Sunday 31 December 2023

وٹامن ڈی کی کمی سے بینائی متاثر ہونے کا انکشاف

 وٹامن ڈی کی کمی سے بینائی متاثر ہونے کا انکشاف

عام طور پر لوگوں کو علم نہیں ہے کہ وٹامن ڈی انسانی صحت کیلئے اہم ترین جز ہے، جسم میں اس کی کمی صحت کے متعدد مسائل کا سبب بن سکتی ہے، تاہم اب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس کی کمی بینائی کیلئے بھی خطرات پیدا کر سکتی ہے۔طیی ویب سائٹ ہیلتھ لائن کے مطابق متعدد تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہےکہ وٹامن ڈی کی کمی سے جہاں دیگر مسائل ہوسکتے ہیں، وہیں آنکھوں کی بیماری میکولر ڈجنریشن (macular degeneration) بھی ہوسکتی ہے۔ مذکورہ بیماری اگرچہ زائد العمری میں عام ہوتی ہے، تاہم اس سے وٹامن ڈی کی وجہ سے ادھیڑ عمر اور یہاں تک کے نوجوان بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس مسئلے کے دوران متاثرہ شخص کا وژن یا بصارت دھندلی یا بلر ہوجاتی ہے، اسے تمام چیزیں غیرواضح دکھائی دیتی ہیں اور مذکورہ مسئلہ مسلسل رہنے سے بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ اگرچہ میکولر ڈجنریشن (macular degeneration) مختلف وجوہات کی وجہ سے ہوسکتی ہے اور اس کا کوئی مستند علاج بھی دستیاب نہیں، تاہم وٹامن ڈی کی کمی بھی اس کا ایک سبب ہے اور متعدد تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وٹامن ڈی کی اچھی مقدار اس بیماری سے بچاسکتی ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق اگرچہ وٹامن ڈی کی مناسب مقدار سے میکولر ڈجنریشن (macular degeneration) بیماری کو ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے یہ بیماری ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں میکولر ڈجنریشن (macular degeneration) دیگر وٹامنز جن میں وٹامن ای، وٹامن اے، زنک، وٹامن سی، کوپر اور لیوٹین کی کمی سے بھی ہوسکتی ہے، تاہم وٹامن ڈی کی کمی سے اس کے خدشات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ عام طور پر وٹامن ڈی کو انسانی جسم سورج کے درجہ حرارت سے حاصل کرتا ہے لیکن اس باوجود جسم کو وٹامن ڈی کی مطلوبہ مقدار نہیں مل پاتی، اس لئے ماہرین صحت وٹامن ڈی سے بھرپور پھل اور سبزیاں کھانے سمیت وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس کھانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ وٹامن ڈی سے بھرپور سپلیمنٹس میں ایکتو وٹامن ڈی ہوتی ہے جو کہ اس کی کمی کو فوری طور پر مکمل کرنے میں مددگا ثابت ہوتی ہیں۔


اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

 اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

#ایس_اے_ساگر

کیا کسی کی بھی سمجھ میں آ رہا ہے کہ ہونا کیا چاہئے، ہو کیا رہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ ہونی کو انہونی اور انہونی کو ہونی بنانے کے مشاقینِ کرام کے سوا سب کی سمجھ میں آ رہا ہے۔ ضروری تو نہیں کہ دائیں بائیں اور نیچے ہر طرح کی زیادتیوں کے جواب میں خاموشی کا مطلب صرف بے حسّی بزدلی، مصلحت کوشی اور منافقت ہی ہو۔ خاموشی لاتعلقی و اکتاہٹ کا استعارہ بھی تو ہے، مزاحمت کی کم ازکم شکل بھی تو ہے، خاموشی معنی خیز بھی تو ہوسکتی ہے، دل و دماغ کے درمیان جاری کش مکش کو پوشیدہ رکھنے کا بھیس بھی تو ہوسکتی ہے۔ خاموشی سوچ بچار کی مہلت بھی تو ہو سکتی ہے اور خاموشی کسی طوفان یا جھکڑ سے پہلے کا سناٹا بھی تو ہوسکتی ہے۔ جبھی تو جون ایلیا کہتے ہیں:

کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے

یہ تو آشوب ناک صورت ہے

انجمن میں یہ میری خاموشی

بردباری نہیں ہے وحشت ہے

آج کا دن بھی عیش سے گذرا

سر سے پا تک بدن سلامت ہے

ہر ریاست کا بیانیہ جھوٹ اور سچ کے آمیزے سے تیار ہوتا ہے۔ کھوٹ ملائے بغیر نہ زیور بن سکتا ہے نہ ہی بیانیہ۔ یونیورسل سچائیاں اگرچہ ابدی ہیں انھیں کسی تعارف یا تفسیر کی ضرورت نہیں۔ مگر بیانیہ گھڑا جاتا ہے۔ قبولِ عام بنانے کیلئے اپنی مرضی اور پسند کے پتھر ، ہیرے موتی جڑے جاتے ہیں۔ اس میں ایسے باریک باریک منطقی سوراخوں سے گذارا جاتا ہے کہ اس عمل کے ذریعے بیانیہ لچکدار رہے اور حسبِ ضرورت موقع محل اور مفاد کے اعتبار سے اسے بدلنے میں آسانی رہے۔سچ، جھوٹ، ڈھٹائی، غیرت، اصول پسندی، بے اصولا پن، چکنا گھڑا، دورخا پن، ایثار، قربانی، بے حسّی، تعصّب، دنیا دکھاوا، قول و فعل میں تضاد وغیرہ وغیرہ یہ سب انسانی خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ ریاست بھی انسان ہی چلاتے ہیں۔ جیسی اقدار ورثے میں ملیں گی وہی تو نافذ ہوں گی وہی تو آگے بڑھیں گی۔

 ایک عام آدمی اور کرسی نشین میںبس اتنا فرق ہوتا ہے کہ عام آدمی کو نشہ کرنا پڑتا ہے۔ کرسی کا نشہ خود بخود ہوتا ہے۔ اس نشے پر قابو پا لیا جائے تو رعایا کیلئے رحمت، چڑھ جائے تو تہہ در تہہ عذاب ہے۔ مگر جیسے جیسے نام نہاد تہذیبی بیانیہ آگے بڑھ رہا ہے توں توں ریاستی سفاکی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ جب بڑی بڑی ذمہ دار ریاستیں سفاکی پر اترتی ہیں تو ان کی طفیلی ریاستیں اسے لائسنس سمجھ کے دس ہاتھ آگے بڑھ جاتی ہیں۔

ہمیں پسند آئے نہ آئے مگر انسانی جبلت ہے کہ جب وہ بے دست و پا ہوتا ہے تو اس سے زیادہ مظلوم کوئی نہیں ہوتا اور اسی کے ہاتھ میں طاقت آجاتی ہے تو بتدریج ویسا ہی ظالم بنتا چلا جاتا ہے کہ جس سے وہ دورِ مظلومیت میں نفرت کرتا رہا ہے۔ روزِ گذشتہ کا یہ مظلوم اپنے ہر جائز ناجائز قدم کیلئے وہی منطق اور تاویل اپنا لیتا ہے کہ جس سے اسے دورِ مظلومیت میں انتہائی چِڑ ہوتی ہے۔ اور جب یہ فرد ایک گروہ اور پھر گروہ سے ریاست بنتا ہے تو غیرمحسوس انداز میں کلر بلائنڈ ہوتا چلا جاتا ہے۔ احمد نوید نے کیا خوب کہا ہے:

سب کا حق لے کے بھی محروم نظر آتا ہے

اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

(بشکریہ :وسعت اللہ خان)



کیا سردیوں میں ورزش یا جاگنگ کرنے سے دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے؟

 کیا سردیوں میں ورزش یا جاگنگ کرنے سے دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے؟

#ایس_اے_ساگر

ایسی صورت میں جبکہ محکمہ موسمیات نے دہلی این سی آر کیساتھ ساتھ پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش میں اتوار سے کل نئے سال تک گھنے دھند کا ریڈ الرٹ جاری کردیا ہے۔ نئے سال کی شام یعنی 31 دسمبر2023 کی شام سے لے کر یکم جنوری 2024 کو نئے سال کے آغاز تک مرکزی دارالحکومت دہلی این سی آر سمیت کئی ریاستیں گھنی دھند کی چادر میں لپٹی رہیں گی۔محکمہ موسمیات نے اتوار یعنی 31 دسمبرکی صبح دھند کا ریڈ الرٹ جاری کیا ہے۔ اس کے مطابق نئے سال کے موقع پر ملک کی دارالحکومت دہلی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں گھنے دھند کی وجہ سے ٹریفک پر بڑا اثر پڑنے والا ہے۔ سڑک ٹریفک کیساتھ ساتھ ریل اور فضائی خدمات بھی متاثر ہوں گی۔محکمہ موسمیات کے مطابق دہلی، پنجاب اور ہریانہ میں 31 دسمبر کی شام سے گھنی دھند شروع ہوگی اور یکم جنوری کی صبح تک جاری رہے گی۔ جس کی وجہ سے حد نگاہ کم ہو جائے گی جس سے ٹریفک متاثر ہو گا۔محکمہ موسمیات کے مطابق اگلے 7 دنوں تک دہلی کا کم سے کم درجہ حرارت 7 سے 11 ڈگری سیلسیس اور زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 18 سے 20 ڈگری سیلسیس کے درمیان رہے گا۔ دارالحکومت میں ہفتہ بھر دھند چھائی رہے گی، جس کی وجہ سے شدید سردی ہوگی۔ایسے میںعام طور پر یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ ’سردی‘ ورزش کرنے کا بہترین وقت ہے۔ برصغیر سمیت شمالی کرے پر آباد تمام ممالک میں سردیوں کا موسم اپنے شباب پر ہے اور بعض علاقے تو برف باری کی وجہ سے جم سے گئے ہیں۔

عام خیال کے مطابق اس موسم میں بہت سے لوگ جسمانی سرگرمیوں کو ترجیح دیتے ہیں جن میں ورزش کرنا، دوڑنا اور دوسرے آوٹ ڈور اور انڈور کھیل کھیلنا شامل ہے۔ لیکن آج کل ورزش کے دوران یا پھر محض چہل قدمی یا کرکٹ کھیلنے کے دوران دل سے متعلق مسائل کی وجہ سے لوگوں کے فوت ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔امریکی حکومت کی نیشنل لائبریری آف میڈیسن کی ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دل کی بیماریاں اور موت گرمیوں کی نسبت سردیوں میں زیادہ ہوتی ہیں۔تو ایسی صورت حال میں سوال یہ ہے کہ کیا سردیوں میں ورزش کرنا واقعی زیادہ فائدہ مند ہے؟ یا کیا سردیوں میں ورزش یا جاگنگ کرنے سے دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے؟بی بی سی گجراتی سروس نے ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کیلئے انڈیا کے کچھ ماہرین صحت سے بات کی ہے۔

گجرات کے معروف ہارٹ سپیشلسٹ سرجن ڈاکٹر سوکمار مہتا سردی کے موسم میں دل کی حالت کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’شدید سردی میں ہمارے جسم کی شریانیں تنگ ہو جاتی ہیں۔ یہ تبدیلی بہت اہم ہے اور ورزش کے دوران اس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔‘ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں ماہر امراض قلب اور میکس ہسپتال کے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر چندر شیکھر ہمارے دل پر سردی کے اثرات کے بارے میں بتاتے ہیں: ’سردی کا موسم ہمارے دل پر زیادہ دباو¿ ڈالتا ہے۔ کیونکہ جسم کو گرم رکھنے کیلئے دل کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔‘راجکوٹ کے گریراج ہسپتال کے کریٹیکل کیئر سپیشلسٹ میانک ٹھاکر نے ڈاکٹر مہتا کی بات کی تاعید کرتے ہوئے کہا کہ ’سردی کا موسم عام طور پر دل کی نالیوں (شریانوں) کے سکڑنے کا سبب بنتا ہے۔ یہ موسم دل تک خون لے جانے والی نالیوں کے تنگ ہونے کا بھی سبب بنتا ہے۔‘جاڑے کے موسم اور اس کے دوران دل کی شریانوں میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں جاننے کے بعد بی بی سی گجراتی نے اس موسم میں ورزش، چہل قدمی یا جاگنگ اور ہارٹ اٹیک سے اس کا تعلق جاننے کی کوشش کی ہے۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر مہتا کہتے ہیں: ’ایسا نہیں ہے کہ سردیوں میں ورزش کرنا زیادہ فائدہ مند ہے۔ کسی بھی موسم میں ورزش کرنا اتنا ہی فائدہ مند ہے جتنا کہ سردیوں میں۔‘اسی طرح ڈاکٹر ٹھاکر نے بھی کہا کہ ’سردیوں یا گرمیوں میں ورزش کرنا عموماً نقصان دہ نہیں ہوتا۔ لیکن ورزش شروع کرنے سے پہلے کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ورزش کرتے وقت کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے؟

ڈاکٹر ٹھاکر کہتے ہیں: ’جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ سردی میں دل کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں۔ جب دل کی شریانیں چربی سے بھری ہوتی ہیں تو قدرتی طور پر شریانوں سے خون کے بہنے کا راستہ پہلے ہی تنگ ہو جاتا ہے۔‘’ایسی صورت حال میں جب سردیوں کی وجہ سے ٹیوب زیادہ سکڑ جاتی ہے تو راستہ مزید چھوٹا ہو جاتا ہے۔ اس سے سردی میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘ورزش اور جسم پر اس کے اثرات کے بارے میں وہ کہتے ہیں: ’سردی میں ورزش، چہل قدمی، ایروبکس اور یوگا جیسی سرگرمیاں زیادہ آسانی سے کی جا سکتی ہیں کیونکہ جسم زیادہ توانا اور قوت سے بھرا ہوتا ہے۔ عام طور پر جب آپ ورزش کرتے ہیں تو جسم میں حرارت پیدا ہوتی ہے۔ جو آپ کی شریانوں کی تنگی کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔‘’لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سردی میں ورزش کرنے سے ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بلکہ، ورزش سے دل کے دورے کے خطرے کو نمایاں طور پر کم ہوتے دیکھا گیا ہے۔‘ ڈاکٹر ٹھاکر مزید کہتے ہیں: ’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ورزش شروع کرتے وقت خیال رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ورزش شروع کرنے یا کوئی بھی کھیل کھیلنے سے پہلے ایک بار اپنی صحت کا معائنہ ضرور کروا لینا چاہیے۔ اور اپنی رپورٹ اور ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق حدود میں رہتے ہوئے ورزش کرنی چاہیے۔‘

ورزش میں برتیں احتیاط:

ڈاکٹر مہتا بھی اس بات سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’چاہے آپ سردیوں میں ورزش کریں یا گرمیوں میں، وقتاً فوقتاً طبی رائے حاصل کرنا ضروری ہے۔ تاکہ آدمی کو معلوم ہو کہ وہ خود ورزش کیلئے موزوں ہے یا نہیں۔‘’اگر کوئی فٹنس کے بارے میں جانتا ہے، تو وہ یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ کس قسم کی اور کس شدّت کی ورزش ضروری ہے۔ تاکہ ہمارے ساتھ صحت کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔‘ڈاکٹر چندر شیکھر کے مطابق: ’پہلے سے دل کے مسائل سے دوچار لوگوں کو خاص طور پر سردیوں میں خطرہ رہتا ہے۔ اس لیے سردیوں میں ورزش کرتے ہوئے کچھ چیزوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، گرم کپڑوں میں ورزش کرنا اور ورزش شروع کرنے سے پہلے مناسب وارم اپ کرنا وغیرہ اہم ہے۔‘اس کے علاوہ آج کل ورزش کرتے ہوئے یا کھیل کے دوران اچانک دل کا دورہ پڑنے یا موت کے ذمہ دار دوسرے عوامل کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر میانک ٹھاکر کہتے ہیں: ’آج کل بہت سے لوگ اپنے جسم کو سمجھے بغیر ورزش کرنا یا کھیل کھیلنا شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مناسب آرام اور وارم اپ کے بغیر ورزش کرنے کی وجہ سے دل پر اچانک دباو پڑنے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ایسے معاملات پیش آسکتے ہیں۔‘






Friday 22 December 2023

حضرت ام سلیم رضی اللہُ تعالیٰ عنہا کا عمل

حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا عمل 
عن أنس رضي الله عنه قال: كان ابن لأبي طلحة رضي الله عنه يشتكي، فخرج أبو طلحة، فَقُبِضَ الصَّبي، فلما رجع أبو طلحة، قال: ما فعل ابني؟ قالت أم سليم وهي أم الصَّبي: هو أسْكَن ما كان، فَقَرَّبَت إليه العشاء فتَعَشَّى، ثم أصاب منها، فلما فَرَغ،َ قالت: وارُوا الصَّبي فلما أصبح أبو طلحة أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره، فقال:«أعَرَّسْتُمُ اللَّيلَةَ؟» قال: نعم، قال: «اللَّهُمَّ بارِك لهما»، فولدت غلامًا، فقال لي أبو طلحة: احْمِلْهُ حتى تأتي به النبي صلى الله عليه وسلم وبعث معه بتمرات، فقال: «أمَعَه شيء؟» قال: نعم، تَمَرات، فأخذها النبي صلى الله عليه وسلم فمَضَغَها، ثم أخذها من فِيه فجعلها في فِيِّ الصَّبي، ثم حَنَّكَهُ وسماه عبد الله. وفي رواية: قال ابن عيينة: فقال رجل من الأنصار: فرأيت تِسْعَة أولاد كلهم قد قرؤوا القرآن، يعني: من أولاد عبد الله المولود. وفي رواية: مات ابن لأبي طلحة من أم سليم، فقالت لأهلها: لا تُحَدِّثوا أبا طلحة بابْنِهِ حتى أكون أنا أُحدِّثه، فجاء فَقَرَّبَتْ إليه عشاء فأكَل وشرب، ثم تَصَنَّعَتْ له أحْسَن ما كانت تصنع قبل ذلك، فَوَقَع بها. فلمَّا أن رأت أنه قد شَبِع وأصاب منها، قالت: يا أبا طلحة، أرأيت لو أن قومًا أعَارُوا عَارِيَتَهُم أهل بيت فطَلَبوا عَارِيَتَهُم، ألهم أن يَمْنَعُوهُم؟ قال: لا، فقالت: فَاحْتَسِبْ ابنك، قال: فغضِب، ثم قال: تَرَكْتِني حتى إذا تَلطَّخْتُ، ثم أخبرتني بابني؟! فانطلق حتى أتى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فأخبره بما كان فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «بارك الله في لَيْلَتِكُمَا»، قال: فَحَمَلَتْ. قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم في سَفَر وهي معه، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أتى المدينة من سَفر لا يَطْرُقُهَا طُرُوقًا فَدَنَوا من المدينة، فضَرَبَها المَخَاض، فَاحْتَبَسَ عليها أبو طلحة، وانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يقول أبو طلحة: إنك لَتَعْلَمُ يَا رَبِّ أنه يُعْجِبُنِي أن أخرج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خرج وأدخل معه إذا دخل وقد احْتَبَسْتُ بما ترى، تقول أم سليم: يا أبا طلحة، ما أجِدُ الذي كنت أجِدُ، انطلق، فانطلقنا وضربها المَخَاض حين قَدِما، فولدت غلامًا. فقالت لي أمي: يا أنس، لا يُرْضِعْهُ أحدٌ حتى تَغْدُو به على رسول الله صلى الله عليه وسلم فلمَّا أصبح احتَمَلْتُه فانْطَلَقتُ به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ... وذكر تمام الحديث.  
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا لڑکا بیمار تھا۔ وہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے کہ بچے کا انتقال ہوگیا۔ ابوطلحہ واپس آئے تو بیوی سے پوچھا کہ بچہ کیسا ہے؟ بچے کی ماں ام سلیم نے کہا کہ وہ پہلے سے زیادہ پرسکون حال میں ہے۔ پھر بیوی نے ان کے سامنے شام کا کھانا رکھا۔ ابوطلحہ کھانے سے فارغ ہوگئے۔ اس کے بعد بیوی سے ہم بستری کی۔ جب وہ فارغ ہوگئے، توام سلیم نے کہا کہ بچے کو دفن کردو! صبح ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور آپ کو سارے واقعہ سنایا۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم نے رات کو ہم بستری کی ہے؟ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں! نبی ﷺ نے یہ دعا دی: ”اے اللہ! ان دونوں کو برکت عطا فرما"c2">“۔ پھر ان کے یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ اس بچے کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے جاؤ اور ساتھ ہی کچھ کھجوریں بھیجیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ ساتھ میں کوئی چیز بھی ہے؟ انھوں نے جواب میں کہا کہ جی ہاں کچھ کھجور ہیں! نبی کریم ﷺ نے ان کھجوروں کو لیا۔ اپنے منہ میں چبایا۔ پھر اس کو اپنے منہ سے نکال کر بچے کے منہ میں ڈال دیا۔ بچے کی تحنیک کی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔ ایک اور روایت میں ابن عیینۃ فرماتے ہیں: ایک انصاری شخص کا کہنا ہے کہ میں نے نو لڑکے دیکھے؛ سب کے سب قرآن مجید کے قاری تھے۔ یعنی اس نومولود عبداللہ کی اولاد میں سے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک لڑکے کا انتقال ہوگیا، جو ام سلیم رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھا۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے اہل خانہ کو تاکید کردی کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بیٹے کے مرنے کی خبر نہ دینا، یہاں تک کہ میں خود انھیں بتادوں، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آئے۔ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے انھیں شام کا کھانا پیش کیا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کھانے پینے سے فارغ ہوئے۔ پھر ام سلیم رضی اللہ عنھا نے ان کے لیے اس سے بہتر بناؤ سنگھار کیا جو اس سے قبل کیا کرتی تھیں۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے ہم بستری کی۔ جب ام سلیم نے دیکھا کہ وہ کھانے سے بھی سیر ہوگئے اور ان کے ساتھ بھی وقت گزار لیا، تو انھوں نے کہا:ابوطلحہ! ذرا یہ تو بتاؤ کہ اگر کچھ لوگ ایک گھرانے کو ادھار دی جانے والی کوئی چیز ادھار دیں، پھر وہ اپنی چیز واپس مانگ لیں، تو کیا ان کو حق ہے کہ ان کو منع کریں؟ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا:نہیں۔ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے کہا:تو پھر اپنے بیٹے (کی وفات) پر صبر کیجیے۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ یہ سن کر غصہ میں آگئے اور کہا:تم نے مجھے بے خبر رکھا، یہاں تک کہ میں آلودہ ہوگیا، پھرتم نے مجھے میرے بیٹے کے بارے میں بتایا!! پھر وہ چل پڑے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو ساری باتیں بتادیں۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا: ”تمھاری گزرنے والی رات میں اللہ تعالیٰ تمھیں برکت عطا فرمائے!“ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ام سلیم رضی اللہ عنہا حاملہ ہوگئیں۔ وہ آگے بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے اور ام سلیم آپ ﷺ کے ہم راہ تھیں، رسول اللہ ﷺ جب سفر سے مدینہ لوٹتے تو رات کو آکر مدینہ میں دستک نہیں دیتے تھے۔ سب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دردزِہ نے آلیا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو ان کے پاس رکنا پڑا اور رسول اللہ ﷺ چل پڑے۔ ( انس رضی اللہ عنہ) کہہتے ہيں:(اس وقت) ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے:میرے پروردگار!مجھے یہی اچھا لگتا ہے کہ میں بھی تیرے رسول کے ساتھ باہر نکلوں، جب آپ (مدینہ سے) باہر نکلیں، اور جب آپ (مدینہ کے) اندر آئیں تو میں بھی آپ کے ساتھ اندر آؤں،(لیکن) میں اس بات کی وجہ سے روک دیا گیا ہوں جو تو دیکھ رہا ہے، (انس رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں:تو ام سلیم رضی اللہ عنھا کہنے لگیں:ابوطلحہ! جو (درد) مجھے محسوس ہورہا تھا، اب محسوس نہیں ہورہا ہے، لہذا چلیے! چنانچہ ہم چل پڑے۔ (انس رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں: جب دونوں (مدینہ) آگئے تو ام سلیم کو (دوبارہ) درد شروع ہوگیا اور ایک بیٹے کو جنم دیا۔ میری ماں (ام سلیم) نے مجھ سے کہا:اسے کوئی بھی دودھ نہیں پلائے گا، یہاں تک کہ صبح تم اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لےجاؤگے۔ جب صبح ہوئی، تو میں نے اسے اٹھالیا، اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ پھر انھوں نے مکمل حدیث بیان فرمائی۔  
صحیح - متفق علیہ

شرح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا بیمار تھا۔ دراصل ابوطلحہ رضی اللہ عنہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ (ام سلیم رضی اللہ عنہا) کےشوہر تھے۔ انھوں نے انس رضی اللہ عنہ کے والد کے بعد انھیں اپنی زوجیت میں لے لیا تھا۔ ابوطلحہ اپنے کسی کام کے سلسلے میں باہر نکلےاور اس دوران بچے کی وفات ہوگئی۔ جب وہ واپس لوٹے تو بچے کی ماں سے اس کے متعلق دریافت کیا کہ میرے بیٹے کی صحت کیسی ہے؟ بیوی نے جواب دیا کہ وہ پہلے سے زیادہ پرسکون حالت میں ہے۔ در حقیقت انھوں نے سچ ہی کہا تھا کہ وہ اپنی سابقہ حالت سے زیادہ پرسکون ہے؛ کیوں کہ بچے کی وفات ہوچکی تھی۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ بچہ، بیماری سے صحت یاب ہو کر پرسکون حالت میں ہوگا اور اس کی بیماری دور ہوچکی ہوگی۔ بیوی نے ابوطلحہ کے سامنے شام کا کھانا پیش کردیا اور انھوں نے اس اطمینان کے ساتھ شام کا کھانا کھا لیا کہ بیٹا صحت یاب ہوچکا ہے۔ اس کے بعد اپنی بیوی سے ہم بستری یعنی جماع بھی کیا۔ جب فارغ ہو گئے تو بیوی نے کہا کہ بچے کو دفنا دیجیے؛ کیوں کہ اس کی وفات ہوچکی ہے! -یہ پہلی روایت کے مطابق ہے- جب صبح ہوئی، تو بچے کو دفن کیا اور نبی کریم ﷺ کو اس بات کی اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ تم نے رات میں ہم بستری کی ہے؟ ابوطلحہ نے جواب دیا کہ جی ہاں! آپ ﷺ نے دونوں کے حق میں برکت کی دعا فرمادی، چنانچہ ان کے یہاں ایک بابرکت لڑکے کی ولادت ہوئی۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے ابوطلحہ نے کہا کہ اس بچے کو نبی کریم ﷺ کے پاس لے جاؤ۔ ساتھ ہی انھوں نے کچھ کھجوریں بھی بھیجیں؛ تاکہ ان سے آپ ﷺ تحنیک فرمادیں۔ بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے نبی ﷺ کے لعاب دہن کے ساتھ چبائی ہوئی شے داخل ہو اور اس بچے کی زندگی میں برکتیں نازل ہوں۔ جب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس بچے کو حاضر کیا گیا، تو آپ نے دریافت کیا کہ اپنے ساتھ کچھ لائے ہو؟ یعنی جس کے ذریعہ آپ تحنیک فرمائیں۔ انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ کچھ کھجوریں ان کے پاس ہیں۔ آپ ﷺ نے کھجور لے کر اپنے منہ میں چبایا؛ تاکہ اپنے بابرکت لعاب دہن کے ساتھ اسے ملادیں اور بچے کے لیے اس کا نگلنا آسان ہوجاۓ۔ اس طرح بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے نبی مصطفیٰ ﷺ کے لعاب دہن کے ساتھ چبائی ہوئی کھجور داخل ہو، جو اس بچے کی نیک بختی کا باعث ہو اور اس کی زندگی میں برکتیں نازل ہوتی رہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے اپنے منہ سے چبائی ہوئی کھجور نکال کر بچے کے منہ میں ڈال دی۔ انھیں بچے کے منہ میں پھیرا اور اس کانام عبداللہ رکھا۔ اس بچے کے ہاں نو لڑکے ہوئے اورنبی کریم ﷺ کی دعا کی برکت سے وہ سب کے سب قرآن مجید کے قاری نکلے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق، ام سلیم رضی اللہ عنھا نے اپنے گھر والوں کو تاکید کردی تھی کہ"ابوطلحہ کو ان کے فرزند کے بارے میں اطلاع نہ دینا، تاآں کہ میں ہی انھیں اس کے بارے میں بتلاؤں۔"جب ابوطلحہ رضی اللہ عنہ گھر تشریف لائے، انھیں رات کا کھانا پیش کیا۔ وہ کھانے پینے سے فارغ ہوگئے۔ پھر ام سلیم نے ان کے لیے بناؤ سنگھار کیا۔ خود کو خوش بو سے معطر کرلیا اور سج سنور گئیں۔ پھر ابوطلحہ نے ان سے ہم بستری کی اور جب جماع سے فارغ ہوئے تو بیوی نے اپنے بیٹے کی نسبت ادھار کے طور پر لی گئی شے سے مثال بیان کی، جسے اس کے مالک کے حوالہ کردیا جاتا ہے اور ان سے پوچھا کہ اے ابوطلحہ! ذرا یہ تو بتائیے کہ اگر کچھ لوگ اپنے گھر کی کوئی چیز کسی گھرانے کو ادھار کے طور پردیں اور پھر ان سے اپنی چیز واپس مانگ لیں، تو کیا لینے والے کے لیے درست ہے کہ وہ ادھار دینے والوں کو ان کی چیز واپس کرنے سے انکار کردیں؟ ابوطلحہ نے جواب میں کہا کہ نہیں! تب بیوی نے کہا کہ تو پھر اپنے فرزند کے تئیں اللہ تعالیٰ سے امید رکھو۔ ابوطلحہ یہ سن کر غصے میں آگئے اور کہا:تم نے مجھے اس بات سے اس حد تک بے خبر رکھا کہ میں (کھانے،پینے اور جماع جیسے امور میں پوری طرح) آلودہ ہوگیا اور ان سب کے بعد تم میرے بیٹے کے انتقال کی خبردے رہی ہو؟! پھر نبی کریم ﷺ سے اپنی بیوی کی شکایت کرنے اور ان کے ساتھ پیش آئے سارے ماجرے کو بیان کرنے کے لیے نکل پڑے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے ان دونوں کے حق میں ایسی دعا دی کہ ان دونوں کے اس عمل کا بہترین نتیجہ برآمد ہوا۔ فرمایا: "تمھاری گزرنے والی رات میں اللہ تعالیٰ تمھیں برکت عطا فرمائے!"یعنی اس رات تم دونوں کی ہم بستری کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمھیں پاکیزہ اولاد اور بہترین نسل سے نواز دے۔ بعدازاں وہ حاملہ ہوئیں۔ وہ اور ان کے شوہر رسول اللہ ﷺ کے کسی سفر میں ہم راہ تھے۔ جب مدینے میں داخل ہونے والے تھے کہ انھیں دردزہ نے آلیا، یعنی ولادت کی تکلیف محسوس ہونی شروع ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ سفر سے لوٹتے تو اہل مدینہ کو قافلے کی آمد کی خبر دینے کے لیے کسی قاصد کوروانہ فرماتے اور اس سے قبل مدینے میں داخل نہ ہوتے۔ اپنی بیوی کی زچگی کے امور میں مشغول ہونے کی وجہ سے ابوطلحہ کو وہیں رک جانا پڑا اور رسول اللہ ﷺ چل پڑے۔ ابوطلحہ اپنے رب سے یوں گویا ہوئے کہ اے میرے پروردگار! تو بخوبی جانتا ہے کہ مجھے بس یہی اچھا لگتا ہے کہ جب کبھی رسول اللہ ﷺ باہر نکلیں، تو میں بھی تیرے رسول کے ساتھ نکلوں اور جب آپ مدینہ واپس آئیں تو میں بھی آپ کے ہم راہ اندر آؤں، لیکن تو دیکھ رہا ہے کہ مجھے کس وجہ سےروک دیا گیا ہے۔ چنانچہ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے ان سے کہا کہ اے ابوطلحہ! مجھے اب وہ درد محسوس نہیں ہورہا ہے، جو پہلے ہورہا تھا۔ یعنی مجھے اب دردزہ کی وہ تکلیف محسوس نہیں ہورہی ہے، جو اس سے پہلے ہورہی تھی۔ پھر ان سے کہا کہ اب چلیے۔ جب یہ لوگ مدینہ پہنچ گئے، تو زچگی کا وقت آگیا۔ انھوں نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بچے کو نبی ﷺ کے پاس لے جاؤ۔ اس بات کی بھی تاکید کی کہ اس کو کوئی دودھ نہ پلائے۔ تاکہ بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے نبی ﷺ کا لعاب دہن داخل ہو اور اس کے نتیجے میں دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں اس کی زندگی میں آجائیں۔ اس عمل کا نتیجہ اس لڑکے میں ظاہر ہو گیا کہ اس کی نسل میں نیکوکار، پرہیزگار اور فلاح و کامرانی سے ہم کنار ہونے والے لڑکوں کی بہتات ہوئی۔ اس حدیث کی شرح کے اختتام پر یہ جاننا ازحد ضروری ہے کہ جسم سے نکلنے والی چیز سے تبرک حاصل کرنا صرف اور صرف نبی ﷺ کی خصوصیات سے تعلق رکھتا ہے، جس میں اس امت کا کوئی فرد کبھی شریک و حصہ دار نہیں ہوسکتا۔ اس بات کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ نزول وحی کا راست مشاہدہ کرنے والے اور دینی حقائق سے بھرپور واقفیت و آگہی رکھنے والے صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین نے خلفاے راشدین اور ان کے علاوہ عشرۂ مبشرہ میں سے کسی کے ذریعہ کبھی تبرک حاصل نہیں کیا۔ 
( #ایس_اے_ساگر )

Saturday 16 December 2023

چھینک کو روکنا کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے

 چھینک کو روکنا کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے!

شمالی ہند میں دہلی سمیت متعدد علاقوں میں سردی کی شروعات ہوچکی۔ ایسے میںبعض اوقات چھینکوں کا حملہ بھی ہوجاتا ہے۔عام طور پر لوگ ناک میں ہلکی خارش یا الرجی کی صورت میں چھینکتے ہیں اور اگر چھینک کو جان بوجھ کر روکا جائے تو سانس کی نالی میں سوراخ بن سکتا ہے جو آپ کی جان کیلئے خطرے کا باعث ہے۔ دھول، مٹی، دھواں ناک میں داخل ہوتے ہیں تو ناک کے اندر خارش یا جلن محسوس ہوتی ہے جس سے انسان کو چھینک آتی ہے، چھینک ایسا قدرتی عمل ہے جو آپ کی ناک کے اندر کیڑا یا بیکٹریا کے خلاف دفاع ہے۔ تاہم اگر ہم اس قدرتی عمل کو جان بوجھ کر روکنے کی کوشش کریں تو سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک کیس برطانوی جریدے بی ایم جی میں رپورٹ ہوا جب 30 سالہ شخص کو ڈرائیونگ کے دوران چھینک آنے کا احساس ہوا۔ اب چونکہ وہ ڈرائیونگ کررہا ہے تو اس شخص نے ناک بند اور منہ کو ہاتھ سے دبا کر چھینک روک دی، جس کے فوری بعد اس شخص کے گلے میں شدید تکلیف کا احساس ہوا، تکلیف کی شدت اتنی زیادہ تھی اسے ہسپتال کے ایمرجنسی یونٹ جانا پڑا۔ ڈاکٹرز نے جب 30 سالہ مریض کی حالت دیکھی تو وہ بھی حیران رہ گئے، سی ٹی اسکین سے پتہ چلا کہ اس شخص کی سانس کی نالی میں سوراخ بن گیا ہے۔ ڈاکٹر راساد مِصِروف کا کہنا تھا کہ مریض کے گردن میں شدید سوجن تھی، جسے ہم دیکھ کر کافی حیران تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ایکس رے سے معلوم ہوا کہ گردش کے نرم ٹشوز میں ہوا بھری ہوئی تھی، ہم نے گردن اور سینے کی کمپیوٹنگ ٹوموگرافی کی جس سے پتہ چلا کہ گردن اور سینے کے ٹشوز میں ہوا پھنسی ہوئی ہے اور سانس کی نالی میں سوراخ ہے۔’ڈاکٹر نے کہا کہ اس طرح کے کیسز نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں لیکن جو کیسز رپورٹ ہوئے وہ انتہائی پیچیدہ اور زندگی بھی خطرے میں پڑسکتی ہے۔جریدے کے مطابق مریض خوش قسمت تھا کہ اس کی جان بچ گئی، ڈاکٹرز نے انہیں درد کی دوا تجویز کی اور ہسپتال داخل کیا، 5 ہفتوں کے دوران ڈاکٹرز کے نگرانی کے بعد سانس کی نالی کا سوراخ ٹھیک ہوگیا۔ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ’یہ کیس سنگین شکل اختیار کرسکتا تھا، اگر چھینک کے دوران منہ اور ناک دونوں بند ہوجائیں تو ایئر ویز میں دباو 20 گنا تک بڑھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’سب سے سنگین صورت حال میں سانس کی نالی پھٹ سکتی ہے جس کے نتیجے میں دم گھٹ سکتا ہے یا دماغ میں خون بھی بہہ سکتا ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ چھینک کا احساس ہو تو اسے مت روکیں کیونکہ یہ جسم کا قدرتی عمل ہے، تاہم چھینک کے دوران اپنے ہاتھ یا کہنی کی مدد سے چہرے کو نرمی سے ڈھانپ لیں تاکہ وائرس جیسے تھوک آپ کے اردگرد دوسروں تک نہ پھیل سکے۔ ( #ایس_اے_ساگر )





Sunday 10 December 2023

کیا آپ کے مسوڑھوں سے خون بہتا ہے؟

کیا آپ کے مسوڑھوں سے خون بہتا ہے؟
منھ کی وہ بیماریاں جن سے ہماری جسمانی صحت کا پتہ چلتا ہے
جب آپ دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، تو آپ عام طور پر صرف اپنے دانتوں کی دیکھ بھال کے بارے میں سوچتے ہیں جبکہ اپنے باقی منھ کو فراموش کر دیتے ہیں۔لیکن اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ قیمتی معلومات سے محروم ہوسکتے ہیں: آپ کے منھ کی صحت آپ کے باقی جسم میں کیا ہو رہا ہے، اس تک ایک آسان رسائی اور انتہائی درست اشارہ ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ، جب آپ کے جسم کو بہترین حالت میں رکھنے کی بات آتی ہے تو منھ کی اچھی صحت کو برقرار رکھنا کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈینٹسٹری کے ڈائریکٹر پروفیسر نیکوس ڈونوس نے بی بی سی کے دی ایویڈینس پر ایک پینل کے دوران کہا کہ برطانیہ میں ’کچھ اشتہارات ہیں‘، جس میں وہ پوچھتے ہیں: ’اگر آپ کی آنکھ سے خون بہہ رہا ہو تو کیا آپ اسے نظر انداز کریں گے؟ تو آپ مسوڑھوں سے خون آنے پر اسے نظرانداز کیوں کرتے ہیں؟‘’اور پھر بھی، ایسے لوگ ہیں جو مسوڑھوں کی شدید بیماری کیساتھ زندگی گزارتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ معمول ہے۔‘ایسے کافی شواہد موجود ہیں جو خاص طور پر مسوڑھوں کی بیماری یا پیریڈونٹائٹس کو ذیابیطس اور دل کی بیماری سے جوڑتے ہیں اور ایسے زیادہ سے زیادہ مطالعات موجود ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان بیماریوں کے خلاف جنگ میں منھ کی اچھی صحت سب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والے پہلوو¿ں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔ڈونوس نے وضاحت کی کہ’جب ہم مختلف دائمی بیماریوں اور منھ کیساتھ جسم کے دوسرے حصوں کے درمیان کنکشن اور ایسوسی ایشن کے بارے میں بات کررہے ہیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ مسوڑھوں کی بیماری کا پھیلاؤ ہے۔‘’ہم نے پایا کہ مسوڑھوں کی بیماری انسانیت کی سب سے عام دائمی بیماریوں میں چھٹی ایسی بیماری ہے، جو تقریباً 1.1 ارب لوگوں میں موجود ہے جو کل آبادی کا گیارہ اعشارہ دو فیصد بنتا ہے۔‘
مسوڑھوں کی بیماری:
امریکہ میں میو کلینک مسوڑھوں کی بیماری، یا پیریڈونٹائٹس کے بارے میں بتایا ہے ’مسوڑھوں کا ایک سنگین انفیکشن جو دانتوں کے ارد گرد کے نرم بافتوں کو متاثر کرتا ہے۔ علاج نہ ہو تو پیریڈونٹائٹس اس ہڈی کو تباہ کر سکتا ہے جو آپ کے دانتوں کو سہارا دیتی ہے۔ دانت ڈھیلے ہو جاتے ہیں۔ یا گ سکتے ہیں۔‘ممکنہ علامات میں مسوڑھوں سے خون بہنا، لالی یا درد یا سانس کی مسلسل ب±و شامل ہے۔لیکن منھ کو نقصان پہنچانے کے علاوہ یہ کافی ثبوت ہے کہ مسوڑھوں کی یہ بیماری ٹائپ 2 ذیابیطس سے جڑی ہے۔ ڈونوس کہتے ہیں’حقیقت میں، ہم فی الحال دو طرفہ تعلقات کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ پیریڈونٹل بیماری کے مریضوں کو ذیابیطس ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور ذیابیطس کے مریضوں کو بھی پیریڈونٹل بیماری ہوتی ہے۔‘یہ تعلق اتنا قریب ہے کہ ایسے مطالعات موجود ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ٹائپ 2 ذیابیطس والے لوگوں میں منھ کی اچھی دیکھ بھال عام طور پر، آسان طریقے سے اور بڑے ضمنی اثرات کے بغیر بیماری پر قابو پانے میں مدد کر سکتی ہے۔‘ ڈونوس کا کہنا ہے کہ ’کچھ سال پہلے ہم نے ایک مطالعہ کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر آپ پیریڈونٹل بیماری کا روایتی طور پر علاج کرتے ہیں، بغیر جراحی کے ان مریضوں میں بہتر میٹابولک کنٹرول ہوتا ہے، جو کہ ایک اہم بہتری ہے جو تقریباً 12 ماہ تک برقرار رہی۔‘
بی بی سی کے پینل میں بھی حصہ لینے والے ڈاکٹر گراہم لائیڈ جونز تھے، جو برطانیہ کے سیلسبری ہسپتال کے ایک ریڈیولوجسٹ تھے، جنہوں نے تصدیق کی کہ منھ اور ذیابیطس کے درمیان تعلق ’معنی رکھتا ہے۔‘
ڈاکٹر نے خبردار کیا کہ ’ہمیں منھ کو ایک امیونولوجیکل عضو کے طور پر دیکھنا چاہیے : اگر اس پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے، تو سوزش کے عمل ہوں گے، بشمول پیتھوجینز - بیکٹیریا جو عام طور پر منھ میں رہتے ہیں لیکن جسم کے دوسرے حصوں میں منتقل ہوتے ہیں، جو ان میں سے بہت سی بیماریوں کی نشوونما اور بد تر ہونے کا باعث ہیں۔‘
منھ سے دل تک:
مسوڑھوں کی بیماریوں سے جڑی واحد بیماری ٹائپ 2 ذیابیطس نہیں ہے کیونکہ کنٹرول سے باہر پیریڈونٹائٹس بیکٹیریا خون کے نظام کے ذریعے جسم میں سفر کرتے ہیں، وہ دل کو متاثر کر سکتے ہیں۔ڈونوس کہتے ہیں ’ یہ سوزشی اجزا جو جسم میں پیریڈونٹائٹس کی وجہ سے موجود ہوتے ہیں اور جو خون کے دھارے تک پہنچتے ہیں، وہ پلاکس بنا سکتے ہیں جو جمنے کا باعث بن سکتے ہیں جس کے نتائج اسکیمک دل کے مسائل سے لے کر دل کے دورے تک کے مریضوں میں ہو سکتے ہیں۔‘کوئی بھی انفیکشن اس وقت جان لیوا ہو سکتا ہے جب منھ کی قوتِ مدافعت کم ہوتی ہے، مدافعتی نظام کی بیماری یا منشیات کے استعمال کی وجہ سے۔ یہ اینڈو کارڈائٹس کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ ڈاکٹر لائیڈ جونز بتاتے ہیں ’خوش قسمتی سے یہ ایک نایاب بیماری ہے، لیکن یہ ایک متعدی بیماری ہے جس میں منھ کے کچھ آرگینزمز قابو سے باہر ہو جاتے ہیں اور دل کے اندرونی بافتوں کو متاثر کرتے ہیں۔‘’ یہ واضح ہے کہ منھ کا یہ جسمانی راستہ، پیتھوجینز کیساتھ جو باقی جسم میں جاتا ہے، حقیقی ہے۔ تیز خون، جو بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے یا موجودہ بیماریوں کے بگڑ سکتا ہے۔
’یہ واضح ہے کہ منھ سے جسم کا یہ راستہ ، جس میں جراثیم باقی جسم میں جاتے ہیں کچھ حقیقی ہے۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ہمارے منھ کی جسمانی رکاوٹ کو عبور کرنے والے بیکٹیریا کی یہ زیادتی خون کے ذریعے جسم کے باقی حصوں تک پہنچ جاتی ہے جس سے بیماریاں یا موجودہ بیماریاں بگڑ سکتی ہیں۔‘
ادراک کیساتھ تعلق:
اگرچہ شواہد پچھلے معاملات کی طرح ٹھوس نہیں ہیں ، لیکن کچھ محققین ہیں جو یہ ظاہر کرنا شروع کر رہے ہیں کہ ان بیکٹیریا اور بڑھاپے میں علمی تنزلی کے درمیان کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ان میں سے ایک یونیورسٹی آف کیمبرج سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ویون شا ہیں جنہوں نے اپنی تحقیق میں یہ بات سامنے لائی ہے کہ جو لوگ 21 یا اس سے زیادہ دانتوں کیساتھ بڑھاپے تک پہنچتے ہیں ان کی دماغی خرابی ان لوگوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے جن کے دانت کم ہوتے ہیں۔شا کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ شواہد نسبتا حالیہ ہیں، لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ کو کسی قسم کی دماغی کمزوری ہے اور آپ مہارت کھو دیتے ہیں، تو آپ کے دانت برش کرنے یا فلاس کرنے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔یہ غذائیت کے مسئلے سے بھی متعلق ہے: اگر آپ کے دانت کم ہیں، تو آپ کو یقینی طور پر خراب غذائیت ملے گی، جس کی وجہ سے زیادہ علمی خرابی ہوتی ہے‘۔
لائیڈ جونز نے اپنی طرف سے ایک زیادہ براہ راست تعلق کے بارے میں بات کی: ’ایسے مخصوص حیاتیات ہیں جو مسوڑھوں کی بیماری کی نشوونما اور بگڑنے سے منسلک ہیں۔‘’ایک مخصوص آرگینیزم ، جسے جینگیولس کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک بہت ہی دلچسپ آرگینیزم ہے۔ یہ نیوروٹوکسن سے ڈھکا ہوا ہے ، جو اعصابی خلیات کو مار دیتا ہے۔ لیکن یہ آرگینیزم صرف منھ میں ہی نہیں رہتا بلکہ یہ ہمارے سوجن والے مسوڑھوں کو چھوڑ کر جسم میں سفر کرتا ہے اور الزائمر میں مبتلا افراد کے دماغ اور دماغی سیال دونوں میں پایا جاتا ہے۔‘پروفیسر ڈونوس کیلئے منھ اور جسم کے مختلف نظاموں کے درمیان یہ تعلقات صرف پیریڈونٹل بیماری کی روک تھام کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
منھ کی دیکھ بھال:
ڈونوس نے کہا: ’منھ کی تمام بیماریاں قابل علاج ہیں اور کسی حد تک قابل علاج ہیں، سوائے کینسر کے، جو ایک بالکل مختلف کہانی ہے۔‘ان کے خیال میں یہ اہم ہے کہ لوگوں کو منھ کی اچھی صحت کے نظام تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے اور یہ کہ لوگوں کے پاس ایک دانتوں کا ڈاکٹر ہے جس پر وہ اعتماد کرتے ہیں۔’یہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ اور دندان سازی اور ادویات کو زیادہ قریب سے مربوط کریں، تاکہ جب ہم اپنے ڈاکٹر، اپنے ڈینٹسٹ کے پاس جائیں، تو وہ نہ صرف ہمارے دانتوں یا ہمارے جگر کو دیکھیں، بلکہ وہ جسم کو ایک نظام کے طور پر دیکھ سکیں، اور علامات کو باہم مربوط کرسکیں‘۔ایک خاص مثال جہاں خصوصیات کا یہ امتزاج کام کرسکتا ہے وہ پیدائش سے پہلے کی دیکھ بھال میں ہے: ڈاکٹر شا نے کہا کہ حمل کے دوران ہونے والی ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے، وہ منھ کے بیکٹیریا طاقت حاصل کرسکتے ہیں اور ماں اور ماں دونوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔وہ کہتےہیں ’ہم بہت فکرمند ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے قبل از وقت پیدائش اور کم وزن کی پیدائش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ماو¿ں سے بات کرنا اور انہیں مناسب دیکھ بھال فراہم کرنا ایک اہم مرحلہ ہے۔‘لائیڈ جونز کیلئے، سب سے اہم چیز اپنے منھ کے بارے میں ہمارے سوچنے کے انداز کو تبدیل کرنے میں ہے: ’ہمیں اپنے منھ کو مدافعتی رکاوٹ کے طور پر دیکھنا ہو گا جسے ہماری دیکھ بھال کی ضرورت ہے‘۔ ان مائیکروبس کا خیال رکھیں جو ہمارے منھ میں رہتے ہیں اور جو ہمارے ساتھ پیدا ہوئے ہیں اور جو ہماری حفاظت کیلئے موجود ہیں۔ (بشکریہ: بی بی سی اردو) ( #ایس_اے_ساگر )


Friday 1 December 2023

اپنے کنبے والوں کو کاروبار میں شامل کرکے ٹیکس بچانے کا حکم

اپنے کنبے والوں کو کاروبار میں شامل کرکے ٹیکس بچانے کا حکم 
-------------------------------
--------------------------------
ہمارے اکاؤنٹینٹ نے ہمیں کہا کہ أپ اپنی بیوی اور بچوں جن کی عمر ۱۸ سال سے زیادہ ہے کمپنی میں ڈائریکٹر شو کریں اور انکو تنخواہ بھی دیں. اس سے ٹیکس کم ہوگا میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسی اجرت لے سکتے ہیں یعنی میں اور میرے بچے جو ۱۸ سال سے اوپر ہیں جبکہ میں تھوڑا بہت کام ان کا دیکھتی ہوں مگر بچے تو کچھ نہیں اور ان کو تنخواہ بھی ادا ہوتی ہے یہاں تمام فیملیز کے ارکان جو بزنس کرتے ہیں چاہے گردوری شاپ ہو یا پیزا وہ تمام فیملی ممبرز بزنس سے تنخواہ لیتے ہیں. چاہے کام کریں یا نہیں. پوچھنا یہ تھا کہ کیا ہمارا ٹیکس بچانے کی غرض سے تنخواہ لینا اور ڈائریکٹر بننا جائز ہے؟ تنخواہ انہی پیسیوں سے ملتی ہے جو میرے میاں کماتے ہیں. اگر وہ خود سارا اپنا دکھلائیں تو بھاری ٹیکسز دینا پڑتے ہیڻ جبکہ جو تنخواہ مجھے ملتی ہے میں بھی ٹیکس دیتی ہوں رہنمائی فرمائیں.
الجواب و باللہ التوفیق:
انکم ٹیکس ظلم پر مبنی ناروا ٹیکس ہے ، دفع ظلم کے لئے حیلے بہانے، حتی کہ بعض حالت میں کذب بیانی کی بھی گنجائش رہتی ہے. صورت مسئولہ میں اپنی گاڑھی کمائی بچانے کے لئے اپنی کمپنی سے تنخواہ شو کرنے کی گنجائش ہے. بہتر یہ ہے کہ حسب موقع وفرصت کام میں معمولی اور برائے نام ہاتھ بھی بٹالیا جائے، فتاوی شامی میں ہے: 
وأکثر النوائب في زماننا بطریق الظلم فمن تمکن من دفعہ عن نفسہ فھو خیر لہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع وغیرہ، ۹: ۶۰۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، الکذب مباح لإحیاء حقہ ودفع الظلم عن نفسہ الخ (الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع وغیرہ، ۹: ۶۱۲)
وإن أمکن التوصل إلیہ بالکذب وحدہ فمباح إن أبیح تحصیل ذلک المقصود، وواجب إن وجب تحصیلہ الخ (رد المحتار، ۹: ۶۱۲، عن تبیین المحارم)
واللہ اعلم بالصواب.
مرکز البحوث الإسلامية العالمي ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2023/12/blog-post.html

Tuesday 28 November 2023

بے راہ رو مسلم حکمرانوں کو نصیحت کرنا فریضہ دینی ہے

بے راہ رو مسلم حکمرانوں کو نصیحت کرنا فریضہ دینی ہے 
-------------------------------
--------------------------------
سوال: ایک غیر مقلد نے منسلکہ پوسٹ ارسال کی ہے. 
اس کا کیا جواب دیا جائے ؟ رہبری فرمائیں. اس شخص کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب حکمراں کا فسق و فجور میں مبتلا ہونا اور فلسطین کے تعلق سے ان کا سکوت یہ قابل مواخذہ نہیں ہے.
الجواب و باللہ التوفیق:
مرسلہ پوسٹ ذیل کی حدیث کا ناقص ترجمہ ہے 
پوری حدیث یوں ہے: 
خِيارُ أئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ ويُحِبُّونَكُمْ، وتُصَلُّونَ عليهم ويُصَلُّونَ علَيْكُم، وشِرارُ أئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ ويُبْغِضُونَكُمْ، وتَلْعَنُونَهُمْ ويَلْعَنُونَكُمْ، قالوا: قُلْنا: يا رَسولَ اللهِ، أفَلا نُنابِذُهُمْ عِنْدَ ذلكَ؟ قالَ: لا، ما أقامُوا فِيكُمُ الصَّلاةَ، لا، ما أقامُوا فِيكُمُ الصَّلاةَ (صحيح مسلم: 1855) 
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے بہترین حکمراں وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کريں، تم ان کے حق ميں دعائے خير کرو اور وہ تمہارے حق ميں دعائے خير کریں۔ اور تمہارے بدترین حکمراں وہ ہیں جنہیں تم ناپسند کرو اور وہ تمہیں ناپسند کريں، تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں-“ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہم ان کی بيعت توڑ کر ان کے خلاف بغاوت نہ کريں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں‘ جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں۔ نہیں‘ جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے ہیں.“
اس حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں میں سے کچھ تو نیک ہوں گے اور کچھ فاسق اور بے دین ہوں گے۔ اس کے باوجود جب تک وہ شعائرِاسلام کی حفاظت کرتے رہيں جس میں نمازسب سے اہم ہے، ان کے خلاف خروج وبغاوت جائز نہیں ہے۔ 
یعنی مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور آپسی اتحاد واتفاق کے مقصد سے ان کے خلاف بغاوت کرنے اور مسلح ونگ کے ذریعے حملہ آور ہونے سے منع کیا گیا ہے، اسے خارجیت قرار دیا گیا ہے، 
یہ مطلب نہیں ہے کہ حکمرانوں کو شتر بے مہار چھوڑ دیا جائے کہ جو کچھ بھی کرتے رہیں اس کی تحسین وتائید کی جاتی رہے. صحیحین کی حدیث: 
"الدين النصيحة» قلنا: لمن؟ قال: «لله، ولكتابه، ولرسوله، ولأئمة المسلمين وعامتهم" 
کے بموجب ہر مومن کا دینی فریضہ ہے؛ بلکہ دین اس بات پر منحصر ہے  کہ بندہ مومن حالات وواقعات کے تقاضوں کے مطابق معتدل ومتوازن انداز اور شائستہ ومؤثر لب ولہجے میں، ان کے ادب واحترام اور حیثیت عرفی کی رعایت کے ساتھ، ملکی آئین ودستور کی حدود میں رہتے ہوئے  حکمرانوں کو حق بات کی نصیحت کرتا رہے، انہیں تقریر وتحریر، مضمون، کالم نویسی، تصنیف وتالیف اور پر امن احتجاج اور بوقت ضرورت بالمشافہ ملاقاتوں کے ذریعے ایسی چیز کی طرف ان کی رہنمائی کرتا رہے جس سے وہ ناآشنا ہیں اور جس چیز کو وہ بھول چکے ہیں یا جس سے وہ غافل ہیں اس کی یاد دہانی کراتا رہے، علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں 
مجھے ہے حکم اذاں لاالٰہ الاّ اللہ
یعنی مسلمانوں کے ذہن ودماغ میں مفادات ، مرغوبات ، ترجیحات اور عقائد وخیالات کی صورت میں مختلف غیر حسی بت پوشیدہ ہیں، جو مومنین کو تقاضۂِ ایمانی سے برگشتہ کرتے رہتے ہیں، ایسے میں ہر مومن  کی ذمہ داری ہے کہ بالعموم دنیا اور بالخصوص مسلمانوں کے لئے "برہانِ اسلام" کا اعادہ کرتا رہے، یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود وحاکمِ وقت قابل اتّباع وپیروی نہیں!  
مرکز البحوث الإسلامية العالمي ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2023/11/blog-post_28.html

Monday 27 November 2023

تشہد میں انگشتِ شہادت اٹھانے کا مسنون طریقہ اور اس کی وجہ وحکمت؟

تشہد میں انگشتِ شہادت اٹھانے کا مسنون طریقہ اور اس کی وجہ وحکمت؟
-------------------------------
--------------------------------
سوال: (1) قعدہ میں التحيات پڑھتے ہوئے کلمہ (لا) پر شہادت کی انگلی اٹھانے کا کیا حکم ہے؟
سنت ہے یا واجب؟
(2) شہادت کی انگلی اٹھاتے وقت بلا اختیار خنصر انگلی بھی ساتھ ساتھ اٹھ جاتی ہے تو کیا اس ڈر سے کہ خنصر انگلی بھی اٹھ جاتی ہے شہادت کی انگلی ہی نہ اٹھانے کے جواز کا کوئی قول فقہائے کرام میں سے کسی کا ہے؟
(3) اگر دونوں انگلیاں (شہادت اور خنصر) ساتھ ساتھ بالاختیار اٹھادے تو اس سے کیا خرابی لازم آئے گی؟
محمد مناظر احسن قاسمی 
حال مقیم قطر 
الجواب وباللہ التوفیق:
لاالٰہ پڑھتے وقت دو کام کرنا ہے. ایک چھنگلی اور اس کے ساتھ والی انگلی بند کرنا، اور ابہام کو وسطی کے ساتھ حلقہ بنانا ہے. 
دوسرا اس کے ساتھ ہی مسبحہ کو اوپر کرنا ہے،  "الا اللہ" پڑھتے ہوئے اسے چھوڑ دینا ہے۔ لیکن انگلیوں کے حلقہ بنانے اور چھوٹی انگلیوں کو بند رکھنے کی کیفیت کو آخر تشہد تک باقی رکھنا ہے۔
یہ عمل مسنون ہے:
عن عبدالله بن الزبير قال: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قعد في الصلاة جعل قدمه اليسرى بين فخذه وساقه وفرش قدمه اليمنى ووضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى وأشار بإصبعه" . رواه مسلم (579) .
وفي النسائي (1270) وأبي داود (989) "كان يشير بأصبعه إذا دعا ولا يحركها."
اب رہا آپ کا یہ خلجان کہ رفع سبابہ سے ماسوی اللہ کی نفی کیسے ہوگی؟
تو وہ اس طرح ہوگی کہ انگلیاں یا ہاتھ "اوپر اٹھانا" کسی چیز کو پس پشت ڈالنے اور انکار کرنے کو مشیر ہوتا ہے. اسی لئے تکبیرتحریمہ کے وقت رفع یدین کے من جملہ حکمتوں میں "طرح الدنیا" کو بھی بتایا جاتا ہے. جب "ہاتھ اٹھانا" طرح وانکار ونفی“ ہوسکتا ہے تو اب تشہد میں کوئی ہاتھ کیسے اٹھائے گا ؟ اب کلمہ توحید پڑھتے ہوئے اس کے لئے یہی کچھ ممکن ہے کہ  "جزو ید" مسبحہ اٹھاکر ماسوی اللہ کا طرح وانکار مراد لیا جائے۔ چنانچہ جب رفع سبابہ سے عملاً اور "لاالٰہ" پڑھ کر قولاً ہر دو طریقوں سے ما سوی اللہ کی مکمل نفی ہوگئی تو اب مقصد حاصل ہوگیا اور "الا اللہ" کہتے ہوئے یعنی اثبات توحید لذات اللہ کے وقت انگلی نیچے رکھ دے.
کمرے کی بجلی اور لائٹ آف کرنے "نفی نور" کے لئے بھی سوئچ کو اوپر "رفع" کیا جاتا ہے، اور اثبات نور "لائٹ آن" کرنے کے لئے سوئچ کو نیچے "وضع" کیا جاتا ہے۔ 
رفع سے نفی اور وضع سے اثبات کا فلسفہ آپ اس سے بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں 
هذا ما فتح الله عليَّ علٰى هذا الفقير، والله سبحانه و تعالى أعلم بالصواب 
شكيل منصور القاسمی 
سوال 
——-
جزاکم اللہ خیرا 
بڑی خوبی سے اور بالخصوص بذریعہ عام فہم تمثیل سے مفتی صاحب آپ نے (رفع برائے نفی) اور (وضع برائے اثبات) سمجھا دیا ۔۔ بس اب یہ بات بھی آپ اپنے خوبصورت انداز میں سمجھادیجئے کہ (سبابہ اور خنصر) کا ایک ساتھ رفع ہو یا سبابہ کے ساتھ اور کسی بھی انگلی کا ایک ساتھ رفع ہو دو یا تین وغیرہ انگلیوں کا ایک ساتھ رفع ہو تو کیا حکم ہے؟
بالاخیار اور بدون خطا کے ۔۔ کیا حکم ہے؟
اور بلا اختیار لیکن مع التکرار اور لاابالی پن میں ۔۔ تو کیا حکم ہے۔۔
کسی نمازی نے سوال کیا ہے۔
شکریہ
الجواب وباللہ التوفیق:
اس جزئیہ کا جواب بھی اسی میں موجود ہے. رفع سبابہ کے ساتھ ابہام کو وسطی سے ملائیں گے اور بقیہ انگلیوں کو حلقے سے مربوط اور موڑ کے یعنی کہ بند رکھیں گے، سبابہ کے ساتھ کسی بھی دوسری انگلی کو اٹھانا خلافِ سنت ہے. بندہ اختیار کی حد تک ہی مکلف ہے، بقیہ انگلیوں کو حلقے سے جوڑ کے اور موڑ کے رکھنے کی پوری کوشش کرے، اس کی باضابطہ عادت ڈالے، اگر بامر مجبوری ممکن نہ ہو تو غیراختیاری طور پہ عارضی حالت میں اس عمل سے نماز میں کراہت نہ آئے گی 
البتہ اگر کوئی عمداً ایسا کرتا ہے تو یہ عمل مکروہ ہوگا. کیونکہ ہمارے یہاں رفع سبابہ کے ساتھ اسے مزید یمیناً وشمالاً آخر تشہد تک حرکت دیتے رہنا جب مکروہ ہے:
فی اعلاء السنن (۱۱۲/۳): قال الطحطاوی في حاشیته علی مراقي الفلاح: قوله،وتسن الاشارۃ،أی من غیرتحریك فإنه مکروہ عندنا۔
حالانکہ بعض احادیث سے اس کے ثبوت کے اشارے بھی ملتے ہیں تو رفع خنصر — جس کا کہیں سے کوئی ثبوت نہیں ہے— تو بدرجہ اولیٰ ناپسندیدہ عمل ہوگا۔ 
اس ناپسندیدہ، وقار نماز کے منافی اور غیر ثابت عمل کی اصلاح کی جانب پوری توجہ مبذول کی جائے۔
شامی میں ہے:
وشیخ الاسلام الجد وغیرھم أنه یشیر لفعله علیه الصلاۃ والسلام ونسبوہ لمحمد والامام بل فی متن دررالبحار وشرحه غرر الاذکار المفتی به عندنا انه یشیر باسطا أصابعه کلھا ، وفی الشرنبلالیۃ عن البرھان الصحیح أنه یشیر بمسبحته وحدھا یرفعھا عند النفی ویضعھا عند الاثبات واحترز بالصحیح عما قیل لایشیرلأنه خلاف الدرایۃ والروایۃ وبقولنا بالمسبحۃ عما قیل یقعد عند الاشارۃ وفی العینی عن التحفۃ الاصح انھا مستحبۃ۔
وفی القھستانی: وعن اصحابنا جمیعاً انہ سنۃ فیحلق ابھام الیمنی ووسطھا ملصقا رأسہا برأسھا ویشیر بالسبابۃ فھذہ النقول کلھا صریحۃ بان الاشارۃ المسنونۃ انما ھی علی کیفیۃ خاصۃ الخ الدر المختار مع رد المحتار: (508/1، ط: دارالفکر)۔
وفي حاشیة ابن عابدین: والصحیح المختار عند جمھور أصحابنا أنه یضع كفيه علی فخذیه ثم عند وصوله إلی کلمۃ التوحید یعقد الخنصر والبنصر ویحلق الوسطی والإبھام ویشیر بالمسبحة رافعا لھا عند النفی وواضعا لھا عند الاثبات ثم یستمر علی ذلک...
(ج :1/134)
والله أعلم بالصواب 
مرکز البحوث الإسلامية العالمي ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2023/11/blog-post_27.html



کوئی گھڑی 100 فیصد درست نہیں

 کوئی گھڑی 100 فیصد درست نہیں

انسانی زندگی میں وقت اور گھڑی کی اہمیت 11 چونکا دینے والے حقائق 

وقت سے متعلق آپ کیا سوچتے ہیں؟ گھڑیوں کی آپ کی نظر میں اہمیت کیا ہے؟ کیا گھڑی کے بنا زندگی کا تصور ممکن ہے؟ان سوالوں کا کوئی مختصر جواب دینا مشکل ہو سکتا ہے۔اس لیے ہم نے آپ کیلئے وقت کی انسانی زندگی میں اہمیت سے جڑے 11 حقائق تحریر کیے ہیں:

1۔ زبان کا وقت سے کیا تعلق ہے؟

وقت کو اکثر ایک سیدھی لکیر کے طور پر تصور کیا جاتا ہے مگر یہ لائن جو سیدھی لکیر تصور کی جاتی ہے یہ جاتی کہاں ہے؟ اس کی سمت کیا ہے؟لیکن یہ جو بات ہم تصور کر رہے ہیں کہ وہ ہو ہی نہ تو یعنی کوئی لائن ہو ہی نہ۔

اب کہا یہ جاتا ہے کہ ان تمام سوالات کے جواب کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کون سی زبان بولتے ہیں۔وقت کے بارے میں سوچنے اور سمجھنے یا تفہیم اس زبان سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے جو ہم استعمال کرتے ہیں۔مثال کے طور پر، انگریزی بولنے والے وقت کو آگے یا پیچھے سمجھتے ہیں۔انگریزی بولنے والے مستقبل کا ذکر کرتے ہوئے ہاتھ سے آگے کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور جب وہ ماضی کا ذکر کرتے ہیں تو ا±ن کے ہاتھ کا اشارہ پیچھے کی جانب ہوتا ہے۔وقت کو افق پر دائیں سے بائیں تک پھیلی سیدھی لکیر کے طور پر بھی سمجھا جاتا ہے۔چین میں رہنے والے اور چائنیز زبان بولنے والے وقت کو ایک اوپر سے نیچے جانے والی لائن کے طور پر دیکھتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ تصور یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اس اوپر سے نیچے آنے والی لائن کی تہہ میں مستقبل ہے۔یونانیوں نے وقت کو لمبائی میں نہیں بلکہ سہہ جہتی سمجھا۔اسی طرح آسٹریلیا کا ایک قبیلہ وقت کو مشرق اور مغرب سمجھتا ہے۔اس کے علاوہ، ہماری زبان وقت گزرنے کے بارے میں ہماری تفہیم کا تعین کرتی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ کوئی اپنے حال کے بارے میں کیا کہتا ہے اس سے بہتر کہ وہ اپنے ماضی کے بارے میں کیا کہتا ہے۔

2۔ جو آپ اب سمجھتے ہیں وہ اب نہیں:

جب آپ ان الفاظ کو پڑھ رہے ہوں گے تو اب اسے سمجھنا بہت آسان ہو گا لیکن ایسا نہیں۔مثال کے طور پر اس شخص کے بارے میں سوچیں جو آپ کے سامنے میز کے دوسری طرف بیٹھا ہے اور بول رہا ہے۔

ان کے اشارے ان کے الفاظ سے پہلے آپ تک پہنچ جاتے ہیں کیونکہ روشنی آواز سے زیادہ تیزی سے سفر کرتی ہے۔ہمارا دماغ ان دونوں کو جوڑتا ہے۔اسی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ جب کسی شخص کے ہونٹ ہلتے نظر آتے ہیں تو وہ تبھی بول رہا ہوتا ہے۔جب ہونٹ ہل رہے ہوتے ہیں تو ہم سب سے پہلے دیکھتے ہیں لیکن یہ وقت کے بارے میں سب سے عجیب بات نہیں۔

3۔ وقت کے بغیر کوئی شعوری تجربہ نہیں ہوسکتا:

ہم اپنے ہاتھوں کی مدد سے گھڑی کی ٹک ٹک کی گنتی کرتے ہیں۔ اب زرا یہ گمان کریں کے یہ ٹک ٹک ہے کیا تو جناب یہ ٹک ٹک آپ کے دل کی دھڑکن ہے۔وقت اور ہمارے وجود کی بات کرتے ہیں تو یہ گھڑی کی ٹک ٹک اور ہمارے دل کی دھک دھک ایک ساتھ چلتے ہیں۔ایک اندھیری غار میں لیٹا ہوا شخص بھی دنیا اور گھڑیوں سے چاہے جتنا ہی دور کیوں نہ ہو مگر وہ اپنی اس جسمانی گھڑی کے زیر اثر ہوتا ہے۔ہولی اینڈرسن سائمن فریزر یونیورسٹی، برٹش کولمبیا میں سائنس، فلسفے اور میٹا فیزکس کا مطالعہ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم وقت کا ٹریک کھو دیں گے تو اس سے ہمارے اپنے بارے میں تصور متاثر ہوگا۔‘ان کا ماننا ہے کہ ’اگر وقت کی سمجھ نہ ہو اور ہم وقت گزرنے کو محسوس نہ کریں تو ہم کچھ بھی محسوس نہیں کریں گے۔‘سوچیں کہ وقت گزرنے کی وجہ سے آج آپ کیا ہیں۔ آپ کی شخصیت وقت کے ساتھ تشکیل پاتی ہے۔آپ کی شخصیت یادوں کے مجموعے کے سوا کچھ نہیں۔

4۔ کوئی گھڑی 100 فیصد درست نہیں:

سائنسدان وقت کی پیمائش کرنے کیلئے بہت محنت کرتے ہیں۔ وہ گزرنے والے لمحات، منٹوں، گھنٹوں پر نظر رکھنے کیلئے جدید ترین ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔اگرچہ ان کی ایٹمی گھڑیاں بہت درست ہیں لیکن پھر بھی وہ وقت کی مکمل پیمائش کرنے کے قابل نہیں۔زمین پر کوئی بھی گھڑی صحیح طریقے سے وقت کی پیمائش نہیں کر سکتی۔ اب یہ طے کرنے کا عمل کہ یہ کون سا وقت ہے بہت سی گھڑیوں پر مشتمل ہے۔اسی طرح دنیا کے وقت کا حساب لگایا جاتا ہے۔قومی لیبارٹریاں پیرس (فرانس) میں بین الاقوامی ادارہ برائے وزن اور پیمائش کو اپنی ریڈنگ بھیجتی ہیں۔ وہاں ان ریڈنگز کی اوسط کا حساب لگایا جاتا ہے۔بس یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وقت ایک انسانی ایجاد ہے۔

5۔ وقت کا تجربہ صرف ہمارے ذہن میں ہے:

وقت کے بارے میں ہماری سوچ سمجھ یا تفہیم بہت سے عوامل سے تشکیل پاتی ہے، جیسے ہمارا شعور، ارتکاز، معنی، اور سمجھ کہ ہم موجود ہیں۔وقت کے بارے میں ہمارا ادراک ہمیں اپنی ذہنی حقیقت سے منسلک رکھتا ہے۔ہماری زندگی نہ صرف وقت کے ساتھ شروع ہوتی ہے بلکہ اس کے ساتھ جاری بھی رہتی ہے۔ ہم صرف وقت کے ذریعے زندگی کو محسوس کرتے ہیں اور لطف اندوز کرتے ہیں۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہماری زندگی پر ہمارا کچھ کنٹرول ہے۔مثال کے طور پر، اگر آپ نہیں چاہتے کہ آپ کی زندگی جلد بازی میں گزر جائے تو، ایک حل ہے اور وہ یہ کہ اپنی زندگی میں جدت کو جگہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اسی طرح، بعض اوقات معمول کی زندگی بہت تیزی سے گزرتی نظر آتی ہے۔اس کے مقابلے میں اگر آپ زندگی میں جدت کو برقرار رکھیں گے تو زندگی لمحہ بہ لمحہ پرسکون طریقے سے گزرنا شروع ہو جائے گی۔وقت گزرتا دکھائی نہیں دے گا۔

6۔ 22 ویں صدی کے شہری ہم میں موجود ہیں:

ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ آنے والی صدی اکثر ایک طویل دور لگ سکتی ہے۔اب بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو شاید 2099 کا نیا سال دیکھیں گے۔ 2023 میں پیدا ہونے والا بچہ اس وقت 70 سال کی عمر میں ہو گا۔ہم ماضی اور مستقبل سے اس سے کہیں زیادہ جڑے ہوئے ہیں جتنا ہم تصور کرتے ہیں۔ان کے رشتوں کی وجہ سے، ان کی آنے والی نسلوں کی وجہ سے۔

7۔ ہم سب وقت کے جمود کو محسوس کرسکتے ہیں:

وقت کی رفتار ہر ایک کیلئے ایک جیسی نہیں۔ جیسے ہی گاڑی سڑک پر رینگتی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے یہ صدیوں سے رینگ رہی ہے۔اگر ریت کو ہوا میں پھینکا جائے تو یہ ہوا میں کیسے رکتی ہے؟بعض اوقات ہمارا ماحول وقت کے بارے میں ہمارے تصور کو بھی متاثر کرتا ہے۔جب تناو¿ ہوتا ہے تو وقت تیزی سے گزرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس سے ہمیں زندگی اور موت کے فیصلے جلدی کرنے میں مدد ملتی ہے۔اسی طرح دماغی بیماریاں جیسے مرگی اور دورے بھی وقت کے بارے میں ہمارے تصور کو متاثر کرتے ہیں۔

8۔ گھڑی دن کی روشنی کے مطابق چلنا کیوں شروع ہوتی ہے؟

بہت سے ممالک میں، گرمیوں اور سردیوں میں گھڑیوں کو آگے پیچھے منتقل کیا جاتا ہے تاکہ دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔سب سے پہلے اگرچہ یہ پوری دنیا میں نہیں کیا جاتا ہے۔ایک برطانوی بلڈر ولیم ولیٹ نے امریکہ سمیت دنیا کے ایک چوتھائی حصے کو اس بارے میں بتایا۔ پہلی عالمی جگ دوران، برطانیہ نے دن کیلئے اپنی گھڑیاں قائم کیں۔اس وقت ایسا کوئلے کی قلت کی وجہ سے کیا گیا تھا۔سورج طلوع ہونے کے ساتھ گھڑیوں کو ہم آہنگ کرنے کا مطلب یہ تھا کہ رات کو روشن کرنے کیلئے کم بجلی کی ضرورت تھی۔یہ خیال اتنا مو¿ثر ثابت ہوا کہ برطانیہ نے اسے دوسری عالمی جنگ کے دوران اپنایا۔ برطانیہ نے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنی گھڑیاں عالمی اوسط وقت سے دو گھنٹے پہلے طے کیں۔اس سے صنعت میں بہت زیادہ توانائی بچائی جا سکتی ہے۔

9۔ کائنات کے خاتمے کے بعد کوئی ماضی، حال اور مستقبل باقی نہیں رہے گا؟

علامتی طور پر وقت کو تیر سمجھا جاتا ہے۔ وقت کا یہ تیر اس مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بگ بینگ سے باقی رہ گیا تھا۔کائنات کے آغاز میں کائنات میں بہت کم اینٹروپی تھی، اینٹروپی بے ترتیبی کی پیمائش ہے۔ تب سے یہ تجسس لگاتار بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ وقت کے تیر کو سمت دیتا ہے۔چونکہ تیر صرف ایک سمت (آگے) میں جاتا ہے اس لیے ایک انڈے کو توڑا جا سکتا ہے لیکن اسی انڈے کو اس انڈے کا پانی، زردی اور خول ملا کر نہیں بنایا جا سکتا۔کوئی نہیں جانتا کہ کائنات کے خاتمے کے بعد کیا ہو گا۔خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا (کائنات) کا خاتمہ شدید گرمی میں ہو گا۔

10۔ چاند کی کشش کی وجہ سے ہمارے دن لمبے ہوتے جارہے ہیں:

آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ہمارا چاند ہم سے انچ در انچ دور ہوتا جا رہا ہے۔ہر سال چاند اور زمین کے درمیان فاصلہ تقریباً 1.5 انچ (3.8 سینٹی میٹر) بڑھ رہا ہے۔ اس عمل میں ہمارے دن لمبے ہوتے جا رہے ہیں۔چاند زمین کے پانی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ چاند زمین کے پانی کو کھینچتا اور دھکیلتا ہے۔یہ کشش زمین اور پانی کے درمیان رگڑ پیدا کرتی ہے۔زمین پانی کے نیچے تیزی سے حرکت کرتی ہے۔ اس رگڑ کی وجہ سے زمین کی اپنے محور کے گرد رفتار کم ہو جاتی ہے جبکہ چاند رفتار پکڑ کر دور جا رہا ہوتا ہے۔چاند کی اس طاقت کی وجہ سے ہمارے دن 1.09 ملی سیکنڈ فی صدی لمبے ہو جاتے ہیں۔ کچھ دیگر تخمینوں کے مطابق یہ اضافہ 1.78 ملی سیکنڈ فی صدی سے کچھ زیادہ ہے۔لہٰذا اگرچہ یہ بہت بڑا نہیں لگتا لیکن اگر ہم زمین کی ساڑھے چار ارب سال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بہت زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح ہمارے دن لمبے ہو جاتے ہیں۔

11۔ بہت سے لوگ روایتی وقت میں نہیں رہتے، ان کیلئے یہ 2023 نہیں:

یہ دراصل نیپال کے بکرمی کیلنڈر کیلئے سال 2080 ہے۔ نیپال کا کیلنڈر باقی دنیا کے ٹائم زون سے 15 منٹ پیچھے چلتا ہے۔دنیا میں کم از کم چار کیلنڈر استعمال ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت سی جگہوں پر لوگ ایک سال میں ایک سے زیادہ سال گزارنے پر خوش ہیں۔برما میں یہ 1384 سال سے چل رہا ہے۔اسی طرح تھائی لینڈ میں یہ تعداد 2566 اور ایتھوپیا میں 2016 ہے جہاں سال 13 ماہ کا ہوتا ہے۔اسلامی کیلنڈر کے مطابق جولائی میں 1445 ہجری میں اضافہ ہوا۔ (بشکریہ: بی بی سی اردو) ( #ایس_اے_ساگر )




Monday 20 November 2023

روز قیامت کے گواہان

روز قیامت کے گواہان
 قیامت کے دن ہر انسان کے گناہوں پر آٹھ گواہ پیش ہوں گے 
                      پہلا گواہ
جس جگہ بندے نے گناہ کیا ہو گا وہ جگہ وہ زمین کا ٹکڑا قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گا
                 ( سورۃ الزلزال آیت نمبر 5،6 )
                        دوسرا گواہ
وہ دن بھی گواہی دے گا جس دن بندے نے گناہ کیا ہو گا
              ( سورۃالبروج آیت نمبر 3 )
                 تیسرا گواہ
قیامت کے دن بندے کی زبان گواہی دے گی
( سورۃ النور آیت نمبر 24 )
                  چوتھا گواہ
انسان کے جسم کے باقی اعضاء ہاتھ پاؤں یہ بھی گواہی دیں گے
               (سورۃ یٰسین آیت نمبر 25)
                 پانچواں گواہ
دو فرشتے جو تم پر نگران مقرر ہیں جو معزز ہیں لکھنے والے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں
( سورۃ الانفطار آیت نمبر12 )
                   چھٹا گواہ
وہ نامہ اعمال جو فرشتے لکھ رہے ہیں تو زبان بھی گواہی دے گی اور نامہ اعمال بھی دکھائے جائیں گے
              ( سورۃ الکہف :آیت نمبر 49 )
                    ساتواں گواہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گواہ ہوں گے اللّه رب العزت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی گواہی مانگیں گے
( سورۃ النساء آیت نمبر 41 )
                  آٹھواں گواہ
اللّه رب العزت قرآن میں فرماتے ہیں جو تم گناہ کرتے ہو ہم قیامت کے دن اس پر گواہ ہوں گے
              ( سورۃ یونس آیت نمبر 61 )
ہمارے گناہوں پر اللّه خود گواہ ہوگا
اللّه  ... اللّه  ... کیا عالم ہوگا 
یا اللّه ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطافرما
ایسی توبہ نصیب فرما جس کے بعد کوئی گناہ نہ ہو!

On the Day of Resurrection, there will be eight witnesses for our sins


Monday 13 November 2023

روز قیامت نبیوں کا نفسی نفسی کہنا؟

روز قیامت نبیوں کا نفسی نفسی کہنا؟
-------------------------------
--------------------------------
قیامت کا دن اس قدر دہشت ووحشت کا ہوگا کہ بچے بوڑھے ہوجائیں: 
يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا (المزمل 17)
تمثیلی پیرائے میں کہا جائے تو اگر کوئی حاملہ ہو تو شدت گھبراہٹ سے حمل ساقط کردے اور اگر کوئی دودھ پلانے والی ہو تو شدت ہول وخوف سے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے:
وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا (الحج 2)
لوگوں کے دل کانپ رہے ہونگے:
قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَاجِفَةٌ (النازعات 8)
آنکھیں خوف زدہ ہونگی: 
(أَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ[ النازعات: 9)
لوگ گھٹنوں کے بل گرے ہونگے:
وَتَرَىٰ كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً (الجاثية 28)
لوگوں کو لب ہلانے کی بھی اجازت نہ ہوگی :
هَٰذَا يَوْمُ لَا يَنطِقُونَ (المرسلات - 35)
انتہائی مشکل ترین دن ہوگا: 
فَذَٰلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ (9 المدثر)
کوئی جاے پناہ نہ ہوگی:
مَا لَكُم مِّن مَّلْجَإٍ (الشورى 47)
پریشانی شدید تر ہو جائےگی، لوگ پسینے سے بہہ جائیں گے۔ ایسی عمومی پریشانی ، گھبراہٹ اور دہشت ووحشت کے لمحات میں انسان حساب کتاب اور غضب وجلال خداوندی میں آسانی اور ازالہ گھبراہٹ کے لئے اولو العزم انبیاء ورسل سے شفاعت کی گہار لگاتے پھریں گے. اس روز ہر انسان اپنی ذات کے بارے جھگڑتا ہوا آئے گا، ہر ایک “نفسی نفسی”  کہتا ہوگا اور سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی: 
يَوْمَ تَأْتِى كُلُّ نَفْسٍۢ تُجَٰدِلُ عَن نَّفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍۢ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
(النحل - 111)
جھگڑے سے مراد یہ ہے کہ ہر ایک اپنے دنیوی عملوں کے بارے میں  عذر بیان کرے گا. حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کی تفسیر میں  فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگوں  میں  جھگڑا یہاں  تک بڑھے گا کہ روح اور جسم میں بھی جھگڑا ہوگا، روح کہے گی: یارب! (جسم میں داخل ہونے سے پہلے) نہ میرے ہاتھ تھے کہ میں ان سے کسی کو پکڑتی، نہ پاؤں  تھے کہ ان کے ذریعے چلتی، نہ آنکھ تھی کہ اس سے دیکھتی (گویا میں قصور وار نہیں؛ بلکہ جسم ہی قصور وار ہے) جسم کہے گا: یارب! تو نے مجھے لکڑی کی طرح پیدا کیا، نہ میرا ہاتھ پکڑسکتا تھا ، نہ پاؤں  چل سکتا تھا،نہ آنکھ دیکھ سکتی تھی، جب یہ روح نوری شعاع کی طرح آئی تو اس سے میری زبان بولنے لگی، آنکھ بینا ہوگئی اور پاؤں  چلنے لگے، (جو کچھ کیا اُس نے کیا ہے) ۔ اللّٰہ تعالیٰ ایک مثال بیان فرمائے گا کہ ایک اندھا اور ایک لنگڑا دونوں  ایک باغ میں  گئے، اندھے کو توپھل نظر نہیں  آتے تھے اور لنگڑے کا ہاتھ ان تک نہیں  پہنچتا تھا تواندھے نے لنگڑے کو اپنے اوپر سوار کرلیا اس طرح انہوں  نے پھل توڑے تو سزا کے وہ دونوں مستحق ہوئے (اس لئے روح اور جسم دونوں  ملز م ہیں )اور تم دونوں کو عذاب ہوگا۔ تفسیر قرطبی میں ہے:
قوله تعالى يوم تأتي كل نفس تجادل عن نفسها وتوفى كل نفس ما عملت وهم لا يظلمون قوله تعالى : يوم تأتي كل نفس تجادل عن نفسها أي تخاصم وتحاج عن نفسها ; جاء في الخبر أن كل أحد يقول يوم القيامة : نفسي نفسي ! من شدة هول يوم القيامة سوى محمد - صلى الله عليه وسلم - فإنه يسأل في أمته . وفي حديث عمر أنه قال لكعب الأحبار : يا كعب ، خوفنا هيجنا حدثنا نبهنا . فقال له كعب : يا أمير المؤمنين ، والذي نفسي بيده لو وافيت يوم القيامة بمثل عمل سبعين نبيا لأتت عليك تارات لا يهمك إلا نفسك ، وإن لجهنم زفرة لا يبقى ملك مقرب ولا نبي منتخب إلا وقع جاثيا على ركبتيه ، حتى إن إبراهيم الخليل ليدلي بالخلة فيقول : يا رب ، أنا خليلك إبراهيم ، لا أسألك اليوم إلا نفسي ! قال : يا كعب ، أين تجد ذلك في كتاب الله ؟ قال : قوله - تعالى - : يوم تأتي كل نفس تجادل عن نفسها وتوفى كل نفس ما عملت وهم لا يظلمون . وقال ابن عباس في هذه الآية : ما تزال الخصومة بالناس يوم القيامة حتى تخاصم الروح الجسد ; فتقول الروح : رب ، الروح منك أنت خلقته، لم تكن لي يد أبطش بها ، ولا رجل أمشي بها ، ولا عين أبصر بها ، ولا أذن أسمع بها ولا عقل أعقل به ، حتى جئت فدخلت في هذا الجسد ، فضعف عليه أنواع العذاب ونجني; فيقول الجسد : رب ، أنت خلقتني بيدك فكنت كالخشبة ، ليس لي يد أبطش بها ، ولا قدم أسعى به، ولا بصر أبصر به، ولا سمع أسمع به، فجاء هذا كشعاع النور ، فبه نطق لساني ، وبه أبصرت عيني ، وبه مشت رجلي ، وبه سمعت أذني، فضعف عليه أنواع العذاب ونجني منه . قال: فيضرب الله لهما مثلا أعمى ومقعدا دخلا بستانا فيه ثمار، فالأعمى لا يبصر الثمرة والمقعد لا ينالها ، فنادى المقعد الأعمى ايتني فاحملني آكل وأطعمك ، فدنا منه فحمله ، فأصابوا من الثمرة ; فعلى من يكون العذاب ؟ قال : عليكما جميعا العذاب ; ذكره الثعلبي. (التفسیر القرطبی النحل - 111) 
میدان محشر میں حساب کتاب شروع ہونے سے قبل زبان حال یا مقال سے ہرفردِ بشر بجز محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اپنی فکر میں “ نفسی نفسی “ کہتا پھرے گا 
کوئی دوست کسی دوست کو نہیں پوچھے گا. نفسی نفسی زبان حال یا مقال سے سیدالانبیاء کے علاوہ ہر فرد بشر(بہ شمول انبیاء) کا دہرایا جانے والا عام مقولہ ہوگا 
یہ مقولہ بصراحت صحیحین  چند اولوالعزم انبیاء کی زبانی موجود ہے (البخاري (4712)، ومسلم (194) 
آیت مبارکہ (كل نفس تجادل عن نفسها) کا عموم بتاتا ہے کہ اپنے نفس کے اعمال کی جوابدہی اور دفاع کی فکر ہر کسی کو دامن گیر ہوگی، جن انبیاء کے پاس لوگ شفاعت کی غرض سے جائیں گے وہ بھی اپنے بعض اعمال کے ظاہری شکل وصورت کے لحاظ سے جوابدہی کی فکر میں ہونگے اور اس باعث شفاعت سے معذوری ظاہر فرمائیں گے. اور سید الانبیاء کی طرف  محول فرمادیں گے۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ جیسے جلیل القدر نبی، جن کی حنیفیت،  امامت اور صالحیت کے  بارے قرآن کریم ناطق ہے: 
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (120)
{وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنِ الصَّالِحِينَ} [العنكبوت: ٢٧]
جب وہ  "نفسی نفسی" فرمارہے ہیں جیساکہ صحیحین کی روایت میں موجود ہے  تو باقی انبیاء کا کیا پوچھنا؟ حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وَفِي الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ-فِي أَمْرِ الشَّفَاعَةِ-: أَنَّهُ إِذَا طُلِبَ إِلَى كُلٍّ مِنْ أُولِي الْعَزْمِ أَنْ يَشْفَعَ عِنْدَ اللَّهِ فِي الْخَلَائِقِ، يَقُولُ: نَفْسِي نَفْسِي، لَا أَسْأَلُهُ اليومَ إِلَّا نَفْسِي، حَتَّى إِنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ يَقُولُ: لَا أَسْأَلُهُ الْيَوْمَ إِلَّا نَفْسِي، لَا أَسْأَلُهُ مَرْيَمَ الَّتِي وَلَدَتْنِي. وَلِهَذَا قَالَ تَعَالَى: (يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ * وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ * وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ)
(تفسير ابن كثير تحت آية (يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ * وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ * وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ)
پھر اس ذیل میں خوب واضح انبیاء کرام کا نفسی نفسی کا کہنا عام امتیوں کی طرح ان کی گھبراہٹ کو مستلزم نہیں ہے ؛ بلکہ بموجب آیات کریمہ: 
وَلا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً  يُبَصَّرُونَهُمْ} [المعارج: ١٠، ١١] “ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ (عبس37)
“يَوْمَ تَأْتِى كُلُّ نَفْسٍۢ تُجَٰدِلُ عَن نَّفْسِهَا” ( النحل ۱۱۱)
ہر کسی کو اپنے اعمالِ نفس کی جوابدہی کی فکر ہوگی. سوائے محمد عربی کے کوئی نبی اپنی ذاتی شرافت یا علو مقام کے باوجود اپنے گرد وپیش نظر آنے والے یا بہرِ شفاعت پہنچے کسی عزیز، رشتہ دار یا امتی کو اس روز کی دہشت وخطر ناکی سے بچانے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے. اس خصوصی شفاعت کبری کے تاجدار اس روز صرف ہمارے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم ہونگے. 
(يغبطه فيه الأولون والآخرون) 
روز قیامت کی ہولناکیوں کے مد نظر اعمال نفس کے دفاع وجوابدہی کی فکر کوئی معیوب شئی نہیں ہے۔ آیات واحادیث شفاعت سے اس کا عموم ثابت ہوتا ہے ۔اسی فکرِ جوابدہی کا تکرار، زبان مقال یا زبان حال سے روز محشر “ نفسی نفسی “ کے پیرائے میں عام ہوگا۔ عام امتی کی گھبراہٹ کی نوعیت الگ ہوگی، انبیاء کرام کے مقولے کا مفہوم مختلف ہوگا۔ مفہوم کے فرق کے ساتھ یہ مقولہ عام ہے، احادیث میں جن انبیاء کا ذکر آیا ہے انہی کے ساتھ خاص نہیں ہے. عموم آیات کریمہ سے اس مقولے کی تعمیم کی گنجائش ہے۔ جب یہ صحیح احادیث ومتعدد آیات کریمہ سے اشارۃً ثابت ہے تو پھر یہ شان انبیاء کے منافی بھی نہیں ہوسکتا اور اوپر بیان کردہ معنی ومفہوم کے پس منظر میں تنقیص آمیز بھی نہیں ہے. احادیث سے ماثور ومنقول صیغوں میں اپنی طرف سے حذف وزیادتی کرنا اور پھر اسے کلام رسول کی حیثت سے بیان کرنا  غلط ہے، یہاں بھی غلط ہوگا۔ حدیث کا نام وعنوان دیئے بغیر تشریح وتوضیح کی حیثیت سے اگر کوئی عربی زبان میں ہر نبی کی طرف اس مقولے کی نسبت اگر کررہا ہے تو اس میں (بندہ کے خیال ناقص میں) شرعی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس ذیل میں یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اپنے اعمال کی جوابدہی کی یہ فکر عمومی حساب کتاب شروع ہونے سے قبل کی ہے. حساب کتاب ہوجانے اور جنت وجہنم کے فیصلے ہوجانے کے بعد جنتی کو اب ہول وخوف نہیں ہوگا، فرشتے باب جنت پہ استقبال  کے لئے  فرش راہ ہونگے:
لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ[ سورة الأنبياء: 103]
علامہ بغوی معالم التنزیل میں لکھتے ہیں:
 (لا يحزنهم الفزع الأكبر) قال ابن عباس: الفزع الأكبر النفخة الأخيرة بدليل قوله عز وجل (ويوم ينفخ في الصور ففزع من في السماوات ومن في الأرض) (النمل 87)، قال الحسن: حين يؤمر بالعبد إلى النار قال ابن جريج: حين يذبح الموت وينادى يا أهل الجنة خلود فلا موت ويا أهل النار خلود فلا موت وقال سعيد بن جبير والضحاك : هو أن تطبق عليهم جهنم وذلك بعد أن يخرج الله منها من يريد أن يخرجه. 
تفسیر جلالین میں بھی اس کا محل یہی بتایا گیا ہے:
(لا يحزنهم الفزع الأكبر) وهو أن يؤمر بالعبد إلى النار
جنت کی نعمتوں کو دیکھ کر جنتیوں کے چہرے ہنستے کھلتے اور ہشاش بشاش ودرخشندہ ہونگے جبکہ جہنمیوں کے چہرے غبار آلود اور کالک میلے ہوئے ہونگے، اس نوع کی دیگر کیفیات کا بیان جنت وجہنم کے فیصلے ہوچکنے کے بعد کا ہے ؛ جبکہ عمومی ہول ودہشت آغاز حساب کتاب سے پہلے کا ہے. فلامنافاة!   
علماء کرام کو زبانی کلامی درسی بیانات پہ انحصار کی بجائے اصول فقہ میں بیان کردہ استنباط واستخراجِ احکام کے مصادر ومراجع  سے استفادے کی کوشش پہ زیادہ توجہ مرکوز رکھنی  چاہیے ۔ تضییق وتحجیر اور تمییع وتوسعِ بے جا کے درمیان اعتدال وتوازن کے ساتھ غور وتدبر اور اخذ واستنباط کی ضرورت ہے. 
فقط واللہ اعلم
مرکز البحوث الإسلامية العالمي
(پیر 28؍ ربیع الثانی 1445 ھ13؍نومبر 2023ء)

Friday 10 November 2023

اذان کے کلمات میں کتنا مد کیا جائے؟

اذان کے کلمات میں کتنا مد کیا جائے؟
سوال:مکرم ومحترم حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب زیدمجدہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج فجرکی اذان کی آواز پر تحقیق کرنے پر ظاہر ہوا کہ دارالعلوم کی مسجد کی اذان ہے، اور اس طرح ہوئی ہے متعدد کلمات میں مد زیادہ مسموع ہوا، نیز بعض کلمات میں تمطیط بھی ظاہر ہوئی، اس سلسلہ میں اپنی معلومات کی بناء پر ایسی اغلاط کی اصلاح کی سعی کرتا رہتا ہے۔ براہ کرم آپ بھی اپنی تحقیق سے مطلع فرماکر ممنون فرماویں۔
ومن ثم تاکد علی الموذنین ان یحترز وامن اغلاط یقعون فیہا فان بعضہا کفر وبعضہا لحن خفی کترک ادغام دال محمد فی راء رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم- ومدّ الف اﷲ والصلوٰۃ والفلاح الخ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ،ج:۱، باب اذان(ای المدّالطبعی) مقدار الف وصلاً ووقفاً ونقصہ عن الف حرام شرعاً فیعاقب علی فعلہ ویثاب علی ترکہ۔ فما یفعلہ بعض ائمۃ المساجد واکثر الموذنین من الزیادۃ فی المدالطبعی علی حدّہ العرفی ای عرف القرّاء۔ فمن اقبح البدع واشد الکراہۃ۔ وقد یقتدی بہم بعض الجہلۃ من القرّاء۔ بنات القول المفید فی علم التجوید
۔المستفتی: ابرارالحق
(حضرت مولانا ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم خلیفہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ)
-------
جواب: محترمی المحترم دامت برکاتہم وعمت وتمت بالخیر والعافیۃ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جناب والا تو احقر کے نزدیک مستند ہیں اور آپ کی سب باتیں سند کے درجہ میں سمجھتا ہوں، پس جتنی باتیں آنجناب نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ سے نقل فرمائی ہیں وہ سب بھی صحیح ہیں، جناب کا اتنا فرمادینا بھی کافی تھا کہ مؤذنین کی غلطیوں کی اصلاح کرو اوراس طرح کرو اور بس مگر جناب نے فرمادیا کہ اپنی تحقیق سے مطلع کرو، اس کی تفصیلات تتمیماللفائدۃ چند روایات جو اذان سے متعلق ہیں پہلے نقل کردی جاتی ہیں، مثلاً۔
(۱) ابوداؤد شریف باب کیف الاذان یرفع، کہ صاحب رؤیا عبداللہ بن زید کو خود اذان دینے کا حکم دینے کے بجائے حضرت عبداللہ بن زید کو حکم فرمایا کہ قم مع بلال فالق علیہ ما رأیت فلیؤذن بہ فانّہ اندیٰ صوتامنک فقمت ُ مع بلال الخ۔ اسی حدیث پاک کے اندر اشارہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر شارح مشکوٰۃ صاحبؒ اشعۃ اللمعات باب کیف الاذان میں اندیٰ صوتامنک کا ترجمہ اس طر ح فرماتے ہیں زیر اکہ بدرستی تیز تروبلند تروشیریں تر است۔
(۲) عن ابی ہریرۃ ص قال قال رسول اﷲ ﷺ المؤذن یغفرلہ مدی صوتہ ویشہدلہ کل رطب ویابس وشاہد الصلوٰۃ، مشکوۃ شریف ۔ قال فی التعلیق ،ج:۱۔ مدی الصوت غایۃ الصوت۔ المعنی انہ یتکمل مغفرۃ اﷲ تعالیٰ اذا استوفی وسعۃ فی رفع الصوت۔
(۳) اسی کی تشریح البحرالرائق ج:۱،ص:۲۷۹ میں اس باب میں ہے وان کان فی الصحراء اویرفع (الصوت) للترغیب الوارد فی الحدیث فی رفع صوت المؤذن لا یسمع مدی صوت المؤذن انس ولاجن ولاملک الا شہدلہ یوم القیمۃ۔
۴) زیر تشریح اسی حدیث پاک: عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اذا نودی للصلوۃ ادبر الشیطان لہ ضراط حتی لا یسمع التاذین الخ۔ عن الشیخین۔ (مشکوٰۃ شریف ،ص: ۶۴)
(۵) عن قـتـــادۃ قال سئل انس کیف کانت قراء ۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، فقال کانت مدًا مدًا ثم قرأ بسم اﷲ الرحمن الرحیم بمد بسم اﷲ وبمد الرحمن و بمد الرحیم، رواہ البخاری۔ (مشکوٰۃ شریف: ص: ۱۹۰)
وتحت قول بمد بسم اﷲ کانت مداً ای ذات مد والمراد منہ تطویل النفس فی حروف المدواللین عند الفصول والغایات وفی غیر ذلک مما یحسن المدلفظہٗ (التعلیق الصبیح، ج: ۳، ص: ۲۹)
اس روایت سے ایک خاص بات یہ معلوم ہوئی کہ تلاوت کرنا سراً بھی بلاکراہت جائز ہے لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہراً قرأت فرماتے تو بکثرت مد فرماتے حتی کہ بسم اللہ کو بھی مد کے ساتھ قرأت فرماتے اور الرحمن کو بھی مد کے ساتھ قرأت فرماتے اور رحیم کو بھی مد کے ساتھ قرأت فرماتے، اور شراح مدت رحیم کے مد کی تشریح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ای (کانت) ذات مدوالمراد منہ تطویل النفس فی حروف المد واللین عند الفصول والغایات وغیرذلک ممایحسن المدلفظہ (التعلیق الصبیح ، ج: ۳، ص: ۲۹)
یہیں سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ تلاوت ہمیشہ جہراً ہونا لازم نہ ہونے کے باوجود جب جہراً تلاوت کا موقع آیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مداً مداً تلاوت فرماتے تھے۔ کما مرّ فی روایۃ البخاری ومسلم اور اسی طرح بسم اللہ میں بھی مد فرماتے رحمن میں بھی مدد فرماتے رحیم میں بھی مد فرماتے،نیز موقع بموقعہ ہر جگہ مد فرماتے اور یہ مد کرنا اگر چہ فن تجوید کے اعتبار سے مد اصطلاحی نہیں ہوتا تھا بلکہ تحسین صوت کے لئے تطویل نفس اس طرح ہوتا تھا کہ سننے والے اس کو مد سمجھتے تھے، پس تلاوت جس میں جہر ہر حال میں لازم نہیں مگر جب جہر فرماتے تو تحسین صوت کے لئے بشکل تطویل نفس مد فرماتے خواہ لغوی ہی ہو تو اذان صلوٰۃ میں مدیٰ صوتہ وغیرہ روایات کے مطابق مؤذن کا اپنی پوری طاقت وقوت کے ساتھ جہر کرنا شرعاً مطلوب ہے، اس لئے اس جہر میں تحسین صوت کے لئے حدود شرع میں رہتے ہوئے مد کرنا شرعاً مطلوب ہوگا، انہی وجوہ سے فقہ ائمہ اربعہ ج، ۱، ص: ۳۲۱ میں بیان مندوبات الاذان وسننہ میں حنفیہ کا قول بایں الفاظ منقول ہے۔ قالت الحنفیۃ التغنی فی الاذان حسن الاذادیٰ الی تغیر الکلمات بزیادۃ حرکۃ اوحرف فانہ یحرم مافعلہ لا یحل سماعہ اور یہیں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرقاۃ شرح مشکوۃ باب الاذان وغیرہ سے جو عبارتیں نقل کی گئی ہیں وہ سب واجب اللحاظ والعمل ہیں اور ان سب روایات وعبارت ودلائل کا حاصل یہ نکلا کہ اذان کے کسی کلمہ میں کسی حرکت یا حرف کی زیادتی وکمی کے بغیر اور آواز بگاڑنے کے بغیر مدی صوتہ وغیرہ دلائل کے پیش نظر اپنی بلند سے بلندآواز سے اسی طرح اذان دیجائے کہ اس میں گانے کی آواز بن جانے کا کوئی شائبہ نہ آوے ہاں اگر تحسین صوت کے لیے تطویل نفس (سانس کھینچنا) کرنے سے مدلغوی کی صورت پیدا ہوجائے تو اس میںمضائقہ نہ ہوگا جیسا کہ عبارت سے ظاہر ہے بشرطیکہ اہل تجوید اور مجودین کے اصول کے خلاف اور ان کا اصطلاحی مد نہ ہوجائے۔
اس تمہید کے بعد اب احقر اپنے عامیانہ اور سادے الفا ظ میں بعض ان خرابیوں کی نشاندہی کرتاہے جو بعض موذنین میں پائی جاتی ہیں مثلاً لفظاًاشہد کو اشدوا پڑھ رہے ہیں ان میں لحن جلی ہوجاتا ہے جو ناجائز اور حرام ہے، اسی طرح لاالٰہ میں لا کو اتنا کھینچ دیتے ہیں جو الٰہ سے کٹ کر الگ ہوجاتاہے یہ فعل تقطیع کہلاتا ہے جو حرام و ناجائز ہے۔ ماناکہ لاالٰہ میں لام کے اندر مدطویل اصلی ہے مگر اس کو اہل تجوید کے مد اصلی سے زائد نہ ہونا چاہئے ورنہ تقطیع مذکور ہوکر ممنوع وحرام ہوجائے گا۔
اسی طرح لفظ اللہ کے الف کو صلاۃ وفلاح کے الف کو اس طرح اتار و چڑھاؤ سے ادا کرتے ہیں کہ تطریب اور ارتعاش پیدا ہوکر بسا اوقات تقطیع بھی پیدا ہوکر ہمزہ کی زیادتی بھی معلوم ہوجاتی ہے اور آواز الف میں اَئَ اَئَ کی آواز پیدا ہوکر لحن جلی بھی پیدا ہوکر ممنوع وحرام وناجائز ہوجاتا ہے۔اسی طرح کی اور جو بعض خرابیاں بعض مؤذنین میں پیدا ہوجاتی ہیں جیسا کہ مرقاۃ شریف مشکوۃ شریف کی شرح میں مذکور ہے ان سب سے بھی احتراز واجب ہے،چوں کہ استفتاء میں بعض ائمہ مساجد کی تلاوت فی الصلوٰۃ کی کوتاہیوں اور ان کی اصلاح کی جانب بھی اشارہ ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کی موٹی موٹی بعض کوتاہیوں کو بتلاکر اصلاح کی جانب ان کی توجہ مبذول کروادی جائے، بعض اچھے خاصے قاری مگر نماز میںاس طرح قرأت فرماتے ہیں کہ ان کی قرأت منھ کے اندر ہی رہ جاتی ہے پتہ نہیں چلتا ہے کہ کیا پڑھ رہے ہیں، پس اگر بھاری آواز ہے تو بسا اوقات غل بل غل بل پر کر اونٹ کی آواز کے مثل آواز ہوجاتی ہے،اور اگر باریک آواز ہے تو کبوتر وقمری کی آواز کی طرح ہوجاتی ہے۔ حالاں کہ یہ آیت کریمہ ورتل القرآن کا مفہوم یہ ہے کہ ہر لفظ اپنے صحیح مخرج سے اس طرح نکلے کہ ہرکلمہ متبین ومتمیّز ہوکر الگ الگ موتی کی طرح بکھرے ہوئے اور صاف مسموع ہوں کہ سننے والے کا ذہن ان کے مفاہیم کی جانب متوجہ ہوسکے جیسا کہ مفسرین نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرمایا ہے اسی طرح بعض حضرات صاف تو پڑھتے ہیں مگر طریقہ پڑھنے کاغلط ہوتا ہے مثلاً الحمد ایک الگ کلمہ ہے اس کو الگ متبین ومتمیّز ہونا چاہیے اور ﷲ الگ کلمہ ہے، اس کو الگ متبین ومتمیّز ہونا چاہیے اور رب العالمین الگ کلمہ ہے اس کو الگ متبین ومتمیّز ہونا چاہیے، مگر پڑھنے میں الحم کی میم پر اس طرح زور دیتے ہیں کہ اس کی د،کٹ کر الگ اور للہ کے ساتھ مل کر دُللّٰہ کی آوازبن جاتی ہے،اسی طرح للہ ایک الگ کلمہ ہے مگر للہ میں لام کو اتنا زور دیتے ہیں کہ وہ کٹ کر رب العالمین کے ب کے ساتھ مل جاتی ہے اور متصل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اتنا زور دیتے ہیں کہ وہ کٹ کر رب العالمین اک الگ کلمہ ہے اس کوصرفی ونحوی قواعد کے ساتھ رعایت کے ساتھ ہونا چاہیے، مگر تلفظ بگڑ کر ترتیل الحم الگ اور للہ الگ اور ھِ رب العالمین رب الگ ہوکر غتربود ہوجاتا ہے۔ العالمین معرف باللام ہے یہ اس لئے صرفی ونحوی ضابطہ کے مطابق ب العالمین سے مل گئی اور لغوی وصرفی ضابطہ معانی کے مطابق پڑھنے کی وجہ سے غلطی شمار نہ ہوگا، پھر ایاک کا ف فتحہ کے ساتھ ایک الگ اور مستقل لفظ ہے محض ایا کوئی لفظ نہیں ہے مگر اس کے پڑھنے میںایّاکو اتنا زوردیتے ہیں کہ کاف کا فتحہ رواں نہیں رہا بلکہ ک نستعین کے ساتھ ملحق ہوکر معنی میں بگاڑ پیدا ہوجائے،اسی طرح مغضوب علیہم میں ضؔ ہے ض ؔکو د ؔ سے بدل کر صاف مغدوب علیہم پڑھ دیتے ہیں اس غلطی سے یہ کلمہ سہل ہوجاتا ہے اور قرآنی لفظ نہیں رہتا ہے، اسی طرح ولاالضالین ضؔ سے ہے مگر ضؔ کو دؔ سے بدل کر صاف ولاالدالین پڑھ دیتے ہیں جس سے معنی کفری پیدا ہوجاتے ہیں اس لئے کہ ولاالضالین کے معنی ہیں ہم کو گمراہوں کا راستہ نہ دکھا اور ولا الدالین کے معنی ہیں راہبروں اور راہنمائوں کا راستہ نہ دیکھائے۔
پھر اس سوال کاجواب پھر نماز کے فاسد ہوجانے کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا، یہ جواب کتب فقہ میں دیکھئے، یہ بحث خارج ازموضوع ہے، یہاں تو صرف دکھانا مقصود ہے کہ فن تجوید سے کیا کیا غلطیاں اور کس درجہ کی سرزد ہوتی ہیں۔
چنانچہ عربی زبان میں ضؔ، ظؔ، ذؔ، زؔ، ہر ایک الفاظ میں اور ان سب کے صفات لازمہ الگ الگ ہیں اور صفات لازمہ ہی سے آواز پیدا اور متمیّز ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ض کے اندر پانچ صفات لازمہ ہیں،ان میں سے تین صفات لازمہ وہی ہیں جو ظ کے صفات لازمہ ہیں،لہٰذا ،ض،ذ،ظ، کی آواز میں توکچھ مشابہت ہوسکتی ہے نہ کہ ذزد کی آواز کے ساتھ اس لئے ان کے صفات لازمہ میں سے بعض حروف میں کوئی مشابہت نہیں ہے جو انہیں میں اس کے مشارکۃ فی الذات کا اور بعض میں دیگر مشارکۃ ہے تو حروف دوایک وصف میں سے ہے کہ یہ مشارکۃ صفات لازمہ کی د، کے ساتھ نہ ہونے کے باوجود ،ض، کو د، کے آوازکیوں اور کہاں سے پڑھا جائے گا۔ اگر کہا جائے کہ عرب کے لوگ آج کل اسی طرح پڑھتے ہیں تو یہ کوئی شرعی وجہ نہیں، اس لئے کہ بہت سے عرب آج کل ق، کو گ، پڑھتے ہیں اور بہت حائِ حطی خاء ثخذ پڑھتے ہیں وغیرہ، بلکہ احقر کے تجربہ ومشاہدہ میں تو یہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں جہاں لفظ ،ض، ہے اگر اس کو لفظ د ،سے پڑھا جائے تو پھر یا تو معنی کفری پیدا ہوجائیں گے جیسے ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ میں فتردی پڑھنے میں کفری معنی پیدا ہوجاتے ہیں، اور ایسا ہی حال اور بھی بہت سی آیات میں ہوتاہے اوربعض آیات میں معنی فاسد ہوجاتے ہیں۔ جیسے اقرضوا ﷲ قرضاً حسنا الآیۃ میں ض کو بدل کر د پڑھ دیں گے تو اقردواللہ قرداً حسنا ہوجائیں گے اور معنی یہاں متغیر ہوجائیں گے پس قیاس کن زگلستان من بہار مرا۔
حدر پڑھانے والے قاری حضرات کو اس طرف خاص توجہ رکھنا اور توجہ دلانا لازم ہے۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔
کتبہ العبد نظام الدین الاعظمی عفی عنہ
مفتی u، ۱۲؍۱۲؍۱۴۱۳ھ
--------
حضرت محی السنہ رحمۃ اللہ علیہ کی اس تحریک پر علماء نے بڑا ظلم کیا ہے۔
حضرت مد تعظیمی کے اصرار کے درجہ میں خلاف تھے ،اور علماء اس میں گنجائش کا حوالہ دیتے ہیں۔
مگر اور جگہوں پر کوئی گنجائش نہ ہوکر بھی ان پر توجہ نہیں۔
بعض اغلاط تو جہلاء کی ہیں،  تصحیف ، تحریف  وغیرہ
مگر علماء و پڑھا لکھا طبقہ بھی اپنے حلقے کی خامیوں اور بڑی خامیوں پر توجہ نہیں کرتا ، جیسے اسی فتوی میں مذکور تطریب، تقطیع، وغیرہ ۔
 نہایت جامع و مدلل فتوی ہے۔