Friday, 20 July 2018

حضرت آدم علیہ السلام کہاں اترے؟

حضرت آدم علیہ السلام کہاں اترے؟
حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق 8 مفسرین کے 6 اقوال
1) تفسیر در منشور کے مصنف نے اھبطو کی تفسیر کے ذیل میں لکھا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام مکہ اور طائف کے درمیان مین موجود "دجنا" نامی علاقہ میں اترے تھے۔
2) بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ آدم علیہ السلام صفا پہاڑی پر اترے۔
3) حکم الہٰی مین کوتاہی کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے نکلنے کا وقت آیا تب آپ علیہ السلام نے حضرت حوا علیہ السلام کا ہاتھ تھام کر کہا:  "چلواب غربت اور بے کسی کا وقت آن پہنچا." اس وقت حضرت جب
رائیل علیہ السلام نے آکر کہا کہ تم دونوں الگ ہوجاؤ کیونکہ یہی اللہ تعالٰی کا حکم ہے کہ تم دونوں کو دنیا میں مختلف مقامات پر اتارنا ہے ۔ یہ سنتے ہی حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت حوا کا ہاتھ چھوڑ دیا ۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام کو سارندیپ (سری لنکا میں) اور حضرت حوا علیہ السلام کو جدہ کے قریب اتارا گیا۔ اور شیطان کو حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام کے اتارنے سے پہلے ہی ایلہ میں اتار دیا گیا تھا۔ (حوالہ تفسیر روح المعانی /236) اس وقت کے اعتبار سے جدہ اور سراندیپ کے درمیان تقریبُا (2100 میل) کا فاصلہ تھا ۔حضرت آدم علیہ السلام کی جنتی زبان عربی تھی لیکن وہ ان کو بھلا دی گئی۔ اس کے عوض آپ علیہ السلام کو سریانی زبان عطا کی گئی ۔بعد ازاں جب آپ کی توبہ قبول کر لی گئی تو پھر عربی زبان عطا کر دی گئی ۔پھر جب آدم علیہ السلام حکم الٰہی پر حج کے لئے تشریف لے گئے تو آپ علیہ السلام کی ملاقات مزدلفہ کے مقام پر اماں حوا سے ہوئی اس وجہ سے مزدلفہ کے معنٰی قربت والی جگہ بنتا ہے۔ جدہ سعودی عرب کا سب سے بڑا شہر ہے۔
4) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔" اللہ سبحان وتعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو ہندوستان میں اتارا پھر آپ علیہ السلام مکہ تشریف لے گئے وہاں سے شام تشریف لے گئے اور وہیں انتقال ہوا َ(حوالہ طبری)
5) تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہندوستان کے علاقہ سیلیون کے جزیرے سراندیپ میں بوذ نامی پہاڑی پر آدم کے قدوں کے نشان ملتے ہیں ۔ بعد میں یہ پہاڑ سری لنکا کے حصہ میں آ چکا ہے۔
6) علامہ طبرانی نے ابع نعیم رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا کہ حضرت بو پریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(نزل آدم علیہ السلام بالھند ) "حضرت آدم علیہ السلام ہندوستان میں اترے تھے ۔" ابن عساکر نے ایک روایت نقل کی ہے: "حضرت آڈم علیہ السلام جب زمین پر بھیجے گئے تع ینہیں ہندوستان میں اتارا گیا ۔" (حوالہ حلیۃ الاولیاء)
...................
حضرت آدم و حوا علیہما السلام جب دنیا میں بھیجے گئے تو زمین پر کہاں اترے ؟
اس سلسلے میں مفسرین محدثین مورخین اور جغرافیہ دانوں کی مختلف آرا ہیں ۔
۱۔ بعض مورخین کی رائے یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام ہندوستان کے جنوب میں واقع جزیرہ لنکا میں اترے جسے پہلے سراندیپ، سیلون اور اب سری لنکا کہاجاتا ہے ۔
وہاں ’’بدھا‘‘ نامی ایک پہاڑ پر انسانی قدموں کے نشانات ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام سے منسوب بتائے جاتے ہیں۔ آج کل مقامی باشندے اس پر موجود نشانات کو بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اسے ’’بدھا کے پہاڑ‘‘ سے پکارتے ہیں ۔
۲۔ مشہور مفسر امام طبری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سرزمین ہندوستان میں اتارے گئے۔ انہوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ جس پہاڑ پر وہ اترے وہ کرہ ارض کا بلند اور آسمان سے قریب ترین پہاڑ ہے۔ اس نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو کوہ ہمالیہ کی چوٹی ماوؑنٹ ایورسٹ Mount Everest بنتی ہے جو سطح سمندر سے 8848 فٹ بلند ہے۔
ان دونوں اقوال کے پیچھے شاید یہ نظریہ ہے کہ لنکا کا جزیرہ قدیم معلوم دنیا کے وسط میں ہے اور کوہ ہمالیہ کی چوٹی دنیا کا سب سے اونچا مقام ہے جہاں آسمانوں سے اترنے والے کو پہلا قدم رکھنا چاہئے ۔ ان دونوں اقوال کی تایید میں میں اگرچہ کچھ روایات ملتی ہیں لیکن اول تو وہ ضعیف ہیں پھر نقل و عقل اور زمانہ مابعد کی انسانی تاریخ ان کی تایید نہیں کرتی اس لئے کہ سری لنکا کی کوئی تاریخی ، مذہبی، جغرافیائی یا سیایسی حیثیت کبھی نہیں رہی تاکہ اللہ تعالیٰ حکیم و علیم کی طرف سے دنیا میں پہلا لانسان اتارے جانے کے لئے اسی جزیرے کا انتخاب کیا جاتا۔ سری لنکا کے اس پہاڑ پر جو قدموں کے نشان ہیں وہ متنازع ہیں بدھ مت کے ماننے والے اسے گوتم بدھ کی طرف منسوب کرتےہیں اور ہندو اسے اپنے دیوتا سے منسوب کرتے ہیں ۔
ماؤنٹ ایورسٹ کا بھی یہی حال ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو زمین میں اتارنے کے لئے اس کے محتاج نہیں کہ وہ بلند ترین چوٹی کا انتخاب کریں وہ قادر مطلق سات آسمانوں کے اوپر جنت سے زمین تک بحفاظت اتار سکتا ہے ۔ان دونوں اقوال کی تردید اس سے بھی ہوتی ہے کہ تمام اہل علم کا س بات پر اتفاق ہے کہ اماں حوا مکہ مکرمہ میں اتریں اب اگر آدم علیہ السلام کا نزول ہندوستان میں مان لیا جائے تو قرآن کریم کی ان آیات کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔
’’قلنا اھبطو منہا جمیعا‘‘ ۔ترجمہ : تم سب اکھٹے جنت سے اترو۔
۳۔ صحیح بات وہ ہے جسے فقہا کرام نے بھی اختیار کیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام دنیا کے وسط میں واقع جزیرہ عرب میں ام القریٰ (بستیوں کی ماں) یعنی مکہ مکرمہ میں دنیا کے پہلے گھر بیت اللہ کے قریب صفا پہاڑی پر اترے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے حضرت آدم صفی اللہ کی طرف نسبت کی وجہ سے ’’صفا‘‘ کہاجاتا ہے جبکہ اماں حوا قریب کی دوسری پہاڑی ’’مروہ‘‘ پر اتریں ’’امرأۃ‘‘ عربی میں عورت کو کہتے ہیں اسی مناسبت سے یہ پہاڑ ’’مروہ‘‘ کہلایا۔

بحوالہ: کتاب الجغرافیہ ۔ مفتی ابولبابہ شاہ منصور صفحہ 129
................
صفا اور مروہ دو پہاڑیوں کے نام ہیں جو مکہ میں خانۂ کعبہ کے پاس واقع ہیں ان دو پہاڑیوں کے درمیان حج اور عمرہ کے موقع پر حاجی سات چکر لگائے ہیں اسے سعی کہتے ہیں۔ صفا و مروہ کے درمیان ہی اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ہاجرہ پانی کی تلاش میں سعی (بھاگ دوڑ) کرتی رہی تھیں اور انہی کی یاد تازہ کرنے کے لیے حاجی ان دونون کے درمیان سعی کرتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment