Wednesday 11 July 2018

شادی اور کفو

شادی اور کفو
عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ شادی اپنے کفو میں کرنی چاہئے۔ شریعت بھی اس بات کی تائید کرتی ہے ، سماجی اور نفسیاتی اعتبار سے بھی یہ بات صحیح ہے اور عقل بھی اس کی صداقت کا اعتراف کرتی ہے۔ مگردوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کفو کے اس مسئلہ نے مسلمانوں کے درمیان بڑا اختلاف اور انتشار پیدا کر دیاہے۔ دنیا والے اگر اپنی روش اور طرز عمل سے فساد پیدا کرتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن شریعت جو اسلام کا قانون ہے اور جس کا منشا امت میں اتحاد پیدا کرنا ہے، وہ انتشار اور اختلاف کی اجازت کیسے دیتا ہے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ عام طور پر یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ کفو یعنی برادری میں شادی کرنا شریعت کا فرمان ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ شریعت کسی ایسے عمل کی اجازت نہیں دیتی جو امت کے اندر فتنہ و فساد اور اختلاف و انتشار پیدا کرے۔ سارا فساد اس وجہ سے ہے کہ کفو کا معنی اور مطلب غلط سمجھایا گیا ہے۔ اور یہ کام کسی اور نے نہیں دین کے پاسداروں نے کیا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ 
چو کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی۔ 
(یعنی جب کعبہ سے ہی کفر اٹھے گا تو مسلمانی کہاں باقی رہے گی)۔ 
اس مسئلہ پر ہم قدرے تفصیل سے آسان انداز میں بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں شاید کہ لوگ اس مضمون کو سمجھ کر اس پر عمل کریں تاکہ امت فتنہ و فساد سے چھٹکارا پاسکے۔
کفو کا لفظ قرآن میں آیا ہے۔ جب آپ سورہ اخلاص پڑھیں گے تو شروع میں قل ھو اللہ احد آئے گا اور آخر میں کفوا احد آئے گا۔ کفو کا مطلب برابری اور ہمسری ہوتا ہے۔ یعنی دو ایسے خاندان جو برابری والے یا ہمسر یعنی ایک دوسرے جیسے ہوں۔برابری کس کس چیز میں ہونی چاہئے۔ شریعت کہتی ہے کہ دین اور اخلاق میں برابری ضروری ہے۔ یعنی ایک دیندار گھرانے کا کفو ایک بے دین گھرانہ نہیں ہوتا ہے۔ ایک اعلیٰ اخلاق کا خاندان ایک کمتر اخلاق کے خاندان کا کفو نہیں ہوسکتا۔
شریعت کے اس حکم پر بعض لوگوں نے تعلیم، معاشی اور سماجی حیثیت کو بھی جوڑا ہے یعنی اس میں بھی کفو ہونا چاہئے۔ لیکن یہ ایسی چیز نہیں ہے جس کو فرض مان لیا جائے۔ اس کا لحاظ رکھا بھی جا سکتا ہے اور نہیں بھی۔
کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ تجربے سے اس کی افادیت ثابت ہوتی ہے۔ تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ تجربے سے اس کی کوئی اہمیت نہیں بھی ثابت ہوتی ہے۔انسان کا تجربہ قرآن و حدیث کے احکام کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔ فرض سمجھ کر لازمی طور پر پیروی صرف قرآن و سنت کے احکام کی ہی کرنی چاہئے۔
ایک اعلیٰ افسر کا تعلیم یافتہ خوش حال گھرانہ ہے جو صوم و صلوٰة کا پابند ہے۔ایک دوسرے اعلیٰ افسر کا تعلیم یافتہ خوش حال گھرانہ ہے جو صوم و صلوٰة کا پابند نہیں ہے۔معاشرے کی نگاہ میں یہ دونوں ایک دوسرے کے کفو ہیں لیکن شریعت کی نگاہ میں یہ دونوں ایک دوسرے کے کفو نہیں ہیں۔ایک تاجر کا تعلیم یافتہ خوش حال گھرانہ ہے جس کی عورتیں پردے میں رہتی ہیں۔ایک دوسرے تاجر کا تعلیم یافتہ خوش حال گھرانہ ہے جس کی عورتیں بے پردہ رہتی ہیں۔معاشرے کی نگاہ میں یہ دونوں ایک دوسرے کے کفو ہیں لیکن شریعت کی نگاہ میں یہ دونوں ایک دوسرے کے کفو نہیں ہیں۔
ایک شخص نالہ کی صفائی کا کام کرتا ہے۔ اس کی رہائش ایسے مقام پر ہے جہاں صفائی اور طہارت کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا ہے۔ ایک دوسرا شخص مسجد میں امام یا موذن ہے۔ وہ ہمیشہ صاف ستھرا اور پاک رہتا ہے۔ اس کے گھر میں طہارت کی پابندی کی جاتی ہے۔ دونوں کے مزاج اور طبیعت میں ایسا نمایاں فرق ہے کہ ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوہی نہیں سکتی۔ ایک گندہ ناپاک رہتا ہے اور دوسرا صاف اور پاک رہتا ہے۔ شرعی لحاظ سے طہارت اور صفائی ایمان کا حصہ ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے کفو نہیں ہیں۔ ان دونوں میں شادی کی اجازت شریعت نہیں دیتی ہے۔ لیکن جیسے ہی نالے کی صفائی کرنے والا خاندان اسلام کی تعلیمات کو سمجھ کر اس پیشہ سے الگ ہوجاتا ہے، صاف ستھرے مقام پر رہائش اختیار کرلیتا ہے اور طہارت و پاکیزگی کا اہتمام کرنے لگتا ہے وہ مسجد کے امام یا موذن کا کفو بن جاتا ہے۔ شریعت ان دونوں خاندانوں میں شادی کی اجازت دے دیتی ہے۔ لیکن معاشرہ اس کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ کیونکہ معاشرہ نے انسان کی سماجی اور ذہنی حالت کو نہیں اس کے پیشے کو معیار بنایا ہے۔ ایک طرف شریعت ہے اور ایک طرف معاشرہ۔
دنیا والے معاشرہ کی پیروی کریں گے لیکن ایک مسلمان شریعت کی پیروی کرے گا۔اس لئے کہ معاشرہ کی پیروی کر کے وہ گمراہ ہوجائے گا اور شریعت کی پیروی کرکے اللہ سے اجر و ثواب اور رحمت کا حقدار بن جائے گا۔
اگر مسلمان رسول کی پیروی کریں تو ان کو معلوم ہوگا کہ زید بن حارثہ جو غلام تھے اور عرب کے معاشرہ میں ان کی حیثیت وہی تھی جو ہندوستان میں شودروں کی ہے اور رسول اللہ ﷺ کا خاندان ویسا تھا جیسا یہاں کے اشراف خاندان سمجھے جاتے ہیں۔ جب حضرت زید بن حارثہ ایمان لے آئے اور حضور نے ان کو اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا تو اپنی رشتے کی بہن حضرت زینب سے ان کا نکاح کردیا۔ اس طرح رسول اللہﷺ نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ دین و اخلاق اور تقویٰ مسلمانوں کے نکاح میں اصل حیثیت رکھتا ہے باقی چیزیں بے معنیٰ ہیں۔
یہ رشتہ باقی نہیں رہ سکا۔ دونوں میں جدائی ہوگئی۔ اس کے برعکس بھی ہوسکتا تھا یعنی دونوں ہنسی خوشی زندگی گزارتے۔ بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ رشتہ چونکہ بے جوڑ تھا اس لئے ناکام ثابت ہوا۔ ایسا کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ نعوذ باللہ رسول اللہ ﷺ نے غلطی کی تھی۔ چونکہ یہ کہنے کی جراءت کسی میں نہیں ہے اس لئے زبان سے تو نہیں کہتے لیکن اپنے عمل سے اس کو غلط ہی ثابت کرتے ہیں۔ یہ رشتہ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ قائم رہتا مگر قدرت کو اس معاملہ میں ایک دوسرا بڑا مسئلہ حل کرنا تھا یعنی منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا یہ ثابت کرنا تھا اس لئے قدرت نے اس رشتہ کو ختم کر
واکے رسول کو حضرت زینب سے نکاح کرنے کا حکم دیا۔ عرب کے تمام قبائل کے درمیان آپس میں شادیاں ہوتی تھیں۔ قبائلی اعتبار سے ان میں اونچ نیچ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ پیشہ بھی اونچ نیچ کا مظہر نہیں تھا مگر ہندوستان میں ہندو معاشرہ کی پیروی کرتے ہوئے مسلمانوں نے پیشے کو اونچ نیچ کا معیاربنالیا اور آپس میں اختلاف کی دیوار کھڑی کرلی۔
دین کے علم برداروں کی یہ ذمہ داری تھی کہ اس غلط روش کو درست کرتے اور مسلم عوام کو اپنے قول و عمل سے صحیح راہ دکھاتے۔ لیکن دین کے پاسداروں نے رسول اللہ سے بغاوت کر دی اور گمراہ معاشرہ کے پیچھے چل کر اس بت کو جسے رسول اللہ نے خطبہ حجة الوداع کے موقع پر پیروں تلے روند ڈالا تھا پھر سے زندہ کر اٹھایا۔
وقت کے ایک بڑے اور مشہور عالم نے اپنی کتاب میں سید اور انصاری کی مثال دے کر کفو کی بات سمجھائی اور گویا برادری کی تفریق کو کفو کا مسئلہ بنادیا۔
ایک عالم دین ایک بار اپنی نجی محفل میں اپنے خاندان اور گاوں کا تذکرہ کررہے تھے۔ انہوں نے اس کا خیال نہیں کیا کہ ان کے جو عقیدت مند لوگ بیٹھے ہیں ان میں ہر ذات کے لوگ ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا کہ ہمارا گاوں تو در اصل سادات کا گاوں تھا مگر ضرورت کے تحت کچھ جولاہے، کنجڑے اور دھوبیوں کو بھی بسالیا گیا تھا۔ جیسے ہی اس عالم دین کی زبان سے یہ غلیظ بات نکلی پوری فضا بدبو دار ہوگئی۔
محفل میں بیٹھے ہوئے ایک انصاری نے مولانا کی زبان سے یہ بدبو دار بات سنی تو ان کی عقیدت مندی کا پورا قلعہ مسمار ہوگیا اور محبت نفرت میں بدل گئی۔
عجب اتفاق ہے کہ ہندوستان میں جتنی جماعتیں بنیں یا جتنی خانقاہیں قائم ہوئیں ان کے امیر یا سجادہ نشیں سب کے سب وہ ہوئے جن کے نام کے ساتھ سید لگا ہوا تھا۔اور ان جماعتوں اور خانقاہوں کے پیرو ہمیشہ بڑی تعداد میں وہ ہوئے جو پساندہ کہے جاتے تھے۔ اسی طرح ایک مسلکی جماعت کے سید امیر کے مددگار اور حمایتی شہر کے کچھ مشہور انصاری خاندان تھے جو ہمیشہ اپنے امیرکا بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔
جب اس سید امیر کے بیٹے نے اپنے باپ کی گدی سنبھالی تو نادانی سے ان انصاری خاندانوں سے عداوت اور دشمنی پیدا کرلی اور جماعت کے اندر ان کو بے اثر بنا دیا۔ نئی نسل نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا اور اس معاملہ نے بغاوت کی صورت اختیار کرلی۔ چنانچہ بعض تیز مزاجوں نے اپنی برادری کے نام پر الگ جمات قائم کرلی۔
ایک بار ذات پات کی کھائی پاٹنے کی غرض سے ایک جلسہ بلایا گیا۔ لوگوں کی تقریریں ہوئیں۔ ایک مشہور عالم نے کفو کا مسئلہ سمجھاتے ہوئے کہہ دیا کہ عطر فروش کا کفو چرم فروش نہیں ہوسکتا ہے۔ مولوی صاحب نے یہ نہیں سمجھا کہ وہ شریعت کے اعتبار سے بالکل غلط کہہ ر ہے ہیں۔ چونکہ انہوں نے اپنے بزرگوں کو اسی زبان میں بات کرتے سنا تھا، انہیں یہی زبان یاد تھی اس لئے اسی زبان میں اظہار خیال ہوگیا۔
اگر مولوی صاحب نے تھوڑی سی بھی عقل استعمال کی ہوتی اور موقع اور محل کی نزاکت کو سمجھے ہوتے تو ایسی بات نہیں کہتے، مگر بے چارے نے نادانی سے جلسے کے مقصد کے خلاف بات کہہ دی۔ اس کو یوں سمجھئے:
عطر بنانے والے اور بیچنے والے کا گھر خوشبو سے بھرا رہتا ہے۔ اس کے گھر کے لوگ خوشبو کے عادی ہوتے ہیں۔ چمڑے کی تجارت کرنے والے کے گھر میں بدبو رہتی ہے اور اس کے گھر کے لوگ بدبو کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اس لحاظ سے تو یہ بات ٹھیک لگتی ہے کہ سماجی اور نفسیاتی اعتبار سے یہ دونوں ایک دوسرے کے کفو نہیں ہوسکتے ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں اس کی نوعیت بالکل الگ ہے۔عطر کا کاروبار کرنے والوں کا کارخانہ قنوج میں ہے جس میں مزدور کام کرتے ہیں اور خود ان کی رہائش اعلیٰ درجہ کے مکانوں میں لکھنو کے اندر ہے۔ اسی طرح چمڑے کی تجارت کرنے والوں کا کارخانہ کلکتہ کے دور دراز علاقوں میں ہے جہاں مزدور کام کرتے ہیں اور چمڑے کے تاجر کا مکان کلکتہ کے بہترین علاقہ میں ہے جہاں اس کا خاندان اعلیٰ درجہ کی رہائش کے ساتھ رہتا ہے۔
عطر بیچنے والے اور چمڑا بیچنے والوں کے مکانوں میں جائیے، ان کی رہائش دیکھئے، ان کی مالی حالت دیکھئے، ان کی تعلیمی لیاقت دیکھئے ہر جگہ یکسانیت نظر آئے گی۔ دنیاوی اعتبار سے دونوں ایک دوسرے کے کفو ہیں۔ مگر مولوی صاحب نے اپنی نادانی سے ان دونوں کے بارے میں کہہ دیا کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے کفو نہیں ہیں۔ ایسا اس وجہ سے ہواکہ مولوی صاحب کے دماغ میں شرعی کفو کا تصور نہیں تھا بلکہ باپ دادا کے بتائے ہوئے اس کفو کا تصور تھا جس کی بنیاد پیشہ ہے۔
ایک پٹھان کا بیٹا ٹھیلہ چلا کر سبزی بیچتا ہے، جس سے وہ مشکل سے پچاس روپیہ روزانہ کماتا ہے۔ وہ ہر اعتبار سے پسماندہ ہے۔ ایک انصاری کا بیٹا اسکول میں ماسٹر ہے اور پندرہ ہزار روپیہ تنخواہ پاتا ہے۔ ٹھاٹ سے رئیسوں کی طرح رہتا ہے۔ اب دیکھئے پسماندہ کون ہے۔ پٹھان کا بیٹا یا انصاری کا بیٹا۔
ہر آدمی کہے گا کہ بھائی پسماندہ تو پٹھان کا بیٹا ہے۔ انصاری کا بیٹا پسماندہ نہیں ہے۔ ایک سید کا بیٹاد کان میں نوکری کرتا ہے اور دو ہزار روپیہ تنخواہ پاتا ہے۔ ایک سبزی فروش کا بیٹا ڈاکٹر ہے اورپچاس ہزار روپیہ ماہانہ کماتا ہے۔ بتائیے پسماندہ سید کا بیٹا ہے یا سبزی فروش کا بیٹا۔ سب کہیں گے کہ پسماندہ تو سید کا بیٹا ہے سبزی فروش کا بیٹا پسماندہ نہیں ہے۔
ملت کی جلتی لاش پرسیاست کی روٹی سینکنے والے گدھ اور گیدڑ اگر ذات برادری کے نام پر ملت میں انتشار پیدا کررہے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن عالم فاضل اور تعلیم یافتہ لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ ایسی باتیں کیسے کہہ رہے ہیں۔ سوچنا پڑتا ہے کہ یہ دین کا علم رکھتے بھی ہیں یا نہیں؟ یا دین کا علم تو ہے لیکن ان کو شایداس پر یقین نہیں ہے۔
یہ شریعت سے زیادہ معاشرے کے رسم و رواج کا لحاظ کرتے ہیں۔ جتنے بھی سمجھ بوجھ رکھنے والے تعلیم یافتہ اور روشن خیال لوگ ہیں ان کا اس پر اتفاق ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں ذات برادری کے مسئلے کو بڑھاوا دینے میں عالم دین لوگوں کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔ ان لوگوں کی روش، سوچ اور باتوں نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے اور سنگین بنادیا ہے۔
ہندو معاشرہ میں اونچی ذات اور نیچی ذات کا جوتصور پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے صرف یہی نہیں کہ ان میں آپس میں شادیاں نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سنسکار(تہذیب) تو صرف اونچی ذات کے لوگوں کے اندر پائی جاتی ہے۔ جو نیچی ذات کے لوگ ہیں وہ سنسکار ہین (تہذیب سے محروم) ہیں۔ ان کی مذہبی کتابوں میں نیچی ذات والوں کے خلاف قابل اعتراض باتیں لکھی ہوئی ہیں۔
لیکن مسلم ملت کا معاملہ بالکل دوسرا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی جتنی کتابیں ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ سارے انسان آدم و حوا کی اولاد ہونے کے سبب آپس میں برابری کا درجہ رکھتے ہیں۔ سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ دوسرے کو نیچا سمجھنا اس کی تحقیر کرنا ہے اور ایسا کرنے والا تکبر میں مبتلا ہے تکبر کرناگناہ کبیرہ ہے۔ دوسرے کو حقیر اور ذلیل سمجھنے سے منع کیا گیا ہے۔ جو شخص تکبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے نفرت کرتا ہے۔ کوئی بھی ایمان کی سلامتی چاہنے والا مسلمان تکبر سے اس طرح بھاگے گا جیسے آدمی آگ سے بھاگتا ہے۔
مسلم معاشرے کے طور طریقوں کو دیکھ کر بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ذات برادری کی بنیاد پر کوئی معاملہ نہیں کیا جاتا ہے۔ لیاقت، صلاحیت اور صالحیت کی بنیاد پر کسی بھی ذات کا مسلمان بڑے سے بڑا درجہ پا سکتا ہے۔
بد نصیبی یہ ہے کہ مذہب اور دین کے نام پر جو جماعتیں اور خانقاہیں پائی جاتی ہیں وہ اس وقت دین کی خدمت کے لئے کام نہیں کر رہی ہیں بلکہ کسی مخصوص ٹولے کے مفا د میں کام کر رہی ہیں۔ اس مخصوص ٹولے نے اس ڈر سے کہ کہیں دوسرے لوگ اس پر حاوی نہ ہو جائیں، جماعت اور خانقاہ کی حفاظت کے لئے طرح طرح کے سیاسی ہتھکنڈوں کا سہارا لیا ہے۔
ایک جماعت کے اندر دو با صلاحیت آدمی رہ ہی نہیں سکتے ہیں۔ہر جگہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک ہی آدمی تمام معاملات پر چھایا ہوا ہے۔ اور اس ایک آدمی کے چٹے بٹے ہی جماعت کا سارا اختیار رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ایک ہی خاندان یا ایک ہی ٹولہ ہر جماعت پر قبضہ جمائے ہوئے ہے۔
یہی ذہنیت ذات برادری کی بھی حمایت کرتی ہے۔ چونکہ شروع سے وہ لوگ ہی تمام معاملات پر چھائے ہوئے ہیں جو اونچی ذات کے کہے اور سمجھے جاتے ہیں اس لئے محروم لوگ اکثر ان کے خلاف ذات برادری کے سہارے تحریک چلاتے ہیں۔اور جب مذہب اور دین کے نام لیوا ہی غلط راہ پر چل رہے ہوں تو ملت اور امت کو سیدھی راہ کون دکھائے گا ؟
کہا جاسکتا ہے کہ ملت کی گمراہی، بد حالی، جہالت، تعصب اور خانہ جنگی کی ساری ذمہ داری ان نام نہاد مولویوں کے سر جاتی ہے جنہوں نے کبھی دین و شریعت کی پروا نہیں کی، ہمیشہ اپنے ذاتی، جماعتی اور مسلکی مفاد کو ہی بنیاد بناکر کام کیا۔ اور جب تک ایسے ناعاقبت اندیش لوگ ملت کی سربراہی کرتے رہیں گے ملت تڑپتی اور تلملاتی رہے گی۔
ایک طرف ہمارا وطن عزیز بے ایمان، کرپٹ اور مکار لوگوں کو اپنے کندھوں پر بٹھائے کراہ رہا ہے تو دوسری طرف ناتواں مسلم ملت ناکارہ قائدین کے پیچھے گمراہ ہورہی ہے۔ طویل مدت کی اس مشق نے ملت کو بھی نافرمانی، حکم عدولی اور من مانی کا عادی بنا دیا ہے۔
مسلم ملت نہ تو علماء کی قدر کرتی ہے اور نہ ان کی بات مانتی ہے۔ کیا ہے کہ کچھ اللہ کے ایسے بندے جو اس جہالت اور تعصب کے خلاف جہاد چھیڑ دیں اور ملت میں اتحاد پیدا کر دیں!!

No comments:

Post a Comment