Thursday 27 January 2022

شام میں حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کی قبر کی بے حرمتی: حقیقت کیا ہے؟

شام میں حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کی قبر کی بے حرمتی: حقیقت کیا ہے؟


کچھ روز قبل شام میں صحابی رسول ؐحضرت حجر بن عدیؓ کی قبر کی بے حرمتی اور معجزانہ طور پر اُن کے جسدِ خاکی کے اب تک محفوظ رہنے کی خبر میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر لائی گئی اور اس حوالے سے ایک جعلی تصویر بھی ان کی طرف منسوب کر کے اس کو خوب عام کیا گیا جس پر پوری دنیا میں مسلمانوں کے اندر ایک بے چینی پائی گئی اور مختلف شکوک وشبہات اور سوالات نے ذہنوں میں جنم لیا،ہر جانب سے مذمتی بیانات آنا شروع ہوگئے، أسدی حکومت کے ساتھ ساتھ ایرانی اور عراقی حکومت نے اس پر خوب بناوٹی رونا رویا بلکہ ایران کے وزیر تعلیم علی أکبر زندی (أدیب) نے احتجاج کے طور پر وہاں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کچھ وقت کے لئے بند رکھنے کا حکم دے ڈالا، اس سب ڈرامے کی حقیقت کیا ہے آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
اس ڈرامہ کا آغاز اس وقت ہوا جب شام کے أسدی میڈیا نے بڑے زور وشور سے یہ خبر شائع کی کہ شام میں ایک مسلح گروپ ’’جبہۃ النصرۃ‘‘ نے دمشق کے اطراف ’عدرا‘ شہر میں حضرت حجربن عدی رضی اللہ عنہ کی قبر کھودکر ان کی بے حرمتی کی، اور ان کو کسی نا معلوم جگہ منتقل کر دیا گیا ہے، اوراس سلسلہ میں جبہۃ النصرۃ کی طرف منسوب ایک بیان بھی شائع کیا گیا، اس خبر کو کافی مذمتی انداز سے نشر کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ کام تکفیریوں اور دھشت گردوں نے کیا جو صحابہ کرام کی قبروں کا بھی احترام نہیں کرتے ہیں، بلکہ ان کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے....! اصل حقیقت کو جاننے سے قبل ’’جبہۃ النصرۃ‘‘ کی طرف منسوب بیان پڑھنا ضروری معلوم ہوتا ہے، یہاں اس کے عربی متن کے ایک حصہ کا اردو ترجمہ دیا جا رہا ہے:
’’زمین پر اللہ کی شریعت کو نافذ کرتے ہوئے اللہ کے فضل وکرم سے شرک کے اہم ذریعہ کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، اس لئے کہ حجر بن عدیؓ کے جسد خاکی کو دوسری جگہ دفن کرنے کے لئے منتقل کر دیا گیا ہے،کیونکہ شام کی کافر حکومت نے ان کی قبر کی جگہ ایک مزار بنالیا تھا، (اس کے بعد بیان کے عربی الفاظ یہ ہیں:’’ان المدعو حُجر بن عدی الکندی ھذا الخارج عن أصول الشریعۃ والسنۃ أضحی معبودا من قبل فرقۃ الرافضہ‘‘ یعنی:) اصول شریعت وسنت سے خارج حجر بن عدی نام کا یہ شخص رافضی فرقہ کے نزدیک ایک معبود کی شکل اختیار کر گیا ہے، جس کے لئے اللہ کی شریعت کے خلاف عبادت گاہ اور مزار بنا یا گیا تھا، لہذا جب ہمارے مجاہدین نے ’’عدرا‘‘ شہر کو کافر حکومت کی ناپاکی سے آزاد کرلیا تو وہاں حجر بن عدی کے مزار کی شکل میں موجود شرک کو ہمارے مجاہدین نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا..‘‘۔
مذکورہ بیان میں موجود عبارت ’’اصول شریعت وسنت سے خارج حجر بن عدی نام کا یہ شخص...‘‘ خاص طور پر قابلِ غور ہے، صرف یہی عبارت اس بیان کے جعلی ہونے کے لئے کافی ہے، کوئی بھی صحیح العقیدہ مسلمان صحابی رسولﷺ کے بارے میں ایسے الفاظ ہر گز استعمال نہیں کرسکتا ہے، حضرت حجر بن عدیؓ صحابی رسول ہیں، اہل سنت والجماعت کے نزدیک کسی بھی صحابی کی بے حرمتی، ان کے بارے میں بد کلامی کرنا، زبان طعن وتشنیع دراز کرناکسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، لہذا جبہۃ النصرۃ کے ذریعہ اس طرح کی زبان کا استعمال کیسے ممکن ہے؟!
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس بیان کااصل مصدر کیا ہے؟ بشار نواز تمام سائٹس (جن میں ’’براثا‘‘ سائٹ خاص طور پر قابل ذکر ہے) پر اس بات کا دعوی کیا گیا ہے کہ جبہۃ النصرۃ کے فیس بک پیج پر یہ بیان نشر کیا گیا ہے، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ شام کی اس تنظیم کو امریکہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دئے جانے کے بعد امریکی انتظامیہ کے حکم پر ’’جبہۃ النصرۃ‘‘ کے نام کا ان کا آفیشیل پیج ۱۶/۱۲/۲۰۱۲ کو بند کر دیا گیا تھا...!! اب جبہۃ النصرۃ کا فیس بک پر سرے سے کوئی آفیشیل پیج ہی نہیں ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے اس طرح کا کوئی بیان نشر کیا گیا جس میں اس ڈرامہ کو اپنی طرف منسوب کیا ہو، بلکہ شام کے الجیش الحر، جبہۃ النصرۃ اور تمام گروہوں نے اس بیان کی سختی سے تردید کی اور اس واقعہ کے حوالے سے کسی طرح کی بھی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا، البتہ لگتا ایسا ہے کہ أسدی کارندوں کے ذریعہ اس ڈارامے کو عام کرنے کے بعد اکثر حضرات نے اس کی اصل حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اس پر من وعن یقین کر لیا حالانکہ اس سلسلہ میں شائع شدہ سینکڑوں خبروں اور مضامین کے ساتھ کہیں بھی کسی نے اس بیان کی اصل کاپی دکھانے یا شائع کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی، کیونکہ اس کی کوئی اصل ہے ہی نہیں!
رہا یہ سوال کہ جس قبر کی تصویر پوری دنیا میں پھیلائی گئی جس کے پاس دو مسلح افراد کھڑے نظر آتے ہیں، قبر کی اس تصویر کواگر حقیقی بھی مانا جائے (حالانکہ یہ سب کچھ ایک ڈرامہ ہے)تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا بھی مصدر کیا ہے؟ اگر مسلح افراد جبہۃ النصرۃ سے تعلق رکھتے ہیں اور انہی کے ذریعہ یہ تصویر بنائی گئی ہے جیسا کہ دعوی کیا گیا ہے،تو جبہۃ النصرۃ یا الجیش الحر کے صفحات پر اس کو سب سے پہلے شائع ہونا چاہئے تھاجبکہ یہ تصویر صرف اور صرف أسدنواز سائٹس پر شائع کی گئی...! اور قبر کے پاس موجود مسلح افراد کے کندھوں پر جو سٹار لگے ہیں وہ صاف اور واضح طور پر أسدی فوجی نظر آتے ہیں، اور تعجب کی بات یہ ہے کہ مزعومہ قبرچاروں طرف سے نہایت ہی مرتب انداز سے کھودی گئی ہے ایسا کہیں سے بھی نہیں لگتا ہے کہ یہ کسی ایسے شخص نے جلدی جلدی کھودی ہو جسے کہیں سے یہ خطرہ ہو کہ کوئی حملہ کر سکتا ہے!!
اس ڈرامے کے فورا بعد حضرت حجر بن عدیؓ کے جسد خاکی کی طرف منسوب ایک’ معجزانہ تصویر‘ بھی شائع کی گئی جس میں دعوی کیا گیا کہ ہزاروں سال گذرنے کے بعد بھی اب تک ان کا جسم محفوظ ہے، لیکن چند ہی گھنٹے بعد اس کا پردہ بھی چاک ہوگیا کہ یہ تصویر حقیقت میں شامی شہداء میں سے ایک شہید ’’محروس الشریجی‘‘ کی ہے جو ۱؍۵؍۲۰۱۳ء کودمشق کے مضافات ’’حزہ‘‘ شہر میں شہید ہوئے تھے، اس تصویر کی اصل حقیقت جاننے کے لئے یوٹوب پر اس لنک کو دیکھا جاسکتا ہے.
اسی تصویر کو حضرت حجر بن عدیؓ کی طرف منسوب کر کے پوری دنیا کے مسلمانوں کو بے وقوف بنایا گیا، سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے اس تصویر کو گردش کرتے ہوئے دیکھا تو لوگوں کے تبصرے مختلف ومتنوع تھے، بعض کا کہنا تھا کہ الحمد للہ صحابی کی زیارت نصیب ہوگئی!!
بہرحال حقیقت بالکل واضح ہے کہ أسدی گماشتوں اور ان سے ساز باز رکھنے والوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کی طرف سے یہ ایک ڈرامہ رچا گیا جس کے ذریعہ ایک طرف تواپنے مخالفین کی بدنامی مقصود تھی، اور دوسری طرف شام میں ہونے والے قتل عام، خاص طور پر بانیاس اور البیضا کے قتل عام سے دنیا کی توجہ ہٹانا مقصود تھا،جس سے توجہ ہٹانے کے لئے اسرائیل تک کو استعمال کرکے شام پر حملے کرائے گئے!!
اگر قبر کے اس ڈرامے کو صحیح بھی مانا جائے تو أسدی حکومت سے کونسا بعید ہے کہ انہوں نے یہ بذاتِ خود کیا ہو جنہوں نے شام کے موقر علماء کو بھی نہیں بخشا، جو قصاب روزانہ دسیوں اور سینکڑوں خواتین، بچوں اور بزرگوں کا خون کر رہا ہو،جو اب تک ایک لاکھ سے زائدبے گناہوں کا قتل عام کرچکا ہو، جس کے ہاں انسانی خون کا کوئی احترام نہ ہو، کیا اس سے کسی صحابی کے احترام کی توقع کی جاسکتی ہے؟ کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس جھوٹے ڈرامے پر تو یہ سب جھوٹا رونا رو رہے ہیں مگر ذبح کئے جانے والے ہزاروں بھائیوں ،بہنوں، بچوں کابے دردی سے خون کرتے ہوئے ان کو ذرہ برابر رحم نہیں آرہا ہے!
حقیقت یہ ہے کہ أسدی ٹولہ اب آخری سانس لے رہا ہے،وہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے ہر طرح کے ہھتگنڈے استعمال کر رہے ہیں، اوروہ اس کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں،یہاں تک کہ اپنے درپردہ دوست اسرائیل کو بھی اب اس کے لئے متحرک کردیا ہے، کیونکہ بشار کے بعد کا مرحلہ اسرائیل کے لئے نہایت ہی پریشان کن ہے، محافظین جب چلے جائیں گے تو پھر اسرائیل کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں بچے گا،یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی برادری نے بھی اسرائیل کے وسیع تر مفادات کی خاطر شامی مظلوموں کو تنہا چھوڑ دیا ہے، اور صرف بیان بازی کی سیاست چلائی جا رہی ہے، اس لئے اب داخلی اور خارجی ہر اعتبار سے بقاء کی جنگ لڑی جارہی ہے، اور اس کے لئے صحابہ کی مقدس شخصیات کو بھی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ظالم ومظلوم کے درمیان فرق کرکے حقائق کی تہہ تک پہنچا جائے، نہ یہ کہ دور سے بیٹھ کر کسی بھی ذریعہ سے آنے والی خبر کو من وعن تسلیم کرکے امت میں انتشار پیدا کیا جائے اور ظالم کی ہاں میں ہاں ملا کر اس کو تعاون فراہم کیا جائے۔ (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/01/blog-post_85.html

أسانيد الصحاح الست

أسانيد الصحاح الست 
---------------------------
---------------------------
الحمدُللهِ ربِّ العالمينَ، والصَّلاةُ والسَّلام على نبيِّنا محمَّدٍ المبعوث رحمةً للعالمينَ، وعلى آله وصحبه والتابعين لهم بإحسان إلى يوم الدين. أما بعد .. فيقول العبدالفقير إلى رحمة ربه القدير شكيل منصور القاسمي إن الأخ ........................ طلب مني أن أجيزله عبر الهاتف بعد قراءة الأطراف من أمهات الست أن يروى عني وعن مشائخي الكرام جمعني الله وإياهم في دارالسلام، فأجزت له إجازة عامة بالشروط المعتبرة عند أهل الحديث والأثر. 
فإني قد أجزته أن يروي عني الكتب المذكورة أدناه  بأسانيدها المتصلة إلى مؤلفيها،
وأوصيه بتقوى الله والعناية بالسنة المشرفة والتحلي بالآداب والأخلاق الحسنة .
 وأما صحيح البخاري 
فحدثنا الشيخ نصير أحمد خان بن عبدالشكور البلند شهري رئيس هيئة التدريس وشيخ الحديث بالجامعة الإسلامية دارالعلوم/ ديوبند (الهند)
1335-1431هـ = 1916-2010م 
والشيخ عبدالحق الأعظمي رحمهما الله تعالى قالا حدثنا شيخ الإسلام السيد حسين أحمد المدني عن شيخ الهند المحدث البارع محمود حسن الديوبندى عن الحجة العارف محمد قاسم النانوتوي الديوبندي وعن المحدث الحجة مولانا رشيد أحمد الكنكوهي كلاهما عن الشيخ المحدث العلامة عبدالغني المجددي الدهلوي عن الشاه محمد أسحاق الدهلوي بسماعه لجميعه عن عبدالعزيز الدهلوي بسماعه عن  والده الشاه ولي الله الدهلوي قال أخبرني أبوطاهر محمد بن إبراهيم الكوراني قال أخبرني والدي إبراهيم الكردي – بضم الكاف وإسكان الواو والراء المهملة بعدها ألف ونون نسبة إلى قرى شهرزور – عن الشيخ السلطان بن أحمد المزاحي قال أخبرنا أحمد شهاب الدين السبكي عن النجم الغيطي عن الزين زَكَرِيَّا بْنُ مُحَمَّدٍ الأَنْصَارِيُّ عن الحافظ أحمد بن حجر العسقلاني عن الأستاذ إبراهيم بن أحمد التَّنوخي، عن أبي العباس أحمد بن أبي طالب الحجَّار، عن أبي عبد الله الحسين بن مبارك الزَّبيدي ثم البغدادي، عن أبي الوقت عبد الأول بن عيسى بن شُعيب السّجْزي – بكسر السين المهملة والزاي – الهَرَوي، عن أبي الحسن عبدالرحمن ابن محمد بن مظفر بن داود الداوودي البُوشَنجي، عن أبي محمد عبدالله بن أحمد بن حَمُّويه السَّرَخسي، عن أبي عبد الله محمد بن يوسف بن مطر بن صالحبن بشر الفِرَبْرِي، عن أميرالمؤمنين في الحديث الجهبَذ الإمام أبي عبدالله محمدبن إسماعيل ابن إبراهيم بن المُغيرة ابن بَرْدِزْبَة البخاري الجُعفي رحمه الله تعالى
ح) وللشيخ نصير أحمد إسناد عال جدا" فله إجازة من الشيخ الزاهد العلامة عبدالرحمن الأمروهي وهو عن العلامة فضل الرحمان الكنج مراد آبادي و هو يروي من جانب عن الشيخ محمد إسحاق الدهلوي وعن الشيخ إسماعيل الشهيد الدهلوي، وهما يرويان عن الشيخ عبد العزيز الدهلوي والشيخ رفيع الدين الدهلوي عن أبيهما الشاه ولي الله الدهلوي.
ح) و يروي الشيخ فضل الرحمان الكنج مراد آبادي مباشرة عن الشاه عبد العزيز الدهلوي عن أبيه ولي الله الدهلوي بالسند السابق.
قلت والسند الأخير هو أعلى أسانيد الشيخ نصير أحمد الذي يمتاز به عن كثير من معاصريه وبه يعلو إسنادنا.
وأما صحيح مسلم 
فحدثنا الشيخ قمر الدين الغُورَكْفوري (المجلد الأول) وحدثنا الشيخ محمد نعمت الله الأعظمي (المجلد الثاني) قالا حدثنا الشيخ العلامة محمد إبراهيم البَلْياوي قال حدثنا شيخ الهند الشيخ محمود حسن الديوبندي قال حدثنا  حجة الاسلام مولانا محمدقاسم النانوتوي قال حدثنا الشاه عبدالغني المجددي قال حدثنا الشاه محمداسحاق الدهلوي قال 
الشاه عبدالعزيز المحدث الدهلوي 
قال حدثنا والدي الشاه ولي الله المحدث الدهلوي  قال حدثنا أبو طاهر محمد بن إبراهيم المدني قال حدثنا أبي إبراهيم الكردي  قال حدثنا الشيخ سلطان المزاحي قال حدثنا شهاب الدين أحمد بن خليل السبكي قال حدثنا نجم الدين غيطي قال حدثنا زين الدين  زكريا قال حدثنا ابن الحجر العسقلاني قال حدثنا صلاح بن أبي عمر المقدمي قال حدثنا فخر الدين أبو الحسن علي بن أحمد بن عبدالهاد المعروف بابن البخاري قال حدثنا 
أبوالحسن المؤيد بن محمد الطوسي النيسابوري بسماعه من فقيه الحرم أبي عبدالله محمد بن الفضل الفراوي أنا أبوالحسن عبد الغافر بن محمد بن عبدالغافر الفارسي أنا أبو أحمد محمد بن عيسى الجلودي ثنا أبواسحاق إبراهيم بن محمد بن سفيان الزاهد النيسابوري عن  الإمام الحافظ أبي الحسين مسلم بن الحجّاج القُشيْرِي النَّيسابوري.
وأما سنن أبي داؤد
فحدثنا الشيخ نعمة الله الأعظمي (المجلد الأول) قال حدثنا الشيخ إعزاز علي الأمروهوي  وحدثنا الشيخ حبيب الرحمن الأعظمي (المجلد الثاني) قال حدثنا الشيخ فخرالحسن المرادآبادي قالا حدثنا شيخ الإسلام السيد حسين أحمد المدني قال حدثنا شيخ الهند محمود حسن الديوبندي قال حدثنا الحجة العارف الشيخ محمد قاسم النانوتوي قال حدثنا عبد الغني المجددي الدهلوي قال حدثنا محمد إسحاق الدهلوي قال حدثنا عبد العزيز الدهلوي عن أبيه رئيس الفقهاء والمحدثين مسند الوقت آية من آيات الله الشيخ ولى الله بن الشيخ عبدالرحيم الدهلوي، عن الشيخ العلامة أبي طاهر محمد بن إبراهيم الكردي، عن أبيه الشيخ إبراهيم الكردي، عن الشيخ صفی الدین أحمـد بن محمد المدني القشاشي، عن الشيخ شمس الدين محمد بن الحافظ زین الدین زكريا بن محمد الأنصاري، عن الإمام الحافظ ابن حجر العسقلاني، عن الشيخ عمر بن الحسن المراغى، عن العالم الفقيه رحلة الآفاق فخرالدين أبي الحسن على بن أحمد بن عبدالواحد المعروف بابن البخاري، عن الشيخ عمر بن محمد بن طبرزد البغدادي، قال: أخبرنا به الشيخان أبوالبدر إبراهيم بن محمد بن منصور الكرخي وأبو الفتح مفلح بن أحمد بن محمد الدومي ساعا عليها، قالا: أخبرنا به الحافظ الكبير أبوبكر أحمد بن على بن ثابت الخطيب البغدادي، أنا أبوعمر القاسم بن جعفر بن عبدالواحد الهاشمي، أنا أبوعلى محمد بن عمرو اللؤلؤى، أنا أبوداود السجستاني رضى الله. عنهم.
وأما جامع الترمذي 
فحدثنا الشيخ سعيد أحمد البالنبوري (المجلد الأول) وحدثنا الشيخ السيد محمد أرشد مدني (المجلد الثاني) قالا حدثنا العلامة محمد إبراهيم البلياوي قال حدثنا شيخ الهند محمود حسن الديوبندي قال حدثنا الحجة العارف الشيخ محمد قاسم النانوتوي قال حدثنا عبد الغني المجددي الدهلوي قال حدثنا محمد إسحاق الدهلوي قال حدثنا عبدالعزيز الدهلوي قال حدثنا الشاه ولي الله الدهلوي عن الشیخ ابي طاہر محمد بن ابراھیم بن حسن الکردی الکورانی عن الشیخ شهاب الدین ابراھیم بن حسن الکردی الکورانی عن شیخ القراء سلطان بن احمد المزّاحی المصری الشافعیؒ عن الشیخ شهاب الدین احمد بن خلیل المصری الشافعی السُبکیؒ عن شیخ الاسلام نجم الدین محمد بن احمد الغیطی الإسکندری المصری الشافعیؒ عن شیخ الاسلام قاضی القضاۃ زین الدین زکریا بن محمد الأنصاری الشافعیؒ عن مسند مصر قاضی القضاۃ عزّالدین عبدالرحیم بن ناصرالدین المصری الحنفیؒ عن الشیخ عمر بن حسن مَراغی الحلبی الدمشقی عن ابي الحسن فخرالدین علی بن احمد المَقدسی الحنبلیؒ المعروف بابن البخاری عن أبي حفص عمر بن محمد المعروف بابن طَبَرْزَدْ البغدادیؒ عن الشیخ ابي الفتح عبدالملک بن عبداللہ الهروی الکرخیؒ عن ابي عامر محمود بن القاسم الأزدی المهلبیؒ عن الشیخ ابي محمد عبدالجبار بن محمد ابي الجرّاح  الجرّاحی المروزی المرزبانیؒ عن ابي العباس محمد بن احمد بن محبوب  بن فضيل التاجر المحبوبی المروزیؒ عن ابي عیسی بن سورۃ الامام الترمذیؒ
وأما سنن النسائي 
فحدثنا الشيخ قمرالدين قال حدثنا الشيخ بشير أحمد خان البلند شهري قال حدثنا الشيخ محي الدين الغلاؤتي قال حدثنا شيخ الهند محمود حسن الديوبندي قال حدثنا الحجة العارف الشيخ محمد قاسم النانوتوي قال حدثنا عبد الغني المجددي الدهلوي قال حدثنا محمد إسحاق الدهلوي قال حدثنا عبدالعزيز الدهلوي قال حدثنا الشاه ولي الله الدهلوي قال أخبرني أبو طاهر محمد بن إبراهيم الكوراني قال أخبرني والدي إبراهيم الكردي عن الشيخ السلطان بن أحمد المزاحي قال أخبرنا أحمد شهاب الدين السبكي عن النجم الغيطي عن الزين زَكَرِيَّا بْنُ مُحَمَّدٍ الأَنْصَارِيُّ 
قال حدثنا الشيخ عزالدین عبدالرحيم ابن فرات قال حدثنا عمر الـمـراغـي قـال حـدثـنا الشيخ فخر ابن البخاري قال حدثنا الشيخ احمد ابن محمد اللبان قال حدثنا الشيخ ابوعلى حسن ابن احمد الحداد قال حدثنا أبونصر احمد ابـن الـحـسـن الـكسار قال حدثنا ابو بکر احمد ابن محمد الدينوري المعروف بابن السـنـى قـال حـدثـنـا ابـو عبـدالـرحـمن احمد ابن شعیب ابن علی ابن بحر النسائي صاحب الكتاب رحمه الله.
وأما سنن ابن ماجة 
فحدثنا الشيخ رياست علي البجنوري قال حدثنا الشيخ المقري محمد طيب قال حدثنا الشيخ العلامة محمد أنور شاه الكشميري قال حدثنا شيخ الهند محمود حسن الديوبندي قال حدثنا الحجة العارف الشيخ محمد قاسم النانوتوي قال حدثنا عبدالغني المجددي الدهلوي قال حدثنا محمد إسحاق الدهلوي قال حدثنا عبدالعزيز الدهلوي قال حدثنا الشاه ولي الله الدهلوي 
قال أخبرني أبوطاهر محمد بن إبراهيم الكوراني قال أخبرني والدي إبراهيم الكردي عن الشيخ السلطان بن أحمد المزاحي قال أخبرنا أحمد شهاب الدين السبكي عن النجم الغيطي عن الزين زَكَرِيَّا بْنُ مُحَمَّدٍ الأَنْصَارِيُّ عن الحافظ أحمد بن حجر العسقلاني عن أبي الحسن علي بن محمد الدمشقي عن أبي العباس أحمد بن أبي طالب الحجَّار
عن الأنجب ابن أبي السعادات أنا أبو زرعة طاهر بن الحافظ أبي الفضل محمد بن طاهر المقدسي أنا أبو منصور محمد بن الحسين بن الهيثم المقومي أنا أبوطلحة القاسم الخطيب ابن أبي البدر أنا أبو الحسن علي بن إبراهيم بن سلمة بن بحر القطان أنا به مؤلفه أبو عبد الله ابن ماجة القزويني
وأما الموطا للامام مالك رحمه الله 
فحدثنا الشيخ الاستاذ محمد عثمان المنصورفوري قراءۃً علیه 
قال حدثنا الشيخ محمد بشير أحمد البلند شهري قال حدثنا الشيخ الكبير العلامة محمد انورشاه الكشميري قال حدثنا شيخ الهند محمود حسن الديوبندي قال حدثنا الحجة العارف الشيخ محمد قاسم النانوتوي قال حدثنا عبدالغني المجددي الدهلوي قال حدثنا محمد إسحاق الدهلوي قال حدثنا عبدالعزيز الدهلوي عن أبيه الإمام، صدرالأئمة الأعلام حجة الإسلام أبي عبد العزيز قطب الدين أحمد، المدعو بولي الله بن أبي الفيض عبدالرحيم العمري، قال أخبرنا بجميع ما في الموطأ، رواية يحيى بن يحيى المصمودي، الشيخ محمد وفد الله المكي المالكي، قراءة عني عليه من أوله إلى آخره، بحق سماعه لجميعه على شيخي الحرم المكي: حسن بن علي العجيمي، والشيخ عبد الله بن سالم البصري المكي، قالا: أخبرنا الشيخ عيسى المغربي سماعا من لفظه في المسجدالحرام، بقراءته لجميعه على الشيخ السلطان ابن أحمد المزاحي، بقراءته لجميعه، على الشيخ أحمد بن خليل السبكي، بقراءته لجميعه على النجم الغيطي، بسماعه لجميعه على الشرف عبد الحق بن محمد السنباطي. بسماعه لجميعه على البدرالحسن بن محمد بن أيوب الحسنى النسابة، بسماعه لجميعه على عمه أبي محمد الحسن بن أيوب النسابة، بسماعه على أبي عبد الله محمد بن جابر الوادياشي عن أبي محمد عبدالله بن محمد بن هارون القرطبي، سماعا عن القاضي أبي القاسم أحمد ابن يزيد القرطبي، سماعا عن محمد بن عبدالرحمن بن عبدالحق الخزرجي القرطبي، سماعا على أبي عبدالله محمد بن فرج مولی ابن الطلاع، سماعا عن أبي الوليد يونس بن عبدالله ابن مغيث الصفار، سماعا عن أبي عيسى يحيى بن عبدالله سماعا، قال: أخبرنا عم والدي عبيدالله بن يحيى سماعا، قال: أخبرنا والدي يحيى بن يحيى الليثي المصمودي سماعا عن إمام دارالهجرة مالك بن أنس - رضي الله عنه – إلا أبوابا ثلاثة من آخر الاعتكاف فعن زياد ابن عبدالرحمن عن الإمام مالك بن أنس.
وصلى الله وسلم على سيدنا محمد وآله وصحبه أجمعين، والحمد لله رب العالمين .
شكيل منصور القاسمي خادم الحديث النبوي الشريف 
المتوطن سيّدفور، مديرية بيجوسرائے، بيهار، الهند
https://saagartimes.blogspot.com/2022/01/blog-post_27.html

Friday 21 January 2022

لا حول ولا قوۃ الا باللہ لا منجا من اللہ الا الیہ کی فضیلت کیا ہے؟

لا حول ولا قوۃ الا باللہ لا منجا من اللہ الا الیہ کی فضیلت کیا ہے؟
حدثنا ابوكريب، حدثنا ابوخالد الاحمر، عن هشام بن الغاز، عن مكحول، عن ابي هريرة، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اكثر من قول لا حول ولا قوة إلا بالله، فإنها كنز من كنوز الجنة قال مكحول: فمن قال: لا حول ولا قوة إلا بالله ولا منجا من الله إلا إليه كشف عنه سبعين بابا من الضر ادناهن الفقر". قال ابو عيسى: هذا حديث ليس إسناده بمتصل، مكحول لم يسمع من ابي هريرة.
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”«لا حول ولا قوة إلا بالله» کثرت سے پڑھا کرو، کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے“۔ مکحول کہتے ہیں: جس نے کہا: 
«لا حول ولا قوة إلا بالله ولا منجا من الله إلا إليه» 
تو اللہ تعالیٰ اس سے ستر طرح کے ضرر و نقصان کو دور کردیتا ہے، جن میں کمتر درجے کا ضرر فقر (و محتاجی) ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:
اس کی سند متصل نہیں ہے، مکحول نے حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے نہیں سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14621) (صحیح) (سند میں مکحول اور ابوہریرہ کے درمیان انقطاع ہے، اس لئے مکحول کا قول، سنداً ضعیف ہے، لیکن مرفوع حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، الصحیحة 105، 1528)»
---------
راوی: وعن مكحول عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "أكثر من قول: لا حول ولا قوة إلا بالله فإنها من كنزالجنة". قال مكحول: فمن قال: لا حول ولا قوة إلا بالله ولا منجى من الله إلا إليه كشف الله عنه سبعين بابا من الضر أدناها الفقر . رواه الترمذي. وقال: هذا حديث ليس إسناده بمتصل ومكحول لم يسمع عن أبي هريرة
حضرت مکحول رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "لاحول ولاقوۃ الا باللہ" 
کثرت سے پڑھا کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے! حضرت مکحول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص یہ کہے:
"لا حول ولا قوۃ الا باللہ ولا منجأ من اللہ الا الیہ"
یعنی ضرر ونقصان کو (دفع کرنے کی) قوت اور نفع حاصل کرنے کی طاقت اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی قدرت کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات اسی (کی ورضا ورحمت کی توجہ) پر منحصر ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ضرر و نقصان کی ستر قسمیں دور کر دیتا جس میں ادنی قسم (فقر ومحتاجگی ہے) امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کی سند متصل نہیں ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت مکحول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سماعت ثابت نہیں ہے۔
تشریح: ارشاد گرامی "جنت کا خزانہ" کا مطلب یہ ہے کہ 
"لا حول ولا قوۃ الا باللہ"
جنت کا ایک ذخیرہ ہے جس سے کہ اس کو پڑھنے والا اس دن (یعنی قیامت کے دن) نفع وفائدہ حاصل کرے گا جس دن نہ دنیا کا کوئی خزانہ مال کا کام آئے گا اور نہ اولاد اور دوسرے عزیز واقا رب نفع پہنچائیں گے۔
فقر (محتاجگی) سے مراد دل کا فقر اور قلب کی تنگی ہے جس کے متعلق ایک حدیث یوں ہے فرمایا کہ 
"کاد الفقر ان یکون کفرا"
فقر کفر کے قریب پہنچا دیتا ہے. لہٰذا جو شخص ان کلمات کو پڑھتا ہے تو اس کی برکت سے دل کی محتاجگی دور ہوتی ہے کیونکہ جب وہ ان کلمات کو زبان سے ادا کرتا ہے اور پھر ان کلمات کے معنی ومفہوم کا تصور کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ یقین واعتماد پیدا ہوا جاتا ہے کہ ہر امر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے ہر چیز اسی کے قبضہ قدرت کے زیر اثر ہے کسی کو نفع وفائدہ آرام و راحت دنیا میں بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور کسی کو تکلیف ومصیب اور ضرر ونقصان میں مبتلا کر دینا بھی اسی کی طرف سے ہے پس وہ شخص بلاء ومصیبت پر صبر کرتا ہے، نعمت و راحت پر شکر کرتا ہے اپنے تمام امور اللہ ہی کی طرف سونپ دیتا ہے اور اس طرح قضا وقدر الٰہی پر راضی ہوکر حق تعالیٰ کا محبوب بندہ اور دوست بن جاتا ہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اپنی ایک سیاحت کے دوران جن صاحب کی رفاقت و صحبت مجھے حاصل رہی. انہوں نے مجھے نیکی وبھلائی کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ خوب اچھی طرح جان لو! اعمال نیک کے لئے اقوال وکلمات میں تو 
"لاحول ولاقوۃ الا باللہ"
کے برابر کوئی قول وکلمہ اور افعال میں اللہ کی طرف جھکنے اور اس کے فضل کی راہ کو اختیار کرنے کے برابر کوئی فعل ممد و معاون نہیں۔ آیت 
(ومن یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط مستقیم) 
جس شخص نے اللہ کی راہ دکھائی ہوئی کو اختیار کیا تو بلاشبہ اسے مضبوط راہ کی ہدایت بخشی ہوگی۔
امام ترمذی کے قول کے مطابق اگرچہ اس حدیث کی سند متصل نہیں اور اس طرح یہ حدیث منقطع ہے لیکن اس حدیث کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ روایت صحیح ثابت کرتی ہے جو صحاح ستہ میں بطریق مرفوع منقول ہے کہ:
"لا حول ولا قوۃ الا باللہ فانہا کنز من کنوز الجنۃ"
اسی طرح حدیث کی توثیق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت مرفوع سے بھی ہوتی ہے جسے نسائی اور بزاز نے نقل کیا ہے:
"لا حول ولا قوۃ الا باللہ"
اور اس میں 
"لا منجا من اللہ الا الیہ کنز من کنوز الجنۃ"
بھی ہے لہٰذا حضرت مکحول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث اگرچہ اسناد کے اعتبار سے منقطع ہے مگر مفہوم ومعنی کے اعتبار سے قابل اعتماد ہے. (تسبیح، تحمید تہلیل اور تکبیر کے ثواب کا بیان جلد دوم مشکوۃ شریف. جلد دوم ۔ تسبیح، تحمید تہلیل اور تکبیر کے ثواب کا بیان ۔ حدیث 850. لاحول ولاقوۃ کی فضیلت) (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/01/blog-post_80.html

خودساز وعہد ساز شخصیت - مولانا محمد صابر نظامی القاسمی

خودساز وعہد ساز شخصیت - مولانا محمد صابر نظامی القاسمی 
---------------------------------
عظیم انسانوں سے بھری اس کائنات میں بعض نابغہ روزگار شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو در اصل ملی ضرورتوں کے لئے ہی پیدا کردہ ہوتی ہیں، جن کے ذریعہ قوم وملت کی اہم اجتماعی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے، جن کی ساری کد و کاوش اور محنت وریاضت کا محور قوم وملت کا عمومی مفاد ہوتا ہے۔ 
جن کی فکر "آفاقی" اور پرواز "لولاکی" ہوتی ہے 
جو خوب سے "خوب تر" کی تلاش میں ایک کے بعد دوسرا پڑائو ڈالتے آخر  ایک  "جہانِ تازہ" آباد کر چھوڑتے ہیں۔ قومی وملی خدمات کی تاریخ اپنی تکمیل و تعمیر کے لئے ایسی عظیم ہستیوں کا سہارا لیتی اور اپنے آپ کو مکمل کرنے کے لئے ان کا حوالہ دیتی ہے ۔ہم ان کی خدمات کے اعتراف سے چاہے پہلو تہی کرلیں؛ پَر ان کے انفاس کی خوشبو بکھر کے ہی رہتی ہے، حقیقت کا روشن چہرہ سامنے آکے ہی رہتا ہے۔ قانون فطرت ہے، قربانیوں اور انتھک جد وجہد کی سچے داستانوں کو تادیر چھپایا نہیں جاسکتا. طلوع سحر کو پابند سلاسل کیا جاسکتا نہ اس پہ پہرہ بٹھایا جاسکتا ہے. آفتاب عالم تاب کو نکلنا ہے؛ سو وہ نکل کے ہی رہتا ہے.
میرے استاذ، مربّی، مصلح، محسن، کرم فرما، ہمدرد وغمگسار، استاذ الاساتذہ حضرت الحاج مولانا محمد صابر نظامی صاحب القاسمی مدظلہ ایک غریب ومحنت کش خانوادے میں آنکھیں کھولیں، محنت و مزدوری کرتے ہوئے اپنی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کی، تعلیم ظاہری سے فراغت کے بعد ملی کاموں میں تن ومن سے انہماک کو مقصد حیات بنالیا، ملک کی باوقار تنظیم جمعیت علماے ہند سے وابستہ ہوئے اور کہیے کہ اسی کا ہوکے رہ گئے، میدان عمل میں کود کر اپنا تاریخی کردار اور عصری فریضہ نہایت خلوص، دیانت داری اور مردانگی سے ادا کیا، میرے علم کے مطابق قریباً تین دہائیوں سے آپ اس سے اپنے جسم وجاں، قلب وقالب : یعنی کہ پورے وجود کے ساتھ ہمہ جہت مربوط و مصروف ہیں، جمعیت سے وابستگی کو نہ صرف پورے خلوص سے استوار رکھا، بلکہ ضلعی شاخ کو عروج وکمال بخشا، کم وبیش 30 سال سے آپ یہاں سرگرم وتازہ دم ہیں، ادارے کی توسیع وترقی کے لیے سائیکل پہ، پیادہ پا، کبھی جیب خاص سے کرائے کی گاڑیوں سے، چپہ چپہ، قریہ قریہ، گائوں گاؤں گشت کرنا، کبھی نزاعی قضیے چکانا آپ کا محبوب مشغلہ ہے.
اپنا تاریخی کردار اور عصری وملی فریضہ نہایت خلوص، دیانت داری اور مردانگی سے ادا کررہے ہیں، مفادات حاصلہ کے لئے  لگے ہوڑ اور شخصی تگ ودو کے آج کے مسابقتی زمانے میں علماے دیوبند کے اخلاص، للّٰہیت، استغناء وتوکل علی اللہ کی شاندار روایت کو بڑی پامردی اور حوصلہ مندی سے باقی رکھا، کبھی بھی خود کو "ضمیر" "عوام" اور "تاریخ" کے سامنے شرمندہ نہیں ہونے دیا۔ اس بابت لوگ آپ کی مثالیں دیتے ہیں۔
بلندحوصلگی، کشادہ نظری اور حلم مزاجی کے ساتھ آپ نہ صرف "بلندیِ فکر" کے حامل ہیں؛ بلکہ اپنے بلندافکار کو عمل کے سانچے میں ڈھالنے کی غیر معمولی خدا داد صلاحیت رکھتے ہیں۔ نری فکر اور خشک وسہانے خواب نتیجہ خیز نہیں ہوتے ؛ جب تک انہیں تشکیل، تعمیر وتعمیل کے لئے عملی تصویر دینے کی متجسم اخلاقی طاقت، جذبہ ایثار وقربانی، اور حکمت وبصیرت حاصل نہ ہو!  
جمعیت العلماء جیسی روشن تاریخ رکھنے والی عظیم ملکی تنظیم سے ذاتی، یا ادارتی پر خاش رکھنے والے، منفی تبصروں اور حاشیہ آرائی کرنے والے بعض نوجوان مقامی فضلاء کو پوری بصیرت ودور اندیشی کے ساتھ ضلعی جمعیت سے جوڑا، انہیں آگے کیا، ذمہ داریاں دیں، ان کی مثبت ومفید صلاحیتوں سے ملت کو استفادے کا موقع فراہم کیا۔ اور یوں آج  ایک پوری کار کرد وفعال ٹیم ان کے ہمراہ سرگرم سفر ہے بحمدللہ سرخیوں میں آنے اور ذاتی پبلسٹی سے طبعی نفور رکھنے والے اس مرد مجاہد کی زندگی کا قابل ذکر ممتاز وصف "قول وفعل اور عمل وکردار کی سچائی" ہے. 
آپ کے اسی کردار نے ملی میدان میں آپ کی عظمت کو نکھارا، آپ کو رفعتیں عطا کیں، اور آج صوبائی طور پہ ایک عظیم انسان، نمایاں وقابل اعتماد قائد کی حیثیت سے جگہ دیکر تاریخ میں امر کردیا. بلکہ سچ یہ ہے کہ ملی خدمات کو اپنے کردار سے معتبر و باوقار بنا کر "تاریخ ساز" کی حیثیت سے آج آپ نے شہرت و اہمیت حاصل کی۔ ملک کے اکابر نے آپ کی شفافیت اور ان مٹ بے لوث خدمات کے باعث صوبائی اکائی میں انتہائی اہم لیکن نازک وحساس ذمہ داری تفویض فرمائی. حضرت الاستاذ کو صوبائی جمعیت میں تنظیم مالیات کی نظامت سونپے جانے پر عاجز کو جو فرحت وشادمانی حاصل ہورہی ہے اس کی تعبیر کے لئے نوک قلم میں کوئی لفظ نہیں. یہ اعزاز آپ کی اپنی بیش بہا مالی و جانی قربانیوں، تکلیفوں، صعوبتوں اور انتھک و مسلسل جدوجہد کا حاصل بھی ہے اور آپ کے فکر و عمل سے ترتیب شدہ اور  خون پسینے سے لکھی ہوئی آب بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔ جو امتیاز بھی ملا آپ کی شخصیت کی عظمت اور مجاہدے کی برکت سے ملا، قربانیوں کا سفر جاری ہے، ملی خدمات کا کارواں ابھی محوسفر ہے. 
میرکارواں بھی "آئین جوانمرداں حق گوئی و بے باکی" کا عملی نمونہ بنے ہوئے  ہیں، اگلا پڑائو ستاروں پہ کمندیں ڈالنے کا ہے ان شآءاللہ:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں 
دینی وملی کاموں میں اپنی قابل ذکر؛ بلکہ قابل رشک دردمندیوں وفکر مندیوں اور بے لوث عملی جدوجہد کے باعث آپ اس نوع کے اعزاز و انتخاب کے بہت پہلے سے اہل تھے 
خیر! دیر آید درست آید!
ہم آپ کو اس حسین انتخاب پہ ان توقعات کے ساتھ ہدیہ تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں کہ ملت اسلامیہ ہندیہ کو درپیش مسائل و حادثات کے حل میں اپنی مزید خداداد صلاحیتوں وبصیرتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خوب سے خوب تر رہنمائی  کریں گے. ان شآءاللہ 
خدا آپ کو صحت وسلامتی کے ساتھ لمبی زندگی عطا فرمائے، ہر مہمات میں غیبی نصرت و حمایت فرمائے، اور ہم ایسے کفش بردار تلامذہ واصاغر کو آپ سے استفادے کا خوب مواقع نصیب فرمائے، آمین۔
جنوری 21. بروز جمعہ 2022
https://saagartimes.blogspot.com/2022/01/blog-post_75.html
مولانا محمد صابر نظامی القاسمی


Sunday 16 January 2022

صحابئ رسول کو عذابِ قبر اس کے متعلق تحقیق

تحقیقات سلسلہ وار، بقلم ابواحمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجراتی

صحابئ رسول کو عذابِ قبر اس کے متعلق تحقیق

 (تحقیقات سلسلہ نمبر 34)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(ایک صحابئ رسول کو عذابِ قبر کے متعلق تحقیق)

سوال:- ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نیک،صالح اورمتقی صحابی کے دفن سے فارغ ہوئے تو آپ علیہ السلام کو ان پر عذاب قبر کا احساس ہوا تو آپ نے ان کے گھر والوں سے صورت حال دریافت فرمائی تو آپ کو بتلایا گیا کہ یہ بندۂ خدا بکریاں چراتے تھے، اور ان کے پیشاب سے بچنے کا اہتمام نہ فرماتے تھے، تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:  إستنزهوا من البول فإن عامة عذاب القبر منه (پیشاب سے بچو،چونکہ عموما عذاب قبر اسی وجہ سے ہوتا ہے) اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے؟

فقط والسلام۔

و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- 

یہ واقعہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، حضرت مفتی سعید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے:

"لم أره و لو ثبت هذا لكان فصلا في الباب و حجة في مورد النزاع"  

میں نے یہ حدیث نہیں دیکھی اور اگر یہ واقعہ صحیح سند سے ثابت ہو جائے تو بول ما یؤکل لحمہ کی طہارت و عدم طہارت کا جھگڑا ختم ہوجائے." ( تحفۃ الالمعی جلد۔١ صفحہ۔۳۱۷ زمزم پبلشرز کراچی) علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے العرف الشذی  جلد ۱ صفحہ ۱۰۹ پر لکھا ہے:

"و أما ما ذكر في حاشية نورالأنوار عن مستدرك الحاكم قصة معاذ أنه كان يرعي الشياہ فسنده ضعيف فلا يصح حجة لنا"۔ 

ترجمہ۔ مصنف نورالانوار نے مستدرک حاکم کے حوالے سے حضرت معاذ جو بکریاں چراتے تھے کا جو  قصہ نقل کیا ہے اس کی سند ضعیف ہے۔ ہمارے خلاف وہ واقعہ حجت اور دلیل نہیں بن سکتا۔ علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی رحمہ اللہ  نے اعلاء السنن میں جلد ۱ صفحہ ۳۸۸ حدیث نمبر ٤۰٦ پر لکھا ہے:

روي أنه عليه السلام لما فرغ من دفن صحابي صالح أبتلي من عذاب القبر جاء إلي امرأته فسئلها عن أعماله فقالت كان يرعى الغنم و لا يتنزه من بوله فحينئيذ قال عليه السلام إستنزهوا من البول فإن عامة عذاب القبر منه 

كذا في نورالأنوار و عزاه في حاشيته إلي الحاكم

الحاكمة و قال في العرف الشذي.سنده ضعيف و لكنه يكفي تأييدا للعموم  و إبقائه علي حاله

ترجمہ: ایک روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک نیک صحابی کی تدفین سے فارغ  ہوئے جنہیں عذاب قبر میں مبتلا کیا گیا تھا تو آپ علیہ السلام ان صحابی کی اہلیہ کے پاس آئے اور ان سے ان صحابی کے معمولات کے متعلق دریافت فرمایا تو ان کی اہلیہ نے بتلایا کہ وہ بکریاں چراتے تھے اور پیشاب سے احتراز نہیں فرماتے تھے تو آپ علیہ السلام نے اس وقت یہ حدیث ارشاد فرمائی استنزہو الخ۔ پیشاب سے بچا کرو اس لیے کہ عموما عذاب قبر اسی وجہ سے ہوتا ہے. اسی طرح نورالانوار میں ہے اور صاحب نورالانوار نے اس کی نسبت مستدرک حاکم کی طرف کی ہے اور العرف الشذي میں لکھا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے لیکن عموم کی وجہ سے وہ مؤید بن سکتی ہے۔ حضرت مولانا یوسف صاحب بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے معارف السنن جلد ۱ صفحہ۔۲۷٦ پر اس حدیث کے متعلق لکھا ہے کہ:

"قال شيخنا و ما ذكره الشيخ أحمد الجونفوري في 'نور الأنوار' من قصة هذا الحديث أنه عليه السلام لما فرغ من دفن صحابي صالح ابتلي بعذاب القبر جاء إلي امرأته فسئلها عن أعماله فقالت كان يرعى الغنم و لا يتنزه من بوله فحينئذ قال عليه السلام إستنزهوا من البول فإن عامة عذاب القبر منه؛ فلم أره و لو ثبت هذا لكان فصلا في الباب و حجة في مورد النزاع"

معارف السنن میں مذکورہ بالا عبارت کے تحت حاشیہ میں لکھا ہے:

تنبيه. وقع في العرف الشذي هنا و كذا في فيض الباري(١_٣١٤) تصحيف و تحريف و الصحيح ما ذكرت فليتنبه.

نورالانوار (مکتبۂ بشری) میں صفحہ نمبر ۲۸۵-۲۸٦  پر یہ حدیث مذکور ہے اس عبارت میں مذکور ہے:

و قصة هذا الحديث الناسخ ما روي أنه عليه السلام لما فرغ من دفن صحابي صالح ابتلي بعذاب القبر جاء إلي امرأته فسألها عن أعماله فقالت كان يرعى الغنم و لا يتنزه من بوله فحينئذ قال عليه السلام إستنزهوا من البول فإن عامة عذاب القبر منه 

اسی عبارت کے تحت لگے حاشیہ میں اشراق الابصار کے حوالہ سے لکھا ہے.

أما القصة فلم أجدها من هذا اللفظ..

ان ساری عبارات سے اس قصہ کی عدم صحت معلوم ہوتی ہے خلاصہ یہ کہ یہ قصہ صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے لہذا اس کے نشر میں احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔۔۔۔ البتہ یہ بات واضح رہے کہ إستنزهوا من البول فإن عامة عذاب القبر منه اور اس جیسے الفاظ  یہ مستقل الگ حدیث ہے اور وہ صحیح حدیث ہے۔ ملاحظہ ہو

[عن الحسن البصري:] استنزِهوا من البوْلِ، فإنَّ عامَّةَ عذابِ القبرِ من البوْلِ

ابن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢)، التلخيص الحبير ١‏/١٥٨  •  رواته ثقات مع إرساله  •  أخرجه سعيد بن منصور كما في «التلخيص الحبير» لابن حجر (١/٣١٢)، وابن سمعون الواعظ في «أماليه» (٢٩٦

- [عن أبي هريرة:] استنْزِهوا من البولِ 

فإن عامّةَ عذابِ القبرِ منه

الدارقطني (ت ٣٨٥)، سنن الدارقطني ١‏/٣١٤  •  الصواب مرسل  •  أخرجه الدارقطني

استنزِهوا من البولِ فإنَّ عامَّةَ عذابِ القبرِ منهُ

ابن الملقن (ت ٧٥٠)، البدرالمنير ٢‏/٣٢٣  •  صحيح

اس تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ بالا سوال میں مذکور واقعہ درست اور صحیح نہیں ہے، ہاں البتہ وہ دو صحابئ رسول جن میں سے ایک کو پیشاب سے اجتناب نہ کرنے اور دوسرے صحابی کو چغل خوری کرنے کی وجہ سے عذاب قبر کا ہونا صحیح روایات سے ثابت ہیں۔

مکمل تحقیق ملاحظہ فرمائیں 👇

213 حدثنا عثمان قال حدثنا جرير عن منصور عن مجاهد عن ابن عباس قال مر النبي صلى الله عليه وسلم بحائط من حيطان المدينة أو مكة فسمع صوت إنسانين يعذبان في قبورهما فقال النبي صلى الله عليه وسلم يعذبان وما يعذبان في كبير ثم قال بلى كان أحدهما لا يستتر من بوله وكان الآخر يمشي بالنميمة ثم دعا بجريدة فكسرها كسرتين فوضع على كل قبر منهما كسرة فقيل له يا رسول الله لم فعلت هذا قال لعله أن يخفف عنهما ما لم تيبسا أو إلى أن ييبسا [ص: 379]

(صحيح البخاري | كِتَابٌ: الْوُضُوءُ  | بَابٌ: مِنَ الْكَبَائِرِ أَنْ لَا يَسْتَتِرَ مِنْ بَوْلِهِ)

ترجمہ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ یا مکہ کے قبرستانوں میں سے کسی قبرستان سے گزرے پس آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے دو انسانوں کی آواز سنی جنہیں قبر میں عذاب دیا جا رہا تھا تھا اور انہیں کسی گناہ کبیرہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا تھا پھر آپ نے فرمایا کیوں نہیں نہیں ان دونوں میں کا ایک اپنے پیشاب سے احتراز نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کھاتا تھا پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے کھجور کے درخت کی ایک ٹہنی منگوائی اور اس کے دو ٹکڑے کیے ہیں اور ہر قبر پر ایک کپڑا رکھ دیا بس آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے دریافت کیا گیا اے اللہ کے رسول آپ نے یہ کیوں کیا آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا شاید ان دونوں سے ان ٹہنیوں کے  خشک ہونے تک ان سے تخفیف کردی جائے۔ اس حدیث سے متعلق چند باتیں قابل ذکر ہیں. ایک تو یہ کہ ان قبروں میں کون مدفون تھا چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 320 پر لکھا ہے کہ ان مدفونین کے نام حدیث میں مذکور نہیں، چنانچہ ان کی ٹوہ میں نہیں پڑنا چاہیے، البتہ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ ان مدفونین  میں سے ایک تو حضرت حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ تھے یہ قول باطل ہے، اور اور اس کے بطلان پردلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کی تدفین میں شریک تھے، جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے البتہ مذکورہ مدفونین کے بارے میں مسند احمد کی ایک روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان مذکورہ حضرات کی تدفین میں شریک نہ تھے، چنانچہ مسند احمد میں 22292 نمبر پر یہ روایت ہے

22292 حَدَّثَنَا أَبُوالْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ شَدِيدِ الْحَرِّ نَحْوَ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ، قَالَ: فَكَانَ النَّاسُ يَمْشُونَ خَلْفَهُ، قَالَ: فَلَمَّا سَمِعَ صَوْتَ النِّعَالِ وَقَرَ ذَلِكَ فِي نَفْسِهِ، فَجَلَسَ حَتَّى قَدَّمَهُمْ أَمَامَهُ لِئَلَّا يَقَعَ فِي نَفْسِهِ شَيْءٌ مِنَ الْكِبْرِ، فَلَمَّا مَرَّ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ إِذَا بِقَبْرَيْنِ قَدْ دَفَنُوا فِيهِمَا رَجُلَيْنِ، قَالَ : فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَنْ دَفَنْتُمْ هَاهُنَا الْيَوْمَ ؟ ". قَالُوا : يَا نَبِيَّ اللَّهِ، فُلَانٌ وَفُلَانٌ. قَالَ : "إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ الْآنَ، وَيُفْتَنَانِ فِي قَبْرَيْهِمَا". قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِيمَ ذَاكَ ؟ قَالَ : " أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَتَنَزَّهُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ". وَأَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا، ثُمَّ جَعَلَهَا عَلَى الْقَبْرَيْنِ، قَالُوا : يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَلِمَ فَعَلْتَ ؟ قَالَ : "لِيُخَفَّفَ عَنْهُمَا". قَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَحَتَّى مَتَى هُمَا يُعَذَّبَانِ؟ قَالَ: "غَيْبٌ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ ". قَالَ: "وَلَوْلَا تَمْرِيجُ قُلُوبِكُمْ، أَوْ تَزَيُّدُكُمْ فِي الْحَدِيثِ لَسَمِعْتُمْ مَا أَسْمَعُ".

حكم الحديث: إسناده ضعيف جدا. (مسند أحمد | مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ  | حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے ہے کہ اللہ کے رسول رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان حضرات کی تدفین کے وقت وہاں شریک نہ تھے اگر شریک ہوتے تو آپ یہ دریافت نہ فرماتے کہ ان قبروں میں کون مدفون ہے؟ اب وہ مدفونین کون تھے تو ابو موسی المدینی کا قول ہے کہ وہ  دونوں دو کافروں کی قبریں تھیں اور انہوں نے مندرجہ ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے:

 [عن جابر بن عبدالله:] مرَّ نبيُّ اللهِ ﷺ على قبرَينِ مِن بني النَّجّارِ هلكا في الجاهليةِ فسمِعَهُما يعذبانِ في البولِ والنَّمِيمَةِ

أبوموسى المديني (ت ٥٨٠)، عمدة القاري ٣‏/١٧٩  •  حسن وإن كان إسناده ليس بالقوي  •  أخرجه الطبراني في «المعجم الأوسط» (٤٦٢٨) باختلاف يسير 

کہ یہ روایت گرچہ قوی نہیں، لیکن اس کا معنی درست ہے۔ بایں طور کہ یہ دونوں کافر تھے اگر مسلمان ہوتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت مؤمن کے حق میں صرف ٹہنی کے خشک ہونے تک نہ ہوتی بلکہ دائمی تخفیف ہو جاتی مگر آپ نے فرمایا کہ تخفیف ٹہنی کے خشک ہونے تک ہوگی اس سے ثابت ہوا کہ یہ دونوں مسلمان نہیں تھے یہ آپ علیہ السلام کی شفقت تھی ایک کافر کے ساتھ کہ آپ نے متعینہ مدت کے لیے عذاب میں تخفیف کی شفاعت کردی، حافظ اس کے بعد ابن عطار کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ ابن عطار کہتے ہیں کہ وہ  دونوں مسلمان تھے اور وہ فرماتے ہیں کہ اس بات کا کوئی جواز ہی نہیں کہ انہیں کافر کہا جائے اس لئے کہ اگر وہ دونوں کافر ہوتے تو آپ علیہ السلام ان کے لئے نہ تخفیف عذاب کی دعا کرتے اور نہ ہی کوئی رحم کھاتے اور اگر یہ خصوصیات میں سے ہوتا تو جس طرح ابو طالب کی وضاحت کی اس طرح اس کی بھی وضاحت کر دیتے ابن حجر رحمت اللہ علیہ خود کی رائے پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ و ما قاله آخرا هو الجواب و ما طالب به من الجواب قد حصل و لا يلزم التنصيص على لفظ الخصوصية  کہ ابن عطار کے مطلوبہ جوابات مل چکے، رہی بات خصوصیت کی تو خصوصیت کے لفظ کے ساتھ نص کا وارد ہونا ضروری نہیں، لیکن جس روایت سے ابو موسی نے استدلال کیا وہ ضعیف ہے جیسا کہ انہوں نے خود اس کا اعتراف کیا لیکن امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی نے ایک روایت نقل کی ہے ہے اور اسے صحیح علی شرط مسلم قرار دیا ہے البتہ ان دونوں مدفونین کا کافر ہونے کا احتمال ظاہر ہے لیکن ان دونوں کا مسلمان ہونا درست معلوم ہوتا ہے مذکورہ بالا حدیث کے جمیع طرق کو دیکھتے ہوئے اس طور پر کہ ابن ماجہ (قدیمی کتب خانہ ۔مقابل آرام گاہ کرانچی کا نسخہ) میں صفحہ نمبر ۲۹ پر یہ روایت اس طرح مذکور ہے.

حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ جَدِيدَيْنِ، فَقَالَ: "إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ: أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَنْزِهُ مِنْ بَوْلِهِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ" حكم الحديث: صحيح 

اس میں قبرین جدیدین کا لفظ ہے اس سے ان دونوں کا زمانۂ جاہلیت سے ہونا منتفی ہوگیا، نیز سابق میں مذکور مسند احمد کی ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں بقیع الغرقد کا نام مذکور ہے اور بقیع مسلمانوں کا قبرستان ہے اس سے بھی ان دونوں کا مسلمان ہونا معلوم ہوتا ہے، نیز ان دونوں کے مسلمان ہونا مسند احمد کی ایک اور صحیح روایت سے معلوم ہوتا ہے وہ روایت یہ ہے:

20373 حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ ، حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ مَرَّارٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ ، قَالَ : بَيْنَا أَنَا أُمَاشِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي وَرَجُلٌ عَنْ يَسَارِهِ، فَإِذَا نَحْنُ بِقَبْرَيْنِ أَمَامَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، وَبَلَى، فَأَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِجَرِيدَةٍ "، فَاسْتَبَقْنَا فَسَبَقْتُهُ، فَأَتَيْتُهُ بِجَرِيدَةٍ، فَكَسَرَهَا نِصْفَيْنِ، فَأَلْقَى عَلَى ذَا الْقَبْرِ قِطْعَةً وَعَلَى ذَا الْقَبْرِ قِطْعَةً. وَقَالَ: "إِنَّهُ يُهَوَّنُ عَلَيْهِمَا مَا كَانَتَا رَطْبَتَيْنِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ إِلَّا فِي الْبَوْلِ وَالْغِيبَةِ ".

حكم الحديث: إسناده قوي.

اس میں الا فی البول و الغیبۃ کا حصر ہے اور یہ ان دونوں کے کافر ہونے کے منافی ہے بایں طور کہ کافر کو احکام اسلام کے ترک کا عذاب تو ہوتا ہے لیکن اس کے کفر کا عذاب تو مسلسل جاری رہتا ہے۔۔(دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ کافر ہوتے تو اولا اسلام لانے کے مکلف ہوتے پھر احکام اسلام پر عمل کے  مگر وہ مسلمان تھے اس لئے انہیں احکام اسلام پر عمل کرنے کا مکلف بنایا گیا اور احکام اسلام کے ترک پر انہیں عذاب دیا جا رہا تھا) لہذا ان دونوں کا مسلمان ہونا زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ انتہی. اسی طرح سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی اس طرح کی احادیث پیش کی جاتی ہے۔ مکمل تحقیق ملاحظہ فرمائیں 👇 (منقول) 1     سعید مقبری رحمہ اللہ  کہتے ہیں:

لَمَّا دَفَنَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَعْدًا قَالَ: لَوْ نَجَا أَحَدٌ مِّنْ ضَغْطَۃِ الْقَبْرِ لَنَجَا سَعْدٌ، وَلَقَدْ ضُمَّ ضَمَّۃً اخْتَلَفَتْ مِنْہَا أَضْلَاعُہ، مِنْ أَثَرِ الْبَوْلِ.

”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ  کو دفن کردیا، تو فرمایا: اگر قبر کے دبوچنے سے کوئی بچ سکتا، تو وہ سعد تھا۔ اسے بھی قبر نے اس قدر دبایا کہ پسلیوں کا آپس میں اختلاط ہوگا، ایسا پیشاب کے چھینٹوں کی وجہ سے ہوا۔“ (الطبقات لابن سعد: ٣/٣٢٩)

تبصرہ: سند ”ضعیف“ اور ”منقطع“ ہے۔

1     سعید مقبری رحمہ اللہ  تابعی براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیان کر رہے ہیں، لہٰذا یہ ”مرسل ہونے کی وجہ سے ”ضعیف ہے۔

2     ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن جمہور کے نزدیک ”ضعیف ہے۔

علامہ بوصیری رحمہ اللہ  کہتے ہیں:

وَقَدْ ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ.

”اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔“

(اتحاف المھرۃ: ٤/٥١١)

2     سعد رضی اللہ عنہ کے گھر والے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

کَانَ یُقَصِّرُ فِي بَعْضِ الطَّہُورِ مِنَ الْبَوْلِ .

”سعد بسا اوقات پیشاب کرتے وقت چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔“ (دلائل النّبوۃ : ٤/٣٠، إثبات عذاب القبر کلاھما للبیھقي: ٩٤)

تبصرہ: سند ”ضعیف ہے۔ بعض اہل سعد، کون ہے؟ کوئی پتہ نہیں! نیز ان کو خبر دینے والا بھی مبہم ہے۔

3     سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ  کے جنازہ کے موقع پر فرمایا:

وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ لَقَدْ سَمِعْتُ أَنِینَہ، وَرَأَیْتُ اخْتِلافَ أَضْلاعِہٖ فِي قَبْرِہٖ .

”اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میری جان ہے! میں نے سعد کے رونے کی آواز سنی ہے اور پسلیوں کا اختلاط دیکھا ہے۔“

(الموضوعات لابن الجوزي: ٣/٢٣٣)

تبصرہ: سند ”باطل“ ہے۔ قاسم بن عبدالرحمن انصاری ”ضعیف ہے۔ توثیق و عدالت ثابت نہیں۔ امام یحی بن معین رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

لَیْسَ بِشَيْءٍ .

”کسی کام کا نہیں۔“

امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ  نے فرمایا:

ضَعِیفُ الْحَدِیثِ، مُضْطَرَبُ الْحَدِیثِ.

”اس کی حدیث ”ضعیف و مضطرب ہوتی ہے۔

نیز امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ  نے ”منکر الحدیث“ کہا ہے۔“

(الجرح والتّعدیل لابن أبي حاتم: ٧/١١٣)

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ  اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:

ھٰذَا حَدِیثٌ لَّا یَصِحُّ، وَآفَتُہ، مِنَ الْقَاسِمِ.

”یہ حدیث ثابت نہیں ہے، وجہ ضعف قاسم (بن عبدالرحمن) ہے۔“

4     مشہور تابعی حسن بصری رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

إِنَّہ، ضُمَّ فِي الْقَبْرِ ضَمَّۃً حَتّٰی صَارَ مِثْلَ الشَّعْرَۃِ، فَدَعَوْتُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ أَنْ یُّرَفِّہَ عَنْہُ، وَذَالِکَ أَنَّہ، کَانَ لَا یَسْتَبْرِءُ مِنَ الْبَوْلِ.

”سعد پر قبر اس قدر تنگ ہوئی کہ وہ بال کی طرح باریک ہو گئے، میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے بارِ خاطر ہلکا کردے۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ سعد پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔

(الموضوعات لابن الجوزي: ٣/٢٣٤)

تبصرہ:

سند سخت ”ضعیف ہے۔

1     سند ”منقطع ہے۔ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:

ھٰذَا حَدِیثٌ مَّقْطُوعٌ، فَإِنَّ الْحَسَنَ لَمْ یُدْرِکْ سَعْدًا.

”یہ حدیث ”منقطع” ہے، کیوں حسن بصری نے سعد کا زمانہ نہیں پایا۔

2     ابوسفیان طریف بن شہاب صفدی جمہور کے نزدیک ”ضعیف و متروک ہے۔

لہٰذا ثابت ہوا کہ سیدنا سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ  کو ضغطۃ القبر ”قبر کی پکڑ پیشاب کے چھینٹوں کی وجہ سے نہ تھا اور اس کے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں، جیسا کہ آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں۔

فائدہ: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ  کے بارے میں فرمایا:

لَہٰذَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ الَّذِي تَحَرَّکَ لَہُ الْعَرْشُ، وَفُتِحَتْ لَہ، أَبْوَابُ السَّمَاوَاتِ، وَشَہِدَہ، سَبْعُونَ أَلْفًا مِّنَ الْمَلَائِکَۃِ لَمْ یَنْزِلُوا الْـأَرْضَ قَبْلَ ذَالِکَ، وَلَقَدْ ضُمَّ ضَمَّۃً ثُمَّ أُفْرِجَ عَنْہُ .

”یہ تو ایسی نیک شخصیت ہیں، کہ جن کی موت سے عرشِ الٰہی میں بھی جنبش آ گئی، ساتوں آسمانوں کے دروازے کھول دیے گئے اور ستر ہزار فرشتے جنازہ میں حاضر ہوئے، جو اس سے پہلے زمین پر نہ اترے تھے۔ پہلے ان پر قبر تنگ ہوئی ، پھر کشادہ ہوگئی۔

(الطبقات لابن سعد: ٣/٤٣٠، سنن النسائي: ٢٠٥٥، وسندہ، صحیحٌ)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

إِنَّ لِلْقَبْرِ ضَغْطَۃً، لَوْ کَانَ أَحَدٌ نَّاجِیًا مِّنْہَا نَجَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ .

”قبر ایک بار ضرور دبوچتی ہے، اگر اس سے کوئی بچ سکتا ہوتا، تو سعد ہوتے۔

(مسند الإمام أحمد: ٦/٥٥ ،٩٨، وسندہ، صحیحٌ)

امام ابن حبان رحمہ اللہ  (٣١١٢) نے اسے ”صحیح کہا ہے۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ  نے اس کی سند کو ”قوی کہا ہے۔

(سیرأعلام النّبلاء: ١/٢٩٠)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:

إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صلّٰی عَلٰی صَبِيٍّ أَوْ صَبِیَّۃٍ فَقَال: لَوْ نَجَا أَحَدٌ مِّنْ ضَمَّۃِ الْقَبْرِ لَنَجَا ہٰذَا الصَّبِيُّ.

”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی بچے یا بچی کا جنازہ پڑھایا اور فرمایا: قبر کی تنگی سے کوئی بچ سکتا ہوتا، تو یہ بچہ بچتا۔

(الأوسط للطبراني : ٢٧٥٣، المَطالب العالیۃ لابن حجر: ٤٥٣٢، وسندہ، صحیحٌ)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے اس کی سند کو ”صحیح کہا ہے۔

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

رَوَاہُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْـأَوْسَطِ، وَرِجَالُہ، مُوَثَّقُونَ.

ــ”یہ معجم الاوسط للطبرانی کی روایت ہے اور اس کے تمام راویوں کی توثیق کی گی ہے۔

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: ٣/٤٧)

سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:

إِنَّ صَبِیًّا دُفِنَ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَفْلَتَ أَحَدٌ مِّنْ ضَمَّۃِ الْقَبْرِ لََـأَفْلَتَ ہٰذَا الصَّبِيُّ.

”ایک بچے کی تدفین کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: قبر کے کھچاؤ سے کسی کی جاں خلاصی ہوسکتی ہوتی، تو اس بچے کی ہوتی۔

(المعجم الکبیر للطبراني: ٤/١٢١، ح: ٣٨٥٨، صحیحٌ)

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:

وَرِجَالُہ، رِجَالُ الصَّحِیحِ .

”اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: ٣/٤٧)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:

ہٰذِہِ الضَّمَّۃُ لَیْسَتْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فِي شَيْئٍ، بَلْ ہُوَ أَمْرٌ یَّجِدُہُ المُؤْمِنُ، کَمَا یَجِدُ أَلَمَ فَقْدِ وَلَدِہٖ وَحَمِیمِہٖ فِي الدُّنْیَا، وَکَمَا یَجِدُ مِنْ أَلَمِ مَرَضِہٖ، وَأَلَمِ خُرُوجِ نَفْسِہٖ، وَأَلَمِ سُؤَالِہٖ فِي قَبْرِہٖ وَامْتِحَانِہٖ، وَأَلَمِ تَأَثُّرِہٖ بِبُکَاءِ أَہْلِہٖ عَلَیْہِ، وَأَلَمِ قِیَامِہٖ مِنْ قَبْرِہٖ، وَأَلَمِ الْمَوْقِفِ وَہَوْلِہٖ، وَأَلَمِ الْوُرُودِ عَلَی النَّارِ، وَنَحْوِ ذَالِکَ، فَہٰذِہِ الْـأَرَاجِیفُ کُلُّہَا قَدْ تَنَالُ الْعَبْدَ، وَمَا ہِيَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَلَا مِنْ عَذَابِ جَہَنَّم قَطُّ، وَلٰکِنَّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ یَرْفُقُ اللّٰہُ بِہٖ فِي بَعْضِ ذَالِکَ أَوْ کُلِّہٖ، وَلَا رَاحَۃَ لِلْمُؤْمِنِ دُوْنَ لِقَاءِ رَبِّہٖ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: (وَأَنْذِرْہُم یَوْمَ الْحَسْرَۃِ)، وَقَالَ : (وَأَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْـآزِفَۃِ، إِذِ الْقُلُوبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ)، فَنَسْأَلُ اللّٰہَ تَعَالَی الْعَفْوَ وَاللُّطْفَ الْخَفِيَّ، وَمَعَ ہٰذِہِ الہَزَّاتِ، فَسَعْدٌ مِّمَّنْ نَّعْلَمُ أَنَّہ، مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ، وَأَنَّہ، مِنْ أَرْفَعِ الشُّہَدَاءِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، کَأَنَّکَ یَا ہٰذَا تَظُنُّ أَنَّ الْفَائِزَ لَا یَنَالُہ، ہَوْلٌ فِي الدَّارَیْنِ، وَلاَرَوْعٌ، وَلاَ أَلَمٌ، وَلاَ خَوْفٌ، سَلْ رَبَّکَ الْعَافِیَۃَ، وَأَنْ یَّحْشُرَنَا فِي زُمْرَۃِ سَعْدٍ.

”یہ تنگی اور پکڑ عذاب قبر نہیں ہے، بل کہ یہ تو ایک حالت ہے، جس کا سامنا مومن کو بہرصورت کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ دنیا میں اپنے بیٹے یا محبوب کے گم ہو جانے پر پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔ اسی طرح اسے بیماری، جان نکلنے، قبر کے سوالات، اس پر نوحہ کرنے کے اثرات، قبر سے اٹھنے، حشر اور اس کی ہولناکی اور آگ پر پیشی وغیرہ جیسے حالات کی تکلیف بھی اٹھانی پڑتی ہے یا پڑے گی۔ ان دہشت ناک حالات سے انسان کا پالا پڑ سکتا ہے۔ یہ قبر کا عذاب ہے، نہ جہنم کا۔ لیکن اللہ تعالیٰ شفقت کرتے ہوئے اپنے متقی بندے کو بعض یا سب حالات سے بچا لیتے ہیں۔ مومن کو حقیقی و ابدی راحت اپنے رب کی ملاقات کے بعد ہی حاصل ہوگی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَأَنْذِرْہُم یَوْمَ الْحَسْرَۃِ) (مریم: ٣٩) ‘آپ لوگوں کو حسرت والے دن سے خبر دار کردیں۔’ نیز فرمایا: (وَأَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْـآزِفَۃِ، إِذِ القُلُوبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ) (المؤمن : ١٨) ‘آپ لوگوں کو تنگی اور بدحالی والے دن سے ڈرا دیں کہ جب کلیجے منہ کو آئیں گے۔’ ہم اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر ، لطف وکرم اور پردہ پوشی کا سوال کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ان جھٹکوں کے باوجود سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ  جنتی ہیں اور بلند مرتبہ شہدا میں سے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ کامیاب انسان کو دنیا و آخرت میں کسی قسم کی پریشانی، قلق، تکلیف، خوف اور گھبراہٹ کا سامنا نہیں ہو گا۔ اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہمیں عافیت عطا فرمائے اور ہمارا حشر (سیدالانصار) سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ  کے ساتھ کردے۔”

(سیرأعلام النّبلاء : ١/٢٩٠، ٢٩١)

خلاصۂ کلام:- کسی صحابی رسول کے متعلق صحیح روایات سے ثابت نہیں ہے کہ ان کو پیشاب سے پرہیز نہ کرنے کی وجہ سے عذابِ قبر ہوا ہو، سواء ایک حدیث کے "أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَتَنَزَّهُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ" وہ صحیح روایات سے ثابت ہے، لکین اس میں کسی صحابی کی تعیین مثلاً سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ یہ بھی درست اور صحیح نہیں ہے۔ 

فقط والسلام۔۔۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

رتبه: الطالب عبدالمتين من احمدآباد

جمعه: ابواحمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

رابطہ نمبر:- 9428359610

7 ستمبر/2020ء بروز پیر

https://saagartimes.blogspot.com/2022/01/blog-post_16.html



Saturday 15 January 2022

کیا برش و ٹوتھ پیسٹ مسواکِ مسنون کا بدل ہوسکتا ہے؟

کیا برش و ٹوتھ پیسٹ مسواکِ مسنون کا بدل ہوسکتا ہے؟

---------------------------------
----------------------------------

اسلام دین فطرت ہے، اس میں باطنی طہارت کے ساتھ جسمانی طہارت ونظافت کا اتنا لحاظ رکھا گیا ہے کہ پاکی وصفائی کو آدھا ایمان قرار دیا گیا. استنجاء، وضوء، غسل، کلی، ناک اور دانت ومنہ کی صفائی کا اولیں حکم دیا گیا ہے. اعضائے جسمانی میں بطورخاص منہ انسانی حسن و جمال کا مرکز ہے، اسی سے تبسم کی لہریں نکلتی ہیں، یہیں سے الفاظ کے پھول جھڑتے ہیں، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ ودانت کی صفائی کو تمام انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی سنت اور اسے دس امورفطرت میں شمار کیا، رضائے الہی کا ذریعہ اور منہ کی طہارت و پاکیزگی کا باعث بتایا. اسی پر بس نہیں؛ بلکہ اپنی تریسٹھ سالہ معیاری زندگی کے شب وروز میں پانچ نمازوں، نوافل کے وقت سونے سے پہلے اور سونے کے بعد، کھانے کے بعد اور لوگوں سے ملنے سے پہلے؛ حتی کہ مرض الوفات تک میں یہ عمل کرکے دکھلایا ہے۔ مسواک کے بارے میں اس قدر تاکیدی حکم دیا گیا کہ بعض صحابہ (کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو یہ گمان ہونے لگا تھا کہ کہیں اِس بارے میں مجھ پر قرآن کریم نہ نازل ہوجائے۔
مسواک کی لغوی حقیقت:
جس چیز سے بھی دانتوں کو رگڑا جائے اور مَل کر صاف کیا جائے. اسے عربی لغت کے اعتبار سے ”سِواك“ (سین کے کسرہ کے ساتھ) کہتے ہیں۔ یہ لفظ، ساكَ  یسوكُ سوكًا سے ماخوذ ہے۔ عربی زبان میں لفظ ”سواک“ فعل سواک (معنی مصدری) (استاك، يستاك، استياكاً: مسواک کرنا) اور آلہ (مسواک، اسم آلہ) دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ البتہ لفظ سواک سے جب آلہ (مسواک) مراد ہوگا. اس وقت اس کی جمع سُوُكٌ آئے گی، جیسے کتاب کی جمع کُتُبٌ۔ علامہ زبیدی تاج العروس میں تحریر فرماتے ہیں:
"ساكَ الشَّيءَ يَسُوكُه سَوْكًا: دَلَكَه، ومِنْهُ أُخِذَ المِسواكُ" (تاج العروس" (27/215) 
[سوك]: ساك الشيء يسوكه سوكا: دلكه، ومنه أخذ المسواك، وهو مفعال منه، قاله ابن دريد (الجمهرة 3 / 48 ). وساك فمه بالعود يسوكه سوكا وسوكه تسويكا، واستاك استياكا، وتسوك قال عدي بن الرقاع:
وكأن طعم الزنجبيل ولذة * صهباء ساك بها المسحر فاها (التهذيب واللسان) ولا يذكر العود ولا الفم معهما أي مع الاستياك والتسوك. والعود: مسواك وسواك، بكسرهما وهو ما يدلك به الفم قال ابن دريد: وقد ذكر المسواك في الشعر الفصيح، وأنشد:
إذا أخذت مسواكها ميحت به رضابا كطعم الزنجبيل المعسل (الجمهرة 3 / 48 ونسبه لذي الرمة).
(الزبيدي /تاج العروس 13/588، الصحاح (4/ 1593)، النهاية في غريب الحديث (2/ 425)، تهذيب الأسماء واللغات (3/ 157)، المصباح المنير (2/350)، لسان العرب (10/ 446)، القاموس المحيط (3 / 318)، المعجم الوسيط (1/ 465) 
اگر فعل سواک یعنی معنی مصدری (بمعنی مسواک کرنا) مراد لیا جائے تو اس وقت مطلق رگڑنے کے معنی مراد لئے جاتے ہیں، یعنی لغوی تعریف میں عود (لکڑی) یا "منہ" رگڑنے کے ذکر کی حاجت نہ ہوگی:
ولا يذكر العود ولا الفم معهما أي مع الاستياك والتسوك. (الزبيدي /تاج العروس 13/588) جبکہ بعض اہل لغت سواک کی لغوی تعریف میں لکڑی کی قید بھی ملحوظ رکھتے ہیں:
لسان العرب میں ہے:
[سوك] 
سوك: السوك: فعلك بالسواك والمسواك، وساك الشيء سوكا: [ص: 307] دلكه، وساك فمه بالعود يسوكه سوكا
[سوك] 
(لسان العرب، حرف السين سوك ج 7)
علامہ ابن الاثیر نہایہ میں لکھتے ہیں:
السِّوَاكُ بِالْكَسْرِ، والْمِسْوَاكُ: مَا تُدْلَكُ بِهِ الأسْناَن مِنَ العِيدانِ. يُقَالُ سَاكَ فَاه يَسُوكُهُ إِذَا دَلَكه بالسِّواك. فَإِذَا لَمْ تَذْكُر الفمَ قُلْتَ اسْتَاكَ. (ص 425 - ج 2 كتاب النهاية في غريب الحديث والأثر- سوك)-
سواک کی فقہی واصطلاحی تعریف:
سواک کی فقہی واصطلاح تعریف میں مذاہب اربعہ کے مابین قدرے اختلاف ہے. حنفیہ کے یہاں وہ لکڑی جس سے دانتوں کو رگڑا جائے اسے اصطلاحا ًسواک کہتے ہیں:
"اسم لخشبة معينة للاستياك (العناية شرح الهداية مع شرح فتح القدير" (1/24، البحرالرائق 1/ 21، عمدة القاري 3/ 184)۔
مالکیہ کے یہاں لکڑی یا کسی بھی سخت وکھردری چیز سے دانتوں کی زردی اور منہ کی بدبو زائل کردی جائے تو اسے سواک کہہ سکتے ہیں:
"استعمال عود أو نحوه في الأسنان لإذهاب الصفرة والريح" (مواهب الجليل (1/264) وأوجزالمسالك (1/368)
جبکہ شوافع وحنابلہ کے ہاں بالکل عموم ہے، جس چیز کے ذریعہ بھی دانتوں کی صفائی عمل میں لائی جائے اسے سواک کہا جائے گا:
"استعمال عود أو نحوه في الأسنان لإذهاب التغير ونحوه" (المجموع (1/270) وشرح مسلم (3/177) ومغني المحتاج (1/55) والمبدع (1/68) وكشاف القناع (1/70)
سواک کے کون سے معنی مراد ہیں؟
مذاہب اربعہ کے  فقہاء کے ہاں سواک کے اصطلاحی معنی کی تعیین کے بابت تفصیل آچکی ہے. اب یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ سنن وضوء وصلوۃ کے ذیل میں جس سواک کا ذکر روایتوں میں آتا ہے. تو وہاں سواک کے کون سے معنی مراد ہوتے ہیں؟ چنانچہ صحیحین کی روایت ہے: 
"لَوْلَا أنْ أشُقَّ علَى أُمَّتي أوْ علَى النَّاسِ لَأَمَرْتُهُمْ بالسِّوَاكِ مع كُلِّ صَلَاةٍ. أخرجه البخاري (887)، ومسلم (252– 
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ارشاد نبی صلی الله علیہ وسلم منقول ہے کہ ”اگر میں مسلمانوں کے حق میں مشقت محسوس نہ کرتا اور مجھے مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں ان کے لئے ہر نماز کے وقت مسواک کو ضروری قرار دیتا)۔ یہاں نماز کے وضوء یا قیام نماز (علی اختلاف التقدیر) سے پہلے جس سواک کے ضروری قرار دیئے جانے کا تذکرہ ہے تو احناف سمیت تمام فقہاء کا ماننا ہے کہ یہاں سواک سے مراد آلہ سواک نہیں؛ بلکہ فعل سواک یعنی معنی مصدری بمعنی مسواک کرنا یعنی دانت اچھی طرح رگڑکر صاف کرنا مراد ہے: مراقی الفلاح میں ہے: 
"والسواك" بكسر السين اسم للاستياك والعود أيضا والمراد الأول لقوله صلى الله عليه وسلم: "لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك عند كل صلاة" (طحطاوي على المراقي: 67)
اسی طرح جب لکڑی یا اس کے مشابہ کوئی چیز دست یاب نہ ہوسکے تو شوافع کے سوا ائمہ ثلاثہ کا اتفاق ہے کہ فعل سواک کی سنیت اور اجر و ثواب انگلی پھیر دینے سے بھی ادا ہوجائے گی: 
تُجْزِی الاَصَابِعُ مَجْزَی السِّوَاکَ. (بيهقی، السنن الکبری، 1: 41، رقم : 178– انگلیاں مسواک کے قائم مقام ہیں۔‘‘
ایک اور حدیث  میں ہے: 
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ مِنْ بَنِى عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ رَغَّبْتَنَا فِى السِّوَاكِ، فَهَلْ دُونَ ذَلِكَ مِنْ شَىْءٍ؟ قَالَ: «إِصْبَعَاكَ سِوَاكٌ عِنْدَ وُضُوئِكَ تُمِرُّهُمَا عَلَى أَسْنَانِكَ، إِنَّهُ لاَ عَمَلَ لِمَنْ لاَ نِيَّةَ لَهُ وَلاَ أَجْرَ لِمَنْ لاَ حِسْبَةَ لَهُ» (ضعيف: أخرجه البيهقي في سننه 1/ 41 في كتاب الطهارة باب السواك بالأصابع، وفيه رجل غير مسمى—— 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار کے قبیلہ بنوعمرو بن عوف میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے ہمیں مسواک کرنے کی ترغیب دی ہے، کیا اس کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے وضو کے وقت تمہاری دو انگلیاں مسواک ہیں جن کو تم اپنے دانتوں پر پھیرتے ہو۔ بغیر نیت کے کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا اور ثواب کی نیت کے بغیر کوئی اجر نہیں ہوتا۔‘‘ (بيهقی، السنن الکبری، 1: 41، رقم: 179)
اس سے بھی پتہ چلتا ہے بوقت ضرورت ومجبوری مسواک کے مفہوم سے لکڑی کی قید ختم ہوجاتی ہے اور جس چیز سے بھی منہ کی صفائی و پاکیزگی حاصل ہوجائے مسواک کی سنت وفضیلت اس سے ادا ہوجائے گی. البحرالرائق میں ہے:
"وَتَقُومُ الْأُصْبُعُ أَوْ الْخِرْقَةُ الْخَشِنَةُ مَقَامَهُ عِنْدَ فَقْدِهِ أَوْ عَدَمِ أَسْنَانِهِ فِي تَحْصِيلِ الثَّوَابِ لَا عِنْدَ وُجُودِهِ وَالْأَفْضَلُ أَنْ يَبْدَأَ بِالسَّبَّابَةِ الْيُسْرَى ثُمَّ بِالْيُمْنَى وَالْعِلْكُ يَقُومُ مَقَامَهُ لِلْمَرْأَةِ لِكَوْنِ الْمُوَاظَبَةِ عَلَيْهِ تُضْعِفُ أَسْنَانَهَا فَيُسْتَحَبُّ لَهَا فِعْلُهُ." ا.هـ وكذا في فتح القدير." وَعِنْدَ فَقْدِهِ يُعَالِجُ بِالْأُصْبُعِ ا.هـ
قال ابن عابدين في الحاشية: قوله (أو الأصبع) قال في الحلية ثم بأي أصبع استاك لا بأس به والأفضل أن يستاك بالسبابتين يبدأ بالسبابة اليسرى ثم باليمنى وإن شاء استاك بإبهامه اليمنى والسبابة اليمنى يبدأ بالإبهام من الجانب الأيمن فوق وتحت ثم بالسبابة من الأيسر كذلك ا.ه (البحرالرائق مع منحة الخالق 21/1)
اگر سواک کی تعریف اصطلاحی میں لکڑی کی قید لازمی ہوتی تو انگلی پھیرنا اس کا بدل کسی طور نہ ہوسکتا تھا۔ (شرح فتح القدير 1/ 22، حاشية ابن عابدين 1/ 115، التمهيد 7/ 202، مواهب الجليل 1/ 265، المغني 1/ 137، الإنصاف 1/ 118) وهو اختيار النووي (ينظر: المجموع 1/ 382) وابن قدامة (ينظر: المغني 1/ 137)
مسواک کی فضیلت کی بنیاد منہ کی صفائی ہے یا کوئی خاص لکڑی؟
پھر نسائی شریف کی اس حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سواک کی غیر معمولی فضیلت کی بنیاد دانت منہ کی طہارت وصفائی یعنی فعل استیاک ہے، محض چوب وخشب اس کی بنیاد نہیں:
السِّواكُ مَطهرةٌ للفمِ، مَرضاةٌ للرَّبِّ (النسأي 5— دانتوں کی صفائی یعنی مسواک کرنا منہ کی پاکیزگی اور رب کی خوشنودی کا ذریعہ ہے)
سواک کی شرعی حیثیت: 
مسواک کرنے کی سنیت پہ ائمہ اربعہ کا تو اتفاق ہے؛ لیکن اختلاف اس بارے میں ہے کہ وضو کی سنت ہے یا نماز کی؟۔ شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک سنن وضو اور سنن صلوٰة دونوں میں سے ہے۔ احناف کے مشہور قول کے مطابق صرف وضو کی سنتوں میں سے ہے۔ نماز کی سنتوں میں سے نہیں ہے۔ لیکن ایک قول ہمارے ہاں بھی سنن صلوۃ کا ہے، جیسا کہ علامہ ابن الہمام نے لکھا ہے کہ ہمارے یہاں مسواک کرنا پانچ اوقات میں مستحب ہے: 
ويستحب عندنا في خمسة مواضع:
1..عندإصفرار الأسنان (جب دانت پیلے ہو جائیں)
2..عند تغیر الرائحة (جب منھ میں بو پیدا ہو جائے)
3..عندالقیام من النوم (نیند سے بیدار ہوتے وقت)
4..عندالقیام إلى  الصلوٰة (نماز کے لئے کھڑے ہوتے وقت)
5..عندالوضوء (وضو کے وقت)
لہٰذا اس قول کی بنا پر احناف کے نزدیک مسواک کرنا وضو کے وقت سنت موکدہ ہے اور نماز کے وقت سنت غیرموکدہ، مستحب ہے. (فتح القدیر 25/1) .
مسواک کس چیز کی ہو؟
متعدد روایات میں مسواک کرنے کی تاکید آئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی اسے عملاً کرکے بتایا؛ حتی کہ مرض وفات میں بھی اسے ترک نہیں فرمایا، آپ کے زمانے میں جس چیز کی مسواک  دست یاب تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں مختلف مسواک استعمال فرمائے ہیں، ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) کی روایت میں پیلو کی مسواک کا ذکر ہے:
عنِ ابنِ مسعودٍ رَضِيَ اللهُ عنه, أنَّه كان يَجْتني سواكًا مِنَ الأراكِ، وكان دَقيقَ الساقَيْنِ، فجعلَتِ الرِّيحُ تَكْفَؤُهُ؛ فضحِكَ القومُ منه، فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وعلى آلِه وسلَّمَ: مِمَّ تَضحَكونَ؟ قالوا: يا نبيَّ اللهِ، مِن دِقَّةِ ساقَيْهِ، فقال: والذي نفْسي بيدِهِ، لَهما أثقَلُ في الميزانِ مِن أُحُدٍ.الصحيح المسند. (849.—حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کہ وہ پیلو (مسواک کے درخت) پر مسواک توڑنے چڑھے اور وہ پتلی پنڈلیوں والے تھے تو ہوا انہیں ادھر ادھر جھکانے لگی، اس پر قوم (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) ہنسنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم لوگ کس لئے ہنس رہے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا: اے اللہ کے نبی! ان کی پنڈلیوں کی باریکی کی وجہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبصے میں میری جان ہے، یہ دونوں پنڈلیاں میزان میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہیں)۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میں کھجور کی تازہ ٹہنی کی مسواک کا ذکر ہے:
دَخَلَ عبدُالرَّحْمَنِ بنُ أبِي بَكْرٍ علَى النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وأنا مُسْنِدَتُهُ إلى صَدْرِي، ومع عبدِ الرَّحْمَنِ سِواكٌ رَطْبٌ يَسْتَنُّ به، فأبَدَّهُ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بَصَرَهُ، فأخَذْتُ السِّواكَ فَقَصَمْتُهُ، ونَفَضْتُهُ وطَيَّبْتُهُ، ثُمَّ دَفَعْتُهُ إلى النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فاسْتَنَّ به، فَما رَأَيْتُ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ اسْتَنَّ اسْتِنانًا قَطُّ أحْسَنَ منه، فَما عَدا أنْ فَرَغَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ رَفَعَ يَدَهُ أوْ إصْبَعَهُ ثُمَّ قالَ في الرَّفِيقِ الأعْلَى. ثَلاثًا، ثُمَّ قَضَى، وكانَتْ تَقُولُ: ماتَ بيْنَ حاقِنَتي وذاقِنَتِي. صحيح البخاري. 4438.—-
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابى بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنےسینے کے ساتھ سہارا دے رکھا تھا۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ میں کھجور کی تازہ ٹہنی کی مسواک لئے اسے کررہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل مسواک کی طرف دیکھا، تو میں نے مسواک لے کر اسے دانتوں سے چبایا اور اچھی طرح سے قابل استعمال بناکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھادی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مسواک جتنی اچھی طرح سے کی، اس طرح سے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی مسواک کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ مسواک سے فارغ ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ یا اپنی انگلی اٹھائی اور فرمایا۔ ”فی الرفیق الاعلیٰ“ (اے اللہ! مجھے رفیق اعلی میں پہنچا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا تین دفعہ کہا اور پھر وفات پاگئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے مابین تھا۔ ان روایات سے واضح ہے کہ موقع محل کے اختلاف سے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مسواک مختلف ہوتی تھی. حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی حدیث میں مسواک کو کسی مخصوص آلے کے ساتھ لازمی محدود و مقید نہیں فرمایا. کسی مخصوص لکڑی کا انتخاب واستعمال اُس وقت کے  عرف وعادت یا بعض جزوی طبعی خصوصیت کی بنیاد پر تھا، اس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ احادیث میں مذکور لکڑیوں کے علاوہ دیگر چیزوں کی مسواک ممنوع قرار پاجائے! اسی لئے مذاہب اربعہ کا اتفاق ہے کہ لکڑی کی مسواک بیشک افضل وبہتر ہے: "الموسوعة الفقهية" (4/140) میں ہے:
 "اتَّفَقَ فُقَهَاءُ الْمَذَاهِبِ الأْرْبَعَةِ عَلَى أَنَّ أَفْضَلَهُ جَمِيعًا: الأْرَاكُ، لِمَا فِيهِ مِنْ طِيبٍ، وَرِيحٍ، وَتَشْعِيرٍ يُخْرِجُ وَيُنَقِّي مَا بَيْنَ الأْسْنَانِ" انتهى.
فقہ حنفی کے لئے: (حاشية الطحطاوي) (ص 44)، (حاشية ابن عابدين) (1/115).
فقہ مالکی کے لئے (مواهب الجليل) للحطاب (1/382)، (التاج والإكليل) للمواق (1/263).
فقہ شافعی کے لئے (المجموع)  للنووي (1/282)، (الحاوي الكبير)) للماوردي (1/86).
اور فقہ حنبلی کے لئے (الإنصاف) (1/119)، (الفروع) لابن مفلح (1/146) دیکھیں!
لیکن عذر وحرج اور کلفت ومشقت کے وقت دانتوں کی صفائی اور منہ کی پاکیزگی جس چیز سے بھی حاصل ہوجائے اس سے مسواک کی سنیت  ادا ہوجائے گی، اصل تو یہی ہے کہ آلہ سواک میں بھی حتی الوسع اتباع نبی کی کوشش کرے، لیکن عذر وحرج کے وقت لکڑی طرز کی سخت اور کھردری چیز مثلا برش اور ٹوتھ پیسٹ وغیرہ سے اچھی طرح دانت ومنہ صاف کرلئے جائیں تو اگرچہ یہ آلہ مسنونہ کا مستقل بدل تو نہیں بن سکتا؛ لیکن مسواک مسنون کی فضیلت و ثواب نیت کرلینے کے بعد اس سے حاصل ہوسکتی ہے، سواک کی فضیلت فعل سواک یعنی طہارت وصفائی میں مبالغے کے باعث ہے، کسی درخت کی مخصوص لکڑی کے باعث ستر درجے کی فضیلت نہیں ہے۔ ہاں جراثیم کش ہونے میں بعض لکڑیوں کی طبعی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے، یہ استحباب وافضلیت میں یقیناً مؤثر ہوگی جس سے کسی کو انکار نہیں! اس ذیل میں خوب اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ عذر کے حالات میں عارضی طور پہ مسواک مسنون کی نیت کے ساتھ برش و ٹوتھ پیسٹ سے دانت کی اچھی طرح صفائی کرنے سے مسواک مسنون کی فضیلت کا حصول صرف گنجائش کی حد تک ہی ہے. باقی لکڑی کے جن مسواک کو سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت کے دس امور میں شامل فرمایا ہے اور انہیں سنن انبیاء کہا ہے. ان کی فضیلت اپنی جگہ مسلم ہے، جملہ احکام، فوائد اور نمازوں کے ثواب میں اضافے میں پلاسٹک برش و ٹوتھ پیسٹ ان کا بدل نہیں بن سکتا۔ ہذا ما عندی والصواب عند اللہ۔
15  جنوری 2022
https://saagartimes.blogspot.com/2022/01/blog-post_15.html

Friday 14 January 2022

کیا اللہ تعالی ہر جگہ موجود ہیں؟

کیا اللہ تعالی ہر جگہ موجود ہیں؟ 

---------------------------------
----------------------------------
ذات باری تعالی جسم وجہات اور ازمنہ وامکنہ سے یکسر پاک اور غیرمحدود و لامتناہی ہے. اس کی ذات پوری دنیا اور دنیا کے ذرے ذرے کو تھامے ہوئے اور محیط ہے، وہ قیّوم السماوات والارض ہے. مخلوقات کے وجود کے لئے حیزوحلول ضروری ہے. جبکہ ذات باری تعالی کے ہر جگہ وجود کے لئے تحیز، حلول وتکیّف کی ضرورت نہیں؛ بلکہ وہ بحیثیت "قیوم" کائنات کے ذرے ذرے کو محیط ہے. اس پہ ایک دو نہیں متعدد نصوص موجود ہیں:
"وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ"
میں "واسع" کا مفہوم یہی ہے کہ ذات باری تعالی کو شرق وغرب جیسی محدود جہات میں بند کردینا درست نہیں. اس کا وجود کائنات کے ذرے ذرے کو محیط ہے۔
اللّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لاَ تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلاَ نَوْمٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاء وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَلاَ يَؤُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (سورة البقرة (2)، الآية: 255)
 أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِن ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيم (سورة المجادلة (58)، الآية: 7)
يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلاَ يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللّهِ وَهُوَ مَعَهُمْ إِذْ يُبَيِّتُونَ مَا لاَ يَرْضَى مِنَ الْقَوْلِ وَكَانَ اللّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطًا (سورة النساء (4)، الآية: 108)
 هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (سورة الحديد (57، الآية: 4) 
آیات مبارکہ میں "وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ" سعت وجود باری تعالی کو صراحت کے ساتھ بتایا گیا ہے، استوی علی العرش کے ذیل میں ذات باری تعالی کو یک گونہ محدود کردینے والے احباب "وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ" جیسی آیات سے سے احاطہ علمی مراد لیتے ہیں اور سعت وجود کا انکار کرتے ہیں جو درست نہیں ہے؛ کیونکہ احاطہ علمی کو "أحاط بكل شيء علماً" جیسی آیت میں بطور خاص بیان کردیا گیا ہے، تو پھر ان آیتوں میں بھی وہی احاطہ علمی کے تکرار در تکرار کے کیا معنی؟
طول، عرض اور عمق (ابعاد ثلاثہ) سے مرکب موجود مادی وحسی کے وجود کے لئے تحیز وتکیف درکار ہوتا ہے. موجود غیرمادی کے وجود کے لئے تحیز وتکیف یا جہات کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی. بعض نصوص میں ذات باری تعالی کے لیے جہت فوق وسماء کی نسبت جہت علو کے  ذاتی تفوق کے لئے کی گئی ہے تحدید جہت مخصوصہ مراد نہیں۔ یہ کہنے کی بات نہیں ہے کہ وجود باری غیر مادی ہے، لہذا ہر جگہ موجود ہونے کے لئے تحیز وتکیف کی ضرورت ہے نہ سمات نقص کا تحقق ہوگا. سعت وجود باری کو عام فہم انداز میں بتانے کے لیے "اللہ ہر جگہ موجود ہے" جیسی تعبیر اختیار کی گئی ہے. اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے. جمہور علماء وارباب افتاء اسے استعمال کرتے چلے آئے ہیں. ان سب کا ایک غلط و باطل عقیدے پہ مجتمع ہونا محال ہے. عقیدے کا مسئلہ ویسے ہی انتہائی حساس و نازک ہے، منطقی و کلامی موشگافیوں کے ذریعے اسے طول دینا اور لاطائل بحثوں کا لامتناہی سلسلہ دراز کرتے رہنا صالح ذہانتوں کو انتشار کا شکار کرنا ہے جو مفید نہیں. فقط 
https://saagartimes.blogspot.com/2022/01/blog-post_67.html