Monday, 23 July 2018

بریلویوں کے اختر رضا خان کی وفات اور علماء اہلسنت کے تاثرات

بریلویوں کے اختر رضا خان کی وفات اور علماء اہلسنت کے تاثرات
بروز جمعہ بریلویوں کے سرخیل احمد رضا خان مرحوم کے پڑپوتے اختر رضا خان کی وفات ہوئی اور حسب معمول اور بطریق مکتبہؑ فکر بریلویہ بدعات و خرافات کا شور غوغہ ہوا اور سنت کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ خان صاحب کے جنازے کی جو تصاویر موصول ہوئیں اس اعتبار سے خان صاحب کا جنازہ حسب عادت بریلویہ بدعات و خرافات کا میلہ ہی ثابت ہوا۔ خیر ہمیں اس سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے، جس مکتبہؑ فکر کا مذہب اور طریقہؑ کار ہی بدعات ہو اور جس مذہب کی بنیادیں بدعات پر رکھی ہوئی ہوں وہاں سنت رسول علیہ السلام کا کیا کام؟ بریلویت تو ہے ہی سنت کی ضد!
حجۃ اللہ فی الارض شیخ الاسلام والمسلمین امام محمد قاسم النانوتوی علیہ الرحمہ اور فقیہ النفس امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی علیہ الرحمہ و بعد کے علمائے اہلسنت کے مسلک اعتدال کی اتباع کرتے ہوئے اور اکابرین اہل حق علمائے اہلسنت کے متبعینن اور جانشینوں کی حیثیت سے علمائے دیوبند نے خان صاحب کی وفات پر نہ صرف اظہار افسوس کیا بلکہ انکے لیے دعائے مغفرت بھی کی، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی طریقہ علمائے دیوبند کا رہا ہے۔ یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ بڑے خان صاحب (احمد رضا) کی وفات پر مجدد ملت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ العزیز نے دعائے مغفرت فرمائی تھی۔ یہ ہمارے اکابرین کا حسن اخلاق کا نمونہ ہے جو عین سنت کے مطابق ہے۔ امام الانبیاء والمرسلین علیہ السلام نے اپنے اخلاق کریمانہ کا اظہار فرماتے ہوئے اور ابر رحمت برساتے ہوئے راؑس المنافقین عبداللہ ابن ابی کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔ یقینا اہلسنت کے علماء اخلاق نبوی کے وارث ہیں اس لیے اسوہؑ نبوی پر عمل پیرا نہ ہونا ان کے لیے محال ہے۔
تعزیت کرنے اور دعائے مغفرت کرنے تک کی بات تو درست ہے، لیکن خان صاحب کی وفات ملت اسلامیہ کا ناقابل تلافی نقصان ہے اور خان صاحب نے ایک بڑا علمی سرمایہ چھوڑا ہے، یہ بات ہمارے اکابرین اور علماء کے منھ سے اور قلم سے صادر ہو تو یہ مسلک اعتدال کے خلاف ہے۔ میں یہ سمجھنے میں قاصر ہوں کہ آخر خان صاحب کی وفات ملت اسلامیہ کے لیے ناقابل تلافی نقصان کیسے ہے؟ خان صاحب تو متشدد بریلوی تھے اور اپنے بڑے ابا احمد رضا خان صاحب کے مسلک تکفیر المسلمین کے علمبردار تھے، یہاں تک انہیں کے خانوادے کے توقیر رضا خان صاحب جو پورے طبقہؑ بریلویہ میں ایک الگ سوچ کے حامل شخص ہیں، انکے دیوبند آمد پر اختر صاحب کو بڑی ناگواری ہی نہیں ہوئی تھی بلکہ توقیر رضا صاحب کو توبہ کرنے اور تجدید ایمان کرنے کا حکم دے ڈالا تھا۔ انکے مسلک سے اوپر اٹھ کر اتحاد بین المسلمین کی کوئی حیثیت نہیں تھی انہیں ایک صدی پرانے اپنے بڑے ابا کے فتاوی ہی عزیز تھے جن فتاوی کے مطابق بڑے خان صاحب سے اختلاف رکھنے والا ہر مسلمان کافر تھا (نعوذوباللہ)۔ اودے پور راجستھان میں ایک راسخ العقیدہ سنی دیوبندی مسلمان کی چند گھنٹے پہلے دفن کی گئی میت کو قبر سے باہر نکال دینے والے انتہائی دل خراش اور انتہائی غیر اسلامی عمل کے بعد بھی اختر صاحب نے اپنے جاہل متبعین کی اس مذموم حرکت پر مذمت میں ایک لفظ نہیں بولا تھا۔ اس سے صرف بریلویوں کی جہالت ہی آشکار نہیں ہوئی تھی بلکہ پورے ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے کردار پر غیروں کو ہنسنے کا پورا موقع ملا تھا، لیکن خان صاحب کے کان پر جوں تک نہ رینگی تھی اور اس جراؑت کی حوصلہ افزائی کا یہ اثر دیکھنے کو ملا تھا کہ کچھ مہینے بعد اسی شہر میں ایک شخص کو اسکی والدہ کے جنازے میں شرکت کرنے سے جبرا روک دیا گیا تھا۔ کوئی بھی ایسی تحریک جس میں ملت اسلامیہ کے اتحاد کی بات ہو اور مسلک اور مشرب سے اوپر اٹھ کر اتحاد بین المسلمین کی بات ہو اختر صاحب کا ایسی کسی بھی تحریک کو تائید حاصل ہو، کبھی نہیں سنا۔ اب یہ میری کم علمی اور نا سمجھی ہی ہے کہ میں یہ سمجھنے میں قاصر ہوں کہ دیوبند میں موجود میرے بڑوں کے مطابق خان صاحب کی وفات ملت اسلامیہ کے لیے ناقابل تلافی نقصان کس طرح ہے؟
رہی بات خان صاحب کی علمی میراث کی! کیا خان صاحب نے سادہ لوح مسلمانوں کو بدعات و خرافات سے متنبہ کرنے کے لیے کوئی علمی کاوش پیش کی ہے؟ کیا انکی علمی خدمات کے سبب بریلویوں میں دینی ناخواندگی میں کمی آئی ہے؟ بلکہ اس کے برعکس بریلویت اپنی جہالت کے نقطہؑ عروج پر اسی طرح قائم ہے جس طرح انکے بڑے ابا ایک صدی پہلے چھوڑ کر گئے تھے۔ بریلویت اپنی زبان اور لٹریچر کے اعتبار سے وہیں کی وہیں کھڑی ہے۔ اسکے علاوہ کیا انہوں نے اپنے علمی کارنامے کے ذریعے اپنے بڑے ابا کے  ذریعے پیدا کیے گئے نیے عقائد پر کوئی تنقیدی کام کیا ہے؟ انکے ذریعے چھوڑے گئے علمی کام کے سبب کیا بریلویوں کے شرکیہ عقائد میں کوئی کمی آئی ہے؟ کیا خان صاحب نے کوئی ایسا علمی مواد چھوڑا ہے جس میں اپنے بڑے ابا کے کذب اور بہتان پر  جو کہ علماءے اہلسنت کے خلاف تھے، دیانتداری کے ساتھ انکا رد کیا گیا ہو؟ اور اگر واقعی خان صاحب کے علمی کارنامے وقیع ہیں تو پھر ان کے علمی کام کو دارالعلوم دیوبند اور اہلسنت کے تمام مدارس میں شامل کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے یا کم سے کم طلبہ کو خارجی مطالعہ کی تاکید تو ہونی ہی چاہیے۔ لیکن بغیر سوچے سمجھے تجاوز عن الاعتدال کرکے خان صاحب کی مدح سرائی کرنے والے ہمارے اکابر خوب جانتے ہیں کہ بریلویت اور علم دو متضاد باتیں ہیں۔ اور یہ بھی جانتے ہیں کہ بریلوی وہ ہو ہی نہیں سکتا جو لکیر کا فقیر نہ ہو۔ پھر جب خان صاحب لکیر کے فقیر ہی ٹہرے تو انکا علمی کام کس کام کا؟ پوری زندگی میں ایک بھی ایسا عمل صادر ہوا ہو  جس سے اتحاد بین المسلمین کی کوششوں کو تقویت پہینچی ہو تو ہم کہیں بھی کہ انکی وفات ناقابل تلافی نقصان ہے۔
علمائے دیوبند کا انکے انتقال پر اظہار تعزیت اور دعائے مغفرت واقعی قابل تحسین عمل ہے لیکن اس سے دو قدم آگے بڑھ کر انکی وفات کو ناقابل تلافی نقصان کہنا یا انکے علمی سرمائے کی تعریف کرنا حقیقت کے بالکل برخلاف ہے۔
بقلم ڈاکٹر عاطف سہیل صدیقی، صدر دیو بند انسٹیٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ و ییل یونیورسٹی رسرچ فیلو

تاج الشریعہ کا تعلق ہندوستان کے ایک موقر علمی خانوادہ سے تھا: 
رکن پارلیمان مولانا اسرارالحق قاسمی کا اظہار تعزیت
ہندوستان کے معروف علمی خانوادہ کے چشم و چراغ اور بین الاقوامی شہرت یافتہ عالم دین تاج الشریعہ مفتی اختر رضاخان کی رحلت پر رکن پارلیمان مولانا اسرارالحق قاسمی نے قلبی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ و متوسلین و متعلقین سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ مولاناقاسمی نے کہاکہ مفتی صاحب کا تعلق ہندوستان کے ایک موقر علمی خانوادہ سے تھا اور وہ مسلمانوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، انہوں نے تاحیات بے شمار علمی و فکری خدمات انجام دیں، ملک و بیرون ملک کے کئی بڑے علمی اداروں کوان کی سرپرستی حاصل تھی اور ان کے زہد و تقویٰ کا اعتراف کیا جاتا تھا۔ انہوں نے کہاکہ مفتی اختر رضاخان نے پوری زندگی اپنے آپ کو دینی علوم کی اشاعت اور معاشرے کی اصلاح میں مصروف رکھا اور وہ حقیقی معنوں میں اعلی حضرت مولانا احمد رضاخان رحمہ اللہ اور اپنے والد مفتی اعظم ہند کے جانشین تھے۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ دور قحط الرجال کا دور ہے جس میں اللہ کے نیک بندے اور امت کی فکر کرنے والے خاصانِ خدا کی قلت ہے ایسے میں مفتی اختر رضاخان کی رحلت نے مسلمانوں میں ایک اور خلا پیدا کردیا ہے جس کا پر ہونا بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔ مولانا قاسمی نے کہاکہ رنج و غم کی اس گھڑی میں ہم مفتی صاحب مرحوم کے اہل خانہ اور دنیا بھر میں پائے جانے والے ان کے متوسلین و متعلقین سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور دعاء گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے تمام حسنات کو قبولیت سے نوازے۔ واضح رہے کہ تاج الشریعہ مفتی اختر رضاخان کا وصال ۲۰؍جولائی کو بریلی شریف میں ہوا اور ۲۲؍جولائی کوان کی نماز جنازہ ان کے صاحبزادے مولانا اسجد رضاخان پڑھائی جس میں ملک و بیرون ملک سے ہزاروں عقیدت مندوں اور متوسلین نے شرکت کی اور ان کی تدفین اعلی حضرت مولانا احمد رضاخان کے مزار سے متصل عمل میں آئی۔

نمازِ جنازہ میں کتنے آدمی تھے؟ 
تعداد کے تناظر میں بریلوی احباب کا سرپھٹول ملاحظہ فرمائیں: 
حضور تاج الشریعہ کا سفر آخرت اور ہماری جماعت کا سفید جھوٹ:
ذائقۂ موت ہر متنفس کے لئے مقدر سے اس سے کسی کو مفر نہیں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جو لوگ کسی بھی وجہ سے بہت مشہور، با اخلاق اور ملنسار ہوتے ہیں ان چاہنے والوں کی کثرت بھی اسی تناسب  سے ہوتی ہے.
     بعض رہبرانِ دین اور پیرانِ عظام انھیں خوش بخت شخصیات سے ہوتے ہیں جن کے عقیدت مند اور مریدین کی تعدا بسا اوقات لاکھوں سے تجاوز کرجاتی ہے
     بلاشبہ مفتی اختر رضا خاں ازہری بریلوی رحمہ اللہ  بھی انھیں نامور شخصیات میں سے ایک تھے جن کے  مریدین و معتقدین و متوسلین لاکھوں سے متجاوز تھے اور انھیں اپنے اجداد کے حوالے سے ایک عالمگیر شہرت حاصل تھی ان کے عقیدت مندوں میں عوام وخواص سب شامل ہیں
قضائے الٰہی سے آپ ہفتے کے دن تقریباً  سات بج کر پینتالیس منٹ پر مشن ہوسپیٹل بریلی میں دورانِ علاج رحلت فرماگئے 
    آپ کے آخری وقت میں ناچیز راقم السطور آپ کے پاس موجود تھا یقینا اس سانحے سے مجھے سخت افسوس ہوا موصوف میرے مرشد برحق حضور مفتئ اعظم ہند کے نواسوں میں سے ایک قابلِ قدر شخصیت تھے مجھ پر اکثر شفقت فرماتے اور پر تپاق ملاقات کا موقع دیا  کرتے تھے علمی مسائل پر گھنٹوں گفت وشنید چلتی اکثر اوقات آپ کے دسترخوان پر رزق الٰہی کی لذت کی سعادت نصیب ہوتی مجھے حضرت کی جدائی کا تا دمِ مرگ افسوس رہے گا وہ ایک بہت اچھے انسان تھے
    یوں تو آپ کی نمازِ جنازہ  آپ کے فرزند وجانشین  مولانا عسجد رضاخاں مد فیضہ کی اجازت سے آج کئی مرتبہ پڑھائی گئی مگر  الحمد للہ مجھ ناچیز کو پہلی جماعت میں ان کی نمازِ جنازہ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا نماز جنازہ میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے پونے دو لاکھ کے قریب تھی جو واقعی ایک بڑی تعداد ہے میں نے اور میرے علاوہ دیگر افراد نے ویڈیو گرافی بھی کی ہے، مجھے اس مجمع میں موبائل ہولڈرز کے علاوہ کئی عوامی کیمرہ میں بھی نظر آئے جو مختلف مناظر ویڈیو گرافی کر رہے تھے
     ان میں سے اکثر فوٹوز اور ویڈیوز وائرل بھی ہوچکے ہیں جن سے شرکائے جنازہ  کی تعداد کا ایمان دارانہ طور پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے مگر مجھے آج شوشل میڈیا پر  یہ دیکھ بڑا تعجب ہوا کہ بعض لوگ شرکائے جنازہ کی تعداد ایک کڑور سے متجاوز بتا رہے ہیں جو ایک سفید اور مذموم ترین حرکت ہے،
        بعض کاذبین نے تو فراڈ کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے منیٰ کے حسین وجمیل منظر کی ایک تصویر بھی شیئر کی ہے جو ایام حج کے دوران اتاری گئی ہے مگر کاذبین اسے حضور تاج الشریعہ کی نماز جنازہ کی 
تصویر بتارہے ہیں اور بعض نے تو عرسِ رضوی کی تصویر شیئر کرکے اسی تاج الشریعہ کی نمازِ جنازہ کی بھیڑ قرار دیا ہے

     یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہماری جماعت اس جھوٹ سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے کیا؟
اس طرح کھلم کھلا جھوٹ کو فروغ دینا کوئی نیکی یا کارِ ثواب ہے؟ یا اس جھوٹ سے حضور تاج الشریعہ کے اخروی درجات میں کچھ اضافہ ہوجائے گا؟
        واقعہ بیانی میں اس قبیل کا جھوٹ کبھی وہابیہ کی علامت سمجھا جاتا تھا جو آج بد قسمتی سے ہماری جماعت کا تشخص بنتا جارہا ہے
للہ! انصاف سے بتائیے!  کیا یہی  مسلکِ اعلیٰ حضرت ہے؟
کیا اسی دروغِ بے فروغ کا نام سنیت ہے؟
    کیا ہمیں اپنے پردورگار کو منہ نہیں دکھانا ہے؟ جو ہم دانستہ موجودہ وزیرِ اعظمِ ہند کی روش کو گلے لگارہے ہیں؟
جس شخص کا عقل وخرد سے دور کا بھی واسطہ ہے وہ یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر کسی شہر میں اچانک دس لاکھ لوگوں کی بھیڑ جمع ہوجائے تو کسی بھی طرح ان کی ضروریات زندگی مثلا اکل وشرب اور قیام و طہارت کا انتظام انصرام مسئلۂ قیامت سے کچھ کم نہ ہوگا
     کھانے قیام اور طہارت کا مسئلہ تو بہت دور کی بات ہے اگر  کسی شہر میں ہنگامی طور پر چار پانچ لوگوں کی بھیڑ داخل ہوجانے پر ان کے لئے صرف پینے کے پانی کا انتظام کرنا ہی ہوش خراب کردینے کی کافی ہے.
بریلی شہر کوئی  اتنا  بڑا شہر نہیں کہ اس میں دس لاکھ لوگ یکبارگی داخل ہوسکیں اگر ایسا ہوجائے تو اتنے سے شہر میں سانس لینے کی جگہ نہ رہے اور ٹرافک کا نظام ایسا درہم بر ہم جائے کے اس دوبارہ درست و بحال کرنے میں کئی پہر لگ جائیں مگر تاحال کہیں سے اس طرح ٹریفک جام ہوجانے کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی ہے
پس عقلی طور پر بھی یہ سفید بجھوٹ ہی ثابت ہوتا ہے مگر خداجانے کہ ہماری جماعت کے لوگ کس کی خوشنودی یا کونسا سیاسی مفاد حاصل کرنے کے ایک بے لذت گناہ کا ارتکاب کررہے ہیں.
والسلام،
فقیر مصطفےٰ امین نوری لکھنوی  نزیلِ حال بریلی شریف

1 comment:

  1. جناب آپ یہ بتائیں کی جو بدعتی ہو اسکو تعزیت پیش کرنا کیسا ہے... تمہارے اکابرین کا تعزیت پیش کرنا یہ ہمارے حق پر ہونے کی دلیل ہے... اور تعداد کو لیکر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو

    ReplyDelete