Tuesday, 31 July 2018

حالت جنابت میں جمعہ کا خطبہ دینا؟

حالت جنابت میں جمعہ کا خطبہ دینا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ مفتی صاحب ايك غیر مقلد نےصاحب درمختار پر اعتراض کیا ھے کە حالت جنابت میں اگر امام نے خطبە دیا ھے تو خطبە درست ھے لوٹانے کی ضرورت نھی خطبە ھو جائگا لوٹا لے تو بھتر ھے میں معلوم کرنا چاھتا کیا صاحب در مختارنے ایسا لکھا ھے اگر لکھا تو اسکو کیا جواب دیں براہ کرم جواب جلد ارسال فرمائیں
نور الحسن قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
صرف امام اعظم ابو حنیفہ ہی پر یہ اعتراض کیوں؟
تقریبا یہ مسئلہ اتفاقی ہے کہ
خطبہ جمعہ کی حیثیت ذکر ودعا اور تذکیر وموعظت کی ہے' اس کے لئے طہارت شرط ولازم نہیں' بلکہ مسنون و مستحب ہے، ناپاکی کی حالت میں خطبہ دینا مکروہ ہے، لیکن اگر مجبوری ومعذوری کی وجہ سے کبھی ایسا ہوگیا (مثلا بحالت جنابت بھول سے خطبہ دیدے پہر بعد خطبہ معلوم ہو کہ وہ ناپاک تھا تو خطبہ کا اعادہ ضروری نہیں، بلکہ بہتر ہوگا) تو اعادہ خطبہ لازم نہیں
اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ بحالت جنابت خطبہ دینے کی تعلیم دی جارہی ہے!
مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا حل پہلے ہی ڈھونڈ لینا فقہاء کرام کا طرہ امتیاز ہے' اس مسئلے کو غلط رخ سے پیش کرنا افسوسناک وحیران کن ہے۔
يجوز خطبة الجمعة لمن كان جنباً في المذهب المالكي مع كراهة ذلك، وفي ظاهر الرّواية عن الحنفية، وهو قول الإمام أحمد، وفي القديم عند الشّافعية، لأنّ الطهارة في خطبة الجمعة سنّة عندهم وليست شرطاً، ولأنّها من باب الذّكر والجنابة لا تمنع الذّكر، فإذا خطب الشّخص جنباً واستخلف غيره في الصّلاة فإنّه يجزؤه عند المالكيّة، وفي الجديد عند الشّافعية، وهو الأشبه بأصول مذهب الحنابلة.
(مستفاد من کتب المذاہب الاربعہ) 
ولو خطب محدثاً أو جنباً، ثم توضاً أو اغتسل وصلی جاز الخ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، زکریا ۲/۲۵۸، کراچي ۲/۱۴۷)
لو خطب محدثا أو جنباً، جاز و یأثم ثم إقامۃ الخطیب في المسجد، وبہ ظہر معنی السنیۃ مقابل الشرط من حیث صحۃ الخطبۃ۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، با ب صلاۃ الجمعۃ، زکریا۳/۳۴، کراچي ۲/۱۵۰)
وفی الھندیۃ (۱۴۶/۱) واماسننھا؛ فخمسۃ عشر احدھاالطھارۃ حتی کرھت للمحدث والجنب۔

فقط واﷲ اعلم
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment