Thursday 7 November 2024

جنازے کی نماز کی دعا پر اعتراض کا کیا جواب ہے

جنازے کی نماز کی دعا پر اعتراض کا کیا جواب ہے

-------------------------------

سوال: ایک بیان کے دوران جنازے کی نماز میں مندرجہ ذیل پڑھی جانے والی دعا پر اعتراض کیا گیا ہے، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا، وَمَيِّتِنَا، وَصَغِيرِنَا، وَكَبِيرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِيمَانِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَهُ. براہ کرم راہنمائی فرمائیں کہ اس اعتراض کا کیا جواب ہے۔

الجواب وباللہ التوفیق:

اعتراض بالکل جاہلانہ اور احمقانہ اور علمیت سے عاری وخالی ہے۔ جنازے کے لئے کوئی خاص مقرر شدہ دعا نہیں ہے۔ اس لئے جو دعا میت کے لئے چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔ مندرجه ذيل میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ سے جنازے کی نماز میں پڑھنا ثابت ہیں:

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا، وَمَيِّتِنَا، وَصَغِيرِنَا، وَكَبِيرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِيمَانِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَهُ (سنن ابو داؤد: 3201 صحیح)

اللهُمَّ، اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ، وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ۔ (صحیح مسلم: 2232)

اللَّهُمَّ إِنَّ فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ فِي ذِمَّتِكَ وَحَبْلِ جِوَارِكَ، فَقِهِ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ  وَعَذَابِ النَّارِ، وَأَنْتَ أَهْلُ الْوَفَاءِ وَالْحَمْدِ، اللَّهُمَّ فَاغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (سنن ابو داؤد: 3202 صحیح)

اللَّهُمَّ إِنَّهُ عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ. وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ. وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ. اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ مُحْسِنًا، فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ. وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا، فَتَجَاوَزْ عَنْ سَيِّئَاتِهِ. اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ (موطا امام مالک: 1/228 صحیح موقوفا عن ابی هريرة رضي الله عنه)

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِهَذِهِ النَّفْسِ الْحَنِيفِيَّةِ الْمُسْلِمَةِ، وَاجْعَلْهَا مِنَ الَّذِينَ تَابُوا، وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ، وَقِهَا عَذَابَ الْجَحِيمِ، وَاسْتَنْصِرُوا اللَّهَ عَلَى عَدُوِّكُمْ (مصنف ابن ابی شیبة: 11366 صحيح موقوفاعلي حبيب بن مسلمة رضي الله عنه)

اللَّهُمَّ أَنْتَ خَلَقْتَهُ، وَأَنْتَ هَدَيْتَهُ لِلْإِسْلَامِ، وَأَنْتَ قَبَضْتَ رُوحَهُ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِسَرِيرَتِهِ وَعَلَانِيَتِهِ جِئْنَا شُفَعَاءَ فَاشْفَعْ لَهُ، فَاغْفِرْ لَهُ (مصنف ابن ابی شیبة: 11365 صحيح مقطوعا عن مجاهد رحمه الله)

جنازے کے لئے کوئی خاص مقرر شدہ دعا نہیں ہے۔ اس لئے جو دعا میت کے لئے چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔ (مصںف ابن ابي شية: 11367-11374)

واللہ اعلم بالصواب 

ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2024/11/3201-2232-3202.html
( #ایس_اے_ساگر)




مچھلی کا شکار سے پہلے مرنا

مچھلی کا شکار سے پہلے مرنا 

-------------------------------

سوال:۔ کسی دکان سے مچھلی خریدیں تو شک ہوتا ہے کہ ایا یہ مچھلی شکار سے پہلے مری ہے یا شکار کے بعد،  دکاندار نے بھی وہ مری ہوئی خریدی ہوتی ہے لہذا اس کو بھی معلوم نہیں تو پوچھنا یہ ہے کہ اس کا یقین کیسے کیا جائے اور اس کے استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟

چاہت محمد قاسمی

الجواب وباللہ التوفیق:

 شکار سے پہلے مرنا بھی وجہ حرمت نہیں ہے۔ وجہ حرمت (خارجی دباؤ کے بغیر) صرف اس کا طبعی موت مرنا ہے۔ مچھلیوں میں اصل یہ ہے کہ وہ کسی معلوم سببِ حادث اور آفت کی وجہ سے مرتی ہیں. اور ایسی مچھلیاں حلال ہیں. اسی اصل پر عمل کیا جائے گا. ہاں جب دلائل سے یقینی طور پہ معلوم ہوجائے کہ فلاں مچھلی سبب حادث (شکار، پانی کی کمی، درجہ حرارت وغیرہ وغیرہ) کی وجہ سے نہیں؛ بلکہ شکار سے پہلے وہ طبعی موت مر کر پانی پر الٹی تیرنے لگی تھی تب اس کا کھانا جائز نہ ہوگا. جب تک آخری شکل کا دلائل سے علم نہ ہو اوّل الذکر شکل (جوکہ مچھلی کی اباحت واستعمال کے باب میں اصل ہے) پر عمل کیا جائے گا اور موہوم تشکیکات کا اعتبار نہ ہوگا۔

فتاوى قاضيخان (3/ 214) میں ہے:

و الأصل أن السمك متى مات بسبب حادث حل أكله، وإن مات حتف أنفه لا بسبب ظاهر لا يحل أكله عندنا؛ لأنه طاف…… فإن ألقى سمكة في جب ماء فماتت فيه لا بأس بأكلها؛ لأنها ماتت بسبب حادث وهو ضيق المكان، وكذا إذا جمع السمك في حظيرة لا يستطيع الخروج منها وهو يتمكن من أخذها بغير صيد فمتى مات فيها لا بأس بأكلها، وإن كان لا يؤخذ بغير صيد لاخير في أكلها، …… وإن ماتت السمكة في الماء بحر الماء أو برده لم يذكر هذا في الكتاب، قال عامة المشايخ رحمهم الله تعالى: لابأس بأكلها؛ لأنها ماتت بآفة فتحل كما لو وجدها في بطن سمكة،وروى الحسن عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنها لاتؤكل كالطافي، وعن محمد رحمه الله تعالى أنها تؤكل لأنها ماتت بآفة، وقال الفقيه أبو الليث رحمه الله تعالى: ما قاله المشايخ أعجب إلى. ولو انجمد الماء فماتت الحيتان تحت الجمد، قال رضي الله عنه: ينبغي أن تؤكل عندالكل۔

واللہ اعلم بالصواب 

ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2024/11/blog-post_7.html
( #ایس_اے_ساگر)


Friday 1 November 2024

اپنی چال ہی بھول گیا

اپنی چال ہی بھول گیا
فضیلۃ الشیخ ثناء اللہ عبدالرحیم بلتستانی جب بھی پکارتے ہیں تو ’’اے ابونثر! اے ادیبِ لبیب کالزّبیب!‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ ’ادیب‘ کا لفظ سن کر تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ ایک ’شیخ الشرع‘ نے ہمیں ’ادیب‘ قرار دے ڈالا۔ مگر ’لبیب اور زبیب‘ کے القاب سن کر ذرا سہم، بلکہ سکڑ جاتے ہیں کہ ’’یااللہ یہ کون سی دو بلائیں ہیں، جو حضرت ہمارے نام کو لگائے ہیں؟‘‘
لغت سے رجوع لائے تو معلوم ہوا کہ ’لبیب‘ تو عقل مند اور دانا کو کہتے ہیں، لیکن ’زبیب‘ کہتے ہیں کشمش کو۔ ’کالزّبیب‘ (تلفظ: ’کَزَّبِیب‘) کے معنی ہوئے ’کشمش جیسا‘۔ نہ جانے شیخ نے یہ لقب ہماری تحریروں کی مٹھاس سے متاثر ہوکر دیا ہے یا ہمارا چُرمُر چہرہ دیکھ کر۔
شیخ کی بات یوں یاد آئی کہ کل ایک اور صاحب ہمیں ادیب کہہ بیٹھے۔ یہ صاحب محقق ہیں اور ایک سرکاری جامعہ سے اُردو میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمیں دیکھا تو دیکھتے ہی فرمایا:
’’قبلہ! آپ تو ادیب ہیں۔ ذرا یہ بتایئے کہ اُردو میں ‘Deduction’ کے لئے بھی کوئی لفظ ہے یا نہیں؟‘‘
’’ہاں ہاں، ہے کیوں نہیں؟‘‘ ہم نے کمیاب مال بیچنے والے دُکان داروں کی سی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔
پوچھا: ’’کیا ہے؟‘‘
کہا: ’’استخراج!‘‘
بلبلا کر بولے: ’’اس سے تو ‘Deduction’ ہی بہتر ہے‘‘۔
حیرت سے استفسار کیا: ’’وہ کیسے؟‘‘ 
فرمایا: ’’نامانوس لفظ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بولتے ہی قے ہوجائے گی۔‘‘
عرض کیا: ’’قے کو ’استفراغ‘ کہتے ہیں۔ رہا نامانوس ہونے کا معاملہ، تو اُردو کے لئے ‘Deduction’ کون سا مانوس لفظ ہے؟‘‘
صاحبو! الفاظ اور اصطلاحات کو بول بول کر مانوس بنایا جاتا ہے۔ ہمارے برقی ذرائع ابلاغ نے تھوڑی تھوڑی دیر بعد ’بریکنگ نیوز‘ بول بول کر اسے سامعین و ناظرین کے لئے مانوس بنانے کی بھرپور جدوجہد کی ہے۔ جب کہ ’تازہ خبر‘ کو باسی جان کر استعمال کرنا ہی چھوڑ دیا ہے، اس وجہ سے یہ عام فہم ترکیب نامانوس ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے ابلاغی دانشوروں کے پاس شاید اب ذاتی عقل و دانش نہیں رہی۔ وہ محض نقال بن کر رہ گئے ہیں۔ نقال کتنی ہی اچھی نقل کیوں نہ اُتارنے لگے، رہے گا نقال کا نقال۔ موجد نہیں بن سکتا۔ اِنھیں نقالوں کی وجہ سے وہ زمانہ لد گیا جب کوّے ہنس کی چال چلا کرتے تھے۔ اب تو ہمارے راج ہنس ہی پھدک پھدک کر کوّوں کی چال چل رہے ہیں۔
’استخراج‘ ہمارے محققِ محترم کو کیوں نامانوس لگا؟ فقط یہ بات کہ قومی زبان سے اُنسیت دیدہ و دانستہ ختم کی جارہی ہے۔ ہمارے قومی رہنما، قوم کے معزز منصفین اور قومی قانون ساز ہی نہیں، معلمینِ قوم سمیت سب ہی پاکستان میں، پاکستانیوں سے برطانوی زبان بول بول کر اپنی گردن اکڑاتے ہیں۔ شاید اب یہ قومی زبان بول بھی نہیں سکتے کہ محاورہ کہتا ہے: ’’…اپنی چال بھی بھول گیا۔‘‘
’استخراج‘ کا لفظ خارج ہوا ’خَرَجَ‘ سے۔ ’خَرَجَ‘ کے معنی ہیں ’وہ نکلا‘۔ اس ایک لفظ سے بہت سے ایسے الفاظ نکل آئے جو اُردو میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے اِخراج یعنی نکال دینا۔ خراج یعنی محصول یا لگان، جو یوں تو بالجبر وصول کیا جاتا ہے، لیکن اگر ہمیں کسی کی کوئی بات اچھی یا حسین لگے تو اُسے راضی خوشی’خراجِ تحسین‘ پیش کرتے ہیں۔ کسی سے عقیدت ہوجائے تو اُسے ’خراج عقیدت‘ پیش کیا جاتا ہے۔ خارج کا لفظ بھی بہت سے معنوں میں عام استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کسی دائرے، حلقے یا حدود سے باہر، الگ، بیرونی، داخل کی ضد یا وہ جو شامل نہ ہو۔ اسی برصغیر میں جب کسی کو شہر بدر کیا جاتا تھا تو اُسے ’خارج البلد‘ قرار دیا جاتا تھا۔ عربوں کے ہاں غیر ملکی کو بھی خارجی کہتے ہیں، جب کہ اصطلاحاً وہ لوگ ’خارجی‘ ہیں جو سیدنا علیؓ کی خلافت کو برحق نہیں مانتے۔ ان کی جمع خوارج ہے۔ خارجہ کا لفظ بھی بہت بولا جاتا ہے۔ اُمورِ خارجہ، وزارتِ خارجہ اور وزیرِ خارجہ۔ ان سب کا تعلق خارجی یعنی غیرملکی معاملات سے ہے۔ مخرج کا لفظ بھی خوب استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں نکلنے کی جگہ۔ جمع اس کی مخارج ہے۔ خروج باہر نکلنا یا ظاہر ہونا۔ ’تحقیق‘ سے ہم مانوس ہیں، لیکن ’تخریج‘ سے نہیں، جس کا مطلب ہے نصوص سے احکام اخذ کرنا یا حوالہ نکالنا۔ ہر وقت استعمال کرنے کی وجہ سے لفظ ’استعمال‘ نامانوس نہیں رہا کہ استعمال کا مخرج ’عمل‘ ہے، یعنی کسی چیز کو عمل یا مصرف میں لانا اور برتنا۔ لیکن ’استخراج‘ کو نہ جانے کیوں نامانوس کہا گیا جس کے معنی ہیں اخذ کرنے کا عمل، نتیجہ نکالنے کا عمل یا استنباط کرنے کا عمل۔ ایک دلچسپ بات آپ کو اور بتاتے چلیں کہ عربی میں ’ر‘ ساکن کے ساتھ ’خرج‘ بولا جاتا ہے جو اُردو میں آکر ’خرچ‘ بن گیا ہے اور خرّاج [بہت زیادہ خرچ کرنے والے] شخص کو ہم بھی ’خرّاچ‘ کہنے لگے ہیں۔
محترم گلزار احمد صاحب نے حاصل پورمنڈی، بہاول پور سے ہمیں ایک نہایت طویل خط بھیجا ہے۔ خط کیا لکھا ہے، ’خطِ استوا‘ لکھ دیا ہے، جو پورے کرۂ ارضی کا احاطہ کرتا ہے۔ اس خط سے ہم اپنی اور اپنے قارئین کی اصلاح پر مشتمل ایک مختصر اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، کہ ان کالموں کا مقصد ہی ’غلطی ہائے مضامین‘ کی اصلاح ہے:
’’۱۸؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو شائع ہونے والا ’’غلطی ہائے مضامین‘‘ بہ عنوان ’الفاظ کے سر پر نہیں اڑتے معنی‘ حسب سابق معلومات کا ذخیرہ تھا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سماجی رابطوں کے ذرائع ابلاغ میں لفظ ’بالکل‘ کا املا جس تیزی سے ’بلکل‘ رواج پا رہا ہے، اس کی اصلاح کے لئے ہر صاحبِ علم کو اپنا فریضہ ادا کرنا چاہئے۔ وطنِ عزیز میں اس وقت جو کھلواڑ اُردو کے ساتھ روا رکھا گیا ہے، ایسا نہ ہو کہ ہماری ’فیس بک‘ کے علم سے ’نشو و نَما‘ پانے والی نوجوان نسل مستقبل میں ’بلکل‘ ہی کو سند قرار دینے پر مصر دکھائی دے۔ آپ کا یہ لکھنا کہ ’ال‘ تخصیص کے لیے آتا ہے ‘The’ کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ بے شک و شبہ درست ہے، مگر بالکل میں ’ال‘ تخصیص کے لئے استعمال نہیں ہوا، بلکہ یہ ’ال‘ تعریفی ہے، جو حرفِ جر ’بِ‘ کو، کُل کے ساتھ ملانے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ جیسے: بالقرآن، بالقلم، بالکتاب، بالتفصیل، بالعموم اور بالخصوص وغیرہ میں۔ ان الفاظ (قلم، کتاب، تفصیل، عموم اور خصوص) کے شروع میں ’ال‘ لگا کر انھیں اسمِ مَعرِفَہ نہیں بنایا گیا، بلکہ عربی زبان کا اُصول یہ ہے کہ جب کسی اسم کے ساتھ کوئی بھی حرفِ جر ملایا جاتا ہے تو اُس اسم سے پہلے ’ال‘ لگایا جاتا ہے۔ بعض اسما میں یہ ’ال‘ لکھنے، پڑھنے اور بولنے یعنی تینوں صورتوں میں آواز دیتا ہے اور بعض اسما میں یہ ’ال‘ لکھنے میں تو آتا ہے مگر بولنے اور پڑھنے میں نہیں آتا۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان کے حروفِ تہجی کی تعداد اٹھائیس ہے۔ (بعض ہمزہ کو شامل کرکے اس کی تعداد اُنتِیس شمار کرتے ہیں، مگر ہمزہ حرفِ اصلی نہیں ہے۔ کیوں کہ جب الف پر زبر، زیر یا پیش آجائے تو عربی میں اُس ’الف‘ کو ہمزہ پڑھا جاتا ہے) ان اٹھائیس حروفِ تہجی میں سے چودہ حروف قمری ہیں اور چودہ شمسی۔ قمری حروف کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولنے اور پڑھنے میں آتا ہے، جیسے القمر، الکاتب اور الحق وغیرہ، مگر شمسی حروف کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولنے اور پڑھنے میں نہیں آتا، جیسے الشمس، الرشید اور الثاقب وغیرہ۔ کسی ادیب نے ’’حق کا خوف عجب غم ہے‘‘ کَہہ کر ان حروفِ قمری کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ یعنی اس جملے’حق کا خوف عجب غم ہے‘ میں چودہ حرف استعمال ہوئے ہیں، جو کہ قمری حروف ہیں۔ ان کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولا بھی جائے گا اور پڑھا بھی، جب کہ باقی رہ جانے والے چودہ حرف شمسی ہیں، ان کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولا اور پڑھا نہیں جائے گا۔ لفظ ’بالکل‘ میں یہی اصول کارفرما ہے۔ یعنی ’الکل‘ میں ’ک‘حرفِ قمری ہے۔ اس کے شروع میں ’بِ‘ حرفِ جر لگانے کے لئے ’ال‘ لکھا گیا ہے، جوحرفِ جَر ’ب‘ لگانے کے بعد (بالکل) بولنے اور پڑھنے میں آرہا ہے۔ جب کہ ’تفصیل‘ میں ’ت‘ حرفِ شمسی ہے۔ اس کے شروع میں ’بِ‘ حرفِ جر لگانے کے لئے ’ال‘ لکھا گیا ہے، جو بولنے اور پڑھنے میں (بالتفصیل) کی آواز دے رہا ہے۔ یعنی ’ل‘ لکھا ہونے کے باوجود (لام) کی آواز پیدا نہیں ہورہی۔ پس جان لیجئے کہ ’بالکل‘ میں’کُل‘ سے پہلے ’ال‘ تعریفی ہے، تخصیصی نہیں۔‘‘
بقلم: احمد حاطب صدیقی (ابونثر)
https://saagartimes.blogspot.com/2024/11/blog-post.html





Wednesday 30 October 2024

ہم نے مدرسہ کیوں چھوڑا

ہم نے مدرسہ کیوں چھوڑا؟
سوچا کہ مدارس کے اندر کے پوشیدہ حقائق اور مہتمم گردی کی پراسرار داستانیں اب سوشل میڈیا پر آ ہی رہی ہیں تو کیوں نہ ہم بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالیں اور اپنے ساتھ 8 سال تک روا رکھے جانے والے دلخراش مظالم کی منظر کشی کریں ۔ سو مدارس کے طلبہ و مدرسین کے غم میں دن رات گھلنے والے انسانیت کے چاچے مامے ذرا قریب قریب آجائیں۔
تو قصہ یہ ہے دوستو کہ جب ہم نے درجہ اولی پڑھنے کے لیے جامعہ خیرالمدارس ملتان میں داخلہ لیا تو سب سے پہلی بات یہ معلوم ہوئی کہ یہاں نہ تو کوئی داخلہ فیس ہے اور نہ ہی ماہانہ فیس۔ مطلب پہلے ہی قدم پر ہم سے وہ خوشی چھین لی گئی جو ہر ماہ ابو سے اسکول فیس کے نام پر کڑکڑاتے نوٹ وصولتے وقت ہوا کرتی تھی۔ پھر اسباق شروع ہوئے تو پتہ چلا کہ یہاں تو سارے اساتذہ صنفِ کرخت سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی اب "تصویرِ کائنات کے رنگ" بھی دکھائی نہیں دیں گے۔ اور تو اور مدرسے آکر "یہاں سے وہاں تک یاد کرکے آنا، کل سنوں گی" والی مدھر آوازیں سنے کو بھی کان ترس گئے، کیونکہ یہاں تو اساتذہ کتاب کا ایک ایک لفظ جان مارکر سمجھاتے تھے اور ہم پر یاد کرنے اور اگلے دن سنانے کا ستم بھی ڈھاتے تھے۔ کچھ کچھ ماحول سمجھ آیا تو پتا چلا کہ یہاں "he loves her" اور "she loves him" کے موٹیویشنل سلوگنز کی بجائے "ضرب یضرب" کی گردانیں کہلوائی جاتی ہیں جن سے شر کی قوتوں کے خلاف شدت پسندی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
جوں جوں یہ سفر کٹتا گیا، ہم پر مدارس کی چار دیواری میں پوشیدہ حقائق کھلتے گئے ۔ یہ خوفناک تجربہ بھی ہوا کہ یہاں تو ہمیں ہفتے میں کم از کم دو دن مفت میں بکرا کھلا کر موٹاپے کا مریض بنانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ اور پھر ہمیں پڑھائے جانے والے مضامین کو ذرا دیکھئے! صرف، نحو، منطق، بلاغت، ادب، فلسفہ، عقائد، فقہ، تفسیر اور حدیث جیسے مضامین جو خدا کی خوشنودی تک تو پہنچا سکتے ہیں لیکن مال پانی بنانے اور سُندر زنانی پھنسانے کے گر نہیں سکھا سکتے۔ مطلب "لائف انجوائے " کرنے کا پروگرام تو وڑ گیا ۔  اندازہ کیجیے کہ ہمیں 8 سال کے دوران ایک مرتبہ بھی ڈانس پارٹی اور میوزک کنسرٹ جیسی تفریحات فراہم نہیں کی گئیں۔
امتحانات کے موقع پر تو بنیادی حقوق کی اس حد تک خلاف ورزی کی جاتی کہ انسانی بنیادوں پر اپنے مجبور و پریشان حال بھائیوں کی مدد کرنے اور کسی ورلڈ بینک ٹائپ طالبعلم سے بحالتِ مجبوری امداد لینے کو بالکل ہی ممنوع قرار دے دیا جاتا ۔ امتحان ہال میں جا کر صاف پتہ چلتا تھا کہ خون کیسے سفید ہوتے ہیں اور بے رخی و بے حسی کس کیفیت کا نام ہے۔ بے چارے طالبعلموں کی شکلیں غریب افریقی ممالک کے بوندِ آب کو ترستے بچوں جیسی بھی بن جاتیں لیکن مجال ہے کہ کسی استاد یا فرمانبردار طالبعلم کو ذرہ بھر رحم آتا ہو۔ اور تو اور، ادھر روکڑا شوکڑا بھی نہیں کام نہیں آتا تھا کہ جس کا قاضی الحاجات ہونا مسلّمات میں سے ہے۔
ان 8 سال کے دوران ہمارا واسطہ جن اساتذہ سے پڑا وہ بھی عجیب اللہ کے ولی تھے۔ نہ اپنی صحت کا خیال کرتے، نہ گرمی سردی اور آندھی طوفان دیکھتے، نہ کم تنخواہوں کو خاطر میں لاتے ۔ بس گھنٹی بجنے کی دیر ہوتی کہ وہ ٹھک سے مسند پر آموجود ہوتے۔ ستم بالائے ستم کہ ان کی لغت میں تدریس کا مطلب پورا گھنٹہ سبق پڑھانا تھا۔ دورانِ سبق نہ تو کالیں کرتے، نہ فیسبک چلاتے، نہ اخبار پڑھتے اور نہ ہی ان کے ہاں آدھا وقت پڑھا کر رفو چکر ہونے کی کوئی ترتیب تھی۔ اوپر سے طالبعلموں پر ایسی شفقت برتتے کہ کبھی کبھی تو ہماری شاگرد ہونے والی فیلنگ ہی ختم ہوجاتی تھی۔
آخری سال "دورہ حدیث" آیا تو مولانا محمد حنیف جالندھری نامی اس شخصیت سے آمنا سامنا ہوا جسے مہتمم کہا جاتا ہے۔ سنا تھا کہ بڑے ظالم و جابر قسم کے انسان ہیں۔ سو اس خیال کی حرف بحرف تصدیق ہوئی۔ بھئی اب اس سے بڑا بھی کوئی ظلم ہو گا کہ آپ اتنے مصروف ہونے کے باوجود بھی روزانہ ہی بخاری پڑھانے آجائیں اور وہ بھی پورے مطالعے اور تیاری کے ساتھ! نہ ہی چھٹیاں اور نہ ہی کوئی غیر تحقیقی ٹرخاؤ پروگرام!اساتذہ کے ساتھ سلوک ایسا تحکمانہ کہ 40، 40 اور 50 50 سال انہیں پڑھاتے ہوئے گزرگئے لیکن مجال ہے جو مہتمم صاحب نے کبھی کسی پر ترس کھا کر اس کا اخراج کیا ہو۔ یہ تو وہ ظلم ہے جو مدرسے میں تھا ، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی چیرہ دستیوں سے تو بڑے بڑے شرفاء، زردار اور خوانین تک محفوظ نہ تھے۔ بس کوئی غلطی سے مدارس کے خلاف کچھ لکھے بولے سہی، اس کا تو وہ حال کرتے تھے کہ وہ بیچارا گھٹنے ٹیکنے میں ہی عافیت سمجھتا تھا۔ بدمعاشی ایسی تھی کہ وزیرِ اعظم بھی اگر کوئی حکم جاری کرتا اور وہ ان کی طبعِ شاہانہ کے موافق نہ ہوتا تو اسے مسترد کرنے کا اعلان ایسے کرتے تھے جیسے ناک سے مکھی اڑائی ہو۔ مطلق العنانی کا یہ عالم تھا کہ وفاق المدارس سے ملحق سینکڑوں مدارس اکیلے ہی سنبھالے ہوئے تھے، مجال ہے جو تقسیم کے کسی عمل کو چلنے دیں اور کسی اور کو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناکر لیڈر بننے کا موقع فراہم کریں۔
آخر ہم بھی گوشت پوست کے انسان تھے، کس قدر برداشت کرتے! سو ابھی "ضرب یضرب" سے شروع ہونے والا صعوبتوں بھرا سفر "کلمتان حبیبتان" تک ہی پہنچا تھا کہ ہمارے صبر کے پیمانے لبریز ہوگئے۔ ضبط کا دامن چھوٹ گیا اور برداشت جواب دے گئی ۔ سو بوریا بستر سمیٹا اور مدرسے کو الوداع کہنے کا جرأتمندانہ اور دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ مدرسہ تو ہم نے چھوڑ دیا لیکن یہ بات ہمیں آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر ظلم و جبر کے اس مرکز اور انسانی حقوق کی اس قربان گاہ کی دہلیز پار کرتے وقت ہماری ان کمبخت آنکھوں کو کیا ہوا تھا کہ خواہ مخواہ بہہ کر آزادی کا مزہ خراب کررہی تھیں۔
اس سلسلہِ جبر کا سب سے کربناک پہلو یہ ہے کہ ظلم و ستم کی چکی میں دن رات پسنے کے باوجود بھی ہم طلبہ کے ذہن اس قدر ماؤف ہوچکے تھے کہ نہ تو ہمیں کبھی احتجاج کا خیال آتا، نہ کلاسوں کا بائیکاٹ سوجھتا اور نہ ہی سوشل میڈیا پر اشک باری کی ہمت ہوتی۔ یہ تو اب ماحول دیکھ کر کچھ ہمت ہوئی ہے اور ڈرتے، جھجھکتے اور کانپتے ہوئے قلم اٹھایا ہے کہ متاعِ کارواں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ کہیں احساسِ زیاں بھی نہ جاتا رہے ۔ بس اب بہت ہوگیا۔ آخر کو اپنے لبرل مہربانوں کے لئے بھی تو کچھ مواد باقی چھوڑنا ہے۔
والسلام 
مظلوم المدارس
محمد اسامہ ملتانی ( #ایس_اے_ساگر )

میری جانب بھی ہو اک نگاہ کرم

میری جانب بھی ہو اک نگاہ کرم اے شفیع الوریٰ خاتم الانبیاء
آپ نور ازل آپ شمع حرم آپ شمس الضحیٰ خاتم الانبیاء

آپ ہیں حق نگر، آپ ہیں حق رساں، سدرۃ المنتہیٰ آپ کے زیر پا
آپ ہیں مظہر ذات رب العلیٰ، رہبر حق نما خاتم الانبیاء

اے فصیح البیاں، اے بلیغ اللساں، اے وحید الزماں، ماورائے گماں
آپ کا نور ہے از کراں تا کراں، شاہد کبریا خاتم الانبیاء

مرسل مرسلاں، سرور عرشیاں، ہادی انس و جاں مقبل مقبلاں
آپ کی ذات ہے باعث کن فکاں، راز ارض و سما خاتم الانبیاء

آپ فخر عجم، آپ شان عرب، آپ فضل اتم، آپ رحمت لقب
سرور ذی حشم شاہ والا نسب، مرتضیٰ، مجتبیٰ خاتم الانبیاء

آپ ہیں وجہ تخلیق کون و مکاں، آپ کے دم سے ہیں یہ زمیں آسماں
آپ ہیں بے نشانی کا بیّن نشاں، اے شہ دوسرا خاتم الانبیاء

آپ کے سر پہ لولاک کا تاج ہے، آپ ہی کو فقط فخر معراج ہے
آپ کے ہاتھ اسلام کی لاج ہے، یا نبی مصطفےٰ خاتم الانبیاء


https://saagartimes.blogspot.com/2024/10/blog-post_9.html

نکاح میں عورت کی رضامندی اور گواہوں کی گواہی ضروری ہے تو طلاق میں ایسا کیوں نہیں؟

نکاح میں عورت کی رضامندی اور گواہوں کی گواہی ضروری ہے تو طلاق میں ایسا کیوں نہیں؟؟؟
سوال: شریعت نے عورت کو طلاق کے قبول کرنے یا کرنے کے بارے میں اختیار کیوں نہیں دیا گیا جیساکہ نکاح میں دیا گیا ہے ( عموماً غیرمسلم سوال کرتے ہیں)
-------------------------------
الجواب وباللہ التوفیق:
نکاح کرلینے سے مرد کو یک گونہ عورت پہ ملک حاصل ہوجاتا ہے۔ عورت اب آزاد باقی نہیں رہتی۔شوہر کے لئے وہ محبوس ہوجاتی ہے ۔اسی حبس کے عوض شوہر پر مالی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ عورت کی یہ آزادی متعدد دینی ودنیوی مقاصد و مصالح کی خاطر بذریعہ نکاح چھین لی جاتی ہے۔ اس لئے نکاح  کی صحت جمہور علماء کے مذہب کے مطابق اس کی رضامندی پر موقوف ہے۔ اور اعلان اور گواہوں کی گواہی اس لئے ضروری ہے تاکہ نکاح ناجائز تعلقات سے ممتاز ہوجائے۔ علاوہ ازیں نکاح سے متعاقدین کے علاوہ بچے کا حق بھی وابستہ ہے۔ اس لئے بھی گواہی ضروری ہے تاکہ بچہ کی پیدائش کی صورت میں باپ ثبوت نسب کا انکار کرکے نومولود کی زندگی سے کھلواڑ نہ کرسکے۔ طلاق اسی ملک نکاح کو زائل کرنے اور عورت کی آزادی سے پابندی اٹھادینے کا نام ہے تاکہ عورت اپنی سابقہ حالت کی طرف لوٹ جائے۔ اس رفع قید نکاح میں نہ کسی غیرمتعاقدین کا حق وابستہ ہے۔ نہ ناجائز تعلقات سے کسی کو ممتاز کرنا مقصود ہے۔ اس لئے اب اس میں نہ شہادت ضروری ہے نہ عورت کی رضامندی۔
نکاح کی حیثیت اسلام میں ایک معاہدہ کی ہے جس کے نیچے دو آدمی زندگی گذارنے کا عہد کرتے ہیں مرد کی طرف سے مہر نان نفقہ کسوہ سکنی وحسن معاشرت کی شرط ہوتی ہے جبکہ عورت کی طرف سے پاکدامنی اور فرمانبرداری کا عہد وپیماں ہوتا ہے۔ جس طرح دنیا کے دیگر معاہدے شرطوں کے ٹوٹ جانے سے  ازخود منسوخ ہوجاتے ہیں، ایسے ہی معاہدہ نکاح بھی شرطوں کی پاسداری نہ ہونے سے ٹوٹ جائے گا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مرد کی طرف سے اگر شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خود بخود نکاح توڑنے کی مجاز نہیں ہوگی بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ نکاح توڑ سکتی ہے، جیساکہ ولی کے ذریعہ سے شادی کرواسکتی یے اور یہ کمی اس کی فطرت اور نقصان عقل کی وجہ سے یے۔ لیکن مرد جیسے اپنے اختیار سے معاہدہ نکاح باندھ سکتا ہے ایسا ہی عورت کی طرف سے شرائط نکاح ٹوٹنے کے وقت طلاق دینے میں بھی خود مختار ہوگا۔ نہ اس میں عورت کی رضاء چاہئے نہ گواہوں کی گواہی۔ ہاں گواہ بنالے تو بہتر ہے۔ فطرت اور عالمی معاہدہ قانون کی عکسی تصویر ہے یہ نظام ۔۔
ھذا ماتیسر لی فی العجالة.والله أعلم وعلمه أتم وأكمل. 
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
( #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2024/10/blog-post_30.html

Tuesday 29 October 2024

انسان کے پاؤں میں کتنی ہڈیاں ہوتی ہیں

انسان کے پاؤں میں کتنی ہڈیاں ہوتی ہیں؟
انسانی پاؤں ایک حیاتیاتی معجزہ ہے، ہر پاؤں میں 26 ہڈیاں ہیں جبکہ دونوں پاؤں میں کل 52 ہڈیاں ہیں۔ یہ انسانی جسم کی کل 206 ہڈیوں میں سے ایک چوتھائی سے زیادہ ہیں، جو تمام ٹخنوں کے نیچے پیک ہیں۔ ہڈیوں کی یہ کثافت پیچیدہ حرکات کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جو ہمیں درست چلنے، دوڑنے، چھلانگ لگانے اور توازن برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس پیچیدہ جال کے بغیر، روزمرہ کی سرگرمیاں بہت زیادہ مشکل اور کم مستحکم ہوں گی۔ پاؤں میں ہڈیوں کی یہ گھنی ترتیب صدمے کو جذب کرنے اور وزن کو تقسیم کرنے کے لئے ضروری ہے۔ ہر ہڈی، جوڑوں، لیگامینٹس اور ٹینڈنز کے ساتھ مل کر، جسم کی حرکات کو سہارا دینے کے لئے ہم آہنگی سے کام کرتی ہے۔ یہ ڈیزائن پاؤں کو ایک اسپرنگ کی طرح کام کرنے دیتا ہے، ہر قدم کے ساتھ توانائی کا ذخیرہ جاری کرتا ہے۔ اس طرح کی ساخت کی پیچیدگی ہمیں پھرتی اور برداشت کے ساتھ حرکت کرنے کی یقین دہانی کرواتی ہے، چاہے ہم دوڑ رہے ہوں یا محض چل پھر رہے ہوں۔ لہذا، اگلی بار جب ہم آپ قدم اٹھائیں، یاد رکھیں کہ ہم ایک نفیس انجینئرنگ شاہکار پر کھڑے ہیں جو ہماری توقع سے زیادہ ہڈیوں کا بوجھ برداشت کرتا ہے۔
چلتے چلتے ذرا کسی چیز سے ٹھوکر لگتی ہے یا پاؤں کے نیچے کچھ نوک دار چیز آنے سے بچنے کی کوشش میں پاؤں کی کسی ہڈی میں چیخنے کی اذیت محسوس ہوتی ہے سوجن ہوتی ہے، چلنے پھرنے سے قاصر جب ہمیں ان ہڈیوں کے حسین امتزاجی جوڑ پر اظہار تشکر کا احساس ہوگا۔ ( #ایس_اے_ساگر )