Tuesday, 23 February 2016

شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ

شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ کی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں. 23 فروری ان کا یوم وفات ہے. اسی مناسبت ہے ان کا سوانحی خاکہ ہدیہ ناظرین ہے.
ان کا تعلق علمائے حق کی اس جماعت سے جو حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ سے نسبت رکھتی ہے جس کے سرخیل حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ  محدث دھلوی تھے ۔ جس کی بنیادیں حضرت سید احمد شہیدؒ اور حضرت شاہ اسماعیل رحمہ اللہ نے اُٹھا ئیں جس کی شاخیں 1857  کے ہنگامہ ہا ئے دارورسن سے پھوٹیں ۔
حضرت مولانا لاہوری رحمہ اللہ معناً ولی اللہٰی ٹہنی ہی کا پتہ تھے ۔ اس درخت کا ہی ایک پھول تھے جومولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ اور مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے اُگایا۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ کے ہاتھوں پروان چڑھا اور ان کے نیک نفس جانشینوں نے اسے سر سبز رکھا.
علمائے حق کی یہ ایک ایسی زنجیر ہے کہ جس کی عظمت پر حیرت ہو تی ہے ۔انسان حیران ہو تا ہے کہ یہ انسانوں کی جماعت ہے یا قدرت کا معجزہ۔ ایک لکیر کھنچی آتی ہے نہ کوئی خم ہے نہ کو ئی گرہ ۔ ایک صاف ستھرا سلسلہ ہے جو شروع سے اب تک چلا آرہا ہے اور جن لوگوں نے اس راہ کو اختیار کیا ہے ۔وہ کہیں بھی ہٹے محسوس نہیں ہو تے بلکہ جوانمردوں کا ایک قافلہ ہے جو فکر وتضرع کے ہمرکاب حق گو ئی کے سا ئے میں بڑھتا چلا آرہا ہے مولانا احمد علی لاہوریؒ اسی جوانمرد و نڈر، فکری و نظریاتی قبیلہ کے چشم وچراغ تھے ۔
جہاں تک ان کے ذاتی اور خاندانی حالات کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ لاہور سے راولپنڈی آنے والی ریلوے لائن پر ضلع گوجرانوالہ میں گکھڑ نام کا ایک ریلوے اسٹیشن پڑتاہے اس اسٹیشن کے مشرقی جانب چار میل کے فاصلے پر جلال نامی قصبہ میں سکھ مذہب سے تائب ہو کر مسلمان ہو نے والے شیخ حبیب اللہ کے ہاں 1304ھجری کے ماہِ رمضان المبارک کی دوسری تاریخ کو اللہ رب العزت نے بیٹا عطافرمایا ۔ والد ماجد نے اپنے ہونہار کانام احمد علی رکھا عیسوی سن کے حساب سے ولادت کا سال 1887 تھا.
اس لڑ کے کی والدہ ماجدہ نہایت عابدہ ، زاہدہ ،متقیہ اور صالحہ عورت تھیں انہوں نے اپنے لخت جگر کی تعلیم کا آغاز خود کرایا۔ چنانچہ قرآن مجید والدہ صاحبہ نے پڑھایا ۔ اس کے بعد اس بچے کو سکول میں داخل کرادیا گیا ۔ قصبہ جلال سے ایک میل کے فاصلہ پر کوٹ سعداللہ میں یہ بچہ اپنے ہم جولیوں کے ساتھ صبح سکول جا تا اور شام کو واپس آتا شیخ حبیب اللہ کے رشتہ دارسب غیرمسلم تھے اس لئے ان کی اسلام دشمنی سے تنگ آکر شیخ حبیب اللہ نے اس قصبہ سے ڈیڑھ دو میل کے فاصلہ پر ایک دوسرے گاؤں میں سکونت اختیار کر لی ۔ یہ گا ؤں جسے باہوچک کہا جاتا ہے تعلیمی لحاظ سے کچھ بھی نہ تھا اس لئےاس ہونہار لاڈلے کو قصبہ تلونڈی کھجور والی کے سکول میں داخل کر دیا گیا ۔ جہاں اس بچے نے پانچویں جماعت تک تعلیم پا ئی ۔ لیکن در حقیقت اس بچہ کی یہ درس گاہ نہ تھی ۔اللہ کے لئے مانی ہو ئی نذر کے لیے، اللہ کے لئے وقف کی ہوئی اولاد کے لئے وہی درس گاہ مناسب ہو سکتی تھی جسے اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ نسبت وتعلق ہو ۔
شیخ حبیب اللہ ؒ نے اپنے لخت جگر کو سکول سے بُلواکر گوجرانوالہ کی جا مع مسجد کے خطیب مولانا عبدالحق کے سپرد کر دیا ۔ اس بچہ کو گوجرانولہ آئے چند ماہ ہی گزرے تھے کہ مولانا عبیداللہ سندھیؒ دارالعلوم دیوبند سے اپنی تعلیم مکمل کر کے سندھ جا تے ہو ئے اپنی والدہ سے ملنے سیالکوٹ آئے ۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے مولانا سندھی ؒ سے شیخ حبیب اللہ کے قبول اسلام اور دیانت و تقویٰ کا بھی ذکر کیا ۔ چنانچہ مولا نا سندھیؒ اپنی والدہ کے ہمراہ با ہوچک آئے اور اپنے رشتہ کے بھائی سے ملے ۔ اس وقت شیخ حبیب اللہ نے اپنے لختِ جگر کو حضرت سندھیؒ کے حوالے کر دیااور یہ بھی کہا کہ میں نے اپنے بچے کو اللہ تعالیٰ کے دین کیلئے وقف کر دیا ہے آپ اس کو قبول کر لیں اور دین سکھائیں چنانچہ مولانا سندھیؒ نے اس بچے کو قبول کر لیا اور اپنے ساتھ ہی سندھ لے گئے ۔
نو برس کی عمر میں اس بچے کے سر سے والد کا سایہ اُٹھ گیا ۔ سندھ کے ولی کامل حضرت خلیفہ غلام محمد ؒ دین پوری کے حکم سے مولانا سندھی ؒ نے اس بچہ کی والدہ سے نکاح کر لیا ۔ اس لحاظ سے مولانا سندھی ؒ اس بچہ کے سو تیلے والد بن گئے ۔ کچھ عرصہ بعد یہ بچہ اپنی والدہ کی شفقتوں سے بھی محروم ہو گیا ۔ نکا ح کے بعد وہ کچھ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہیں ۔ سندھ کے مشہور شیخ حضرت خلیفہ غلام محمددین پوریؒ نے جب اس نوسالہ بچہ کو دیکھا تو انہوں نے نورِ فراست سے پہچان لیا کہ یہ متاعِ گراں بہا ہے۔ اسے نہیں چھوڑنا چا ہئیے ایسے مو تی باربار نہیں ملتے ۔ چنانچہ انہوں نے خودہی اس بچہ کو سلسلہ قادریہ میں داخل فر ما کر تقویٰ و پرہیزگاری کی تلقین کے ساتھ کچھ اذکار بھی تعلیم کر دیے ۔ابتدائی صرف و نحو عربی و فارسی کتب اس بچہ کو مولانا سندھی ؒ نے پڑھا ئیں1319ھجری1901 ؁ء میں گوٹھ پیر جھنڈا ضلع سکھر میں مدرسہ دارالارشاد کی بنیاد رکھی گئی ۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ اس مدرسہ کے روحِ رواں تھے ۔ انہی کی زیر نگرانی اس بچہ نے اپنی تعلیم کے چھ سال مکمل کر کے درس نظامی کی تکمیل کی ۔ اس مدرسہ دار الارشاد سے فارغ ہو نے والوں میں پہلا نامِ نامی اسی بچہ کا ہے جو ا ب بچہ نہیں بلکہ اپنی زندگی کے بائیس سال گزار کر جوانی میں قدم رکھ چکا تھا ۔ 1326ھ میں مولانا احمد علیؒ کو سندِ فراغت عطا ہو ئی اور دستار فضیلت بھی باندھی گئی ۔
مولانا سندھی ؒ نے مولانا احمد علی ؒ کو حکم دیا کہ اب اسی مدرسہ میں تم تعلیم بھی دو ۔ چنانچہ تین سال تک حضرت اسی مدرسہ میں درس نظامی کی تعلیم دیتے رہے ۔ مولانا سندھیؒ نے اپنی پہلی زوجہ سے بیٹی کا نکاح مولانا احمد علیؒ سے کر دیا لیکن وہ ایک سال بعد ہی انتقال کر گئی ۔ اس کے بعد مولانا ابو محمد احمد صاحب (خطیب صوفی مسجد کشمیری بازار لاہور )کی صاحبزادی سے مولانا سندھی نے رشتہ طے کرادیا چنانچہ مولانا احمد علیؒ کا نکاح محرم 1330ھجری (دسمبر1911 ؁ء ) میں دارالعلوم دیوبند کی مسجد میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ نے پڑھایا ۔
کتنے مبارک ہیں مولانا احمد علیؒ جن کو مولانا عبیداللہ سندھیؒ جیسے مربی و استاد
حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوریؒ جیسے شیخ قطبِ ارشادمولانا گنگوہیؒ کے شاگرد مولانا ابو محمد ؒ جیسے سسر اور شیخ الہندؒ جیسے نکاح خوان میسر آئے.
تحریک ریشمی رومال بر صغیر کی آزادی کے لیے ایک منصوبہ تھا جس کے ذریعے انگریز سے آزدی حاصل کر نے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی مگر بدقسمتی سے یہ منصوبہ قبل از وقت طشت ازبام ہو گیا ۔ انگریز نے اس تحریک کے قائدین اور اس سے وابستہ کار کنان کو گرفتار کر نا شروع کیا تو مولانا احمد علی ؒ بھی گرفتار کر لیے گئے ۔ مولانا احمد علی ؒ کو گرفتار کر کے دہلی ، شملہ،لاہوراور جالندھر کی مختلف حوالاتوں میں کئی ماہ گزارنے کے بعد ضلع جالندھر میں تھانہ راہوں میں نظر بند کر دیا گیا ۔ پھر کچھ عرصہ بعد آپ کو مشروط طور پر رہا کر دیا گیا ۔ آپ پر دہلی اور سندھ جا نے پر پا بندی لگادی گئی اور آپ کو لاہور میں پابندِ ضمانت کر کے چھوڑ دیا گیا۔ مولانا احمد علی ؒ کی اہلیہ بھی لا ہور آگئیں ۔ لاہور کی زندگی کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے جس وجہ سے آپ ؒ لا ہوری کہلا تے ہیں ۔
مسجد لائن سبحان والی شیرانوالہ دروازہ سے باہر مسجد میں حضرت مولانا پنجگانہ نماز ادا کر تے تھے ۔ فاروق گنج کی طرف جا تے ہو ئے جو مسجد ہے وہاں آپ نے درس قرآن شروع کیا پھر آہستہ آہستہ تبلیغ وارشاد کا سلسلہ بڑھنا شروع ہو گیا ۔
1922 ؁ ء میں حکیم فیروزالدین کی تحریک پر انجمن خدام الدین کا قیام عمل میں لایا گیا۔ قرآن مجید اور سنتِ نبویﷺ کی اشاعت کو انجمن کا نصب العین قرار دیا گیا ۔ انجمن نے وقتی ضروریات کے مطابق دینی ، اصلاحی اور سماجی ضرور توں کے لئے قرآن و سنت کی روشنی میں کئی رسالے اور کتابیں شا ئع کیں ۔ یہ تمام رسالے اور کتابچے مولانا احمد علی لا ہوریؒ کے تحریر کر دہ تھے ۔1924 ؁ء میں انجمن خدام الدین کی زیر نگرانی مدرسہ قاسم العلوم کی بنیاد رکھی گئی۔ ابتدا میں یہ مدرسہ کرایہ کے مکان میں تھا ۔لیکن بعد میں مدرسہ کیلئے زمین خرید کر عمارت بنائی گئی جس میں آٹھ کمرے تھے ۔ اس عمارت کی رسمِ افتتاح علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کے ہاتھوں 1934 ؁ء میں اداہو ئی ۔
آپ ؒ نے عمر بھر قرآن مجید کی لفظاً ومعناً خدمت کی 1354ھ (1935 ؁ء )میں آپ نے حفظ و ناظرہ کا اہتمام فرمایا اس کے لئے مولانا عبیداللہ انور ؒ کی روایت کے مطابق علامہ انورشاہ کشمیریؒ کو دارالعلوم دیوبند میں خط لکھا کہ ہمارے ہاں کوئی قاری بھجوادیں جوعلمِ قراًت کے ساتھ قرآن مجید کی تعلیم دے سکیں ۔ انہوں نے قاری عبدالکریم دیوبندی کو بھجوادیا۔ لاہور میں وہ پہلے قاری تھے جنہوں نے تجویدو تر تیل کی ابتدا کی ۔ مولانا احمد علی لا ہوری ؒ کی اسی محنت کا نتیجہ تھا کہ لا ہور میں قرآنی تعلیمات عام ہو ئیں ۔
آپ نے مسلمانوں کو قرآن مجید سمجھانے کے لئے روزانہ نماز فجر کے بعد ایک گھنٹہ درس قرآن رکھا ہوا تھا ۔ اس میں مسلمان مردوں کے علاوہ علیحدہ باپردہ جگہ میں خواتین بھی شریک ہوتی تھیں اور یہ درس اتنا مشہور تھا کہ لوگ دور دراز سے آکر درسِ قرآن میں شریک ہو تے تھے ۔اس کے علاوہ یکم رمضان سے ایک درس مدارس عربیہ کے فارغ التحصیل علماء کے لئے ہوتا تھا اور تین ماہ میں سارے قرآن کی تفسیر انہیں پڑھائی جا تی تھی ۔ تفسیر کے اختتام پر باقاعدہ سندات دی جا تی تھیں اس درس کی تکمیل کے بعد جوحضرات مزید تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند ہو تے انہیں چار ماہ میں فلسفہ، شریعت اور حضرت شاہ ولی اللہؒ کی مشہور کتاب ،،حجۃ اللہ البالغہ ،، پڑھا تے تھے 1940 ؁ء سے شروع ہو نے والا یہ درس آپ کی زندگی کے آخری ایام تک جا ری رہا ۔
22 اکتوبر 1933 ؁ء میں بحیثیت عالم دین انجمن حمایت اسلام کی جنرل کو نسل کے آپ رکن مقرر ہو ئے ۔ انجمن کے معاملات میں گہری دلچسپی لینے کی بنا ء پر مولانا لاہوری ؒ 17نومبر 1956 ؁ء کو انجمن کے نا ئب صدر منتخب ہو ئے اور تازیست اسی عہدے پر فا ئزرہے ۔ آپ نے انجمن حمایت اسلام کی ترقی میں شاندار خدمات سر انجام دیں ۔
1953 ؁ء میں جب تحریک ختم نبوت شروع ہو ئی تو مولانا احمد علی لاہوری ؒ نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ آپ کی گر فتاری بھی عمل میں آئی اور آپ کو دوسرے علماء کے ساتھ ملتان جیل میں رکھا گیا ۔ مگر جب ملک فیروز خان برسرِاقتدار آئے تو آپ کو لاہور جیل میں منتقل کر دیا گیا ۔بعد ازاں آپ کو رہا کر دیا گیا ۔
اکتوبر 1956 ؁ء کو پاکستان کے جید علماء کی لا ہور میں مشاورت ہوئی جس میں جمعیت علماء اسلام کی تجدیدِ نو کی گئی اور بالا تفاق مولانا احمد علی لاہوری ؒ کو جمعیت علماء اسلام مغربی پاکستان کا امیر چن لیا گیا۔ آپ آخری وقت تک اس عہدے پر فائز رہے ۔ آپ کی رہنمائی میں صرف ایک سال کے قلیل عرصہ میں جمعیت علما ء اسلام مغربی پاکستان میں 300شاخیں قائم ہو گئیں ۔ جون 1957 ؁ء میں جمعیت علماء اسلام کا آرگن تر جمان اسلام لاہور سے آپ کی سرپرستی میں شائع ہو نے لگا ۔ جمعیت علماء اسلام نے آپ کی سرپرستی میں جو انتخابی منشور ترتیب دیا تھا وہ اسلام کی صحیح تر جمانی کرتا تھا اور آج بھی وہ منشور اسلامیانِ پاکستان کی رہنمائی کے لئے بہترین دستاویز ہے ۔
1955 ؁ء میں مولانا احمد علی لا ہوری ؒ کی سرپرستی میں انجمن خدام الدین کی طرف سے ،، خدام الدین ،، نام سے ایک ہفت روزہ رسالہ جاری کیا گیا جس میں دینی ،اصلاحی ، معاشرتی اور سیاسی مضامین شائع ہو تے تھے یہ رسالہ آج بھی جاری ہے.
دنیا میں جو ذی روح بھی آیا ہے اس نے آخر ایک دن اس دنیا سے کوچ کر نا ہے ۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اپنے رب کو راضی کر کے اس دنیا سے رخصت ہو تے ہیں.اس ضابطہ کے تحت مولانا احمد علی لا ہوریؒ کا سفرِ آخرت پیش آگیاچنانچہ 23فروری 1962 ؁ء بمطابق 17رمضان 1381ھجری کو 77سال کی عمر میں آپ اس شان سے دنیا سے رخصت ہو ئے کہ ساڑھے نو بجے رات نماز عشاء کی   نیت باندھی اور سجدے کی حالت میں خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔ بارہ بجے صاحبزادوں مولانا عبیداللہ انورؒ اورحافظ حمیداللہؒ نے باقی ر فقاء کے ہمراہ غسل دیا۔دوسرے دن جنازہ اُٹھایا گیا ۔ یونیورسٹی گراؤنڈ میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔نماز جنازہ سے پہلے خطیبِ پاکستان مولانا قاضی احسان احمد ؒ شجاع آ بادی کی آواز بلند ہو ئی کہ مغربی پاکستان کے تمام علما ء کرام حاضر ہو چکے ہیں اور اُن کا متفقہ فیصلہ ہے کہ نماز جنازہ کی امامت مولانا لاہورؒ ی کے صاحبزادہ مولانا عبیداللہ انورؒ پڑھا ئیں گے چنانچہ نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ عشاق نے اپنے محبوب مرشد کے جسدِ خاکی کو سرِشام میانی قبرستان میں پہنچادیا ۔ افطاری کے وقت مولانا عبداللہ درخواستی ؒ ، مولانا عبیداللہ انورؒ ،حافظ حمیداللہ اور دیگر اکابرین نے مسلمانانِ ہندو پاک کی یہ مشترکہ دینی متاعِ گراں مایہ لحدِ خاک میں رکھ دی.

2 comments:

  1. سبحان اللہ العظیم. مولانا احاح علی لاہوری بہت عظیم روحاروحشخصیت کے مالک تھے. ان کی اسلامی تعلیمات نے ہماری زندگی پرپگہرےاثراتچھوڑےپ پروردگار مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین.

    ReplyDelete
    Replies
    1. آمین ثم آمین یارب العالمین

      Delete