Monday 23 July 2018

ضبط ولادت، خاندانی منصوبہ بندی یا فیملی پلاننگ کا شرعی حکم

ضبط ولادت، خاندانی منصوبہ بندی یا فیملی پلاننگ کا شرعی حکم
Question: 57036
میری شادی کو ڈھائی سال ہورہے ہیں، اور اس میں مجھے دو بچے ہوگئے ہیں ، میں نے اللہ کے خوف سے فیملی پلاننگ کے لیے کوئی بھی احتیاطی قدم نہیں اٹھایا، لیکن اب مجھے ڈر ہے کہ کہیں اگلے سال پھر مجھے حمل نہ ہوجائے، مجھے تیسرا بچہ چاہئے، لیکن تھوڑا گیپ کرکے تاکہ میں اپنے دونوں بچوں کو تھوڑا سنبھال لوں اور اپنی صحت پہ بھی دھیان دوں، کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس سے اگلے بچے تھوڑی تاخیر سے ہو اور کوئی گناہ بھی نہ ہو؟ بڑی مہربانی ہوگی میری پریشانی کا راستہ نکال دے اور مجھے گناہ سے بھی بچالے؟

Dec 31,2014
Answer: 57036
Fatwa ID: 97-97/Sd=3/1436-U
نکاح کا اصل مقصد توالد وتناسل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تناکحوا تناسلوا“ (احیاء علوم الدین) آج کل فیملی پلاننگ کے نام سے جو رجحان لوگوں میں پایا جارہا ہے، وہ غیر اسلامی ہے، اس کی بعض شکلیں تو بالکل ناجائز ہیں، بعض مکروہ ہیں اور بعض صورتوں کی اگرچہ گنجائش ہے؛ لیکن ان میں بھی مقصد نکاح کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے؛ البتہ بعض ناگزیر حالتوں میں منعِ حمل کی عارضی تدبیر کرنے کی بلاکراہت گنجائش ہے، مثلاً: عورت اتنی کمزور ہوکہ دوبارہ حمل کا تحمل نہیں کرسکتی یا بچہ ایام رضاعت میں ہو اور حمل ٹھہرنے کی وجہ سے اُس بچے کے لیے ماں کا دودھ مضر ہورہا ہو یا بچے کی پیدائش ماں کی صحت کے لئے خطرہ بن سکتی ہو، بہرحال بچے یا ماں کی مصلحت سے ان صورتوں میں منع حمل کی عارضی تدبیر اختیار کرنے کی گنجائش ہے؛ لیکن محض خوشی عیشی اور گھر کو سنبھالنے کے مقصد سے عارضی طور پر بھی حمل نہ ٹھہرنے کی کوئی تدبیر کرنا اچھا نہیں ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر پہلے دونوں بچوں کی تعلیم وتربیت اور آپ کی صحت کی حفاظت کا مسئلہ ہے تو اس کی وجہ سے آپ کے لئے منع حمل کی عارضی تدبیر اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔
نوٹ: فیملی پلاننگ سے متعلق دارالعلوم دیوبند کا مفصل ومدلل فتوی ”چند اہم عصری مسائل“ نامی کتاب میں چھپ چکا ہے، یہ کتاب دارالافتاء کی ویب سائٹ پر موجود ہے، آپ اس کا ملاحظہ فرمالیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
.........
شوہر اور بیوی دونوں کا حمل نہ ٹھہرانے کا انتظام کرنا؟
سوال (۷۳۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: شوہر اور بیوی دونوں حمل نہ ٹھہرانے کا انتظام کریں، تو کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
شوہر اور بیوی کا دوا یا کسی اور جائز تدبیر کے ذریعہ حمل نہ ٹھہرنے کا انتظام کرنا اگر عورت کی کمزوری یا بچہ کی کمزوری کی وجہ سے ہو تو مباح ہے؛ لیکن کثرتِ اولاد یا رزق کی تنگی کے خوف سے ایسا کرنا جائز نہیں، اور کسی کا ایسا عمل بھی جائز نہیں جس سے توالد اور تناسل کا سلسلہ دائمی طور پر منقطع ہوجائے۔
(مستفاد: احسن الفتاویٰ ۸؍۳۴۷)
ویعزل عن الحرۃ بإذنہا لکن في الخانیۃ أنہ یباح في زماننا لفسادہ۔
(الدر المختار مع الشامي ۴؍۳۳۵ زکریا)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۲؍۴؍۱۴۲۱ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
=========================
حمل کو روکنے والی چیزوں کا حکم؟
سوال (۷۳۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: فیملی پلاننگ کے لئے جو چیزیں استعمال کی جاتی ہیں وہ جائز ہیں یا نہیں؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:
دائمی طورپر قطع نسل کی تو قطعاً اجازت نہیں ہے، اور وقتی طور پر مانع حمل ذرائع کا استعمال صرف اعذار (مثلاً: عورت کا سخت بیمار یا کمزور ہونا وغیرہ) کی صورت میں جائز ہے، بلاعذر اِجازت نہیں۔
(احسن الفتاویٰ ۸؍۳۴۷)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲؍۱۱؍۱۴۲۰ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
..........
سوال # 47951
(۱) میں فیملی پلاننگ (نس بندی) کے بارے میں جانناچاہوں گا، اسلام میں ممنوع ہے یا گنا ہے؟
(۲) اگر میرے پاس دو سے زیادہ بچے ہوں اور میں آج کے حساب سے ان بچوں کی ضروریات جیسے اسلامی تعلیم و تربیت، پوری نہیں کررپا رہا ہوں، یا میرے صرف دوبچے ہوں اور میں مذہب اسلام کے مطابق ان بچوں کی ضروریات پور کرسکتاہوں تو کیا بہتر ہے؟ براہ کرم، اس پر روشنی ڈالیں۔

Published on: Oct 19, 2016
جواب # 47951
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د): 1786=1427-12/1431
ضبط ولادت کی دو شکل ہوتی ہے:
(۱) کلی طور پر قوت ولادت ختم کردی جائے جس کو نس بندی سے تعبیر کرتے ہیں۔
(۲) منع حمل کی ایسی تدابیر اختیار کرنا جس میں صلاحیت تو باقی رہے مگر اولاد کا امکان نہ ہو، مثلاً: نرودھ لوپ کا استعمال کرکے رحم میں نطفہ نہ پہنچنے دیا جائے، استقرار حمل سے مانع ادویات کا استعمال کیا جائے، استقرار کے بعد قبل الخلقت یا اس کے بعد حمل کو ساقط کرادیا جائے یا کسی خاص ایام میں بیوی سے صحبت کی جائے جس میں طبی تحقیق کے مطابق حمل ٹھہرنے کا غالب امکان ہو۔
نسبندی سے قریب جو صورت قرن اول میں معروف تھی وہ ”اختصاء“ (خصیتین کا نکال دینا) تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کے متعلق بعض صحابہ نے استفسار کیا تھا کہ آپ ہمیں اختصاء کی اجازت دیں تاکہ جنسی خواہشات یکسر ختم ہوجائے اور اللہ کی عبادت یکسوئی سے کرسکیں اور فریضہٴ جہاد بہ حسن وخوبی انجام پذیر ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس عمل سے سختی سے منع کیا اور اس فعل کے حرام ہونے کے متعلق یہ آیت پڑھی: ﴿یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبَاتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا، اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ﴾ (المائدہ:۸۷) بخاری شریف باب ما یکرہ من التبتل والخصاء میں ابن مسعود اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اس قسم کی روایات موجود ہیں۔ نیز اس طریقہ سے قوت تولید کو ختم کردینا تغییر خلق اللہ کے زمرہ میں آتا ہے جو ناجائز وحرام ہے۔ لَآمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرَنَّ خَلْقَ اللّٰہِ (النساء: ۱۱۹) روي عن أنس وعکرمة أن معنی تغییر خلق اللہ ہو الإخصاء وقطع الآذان (تفسیر کبیر: ۱۱/۳۹، ط: بیروت) اس سے معلوم ہوا کہ ایسی صورت اختیار کرنا جس سے جنسی خواہش ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے اور تولید کی قابلیت باقی نہ رہے مطلقاً حرام وناجائز ہے خواہ اس میں کتنے ہی فوائد نظر آئیں۔ علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قطع نسل کا یہ عمل باتفاق حرام ہے: وہو محرم باتفاق (عمدة القاري: ۲/۷۲) مثلہ في الدر: أما خصا الآدمي فحرام (درمختار: ۹/۵۵۷، ط: زکریا)۔
ضبط ولادت کی دوسری شکل یہ ہے کہ صلاحیت تولید تو باقی رہے مگر ایسی صورت اختیار کی جائے جس سے ولادت نہ ہوسکے، قرون اولیٰ میں اس کے لیے عزل کی صورت اختیار کی جاتی تھی، مجموعہٴ احادیث پر نظر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت عزل کرنا مختلف اغراض کے تحت ہوتا تھا: مثلاً: باندی سے اولاد نہ ہو تاکہ گھر کے کام کاج میں پریشانی نہ ہو، یا باندی ام ولد نہ بن جائے ورنہ اس کو فروخت کرنا جائز نہ ہوگا، زمانہٴ رضاعت میں حمل ٹھہرنے نہ پائے تاکہ شیرخوار بچہ کی صحت متأثر نہ ہو، صحابہٴ کرام کا کوئی غیرشرعی یا ناجائز عمل پیش نظر نہ تھا، اس لیے آپ نے ان کو اس سے منع نہیں فرمایا، اگر عزل کرنے والے کا مقصد کوئی ناجائز امر یا نصوص شرعیہ کے خلاف کام ہوتا تو آپ اس سے ضرور منع فرماتے۔ عزل کے متعلق احادیث مسلم: ۱/۴۶۵، بخاری: ۲/۷۸۴ وغیرہ میں مذکور ہیں، اگر ان روایات کو یکجا کرکے دیکھا جائے تو واضح ہوگا کہ صحابہٴ کرام نے جہاں عزل کی اجازت طلب کی ہے یا عزل کیا ہے وہ انھیں مذکورہ صورتوں میں منحصر ہے، اس میں رزق کی تنگی کے پیش نظر کہیں بھی نہ اجازت طلب کی گئی ہے اور نہ آپ نے اس کی اجازت دی ہے، بلکہ اگر بہ نظر انصاف دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ نے مذکورہ حالات میں بھی عزل کی ہمت افزائی کہیں نہیں فرمائی بلکہ ناپسندیدگی یا اس کے فضول ہونے کا اشارہ فرمایا ہے، خلفائے اربعہ ابن عمر، ابن مسعود ابوامامہ باہلی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس کی کراہت کے قائل تھے، اس لیے عام حالات میں فقہائے کرام نے اس کو مکروہ اور ناپسندیدہ قرار دیا ہے، اگر رزق ومعاش کی تنگی پیش نظر ہو تو پھر اس کے عدم جواز میں کوئی شبہ نہیں رہے گا۔
نکاح کا مقصد اصلی توالد وتناسل ہے اسی کو قرآن نے استعارہ میں یوں کہا ہے: ﴿فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ﴾ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی توضیح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”تناکحوا تناسلوا“ (احیاء علوم الدین: ۲/۲۵، ط: لبنان) امام غزالی نے حضرت عمر کا قول نقل کیا ہے کہ میں صرف بچوں کے لیے شادی کرتا ہوں (حوالہٴ سابق) ضبط ولادت کے جو مہلک اثرات معاشرہ پر پڑتے ہیں وہ انتہائی تباہ کن، مہلک اور خطرناک ہیں، زنا، فحاشی کی کثرت، شرح طلاق میں اضافہ، خودغرضی اور ہوس رانی کا فروغ وغیرہ، یہ وہ معاشرتی جراثیم ہیں جو ایک پاکیزہ معاشرہ اور پُراَمن ماحول کو پلید کرنے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں، ان ساری وجوہات کی بناء پر اس عمل کے مکروہ ہونے میں کوئی کلام نہیں رہ جاتا ہے۔ البتہ عذر اور مجبوری کے حالات ہرجگہ مستثنیٰ ہوتے ہیں، اس جگہ بھی خاص اعذار کی حالت میں کبھی یہ کراہت رفع ہوسکتی ہے، پہلی شکل جس میں نطفہ کو رحم میں پہنچنے سے روک دیا جاتا ہے، کنڈوم نرودھ کا استعمال کرنا ہے، اس کی درج ذیل اعذار کی بنیاد پر اجازت ہوسکتی ہے:
عورت اتنی کمزور ہوکہ وہ بارِحمل کا تحمل نہیں کرسکتی یا پہلا بچہ ایامِ رضاعت میں ہو اور حمل ٹھہرنے کی وجہ سے اس بچے کے لیے ماں کا دودھ مضر ثابت ہو جس سے فطری طور پر اس کے بدن ومزاج میں ضعف اور کمزوری پیدا ہوسکتی ہو، یا بچہ کی پیدائش ماں کی جسمانی دماغی صحت یا اس کی زندگی کے لیے خطرناک ہو اور وہ خطرہ واقعی یا ظن غالب کے درجہ میں ہو یا دو مسلم ماہر طبیب اس کا مشورہ دیں۔
اگر شخصی یا انفرادی طور پر کسی شخص کو یہ اعذار ہوں تو وقتی طور پر اس کے لیے منع حمل کی کوئی تدبیر اختیار کرنے کی گنجائش ہوسکتی ہے، عذر کے رفع ہونے کے بعد اس کے لیے بھی تدابیر منع حمل کا یہ طریقہ ممنوع ہوگا، اس قسم کے اعذار کے علاوہ کسی اور شکل میں منع حمل کی تدابیر اختیار کرنا شرعاً درست نہیں۔
استقرار حمل کے بعد قبل الخلقت یا بعدہ (جس کو فقہاء نے ایک سو بیس دن مقرر کیا ہے) عام حالات میں استقاط کرانا شرعاً ناجائز ہے، البتہ چند ایسے قوی اعذار ہیں جن سے صاحب عذر کو تخلیق اعضاء سے قبل (ایک سو بیس دن (۱۲۰) کے اندر) اسقاط حمل کی اجازت ہوسکتی ہے، ایسے اعذار تین ہیں:
(۱) دو ماہر تجربہ کار مسلم ڈاکٹر عورت کا معائنہ کرکے یہ بتادیں کہ اگر یہ حمل باقی رہا تو عورت کی جان یا اس کے کسی عضو کے تلف ہونے کا شدید خطرہ ہے۔
(۲) حمل کی وجہ سے عورت کا دودھ خشک ہوگیا ہو اور دوسرے ذرائع سے بچے کی پرورش کا انتظام ممکن نہ ہو۔
(۳) زنا سے حمل ٹھہرگیا ہو، ان تینوں اعذار میں چار ماہ سے قبل حمل ساقط کروانے کی گنجائش ہے، چار ماہ بعد ان اعذار کی بنیاد پر بھی حمل ساقط کرانے کی اجازت ہرگز نہ ہوگی کیوں کہ اس حالت میں بچہ کے اعضاء بننا شروع ہوجاتے ہیں اور اس میں جان پڑجاتی ہے اور وہ نفس محترم کے حکم میں ہوجاتا ہے جس کی بقاء وحفاظت کرنا مثل زندہ آدمی کے واجب اور ضروری ہے: دلائل درج ذیل ہیں:
قال ابن وہبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة الأعذار وأنہ لا یأثم إثم القتل (شامي: ۴/۳۳۶، کتاب النکاح، ط: زکریا دیوبند)، ومن الأعذار أن ینقطع لبنھا بعد ظہور الحمل، ولیس لأب الصبي ما یستأجر بہ الظئر ویخاف ہلاکہ (أیضًا) وفي الہدایة: لم یجز إسقاطہ أي الحبل من الزنا، قال محشیہ: لم یجز إسقاطہ أي بالمعالجة وہذا إذا استبان خلقہ أما إذا کان غیر مستبین الخلق فیجوز․ (ہدایہ: ۲/۳۱۱، کتاب النکاح، ط: اشرفی دیوبند) ویکرہ أن تسقی لإسقاطِ حملہا․․․․ وجاز لعذر حیث لا یتصور (درمختار) قولہ جاز لعذر أي یباح لہا أن تعالج في استنزال الدم ما دام الحمل مضغةً أو علقةً ولم یخلق لہ عضو، وقدروا تلک المدة بمائة وعشرین یومًا (در مع الرد: ۹/۶۱۵، کتاب الحظر، ط: زکریا)
عزل یا اسقاط کی جو صورتیں اوپر ذکر کی گئیں ہیں، شخصی حالات کو دیکھ کر خاص خاص ضرورتوں کے تحت وقتی طور پر بہ قدر ضرورت ان کے استعمال کرنے کی گنجائش ہوسکتی ہے اور وہ بھی اس وقت جب کہ اس عمل کا مقصد کوئی ناجائز نہ ہو، خصوصاً فقر وافلاس اورمعاشی تنگی پیش نظر نہ ہو کیونکہ معاش کو رب العالمین نے خالص نظام ربوبیت کے تحت اپنی ذات سے وابستہ کر رکھا ہے اور کسی کی مداخلت کو اس میں جائز نہیں رکھا، عرب کے جاہل جو فقر و افلاس کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کردیتے تھے، ان کے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے قرآن پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَلَا تَقْتُلُوْآ اَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ﴾ (الإسراء:۳۱) اس کا حاصل یہی ہے کہ تمہارا یہ فعل نظام ربوبیت میں مداخلت کے مترادف ہے، تمام مخلوق کے رزق کی ذمہ داری خود احکم الحاکمین نے لی ہے، ﴿وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِیْ الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا﴾ (ہود:۶)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

ضبط ولادت Birth Control

ایس اے ساگر
تقسیم وطن کے بعد خاندانی منصوبہ بندی عرف فیملی پلاننگ نے وہ سماں باندھا کہ بچوں کی پیدائش کے متعلق تمام جھمیلے خواتین ہی کو بھگتنے پڑتے ہیں، مرد اس معاملے میں خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ بچوں کی پیدائش مستقل طور پر روکنے کے لئے خواتین کے آپریشن کی طرح مردوں کی ’نس بندی‘ کا طریقہ کافی عرصہ پہلے متعارف ہو چکا ہے اور بھارت میں تو اس کے لئے باقاعدہ مہم چلائی گئی لیکن اس کا کیا کیجئے کہ مردوں کے معاشرے نے اسے یکسر رد کر دیا۔ ضبط ولادت Birth Control سے متعلق بعض معلومات پر مشتمل ایک امیج سوشل میڈیا کے ذریعہ وائرل ہوگئی ہے، جس پر وارد چند سوالات کے ایک وضاحتی جواب میں مولانا نجیب قاسمی سنبھلی رقمطراز ہیں:
سب سے پہلے صحیح بخاری وصحیح مسلم ودیگر کتب حدیث میں وارد ایک حدیث پیش کررہا ہوں: صحابی رسول حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں جب قرآن نازل ہورہا تھا، عزل کرتے تھے، اور ہم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کرنے سے منع نہیں کیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابی رسول حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد بعض صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عزل کرنے کو بیان کررہے ہیں۔ مشہور محدث علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عزل کا مطلب ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرے، جب منی نکلنے کا وقت قریب آجائے تو منی باہر نکال دے۔ یعنی اُس زمانہ کے اعتبار سے حمل نہ ٹھہرنے کا یہ ایک ذریعہ تھا۔ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وقتی طور پر مانع حمل کے اسباب اختیار تو کئے جاسکتے ہیں، لیکن جو مقدر میں ہے وہ مل کر رہے گا۔
اس موقع پر ایک اور حدیث ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں:
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھ کو ایک حسب ونسب والی خاتون ملی ہے لیکن وہ عورت بانجھ ہے (یعنی اس کے اولاد نہیں ہوسکتی) کیا میں اس سے نکاح کرسکتا ہوں؟
آپ ﷺ نے اس سے شادی کرنے کو منع فرمادیا، پھر دوسرا شخص حاضر ہوا تو اس کو بھی منع فرمادیا،
پھر تیسرا شخص حاضر ہوا تو اس کو بھی منع فرمادیا اور فرمایا کہ تم ایسی خواتین سے نکاح کرو کہ جو اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں اور مرد (یعنی شوہر سے) محبت کرنے والی ہوں اس لئے کہ میں تم سے امت کو بڑھاؤں گا۔
(نسائی ۔ کتاب النکاح ۔ باب کراہیۃ تزویج العقیم ۔ ابوداود ۔ کتاب النکاح ۔ باب النہی عن تزویج من لم یلد من النساء)
اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر آج تک تمام مفسرین، محدثین، فقہاء، دانشور اور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کے مطابق اولاد کی کثرت مطلوب ہے، نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے کسی ایک موقع پر بھی بچوں کو کم پیدا کرنے کی کوئی ترغیب دور دور تک کہیں نہیں ملتی حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کے لئے بہت زیادہ شفیق اور رحم کرنے والے تھے، بلکہ آپ ﷺ نے اپنے عمل سے بھی امت مسلمہ کو زیادہ بچے کرنے کی ترغیب دی کہ آپﷺکی چار لڑکیاں اور تین لڑکے پیدا ہوئے۔ آپ ﷺ کے سامنے صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت کے آپ ﷺ سے بھی زیادہ بچے پیدا ہوئے لیکن آپﷺ نے کسی ایک صحابی کو ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہا کہ اب بس کرو، اور ان ہی کی تربیت کرلو، حالانکہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا اصل وبنیادی مقصد لوگوں کی تربیت ہی تھا۔ معلوم ہوا کہ کثرت اولاد بچوں کی بہترین تربیت سے مانع نہیں ہے، اگر ہے تو حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو کثرت اولاد سے کیوں نہیں روکا؟ حضور اکرم ﷺ کی زندگی نہ صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے موڈل ہے بلکہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے بہترین اسوہ (نمونہ) ہے۔
غرضیکہ جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ ہر زمانہ کے اعتبار سے وقتی مانع حمل کے مہیا اسباب اختیار کرنے کی گنجائش تو ہے مگر یہ ترغیبی عمل نہیں ہے۔ نیز ہمارا یہ ایمان ہے کہ جو چیز بھی مقدر میں ہے وہ مل کر رہے گی اور رازق وخالق ومالک کائنات صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور ہر بچہ اپنے ساتھ اپنا رزق لے کر آتا ہے۔ میرے لکھنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ اِن دنوں بعض حضرات وقتی مانع حمل کے اسباب (مثلاً کنڈوم کا استعمال، مانع حمل دوا کھانا وغیرہ) کو حرام سمجھتے ہیں اور پھر بھی استعمال کرتے ہیں، اسی لئے میں نے تحریر کیا کہ اُن کو معلوم ہوجائے کہ وقتی مانع حمل کے اسباب اختیار کرنا حرام نہیں ہے، بلکہ شرعی اعتبار سے ان کی گنجائش ہے اگرچہ ترغیبی عمل نہیں ہے۔ دوسرے بعض حضرات وقتی مانع حمل کے اسباب (مثلاً کنڈوم کا استعمال، مانع حمل دوا کھانا وغیرہ) کو حرام سمجھ کر یہ اسباب اختیار نہیں کرتے ہیں، لیکن حمل ٹھہرنے کے بعد اسقاط حمل Abortion کی تدبیروں میں لگ جاتے ہیں حالانکہ اسقاط حمل حرام ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اگر ہم اولاد کے درمیان وقفہ چاہتے ہیں تو مانع حمل کے جائز طریقے پہلے سے اختیار کرلیں، تاکہ بعد میں اسقاط حمل کا معاملہ ہی درپیش نہ ہو، کیونکہ حمل ٹھہرنے کے بعد اسقاط حمل کروانا حرام ہے۔
اس امیج میں عبارت کم تھی، نیز ظاہر ہے کہ اس طرح کی امیج میں حوالوں کا ذکر نہیں کیا جاسکتا ہے، اس لئے بعض الفاظ کے استعمال اور حوالوں کے ذکر نہ کرنے پر بعض حضرات کا سوال تھا۔جو میں سمجھتا ہوں کہ وہ دور ہوگیا ہوگا، باقی جو میں نے تحریر کیا تھا کہ دو یا تین بچوں کی ولادت کے بعد ، اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس سے کم یا زیادہ کی صورت میں وقتی مانع حمل کے اسباب اختیار کرنا حرام ہے۔ یعنی کوئی بھی شخص کسی بھی وقت وقتی مانع حمل کے اسباب اختیار کرسکتا ہے، اگرچہ یہ ترغیبی عمل نہیں ہے۔ اور ولادت کے سلسلہ کو بالکل ختم کرنا جائز نہیں ہے، ہاں اگر عورت کی صحت کے لئے انتہائی ضروری ہے تو پھر گنجائش ہے، خواہ وہ ایک بچہ کی ولادت کے بعد یا اس سے زیادہ کی صور ت میں۔ حمل ٹھہرنے کے بعد اسقاط حمل کی کوئی گنجائش نہیں ہے، الّا یہ کہ عورت کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے۔ اجازت محض دو ضرر میں سے بڑے ضرر کو دور کرنے، اور دو مصلحتوں میں سے بڑی مصلحت کو حاصل کرنے کے لئے ہے۔
کیا ہے دوسری صورت؟ 
اہل علم حضرات کے نزدیک ضبط ولادت کی دوسری شکل یہ ہے کہ صلاحیت تولید تو باقی رہے مگر ایسی صورت اختیار کی جائے جس سے ولادت نہ ہوسکے، قرون اولیٰ میں اس کے لیے عزل کی صورت اختیار کی جاتی تھی، مجموعہٴ احادیث پر نظر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت عزل کرنا مختلف اغراض کے تحت ہوتا تھا: مثلاً: باندی سے اولاد نہ ہو تاکہ گھر کے کام کاج میں پریشانی نہ ہو، یا باندی ام ولد نہ بن جائے ورنہ اس کو فروخت کرنا جائز نہ ہوگا، زمانہٴ رضاعت میں حمل ٹھہرنے نہ پائے تاکہ شیرخوار بچہ کی صحت متأثر نہ ہو، صحابہٴ کرام کا کوئی غیرشرعی یا ناجائز عمل پیش نظر نہ تھا، اس لیے آپ نے ان کو اس سے منع نہیں فرمایا، اگر عزل کرنے والے کا مقصد کوئی ناجائز امر یا نصوص شرعیہ کے خلاف کام ہوتا تو آپ اس سے ضرور منع فرماتے۔ عزل کے متعلق احادیث مسلم: ۱/۴۶۵، بخاری: ۲/۷۸۴ وغیرہ میں مذکور ہیں، اگر ان روایات کو یکجا کرکے دیکھا جائے تو واضح ہوگا کہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جہاں عزل کی اجازت طلب کی ہے یا عزل کیا ہے وہ انھیں مذکورہ صورتوں میں منحصر ہے، اس میں رزق کی تنگی کے پیش نظر کہیں بھی نہ اجازت طلب کی گئی ہے اور نہ آپ نے اس کی اجازت دی ہے، بلکہ اگر بہ نظر انصاف دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ نے مذکورہ حالات میں بھی عزل کی ہمت افزائی کہیں نہیں فرمائی بلکہ ناپسندیدگی یا اس کے فضول ہونے کا اشارہ فرمایا ہے، خلفائے اربعہ ابن عمر، ابن مسعود ابوامامہ باہلی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس کی کراہت کے قائل تھے، اس لیے عام حالات میں فقہائے کرام نے اس کو مکروہ اور ناپسندیدہ قرار دیا ہے، اگر رزق ومعاش کی تنگی پیش نظر ہو تو پھر اس کے عدم جواز میں کوئی شبہ نہیں رہے گا۔
نکاح کا مقصد:
نکاح کا مقصد اصلی توالد وتناسل ہے اسی کو قرآن نے استعارہ میں یوں کہا ہے:
﴿فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ﴾ 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی توضیح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
”تناکحوا تناسلوا“ 
(احیاء علوم الدین: ۲/۲۵، ط: لبنان)
امام غزالی رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ میں صرف بچوں کے لئے شادی کرتا ہوں (حوالہٴ سابق) ضبط ولادت کے جو مہلک اثرات معاشرہ پر پڑتے ہیں وہ انتہائی تباہ کن، مہلک اور خطرناک ہیں، زنا، فحاشی کی کثرت، شرح طلاق میں اضافہ، خودغرضی اور ہوس رانی کا فروغ وغیرہ، یہ وہ معاشرتی جراثیم ہیں جو ایک پاکیزہ معاشرہ اور پُراَمن ماحول کو پلید کرنے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں، ان ساری وجوہات کی بناء پر اس عمل کے مکروہ ہونے میں کوئی کلام نہیں رہ جاتا ہے۔ البتہ عذر اور مجبوری کے حالات ہرجگہ مستثنیٰ ہوتے ہیں، اس جگہ بھی خاص اعذار کی حالت میں کبھی یہ کراہت رفع ہوسکتی ہے، پہلی شکل جس میں نطفہ کو رحم میں پہنچنے سے روک دیا جاتا ہے، کنڈوم نرودھ کا استعمال کرنا ہے، اس کی درج ذیل اعذار کی بنیاد پر اجازت ہوسکتی ہے:
اجازت کی صورتیں:
عورت اتنی کمزور ہو کہ وہ بارِحمل کا تحمل نہیں کرسکتی یا پہلا بچہ ایامِ رضاعت میں ہو اور حمل ٹھہرنے کی وجہ سے اس بچے کے لیے ماں کا دودھ مضر ثابت ہو جس سے فطری طور پر اس کے بدن ومزاج میں ضعف اور کمزوری پیدا ہوسکتی ہو، یا بچہ کی پیدائش ماں کی جسمانی دماغی صحت یا اس کی زندگی کے لیے خطرناک ہو اور وہ خطرہ واقعی یا ظن غالب کے درجہ میں ہو یا دو مسلم ماہر طبیب اس کا مشورہ دیں۔
گنجائش ختم:
اگر شخصی یا انفرادی طور پر کسی شخص کو یہ اعذار ہوں تو وقتی طور پر اس کے لئے منع حمل کی کوئی تدبیر اختیار کرنے کی گنجائش ہوسکتی ہے، عذر کے رفع ہونے کے بعد اس کے لئے بھی تدابیر منع حمل کا یہ طریقہ ممنوع ہوگا، اس قسم کے اعذار کے علاوہ کسی اور شکل میں منع حمل کی تدابیر اختیار کرنا شرعاً درست نہیں۔
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند

خاندانی منصوبہ بندی; http://www.onlinefatawa.com/fatawa/view_scn/10312


http://www.onlinefatawa.com/selected_fatawa/10312a.jpg

No comments:

Post a Comment