اکیلے ہوتے جاؤگے
کسی سے اونچا بولوگے
کسی کو نیچا سمجھوگے
کسی کے حق کو ماروگے
بھرم ناحق دکھاؤگے
تو لوگوں کو گنواؤگے
اکیلے ہوتے جاؤگے
ذرا سی دیر کو سوچو
زباں کو روک کر دیکھو
تسلی سے سنو سب کی
تسلی سے کہو اپنی
جو یونہی طیش کھاؤگے
اکیلے ہوتے جاؤگے
خرد مندوں کا کہنا ہے
یہ دنیا اک کھلونا ہے
بساطِ بے ثباتی ہے
تمناؤں کی گھاٹی ہے
جو خواہش کو بڑھاؤگے
اکیلے ہوتے جاؤگے
یہ جتنے رشتے ناتے ہیں
اثاثہ ہی بناتے ہیں
محبت آزماتے ہیں
محبت بانٹ جاتے ہیں
جو اِن سے دور جاؤگے
اکیلے ہوتے جاؤگے
تمہارا گھر تمہارا ہے
مکمل استعارہ ہے
تمہارا آشیاں ہے یہ
تمہارا سائباں ہے یہ
اگر گھر نہ بناؤگے
اکیلے ہوتے جاؤگے
خالد میر
No comments:
Post a Comment