Thursday 12 July 2018

بہترین اور بدترین

بہترین اور بدترین
ایس اے ساگر
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ کے بہترین بندے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر اللہ یاد آجائے اور بدترین بندے وہ ہوتے ہیں جو چغلخوری کرتے ہیں، دوستوں کے درمیان تفریق پیدا کرتے ہیں، بے گناہ لوگوں میں عیب تلاش کرتے ہیں. امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ’’الادب المفرد‘‘ میں حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے ایک روایت بیان کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اور برے مسلمانوں کی علامات بیان فرمائی ہیں۔ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا انصاریہ خاتون ہیں، صحابیہ ہیں اور ان کا لقب خطیبۃ الانصار بیان کیا جاتا ہے۔ بڑی خطیبہ تھیں اور عوتوں میں وعظ کیا کرتی تھیں۔ جس طرح حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ خطیب الانصار کہلاتے تھے، انہیں خطیب رسول اللہ بھی کہا جاتا تھا اور خطیب الاسلام کا لقب بھی سب سے پہلے انہی کے لیے بولا گیا تھا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا اَلا اُخبرکم بخیارکم کہ کیا میں تمہیں تمہارے اچھے لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ضرور آگاہ فرمائیں۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا: الذین اذا رأوا ذکر اللّٰہ وہ لوگ جنہیں دیکھا جائے تو خدا یاد آجائے۔ پھر فرمایا ألا أخبرکم بشرارکم؟ کیا میں تمہیں تمہارے برے لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا بلٰی یا رسول اللّٰہ! ضرور بیان فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا المشاؤون بالنمیمۃ، المفسدون بین الأحبۃ، الباغون البراء العنت۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین باتوں کا ذکر فرمایا۔ ایک یہ کہ المشاؤون بالنمیمۃ چغلیاں کھانے والے یعنی ایک دوسرے کی چغلی کرنے والے لوگ۔ دوسری بات فرمائی المفسدون بین الأحبۃ کہ دوستوں کے درمیان فساد ڈالنے والے برے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ تیسری بات حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی کہ الباغون البراء العنت شریف اور باعزت لوگوں میں عیب تلاش کر کے انہیں بدنام کرنے والے بھی برے لوگ ہوتے ہیں۔ 
جو چپ رہا اس نے نجات پائی:
تِرمِذی شریف میں ہے: مَنْ صَمَتَ نَجَا جوچُپ رہا اُس نے نَجات پائی۔'' (سنن الترمذی ج۴ ص۲۲۵ حدیث ۲۵۰۹) لہذا جس کو (آخرت) پسند ہوکہ امن و سلامتی میں رہے تو اسے خاموشی اختیار کرنا لازمی ہے۔
(الصمت ابن ابی الدنیا۔حدیث11) (مسند شہاب قضاعی۔ حدیث 371) (مسند ابو لعلی۔ 3607۔) ضعیف جداً۔
حدیث صحیح۔ رواۃ احمد/230۔ترمذی/2616۔ و صحیہ الحاکم/2۔812۔813،)
گفتگو میں جواب دہی:
حضرتِ معاذ (ابن جبل) رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم جو گفتگو کرتے ہیں ان کی جواب دہی ہوگی؟ 
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اے ابن جبل! تیری ماں تجھے گم کرے، کیا دوزخ میں اپنی ناکوں کے بل اپنی سزاؤں کے علاوہ بھی جائیں گے۔
(کتاب الصمت ابن ابی الدنیا/حدیث 46)
جنت کا عمل:
حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا گیا: آپ مجھے وہ عمل بتائیں جس کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہوں۔
آپ نے فرمایا: گفتگو نہ کیا کرو۔ 
انہوں نے عرض کیا: بولنا تو ہماری مجبوری ہے۔
فرمایا: خیر کے سوا نہ بولا کرو۔
(از حضرتِ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ معجم صگیر طبرانی۔ حدیث /949) (ابن ابی الدنیا فی فی الصمت۔91)
شیطان پر غلبہ کا طریقہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
خیر کے سوا ہر شئے سے زبان کو قابو رکھ۔ اسی کے ذریعہ سے تو شیطان پر غالب آئے گا۔
(زاہد ابن مبارک حدیث367/ ابن عمر شیبہ31/۔233۔234، تاریخ بغداد۔9۔329،حلی ابو نعیم۔ 8/۔352۔۔9/۔44۔۔8/۔160)
بھلی گفتگو یا خاموشی: 
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں:
جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے یا تو اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔
(بخاری شریف: 6019)
اچھی بات یا خاموشی پر رحمت؟
حضرتِ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ اس بندہ پر رحمت فرمائے جو اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔
(از ابو امامہ معجم کبیر)
اکثر خطائیں زبان میں ہیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں:
انسان کی اکثر خطائیں اس کی زبان میں ہیں۔
(طبرانی، حلیہ)
اگر آپ کے پاس پوری معلومات نہیں ہیں تو،
خاموش رہیں!
▪ اگر آپ کا موڈ اچھا نہیں ہے تو،
خاموش رہیں!
▪ جب غصہ بہت زیادہ ہو تو
خاموش رہیں!
▪ اگر آپ کے الفاظ، دوسرے کو تکلیف دیتے ہیں تو،
خاموش رہیں!
▪ اگر آپ کے الفاظ سے دوسرے کو غلط تاثر ملے تو،
خاموش رہیں!
▪ اگر آپ چیخے بغیر بات نہیں کرسکتے تو،
خاموش رہیں!
▪ جب سننے کا وقت ہو تو،
خاموش رہیں!
▪ اگر آپ کو بات کرنے کے بعد شرمندگی کا ڈر ہوتو،
خاموش رہیں!




No comments:

Post a Comment