ابو الاعلی مودودی کی شخصیت معمہ کیوں؟
مولانا مودودی کے بارے میں یہ کہنا کہ آپ نے برصغیر کے تقلیدی ماحول پر ضرب لگائی سمجھ سے بالاتر ہے کیوں کہ وہ پکے باعمل حنفی تھے۔ خاندانی اعتبار سے گرچہ اہل سنت گھرانے سے آپکا تعلق تھا لیکن پوری زندگی روافض کیلئے کام کرتے رہے۔ اور اسکے لئے ایک الگ جماعت بنائی جسکے رول ریگولیشن سب بالکل خمینی انقلاب جیسے تھے۔ چنانچہ جب انہوں نے اپنی جماعت بنائی تھی تو شیعوں کی طرح سب کا تجدید ایمان کروایا تھا انکی تعداد 75 بتائی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سنی ہوکر بھی خمینی کے اس قدر مداح تھے کہ رافضی بھی فیل۔ ویسے نہیں شیعہ انہیں آیت اللہ کہتے تھے۔
جب تک انگریز تھے ہمیشہ مسلمانوں کو انکے خلاف سیاسی جماعت بنانے سے منع کرتے رہے۔ ان کے جانے کے بعد پاکستان میں سیاسی جماعت صرف بنائی ہی نہیں بلکہ فاطمہ جناح (عورت کی قیادت) کی قیادت کی وکالت بھی کرنے لگے۔
یہ دوسروں کو ہمیشہ نصیحت کرتے رہے کہ کسی پر نقد وتبصرے نہیں کرنا چاہئے اور اپنا صحابہ کرام اور انبیاء جیسی ہستیوں پر نقد کرنے سے باز نہ آ سکے۔
اسی کا رونا رویا ہے ایک تبصرہ نگار نے۔ چنانچہ ابو الاعلی مودودی کے اس رافضی کارنامے کو سنیں ایک تبصرہ نگار کی زبانی:
((جماعت اسلامی اور ایرانی شیعہ روافض اور ان کے قائدین میں نظریاتی یکسانیت ہے۔ اس شخص مودودی نے اپنے تصانیف میں ایک انتہائی غلط اور شر کی راہ بھی کھولی ہے کہ اس نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کے درمیان بعض انتظامی و سیاسی امور میں اختلافات جسے علمائے کرام مشاجرات صحابہ کہتے ہیں پر قلم اٹھا کر اسے اپنے کتب میں شائع کرنا شروع کر دیا یہ کام شیعہ روافض نے بھی اتنی زور و شور سے نہیں کی تھی جتنا اس نام نہاد مبلغ و مفکر نے کیا۔ روافض زنادقہ حسد و بغض کی وجہ سے تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر تبرا اور ان کو سب وشتم تو کرتے آرہے ہیں لیکن اس نام نہاد سنی شخص نے اپنی خبث باطن کو ظاہر کرکے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے درمیان بعض سیاسی و انتظامی امور میں اختلاف کو بڑھا چڑھا پیش کی۔ جبکہ تمام علمائے کرام کا اس پر آپس میں اتفاق و اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے صرف محاسن و فضائل ہی ہی کو بیان کرنا چاہیئے اور ان کی آپس کی بعض چپقلشیں آپس میں دو بھائیوں کے درمیان پیش آنے والے اختلاف کی مصداق سمجھے جائیں گے جو صرف دنیوی امور میں تھے لیکن بطور مجموعی وہ سب کے سب جنتی اور رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نام نہاد جماعت اسلامی اور اس کے فوت شدہ بانی قائد اور دیگر قائدین کی ایرانی شیعہ روافض اور ان کے گمراہ قائد خمینی و دیگر اکابرین سے بہت دوستانہ و یارانہ لگتا ہے کیونکہ دونوں کا آپس میں نظریاتی تعلق میں یکسانیت ہے۔
(والعیاذ باللہ۔)
مولانا مودودی کے بارے میں یہ کہنا کہ آپ نے برصغیر کے تقلیدی ماحول پر ضرب لگائی سمجھ سے بالاتر ہے کیوں کہ وہ پکے باعمل حنفی تھے۔ خاندانی اعتبار سے گرچہ اہل سنت گھرانے سے آپکا تعلق تھا لیکن پوری زندگی روافض کیلئے کام کرتے رہے۔ اور اسکے لئے ایک الگ جماعت بنائی جسکے رول ریگولیشن سب بالکل خمینی انقلاب جیسے تھے۔ چنانچہ جب انہوں نے اپنی جماعت بنائی تھی تو شیعوں کی طرح سب کا تجدید ایمان کروایا تھا انکی تعداد 75 بتائی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سنی ہوکر بھی خمینی کے اس قدر مداح تھے کہ رافضی بھی فیل۔ ویسے نہیں شیعہ انہیں آیت اللہ کہتے تھے۔
جب تک انگریز تھے ہمیشہ مسلمانوں کو انکے خلاف سیاسی جماعت بنانے سے منع کرتے رہے۔ ان کے جانے کے بعد پاکستان میں سیاسی جماعت صرف بنائی ہی نہیں بلکہ فاطمہ جناح (عورت کی قیادت) کی قیادت کی وکالت بھی کرنے لگے۔
یہ دوسروں کو ہمیشہ نصیحت کرتے رہے کہ کسی پر نقد وتبصرے نہیں کرنا چاہئے اور اپنا صحابہ کرام اور انبیاء جیسی ہستیوں پر نقد کرنے سے باز نہ آ سکے۔
اسی کا رونا رویا ہے ایک تبصرہ نگار نے۔ چنانچہ ابو الاعلی مودودی کے اس رافضی کارنامے کو سنیں ایک تبصرہ نگار کی زبانی:
((جماعت اسلامی اور ایرانی شیعہ روافض اور ان کے قائدین میں نظریاتی یکسانیت ہے۔ اس شخص مودودی نے اپنے تصانیف میں ایک انتہائی غلط اور شر کی راہ بھی کھولی ہے کہ اس نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کے درمیان بعض انتظامی و سیاسی امور میں اختلافات جسے علمائے کرام مشاجرات صحابہ کہتے ہیں پر قلم اٹھا کر اسے اپنے کتب میں شائع کرنا شروع کر دیا یہ کام شیعہ روافض نے بھی اتنی زور و شور سے نہیں کی تھی جتنا اس نام نہاد مبلغ و مفکر نے کیا۔ روافض زنادقہ حسد و بغض کی وجہ سے تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر تبرا اور ان کو سب وشتم تو کرتے آرہے ہیں لیکن اس نام نہاد سنی شخص نے اپنی خبث باطن کو ظاہر کرکے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے درمیان بعض سیاسی و انتظامی امور میں اختلاف کو بڑھا چڑھا پیش کی۔ جبکہ تمام علمائے کرام کا اس پر آپس میں اتفاق و اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے صرف محاسن و فضائل ہی ہی کو بیان کرنا چاہیئے اور ان کی آپس کی بعض چپقلشیں آپس میں دو بھائیوں کے درمیان پیش آنے والے اختلاف کی مصداق سمجھے جائیں گے جو صرف دنیوی امور میں تھے لیکن بطور مجموعی وہ سب کے سب جنتی اور رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نام نہاد جماعت اسلامی اور اس کے فوت شدہ بانی قائد اور دیگر قائدین کی ایرانی شیعہ روافض اور ان کے گمراہ قائد خمینی و دیگر اکابرین سے بہت دوستانہ و یارانہ لگتا ہے کیونکہ دونوں کا آپس میں نظریاتی تعلق میں یکسانیت ہے۔
(والعیاذ باللہ۔)
ابو الاعلی مودودی کی شخصیت معمہ کیوں؟
مولانا مودودی کے بارے میں یہ کہنا کہ آپ نے برصغیر کے تقلیدی ماحول پر ضرب لگائی سمجھ سے بالاتر ہے کیوں کہ وہ پکے باعمل حنفی تھے۔ خاندانی اعتبار سے گرچہ اہل سنت گھرانے سے آپکا تعلق تھا لیکن پوری زندگی روافض کیلئے کام کرتے رہے۔ اور اسکے لئے ایک الگ جماعت بنائی جسکے رول ریگولیشن سب بالکل خمینی انقلاب جیسے تھے۔ چنانچہ جب انہوں نے اپنی جماعت بنائی تھی تو شیعوں کی طرح سب کا تجدید ایمان کروایا تھا انکی تعداد 75 بتائی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سنی ہوکر بھی خمینی کے اس قدر مداح تھے کہ رافضی بھی فیل۔ ویسے نہیں شیعہ انہیں آیت اللہ کہتے تھے۔
جب تک انگریز تھے ہمیشہ مسلمانوں کو انکے خلاف سیاسی جماعت بنانے سے منع کرتے رہے۔ ان کے جانے کے بعد پاکستان میں سیاسی جماعت صرف بنائی ہی نہیں بلکہ فاطمہ جناح (عورت کی قیادت) کی قیادت کی وکالت بھی کرنے لگے۔
یہ دوسروں کو ہمیشہ نصیحت کرتے رہے کہ کسی پر نقد وتبصرے نہیں کرنا چاہئے اور اپنا صحابہ کرام اور انبیاء جیسی ہستیوں پر نقد کرنے سے باز نہ آسکے۔
اسی کا رونا رویا ہے ایک تبصرہ نگار نے۔ چنانچہ ابو الاعلی مودودی کے اس رافضی کارنامے کو سنیں ایک تبصرہ نگار کی زبانی:
((جماعت اسلامی اور ایرانی شیعہ روافض اور ان کے قائدین میں نظریاتی یکسانیت ہے۔ اس شخص مودودی نے اپنے تصانیف میں ایک انتہائی غلط اور شر کی راہ بھی کھولی ہے کہ اس نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کے درمیان بعض انتظامی و سیاسی امور میں اختلافات جسے علمائے کرام مشاجرات صحابہ کہتے ہیں پر قلم اٹھا کر اسے اپنے کتب میں شائع کرنا شروع کر دیا یہ کام شیعہ روافض نے بھی اتنی زور و شور سے نہیں کی تھی جتنا اس نام نہاد مبلغ و مفکر نے کیا۔ روافض زنادقہ حسد و بغض کی وجہ سے تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر تبرا اور ان کو سب وشتم تو کرتے آرہے ہیں لیکن اس نام نہاد سنی شخص نے اپنی خبث باطن کو ظاہر کرکے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے درمیان بعض سیاسی و انتظامی امور میں اختلاف کو بڑھا چڑھا پیش کی۔ جبکہ تمام علمائے کرام کا اس پر آپس میں اتفاق و اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے صرف محاسن و فضائل ہی ہی کو بیان کرنا چاہیئے اور ان کی آپس کی بعض چپقلشیں آپس میں دو بھائیوں کے درمیان پیش آنے والے اختلاف کی مصداق سمجھے جائیں گے جو صرف دنیوی امور میں تھے لیکن بطور مجموعی وہ سب کے سب جنتی اور رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نام نہاد جماعت اسلامی اور اس کے فوت شدہ بانی قائد اور دیگر قائدین کی ایرانی شیعہ روافض اور ان کے گمراہ قائد خمینی و دیگر اکابرین سے بہت دوستانہ و یارانہ لگتا ہے کیونکہ دونوں کا آپس میں نظریاتی تعلق میں یکسانیت ہے۔ والعیاذ باللہ۔))
......
مودودیت (جماعت اسلامی) اکابر علماء کی نظر میں:
1: حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”میرا دل اس تحریک کو قبول نہیں کرتا۔“
(روزنامہ احسان لاہور، 11 ستمبر 1948)
2: شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اب تک ہم نے مودودی صاحب اور ان کی جماعت؛ نام نہاد جماعت اسلامی کی اصولی غلطیوں کا ذکر کیا ہے جو انتہائی درجہ میں گمراہی ہے۔ اب ہم ان کی قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کی کھلی ہوئی مخالفتوں کا ذکر کریں گے جن سے صاف ظاہر ہو جائے گا کہ مودودی صاحب کا کتاب و سنت کا بار بار ذکر فرمانا محض ڈھونگ ہے، وہ نہ کتاب کو مانتے ہیں اور نہ سنت کو مانتے ہیں بلکہ وہ خلاف سلف صالحین ایک نیا مذہب بنا رہے ہیں اور اسی پر لوگوں کو چلا کر دوزخ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
3: شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی رحمہ اللہ:
(مودودی صاحب نے 1948 ء میں جہاد کشمیر کے متعلق جب یہ کہا کہ پاکستانی مسلمانوں کے لئے رضا کارانہ طور پر بھی اس میں حصہ لینا جائز نہیں ہے) تو علامہ عثمانی نے ان کو تحریر فرمایا:
بعض احباب نے مجھے ترجمان القرآن کا وہ پرچہ دکھایا جس میں آپ نے کسی شخص کے خط کا جواب دیتے ہوئے جنگ کشمیر کے متعلق اپنے خیالات، شرعی حیثیت سے ظاہر فرمائے ہیں۔ جنگ کشمیر کے اس نازک مرحلے پر آپ کے قلم سے یہ تحریر دیکھ کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور شدید قلق بھی ہوا کیونکہ میرے نزدیک اس معاملہ میں آپ کی جانب سے ایسی مہلک لغزش ہوئی ہے جس سے مسلمانوں کو عظیم نقصان کا احتمال ہے۔
(اشرف السوانح: ج 4 ص 24)
4: شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ:
قطب زمان حضرت لاہوری رحمہ اللہ نے ایک کتاب ”حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب“ تحریر فرمائی تھی۔ اس میں ارشاد فرمایا:
برادران اسلام !مودودی صاحب کی تحریک کو بہ نظر غور دیکھا جائے تو ان کی کتابوں سے جو چیز ثابت ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ مودودی صاحب ایک نیا اسلام مسلمانوں کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں اور نعوذ باللہ من ذالک نیا اسلام لوگ تب ہی قبول کریں گے جب پرانے اسلام کی درودیوار منہدم کر کے دکھا دیئے جائیں اور مسلمانوں کو اس امر کا یقین دلادیا جائے کہ ساڑھے تیرہ سو سال کا اسلام جو تم لئے پھرتے ہو وہ ناقابل روایت اور ناقابل عمل ہوگیا ہے۔ اس لئے اس نئے اسلام کو مانو اسی پر عمل کرو جو جو مودودی صاحب پیش فرمارہے ہیں۔ اے اللہ !میرے دل کی دعائیں قبول فرما! مودودی صاحب کو ہدایت فرما اور ان کے متبعین کو بھی اس جدید اسلام سے توبہ کی توفیق عطاء فرما۔ آمین یا الہ العالمین۔
(حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب ص:4)
مولانا مودودی کے بارے میں یہ کہنا کہ آپ نے برصغیر کے تقلیدی ماحول پر ضرب لگائی سمجھ سے بالاتر ہے کیوں کہ وہ پکے باعمل حنفی تھے۔ خاندانی اعتبار سے گرچہ اہل سنت گھرانے سے آپکا تعلق تھا لیکن پوری زندگی روافض کیلئے کام کرتے رہے۔ اور اسکے لئے ایک الگ جماعت بنائی جسکے رول ریگولیشن سب بالکل خمینی انقلاب جیسے تھے۔ چنانچہ جب انہوں نے اپنی جماعت بنائی تھی تو شیعوں کی طرح سب کا تجدید ایمان کروایا تھا انکی تعداد 75 بتائی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سنی ہوکر بھی خمینی کے اس قدر مداح تھے کہ رافضی بھی فیل۔ ویسے نہیں شیعہ انہیں آیت اللہ کہتے تھے۔
جب تک انگریز تھے ہمیشہ مسلمانوں کو انکے خلاف سیاسی جماعت بنانے سے منع کرتے رہے۔ ان کے جانے کے بعد پاکستان میں سیاسی جماعت صرف بنائی ہی نہیں بلکہ فاطمہ جناح (عورت کی قیادت) کی قیادت کی وکالت بھی کرنے لگے۔
یہ دوسروں کو ہمیشہ نصیحت کرتے رہے کہ کسی پر نقد وتبصرے نہیں کرنا چاہئے اور اپنا صحابہ کرام اور انبیاء جیسی ہستیوں پر نقد کرنے سے باز نہ آسکے۔
اسی کا رونا رویا ہے ایک تبصرہ نگار نے۔ چنانچہ ابو الاعلی مودودی کے اس رافضی کارنامے کو سنیں ایک تبصرہ نگار کی زبانی:
((جماعت اسلامی اور ایرانی شیعہ روافض اور ان کے قائدین میں نظریاتی یکسانیت ہے۔ اس شخص مودودی نے اپنے تصانیف میں ایک انتہائی غلط اور شر کی راہ بھی کھولی ہے کہ اس نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کے درمیان بعض انتظامی و سیاسی امور میں اختلافات جسے علمائے کرام مشاجرات صحابہ کہتے ہیں پر قلم اٹھا کر اسے اپنے کتب میں شائع کرنا شروع کر دیا یہ کام شیعہ روافض نے بھی اتنی زور و شور سے نہیں کی تھی جتنا اس نام نہاد مبلغ و مفکر نے کیا۔ روافض زنادقہ حسد و بغض کی وجہ سے تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر تبرا اور ان کو سب وشتم تو کرتے آرہے ہیں لیکن اس نام نہاد سنی شخص نے اپنی خبث باطن کو ظاہر کرکے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے درمیان بعض سیاسی و انتظامی امور میں اختلاف کو بڑھا چڑھا پیش کی۔ جبکہ تمام علمائے کرام کا اس پر آپس میں اتفاق و اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے صرف محاسن و فضائل ہی ہی کو بیان کرنا چاہیئے اور ان کی آپس کی بعض چپقلشیں آپس میں دو بھائیوں کے درمیان پیش آنے والے اختلاف کی مصداق سمجھے جائیں گے جو صرف دنیوی امور میں تھے لیکن بطور مجموعی وہ سب کے سب جنتی اور رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نام نہاد جماعت اسلامی اور اس کے فوت شدہ بانی قائد اور دیگر قائدین کی ایرانی شیعہ روافض اور ان کے گمراہ قائد خمینی و دیگر اکابرین سے بہت دوستانہ و یارانہ لگتا ہے کیونکہ دونوں کا آپس میں نظریاتی تعلق میں یکسانیت ہے۔ والعیاذ باللہ۔))
......
مودودیت (جماعت اسلامی) اکابر علماء کی نظر میں:
1: حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”میرا دل اس تحریک کو قبول نہیں کرتا۔“
(روزنامہ احسان لاہور، 11 ستمبر 1948)
2: شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اب تک ہم نے مودودی صاحب اور ان کی جماعت؛ نام نہاد جماعت اسلامی کی اصولی غلطیوں کا ذکر کیا ہے جو انتہائی درجہ میں گمراہی ہے۔ اب ہم ان کی قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کی کھلی ہوئی مخالفتوں کا ذکر کریں گے جن سے صاف ظاہر ہو جائے گا کہ مودودی صاحب کا کتاب و سنت کا بار بار ذکر فرمانا محض ڈھونگ ہے، وہ نہ کتاب کو مانتے ہیں اور نہ سنت کو مانتے ہیں بلکہ وہ خلاف سلف صالحین ایک نیا مذہب بنا رہے ہیں اور اسی پر لوگوں کو چلا کر دوزخ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
3: شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی رحمہ اللہ:
(مودودی صاحب نے 1948 ء میں جہاد کشمیر کے متعلق جب یہ کہا کہ پاکستانی مسلمانوں کے لئے رضا کارانہ طور پر بھی اس میں حصہ لینا جائز نہیں ہے) تو علامہ عثمانی نے ان کو تحریر فرمایا:
بعض احباب نے مجھے ترجمان القرآن کا وہ پرچہ دکھایا جس میں آپ نے کسی شخص کے خط کا جواب دیتے ہوئے جنگ کشمیر کے متعلق اپنے خیالات، شرعی حیثیت سے ظاہر فرمائے ہیں۔ جنگ کشمیر کے اس نازک مرحلے پر آپ کے قلم سے یہ تحریر دیکھ کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور شدید قلق بھی ہوا کیونکہ میرے نزدیک اس معاملہ میں آپ کی جانب سے ایسی مہلک لغزش ہوئی ہے جس سے مسلمانوں کو عظیم نقصان کا احتمال ہے۔
(اشرف السوانح: ج 4 ص 24)
4: شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ:
قطب زمان حضرت لاہوری رحمہ اللہ نے ایک کتاب ”حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب“ تحریر فرمائی تھی۔ اس میں ارشاد فرمایا:
برادران اسلام !مودودی صاحب کی تحریک کو بہ نظر غور دیکھا جائے تو ان کی کتابوں سے جو چیز ثابت ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ مودودی صاحب ایک نیا اسلام مسلمانوں کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں اور نعوذ باللہ من ذالک نیا اسلام لوگ تب ہی قبول کریں گے جب پرانے اسلام کی درودیوار منہدم کر کے دکھا دیئے جائیں اور مسلمانوں کو اس امر کا یقین دلادیا جائے کہ ساڑھے تیرہ سو سال کا اسلام جو تم لئے پھرتے ہو وہ ناقابل روایت اور ناقابل عمل ہوگیا ہے۔ اس لئے اس نئے اسلام کو مانو اسی پر عمل کرو جو جو مودودی صاحب پیش فرمارہے ہیں۔ اے اللہ !میرے دل کی دعائیں قبول فرما! مودودی صاحب کو ہدایت فرما اور ان کے متبعین کو بھی اس جدید اسلام سے توبہ کی توفیق عطاء فرما۔ آمین یا الہ العالمین۔
(حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب ص:4)
نیز علامہ لاہوری تحریر فرماتے ہیں خدا جانے مودودی صاحب کو کیا ہو گیا ہے؟! اللہ تعالیٰ کے ہر بندے کی توہین اپنی عادت بنا لی ہے۔ اسی لیے تو میں کہتا ہوں اور میرے دل میں اس بات کا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ مودودی صاحب سے ناراض ہے،اسی لئے تو [مودودی صاحب] اللہ کے ہر مقبول بندے کی توہین بڑی دلیری سے کرتے ہیں۔
(حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب ص: 43)
5: حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب (مہتمم دارالعلوم دیوبند)
آپ رحمہ اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معیار حق ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں:
”اندریں صورت مودودی صاحب کا دستور جماعت کی بنیادی دفعہ میں عموم و اطلاق کے ساتھ یہ دعویٰ کرنا کہ رسول خدا کے سوا کوئی معیار حق اور تنقید سے بالا تر نہیں ہے جس میں صحابہ سب کے سب شامل ہوتے ہیں اور پھر ان پر جرح و تنقید کا عملی پروہ بھی ڈال دینا حدیث رسول کا محض معارضہ ہی نہیں بلکہ ایک حد تک خود اپنے معیار ہونے کا ادعاء ہے جس پر صحابہ تک کو پرکھنے کی جرات کر لی گئی۔ گویا جس اصول کو شد ومد سے تحریک کی بنیاد قرار دیا گیا تھا اپنے ہی بارے میں اسے ہی سب سے پہلے توڑ دیا گیا اور سلف وخلف کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا خود معیار حق بن بیٹھنے کی کوشش کی جانے لگی.“
(مودودی دستور اور عقائد کی حقیقت :ص18)
6: مخدوم العلماء حضرت مولانا خیر محمد صاحب جالندھری رحمہ اللہ خلیفہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ و مہتمم خیر المدارس ملتان:
مودودی صاحب اور اس کے متبعین کے بعض مسائل خلاف اہل سنت والجماعت کے ہیں، سلف صالحین کی اتباع کے منکر ہیں ، لہذا بندہ ان کو ملحد سمجھتا ہے۔
7: حضرت مولانا شمس الحق افغانی (سابق وزیر معارف قلات)
”مودودی صاحب کی تحریرات پر نگاہ ڈالی، موصوف کے متعلق احقر کا تاثر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اسلام سے مطمئن نہیں اس لئے اس کو اپنے ڈھب پر لانا چاہتے ہیں جس کے لئے اصلی اسلام میں ترمیم نا گزیر ہے، لیکن اس کا چھپانا بھی ضروری ہے، اس لئے وہ اپنی اسی ترمیم کے تخریبی عمل کو انشاء پردازی، اقامت دین کے نعروں، یورپی طرز کے پر وپیگنڈے کے پردوں میں چھپانے کی کو شش کرتے ہیں۔ اسی تخریبی عمل کے محرکات دو ہیں۔ نفسیاتی تعلی اور فقدان خشیت اللہ، اور عوام میں بھی اس دونوں بیماریوں میں مبتلا افراد کی کمی نہیں ہے، یہی باطنی ہم رنگی اس تحریک کی توسع کی اصلی سامان ہے۔“
8: اسوۃ الصلحاء شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر الدین صاحب (غورغشتوی خلیفہ حضرت مولانا حسین علی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ)
”مودودی صاحب ضال اور مضل "یعنی خود گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے۔“
9: ستادالعلماء حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ (شیخ الحدیث دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک ،ضلع پشاور)
”مودودی صاحب کے عقائد اہل السنت والجماعت کے خلاف اور گمراہ کن ہیں ، مسلمان اس فتنے سے بچنے کی کوشش کریں۔
عصمتِ انبیاء (نبیوں کے معصوم ہونے) علیہم السلام کے متعلق مودودی صاحب کے نظریات
(حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب ص: 43)
5: حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب (مہتمم دارالعلوم دیوبند)
آپ رحمہ اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معیار حق ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں:
”اندریں صورت مودودی صاحب کا دستور جماعت کی بنیادی دفعہ میں عموم و اطلاق کے ساتھ یہ دعویٰ کرنا کہ رسول خدا کے سوا کوئی معیار حق اور تنقید سے بالا تر نہیں ہے جس میں صحابہ سب کے سب شامل ہوتے ہیں اور پھر ان پر جرح و تنقید کا عملی پروہ بھی ڈال دینا حدیث رسول کا محض معارضہ ہی نہیں بلکہ ایک حد تک خود اپنے معیار ہونے کا ادعاء ہے جس پر صحابہ تک کو پرکھنے کی جرات کر لی گئی۔ گویا جس اصول کو شد ومد سے تحریک کی بنیاد قرار دیا گیا تھا اپنے ہی بارے میں اسے ہی سب سے پہلے توڑ دیا گیا اور سلف وخلف کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا خود معیار حق بن بیٹھنے کی کوشش کی جانے لگی.“
(مودودی دستور اور عقائد کی حقیقت :ص18)
6: مخدوم العلماء حضرت مولانا خیر محمد صاحب جالندھری رحمہ اللہ خلیفہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ و مہتمم خیر المدارس ملتان:
مودودی صاحب اور اس کے متبعین کے بعض مسائل خلاف اہل سنت والجماعت کے ہیں، سلف صالحین کی اتباع کے منکر ہیں ، لہذا بندہ ان کو ملحد سمجھتا ہے۔
7: حضرت مولانا شمس الحق افغانی (سابق وزیر معارف قلات)
”مودودی صاحب کی تحریرات پر نگاہ ڈالی، موصوف کے متعلق احقر کا تاثر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اسلام سے مطمئن نہیں اس لئے اس کو اپنے ڈھب پر لانا چاہتے ہیں جس کے لئے اصلی اسلام میں ترمیم نا گزیر ہے، لیکن اس کا چھپانا بھی ضروری ہے، اس لئے وہ اپنی اسی ترمیم کے تخریبی عمل کو انشاء پردازی، اقامت دین کے نعروں، یورپی طرز کے پر وپیگنڈے کے پردوں میں چھپانے کی کو شش کرتے ہیں۔ اسی تخریبی عمل کے محرکات دو ہیں۔ نفسیاتی تعلی اور فقدان خشیت اللہ، اور عوام میں بھی اس دونوں بیماریوں میں مبتلا افراد کی کمی نہیں ہے، یہی باطنی ہم رنگی اس تحریک کی توسع کی اصلی سامان ہے۔“
8: اسوۃ الصلحاء شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر الدین صاحب (غورغشتوی خلیفہ حضرت مولانا حسین علی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ)
”مودودی صاحب ضال اور مضل "یعنی خود گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے۔“
9: ستادالعلماء حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ (شیخ الحدیث دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک ،ضلع پشاور)
”مودودی صاحب کے عقائد اہل السنت والجماعت کے خلاف اور گمراہ کن ہیں ، مسلمان اس فتنے سے بچنے کی کوشش کریں۔
عصمتِ انبیاء (نبیوں کے معصوم ہونے) علیہم السلام کے متعلق مودودی صاحب کے نظریات
مودودی صاحب کا عمومی موقف:
1: عصمت دراصل انبیاء کے لوازمات ذات سےنہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو منصب نبوت کی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کرنے کے لئے مصلحتاً خطاؤں اور لغزشوں سے محفوظ فرمایا ہے ورنہ اگر اللہ کی حفاظت تھوڑی دیر کے لئے بھی ان سے منفک ہوجائے جس طرح عام انسانوں سے بھول چوک اور غلطی ہوتی ہے اسی طرح انبیاء سے بھی ہوسکتی ہے، اور یہ ایک لطیف نکتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بالارادہ ہر نبی سے کسی نہ کسی وقت اپنی حفاظت اٹھا کر ایک دو لغزشیں سرزد ہوجانے دی ہیں، تاکہ لوگ انبیاء کو خدا نہ سمجھ لیں اور جان لیں کہ یہ بشر ہیں، خدا نہیں ہیں۔
(تفہیمات ج 2 ص 56، 57 اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ لاہور اشاعت اکتوبر1967ء)
(تفہیمات ج 2 ص 56، 57 اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ لاہور اشاعت اکتوبر1967ء)
2: اور تو اور بسا اوقات پیغمبروں تک کو نفس شریر کی رہزنی کے خطرے پیش آگئے ہیں۔ چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کو ایک موقع پر تنبیہ کی گئی ہے کہ ”وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللَّهِ“ (سورۃ ص)، ہوائے نفس کی پیروی نہ کرنا ورنہ یہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گا۔
(تفہیمات ج 1 ص 193 اشاعت ستمبر 2013ء اسلامک پبلیکیشنز لاہور)
(تفہیمات ج 1 ص 193 اشاعت ستمبر 2013ء اسلامک پبلیکیشنز لاہور)
3: انبیاء رائے اور فیصلے کی غلطی بھی کرتے تھے، بیمار بھی ہوتے تھے، آزمائش میں بھی ڈالے جاتے تھے حتیٰ کہ قصور بھی ان سے ہو جاتے تھے اور انہیں سزا تک دی جاتی تھی۔
[ترجمان القرآن ص 158 مئی 1955ء]
[ترجمان القرآن ص 158 مئی 1955ء]
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں:
1: حضور علیہ السلام نے دجال کے بارے میں جو خبردی اس کی بابت مودودی صاحب لکھتے ہیں:
یہ کانا دجال وغیرہ تو افسانے ہیں، جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔
[ترجمان القرآن ص 186 رمضان وشوال 1365ھ، رسائل ومسائل ص 53 حصّہ اول طبع دوم]
یہ کانا دجال وغیرہ تو افسانے ہیں، جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔
[ترجمان القرآن ص 186 رمضان وشوال 1365ھ، رسائل ومسائل ص 53 حصّہ اول طبع دوم]
2: حضور علیہ السلام کو اپنے زمانہ میں یہ اندیشہ تھا کہ شاید دجال حضور علیہ السلام کے زمانہ ہی میں ظاہر ہوجائے یا کسی قریب زمانہ میں ظاہر ہوجائے لیکن کیا ساڑھے تیرہ سو برس نے یہ ثابت نہیں کردیا کہ حضور کا یہ اندیشہ صحیح نہ تھا۔
[ترجمان القرآن ص31 ربیع الاوّل 1365ھ]
[ترجمان القرآن ص31 ربیع الاوّل 1365ھ]
نوٹ: حضور وحی الہی سے بولتے تھے (وما ينطق عن الهوى إن هو إلا وحي يوحى) تو یہ اندیشہ غلط کیسے ہوا؟ مزید یہ بات بھی واضح ہے کہ دجال کے متعلق پیشنگوئی والی احادیث متواتر ومشہور ہیں، فقط بخاری مسلم میں 25 بار یہ حدیث آئی ہے۔
3: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فوق البشر ہیں نہ بشری کمزوریوں سے بالاتر ہیں۔
[ترجمان القرآن اپریل 1976ء ، خطبات: ص8]
[ترجمان القرآن اپریل 1976ء ، خطبات: ص8]
4: لیکن وعظ وتلقین میں ناکامی کے بعد داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی۔
[الجہاد فی الاسلام: ص 174]
[الجہاد فی الاسلام: ص 174]
حالانکہ رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کو عیوب سے مبرا بنایا گیا ہے بشری کمزوریاں اور خامیاں کیسے گوارا کی جائیں؟ مزید جب خدا بھی کہتا ہے کہ میرا رسول غالب ہوگا تو اسے ناکام کہنا کہاں تک درست ہوگا؟
حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں:
1: حضرت داؤد علیہ السلام کے فعل میں خواہش نفسی کا کچھ دخل تھا، اس کا حاکمانہ اقتدار کے نا مناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور وہ کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا۔
[تعلیم القرآن ص 327 ج 4 طبع اوّل]
[تعلیم القرآن ص 327 ج 4 طبع اوّل]
2: اور تو اور بسا اوقات پیغمبروں تک کو اس نفسی شریر کی رہزنی کے خطرے پیش آئے ہیں۔ چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کو ایک موقعہ پر تنبیہ کی گئی۔
[تفہیمات ج 1 ص 193 اشاعت ستمبر 2013ء اسلامک پبلیکیشنز لاہور]
[تفہیمات ج 1 ص 193 اشاعت ستمبر 2013ء اسلامک پبلیکیشنز لاہور]
قرآن تو انہیں کہتا کہ: ”نفس و ہویٰ کی پیروی نہ کرو“ مگر بقول مودودی صاحب وہ کرتے تھے تو سوال یہ ہے کہ پھر وہ راہ راست پر کیسے رہے؟
3: حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے عہد کی اسرائیلی سوسائٹی کے عام رواج سے متاثر ہو کر”اور یا“ سے طلاق کی درخواست کی۔
[تفہیمات ص 42 حصّہ دوم طبع دوم ]
[تفہیمات ص 42 حصّہ دوم طبع دوم ]
اسرائیلی روایت کا سہارا لے کر ایک نبی معصوم کی ذات پر الزام اہل حق کی سوچ نہیں۔ نیز نبی اصلاحِ معاشرہ کے لئے مبعوث ہوتا ہے نہ کہ خود اپنی سوسائٹی کے عام رواج سے متاثر ہونے کے لئے۔
حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں:
بس ایک فوری جذبے نے جو شیطانی تحریص کے زیر اثر ابھر آیا تھا ان پر ذہول طاری کردیا اور ضبطِ نفس کی گرفت ڈھیلی ہوتے ہی وہ طاعت کے مقام بلند سے معصیت کی پستی میں جاگرے۔
[تفہیم القرآن ص 133 ج 3]
بس ایک فوری جذبے نے جو شیطانی تحریص کے زیر اثر ابھر آیا تھا ان پر ذہول طاری کردیا اور ضبطِ نفس کی گرفت ڈھیلی ہوتے ہی وہ طاعت کے مقام بلند سے معصیت کی پستی میں جاگرے۔
[تفہیم القرآن ص 133 ج 3]
یہ سب مودودی صاحب کی خوش فہمی ہے کیونکہ قرآن پاک نے ”بھول“ کہہ کر مودودی صاحب کی ساری بات کو رد کردیا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں:
بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ واشرف انسان بھی تھوڑی دیر کیلئے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہوجاتا ہے... لیکن جب اللہ تعالیٰ انہیں متنبہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اسکو محض اس لیے اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محض ایک جاہلیت کا جذبہ ہے۔ تو وہ اپنے دل سے بے پرواہ ہو کر اس طرز ِ فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضا ہے۔
[تفہیم القرآن ج 2 ص 344 طبع سوم]
بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ واشرف انسان بھی تھوڑی دیر کیلئے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہوجاتا ہے... لیکن جب اللہ تعالیٰ انہیں متنبہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اسکو محض اس لیے اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محض ایک جاہلیت کا جذبہ ہے۔ تو وہ اپنے دل سے بے پرواہ ہو کر اس طرز ِ فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضا ہے۔
[تفہیم القرآن ج 2 ص 344 طبع سوم]
مودودی صاحب نے یہ غلط کہا کیونکہ ان کا بیٹے کی خاطر دعا کرنا خدا کے فرمان کی وجہ سے تھا جو ان سے کہا گیا تھا کہ تمہارے اہل کو بچائیں گے اس لئے دعا کو جاہلیت کا جذبہ کہنا بدترین جرم ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں:
حضرت یوسف علیہ السلام کے ارشاد مبارک "اِجْعَلْنِي عَلٰى خَزَائِنِ الْأَرْضِ" کے بارے میں مودودی صاحب نے لکھا ہے کہ یہ محض وزیر مالیات کےمنصب کا مطالبہ نہیں تھا جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ یہ ڈکٹیٹر شپ کا مطالبہ تھا اور اس کے نتیجے میں سیدنا یوسف علیہ السلام کو جو پوزیشن حاصل ہوئی وہ قریب قریب وہی پوزیشن تھی جو اس وقت اٹلی میں مسولینی کو حاصل ہے۔
[تفہیمات ص 122 حصّہ دوم طبع پنجم 1970ء]
حضرت یوسف علیہ السلام کے ارشاد مبارک "اِجْعَلْنِي عَلٰى خَزَائِنِ الْأَرْضِ" کے بارے میں مودودی صاحب نے لکھا ہے کہ یہ محض وزیر مالیات کےمنصب کا مطالبہ نہیں تھا جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ یہ ڈکٹیٹر شپ کا مطالبہ تھا اور اس کے نتیجے میں سیدنا یوسف علیہ السلام کو جو پوزیشن حاصل ہوئی وہ قریب قریب وہی پوزیشن تھی جو اس وقت اٹلی میں مسولینی کو حاصل ہے۔
[تفہیمات ص 122 حصّہ دوم طبع پنجم 1970ء]
سیدنا یوسف علیہ السلام نے دیانت و علم کی بنیاد پر یہ بات کی کہ مجھے علم و دیانت میں سب سے فوقیت ہے اس لیے نظام کو بہتر کرنے کے لیے مجھے وزیر خزانہ بنا دیا جائے۔ مودودی صاحب کا ایک غیر مسلم کے ساتھ نبی معصوم کا موازنہ کرنا ظلم و جبر کی نسبت معصوم نبی کی طرف کرنے کے مترادف ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں:
حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کچھ کوتاہیاں ہوگئیں تھیں غالباً انہوں نے بے صبر ہو کر قبل از وقت اپنا مستقر بھی چھوڑ دیا تھا۔
[تفہیم القرآن ج 2 ص312 ،313. طبع سوم ۱۹۶۴ء]
حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کچھ کوتاہیاں ہوگئیں تھیں غالباً انہوں نے بے صبر ہو کر قبل از وقت اپنا مستقر بھی چھوڑ دیا تھا۔
[تفہیم القرآن ج 2 ص312 ،313. طبع سوم ۱۹۶۴ء]
ایک نبی کو بے صبرا کہنا کیونکر روا ہوگا؟ رہا آپ کا تشریف لے جانا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو خدا کی ذات پر یہ امید تھی کہ خدا مجھے اس پر داروگیر نہیں کرے گا۔ لہذا حضرت یونس علیہ السلام کے اس عمل کو بے صبری اور کوتاہی کہنا کسی طرح درست نہیں۔
حضرت موسی ٰعلیہ السلام کے بارے میں:
1: موسیٰ علیہ السلام کی مثال اس جلد باز فاتح کی سی ہے جو اپنے اقتدار کا استحکام کئے بغیرمارچ کرتا ہوا چلا جائے اور پیچھے جنگل کی آگ کی طرح مفتوحہ علاقہ میں بغاوت پھیل جائے۔
[ترجمان القرآن ص 5 ستمبر 1946ء]
[ترجمان القرآن ص 5 ستمبر 1946ء]
کاش مودودی صاحب اسلاف ِامت کو دیکھ لیتے کہ انہوں نے کیا تعبیر اختیار فرمائی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام محبوب کی ملاقات کے لیے جلدی چلے تھے، وہ بات نہ تھی جو مودودی صاحب نے سوچی۔
2: پھر اس اسرائیلی چرواہے کو بھی دیکھئے جس سے وادی مقدس طوٰی میں بلاکر باتیں کی گئیں وہ بھی عام چرواہوں کی طرح نہ تھا۔
[رسائل ومسائل ص31 حصّہ اول طبع دوم]
[رسائل ومسائل ص31 حصّہ اول طبع دوم]
عامیانہ انداز جو مودودی صاحب نے اختیار کیا انتہائی غلط ہے۔ کیا اللہ کے نبی کی تعظیم و تکریم کے لیے ایسے الفاظ بولنا جرم ہے؟ کیا ان کے پاس کوئی اور الفاظ کا ذخیرہ نہ تھا؟
3: نبی ہونے سے پہلے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی ایک بہت بڑا گناہ ہوگیا تھا، انہوں نے ایک انسان کو قتل کردیا۔
[ایضاً ص31 حصّہ اول]
[ایضاً ص31 حصّہ اول]
نوٹ: یہ قتل عمداً نہ تھا بلکہ بلا ارادہ تھا۔ پھر وہ حربی کافر تھا جس کا قتل جائز تھا۔
یہ سب کچھ علمائے دیوبند نے اپنی اس خفت مٹانے کے خاطر سب کچھ کیا۔۔۔
ReplyDeleteجنہوں نے اقامتِ دین کے بجائے اپنے پیری مریدی اور خاص قسم کی دینی اصطلاح اور چند گوشے دین کے لیے عوام کو اپنے طرف راغب کرتے رہے مگر اقامتِ دین و اسلامی نظام حکومت کے قیام کا کوئی مقصد ہے ہی نہیں تھا مولانا مودودی نے اسلام کو اصل معنی میں پیش کرکے اور اسے غالب کرنے کی جو جدوجہد شروع کی اس سے معترضین علمائے کرام کی بہت خفت ہوئی اور اسے مٹانے کے خاطر فتوے لگانے شروع کر دئیے۔۔🤔۔
دعوتِ اسلامی تو نام سے بدنام ہے... جاہل اور اندھے معتقد تو جماعت اسلامی والے ہیں جنہیں انبیاء کرام و صحابہ کرام کے نام سے بھی حیا نہیں ہے
ReplyDeleteدعوتِ اسلامی جاہل
ReplyDeleteاور
جماعتِ اسلامی متعصب ہے...