Monday 9 July 2018

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے متعلق دو روایات

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے متعلق دو روایات
حضرت جی دو روایات اکثر سننےمیں آتی ھیں براہ مہربانی وضاحت فرمادیں کہ یہ کہاں تک درست ھیں۔
1. سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا اپنی وفات سے پہلے غسل کرکے کہنا کہ میری میت کو غسل نہ دیا جاۓ میرا غسل ھوچکا ھے   
2. قیامت کےدن اعلان ھوناکہ سب لوگ اپنی نظریں جھکالیں سیدہ فاطمہ پل صراط سے گزرنے لگی ھیں۔
براہ کرم جواب جلدی عنایت فرمائیں
..............
 حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مرفوعاً مروی ہے، حضور نے فرمایا: ”قیامت کے دن عرش کے اندر سے ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا: لوگو! اپنے سر جھکالو اور اپنی نگاہیں نیچی کرلو، تاکہ فاطمہؓ بنت محمد گزر جائیں، چنانچہ وہ ستر ہزار باندیوں یعنی حوروں کے ساتھ برق رفتاری سے گزر جائیں گی“۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پل صراط سے کیسے گزریں گی؟
حضرت عائشہؓ سے مرفوعاً منقول ہے، حضور نے فرمایا: ”جب قیامت کا دن ہو گا، ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا، اے مخلوقات کی جماعت! اپنے سرجھکالو، تاکہ فاطمہؓ بنت محمد گزر جائیں۔ چنانچہ وہ اس حال میں گزریں گی کہ ان کے جسم پر دو سبز چادریں ہوں گی“۔
قال الحاكم: (405هـ) أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الله بن عتاب العبدي، ببغداد، وأبو بكر بن أبي دارم الحافظ، بالكوفة، وأبو العباس محمد بن يعقوب، وأبو الحسين بن ماتي، بالكوفة، والحسن بن يعقوب، العدل، قالوا: ثنا إبراهيم بن عبد الله العبسي، ثنا العباس بن الوليد بن بكار الضبي، ثنا خالد بن عبد الله الواسطي، عن بيان، عن الشعبي، عن أبي جحيفة، عن عليّ عليه السلام قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: « إذا كان يوم القيامة نادى مناد من وراء الحجاب: يا أهل الجمع، غضوا أبصاركم عن فاطمة بنت محمد صلى الله عليه وسلم حتى تمرّ». قال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه» (مستدرك الحاكم (ت: مصطفى عبد القادر) 3: 166، رقم: 4728.)
امام ذہبی، ابن الجوزی ،طاہر پٹنی اور البانی  نے حاکم کی اس روایت کو من گھڑت اور بے بنیاد کہا ہے
قال الإمام الذهبي هذا الحديث موضوع , كما في تلخيص الذهبي لمستدرك الحاكم ( 3/153). وقد ذكره ضمن الأحاديث الموضوعة الإمام ابن الجزري في كتابه الموضوعات (1/423) , والفتني في تذكرة الموضوعات (1/99) والألباني في السلسلة الضعيفة)

والله أعلم بالصواب
شكيل منصور القاسمي
..........
قد ورد في ضعيف الجامع الصغير، للألباني ونصه: إذا كان يوم القيامة نادى مناد من بطنان العرش: يا أهل الجمع! نكسوا رءوسكم وغضوا أبصاركم حتى تمر فاطمة بنت محمد على الصراط، فتمر مع سبعين ألف جارية من الحور العين كمر البرق. قال الشيخ الألباني: موضوع أي مكذوب.
....
ﻭﻋﻦ ﻋﻠﻲ - ﻳﻌﻨﻲ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ - ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ - ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ - ﻗﺎﻝ: " «ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﻳﻮﻡ اﻟﻘﻴﺎﻣﺔ، ﻗﻴﻞ: ﻳﺎ ﺃﻫﻞ اﻟﺠﻤﻊ، ﻏﻀﻮا ﺃﺑﺼﺎﺭﻛﻢ ﺣﺘﻰ ﺗﻤﺮ ﻓﺎﻃﻤﺔ ﺑﻨﺖ ﻣﺤﻤﺪ - ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ -. ﻓﺘﻤﺮ ﻭﻋﻠﻴﻬﺎ ﺭﻳﻄﺘﺎﻥ ﺧﻀﺮاﻭاﻥ [ﺃﻭ ﺣﻤﺮاﻭاﻥ]» ". ﺭﻭاﻩ اﻟﻄﺒﺮاﻧﻲ ﻓﻲ اﻟﻜﺒﻴﺮ ﻭاﻷﻭﺳﻂ، ﻭﻓﻴﻪ ﻋﺒﺪ اﻟﺤﻤﻴﺪ ﺑﻦ ﺑﺤﺮ، ﻭﻫﻮ ﺿﻌﻴﻒ.
(مجمع الزوائد)
..........
سوال # 20080
 کیا پل صراط سے ہرکسی کو گزرنا ہے؟ بشمول انبیائے کرام، اور ہمارے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور اہل بیت، حضرت فاطمہ، امام حسین اور امام حسن۔ اور کیا ان کا حساب کتاب بھی ہوگا۔ برائے مہربانی تفصیل سے اس موضوع پر روشنی ڈال دیں۔ شکریہ ہمارے ایک عزیز کہ بڑي شدت سے بحث کررہے تھے کہ یہ لوگ ان باتوں سے مبرا ہیں۔
Published on: Mar 12, 2010 
جواب # 20080
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د): 380=311-3/1431
اِنْ مِّنْکُمْ اِلاَّ وَارِدُہَا کے عموم میں تمام انسان داخل ہیں، کوئی بطورِ عبور گذرے گا کوئی بطور دخول۔ بہ طور عبور گذرنے والوں کا اعمال ودرجات کی بلندی کے اعتبارے سے گذرنے کا انداز مختلف ہوگا جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی تفصیل آئی ہے: کوئی بجلی چمکنے کی رفتار سے، کوئی ہوا کی، کوئی تیز رفتار گھوڑے کی، کوئی اطمینان کی چال چلنے والے گھوڑے کی، کوئی آدمی کے دوڑنے کی رفتار سے، اور کوئی انسان کی عام رفتار سے، پل صراط پر گذرے گا۔ (مشکاة: ۴۹۴)
(۲) حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعض دعا میں یہ بھی شامل فرماتے تھے اللہم حاسبنی حسابا یسیرا (حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ) میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی حساب یسیر کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کے نامہٴ اعمال میں نظر ڈال کر چھوڑدیا جائے۔ ورنہ جس سے مناقشہ کیا گیا یعنی اسکے حساب کی جانچ کی گئی وہ تو ہلاک ہی ہوجائے گا، اے عائشہ۔ (رواہ احمد، مشکاة: ۴۸۷)
ایک حدیث میں یہ بھی وارد ہے کہ میری امت میں سے اللہ تعالیٰ چار لاکھ لوگوں کو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل فرمائیں گے۔ (مشکاة: ۴۹۴)
لہٰذا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں داخل ہونا بالکل ظاہر ہے اور دیگر حضرات اہل بیت یعنی ازواجِ مطہرات حضرت فاطمہ وحضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہم کا اس میں شامل ہونا عین ممکن بلکہ ظن غالب کے درجہ میں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند 

No comments:

Post a Comment