوگ اپنے جسم کو سمجھے بغیر ورزش کرنا یا کھیل کھیلنا شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مناسب آرام اور وارم اپ کے بغیر ورزش کرنے کی وجہ سے دل پر اچانک دباو پڑنے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ایسے معاملات پیش آسکتے ہیں۔‘






Friday 22 December 2023

حضرت ام سلیم رضی اللہُ تعالیٰ عنہا کا عمل

حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا عمل 
عن أنس رضي الله عنه قال: كان ابن لأبي طلحة رضي الله عنه يشتكي، فخرج أبو طلحة، فَقُبِضَ الصَّبي، فلما رجع أبو طلحة، قال: ما فعل ابني؟ قالت أم سليم وهي أم الصَّبي: هو أسْكَن ما كان، فَقَرَّبَت إليه العشاء فتَعَشَّى، ثم أصاب منها، فلما فَرَغ،َ قالت: وارُوا الصَّبي فلما أصبح أبو طلحة أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره، فقال:«أعَرَّسْتُمُ اللَّيلَةَ؟» قال: نعم، قال: «اللَّهُمَّ بارِك لهما»، فولدت غلامًا، فقال لي أبو طلحة: احْمِلْهُ حتى تأتي به النبي صلى الله عليه وسلم وبعث معه بتمرات، فقال: «أمَعَه شيء؟» قال: نعم، تَمَرات، فأخذها النبي صلى الله عليه وسلم فمَضَغَها، ثم أخذها من فِيه فجعلها في فِيِّ الصَّبي، ثم حَنَّكَهُ وسماه عبد الله. وفي رواية: قال ابن عيينة: فقال رجل من الأنصار: فرأيت تِسْعَة أولاد كلهم قد قرؤوا القرآن، يعني: من أولاد عبد الله المولود. وفي رواية: مات ابن لأبي طلحة من أم سليم، فقالت لأهلها: لا تُحَدِّثوا أبا طلحة بابْنِهِ حتى أكون أنا أُحدِّثه، فجاء فَقَرَّبَتْ إليه عشاء فأكَل وشرب، ثم تَصَنَّعَتْ له أحْسَن ما كانت تصنع قبل ذلك، فَوَقَع بها. فلمَّا أن رأت أنه قد شَبِع وأصاب منها، قالت: يا أبا طلحة، أرأيت لو أن قومًا أعَارُوا عَارِيَتَهُم أهل بيت فطَلَبوا عَارِيَتَهُم، ألهم أن يَمْنَعُوهُم؟ قال: لا، فقالت: فَاحْتَسِبْ ابنك، قال: فغضِب، ثم قال: تَرَكْتِني حتى إذا تَلطَّخْتُ، ثم أخبرتني بابني؟! فانطلق حتى أتى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فأخبره بما كان فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «بارك الله في لَيْلَتِكُمَا»، قال: فَحَمَلَتْ. قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم في سَفَر وهي معه، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أتى المدينة من سَفر لا يَطْرُقُهَا طُرُوقًا فَدَنَوا من المدينة، فضَرَبَها المَخَاض، فَاحْتَبَسَ عليها أبو طلحة، وانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يقول أبو طلحة: إنك لَتَعْلَمُ يَا رَبِّ أنه يُعْجِبُنِي أن أخرج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خرج وأدخل معه إذا دخل وقد احْتَبَسْتُ بما ترى، تقول أم سليم: يا أبا طلحة، ما أجِدُ الذي كنت أجِدُ، انطلق، فانطلقنا وضربها المَخَاض حين قَدِما، فولدت غلامًا. فقالت لي أمي: يا أنس، لا يُرْضِعْهُ أحدٌ حتى تَغْدُو به على رسول الله صلى الله عليه وسلم فلمَّا أصبح احتَمَلْتُه فانْطَلَقتُ به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ... وذكر تمام الحديث.  
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا لڑکا بیمار تھا۔ وہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے کہ بچے کا انتقال ہوگیا۔ ابوطلحہ واپس آئے تو بیوی سے پوچھا کہ بچہ کیسا ہے؟ بچے کی ماں ام سلیم نے کہا کہ وہ پہلے سے زیادہ پرسکون حال میں ہے۔ پھر بیوی نے ان کے سامنے شام کا کھانا رکھا۔ ابوطلحہ کھانے سے فارغ ہوگئے۔ اس کے بعد بیوی سے ہم بستری کی۔ جب وہ فارغ ہوگئے، توام سلیم نے کہا کہ بچے کو دفن کردو! صبح ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور آپ کو سارے واقعہ سنایا۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم نے رات کو ہم بستری کی ہے؟ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں! نبی ﷺ نے یہ دعا دی: ”اے اللہ! ان دونوں کو برکت عطا فرما"c2">“۔ پھر ان کے یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ اس بچے کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے جاؤ اور ساتھ ہی کچھ کھجوریں بھیجیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ ساتھ میں کوئی چیز بھی ہے؟ انھوں نے جواب میں کہا کہ جی ہاں کچھ کھجور ہیں! نبی کریم ﷺ نے ان کھجوروں کو لیا۔ اپنے منہ میں چبایا۔ پھر اس کو اپنے منہ سے نکال کر بچے کے منہ میں ڈال دیا۔ بچے کی تحنیک کی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔ ایک اور روایت میں ابن عیینۃ فرماتے ہیں: ایک انصاری شخص کا کہنا ہے کہ میں نے نو لڑکے دیکھے؛ سب کے سب قرآن مجید کے قاری تھے۔ یعنی اس نومولود عبداللہ کی اولاد میں سے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک لڑکے کا انتقال ہوگیا، جو ام سلیم رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھا۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے اہل خانہ کو تاکید کردی کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بیٹے کے مرنے کی خبر نہ دینا، یہاں تک کہ میں خود انھیں بتادوں، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آئے۔ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے انھیں شام کا کھانا پیش کیا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کھانے پینے سے فارغ ہوئے۔ پھر ام سلیم رضی اللہ عنھا نے ان کے لیے اس سے بہتر بناؤ سنگھار کیا جو اس سے قبل کیا کرتی تھیں۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے ہم بستری کی۔ جب ام سلیم نے دیکھا کہ وہ کھانے سے بھی سیر ہوگئے اور ان کے ساتھ بھی وقت گزار لیا، تو انھوں نے کہا:ابوطلحہ! ذرا یہ تو بتاؤ کہ اگر کچھ لوگ ایک گھرانے کو ادھار دی جانے والی کوئی چیز ادھار دیں، پھر وہ اپنی چیز واپس مانگ لیں، تو کیا ان کو حق ہے کہ ان کو منع کریں؟ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا:نہیں۔ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے کہا:تو پھر اپنے بیٹے (کی وفات) پر صبر کیجیے۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ یہ سن کر غصہ میں آگئے اور کہا:تم نے مجھے بے خبر رکھا، یہاں تک کہ میں آلودہ ہوگیا، پھرتم نے مجھے میرے بیٹے کے بارے میں بتایا!! پھر وہ چل پڑے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو ساری باتیں بتادیں۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا: ”تمھاری گزرنے والی رات میں اللہ تعالیٰ تمھیں برکت عطا فرمائے!“ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ام سلیم رضی اللہ عنہا حاملہ ہوگئیں۔ وہ آگے بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے اور ام سلیم آپ ﷺ کے ہم راہ تھیں، رسول اللہ ﷺ جب سفر سے مدینہ لوٹتے تو رات کو آکر مدینہ میں دستک نہیں دیتے تھے۔ سب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دردزِہ نے آلیا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو ان کے پاس رکنا پڑا اور رسول اللہ ﷺ چل پڑے۔ ( انس رضی اللہ عنہ) کہہتے ہيں:(اس وقت) ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے:میرے پروردگار!مجھے یہی اچھا لگتا ہے کہ میں بھی تیرے رسول کے ساتھ باہر نکلوں، جب آپ (مدینہ سے) باہر نکلیں، اور جب آپ (مدینہ کے) اندر آئیں تو میں بھی آپ کے ساتھ اندر آؤں،(لیکن) میں اس بات کی وجہ سے روک دیا گیا ہوں جو تو دیکھ رہا ہے، (انس رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں:تو ام سلیم رضی اللہ عنھا کہنے لگیں:ابوطلحہ! جو (درد) مجھے محسوس ہورہا تھا، اب محسوس نہیں ہورہا ہے، لہذا چلیے! چنانچہ ہم چل پڑے۔ (انس رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں: جب دونوں (مدینہ) آگئے تو ام سلیم کو (دوبارہ) درد شروع ہوگیا اور ایک بیٹے کو جنم دیا۔ میری ماں (ام سلیم) نے مجھ سے کہا:اسے کوئی بھی دودھ نہیں پلائے گا، یہاں تک کہ صبح تم اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لےجاؤگے۔ جب صبح ہوئی، تو میں نے اسے اٹھالیا، اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ پھر انھوں نے مکمل حدیث بیان فرمائی۔  
صحیح - متفق علیہ

شرح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا بیمار تھا۔ دراصل ابوطلحہ رضی اللہ عنہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ (ام سلیم رضی اللہ عنہا) کےشوہر تھے۔ انھوں نے انس رضی اللہ عنہ کے والد کے بعد انھیں اپنی زوجیت میں لے لیا تھا۔ ابوطلحہ اپنے کسی کام کے سلسلے میں باہر نکلےاور اس دوران بچے کی وفات ہوگئی۔ جب وہ واپس لوٹے تو بچے کی ماں سے اس کے متعلق دریافت کیا کہ میرے بیٹے کی صحت کیسی ہے؟ بیوی نے جواب دیا کہ وہ پہلے سے زیادہ پرسکون حالت میں ہے۔ در حقیقت انھوں نے سچ ہی کہا تھا کہ وہ اپنی سابقہ حالت سے زیادہ پرسکون ہے؛ کیوں کہ بچے کی وفات ہوچکی تھی۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ بچہ، بیماری سے صحت یاب ہو کر پرسکون حالت میں ہوگا اور اس کی بیماری دور ہوچکی ہوگی۔ بیوی نے ابوطلحہ کے سامنے شام کا کھانا پیش کردیا اور انھوں نے اس اطمینان کے ساتھ شام کا کھانا کھا لیا کہ بیٹا صحت یاب ہوچکا ہے۔ اس کے بعد اپنی بیوی سے ہم بستری یعنی جماع بھی کیا۔ جب فارغ ہو گئے تو بیوی نے کہا کہ بچے کو دفنا دیجیے؛ کیوں کہ اس کی وفات ہوچکی ہے! -یہ پہلی روایت کے مطابق ہے- جب صبح ہوئی، تو بچے کو دفن کیا اور نبی کریم ﷺ کو اس بات کی اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ تم نے رات میں ہم بستری کی ہے؟ ابوطلحہ نے جواب دیا کہ جی ہاں! آپ ﷺ نے دونوں کے حق میں برکت کی دعا فرمادی، چنانچہ ان کے یہاں ایک بابرکت لڑکے کی ولادت ہوئی۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے ابوطلحہ نے کہا کہ اس بچے کو نبی کریم ﷺ کے پاس لے جاؤ۔ ساتھ ہی انھوں نے کچھ کھجوریں بھی بھیجیں؛ تاکہ ان سے آپ ﷺ تحنیک فرمادیں۔ بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے نبی ﷺ کے لعاب دہن کے ساتھ چبائی ہوئی شے داخل ہو اور اس بچے کی زندگی میں برکتیں نازل ہوں۔ جب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس بچے کو حاضر کیا گیا، تو آپ نے دریافت کیا کہ اپنے ساتھ کچھ لائے ہو؟ یعنی جس کے ذریعہ آپ تحنیک فرمائیں۔ انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ کچھ کھجوریں ان کے پاس ہیں۔ آپ ﷺ نے کھجور لے کر اپنے منہ میں چبایا؛ تاکہ اپنے بابرکت لعاب دہن کے ساتھ اسے ملادیں اور بچے کے لیے اس کا نگلنا آسان ہوجاۓ۔ اس طرح بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے نبی مصطفیٰ ﷺ کے لعاب دہن کے ساتھ چبائی ہوئی کھجور داخل ہو، جو اس بچے کی نیک بختی کا باعث ہو اور اس کی زندگی میں برکتیں نازل ہوتی رہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے اپنے منہ سے چبائی ہوئی کھجور نکال کر بچے کے منہ میں ڈال دی۔ انھیں بچے کے منہ میں پھیرا اور اس کانام عبداللہ رکھا۔ اس بچے کے ہاں نو لڑکے ہوئے اورنبی کریم ﷺ کی دعا کی برکت سے وہ سب کے سب قرآن مجید کے قاری نکلے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق، ام سلیم رضی اللہ عنھا نے اپنے گھر والوں کو تاکید کردی تھی کہ"ابوطلحہ کو ان کے فرزند کے بارے میں اطلاع نہ دینا، تاآں کہ میں ہی انھیں اس کے بارے میں بتلاؤں۔"جب ابوطلحہ رضی اللہ عنہ گھر تشریف لائے، انھیں رات کا کھانا پیش کیا۔ وہ کھانے پینے سے فارغ ہوگئے۔ پھر ام سلیم نے ان کے لیے بناؤ سنگھار کیا۔ خود کو خوش بو سے معطر کرلیا اور سج سنور گئیں۔ پھر ابوطلحہ نے ان سے ہم بستری کی اور جب جماع سے فارغ ہوئے تو بیوی نے اپنے بیٹے کی نسبت ادھار کے طور پر لی گئی شے سے مثال بیان کی، جسے اس کے مالک کے حوالہ کردیا جاتا ہے اور ان سے پوچھا کہ اے ابوطلحہ! ذرا یہ تو بتائیے کہ اگر کچھ لوگ اپنے گھر کی کوئی چیز کسی گھرانے کو ادھار کے طور پردیں اور پھر ان سے اپنی چیز واپس مانگ لیں، تو کیا لینے والے کے لیے درست ہے کہ وہ ادھار دینے والوں کو ان کی چیز واپس کرنے سے انکار کردیں؟ ابوطلحہ نے جواب میں کہا کہ نہیں! تب بیوی نے کہا کہ تو پھر اپنے فرزند کے تئیں اللہ تعالیٰ سے امید رکھو۔ ابوطلحہ یہ سن کر غصے میں آگئے اور کہا:تم نے مجھے اس بات سے اس حد تک بے خبر رکھا کہ میں (کھانے،پینے اور جماع جیسے امور میں پوری طرح) آلودہ ہوگیا اور ان سب کے بعد تم میرے بیٹے کے انتقال کی خبردے رہی ہو؟! پھر نبی کریم ﷺ سے اپنی بیوی کی شکایت کرنے اور ان کے ساتھ پیش آئے سارے ماجرے کو بیان کرنے کے لیے نکل پڑے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے ان دونوں کے حق میں ایسی دعا دی کہ ان دونوں کے اس عمل کا بہترین نتیجہ برآمد ہوا۔ فرمایا: "تمھاری گزرنے والی رات میں اللہ تعالیٰ تمھیں برکت عطا فرمائے!"یعنی اس رات تم دونوں کی ہم بستری کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمھیں پاکیزہ اولاد اور بہترین نسل سے نواز دے۔ بعدازاں وہ حاملہ ہوئیں۔ وہ اور ان کے شوہر رسول اللہ ﷺ کے کسی سفر میں ہم راہ تھے۔ جب مدینے میں داخل ہونے والے تھے کہ انھیں دردزہ نے آلیا، یعنی ولادت کی تکلیف محسوس ہونی شروع ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ سفر سے لوٹتے تو اہل مدینہ کو قافلے کی آمد کی خبر دینے کے لیے کسی قاصد کوروانہ فرماتے اور اس سے قبل مدینے میں داخل نہ ہوتے۔ اپنی بیوی کی زچگی کے امور میں مشغول ہونے کی وجہ سے ابوطلحہ کو وہیں رک جانا پڑا اور رسول اللہ ﷺ چل پڑے۔ ابوطلحہ اپنے رب سے یوں گویا ہوئے کہ اے میرے پروردگار! تو بخوبی جانتا ہے کہ مجھے بس یہی اچھا لگتا ہے کہ جب کبھی رسول اللہ ﷺ باہر نکلیں، تو میں بھی تیرے رسول کے ساتھ نکلوں اور جب آپ مدینہ واپس آئیں تو میں بھی آپ کے ہم راہ اندر آؤں، لیکن تو دیکھ رہا ہے کہ مجھے کس وجہ سےروک دیا گیا ہے۔ چنانچہ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے ان سے کہا کہ اے ابوطلحہ! مجھے اب وہ درد محسوس نہیں ہورہا ہے، جو پہلے ہورہا تھا۔ یعنی مجھے اب دردزہ کی وہ تکلیف محسوس نہیں ہورہی ہے، جو اس سے پہلے ہورہی تھی۔ پھر ان سے کہا کہ اب چلیے۔ جب یہ لوگ مدینہ پہنچ گئے، تو زچگی کا وقت آگیا۔ انھوں نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بچے کو نبی ﷺ کے پاس لے جاؤ۔ اس بات کی بھی تاکید کی کہ اس کو کوئی دودھ نہ پلائے۔ تاکہ بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے نبی ﷺ کا لعاب دہن داخل ہو اور اس کے نتیجے میں دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں اس کی زندگی میں آجائیں۔ اس عمل کا نتیجہ اس لڑکے میں ظاہر ہو گیا کہ اس کی نسل میں نیکوکار، پرہیزگار اور فلاح و کامرانی سے ہم کنار ہونے والے لڑکوں کی بہتات ہوئی۔ اس حدیث کی شرح کے اختتام پر یہ جاننا ازحد ضروری ہے کہ جسم سے نکلنے والی چیز سے تبرک حاصل کرنا صرف اور صرف نبی ﷺ کی خصوصیات سے تعلق رکھتا ہے، جس میں اس امت کا کوئی فرد کبھی شریک و حصہ دار نہیں ہوسکتا۔ اس بات کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ نزول وحی کا راست مشاہدہ کرنے والے اور دینی حقائق سے بھرپور واقفیت و آگہی رکھنے والے صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین نے خلفاے راشدین اور ان کے علاوہ عشرۂ مبشرہ میں سے کسی کے ذریعہ کبھی تبرک حاصل نہیں کیا۔ 
( #ایس_اے_ساگر )

Saturday 16 December 2023

چھینک کو روکنا کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے

 چھینک کو روکنا کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے!

شمالی ہند میں دہلی سمیت متعدد علاقوں میں سردی کی شروعات ہوچکی۔ ایسے میںبعض اوقات چھینکوں کا حملہ بھی ہوجاتا ہے۔عام طور پر لوگ ناک میں ہلکی خارش یا الرجی کی صورت میں چھینکتے ہیں اور اگر چھینک کو جان بوجھ کر روکا جائے تو سانس کی نالی میں سوراخ بن سکتا ہے جو آپ کی جان کیلئے خطرے کا باعث ہے۔ دھول، مٹی، دھواں ناک میں داخل ہوتے ہیں تو ناک کے اندر خارش یا جلن محسوس ہوتی ہے جس سے انسان کو چھینک آتی ہے، چھینک ایسا قدرتی عمل ہے جو آپ کی ناک کے اندر کیڑا یا بیکٹریا کے خلاف دفاع ہے۔ تاہم اگر ہم اس قدرتی عمل کو جان بوجھ کر روکنے کی کوشش کریں تو سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک کیس برطانوی جریدے بی ایم جی میں رپورٹ ہوا جب 30 سالہ شخص کو ڈرائیونگ کے دوران چھینک آنے کا احساس ہوا۔ اب چونکہ وہ ڈرائیونگ کررہا ہے تو اس شخص نے ناک بند اور منہ کو ہاتھ سے دبا کر چھینک روک دی، جس کے فوری بعد اس شخص کے گلے میں شدید تکلیف کا احساس ہوا، تکلیف کی شدت اتنی زیادہ تھی اسے ہسپتال کے ایمرجنسی یونٹ جانا پڑا۔ ڈاکٹرز نے جب 30 سالہ مریض کی حالت دیکھی تو وہ بھی حیران رہ گئے، سی ٹی اسکین سے پتہ چلا کہ اس شخص کی سانس کی نالی میں سوراخ بن گیا ہے۔ ڈاکٹر راساد مِصِروف کا کہنا تھا کہ مریض کے گردن میں شدید سوجن تھی، جسے ہم دیکھ کر کافی حیران تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ایکس رے سے معلوم ہوا کہ گردش کے نرم ٹشوز میں ہوا بھری ہوئی تھی، ہم نے گردن اور سینے کی کمپیوٹنگ ٹوموگرافی کی جس سے پتہ چلا کہ گردن اور سینے کے ٹشوز میں ہوا پھنسی ہوئی ہے اور سانس کی نالی میں سوراخ ہے۔’ڈاکٹر نے کہا کہ اس طرح کے کیسز نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں لیکن جو کیسز رپورٹ ہوئے وہ انتہائی پیچیدہ اور زندگی بھی خطرے میں پڑسکتی ہے۔جریدے کے مطابق مریض خوش قسمت تھا کہ اس کی جان بچ گئی، ڈاکٹرز نے انہیں درد کی دوا تجویز کی اور ہسپتال داخل کیا، 5 ہفتوں کے دوران ڈاکٹرز کے نگرانی کے بعد سانس کی نالی کا سوراخ ٹھیک ہوگیا۔ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ’یہ کیس سنگین شکل اختیار کرسکتا تھا، اگر چھینک کے دوران منہ اور ناک دونوں بند ہوجائیں تو ایئر ویز میں دباو 20 گنا تک بڑھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’سب سے سنگین صورت حال میں سانس کی نالی پھٹ سکتی ہے جس کے نتیجے میں دم گھٹ سکتا ہے یا دماغ میں خون بھی بہہ سکتا ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ چھینک کا احساس ہو تو اسے مت روکیں کیونکہ یہ جسم کا قدرتی عمل ہے، تاہم چھینک کے دوران اپنے ہاتھ یا کہنی کی مدد سے چہرے کو نرمی سے ڈھانپ لیں تاکہ وائرس جیسے تھوک آپ کے اردگرد دوسروں تک نہ پھیل سکے۔ ( #ایس_اے_ساگر )





Sunday 10 December 2023

کیا آپ کے مسوڑھوں سے خون بہتا ہے؟

کیا آپ کے مسوڑھوں سے خون بہتا ہے؟
منھ کی وہ بیماریاں جن سے ہماری جسمانی صحت کا پتہ چلتا ہے
جب آپ دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، تو آپ عام طور پر صرف اپنے دانتوں کی دیکھ بھال کے بارے میں سوچتے ہیں جبکہ اپنے باقی منھ کو فراموش کر دیتے ہیں۔لیکن اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ قیمتی معلومات سے محروم ہوسکتے ہیں: آپ کے منھ کی صحت آپ کے باقی جسم میں کیا ہو رہا ہے، اس تک ایک آسان رسائی اور انتہائی درست اشارہ ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ، جب آپ کے جسم کو بہترین حالت میں رکھنے کی بات آتی ہے تو منھ کی اچھی صحت کو برقرار رکھنا کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈینٹسٹری کے ڈائریکٹر پروفیسر نیکوس ڈونوس نے بی بی سی کے دی ایویڈینس پر ایک پینل کے دوران کہا کہ برطانیہ میں ’کچھ اشتہارات ہیں‘، جس میں وہ پوچھتے ہیں: ’اگر آپ کی آنکھ سے خون بہہ رہا ہو تو کیا آپ اسے نظر انداز کریں گے؟ تو آپ مسوڑھوں سے خون آنے پر اسے نظرانداز کیوں کرتے ہیں؟‘’اور پھر بھی، ایسے لوگ ہیں جو مسوڑھوں کی شدید بیماری کیساتھ زندگی گزارتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ معمول ہے۔‘ایسے کافی شواہد موجود ہیں جو خاص طور پر مسوڑھوں کی بیماری یا پیریڈونٹائٹس کو ذیابیطس اور دل کی بیماری سے جوڑتے ہیں اور ایسے زیادہ سے زیادہ مطالعات موجود ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان بیماریوں کے خلاف جنگ میں منھ کی اچھی صحت سب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والے پہلوو¿ں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔ڈونوس نے وضاحت کی کہ’جب ہم مختلف دائمی بیماریوں اور منھ کیساتھ جسم کے دوسرے حصوں کے درمیان کنکشن اور ایسوسی ایشن کے بارے میں بات کررہے ہیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ مسوڑھوں کی بیماری کا پھیلاؤ ہے۔‘’ہم نے پایا کہ مسوڑھوں کی بیماری انسانیت کی سب سے عام دائمی بیماریوں میں چھٹی ایسی بیماری ہے، جو تقریباً 1.1 ارب لوگوں میں موجود ہے جو کل آبادی کا گیارہ اعشارہ دو فیصد بنتا ہے۔‘
مسوڑھوں کی بیماری:
امریکہ میں میو کلینک مسوڑھوں کی بیماری، یا پیریڈونٹائٹس کے بارے میں بتایا ہے ’مسوڑھوں کا ایک سنگین انفیکشن جو دانتوں کے ارد گرد کے نرم بافتوں کو متاثر کرتا ہے۔ علاج نہ ہو تو پیریڈونٹائٹس اس ہڈی کو تباہ کر سکتا ہے جو آپ کے دانتوں کو سہارا دیتی ہے۔ دانت ڈھیلے ہو جاتے ہیں۔ یا گ سکتے ہیں۔‘ممکنہ علامات میں مسوڑھوں سے خون بہنا، لالی یا درد یا سانس کی مسلسل ب±و شامل ہے۔لیکن منھ کو نقصان پہنچانے کے علاوہ یہ کافی ثبوت ہے کہ مسوڑھوں کی یہ بیماری ٹائپ 2 ذیابیطس سے جڑی ہے۔ ڈونوس کہتے ہیں’حقیقت میں، ہم فی الحال دو طرفہ تعلقات کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ پیریڈونٹل بیماری کے مریضوں کو ذیابیطس ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور ذیابیطس کے مریضوں کو بھی پیریڈونٹل بیماری ہوتی ہے۔‘یہ تعلق اتنا قریب ہے کہ ایسے مطالعات موجود ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ٹائپ 2 ذیابیطس والے لوگوں میں منھ کی اچھی دیکھ بھال عام طور پر، آسان طریقے سے اور بڑے ضمنی اثرات کے بغیر بیماری پر قابو پانے میں مدد کر سکتی ہے۔‘ ڈونوس کا کہنا ہے کہ ’کچھ سال پہلے ہم نے ایک مطالعہ کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر آپ پیریڈونٹل بیماری کا روایتی طور پر علاج کرتے ہیں، بغیر جراحی کے ان مریضوں میں بہتر میٹابولک کنٹرول ہوتا ہے، جو کہ ایک اہم بہتری ہے جو تقریباً 12 ماہ تک برقرار رہی۔‘
بی بی سی کے پینل میں بھی حصہ لینے والے ڈاکٹر گراہم لائیڈ جونز تھے، جو برطانیہ کے سیلسبری ہسپتال کے ایک ریڈیولوجسٹ تھے، جنہوں نے تصدیق کی کہ منھ اور ذیابیطس کے درمیان تعلق ’معنی رکھتا ہے۔‘
ڈاکٹر نے خبردار کیا کہ ’ہمیں منھ کو ایک امیونولوجیکل عضو کے طور پر دیکھنا چاہیے : اگر اس پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے، تو سوزش کے عمل ہوں گے، بشمول پیتھوجینز - بیکٹیریا جو عام طور پر منھ میں رہتے ہیں لیکن جسم کے دوسرے حصوں میں منتقل ہوتے ہیں، جو ان میں سے بہت سی بیماریوں کی نشوونما اور بد تر ہونے کا باعث ہیں۔‘
منھ سے دل تک:
مسوڑھوں کی بیماریوں سے جڑی واحد بیماری ٹائپ 2 ذیابیطس نہیں ہے کیونکہ کنٹرول سے باہر پیریڈونٹائٹس بیکٹیریا خون کے نظام کے ذریعے جسم میں سفر کرتے ہیں، وہ دل کو متاثر کر سکتے ہیں۔ڈونوس کہتے ہیں ’ یہ سوزشی اجزا جو جسم میں پیریڈونٹائٹس کی وجہ سے موجود ہوتے ہیں اور جو خون کے دھارے تک پہنچتے ہیں، وہ پلاکس بنا سکتے ہیں جو جمنے کا باعث بن سکتے ہیں جس کے نتائج اسکیمک دل کے مسائل سے لے کر دل کے دورے تک کے مریضوں میں ہو سکتے ہیں۔‘کوئی بھی انفیکشن اس وقت جان لیوا ہو سکتا ہے جب منھ کی قوتِ مدافعت کم ہوتی ہے، مدافعتی نظام کی بیماری یا منشیات کے استعمال کی وجہ سے۔ یہ اینڈو کارڈائٹس کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ ڈاکٹر لائیڈ جونز بتاتے ہیں ’خوش قسمتی سے یہ ایک نایاب بیماری ہے، لیکن یہ ایک متعدی بیماری ہے جس میں منھ کے کچھ آرگینزمز قابو سے باہر ہو جاتے ہیں اور دل کے اندرونی بافتوں کو متاثر کرتے ہیں۔‘’ یہ واضح ہے کہ منھ کا یہ جسمانی راستہ، پیتھوجینز کیساتھ جو باقی جسم میں جاتا ہے، حقیقی ہے۔ تیز خون، جو بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے یا موجودہ بیماریوں کے بگڑ سکتا ہے۔
’یہ واضح ہے کہ منھ سے جسم کا یہ راستہ ، جس میں جراثیم باقی جسم میں جاتے ہیں کچھ حقیقی ہے۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ہمارے منھ کی جسمانی رکاوٹ کو عبور کرنے والے بیکٹیریا کی یہ زیادتی خون کے ذریعے جسم کے باقی حصوں تک پہنچ جاتی ہے جس سے بیماریاں یا موجودہ بیماریاں بگڑ سکتی ہیں۔‘
ادراک کیساتھ تعلق:
اگرچہ شواہد پچھلے معاملات کی طرح ٹھوس نہیں ہیں ، لیکن کچھ محققین ہیں جو یہ ظاہر کرنا شروع کر رہے ہیں کہ ان بیکٹیریا اور بڑھاپے میں علمی تنزلی کے درمیان کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ان میں سے ایک یونیورسٹی آف کیمبرج سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ویون شا ہیں جنہوں نے اپنی تحقیق میں یہ بات سامنے لائی ہے کہ جو لوگ 21 یا اس سے زیادہ دانتوں کیساتھ بڑھاپے تک پہنچتے ہیں ان کی دماغی خرابی ان لوگوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے جن کے دانت کم ہوتے ہیں۔شا کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ شواہد نسبتا حالیہ ہیں، لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ کو کسی قسم کی دماغی کمزوری ہے اور آپ مہارت کھو دیتے ہیں، تو آپ کے دانت برش کرنے یا فلاس کرنے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔یہ غذائیت کے مسئلے سے بھی متعلق ہے: اگر آپ کے دانت کم ہیں، تو آپ کو یقینی طور پر خراب غذائیت ملے گی، جس کی وجہ سے زیادہ علمی خرابی ہوتی ہے‘۔
لائیڈ جونز نے اپنی طرف سے ایک زیادہ براہ راست تعلق کے بارے میں بات کی: ’ایسے مخصوص حیاتیات ہیں جو مسوڑھوں کی بیماری کی نشوونما اور بگڑنے سے منسلک ہیں۔‘’ایک مخصوص آرگینیزم ، جسے جینگیولس کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک بہت ہی دلچسپ آرگینیزم ہے۔ یہ نیوروٹوکسن سے ڈھکا ہوا ہے ، جو اعصابی خلیات کو مار دیتا ہے۔ لیکن یہ آرگینیزم صرف منھ میں ہی نہیں رہتا بلکہ یہ ہمارے سوجن والے مسوڑھوں کو چھوڑ کر جسم میں سفر کرتا ہے اور الزائمر میں مبتلا افراد کے دماغ اور دماغی سیال دونوں میں پایا جاتا ہے۔‘پروفیسر ڈونوس کیلئے منھ اور جسم کے مختلف نظاموں کے درمیان یہ تعلقات صرف پیریڈونٹل بیماری کی روک تھام کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
منھ کی دیکھ بھال:
ڈونوس نے کہا: ’منھ کی تمام بیماریاں قابل علاج ہیں اور کسی حد تک قابل علاج ہیں، سوائے کینسر کے، جو ایک بالکل مختلف کہانی ہے۔‘ان کے خیال میں یہ اہم ہے کہ لوگوں کو منھ کی اچھی صحت کے نظام تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے اور یہ کہ لوگوں کے پاس ایک دانتوں کا ڈاکٹر ہے جس پر وہ اعتماد کرتے ہیں۔’یہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ اور دندان سازی اور ادویات کو زیادہ قریب سے مربوط کریں، تاکہ جب ہم اپنے ڈاکٹر، اپنے ڈینٹسٹ کے پاس جائیں، تو وہ نہ صرف ہمارے دانتوں یا ہمارے جگر کو دیکھیں، بلکہ وہ جسم کو ایک نظام کے طور پر دیکھ سکیں، اور علامات کو باہم مربوط کرسکیں‘۔ایک خاص مثال جہاں خصوصیات کا یہ امتزاج کام کرسکتا ہے وہ پیدائش سے پہلے کی دیکھ بھال میں ہے: ڈاکٹر شا نے کہا کہ حمل کے دوران ہونے والی ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے، وہ منھ کے بیکٹیریا طاقت حاصل کرسکتے ہیں اور ماں اور ماں دونوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔وہ کہتےہیں ’ہم بہت فکرمند ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے قبل از وقت پیدائش اور کم وزن کی پیدائش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ماو¿ں سے بات کرنا اور انہیں مناسب دیکھ بھال فراہم کرنا ایک اہم مرحلہ ہے۔‘لائیڈ جونز کیلئے، سب سے اہم چیز اپنے منھ کے بارے میں ہمارے سوچنے کے انداز کو تبدیل کرنے میں ہے: ’ہمیں اپنے منھ کو مدافعتی رکاوٹ کے طور پر دیکھنا ہو گا جسے ہماری دیکھ بھال کی ضرورت ہے‘۔ ان مائیکروبس کا خیال رکھیں جو ہمارے منھ میں رہتے ہیں اور جو ہمارے ساتھ پیدا ہوئے ہیں اور جو ہماری حفاظت کیلئے موجود ہیں۔ (بشکریہ: بی بی سی اردو) ( #ایس_اے_ساگر )


Friday 1 December 2023

اپنے کنبے والوں کو کاروبار میں شامل کرکے ٹیکس بچانے کا حکم

اپنے کنبے والوں کو کاروبار میں شامل کرکے ٹیکس بچانے کا حکم 
-------------------------------
--------------------------------
ہمارے اکاؤنٹینٹ نے ہمیں کہا کہ أپ اپنی بیوی اور بچوں جن کی عمر ۱۸ سال سے زیادہ ہے کمپنی میں ڈائریکٹر شو کریں اور انکو تنخواہ بھی دیں. اس سے ٹیکس کم ہوگا میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسی اجرت لے سکتے ہیں یعنی میں اور میرے بچے جو ۱۸ سال سے اوپر ہیں جبکہ میں تھوڑا بہت کام ان کا دیکھتی ہوں مگر بچے تو کچھ نہیں اور ان کو تنخواہ بھی ادا ہوتی ہے یہاں تمام فیملیز کے ارکان جو بزنس کرتے ہیں چاہے گردوری شاپ ہو یا پیزا وہ تمام فیملی ممبرز بزنس سے تنخواہ لیتے ہیں. چاہے کام کریں یا نہیں. پوچھنا یہ تھا کہ کیا ہمارا ٹیکس بچانے کی غرض سے تنخواہ لینا اور ڈائریکٹر بننا جائز ہے؟ تنخواہ انہی پیسیوں سے ملتی ہے جو میرے میاں کماتے ہیں. اگر وہ خود سارا اپنا دکھلائیں تو بھاری ٹیکسز دینا پڑتے ہیڻ جبکہ جو تنخواہ مجھے ملتی ہے میں بھی ٹیکس دیتی ہوں رہنمائی فرمائیں.
الجواب و باللہ التوفیق:
انکم ٹیکس ظلم پر مبنی ناروا ٹیکس ہے ، دفع ظلم کے لئے حیلے بہانے، حتی کہ بعض حالت میں کذب بیانی کی بھی گنجائش رہتی ہے. صورت مسئولہ میں اپنی گاڑھی کمائی بچانے کے لئے اپنی کمپنی سے تنخواہ شو کرنے کی گنجائش ہے. بہتر یہ ہے کہ حسب موقع وفرصت کام میں معمولی اور برائے نام ہاتھ بھی بٹالیا جائے، فتاوی شامی میں ہے: 
وأکثر النوائب في زماننا بطریق الظلم فمن تمکن من دفعہ عن نفسہ فھو خیر لہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع وغیرہ، ۹: ۶۰۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، الکذب مباح لإحیاء حقہ ودفع الظلم عن نفسہ الخ (الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع وغیرہ، ۹: ۶۱۲)
وإن أمکن التوصل إلیہ بالکذب وحدہ فمباح إن أبیح تحصیل ذلک المقصود، وواجب إن وجب تحصیلہ الخ (رد المحتار، ۹: ۶۱۲، عن تبیین المحارم)
واللہ اعلم بالصواب.
مرکز البحوث الإسلامية العالمي ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2023/12/blog-post.html