Sunday, 15 July 2018

مسلم لڑکیاں غیروں کے ساتھ؛ مجرم کون؟

مسلم لڑکیاں غیروں کے ساتھ؛ مجرم کون؟
آج چند سال سے آئے دن اخبارات میں پڑھنے اور سننے میں یہ خبریں آرہی ہیں کہ فلاں لڑکی اپنے اہل خانہ کی رضامندی کے بغیر اپنے ایک شناسا کے ساتھ گھر سے نکل گئی بلکہ معاملہ اب تو اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ مسلمان لڑکیاں اپنے غیر مسلم ساتھی، عاشق اور دوست کے ساتھ نکل جارہی ہیں، ابھی چند دن پہلے مسلمانوں کے اجتماعی و دینی معاملات میں دلچسپی رکھنے والے ایک صاحب علم نے اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ میرے رہائشی شہر کے قریب ایک صنعتی شہر میں 200 سے زائد مسلمان لڑکیوں نے غیر مسلموں سے شادی کرلی ہے اور اس سے بھی کربناک و افسوسناک خبر یہ کہ حیدرآباد کی ایک اعلی تعلیم یافتہ شکل و صورت کی مالک دولت مند باپ کی 24 سالہ بیٹی ایک موچی ذات کے 40 سالہ ہندو سے عشق و معاشقہ کے بعد شادی کرلیتی ہے اور جب اس شادی کو رسمی شکل دینے کی بات آئی تو اس تقریب میں اس لڑکی کا نام نہاد مسلمان باپ اپنے پچاس سے زائد رشتہ داروں کے ساتھ بڑی گرم جوشی سے شرکت کرتا ہے ، یہ اور اس قسم کی خبریں جو آئے دن اخبارات کی زینت بن رہی ہیں اس امر کی عکاسی کررہی ہیں کہ موجودہ دور میں مسلمان نہ صرف اپنا دین و اخلاق بلکہ اپنا تشخص بھی کھوتے جارہے ہیں۔
ان خبروں سے مسلمان، خصوصا نوجوان اور بالاخص دیندار نوجوان گہرے قلق و اضطراب کے شکار نظر آرہے ہیں، بہت سے قومی غیرت رکھنے والے کالم نویس اخبارات میں اپنے رنج و الم غم وغصہ کا اظہار بھی کررہے ہیں ، کوئی اسے آر ایس ایس کی سازش کا نام دے رہا ہے، کوئی لڑکی کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے اور کچھ لوگ شادی بیاہ سے متعلق معاشرہ میں پائی جانے والی غیر ضروری رسم و رواج کو بیماری کا اصل سبب بتلا رہا ہے۔
یہ ساری باتیں اپنی جگہ صحیح و مسلم ہیں لیکن آر ایس ایس کا ایجنٹ ان لڑکیوں تک کیسے پہنچا، ان لڑکیوں نے ایسا باغیانہ قدم کیوں اٹھایا اور ایسے ظالمانہ رسم و رواج کو معاشرہ نے وجوب کی حیثیت کیوں دی؟ دانستہ یا نادانستہ سارے لوگ ان وجوہات سے چشم پوشی کرتے نظر آرہے ہیں اور اگر کوئی اس طرف توجہ دیتا بھی ہے تو اپنے مضمون کے بالکل آخر میں اور بڑے دبے الفاظ میں اس کا ذکر کرتے نظر آتا ہے۔
لہذا ضروری ہے کہ قوم کے غیور و دانشور حضرات اصل سبب کو تلاش کریں ، آر ایس ایس کے بجائے حقیقی مجرم کون ہے اس کی نشاندہی کریں اور لڑکیوں کے ایسے باغیانہ قدم اٹھانے پر کیا شرعی احکام مترتب ہوتے ہیں اسے واضح کریں تاکہ مرض کا صحیح علاج کیا جاسکے بصورت دیگر "لیھلک من عن بینۃ و یحی من حی عن بینۃ" تاکہ جو ہلاک ہو دلیل پر ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ بھی دلیل پر [حق کو پہچان کر] زندہ رہے۔
برائی کا اصل سبب:
میری ناقص معلومات میں اس برائی کا اصل سبب دین کی کمی اور مسلم گھرانوں میں دینی ماحول کا فقدان ہے ، آج ہمارے بچے یہ نہیں جانتے کہ ان کے مسلمان ہونے کا معنی کیا ہے ؟ ہم مسلمان کیوں ہیں؟ ہم میں اور کافر میں کیا بنیادی اور حقیقی فرق ہے ، انہیں معلوم نہیں ہے کہ ایک مسلمان بشرط اسلام اللہ کا ولی ہوتا ہے اور کافر بحالت کفر اللہ کا ، اللہ کے رسول کا اور مسلمانوں کا دشمن ہے: [إِنَّ الكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبِينًا] {النساء:101} "یقین مانو! کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں" ۔ [يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الحَقِّ] {الممتحنة:1} "اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناو، تم تو ان کی طرف دوستی سے پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق [قرآن و اسلام] کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں"۔
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کا ولی اللہ تعالی کے دشمن کو اپنا دوست بنائے اور ایک قرآن و رسول پر ایمان لانے والی عورت اپنے منعم حقیقی اللہ کے دشمن اور خود اپنے دشمن کے ساتھ زندگی گزارنے کا عہد وپیمان کرے ؟ کیا اس سے بھی بڑھ کر کوئی دشمنی ہوسکتی ہے کہ کوئی تمہیں ایک لہلاتے باغ اور آرام و آرائش کی جگہ سے نکال کر دہکتی آگ اور نہ ختم ہونے والی الم و حسرت کی جگہ میں ڈال دے: [اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آَمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ]{البقرة:257} "اللہ تبارک و تعالی مومنوں کو ولی و کارساز ہے وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے اور کافروں کے اولیاء شیطان ہیں وہ انہیں روشنی سے [اسلام سے] نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں۔
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا جب بیوہ ہوئیں تو مدینہ منورہ کے ایک رئیس زادے ابو طلحہ شادی کا پیغام بھیجتے ہیں، اس وقت ام سلیم مسلمان ہوچکی تھیں اور ابو طلحہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، لہذا ام سلیم نے یہ دو ٹوک جواب دے کر ان کے پیغام کو رد کردیا کہ اے ابو طلحہ! اللہ کی قسم آپ کی وہ حیثیت ہے کہ آپ کا پیغام رد نہ کیا جائے، لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ کافر ہیں اور میں مسلمان عورت ہوں، اور کسی مسلمان عورت کے لئے مناسب نہیں ہے کہ کسی کافر کے ساتھ شادی کرے
{مسند احمد ، سنن نسائی}
حالانکہ ابھی تک مسلم و کافر کی شادی کے بطلان کا حکم نازل نہیں ہوا تھا پھر بھی ایک مسلمان عورت کی غیرت اور عزت نفس دیکھئے کہ اپنے کو کسی کافر کی قوامیت اور نگرانی میں دینا گوارا نہیں کیا۔
اصلی مجرم:
میرے تجزئے کے مطابق لڑکیوں کی اس بے راہ روی کا حقیقی مجرم ان کے باپ ہیں اور ان کی ماوں کو بھی اس جرم میں ۔۔۔ حصہ ملا ہے کیونکہ باپ ماں نے نہ تو اپنے گھر کا ماحول دینی رکھا، نہ ہی اولاد کو دینی اقدار سکھلایا اور نہ مومن و کافر کا حقیقی فرق بتلایا، ان کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز رہی کہ میری بیٹی اعلی تعلیم حاصل کرلے، اسے اچھی نوکری مل جائے لیکن اس طرف قطعا توجہ نہ دی کہ ان حالات میں میری بیٹی مسلمان بھی رہ جائے گی کہ نہیں؟ انہیں یہ فکر تو صبح و شام دامن گیر رہی کہ میری بیٹی ڈاکٹر بن جائے، انجنیئر بن جائے لیکن مومن و مسلمان بھی بنے اس کے بارے میں شاید کبھی سوچا بھی نہ ہو، ان کی یہ کوشش ضرور رہی کہ میری بیٹی اچھے نمبرات حاصل کرے اسے اچھا ٹیوٹر ملے لیکن اس بارے میں کبھی بھی نہ سوچا کہ میری بیٹی کا استاذ دین و اخلاق کا بھی مالک ہے کہ نہیں، اگر بیٹی امتحان میں کم نمبر سے پاس ہوتی ہوگی تو سخت برہمی کا اظہار کیا ہوگا مارنے کی دھمکی دی ہوگی لیکن لڑکی نے نماز میں کوتاہی کی ہوگی تو اسکے عوض ماتھوں پر بل نہ آئے ہوں گے ، ان کی توجہ اس پر تو مرکوز رہی ہوگی کہ میری بچی انگریزی زبان بولنے اور سمجھنے لگے لیکن یہ کبھی نہ سوچا ہوگا کہ اسے قرآن مجید کا صرف ترجمہ ہی پڑھا دیا جائے، غرض یہ کہ اللہ تعالی کی طرف سے سونپی گئی حقیقی ذمہ داریوں کو وہ بھولے رہے، انہیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہمارے اوپر اولاد کی کیا ذمہ داری رکھی ہے۔
[يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالحِجَارَةُ] {التَّحريم:6} "ایمان والو! تم اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں"۔
نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے جس کسی بندے کو اللہ تعالی رعایا کی ذمہ داری دیتا ہے اور اس کی موت اس حالت میں ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ دھوکہ کرنے والا ہے تو اللہ تعالی اس پر جنت حرام کردیتا ہے۔
{صحیح بخاری و صحیح مسلم}۔
( 1 ) ہر ذی ہوش ماں باپ سے سوال ہے کہ دنیا میں اس سے بڑا دھوکہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ باپ اپنی اولاد کو دنیا کی عارضی زندگی میں کام آنے والے امور سے آشنا کرائے اور آخرت کی ابدی زندگی میں کام آنے والے امور کی طرف کوئی توجہ نہ ہو ، اللہ کی قسم اس سے بڑا دھوکہ اور خیانت دنیا میں اور کچھ نہیں ہے، لہذا جوباپ اپنی اولاد کو دین کی بنیادی باتوں سے آشنا نہیں کراتا ، دینی تعلیم نہیں دیتا، حجاب و پردہ کے احکام نہیں بتلاتا، غیر مردوں کے ساتھ اختلاط و خلوت سے نہیں روکتا، عریانیت سے دور نہیں رکھتا وغیرہ وغیرہ تو وہ اپنی اولاد کے ساتھ سب سے بڑا دھوکہ باز اور خائن ہے، پھر اگر لڑکی کوئی غلط قدم اٹھالیتی ہے تو دنیا میں رسوائی و ذلت اور آخرت میں دردناک عذاب کامستحق سب سے زیادہ اس کا باپ ہے۔
(2) اس موقع پر ایک اہم معاملہ یہ بھی قابل غور ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے لڑکی کی شادی کے لئے اس کے ولی کی اجازت ضروری ہے بلکہ ہر وہ نکاح جو ولی کی اجازت کے بغیر ہو باطل اور غیر شرعی قرار پاتا ہے، ارشاد نبوی ہے: جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح کرتی ہے تو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔
{ سنن ابو داود ،سنن الترمذی} ۔
ایک دوسری حدیث میں ارشاد نبوی ہے: کوئی عورت کسی عورت کی شادی نہ کرے اور نہ ہی کوئی عورت خود اپنی شادی کرے اور وہ تو زانیہ اور فاحشہ عورتیں ہیں جو [ولی کی اجازت کے بغیر] اپنا نکاح خود کرلیتی ہے۔
{سنن ابن ماجہ}۔
لہذا یہ امر اچھی طرح ذہن نشین رہنا چاہئے کہ کورٹ میرج اور لو میرج کرنے والی لڑکیاں اگر اس کا تدارک نہیں کرتیں تو بحکم شرع زنا کاری کی شکار ہیں اور ان کی اولاد حرام اولاد شمار ہوگی۔ یہ اس صورت میں ہے کہ جس لڑکے سے وہ لڑکی کورٹ میرج کررہی ہے وہ مسلمان ہے لیکن اگر کوئی لڑکی کسی غیر مسلم سے شادی کرتی ہے ، خواہ ولی کی اجازت ہی سے کیوں نہ ہو تو یہ معاملہ خطرناک سے خطرناک تر ہے کیونکہ شرعی طور پر ایسا نکاح باطل اور مزید یہ کہ ایسا عمل کفر اور دین سے ارتداد ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے: [وَلَا تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا] {البقرة:221} "اور مشرک مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو مت دو جب تک کہ وہ ایمان نہ لالیں ، نیز فرمایا: [لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ] {الممتحنة:10} "یہ مومنہ عورتیں ان کے یعنی کافروں کے لئے حلال نہیں اور وہ کافر مرد ان کے یعنی مسلمان عورتوں کے لئے حلال نہیں"۔ ان دونوں آیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کسی کافر مرد سے اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ برضا و رغبت مسلمان نہ ہوجائے ، لہذا اسے جائز سمجھنا، اس پر راضی ہونا، اس پر موافقت کا اظہار کرنا علماء کے نزدیک متفقہ طور پر کفر اور دین سے پھر جانا ہے.
لہذا معاملہ بڑا ہی خطرناک ہے ، وہ لڑکی جو کسی غیر مسلم سے شادی کرنا چاہتی ہے یا کررہی ہے اور اس کے والدین اگرچہ طوعا وکرھا اس پر موافقت ظاہر کررہے ہیں ، انہیں یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ ان کی لڑکی اور وہ خود دین اسلام سے نکل کر دین کفر میں داخل ہورہے ہیں، اللہ تعالی کے ولیوں کے گروپ سے جدا ہو کر اللہ تعالی کے دشمنوں اور شیطان کے ولیوں میں شامل ہورہے ہیں ، اور بالآخر جنتیوں کے گروہ سے کنارہ کش ہوکر جہنمیوں کے گروہ میں داخل ہوجارہے ہیں، ایسا شخص اگر نماز بھی پڑھتا ہے، روزہ بھی رکھتا ہے لیکن چونکہ اللہ تعالی کے حرام کردہ کام کو حلال سمجھ رہا ہے لہذا کافر ہے اور اس کے کفر پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے: [ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ] {محمد:28} "یہ اس لئے کہ وہ ایسی راہ پر چلے جس سے انہوں نے اللہ تعالی کو ناراض کردیا، اور اللہ تعالی کی رضامندی کے کام کو ناپسند کیا تو اللہ تعالی نے بھی ان کے تمام اعمال اکارت کردئے ۔
نیز جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے جس میں نہ تو ان کی قضا آئے گی کہ وہ مرجائیں اورنہ دوزخ کا عذاب ہی ان سےہلکا کیا جائے گا ، ہم ہر کافر کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں ، اور کافر لوگ اس [جہنم] میں چیخیں ماریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو نکال لے، اب ہم اچھے کام کریں گے، برخلاف ان کاموں کے جو کیا کرتے تھے، [لیکن جواب میں اللہ تعالی فرمائے گا] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچتا تھا، لہذا مزہ چکھو، ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں۔ {فاطر: 36-37} ۔
هذا والله أعلم
از قلم: شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

No comments:

Post a Comment