نماز کے شروع میں زبان سے نیت کرنا اکابر حنفی علما کے نزدیک بدعت ہے؟
امام ابن ہمام حنفی فرماتے ہیں:
بعض حفاظ نے کہا ہے کہ کسی صحیح یا ضعیف سند سے بھی ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ابتدا کرتے وقت یہ فرماتے کہ میں فلاں نماز ادا کررہا ہوں اور نہ ہی صحابہ یا تابعین میں سے کسی سے یہ منقول ہے۔ بلکہ جو منقول ہے وہ یہ کہ آپ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ’اللہ اکبر‘ کہتے، اور یہ (زبان سے نیت کرنا) بدعت ہے۔ (فتح القدیر شرح الہدایہ‘‘ (۱/۲۶۶،۲۶۷)
علامہ حموی حنفی رقم طراز ہیں:
’ابن امیر حاج ’’حلیہ شرح منیہ‘‘ میں ’’فتح القدیر‘‘ کی عبارت پر اضافہ کرتے ہیں کہ یہ فعل ائمۂ اربعہ سے بھی مروی نہیں۔ ’’شرح الأشباہ والنظائر‘‘ (ص۴۵) میں (۵۔۶)
علامہ ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں:
ظاہر ہے فتح القدیر سے اس کا بدعت ہونا ہی ثابت ہوتا ہے۔‘‘’(بحر الرائق‘‘ (ص۲۱۰)
علامہ حسن شرنبلالی حنفی نے ’’مجمع الروایات‘‘ سے نقل کیا ہے:
کہ زبان سے نیت بولنے کو بعض علماء نے حرام کہا ہے، اس لیے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے کرنے والے کو سزا دی ہے۔‘‘(شرح نور الایضاح:۵۶)
فتاویٰ غربیۃ، کتاب الصلوۃ کے دسویں باب میں ہے:
’’کہا گیا ہے کہ زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔‘‘(فتاوی غربیہ:ج۳، ص۲۳۴)
امام ابن عابدین حنفی اپنی کتاب) میں فرماتے ہیں:
زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔(رد المحتار‘‘ ۱/۲۷۹
امام ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں:
’’الفاظ کے ساتھ نیت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بدعت ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع جس طرح آپ کے کاموں میں کرنا لازم ہے، اسی طرح اتباع کام کے نہ کرنے میں بھی لازم ہے، جو شخص آپ کے نہ کیے ہوئے پر اڑا رہے گا وہ بدعتی ہے... نیز فرماتے ہیں: تم جان چکے ہو کہ نہ بولنا ہی افضل ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح‘‘ (۱/۴۱)
مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نقشبندی حنفی لکھتے ہیں:
’’زبان سے نیت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سند صحیح بلکہ سند ضعیف سے بھی ثابت نہیں اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم زبان سے نیت نہیں کرتے تھے بلکہ جب اقامت کہتے تو صرف ’اللہ اکبر‘ کہتے تھے، زبان سے نیت بدعت ہے۔‘‘ (مکتوبات دفتر اول حصہ سوم، مکتوب نمبر ۱۸۶ ص۷۳)
طحطاوی حنفی ’’میں لکھتے ہیں:
’’صاحب در مختار‘‘ کے قول: ’’یعنی سلف نے اس کو پسند کیا ہے‘‘، اس میں اشارہ ہے اس امر کا کہ حقیقت میں نیت کے ثابت ہو نے کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے اس لیے کہ زبان سے بولنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور نہ صحابہ وائمہ اربعہ سے، یہ تو محض بدعت ہے۔‘ (‘شرح در مختار‘‘ (۱/۱۹۴)
علامہ انور شاہ کاشمیری دیوبندی حنفی فرماتے ہیں:
’’نیت صرف دل کا معاملہ ہے۔‘‘ (فیض الباری شرح صحیح البخاری :۱/۸)
علامہ عبد الحی لکھنوی حنفی فرماتے ہیں:
نماز کی ابتداء میں زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔ (عمدۃ الرعایۃ حاشیہ شرح الوقایہ‘‘ (۱/۱۵۹)
مولانا اشرف علی تھانوی اپنی لکھتے ہیں:
زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ دل میں جب اتنا سوچ لیوے کہ آج کی ظہر کے فرض پڑھتی ہوں اور اگر سنت نماز پڑھتی ہو تو یہ سوچ لے کہ ظہر کی سنت پڑھتی ہوں، بس اتنا خیال کرکے ’اللہ اکبر‘ کہہ کے ہاتھ باندھ لیوے تو نماز ہوجاوے گی اور جو لمبی چوڑی نیت لوگوں میں مشہور ہے اس کا کہنا کچھ ضروری نہیں (’’بہشتی زیور‘‘) (۲/۲۸)
.......................
سوال # 66936
نماز سے پہلے زبان سے نیت کرنا کیسا ہے؟ امام ابن قیم رح نے اس کو زادالمعاد میں بدعت لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ جو الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کسی بھی امام سے ثابت نہیں ہیں۔ براہ کرم اس کی پوری تفصیل ارسال فرمائیں، عین نوازش ہو گی۔
Published on: Aug 9, 2016
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 832-701/D=11/1437
زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں اور بدعت ممنوعہ بھی نہیں ادا کرلے گا تو گناہ گار نہیں ہوگا، نہیں ادا کرے گا تو نماز فاسد بھی نہیں ہوگی، نیت تو ارادہ قلبی کا نام ہے وہ ادائے نماز کے لیے کافی ہے، لوگوں کے قلوب پر عامة افکار کا ہجوم رہتا ہے اور وہ پوری یکسوئی کے ساتھ قلب کو حاضر نہیں کرپاتے اس لیے زبان سے بھی الفاظ ادا کرلیے جاتے ہیں تاکہ حضور قلب میں جس قدر کمی ہے وہ الفاظ کے ذریعہ سے پوری ہوجائے اگر کوئی شخص احضار قلب پر قادر نہ ہوتو اس کے لیے الفاظ کا ادا کرلینا کافی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
..............
کیا نماز کی نیت زبان سے کہنا ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
لائق صد اکرام میرے استاذ محترم آپکی طبیعت کیسی ہے ایک سوال ہے اور وہ یہ کہ کیا جمعہ کی نیت عربی میں کرنا چاہئے یا اردو میں، اگر عربی میں کرنا ہے تو کیا کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے؟ اگر ہے تو براہ کرم اس کا جواب ارسال فرمائیں، عین نوازش ہوگی.
آپکا شاگرد محمد شمشاد قمر بانکوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
نیت سے متعلق جمعہ ہی کی کوئی خصوصیت نہیں ہے!
اس حوالے سے ہر نماز کا ایک ہی حکم ہے۔۔۔نماز صحیح ہونے کے لئے ارادہ قلب یعنی دل سے نیت کرلینا کہ میں فلاں نماز پڑھ رہا ہوں! ضروری ہے۔ اس کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوگی۔ اسی کو نیت کہتے ہیں۔
دل کے ارادہ کےساتھ زبانی نیت کے الفاظ ملالینا بھی مستحب و بہتر ہے۔۔۔ کیونکہ آج کل لوگوں کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں۔توجہات منتشر رہتی ہیں۔ زبان سے بھی الفاظ کا تکلم کرلینے سے قلب و ذہن خالصة اللہ کے حضور مستحضر ہوجائے گا۔
ویسے عربی میں بھی نیت کے الفاظ کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہیں ۔۔۔ لیکن عدم ثبوت عدم جواز کو مستلزم نہیں ہے۔ حسب قاعدہ شرعیہ کسی چیز کی کراہت یا عدم جواز کے لئے مستقل دلیل کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر زبانی تلفظ کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں! تو حقیقت یہ ہے کہ تلفظ بالنیة کی ممانعت پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔۔۔عوام الناس کے اشتغال وانہماک کے پیش نظر زبان سے تلفظ بالنیہ کے جواز کی گنجائش ہے۔ اس لئے دونوں کو جمع کرلینا بہتر ہے۔
ہاں زبانی نیت کو لازم وضروری سمجھنا جیسا کہ آج کل بہت لوگ سمجھنے لگے ہیں یا اس پہ مداومت کرنا درست نہیں ہے۔ التزام مالایلزم کی وجہ سے خرابی در آئے گی۔
اگر کوئی صرف زبان ہی سے لمبی چوری نیت کرنے میں مصروف رہے اور دل میں کوئی نیت نہ کی تو پھر اس کی نماز صحیح نہ ہوگی۔
وقد اختلف کلام المشایخ في التلفظ باللسان، فذکر فی منیۃ المصلي: أنہ مستحب، وہو المختار، وصححہ في المجتبی، وفي الہدایۃ والکافي والتبیین أنہ یحسن لاجتماع عزیمتہ، وفي الاختیار معزیا إلی محمد بن الحسن أنہ سنۃ، وہکذا في
المحیط والبدائع۔ (البحرالرائق، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۱/ ۴۸۳، کوئٹہ ۱/ ۲۷۷)
والمستحب في النیۃ أن ینوي بالقلب، ویتکلم باللسان بأن یقول: أصلي صلاۃ کذا، قال في الہدایۃ: ویحسن ذلک أي التکلم باللسان، وذلک لاجتماع عزیمتہ … ولو نوی بالقلب ولم یتکلم باللسان جاز بلا خلاف بین الأئمۃ؛ لأن النیۃ عمل القلب لا عمل اللسان … فالحاصل أن حضور النیۃ بالقلب من غیر احتیاج إلی اللسان أفضل وأحسن وحضورہا بالتکلم باللسان إذا تعسر بدونہ حسن والاکتفاء بمجرد التکلم من غیر حضورہا رخصۃ عند الضرورۃ، وعدم القدرۃ علی استحضارہا۔ (حلبي کبیري، الشرط السادس، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ص: ۲۵۴-۲۵۵، وکذا في الدرالمختار مع الشامي، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، بحث النیۃ، مکتبہ زکریا ۲/ ۹۱-۹۲، کراچی ۱/ ۴۱۵، وکذا في النہر الفائق، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۱/ ۸۸)۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
٣\٤\١٤٣٩هجرية
لائق صد اکرام میرے استاذ محترم آپکی طبیعت کیسی ہے ایک سوال ہے اور وہ یہ کہ کیا جمعہ کی نیت عربی میں کرنا چاہئے یا اردو میں، اگر عربی میں کرنا ہے تو کیا کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے؟ اگر ہے تو براہ کرم اس کا جواب ارسال فرمائیں، عین نوازش ہوگی.
آپکا شاگرد محمد شمشاد قمر بانکوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
نیت سے متعلق جمعہ ہی کی کوئی خصوصیت نہیں ہے!
اس حوالے سے ہر نماز کا ایک ہی حکم ہے۔۔۔نماز صحیح ہونے کے لئے ارادہ قلب یعنی دل سے نیت کرلینا کہ میں فلاں نماز پڑھ رہا ہوں! ضروری ہے۔ اس کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوگی۔ اسی کو نیت کہتے ہیں۔
دل کے ارادہ کےساتھ زبانی نیت کے الفاظ ملالینا بھی مستحب و بہتر ہے۔۔۔ کیونکہ آج کل لوگوں کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں۔توجہات منتشر رہتی ہیں۔ زبان سے بھی الفاظ کا تکلم کرلینے سے قلب و ذہن خالصة اللہ کے حضور مستحضر ہوجائے گا۔
ویسے عربی میں بھی نیت کے الفاظ کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہیں ۔۔۔ لیکن عدم ثبوت عدم جواز کو مستلزم نہیں ہے۔ حسب قاعدہ شرعیہ کسی چیز کی کراہت یا عدم جواز کے لئے مستقل دلیل کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر زبانی تلفظ کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں! تو حقیقت یہ ہے کہ تلفظ بالنیة کی ممانعت پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔۔۔عوام الناس کے اشتغال وانہماک کے پیش نظر زبان سے تلفظ بالنیہ کے جواز کی گنجائش ہے۔ اس لئے دونوں کو جمع کرلینا بہتر ہے۔
ہاں زبانی نیت کو لازم وضروری سمجھنا جیسا کہ آج کل بہت لوگ سمجھنے لگے ہیں یا اس پہ مداومت کرنا درست نہیں ہے۔ التزام مالایلزم کی وجہ سے خرابی در آئے گی۔
اگر کوئی صرف زبان ہی سے لمبی چوری نیت کرنے میں مصروف رہے اور دل میں کوئی نیت نہ کی تو پھر اس کی نماز صحیح نہ ہوگی۔
وقد اختلف کلام المشایخ في التلفظ باللسان، فذکر فی منیۃ المصلي: أنہ مستحب، وہو المختار، وصححہ في المجتبی، وفي الہدایۃ والکافي والتبیین أنہ یحسن لاجتماع عزیمتہ، وفي الاختیار معزیا إلی محمد بن الحسن أنہ سنۃ، وہکذا في
المحیط والبدائع۔ (البحرالرائق، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۱/ ۴۸۳، کوئٹہ ۱/ ۲۷۷)
والمستحب في النیۃ أن ینوي بالقلب، ویتکلم باللسان بأن یقول: أصلي صلاۃ کذا، قال في الہدایۃ: ویحسن ذلک أي التکلم باللسان، وذلک لاجتماع عزیمتہ … ولو نوی بالقلب ولم یتکلم باللسان جاز بلا خلاف بین الأئمۃ؛ لأن النیۃ عمل القلب لا عمل اللسان … فالحاصل أن حضور النیۃ بالقلب من غیر احتیاج إلی اللسان أفضل وأحسن وحضورہا بالتکلم باللسان إذا تعسر بدونہ حسن والاکتفاء بمجرد التکلم من غیر حضورہا رخصۃ عند الضرورۃ، وعدم القدرۃ علی استحضارہا۔ (حلبي کبیري، الشرط السادس، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ص: ۲۵۴-۲۵۵، وکذا في الدرالمختار مع الشامي، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، بحث النیۃ، مکتبہ زکریا ۲/ ۹۱-۹۲، کراچی ۱/ ۴۱۵، وکذا في النہر الفائق، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۱/ ۸۸)۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
٣\٤\١٤٣٩هجرية
No comments:
Post a Comment