شافعی مسجد میں حنفی کی اذان اور نماز کا حکم
سوال ]۱۷۲۳[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: شافعی المسلک والی مسجد میں عصر کے وقت اگر حنفی المسلک مؤذن اذان دے تو اذان صحیح ہوگی یا نہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں مفصل ومدلل اور مفتی بہ جواب سے نوازیں، عین نوازش ہوگی۔
المستفتی: عبدالرشید اعظمی رتنا گری، مہاراشٹر
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
حنفی نے شافعی وقت کے مطابق ایک مثل پر عصر کی جو اذان دی ہے، اس کے بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ حضرات ائمہ ثلاثہ، حضرت امام ابویوسف، امام محمد، امام زفر اور امام طحاوی رحمہم اللہ کے نزدیک وہ اذان درست ہوگئی ہے؛ اس لئے کہ ان سب حضرات کے نزدیک ایک مثل کے بعد عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور یہی امام ابوحنیفہؒ کا ایک قول بھی ہے، جس کو بعض فقہاء نے مفتی بہ لکھا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کا دوسرا قول جو مشہور ومعروف اور ظاہر الروایہ کے مطابق ہے، یعنی عصر کا وقت دو مثل کے بعد ہی شروع ہوتا ہے، جس پر برصغیر میں عمل ہے؛ لہٰذا یہاں کے لوگ اسی کو عصر کا وقت سمجھتے ہیں، امام ابوحنیفہؒ کے اس قول میں احتیاط کا پہلو بھی ہے؛ اس لئے دو مثل کے بعد اذان کا اعادہ کرلینا بہتر اور افضل ہوگا، تاکہ دو مثل کے بعد عصر کی نماز پڑھنے والوں کو نماز کے وقت کا پتہ چل جائے اور وہ اپنے وقت پر آکر نماز میں شریک ہوجائیں، حضرات فقہاء نے اذان کے تکرار کو جائز لکھا ہے، مگر اقامت کا تکرار مشروع نہیں ہے۔
لأن تکرار الأذان مشروع دون الإقامۃ۔ (ہدایۃ، کتاب الصلوۃ، باب الأذان، أشرفی دیوبند ۱/ ۹۱)
لأن تکرار الأذان مشروع، أي کما في یوم الجمعۃ، بخلاف الإقامۃ۔ (شامي، کتاب الصلوۃ، باب الأذان، زکریا ۲/ ۵۵، کراچی ۱/ ۳۸۹)
لأن تکرار الأذان مشروع في الجملۃ، کما في الجمعۃ، فأما تکرار الإقامۃ، فغیر مشروع أصلا۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلوۃ، الفصل الثاني في الأذان، زکریا ۲/ ۱۴۴، رقم: ۱۹۸۱)
المستفتی: عبدالرشید اعظمی رتنا گری، مہاراشٹر
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
حنفی نے شافعی وقت کے مطابق ایک مثل پر عصر کی جو اذان دی ہے، اس کے بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ حضرات ائمہ ثلاثہ، حضرت امام ابویوسف، امام محمد، امام زفر اور امام طحاوی رحمہم اللہ کے نزدیک وہ اذان درست ہوگئی ہے؛ اس لئے کہ ان سب حضرات کے نزدیک ایک مثل کے بعد عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور یہی امام ابوحنیفہؒ کا ایک قول بھی ہے، جس کو بعض فقہاء نے مفتی بہ لکھا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کا دوسرا قول جو مشہور ومعروف اور ظاہر الروایہ کے مطابق ہے، یعنی عصر کا وقت دو مثل کے بعد ہی شروع ہوتا ہے، جس پر برصغیر میں عمل ہے؛ لہٰذا یہاں کے لوگ اسی کو عصر کا وقت سمجھتے ہیں، امام ابوحنیفہؒ کے اس قول میں احتیاط کا پہلو بھی ہے؛ اس لئے دو مثل کے بعد اذان کا اعادہ کرلینا بہتر اور افضل ہوگا، تاکہ دو مثل کے بعد عصر کی نماز پڑھنے والوں کو نماز کے وقت کا پتہ چل جائے اور وہ اپنے وقت پر آکر نماز میں شریک ہوجائیں، حضرات فقہاء نے اذان کے تکرار کو جائز لکھا ہے، مگر اقامت کا تکرار مشروع نہیں ہے۔
لأن تکرار الأذان مشروع دون الإقامۃ۔ (ہدایۃ، کتاب الصلوۃ، باب الأذان، أشرفی دیوبند ۱/ ۹۱)
لأن تکرار الأذان مشروع، أي کما في یوم الجمعۃ، بخلاف الإقامۃ۔ (شامي، کتاب الصلوۃ، باب الأذان، زکریا ۲/ ۵۵، کراچی ۱/ ۳۸۹)
لأن تکرار الأذان مشروع في الجملۃ، کما في الجمعۃ، فأما تکرار الإقامۃ، فغیر مشروع أصلا۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلوۃ، الفصل الثاني في الأذان، زکریا ۲/ ۱۴۴، رقم: ۱۹۸۱)
فقط و اللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۱۶؍ جمادی الاولی ۱۴۰۹ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۴/ ۱۲۴۴)
...........
سوال # 26363
میں حنفی مسلک پر عمل کرتاہوں، کیا میں شافعی یا حنبلی امام کے پیچھے عصر کی نماز پڑھ سکتاہوں؟ چونکہ ان کا وقت حنفی مسلک سے مختلف ہے ۔
(۲) کیا عصر کے علاوہ کسی نماز میں فرق ہے؟ دبئی میں اکثر مساجد شافعی ہیں یا حنبلی ہیں، اس لیے نماز کا وقت ہوتے ہی اذان دی جاتی ہے، کیا شافعی یا حنبلی مسلک کے مطابق اذان ختم ہوتے ہی میں تنہا عصر کی نماز پڑھ سکتاہوں؟
Published on: Oct 21, 2010
جواب # 26363
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 1643=1186-11/1431
(۱) صورت مسئولہ میں جب حنفی مسلک کے اعتبار سے عصر کی نماز کا وقت ہو اس وقت آپ نماز ادا کیا کریں، اگر ایک دو حضرات اور مل جائیں تو جماعت کرلیا کریں، ورنہ تنہا پڑھ لیں، مستقل طور پر شافعی یا حنبلی امام کی اقتداء میں عصر کی نماز نہ ادا کریں، اتفاقاً اگر کبھی پڑھ لیں تو اس کی گنجائش ہے۔
(۲) عصر کے علاوہ دیگر نمازوں کے اوقات میں اختلاف نہیں ہے، البتہ وہ کچھ نمازوں کو اولِ وقت میں ادا کرتے ہیں، ہم کچھ تاخیر سے ادا کرتے ہیں، مگر وقت اس نماز کا شروع ہوچکا ہوتا ہے اس لیے آپ دیگر نمازیں ان کی اقتداء ہی میں ادا کریں، تنہا نہ پڑھیں۔
(۳) وہاں عصر کی اذان ہوتے ہی آپ کے لیے تنہا عصر کی نماز پڑھنا صحیح نہیں بلکہ آپ توقف کریں اورمثلین کے بعد عصر کی نماز ادا کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
...................
سوال # 21110
یہاں کویت میں ساری مساجد میں عصر کی نماز شافعی وقت کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر ہمیں باجماعت نماز پڑھنا ہو تو حنفی وقت تو شروع ہی نہیں ہوتا۔ نماز باجماعت کیسے پڑھیں؟ کیا ایسی صورت نکل سکتی ہے کہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں اور مسجد میں ہی حنفی وقت کا انتظار کریں او رجب حنفی وقت ہو جائے او رکوئی آدمی مسجد میں آجائے جس نے عصر نہیں پڑھی ہو تو اس کے ساتھ مسجد ہی میں دوسری جماعت کرلی جائے؟ لیکن مسجد میں دوسری جماعت کرنا مکروہ تحریمی ہے؟ کیا کوئی صورت نکل سکتی ہے یا پھر شافعی وقت کے مطابق ہی پہلی جماعت سے نماز پڑھیں؟
Published on: Apr 18, 2010
جواب # 21110
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(م): 574=574-5/1431
مسجد میں دوسری جماعت نہ کریں کیوں کہ یہ مکروہ ہے، حنفیہ میں سے صاحبین کے نزدیک مثل اول پر عصر کا وقت ہوجاتا ہے بنا بریں اگر کبھی شافعی وقت کے مطابق عصر کی نماز پڑھ لیں تو صاحبین کے قول کے مطابق اگرچہ نماز ہوجائے گی لیکن مفتی بہ قول کے مطابق چونکہ مثلین پر عصر کا وقت شروع ہوتا ہے، اس لیے حنفی وقت کا انتظار کرلیں اور دوچار حنفی حضرات جمع ہوکر الگ خارج مسجد یا کسی مناسب مقام پر جماعت کرلیا کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
...................
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
سوال: حنفی اور دیگر فقہی مذاہب کے مطابق نمازوں کے اوقات میں کیا فرق ہے؟ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب پر عمل کرنے والے اپنی مساجد میں اذان عصر اور نمازِ عصر میں پورا ایک گھنٹہ فاصلہ کیوں کرتے ہیں؟
Published Date: 2015-08-04
الحمد للہ:
نمازوں کے اوقات کے متعلق ابو حنیفہ اور جمہور کے موقف میں فرق دو مسائل پر منحصر ہے:
پہلا مسئلہ: عصر کی نماز کا ابتدائی وقت
اس بارے میں دو اقوال ہیں:
پہلا قول:
جس وقت ظہر کا وقت ختم ہو ، اور ہر چیز کا سایہ زوال کا سایہ نکال کر ایک مثل ہو جائے تو عصر کا وقت شروع ہو جائے گا، گزشتہ سوالات میں سے سوال نمبر: (9940) میں ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہونے کے بارے میں مکمل تفصیل گزرچکی ہے۔
یہ موقف تمام مالکی ، شافعی، حنبلی فقہاء سمیت احناف میں سے ابو یوسف، اور محمد بن حسن رحمہم اللہ جمیعاً کا ہے، بلکہ حنفی فقیہ سرخسی رحمہ اللہ نے " المبسوط" (1/141) میں کہا ہے کہ:
"محمد رحمہ اللہ نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے یہی نقل کیا ہے، اگرچہ انہوں نے یہ موقف کتاب میں صراحت کے ساتھ ذکر نہیں کیا" انتہی
بلکہ یہی موقف احناف میں سے امام طحاوی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔
اس موقف کی متعدد صحیح دلیلیں ہیں، جن میں سے واضح اور صریح ترین ہم بیان کرتے ہیں:
1- وہ حدیث جس میں جبریل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کروائی ، اس میں ہے کہ: "جبریل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز عصر کی امامت کروائی جس وقت ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوگیا تھا "
ابو داود :(393) ترمذی: (149- 150) اور امام ترمذی نے اسے حسن ، صحیح کہا ہے، البانی نے اسے "صحیح ابو داود" میں صحیح قرار دیا ہے۔
2- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز اس وقت پڑھا کرتے تھے جب سورج بلند اور صاف ہوتا، [نماز کے بعد] ایک شخص عوالی تک جا کر واپس آجاتا ، اور سورج ابھی بلند ہی ہوتا تھا"
بخاری: (550) مسلم : (621)
بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ : "وہ صحابی مسجد قبا پہنچ جاتے ، اور سورج ابھی تک بلند ہوتا تھا" اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج کی تپش اور روشنی باقی ہوتی تھی، مدینہ منورہ سے قریب ترین عوالی کا حصہ دو میل کے فاصلے پر ہے، اور دوسرا کنارہ چھ میل کے فاصلے پر ہے۔
مزید کیلئے دیکھیں: " فتح الباری" (2/39)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عصر کی نماز پڑھنے کے بعد دو تین میل چل کر جانا، اور سورج کی روشنی زردی مائل نہ ہو یہ اسی وقت ممکن ہے کہ عصر کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہو، اور ایسا ان دنوں میں ممکن ہے کہ جب دن لمبے ہوں" انتہی
" شرح مسلم " (5/122)
دوسرا قول:
یہ ہے کہ عصر کا وقت اس وقت شروع ہوگا جب زوال کے سایے کے علاوہ ہر چیز کا سایہ دو مثل ہو جائے، یہ موقف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے، اسی کے اکثر متأخر حنفی فقہائے کرام قائل ہیں، یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں فقہ حنفی رائج ہے ان میں عصر کی اذان تاخیر کیساتھ ہوتی ہے۔
ان کی تین دلیلیں ہیں:
1- ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(کہ تمہاری بقا ان امتوں کے مقابلہ میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ایسے ہی ہے جیسے نماز عصر سے مغرب کے درمیان کا وقت ہے، اہل تورات کو عمل کیلئے تورات دی گئی، جب آدھا دن گزرا تو مزید عمل کرنے سے عاجز آگئے، اور انہیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا، پھر اہل انجیل کو انجیل عمل کرنے کیلئے دی گئی ، تو انہوں نے عصر تک عمل کیا، اور مزید عمل کرنے سے عاجز آگئے، انہیں بھی ایک ایک قیراط دے دیا گیا، اس کے بعد ہمیں قرآن عمل کرنے کیلئے دیا گیا تو ہم نے قرآن پر سورج غروب ہونے تک عمل کیا، تو ہمیں دو ، دو قیراط دیے گئے، اس پر اہل کتاب نے کہا: "پروردگار! تو نے ان لوگوں کو دو ، دو قیراط دیے ہیں، اور ہمیں ایک ایک!؟حالانکہ ہم نے محنت زیادہ کی ہے!؟") تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ : (اللہ تعالی نے انہیں فرمایا: "کیامیں نے تمہاری اجرت میں کوئی کمی کی ؟" تو انہوں نے جواب دیا: "نہیں" تو اللہ تعالی نے فرمایا: "یہ میرا فضل ہے، میں جسے چاہوں اسے دوں")
بخاری: (557)
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے احناف کے مانے ہوئے فقیہ امام کاسانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر کا دورانیہ ظہر کے دورانیے سے کم ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب امام ابو حنیفہ کی عصر کے بارے میں رائےاختیار کی جائے " انتہی
" بدائع الصنائع " (1/315)
لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:
"یہ بات اہل علم و فن کے ہاں مشہور ہے کہ جمہور کے موقف کے مطابق بھی عصر کا اول وقت [ایک مثل] مانیں تب بھی ظہر اور عصر کا درمیانی فاصلہ عصر اور مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ ہے،[اور احناف کے استدلال کا یہ جواب دیا جائے گا کہ] حدیث میں اِس بات کی صراحت نہیں ہے کہ دونوں [عیسائی اور مسلمانوں] میں سے کس نے زیادہ عمل کیا ہے؛ کیونکہ یہ بات کہنا بالکل درست ہے کہ سب [یہودیوں اور عیسائیوں] نے مل کر مسلمانوں سے زیادہ عمل کیا ہے" انتہی
"فتح الباری" (2/53) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کرنے کے مزید جوابات بھی فتح الباری میں نقل کیے ہیں۔
ابن حزم رحمہ اللہ اس بارے میں کہتے ہیں:
"ظہر کا وقت عصر کے وقت سے ہمیشہ ہر جگہ اور ہر زمانے میں زیادہ ہی ہوتا ہے" انتہی
" المحلى" (2/222) اس کے بعد ابن حزم نے اس بات کو علم فلکیات کے مطابق ثابت بھی کیا ہے، آپ اس کیلئے "المحلی" کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یا اللہ! بڑا تعجب ہے! اس حدیث میں یہ کہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ عصر کا وقت اس وقت تک شروع نہیں ہوگا جب تک اس کا سایہ دو مثل نہ ہو جائے؟ دلالت کی کونسی قسم سے یہ ثابت ہوتا ہے؟ یہاں زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ عصر کی نماز کے وقت سے لیکر غروب آفتاب تک کا دورانیہ ظہر اور عصر کے درمیانی دورانیے سے کم ہے، اور یہ بات واقعی بلا شک و شبہ صحیح ہے" انتہی
"إعلام الموقعين" (2/404)
لہذا اس حدیث کو عصر کے وقت کیلئے دلیل بنانے کی کوئی وجہ باقی ہی نہیں رہتی۔
2- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس وقت گرمی زیادہ ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں ادا کرو؛ کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی حرارت سے ہوتی ہے)
بخاری: (536) مسلم :(615)
اس حدیث کے متعلق امام کاسانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ٹھنڈ اسی وقت ہوگی جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہو جائے گا؛ کیونکہ گرمی [ایک مثل تک] کم نہیں ہوگی، خاص طور پر ان کے علاقے[حجاز] میں " انتہی
" بدائع الصنائع " (1/315)
اس کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ: مطلوبہ ٹھنڈ ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہونے پر بھی حاصل ہو جاتی ہے، چنانچہ اسی بات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عمل کیا جاتا تھا، کیونکہ گزشتہ حدیث کے بقیہ حصے میں انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہو جاتا) بخاری: (629)
حافط ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عصر کو اتنا مؤخر کیا کہ ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوگیا" انتہی
" فتح الباری" (2/29) اسی طرح دیکھیں:"الشرح الممتع" (2/98)
3- امام سرخسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمیں ظہر کا وقت شروع ہونے کے بارے میں یقین ہے، لیکن مختلف احادیث کی وجہ سے ظہر کے آخری وقت کے بارے میں شک پیدا ہو گیا، تو یقینی بات کو شک کی بنا پر ختم نہیں کیا جاسکتا" انتہی
"المبسوط" (1/141)
اس دلیل کا جواب اس طرح دیا جاسکتا ہے کہ : ظہر کے آخری وقت کے بارے میں یقینی بات ہمیں مذکورہ بالا صحیح اور صریح احادیث سے ملتی ہے، اور اہل علم بھی اسی کے قائل ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نماز عصر کے ابتدائی وقت کے بارے میں متصادم رائے صرف ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے، چنانچہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "سب اہل علم نے انکی اس رائے سے اختلاف رکھا ہے، حتی کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں نے بھی ان سے اختلاف رکھا"؛ ان کے بعد آنے والوں لوگوں نے انکے اس موقف کی تائید کی ہے" انتہی
" فتح الباری " (2/36)
مذکورہ بالا تفصیل سے اس مسئلے میں اختلاف کی وضاحت ہے، اور احناف کا یہ موقف ہے کہ عصر کی نماز جمہور کے مقرر کردہ وقت سےمؤخر ادا کی جائے، اس بارے میں ہم نے ایک کی دلیل ذکر کردی ہے، اور اہل علم کے اس بارے میں دلائل اور جوابات بھی ذکر کر دیے ہیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
نمازِ عصر کو پہلے وقت میں ادا کرنا مسنون ہے، اس کی درج ذیل وجو ہات ہیں:
1. اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( فَاستَبِقُوا الخَيرَاتِ) نیکیوں کیلئے سبقت کرو[البقرة:148]، لہذا اچھے کاموں کیلئے سبقت کرنی چاہیے۔
2. یہ بات ثابت شدہ ہے کہ نماز کی اول وقت میں ادائیگی افضل ہے۔
3. نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : "آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھا کرتے تھے، اور سورج بلند ہوتا تھا" بخاری:(547) مسلم :(647) " انتہی
" الشرح الممتع " (2/104)
اس مسئلے کے بارے میں مزید مصادر و مراجع کیلئے دیکھیں:
" المحلى " (2/197) ، " نهاية المحتاج (1/364) ، " فتح القدير " (1/227) ، و " حاشية الدسوقی" (1/177) ، " الموسوعة الفقهية " (7/173)
مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (179769) کا مطالعہ کریں۔
دوسرا مسئلہ: عشاء کی نماز کا ابتدائی وقت [یعنی: مغرب کا آخری وقت]
جمہور اہل علم اور احناف کا اس مسئلے کے بارے میں بھی دو اقوال پر مشتمل اختلاف ہے:
پہلا قول:
عشاء کی نماز کا اول وقت سفید شفق غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے، سرخ شفق غروب ہونے سے نہیں ہوتا، جبکہ سفید شفق سرخ شفق کے مقابلے میں بارہ منٹ بعد غروب ہوتی ہے، یہ موقف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔
احناف نے اس بارے میں درج ذیل دلائل دئیے ہیں:
1- محمد بن فضیل کہتے ہیں ہمیں اعمش نے بیان کیا، انہوں نے ابو صالح کے واسطے سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ: "مغرب کا اول وقت سورج غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے، اور آخری وقت شفق غائب ہونے تک ہے" اس روایت کو امام احمد نے مسند : (12/92) میں اور ترمذی: (151) میں روایت کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ "شفق اس وقت غائب ہوتی ہے جب سرخی کے بعد پیدا ہونے والی سفیدی ختم ہو جائے، اور جب تک سفیدی غائب نہ ہو تو شفق غروب نہیں ہوتی"
لیکن اس حدیث کے متعلق متقدم ائمہ محدثین اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں وہم لگا ہے، اس کی وضاحت یہ ہے کہ محمد بن فضیل نے اس حدیث کو مرفوع بیان کیا ہے، وگرنہ اعمش سے بیان کرنے والوں میں یہ بات معروف ہے کہ اعمش نے اس روایت کو مجاہد سے مرسل روایت کیا ہے، اس روایت کے بارے میں یہی حکم بخاری، یحیی بن معین، ابو حاتم، ترمذی، اور دارقطنی وغیرہ نے بھی لگایا ہے، ان ائمہ محدثین رحمہم اللہ کی اس بارے میں گفتگو کیلئے مسند احمد مطبوعہ از: مؤسسہ رسالہ (12/94-95) کی جانب رجوع کریں۔
2- اقوال صحابہ
کمال ابن ہمام رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو بکر صدیق، معاذ بن جبل، عائشہ، ابو ہریرہ اور [ایک روایت کے مطابق]ابن عباس رضی اللہ عنہم سے یہی منقول ہے، اسی کے عمر بن عبد العزیز، اوزاعی، مزنی، ابن المنذر، خطابی رحمہم اللہ قائل تھے، اسی موقف کو مبرد، اور ثعلب نے اختیار کیا تھا" انتہی
" فتح القدير " (1/223)
3- یہی موقف محتاط ہے، اور اسی موقف پر یقینی طور سے عمل کیا جاسکتا ہے، جیسے کہ " فتح القدير " (1/223)میں ہے:
"درست بات یہ ہے کہ جب یہ شک ہو کہ شفق سفیدی کا نام ہے یا سرخی کا؟ تو شک کی بنا پر فیصلہ نہیں کیا جائے گا، اور ویسے بھی محتاط بات یہی ہے کہ مغرب کے وقت کو سفیدی تک رکھا جائے؛ کیونکہ مغرب اور عشاء کے وقت کے درمیان کوئی فارغ وقت نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ مغرب کا وقت ختم ہوتے ہی عشاء کا وقت متفقہ طور پر شروع ہو جاتا ہے، اور قبل از وقت نماز ادا کرنا درست نہیں ہے، اس لئے احتیاط اسی بات میں ہے کہ عشاء کی نماز کا وقت تاخیر سے شروع ہو" انتہی
دوسرا قول: عشاء کی نماز کا وقت شفق کی سرخی غائب ہونے سے شروع ہوتا ہے، یہ موقف جمہور فقہائے کرام کا ہے۔
اس بارے میں امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارا موقف یہ ہے کہ شفق سے مراد سرخی ہے، صاحب کتاب: "التہذیب" نے اسی موقف کو اکثر اہل علم سے نقل کیا ہے، بیہقی نے سنن کبری میں عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، ابن عمر، ابن عباس، ابو ہریرہ، عبادہ بن صامت، اور شداد بن اوس رضی اللہ عنہم سے، اسی طرح مکحول، اور سفیان ثوری سے نقل کیا ہے، اسی طرح بیہقی نے اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا بھی بیان کیا ہے، لیکن یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا ثابت نہیں ہے، نیز یہی موقف ابن المنذر نے ابن ابی لیلی، مالک، ثوری، احمد، اسحاق، ابو یوسف، اور محمد بن حسن سے روایت کیا ہے، یہی موقف ابو ثور، اور داود رحمہم اللہ جمیعا کا ہے۔
ہمارے فقہائے کرام نے شفق سے مراد سرخی ہونے کے متعلق حدیث اور قیاس کو دلیل بنانے کی کوشش کی ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی واضح دلالت نہیں کرتی، چنانچہ یہاں پر عرب کے عرفِ عام پر اعتماد کیا جائے گا، کہ شفق سے مراد سرخی ہے، یہی بات انکے شعر و نثر میں مشہور ہے، مشہور لغوی ائمہ کرام نے بھی یہی نقل کیا ہے، چنانچہ ازہری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عرب کے ہاں شفق سے مراد سرخی ہے"
فراء کہتے ہیں کہ:
"میں نے کچھ عرب کو کسی کے سرخ لباس پہننے پر کہتے ہوئے سنا ہے کہ: "اس نے شفق کے رنگ میں رنگے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں""
ابن فارس "المجمل "میں کہتے ہیں کہ خلیل کہتے ہیں:
"شفق اس سرخی کو کہتے ہیں جو غروب آفتاب سے عشاء کے وقت تک افق میں ہوئی ہے"
ابن فارس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابن درید بھی سرخی کو شفق کہتے تھے" یہ لغوی ائمہ کرام کی گفتگو ہے، اللہ تعالی ہی سمجھنے کی توفیق دے" انتہی
" المجموع شرح المهذب " (3/ 43)
مزید تفاصیل پڑھنے کیلئے دیکھیں:" الحاوی الكبير " (2/23-25) ، " المغنی " از: ابن قدامہ(1/278)
خلاصہ یہ ہوا کہ : احناف کے ہاں عشاء کی نماز کا وقت جمہور کی بہ نسبت قدرے تاخیر سے شروع ہوتا ہے، جسکی مقدار " الموسوعة الفقهية الكويتية " (7/175) کے مطابق تقریباً بارہ منٹ ہے، اور عصر کی نماز کا وقت احناف کے ہاں مختلف علاقوں اور موسموں کے اعتبار سے تقریباً تیس منٹ یا اس سے بھی زیادہ دیر سے شروع ہوتا ہے، جبکہ صحیح ترین موقف ان دونوں مسائل میں جمہور علمائے کرام کا ہے۔
واللہ اعلم.
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۱۶؍ جمادی الاولی ۱۴۰۹ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۴/ ۱۲۴۴)
...........
سوال # 26363
میں حنفی مسلک پر عمل کرتاہوں، کیا میں شافعی یا حنبلی امام کے پیچھے عصر کی نماز پڑھ سکتاہوں؟ چونکہ ان کا وقت حنفی مسلک سے مختلف ہے ۔
(۲) کیا عصر کے علاوہ کسی نماز میں فرق ہے؟ دبئی میں اکثر مساجد شافعی ہیں یا حنبلی ہیں، اس لیے نماز کا وقت ہوتے ہی اذان دی جاتی ہے، کیا شافعی یا حنبلی مسلک کے مطابق اذان ختم ہوتے ہی میں تنہا عصر کی نماز پڑھ سکتاہوں؟
Published on: Oct 21, 2010
جواب # 26363
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 1643=1186-11/1431
(۱) صورت مسئولہ میں جب حنفی مسلک کے اعتبار سے عصر کی نماز کا وقت ہو اس وقت آپ نماز ادا کیا کریں، اگر ایک دو حضرات اور مل جائیں تو جماعت کرلیا کریں، ورنہ تنہا پڑھ لیں، مستقل طور پر شافعی یا حنبلی امام کی اقتداء میں عصر کی نماز نہ ادا کریں، اتفاقاً اگر کبھی پڑھ لیں تو اس کی گنجائش ہے۔
(۲) عصر کے علاوہ دیگر نمازوں کے اوقات میں اختلاف نہیں ہے، البتہ وہ کچھ نمازوں کو اولِ وقت میں ادا کرتے ہیں، ہم کچھ تاخیر سے ادا کرتے ہیں، مگر وقت اس نماز کا شروع ہوچکا ہوتا ہے اس لیے آپ دیگر نمازیں ان کی اقتداء ہی میں ادا کریں، تنہا نہ پڑھیں۔
(۳) وہاں عصر کی اذان ہوتے ہی آپ کے لیے تنہا عصر کی نماز پڑھنا صحیح نہیں بلکہ آپ توقف کریں اورمثلین کے بعد عصر کی نماز ادا کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
...................
سوال # 21110
یہاں کویت میں ساری مساجد میں عصر کی نماز شافعی وقت کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر ہمیں باجماعت نماز پڑھنا ہو تو حنفی وقت تو شروع ہی نہیں ہوتا۔ نماز باجماعت کیسے پڑھیں؟ کیا ایسی صورت نکل سکتی ہے کہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں اور مسجد میں ہی حنفی وقت کا انتظار کریں او رجب حنفی وقت ہو جائے او رکوئی آدمی مسجد میں آجائے جس نے عصر نہیں پڑھی ہو تو اس کے ساتھ مسجد ہی میں دوسری جماعت کرلی جائے؟ لیکن مسجد میں دوسری جماعت کرنا مکروہ تحریمی ہے؟ کیا کوئی صورت نکل سکتی ہے یا پھر شافعی وقت کے مطابق ہی پہلی جماعت سے نماز پڑھیں؟
Published on: Apr 18, 2010
جواب # 21110
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(م): 574=574-5/1431
مسجد میں دوسری جماعت نہ کریں کیوں کہ یہ مکروہ ہے، حنفیہ میں سے صاحبین کے نزدیک مثل اول پر عصر کا وقت ہوجاتا ہے بنا بریں اگر کبھی شافعی وقت کے مطابق عصر کی نماز پڑھ لیں تو صاحبین کے قول کے مطابق اگرچہ نماز ہوجائے گی لیکن مفتی بہ قول کے مطابق چونکہ مثلین پر عصر کا وقت شروع ہوتا ہے، اس لیے حنفی وقت کا انتظار کرلیں اور دوچار حنفی حضرات جمع ہوکر الگ خارج مسجد یا کسی مناسب مقام پر جماعت کرلیا کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
...................
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
مفتی شکیل منصور صاحب دامت برکاتہم سے ایک سوال کا جواب مطلوب ہے.. بینوا و توجروا...
بندہ کینیا کے ایک ٹاؤن میرو(Meru) میں ایک مسجد کا امام ہے اس ٹاؤن میں تقریباً چار, پانچ مساجد ہے جو شافعی مسلک والوں کی ہے صرف ایک مسجد "جامعہ" نامی حنفی مسلک کی ہے چونکہ ائمہ ثلاثہ کا قول عصر کے وقت میں مثل اول کا ہے لہذا یہاں ساری مساجد میں عصر کی نماز مثل اول پر ادا کی جاتی ہے اب اپنے حنفی مسلک کے عوام کا بھی عمومی مزاج عصر کی نماز میں مثل اول پر ادا کرنے کا ہے...
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا ان حنفی حضرات کو منع کرنا لازم ہے کیونکہ امام ابو حنیفہ رح کے نزدیک عصر کا وقت مثلین پر شروع ہوتا ہے اس حساب سے ان کی نماز نہ ہونی چاہئیے یا مثل اول پر عصر کی ادائیگی کی ان حنفی حضرات کو اجازت دی جا سکتی ہے کیونکہ فتنے کا اندیشہ بھی ہے نیز احناف میں سے خود صاحبین اور امام طحاوی کا قول بھی مثل اول کا عصر کے سلسلے میں..
نیز اگر اس جامعہ نامی حنفی مسلک کی مسجد میں دیگر حنفی حضرات آتے ہیں تو ٹرافک کی وجہ سے آنے جانے میں ایک ,ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا ہے تو کیا ان کے لئے شافعی المسلک مسجد میں مثل اول پر عصر کی نماز جائز ہوگی... ؟؟؟
برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں تاکہ حجت تام ہو..
فقط والسلام..
المستفتی:محمد واصف پٹیل
مقیم حال:میرو،کینیا،ایسٹ افریقہ
7/3/2017
بندہ کینیا کے ایک ٹاؤن میرو(Meru) میں ایک مسجد کا امام ہے اس ٹاؤن میں تقریباً چار, پانچ مساجد ہے جو شافعی مسلک والوں کی ہے صرف ایک مسجد "جامعہ" نامی حنفی مسلک کی ہے چونکہ ائمہ ثلاثہ کا قول عصر کے وقت میں مثل اول کا ہے لہذا یہاں ساری مساجد میں عصر کی نماز مثل اول پر ادا کی جاتی ہے اب اپنے حنفی مسلک کے عوام کا بھی عمومی مزاج عصر کی نماز میں مثل اول پر ادا کرنے کا ہے...
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا ان حنفی حضرات کو منع کرنا لازم ہے کیونکہ امام ابو حنیفہ رح کے نزدیک عصر کا وقت مثلین پر شروع ہوتا ہے اس حساب سے ان کی نماز نہ ہونی چاہئیے یا مثل اول پر عصر کی ادائیگی کی ان حنفی حضرات کو اجازت دی جا سکتی ہے کیونکہ فتنے کا اندیشہ بھی ہے نیز احناف میں سے خود صاحبین اور امام طحاوی کا قول بھی مثل اول کا عصر کے سلسلے میں..
نیز اگر اس جامعہ نامی حنفی مسلک کی مسجد میں دیگر حنفی حضرات آتے ہیں تو ٹرافک کی وجہ سے آنے جانے میں ایک ,ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا ہے تو کیا ان کے لئے شافعی المسلک مسجد میں مثل اول پر عصر کی نماز جائز ہوگی... ؟؟؟
برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں تاکہ حجت تام ہو..
فقط والسلام..
المستفتی:محمد واصف پٹیل
مقیم حال:میرو،کینیا،ایسٹ افریقہ
7/3/2017
الجواب وباللہ التوفیق
صورت مسئولہ میں اگر خوف فتنہ نہ ہو تومسجد میں حنفیوں کو مثل اول پر عصر نماز پڑھنے سے منع کرنا چاہیے (فتاویٰ محمودیہ ۵/۳۳۹،)
خوف فتنہ ہو یا کسی ضرورت کی وجہ سے حنفی شخص اگر شافعی کی مسجد میں عصر کی نماز مثل اول پر پڑھ لے، تو نماز ہوجائے گی۔ کیونکہ امام ابوحنیفہ کی ایک روایت بھی اسی طرح کی ہے اور احناف میں صاحبین کا مسلک بھی یہی ہے۔
اسی طرح کا ایک سوال وجواب فتاوی فلاحیہ میں موجود ہے
جواب جامع اور تشفی بخش ہے اس لئے بعینہ درج کررہا ہوں، مزید مفید تفصیلات بھی موجود ہیں:
صورت مسئولہ میں اگر خوف فتنہ نہ ہو تومسجد میں حنفیوں کو مثل اول پر عصر نماز پڑھنے سے منع کرنا چاہیے (فتاویٰ محمودیہ ۵/۳۳۹،)
خوف فتنہ ہو یا کسی ضرورت کی وجہ سے حنفی شخص اگر شافعی کی مسجد میں عصر کی نماز مثل اول پر پڑھ لے، تو نماز ہوجائے گی۔ کیونکہ امام ابوحنیفہ کی ایک روایت بھی اسی طرح کی ہے اور احناف میں صاحبین کا مسلک بھی یہی ہے۔
اسی طرح کا ایک سوال وجواب فتاوی فلاحیہ میں موجود ہے
جواب جامع اور تشفی بخش ہے اس لئے بعینہ درج کررہا ہوں، مزید مفید تفصیلات بھی موجود ہیں:
۵۸۰-سوال: پورے امریکہ میں عصر ایک مثل پر پڑھی جاتی ہے؛ کیوںکہ عرب حضرات نے ٹائم ٹیبل بنایا ہے،ان کی تعداد زیادہ ہے ، جب کہ حنفی حضرات تعداد میںکم ہیں ؛اس لیے وہ بھی عربوں کی اقتدا میں ایک مثل ہی پر عصر پڑھتے ہیں، شرعاً یہ جائز ہے یانہیں؟
الجواب حامداً ومصلیا:
ضرورت کی بناء پرعصر کی نماز ایک مثل پر پڑھناجائز ہے، احناف حرمین شریفین میں عصر ایک مثل پر پڑھ لیتے ہیں ؛ گرچہ امام ابو حنیفہ ؒ کی مفتیٰ بہ روایت یہی ہے کہ عصر کی نمازکا وقت مثل ثانی کے بعد شروع ہوتا ہے؛ لیکن صاحبین رحمہما اﷲ کاقول یہ ہے کہ مثل اول تک ہی ظہر کا وقت رہتاہے، اس کے بعدعصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے، خود امام صاحب ؒکی ایک روایت یہی ہے۔اور امام طحاوی ؒ نے فرمایاہے: ’’و بقولھما ناخذ‘‘.(۱) پس ایسے وقت میں- جب کہ عصر کی جماعت مثل اول پر ہی ہوتی ہو- صاحبین کے قول پر عمل کی گنجائش ہے۔ (۲) فقط، واللہ اعلم بالصواب۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) و في حدیث جبریل: عن ابن عباس، أن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال: " أمني جبريل عند البيت مرتين، فصلى الظهر في الأولى منهما حين كان الفيء مثل الشراك، ثم صلى العصر حين كان كل شيء مثل ظله.(سنن الترمذي- محمد بن عيسى بن سَوْرة، الترمذي، أبو عيسى (م:۲۷۹هـ):۱؍۳۸، رقم الحدیث:۱۴۹،کتاب الصلاۃ،باب ما جاء في مواقيت الصلاة عن النبي صلى اللہ عليه وسلم،ط:فیصل- دیوبند٭سنن أبي داود:۱؍۵۶، رقم الحدیث: ۳۹۳،کتاب الصلاۃ،باب في المواقيت،ط:مختار اینڈ کمپني- دیوبند)
وأول وقت الظهر إذا زالت الشمس " لإمامة جبريل عليه السلام في اليوم الأول حين زالت الشمس "، وآخر وقتها عند أبي حنيفة رحمه اللہ إذا صار ظل كل شيء مثليه، سوى فيء الزوال، وقالا: إذا صار الظل مثله " وهو رواية عن أبي حنيفة رحمه اللہ…وأول وقت العصر إذ خرج وقت الظهر على القولين.(الهداية في شرح بداية المبتدي- علي بن أبي بكر، المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين (م:۵۹۳هـ):۱؍۴۰، کتاب الصلاۃ، باب المواقیت، ت:طلال يوسف،ط: دار احياء التراث العربي - بيروت٭ ر:بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع-علاء الدين، أبو بكر بن مسعود، الكاساني الحنفي (م:۵۸۷هـ):۱؍۱۲۳،کتاب الصلاۃ، بیان وقت الفجر والظہر، شرائط أرکان الصلاۃ ٭ مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر-عبد الرحمن بن محمد،المدعو بشيخي زاده، و يعرف بـ’’داماد أفندي‘‘ (م:۱۰۷۸هـ):۱؍۶۹- ۷۰،کتاب الصلاۃ، وقت الظھر، ط: دار إحياء التراث العربي٭ المبسوط- محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (م:۴۸۳هـ):۱؍۱۴۲، کتاب الصلاۃ، باب مواقيت الصلاة،ط: دار المعرفة - بيروت)
قال الحصکفي:(ووقت الظهر من زواله) أي ميل ذكاء عن كبد السماء (إلى بلوغ الظل مثليه) وعنه مثله، وهو قولهما وزفر والأئمة الثلاثة. قال الإمام الطحاوي: وبه نأخذ. وفي غرر الأذكار: وهو المأخوذ به. وفي البرهان: وهو الأظهر. لبيان جبريل. وهو نص في الباب. وفي الفيض: وعليه عمل الناس اليوم وبه يفتى .(الدر المختارمع رد المحتار:۱؍۳۵۹،کتاب الصلاۃ،ط: دار الکتب العلمیۃ-بیروت)
(۲)حضرت مولانا یوسف لدھیانویؒ (۱۹۳۲- ۲۰۰۰ء) ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: حنفیہ کے یہاں بھی دو قول ہیں: ایک قول یہ ہے کہ مثل دوم میں عصر کی نماز صحیح ہے؛ لہٰذا اگر کسی جگہ عصر کی نماز دو مثل سے پہلے ہوتی ہو،تو وہاں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا چاہیے، دوسری مثل ختم ہونے کے انتظار میں جماعت کا ترک جائز نہیں۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل:۳؍۲۱۰، عنوان: سایہ ایک مثل ہونے پر عصر کی نماز پڑھنا،ط: نعیمیہ - دیوبند)
حضرت مفتی محمودحسن گنگوہی ؒ نے ’’شافعی المسلک علاقہ کوکن کے حنفی اساتذہ و طلبہ کے لیے‘‘ ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ’’مستقلا ہمیشہ مثل واحد پر نماز عصر ادا کرنا، گویا امام ابوحنیفہ ؒ کے مذہب کو ترک کرنا ہے، اس لیے ایسا نہ کیا جائے، کبھی اتفاقیہ اس کی نوبت آجائے، تو امرآخر ہے۔(تفصیل کے لیے دیکھیے: فتاویٰ محمودیہ:۵؍۳۹۹، باب المواقیت، مثل اول پر عصر پڑھنے کی تفصیل)
الجواب حامداً ومصلیا:
ضرورت کی بناء پرعصر کی نماز ایک مثل پر پڑھناجائز ہے، احناف حرمین شریفین میں عصر ایک مثل پر پڑھ لیتے ہیں ؛ گرچہ امام ابو حنیفہ ؒ کی مفتیٰ بہ روایت یہی ہے کہ عصر کی نمازکا وقت مثل ثانی کے بعد شروع ہوتا ہے؛ لیکن صاحبین رحمہما اﷲ کاقول یہ ہے کہ مثل اول تک ہی ظہر کا وقت رہتاہے، اس کے بعدعصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے، خود امام صاحب ؒکی ایک روایت یہی ہے۔اور امام طحاوی ؒ نے فرمایاہے: ’’و بقولھما ناخذ‘‘.(۱) پس ایسے وقت میں- جب کہ عصر کی جماعت مثل اول پر ہی ہوتی ہو- صاحبین کے قول پر عمل کی گنجائش ہے۔ (۲) فقط، واللہ اعلم بالصواب۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) و في حدیث جبریل: عن ابن عباس، أن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال: " أمني جبريل عند البيت مرتين، فصلى الظهر في الأولى منهما حين كان الفيء مثل الشراك، ثم صلى العصر حين كان كل شيء مثل ظله.(سنن الترمذي- محمد بن عيسى بن سَوْرة، الترمذي، أبو عيسى (م:۲۷۹هـ):۱؍۳۸، رقم الحدیث:۱۴۹،کتاب الصلاۃ،باب ما جاء في مواقيت الصلاة عن النبي صلى اللہ عليه وسلم،ط:فیصل- دیوبند٭سنن أبي داود:۱؍۵۶، رقم الحدیث: ۳۹۳،کتاب الصلاۃ،باب في المواقيت،ط:مختار اینڈ کمپني- دیوبند)
وأول وقت الظهر إذا زالت الشمس " لإمامة جبريل عليه السلام في اليوم الأول حين زالت الشمس "، وآخر وقتها عند أبي حنيفة رحمه اللہ إذا صار ظل كل شيء مثليه، سوى فيء الزوال، وقالا: إذا صار الظل مثله " وهو رواية عن أبي حنيفة رحمه اللہ…وأول وقت العصر إذ خرج وقت الظهر على القولين.(الهداية في شرح بداية المبتدي- علي بن أبي بكر، المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين (م:۵۹۳هـ):۱؍۴۰، کتاب الصلاۃ، باب المواقیت، ت:طلال يوسف،ط: دار احياء التراث العربي - بيروت٭ ر:بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع-علاء الدين، أبو بكر بن مسعود، الكاساني الحنفي (م:۵۸۷هـ):۱؍۱۲۳،کتاب الصلاۃ، بیان وقت الفجر والظہر، شرائط أرکان الصلاۃ ٭ مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر-عبد الرحمن بن محمد،المدعو بشيخي زاده، و يعرف بـ’’داماد أفندي‘‘ (م:۱۰۷۸هـ):۱؍۶۹- ۷۰،کتاب الصلاۃ، وقت الظھر، ط: دار إحياء التراث العربي٭ المبسوط- محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (م:۴۸۳هـ):۱؍۱۴۲، کتاب الصلاۃ، باب مواقيت الصلاة،ط: دار المعرفة - بيروت)
قال الحصکفي:(ووقت الظهر من زواله) أي ميل ذكاء عن كبد السماء (إلى بلوغ الظل مثليه) وعنه مثله، وهو قولهما وزفر والأئمة الثلاثة. قال الإمام الطحاوي: وبه نأخذ. وفي غرر الأذكار: وهو المأخوذ به. وفي البرهان: وهو الأظهر. لبيان جبريل. وهو نص في الباب. وفي الفيض: وعليه عمل الناس اليوم وبه يفتى .(الدر المختارمع رد المحتار:۱؍۳۵۹،کتاب الصلاۃ،ط: دار الکتب العلمیۃ-بیروت)
(۲)حضرت مولانا یوسف لدھیانویؒ (۱۹۳۲- ۲۰۰۰ء) ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: حنفیہ کے یہاں بھی دو قول ہیں: ایک قول یہ ہے کہ مثل دوم میں عصر کی نماز صحیح ہے؛ لہٰذا اگر کسی جگہ عصر کی نماز دو مثل سے پہلے ہوتی ہو،تو وہاں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا چاہیے، دوسری مثل ختم ہونے کے انتظار میں جماعت کا ترک جائز نہیں۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل:۳؍۲۱۰، عنوان: سایہ ایک مثل ہونے پر عصر کی نماز پڑھنا،ط: نعیمیہ - دیوبند)
حضرت مفتی محمودحسن گنگوہی ؒ نے ’’شافعی المسلک علاقہ کوکن کے حنفی اساتذہ و طلبہ کے لیے‘‘ ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ’’مستقلا ہمیشہ مثل واحد پر نماز عصر ادا کرنا، گویا امام ابوحنیفہ ؒ کے مذہب کو ترک کرنا ہے، اس لیے ایسا نہ کیا جائے، کبھی اتفاقیہ اس کی نوبت آجائے، تو امرآخر ہے۔(تفصیل کے لیے دیکھیے: فتاویٰ محمودیہ:۵؍۳۹۹، باب المواقیت، مثل اول پر عصر پڑھنے کی تفصیل)
[۲۷] سایہ ایک مثل ہونے پر عصر کی نماز پڑھنا
۵۸۱-سوال: شوافع کے نزدیک عصر کا وقت، حنفی مسلک کے وقت سے پہلے ہوتا ہے، تو کیا حنفی مسلک والے، شوافع کے وقت پر عصر کی نماز پڑھ سکتے ہیں؟ کہیں ایسا پڑھا ہوا یاد آتا ہے کہ اگر شافعی امام کے پیچھے حنفی مقتدی نماز پڑھےگا، تو اس کی نماز ہو جائےگی ، تو کیا منفردبھی اگر عصرکی نماز شافعی مذہب کے مطابق ایک مثل پر پڑھ لے، تو اس کی نماز ہوجائےگی ؟ عصر حنفی اور شافعی میں ایک ڈیڑھ گھنٹے کا فرق ہوتا ہے ،اور ایک شخص کو نماز کے بعدپانچ کیلومیٹرتک جانا پڑتا ہے، روزکا مسئلہ ہے، تو کیا وہ اس طرح عصر کی نماز، عصرِ شافعی کے مطابق پڑھ سکتا ہے؟بینوا توجروا۔
الجواب حامدا و مصلیا:
ضرورت کے وقت عصر کی نمازاس وقت پڑھنا جائز ہے، جب کہ ہر چیز کا سایہ اپنے سا یۂ اصلی سے ایک گنا(مثل)بڑھ جائے،یہ امام شافعی ،امام احمد بن حنبلؒ اورامام مالک ؒ کا مذہب ہے ، حضرات صاحبین کا بھی یہی مسلک ہے،امام حسن بن زیادؒ نے امام ابو حنیفہ ؓ سے اسی کے موافق ایک روایت نقل فرمائی ہے ، اور امام زفر ؒ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ضرورت کی بناء پراس قول کو اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ ( مجمع الانھر جلد ۱ صفحہ ۶۹ )[۱]
لہٰذا آپ ضرورت کی وجہ سے ایک مثل کے بعد عصر کی نماز ادا کرسکتے ہیں، اگر اس سے پہلے اداکی ، تو جائز نہیں ہے ۔
حاجی حضرات بھی حرمین شریفین میں مذکورہ وقت پر نماز ادا کرتے ہیں، اسی طرح شوافع کی مسجد میں جماعت کا ثواب حاصل کرنے کی غرض سے اس وقت نماز ادا کرلی، تو جائز ہے ۔
ہاں! اگر معقول و جہ نہیں ہے، تو پھر بہتر یہی ہے کہ ظہر کی نماز ایک مثل ہونے سے پہلے اور عصر کی نماز دو مثل کے بعد پڑھی جائے ۔فقط، و اللہ اعلم بالصواب۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱)(ووقت الظهر من زوالها) أي زوال الشمس عن المحل الذي تم فيه ارتفاعها، وتوجه إلى الانحطاط،…(إلى أن يصير ظل كل شيء مثليه سوى فيء الزوال) وهو رواية محمد عن الإمام وبه أخذ الإمام.ـــــــــ (وقالا إلى أن يصير مثلا) وهو رواية الحسن عن الإمام وبه أخذ زفر والشافعي وروى أسد بن عمرو عن الإمام إذا صار ظل كل شيء مثله سوى فيء الزوال خرج وقت الظهر ولا يدخل وقت العصر حتى يصير ظل كل شيء مثليه فيكون بين وقت الظهر والعصر وقت مهمل قيل الأفضل أن يصلي صلاة الظهر إلى بلوغ الظل إلى المثل ولا يشرع في العصر إلا بعد بلوغ الظل إلى المثلين ولا يصلي قبله جمعا بين الروايات.( مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر-عبد الرحمن بن محمد،المدعو بشيخي زاده، و يعرف بـ’’داماد أفندي‘‘ (م:۱۰۷۸هـ):۱؍۶۹- ۷۰،کتاب الصلاۃ، وقت الظھر، ط: دار إحياء التراث العربي)
[۲۸]حرم شریف میں شافعی یا حنبلی المسلک اِمام کی اقتدا
۵۸۲-سوال: حرم شریف میں اگر اِمام شافعی یا حنبلی المسلک ہوں، تو اُن کے پیچھے حنفی کی اقتدا صحیح ہوگی یا نہیں؟ نیز عصر کی نماز میں اگر اِمام شافعی المسلک ہیں، اور وہ اُن (حنفی)کے وقت کے موافق عصر کی نماز پڑھا تے ہیں، تو اُن کی اقتدا حنفی شخص کے لیے جائز ہے یا نہیں؟
الجواب حامداً و مصلیا:
حنفی شخص کا، کہیں بھی، چاروں مسالک میں سے کسی بھی مسلک کے اِمام کی اقتدا کرنا صحیح ہے، لہٰذا حرم شریف میں بھی شافعی یا حنبلی المسلک اِمام کی اقتدا صحیح ہے۔(۱) عصر کا وقت مسلک ِشافعی کے مطابق ہو، تب بھی اقتدا جائز ہے، علمائِ احناف میں سے حضرت امام ابویوسفؒ اور اِمام محمدؒ کا مذہب عصر کے وقت کے سلسلے میں وہی ہے، جو امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کا ہے، خود امام ابوحنیفہ ؒ کی ایک روایت یہی ہے۔(۲)فقط، واللہ اعلم بالصواب۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۲) حضرت مفتی بیمات صاحب ؒ نے اس سلسلے کے ایک جواب میں لکھا ہےکہ ’’اگر شافعی یا مالکی یا حنبلی موضع اختلا ف کی رعایت کرتے ہوں، تو ان کی اقتدا کرنا بلا کراہت جائز ہے‘‘:
(قوله إن تيقن المراعاة لم يكره إلخ) أي المراعاة في الفرائض من شروط وأركان في تلك الصلاة وإن لم يراع الواجبات والسنن كما هو ظاهر سياق كلام البحر. مطلب في الاقتداء بشافعي ونحوه هل يكره أم لا؟
وظاهر كلام شرح المنية أيضا حيث قال: وأما الاقتداء بالمخالف في الفروع كالشافعي فيجوز ما لم يعلم منه ما يفسد الصلاة على اعتقاد المقتدي عليه الإجماع، إنما اختلف في الكراهة. اهـ فقيد بالمفسد دون غيره كما ترى.
وفي رسالة [الاهتداء في الاقتداء] لمنلا علي القارئ: ذهب عامة مشايخنا إلى الجواز إذا كان يحتاط في موضع الخلاف وإلا فلا.ــــــــــــــــــــ والمعنى أنه يجوز في المراعي بلا كراهة وفي غيره معها. ثم المواضع المهملة للمراعاة أن يتوضأ من الفصد والحجامة والقيء والرعاف ونحو ذلك، لا فيما هو سنة عنده مكروه عندنا؛ كرفع اليدين في الانتقالات، وجهر البسملة وإخفائها، فهذا وأمثاله لا يمكن فيه الخروج عن عهدة الخلاف، فكلهم يتبع مذهبه ولا يمنع مشربه اهـ.ـــــــــــــــــــــ وفي حاشية الأشباه للخير الرملي: الذي يميل إليه خاطري القول بعدم الكراهة، إذا لم يتحقق منه مفسد. اهـ. ــــــــــــــــــــــــــــــ وبحث المحشي أنه إن علم أنه راعى في الفروض والواجبات والسنن فلا كراهة، وإن علم تركها في الثلاثة لم يصح، وإن لم يدر شيئا كره لأن بعض ما يجب تركه عندنا يسن فعله عنده فالظاهر أن يفعله، وإن علم تركها في الأخيرين فقط ينبغي أن يكره لأنه إذا كره عند احتمال ترك الواجب فعند تحققه بالأولى، وإن علم تركها في الثالث فقط ينبغي أن يقتدي به لأن الجماعة واجبة فتقدم على تركه كراهة التنزيه اهـ وسبقه إلى نحو ذلك العلامة البيري في رسالته، حيث ادعى أن الانفراد أفضل من الاقتداء به قال: إذ لا ريب أنه يأتي في صلاته بما تجب الإعادة به عندنا أو تستحب، لكن رد عليه ذلك غيره في رسالة أيضا، وقد أسمعناك ما يؤيد الرد، نعم نقل الشيخ خير الدين عن الرملي الشافعي أنه مشى على كراهة الاقتداء بالمخالف حيث أمكنه غيره، ومع ذلك هي أفضل من الانفراد، ويحصل له فضل الجماعة، وبه أفتى الرملي الكبير، واعتمده السبكي والإسنوي وغيرهما.
قال الشيخ خير الدين: والحاصل أن عندهم في ذلك اختلافا، وكل ما كان لهم علة في الاقتداء بنا صحة وفسادا وأفضلية كان لنا مثله عليهم، وقد سمعت ما اعتمده الرملي وأفتى به، والفقير أقول مثل قوله فيما يتعلق باقتداء الحنفي بالشافعي والفقيه المنصف يسلم ذلك:
وأنا رملي فقه الحنفي ...……… لا مرا بعد اتفاق العالمين
اهـ ملخصا، أي لا جدال بعد اتفاق عالمي المذهبين وهما رملي الحنفية يعني به نفسه ورملي الشافعية رحمهما اللہ تعالى، فتحصل أن الاقتداء بالمخالف المراعى في الفرائض أفضل من الانفراد إذ لم يجد غيره، وإلا فالاقتداء بالموافق أفضل.(رد المحتار علی الدر المختار:۱؍۵۶۳، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الاقتداء بشافعي ونحوه هل يكره أم لا؟، ط: دار الفکر- بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
۵۸۱-سوال: شوافع کے نزدیک عصر کا وقت، حنفی مسلک کے وقت سے پہلے ہوتا ہے، تو کیا حنفی مسلک والے، شوافع کے وقت پر عصر کی نماز پڑھ سکتے ہیں؟ کہیں ایسا پڑھا ہوا یاد آتا ہے کہ اگر شافعی امام کے پیچھے حنفی مقتدی نماز پڑھےگا، تو اس کی نماز ہو جائےگی ، تو کیا منفردبھی اگر عصرکی نماز شافعی مذہب کے مطابق ایک مثل پر پڑھ لے، تو اس کی نماز ہوجائےگی ؟ عصر حنفی اور شافعی میں ایک ڈیڑھ گھنٹے کا فرق ہوتا ہے ،اور ایک شخص کو نماز کے بعدپانچ کیلومیٹرتک جانا پڑتا ہے، روزکا مسئلہ ہے، تو کیا وہ اس طرح عصر کی نماز، عصرِ شافعی کے مطابق پڑھ سکتا ہے؟بینوا توجروا۔
الجواب حامدا و مصلیا:
ضرورت کے وقت عصر کی نمازاس وقت پڑھنا جائز ہے، جب کہ ہر چیز کا سایہ اپنے سا یۂ اصلی سے ایک گنا(مثل)بڑھ جائے،یہ امام شافعی ،امام احمد بن حنبلؒ اورامام مالک ؒ کا مذہب ہے ، حضرات صاحبین کا بھی یہی مسلک ہے،امام حسن بن زیادؒ نے امام ابو حنیفہ ؓ سے اسی کے موافق ایک روایت نقل فرمائی ہے ، اور امام زفر ؒ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ضرورت کی بناء پراس قول کو اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ ( مجمع الانھر جلد ۱ صفحہ ۶۹ )[۱]
لہٰذا آپ ضرورت کی وجہ سے ایک مثل کے بعد عصر کی نماز ادا کرسکتے ہیں، اگر اس سے پہلے اداکی ، تو جائز نہیں ہے ۔
حاجی حضرات بھی حرمین شریفین میں مذکورہ وقت پر نماز ادا کرتے ہیں، اسی طرح شوافع کی مسجد میں جماعت کا ثواب حاصل کرنے کی غرض سے اس وقت نماز ادا کرلی، تو جائز ہے ۔
ہاں! اگر معقول و جہ نہیں ہے، تو پھر بہتر یہی ہے کہ ظہر کی نماز ایک مثل ہونے سے پہلے اور عصر کی نماز دو مثل کے بعد پڑھی جائے ۔فقط، و اللہ اعلم بالصواب۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱)(ووقت الظهر من زوالها) أي زوال الشمس عن المحل الذي تم فيه ارتفاعها، وتوجه إلى الانحطاط،…(إلى أن يصير ظل كل شيء مثليه سوى فيء الزوال) وهو رواية محمد عن الإمام وبه أخذ الإمام.ـــــــــ (وقالا إلى أن يصير مثلا) وهو رواية الحسن عن الإمام وبه أخذ زفر والشافعي وروى أسد بن عمرو عن الإمام إذا صار ظل كل شيء مثله سوى فيء الزوال خرج وقت الظهر ولا يدخل وقت العصر حتى يصير ظل كل شيء مثليه فيكون بين وقت الظهر والعصر وقت مهمل قيل الأفضل أن يصلي صلاة الظهر إلى بلوغ الظل إلى المثل ولا يشرع في العصر إلا بعد بلوغ الظل إلى المثلين ولا يصلي قبله جمعا بين الروايات.( مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر-عبد الرحمن بن محمد،المدعو بشيخي زاده، و يعرف بـ’’داماد أفندي‘‘ (م:۱۰۷۸هـ):۱؍۶۹- ۷۰،کتاب الصلاۃ، وقت الظھر، ط: دار إحياء التراث العربي)
[۲۸]حرم شریف میں شافعی یا حنبلی المسلک اِمام کی اقتدا
۵۸۲-سوال: حرم شریف میں اگر اِمام شافعی یا حنبلی المسلک ہوں، تو اُن کے پیچھے حنفی کی اقتدا صحیح ہوگی یا نہیں؟ نیز عصر کی نماز میں اگر اِمام شافعی المسلک ہیں، اور وہ اُن (حنفی)کے وقت کے موافق عصر کی نماز پڑھا تے ہیں، تو اُن کی اقتدا حنفی شخص کے لیے جائز ہے یا نہیں؟
الجواب حامداً و مصلیا:
حنفی شخص کا، کہیں بھی، چاروں مسالک میں سے کسی بھی مسلک کے اِمام کی اقتدا کرنا صحیح ہے، لہٰذا حرم شریف میں بھی شافعی یا حنبلی المسلک اِمام کی اقتدا صحیح ہے۔(۱) عصر کا وقت مسلک ِشافعی کے مطابق ہو، تب بھی اقتدا جائز ہے، علمائِ احناف میں سے حضرت امام ابویوسفؒ اور اِمام محمدؒ کا مذہب عصر کے وقت کے سلسلے میں وہی ہے، جو امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کا ہے، خود امام ابوحنیفہ ؒ کی ایک روایت یہی ہے۔(۲)فقط، واللہ اعلم بالصواب۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۲) حضرت مفتی بیمات صاحب ؒ نے اس سلسلے کے ایک جواب میں لکھا ہےکہ ’’اگر شافعی یا مالکی یا حنبلی موضع اختلا ف کی رعایت کرتے ہوں، تو ان کی اقتدا کرنا بلا کراہت جائز ہے‘‘:
(قوله إن تيقن المراعاة لم يكره إلخ) أي المراعاة في الفرائض من شروط وأركان في تلك الصلاة وإن لم يراع الواجبات والسنن كما هو ظاهر سياق كلام البحر. مطلب في الاقتداء بشافعي ونحوه هل يكره أم لا؟
وظاهر كلام شرح المنية أيضا حيث قال: وأما الاقتداء بالمخالف في الفروع كالشافعي فيجوز ما لم يعلم منه ما يفسد الصلاة على اعتقاد المقتدي عليه الإجماع، إنما اختلف في الكراهة. اهـ فقيد بالمفسد دون غيره كما ترى.
وفي رسالة [الاهتداء في الاقتداء] لمنلا علي القارئ: ذهب عامة مشايخنا إلى الجواز إذا كان يحتاط في موضع الخلاف وإلا فلا.ــــــــــــــــــــ والمعنى أنه يجوز في المراعي بلا كراهة وفي غيره معها. ثم المواضع المهملة للمراعاة أن يتوضأ من الفصد والحجامة والقيء والرعاف ونحو ذلك، لا فيما هو سنة عنده مكروه عندنا؛ كرفع اليدين في الانتقالات، وجهر البسملة وإخفائها، فهذا وأمثاله لا يمكن فيه الخروج عن عهدة الخلاف، فكلهم يتبع مذهبه ولا يمنع مشربه اهـ.ـــــــــــــــــــــ وفي حاشية الأشباه للخير الرملي: الذي يميل إليه خاطري القول بعدم الكراهة، إذا لم يتحقق منه مفسد. اهـ. ــــــــــــــــــــــــــــــ وبحث المحشي أنه إن علم أنه راعى في الفروض والواجبات والسنن فلا كراهة، وإن علم تركها في الثلاثة لم يصح، وإن لم يدر شيئا كره لأن بعض ما يجب تركه عندنا يسن فعله عنده فالظاهر أن يفعله، وإن علم تركها في الأخيرين فقط ينبغي أن يكره لأنه إذا كره عند احتمال ترك الواجب فعند تحققه بالأولى، وإن علم تركها في الثالث فقط ينبغي أن يقتدي به لأن الجماعة واجبة فتقدم على تركه كراهة التنزيه اهـ وسبقه إلى نحو ذلك العلامة البيري في رسالته، حيث ادعى أن الانفراد أفضل من الاقتداء به قال: إذ لا ريب أنه يأتي في صلاته بما تجب الإعادة به عندنا أو تستحب، لكن رد عليه ذلك غيره في رسالة أيضا، وقد أسمعناك ما يؤيد الرد، نعم نقل الشيخ خير الدين عن الرملي الشافعي أنه مشى على كراهة الاقتداء بالمخالف حيث أمكنه غيره، ومع ذلك هي أفضل من الانفراد، ويحصل له فضل الجماعة، وبه أفتى الرملي الكبير، واعتمده السبكي والإسنوي وغيرهما.
قال الشيخ خير الدين: والحاصل أن عندهم في ذلك اختلافا، وكل ما كان لهم علة في الاقتداء بنا صحة وفسادا وأفضلية كان لنا مثله عليهم، وقد سمعت ما اعتمده الرملي وأفتى به، والفقير أقول مثل قوله فيما يتعلق باقتداء الحنفي بالشافعي والفقيه المنصف يسلم ذلك:
وأنا رملي فقه الحنفي ...……… لا مرا بعد اتفاق العالمين
اهـ ملخصا، أي لا جدال بعد اتفاق عالمي المذهبين وهما رملي الحنفية يعني به نفسه ورملي الشافعية رحمهما اللہ تعالى، فتحصل أن الاقتداء بالمخالف المراعى في الفرائض أفضل من الانفراد إذ لم يجد غيره، وإلا فالاقتداء بالموافق أفضل.(رد المحتار علی الدر المختار:۱؍۵۶۳، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الاقتداء بشافعي ونحوه هل يكره أم لا؟، ط: دار الفکر- بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
.............
220820: نمازوں کے اوقات میں احناف اور جمہور کے موقف میں فرقسوال: حنفی اور دیگر فقہی مذاہب کے مطابق نمازوں کے اوقات میں کیا فرق ہے؟ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب پر عمل کرنے والے اپنی مساجد میں اذان عصر اور نمازِ عصر میں پورا ایک گھنٹہ فاصلہ کیوں کرتے ہیں؟
Published Date: 2015-08-04
الحمد للہ:
نمازوں کے اوقات کے متعلق ابو حنیفہ اور جمہور کے موقف میں فرق دو مسائل پر منحصر ہے:
پہلا مسئلہ: عصر کی نماز کا ابتدائی وقت
اس بارے میں دو اقوال ہیں:
پہلا قول:
جس وقت ظہر کا وقت ختم ہو ، اور ہر چیز کا سایہ زوال کا سایہ نکال کر ایک مثل ہو جائے تو عصر کا وقت شروع ہو جائے گا، گزشتہ سوالات میں سے سوال نمبر: (9940) میں ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہونے کے بارے میں مکمل تفصیل گزرچکی ہے۔
یہ موقف تمام مالکی ، شافعی، حنبلی فقہاء سمیت احناف میں سے ابو یوسف، اور محمد بن حسن رحمہم اللہ جمیعاً کا ہے، بلکہ حنفی فقیہ سرخسی رحمہ اللہ نے " المبسوط" (1/141) میں کہا ہے کہ:
"محمد رحمہ اللہ نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے یہی نقل کیا ہے، اگرچہ انہوں نے یہ موقف کتاب میں صراحت کے ساتھ ذکر نہیں کیا" انتہی
بلکہ یہی موقف احناف میں سے امام طحاوی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔
اس موقف کی متعدد صحیح دلیلیں ہیں، جن میں سے واضح اور صریح ترین ہم بیان کرتے ہیں:
1- وہ حدیث جس میں جبریل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کروائی ، اس میں ہے کہ: "جبریل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز عصر کی امامت کروائی جس وقت ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوگیا تھا "
ابو داود :(393) ترمذی: (149- 150) اور امام ترمذی نے اسے حسن ، صحیح کہا ہے، البانی نے اسے "صحیح ابو داود" میں صحیح قرار دیا ہے۔
2- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز اس وقت پڑھا کرتے تھے جب سورج بلند اور صاف ہوتا، [نماز کے بعد] ایک شخص عوالی تک جا کر واپس آجاتا ، اور سورج ابھی بلند ہی ہوتا تھا"
بخاری: (550) مسلم : (621)
بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ : "وہ صحابی مسجد قبا پہنچ جاتے ، اور سورج ابھی تک بلند ہوتا تھا" اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج کی تپش اور روشنی باقی ہوتی تھی، مدینہ منورہ سے قریب ترین عوالی کا حصہ دو میل کے فاصلے پر ہے، اور دوسرا کنارہ چھ میل کے فاصلے پر ہے۔
مزید کیلئے دیکھیں: " فتح الباری" (2/39)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عصر کی نماز پڑھنے کے بعد دو تین میل چل کر جانا، اور سورج کی روشنی زردی مائل نہ ہو یہ اسی وقت ممکن ہے کہ عصر کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہو، اور ایسا ان دنوں میں ممکن ہے کہ جب دن لمبے ہوں" انتہی
" شرح مسلم " (5/122)
دوسرا قول:
یہ ہے کہ عصر کا وقت اس وقت شروع ہوگا جب زوال کے سایے کے علاوہ ہر چیز کا سایہ دو مثل ہو جائے، یہ موقف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے، اسی کے اکثر متأخر حنفی فقہائے کرام قائل ہیں، یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں فقہ حنفی رائج ہے ان میں عصر کی اذان تاخیر کیساتھ ہوتی ہے۔
ان کی تین دلیلیں ہیں:
1- ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(کہ تمہاری بقا ان امتوں کے مقابلہ میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ایسے ہی ہے جیسے نماز عصر سے مغرب کے درمیان کا وقت ہے، اہل تورات کو عمل کیلئے تورات دی گئی، جب آدھا دن گزرا تو مزید عمل کرنے سے عاجز آگئے، اور انہیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا، پھر اہل انجیل کو انجیل عمل کرنے کیلئے دی گئی ، تو انہوں نے عصر تک عمل کیا، اور مزید عمل کرنے سے عاجز آگئے، انہیں بھی ایک ایک قیراط دے دیا گیا، اس کے بعد ہمیں قرآن عمل کرنے کیلئے دیا گیا تو ہم نے قرآن پر سورج غروب ہونے تک عمل کیا، تو ہمیں دو ، دو قیراط دیے گئے، اس پر اہل کتاب نے کہا: "پروردگار! تو نے ان لوگوں کو دو ، دو قیراط دیے ہیں، اور ہمیں ایک ایک!؟حالانکہ ہم نے محنت زیادہ کی ہے!؟") تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ : (اللہ تعالی نے انہیں فرمایا: "کیامیں نے تمہاری اجرت میں کوئی کمی کی ؟" تو انہوں نے جواب دیا: "نہیں" تو اللہ تعالی نے فرمایا: "یہ میرا فضل ہے، میں جسے چاہوں اسے دوں")
بخاری: (557)
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے احناف کے مانے ہوئے فقیہ امام کاسانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر کا دورانیہ ظہر کے دورانیے سے کم ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب امام ابو حنیفہ کی عصر کے بارے میں رائےاختیار کی جائے " انتہی
" بدائع الصنائع " (1/315)
لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:
"یہ بات اہل علم و فن کے ہاں مشہور ہے کہ جمہور کے موقف کے مطابق بھی عصر کا اول وقت [ایک مثل] مانیں تب بھی ظہر اور عصر کا درمیانی فاصلہ عصر اور مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ ہے،[اور احناف کے استدلال کا یہ جواب دیا جائے گا کہ] حدیث میں اِس بات کی صراحت نہیں ہے کہ دونوں [عیسائی اور مسلمانوں] میں سے کس نے زیادہ عمل کیا ہے؛ کیونکہ یہ بات کہنا بالکل درست ہے کہ سب [یہودیوں اور عیسائیوں] نے مل کر مسلمانوں سے زیادہ عمل کیا ہے" انتہی
"فتح الباری" (2/53) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کرنے کے مزید جوابات بھی فتح الباری میں نقل کیے ہیں۔
ابن حزم رحمہ اللہ اس بارے میں کہتے ہیں:
"ظہر کا وقت عصر کے وقت سے ہمیشہ ہر جگہ اور ہر زمانے میں زیادہ ہی ہوتا ہے" انتہی
" المحلى" (2/222) اس کے بعد ابن حزم نے اس بات کو علم فلکیات کے مطابق ثابت بھی کیا ہے، آپ اس کیلئے "المحلی" کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یا اللہ! بڑا تعجب ہے! اس حدیث میں یہ کہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ عصر کا وقت اس وقت تک شروع نہیں ہوگا جب تک اس کا سایہ دو مثل نہ ہو جائے؟ دلالت کی کونسی قسم سے یہ ثابت ہوتا ہے؟ یہاں زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ عصر کی نماز کے وقت سے لیکر غروب آفتاب تک کا دورانیہ ظہر اور عصر کے درمیانی دورانیے سے کم ہے، اور یہ بات واقعی بلا شک و شبہ صحیح ہے" انتہی
"إعلام الموقعين" (2/404)
لہذا اس حدیث کو عصر کے وقت کیلئے دلیل بنانے کی کوئی وجہ باقی ہی نہیں رہتی۔
2- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس وقت گرمی زیادہ ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں ادا کرو؛ کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی حرارت سے ہوتی ہے)
بخاری: (536) مسلم :(615)
اس حدیث کے متعلق امام کاسانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ٹھنڈ اسی وقت ہوگی جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہو جائے گا؛ کیونکہ گرمی [ایک مثل تک] کم نہیں ہوگی، خاص طور پر ان کے علاقے[حجاز] میں " انتہی
" بدائع الصنائع " (1/315)
اس کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ: مطلوبہ ٹھنڈ ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہونے پر بھی حاصل ہو جاتی ہے، چنانچہ اسی بات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عمل کیا جاتا تھا، کیونکہ گزشتہ حدیث کے بقیہ حصے میں انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہو جاتا) بخاری: (629)
حافط ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عصر کو اتنا مؤخر کیا کہ ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوگیا" انتہی
" فتح الباری" (2/29) اسی طرح دیکھیں:"الشرح الممتع" (2/98)
3- امام سرخسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمیں ظہر کا وقت شروع ہونے کے بارے میں یقین ہے، لیکن مختلف احادیث کی وجہ سے ظہر کے آخری وقت کے بارے میں شک پیدا ہو گیا، تو یقینی بات کو شک کی بنا پر ختم نہیں کیا جاسکتا" انتہی
"المبسوط" (1/141)
اس دلیل کا جواب اس طرح دیا جاسکتا ہے کہ : ظہر کے آخری وقت کے بارے میں یقینی بات ہمیں مذکورہ بالا صحیح اور صریح احادیث سے ملتی ہے، اور اہل علم بھی اسی کے قائل ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نماز عصر کے ابتدائی وقت کے بارے میں متصادم رائے صرف ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے، چنانچہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "سب اہل علم نے انکی اس رائے سے اختلاف رکھا ہے، حتی کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں نے بھی ان سے اختلاف رکھا"؛ ان کے بعد آنے والوں لوگوں نے انکے اس موقف کی تائید کی ہے" انتہی
" فتح الباری " (2/36)
مذکورہ بالا تفصیل سے اس مسئلے میں اختلاف کی وضاحت ہے، اور احناف کا یہ موقف ہے کہ عصر کی نماز جمہور کے مقرر کردہ وقت سےمؤخر ادا کی جائے، اس بارے میں ہم نے ایک کی دلیل ذکر کردی ہے، اور اہل علم کے اس بارے میں دلائل اور جوابات بھی ذکر کر دیے ہیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
نمازِ عصر کو پہلے وقت میں ادا کرنا مسنون ہے، اس کی درج ذیل وجو ہات ہیں:
1. اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( فَاستَبِقُوا الخَيرَاتِ) نیکیوں کیلئے سبقت کرو[البقرة:148]، لہذا اچھے کاموں کیلئے سبقت کرنی چاہیے۔
2. یہ بات ثابت شدہ ہے کہ نماز کی اول وقت میں ادائیگی افضل ہے۔
3. نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : "آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھا کرتے تھے، اور سورج بلند ہوتا تھا" بخاری:(547) مسلم :(647) " انتہی
" الشرح الممتع " (2/104)
اس مسئلے کے بارے میں مزید مصادر و مراجع کیلئے دیکھیں:
" المحلى " (2/197) ، " نهاية المحتاج (1/364) ، " فتح القدير " (1/227) ، و " حاشية الدسوقی" (1/177) ، " الموسوعة الفقهية " (7/173)
مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (179769) کا مطالعہ کریں۔
دوسرا مسئلہ: عشاء کی نماز کا ابتدائی وقت [یعنی: مغرب کا آخری وقت]
جمہور اہل علم اور احناف کا اس مسئلے کے بارے میں بھی دو اقوال پر مشتمل اختلاف ہے:
پہلا قول:
عشاء کی نماز کا اول وقت سفید شفق غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے، سرخ شفق غروب ہونے سے نہیں ہوتا، جبکہ سفید شفق سرخ شفق کے مقابلے میں بارہ منٹ بعد غروب ہوتی ہے، یہ موقف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔
احناف نے اس بارے میں درج ذیل دلائل دئیے ہیں:
1- محمد بن فضیل کہتے ہیں ہمیں اعمش نے بیان کیا، انہوں نے ابو صالح کے واسطے سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ: "مغرب کا اول وقت سورج غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے، اور آخری وقت شفق غائب ہونے تک ہے" اس روایت کو امام احمد نے مسند : (12/92) میں اور ترمذی: (151) میں روایت کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ "شفق اس وقت غائب ہوتی ہے جب سرخی کے بعد پیدا ہونے والی سفیدی ختم ہو جائے، اور جب تک سفیدی غائب نہ ہو تو شفق غروب نہیں ہوتی"
لیکن اس حدیث کے متعلق متقدم ائمہ محدثین اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں وہم لگا ہے، اس کی وضاحت یہ ہے کہ محمد بن فضیل نے اس حدیث کو مرفوع بیان کیا ہے، وگرنہ اعمش سے بیان کرنے والوں میں یہ بات معروف ہے کہ اعمش نے اس روایت کو مجاہد سے مرسل روایت کیا ہے، اس روایت کے بارے میں یہی حکم بخاری، یحیی بن معین، ابو حاتم، ترمذی، اور دارقطنی وغیرہ نے بھی لگایا ہے، ان ائمہ محدثین رحمہم اللہ کی اس بارے میں گفتگو کیلئے مسند احمد مطبوعہ از: مؤسسہ رسالہ (12/94-95) کی جانب رجوع کریں۔
2- اقوال صحابہ
کمال ابن ہمام رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو بکر صدیق، معاذ بن جبل، عائشہ، ابو ہریرہ اور [ایک روایت کے مطابق]ابن عباس رضی اللہ عنہم سے یہی منقول ہے، اسی کے عمر بن عبد العزیز، اوزاعی، مزنی، ابن المنذر، خطابی رحمہم اللہ قائل تھے، اسی موقف کو مبرد، اور ثعلب نے اختیار کیا تھا" انتہی
" فتح القدير " (1/223)
3- یہی موقف محتاط ہے، اور اسی موقف پر یقینی طور سے عمل کیا جاسکتا ہے، جیسے کہ " فتح القدير " (1/223)میں ہے:
"درست بات یہ ہے کہ جب یہ شک ہو کہ شفق سفیدی کا نام ہے یا سرخی کا؟ تو شک کی بنا پر فیصلہ نہیں کیا جائے گا، اور ویسے بھی محتاط بات یہی ہے کہ مغرب کے وقت کو سفیدی تک رکھا جائے؛ کیونکہ مغرب اور عشاء کے وقت کے درمیان کوئی فارغ وقت نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ مغرب کا وقت ختم ہوتے ہی عشاء کا وقت متفقہ طور پر شروع ہو جاتا ہے، اور قبل از وقت نماز ادا کرنا درست نہیں ہے، اس لئے احتیاط اسی بات میں ہے کہ عشاء کی نماز کا وقت تاخیر سے شروع ہو" انتہی
دوسرا قول: عشاء کی نماز کا وقت شفق کی سرخی غائب ہونے سے شروع ہوتا ہے، یہ موقف جمہور فقہائے کرام کا ہے۔
اس بارے میں امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارا موقف یہ ہے کہ شفق سے مراد سرخی ہے، صاحب کتاب: "التہذیب" نے اسی موقف کو اکثر اہل علم سے نقل کیا ہے، بیہقی نے سنن کبری میں عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، ابن عمر، ابن عباس، ابو ہریرہ، عبادہ بن صامت، اور شداد بن اوس رضی اللہ عنہم سے، اسی طرح مکحول، اور سفیان ثوری سے نقل کیا ہے، اسی طرح بیہقی نے اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا بھی بیان کیا ہے، لیکن یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا ثابت نہیں ہے، نیز یہی موقف ابن المنذر نے ابن ابی لیلی، مالک، ثوری، احمد، اسحاق، ابو یوسف، اور محمد بن حسن سے روایت کیا ہے، یہی موقف ابو ثور، اور داود رحمہم اللہ جمیعا کا ہے۔
ہمارے فقہائے کرام نے شفق سے مراد سرخی ہونے کے متعلق حدیث اور قیاس کو دلیل بنانے کی کوشش کی ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی واضح دلالت نہیں کرتی، چنانچہ یہاں پر عرب کے عرفِ عام پر اعتماد کیا جائے گا، کہ شفق سے مراد سرخی ہے، یہی بات انکے شعر و نثر میں مشہور ہے، مشہور لغوی ائمہ کرام نے بھی یہی نقل کیا ہے، چنانچہ ازہری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عرب کے ہاں شفق سے مراد سرخی ہے"
فراء کہتے ہیں کہ:
"میں نے کچھ عرب کو کسی کے سرخ لباس پہننے پر کہتے ہوئے سنا ہے کہ: "اس نے شفق کے رنگ میں رنگے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں""
ابن فارس "المجمل "میں کہتے ہیں کہ خلیل کہتے ہیں:
"شفق اس سرخی کو کہتے ہیں جو غروب آفتاب سے عشاء کے وقت تک افق میں ہوئی ہے"
ابن فارس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابن درید بھی سرخی کو شفق کہتے تھے" یہ لغوی ائمہ کرام کی گفتگو ہے، اللہ تعالی ہی سمجھنے کی توفیق دے" انتہی
" المجموع شرح المهذب " (3/ 43)
مزید تفاصیل پڑھنے کیلئے دیکھیں:" الحاوی الكبير " (2/23-25) ، " المغنی " از: ابن قدامہ(1/278)
خلاصہ یہ ہوا کہ : احناف کے ہاں عشاء کی نماز کا وقت جمہور کی بہ نسبت قدرے تاخیر سے شروع ہوتا ہے، جسکی مقدار " الموسوعة الفقهية الكويتية " (7/175) کے مطابق تقریباً بارہ منٹ ہے، اور عصر کی نماز کا وقت احناف کے ہاں مختلف علاقوں اور موسموں کے اعتبار سے تقریباً تیس منٹ یا اس سے بھی زیادہ دیر سے شروع ہوتا ہے، جبکہ صحیح ترین موقف ان دونوں مسائل میں جمہور علمائے کرام کا ہے۔
واللہ اعلم.
No comments:
Post a Comment