Tuesday, 17 July 2018

عارف باللہ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی رحمہ اللہ علیہ

عارف باللہ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی رحمہ اللہ علیہ
آج 17 جولائی یوم وفات: عارف باللہ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی رحمہ اللہ علیہ سابق مھتمم دارالعلوم دیوبند
آپ ہندوستان کے مشھور و معروف عالم ربانی، حکیم الاسلام، عارف باللہ، شیخ العرب والعجم، بے مثل عظیم خطیب، اکابر دیوبند کے علوم؛ خصوصا علوم قاسمی، علوم شیخ الھند، علوم تھانوی اور علوم عثمانی کے عظیم شارح، حجتہ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ کے پوتے، حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ مھتمم خامس دارالعلوم دیوبند کے صاحبزادے، مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر، حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کے ممتاز خلیفہ اور دارالعلوم دیوبند کے مایۂ ناز مھتمم تھے۔
ولادت: آپ کی ولادت باسعادت محرم الحرام ۱۳۱۵ھ مطابق جون ۱۸۹۷ء بروز اتوار دیوبند میں ہوئی۔
آپ کا نام نامی محمد طیب تجویز کیا گیا اور تاریخی نام مظفرالدین رکھا گیا۔ اول نام سے آپ نے شھرت پائی۔
حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے تھے کہ میری پیدائش کے ساتھ ایک بزرگ کی کرامت وابستہ ہے، فرماتے تھے کہ حضرت حافظ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے پہلے تین اولاد ہوئیں، اور ان تینوں کا بچپن میں انتقال ہوگیا، اس کے بعد ایک مدت تک حضرت حافظ صاحب رح کے یہاں کوئی اولاد نہ ہوئی، حضرت شیخ الہند رح کو اس کی زیادہ فکر تھی، ان کی خواھش تھی کہ خاندان قاسمی کا سلسلہ آگے بڑھے ، حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے مولانا عبد الاحد صاحب رح کے والد مولانا عبد السمیع صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو فتحپور کے ایک صاحب کرامت بزرگ کی خدمت میں بھیجا جو اولاد کے سلسلہ میں مستجاب الدعوات تھے کہ ان سے حضرت حافظ صاحب رح کی اولاد کے لئے دعاء کروائیں ، ان بزرگ نے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کا پیغام سن کر تھوڑی دیر مراقبہ کیا، اور پھر سر اٹھاکر ان الفاظ میں بچہ پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی۔ لڑکا ہوگا، حافظ ہوگا، قاری ہوگا، مقتدیٰ ہوگا، عالم ہوگا، حاجی ہوگا، قاری صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے تھے کہ ان بزرگ کے یہ کلمات کسی حد تک تو صادق آہی گئے۔
تعلیم و تربیت: 
۱۳۲۲ھ میں سات سال کی عمر میں دارالعلوم دیوبند میں داخل کئے گئے ، اور وقت کے ممتاز اکابر علماء بزرگوں کے عظیم الشان اجتماع میں مکتب نشینی کی تقریب عمل میں آئی۔ دو سال کی قلیل ترین مدت میں قرآن مجید قراءت و تجوید کے ساتھ حفظ کیا، حفظ قرآن مجید سے فراغت کے بعد درجۂ فارسی میں آپ کو داخل کیا گیا، وہاں سے پانچ سال فارسی اور ریاضی کے درجات میں تعلیم حاصل کرکے عربی کا نصاب شروع کیا جس سے ۱۳۳۷ھ مطابق ۱۹۱۸ء میں فراغت اور سند فضیلت حاصل کی۔ دوران تعلیم میں دارالعلوم کے تمام اساتذہ آپ کے ساتھ بوجہ خاندانی شرف اور آبائی نسبت کے شفقتوں و محبتوں سے پیش آتے تھے اور مخصوص طریق پر تعلیم و تربیت میں حصہ لیتے رہے ، حدیث کی خصوصی سند آپ کو وقت کے مشاھیر علماء و اساتذہ سے حاصل ہوئی اور بہت سے بزرگوں کی ہمت اور توجہ آپ کے ساتھ تھی۔ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ علیہ علم حدیث میں آپ کے خاص استاذ ہیں ۔
آپ کے اساتذہ میں امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری
، مفتیٔ اعظم حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی، حضرت شیخ الہند، حکیم الامت حضرت تھانوی، حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی، حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور حضرت مولانا سید اصغر حسین دیوبندی رحمہم اللہ  جیسے نامور علماء شامل ہیں۔
راہ سلوک: 
آپ نے اپنا سلسلۂ بیعت ۱۳۳۹ھ میں اولا حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ سے قائم کیا، تزکیہ و احسان کی منزلیں طے ہی کررہے تھے کہ پانچ ماہ بعد حضرت شیخ الہند رح کی وفات ہوگئی ۔ ان کی وفات کے بعد حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ علیہ کی طرف رجوع کیا اور تربیت حاصل کی ۔ بعد ازاں ۱۳۴۳ھ میں حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ علیہ کی طرف رجوع کیا اور اُنہیں کے زیر تربیت سلوک و معرفت کی منزلیں طے کیں۔ ۱۳۵۰ھ مطابق ۱۹۳۱ء  میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ علیہ نے آپ کو خلافت و اجازت سے نوازا۔ اللہ تعالٰی نے آپ کو اس راہ میں بھی اپنی رحمت و فضل سے نوازا تھا اور آپ کے ذریعہ بے شمار ہزاروں افراد کی اصلاح ہوئی اور لاکھوں کو اپنے اپنے فیض علمی و روحانی سے مالامال کیا ، اور ان کی ایمانی و روحانی و احسانی زندگی میں انقلاب پیدا ہوا ، اور ہزاروں کی بگڑی زندگی سنور گئی، کتنے لوگ آپ کے دست حق پرست پر حلقہ بگوش اسلام ہوئے، آپ کا حلقہ بیعت و ارشاد ہندوستان سے نکل کر بلاد و ممالک تک پہنچا اور بہت سے لوگوں کو آپ نے اجازت بھی دی، آپ کے خلفاء و مجازین سیکڑوں کی تعداد میں ہیں ۔
درس و تدریس: 
فراغت کے بعد آپ نے دارالعلوم دیوبند ہی میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور درس نظامی کی مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھائیں۔ ذاتی علم و فضل ذہانت و ذکاوت اور آبائی نسبت کے باعث بہت جلد طلبہ کے حلقے میں آپ کے ساتھ گرویدگی پیدا ہوگئی۔ تدریسی زمانہ ۱۳۳۷ھ سے ۱۳۴۳ھ تک رہا ۔ اوائل ۱۳۴۱ھ مطابق ۱۹۲۴ء میں اکابر و مشائخ کے مشورے پر نائب مھتمم کے منصب پر آپ کا تقرر کیا گیا ، جس پر اوائل ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۸ء تک آپ اپنے والد ماجد اور حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی رح کی نگرانی میں ادارۂ اہتمام کے انتظامی معاملات میں حصہ لیتے رہے ۔ ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۸ء میں حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی رح کے انتقال کے بعد آپ کو باقاعدہ طور پر مستقل مھتمم بنایا گیا ۔ اور تاحیات ۱۴۸۲ھ تک مسند اہتمام پر فائز رہے ۔ سابقہ تجربۂ ، اہلیت کار اور آبائی نسبت کے پیش نظر یہ ثابت ہوچکا تھا کہ آپ کی ذات میں اہتمام دارالعلوم کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے ، چنانچہ مہتمم ہونے کے بعد آپ کو اپنے علم و فضل اور خاندانی وجاہت و اثر کی بنا پر ملک میں بہت جلد مقبولیت اور عظمت حاصل ہوگئی ، جس سے دارالعلوم کی عظمت و شھرت کو کافی فوائد حاصل ہوئے ۔
دارالعلوم نے آپ کے زمانۂ اہتمام میں نمایاں ترقی حاصل کی اور آپ نے اپنے زمانہ میں دارالعلوم کی شھرت و عظمت کو چار چاند لگادئیے اور پوری دنیا میں دارالعلوم دیوبند کا نام روشن ہوا ۔ ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۸ء میں جب آپ نے انتظام دارالعلوم کی باگ دوڑ ہاتھ میں لی تو اس کے انتظامی شعبے آتھ تھے جن کی تعداد آپ نے ۲۳ تک پہنچادی ، اس وقت دارالعلوم کی سالانہ آمدنی کا بجٹ50262 روپیہ سالانہ تھا ، آپ کے زمانے میں 26 لاکھ تک پہنچ گیا ۔ ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۹ء میں ملازمین دارالعلوم کے عملے میں 45  افراد تھے ، آپ نے ان کی تعداد دو سو تک پہنچادی ، اس وقت اساتذہ کی تعداد 18 تھی جو بڑھ کر 59 ہوگئی ، طلبہ کی تعداد 480 تھی جو آپ کے زمانۂ اہتمام میں دو ہزار تک پہنچ گئی۔ اسی طرح عمارتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ، دارالتفسیر، دارالافتاء ، دارالقرآن، مطبخ جدید ، فوانی دارالحدیث، بالائی مسجد، باب الظاھر، جامعۂ طبیہ جدید ، دو منزلہ دارالاقامہ ، مہمان خانہ کی قدیم عمارت ، کتب خانے کا وسیع و عریض ھال ، دارالاقامہ جدید ، افریقی منزل ، مطبخ کے قریب، تین درسگاہوں کا اضافہ ؛ حضرت ممدوح ہی کے دور اہتمام کی تعمیرات ہیں۔
غرض کہ دارالعلوم کے ہر شعبے نے آپ کے دور اہتمام میں نمایاں ترقی کی ۔ دارالعلوم کی مجالس انتظامیہ و شوریٰ نے مختلف اوقات میں آپ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف اور اظہار قدردانی کے سلسلے میں متعدد مرتبہ تجاویز پاس کیں ۔ دارالعلوم کی شمع کو روشن رکھنے کے لئے پیرانہ سالی میں بھی جوانوں کی طرح سرگرم عمل رہے ۔ عالمی پیمانے پر اسلام اور مسلمانوں کے تئیں دارالعلوم کی خدمات کو متعارف کرانے میں بھی آپ پیش پیش رہے ۔ آپ کے دور اہتمام میں دنیا کے گوشہ گوشہ سے حصول علم کے لئے آنے والے طلبہ کا سلسلہ روز افزوں رہا ۔
*خدمات و کارنامے :* درس و تدریس کے علاوہ فن خطابت اور تقریر میں بھی آپ کو خداداد ملکہ اور قوت گویائی حاصل تھی اور زمانۂ طالب علمی ہی سے آپ کی تقریریں پبلک جلسوں میں شوق کے ساتھ سنی جاتی تھیں ، اہم سے اہم مسائل پر دو دو تین تین گھنٹے مسلسل اور بے تکلف تقریر کرنے اور ٹھوس علمی مواد پیش کرنے میں آپ کو کوئی رکاوٹ اور تکلف نہیں ہوتا تھا ۔ حقائق اور اسرار شریعت کے بیان اور ایجاد مضامین میں ٘آپ کو خاص قدرت حاصل تھی ، جسے آپ کے اکابر و اساتذہ بھی تسلیم کرتے تھے ۔  جدید تعلیم یافتہ طبقہ آپ کے علمی اور حکیمانہ اسلوب بیان سے خاص طور پر محظوظ ہوتا تھا ۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور دوسری یونیورسٹیوں میں آپ کی تقریریں خاص طور پر مقبول تھیں ، بعض معرکتہ الآراء تقریریں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے شائع ہوچکی ہیں ۔ ملک کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جس میں آپ کی تقریروں کی گونج نہ پہنچی ہو ، آپ کی رواں دواں اور دلکش تقریر جب علم کے گہرے سمندر سے گزرتی تھی تو لہروں کا سکوت قابل دید ہوتا تھا ۔ جمعیتہ العلماء کے سالانہ اجلاسوں میں آپ کے خطباتِ صدارت بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھے گئے ہیں ،  آپ کے منتخب علمی خطبات دس جلدوں میں " خطبات حکیم الاسلام " کے نام سے شائع ہوچکے ہیں ۔
آپ کی علمی تقریروں سے ایک خاص حلقۂ اثر پیدا ہوا اور بیرون ہند کے علمی حلقوں میں بھی آپ کی خطابت کے اثرات پہنچے ۔ آپ کے دارالعلوم کے اہتمام کے ساتھ ساتھ تبلیغ دین کا بھی حق ادا کیا پوری دنیا کے ممالک میں آپ نے متعدد بار سفر کئے اور اسلام کی سر بلندی کے لئے کوشاں رہے ، آپ کی تقریروں نے ملک و بیرون ملک میں ایک وسیع حلقہ پیدا کیا ۔ اور آپ ایک عظیم خطیب ، ادیب ، محقق، مدبر ، محدث ، مفسر ، متکلم ، مصنف اور شیخ کامل تسلیم کئے گئے ۔ متعدد بار حج و زیارت کی سعادت حاصل کی اور پورے عالم اسلام میں حکیم الاسلام کے لقب سے شھرت پائی۔
۱۳۵۳ھ مطابق ۱۹۳۴ء میں بسلسلۂ سفر حجاز آپ نے ہندوستان کے ایک مؤقر وفد کے صدر کی حیثیت سے سلطان ابن سعود کے دربار میں جو تقریر فرمائی اس نے سلطان کو بہت متأثر کیا ، سلطان ابن سعود نے شاہی خلعت اور بیش قیمت کتب کے عطیہ سے اعزاز بخشا ۔
۱۳۵۸ھ مطابق ۱۹۳۹ء میں آپ کا سفر افغانستان علمی خدمات کی کی ایک مستقل تاریخ ہے ، آپ نے دارالعلوم کے نمائندے کی حیثیت سے دارالعلوم اور حکومت افغانستان کے درمیان علمی و عرفانی روابط قائم کرنے کے لئے یہ سفر اختیار فرمایا تھا ۔ افغانستان کے علمی ، ادبی ، سرکاری اور غیر سرکاری انجمنوں اور سوسائٹیوں نے مدعو کیا تھا ۔ آپ کی عالمانہ تقریروں سے وہاں کے علمی اور ادبی حلقے بہت متأثر ہوئے۔ اسی طرح آپ نے پاکستان ، بنگلہ دیش ، انڈونیشیا ، ملیشیا ، برما، عالم عرب ، حبش ، (ایتھوپیا) ، کینیا ، مڈغاسکر، جنوبی افریقہ، زنجبار ، روڈشیا، ری یونین ، انگلینڈ ، فرانس ، جرمنی ، کناڈا ، امریکہ وغیرہ ممالک کا دورہ کیا ۔
حضرت قاری صاحب رح ہندوستان کے مؤقر ادارہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مؤسس اور بانی بھی ہیں ۔ حکومت ہند کے ذریعہ مسلمانوں کے شرعی قوانین کے تبدیل کرنے یا اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے خلاف ممبئی میں ۱۹۷۲ء میں ایک عمومی کنونشن بلایا گیا جس میں ہندوستان میں امت مسلمہ کے تمام گروہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے اور اس کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی ۔ حضرت قاری صاحب رح اس بورڈ کے بانی اور صدر اول مقرر ہوئے اور تاعمر بالاتفاق اس بورڈ کے صدر رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ کی دلکش شخصیت کے بے شمار پہو ہیں ، شرافت و انسانیت ، سراپا انکسار ، پاک باطنی، علم و فضل ، خطابت و تقریر اور وعظ و تلقین ، سادگی اور عجز و انکساری ، حکیمانہ گفتگو ، فصاحت و بلاغت؛ غرض کہ ان کی شخصیت کردار و اعمال اور جلال و جمال کا ایک حسین امتزاج تھی ۔
علمی یادگاریں:
دارالعلوم کے انتظامی امور کے علاوہ تصنیف و تالیف سے آپ کو طبعی دلچسپی تھی ۔ آپ کا یہ مشغلہ دارالعلوم کے انتظامی معاملات اور اوقات تدریس کے علاوہ ہمیشہ جاری رہا ، بالخصوص دوران سفر کے فارغ اوقات اسی میں صرف ہوتے تھے ۔ آپ اپنے وقت کے عظیم مصنف تھے ، آپ کی تصانیف کی تعداد کافی ہے ، مختلف موضوعات پر تقریبا سو سے زائد تصنیفات ہیں ، اور ہر کتاب اپنے مواد اور اپنی جامعیت اپنے اسلوب بیان اور اپنے طرز استدلال میں انوکھی ہے ، ہر کتاب آپ کی مخصوص طرز تحریر کے ساتھ عالمانہ و محققانہ مباحث زبان و بیان کی رعنائیوں اور دل آویزیوں سے آراستہ پیراستہ ہے ۔ تصنیف و تالیف کا سلسلہ اخیر عمر تک جاری رہا ، مختلف دینی علمی اور تاریخی موضوعات پر تقریبا سو سے زائد مطبوعہ اور غیر مطبوعہ رسالے اور کتابیں اپنی یادگار چھوڑیں جن میں سے بعض کتابوں کے نام درج ذیل ہیں :
(1) التشبہ فی الاسلام (2) مشاھیر امت (3) کلمات طیبات (4 ) مقامات مقدسہ (5) اطیب الثمر فی مسئلۃ القضاء والقدر ( 6 ) سائنس اور اسلام ( 7 ) اسلام اور مسیحی اقوام ( 8 ) مسئلہ زبان اردو ہندوستان میں ( 9 ) دین و سیاست ( 10 ) اسباب عروج و زوال اقوام ( 11 ) اسلامی آزادی کا مکمل پروگرام ( 12 ) الجتہاد والتقلید ( 13 ) اصول دعوت اسلام ( 14 ) اسلامی مساوات ( 15) تفسیر سورہ فیل ( 16 ) فطری حکومت ( 17 ) فلسفۂ نماز (18) نظریۂ دو قرآن کا جائزہ ( 19 ) اسلام میں اخلاق کا نظام ( 20 ) خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ( 21 ) حدیث کا قرآنی معیار (22) علماء دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج ( 23 ) شرعی پردہ ( 24 ) اسلام میں فرقہ واریت (25) آفتاب رسالت ( 26 ) حدیث رسول کا قرآنی معیار ، وغیرہ ۔
*شعر و شاعری :* اردو شاعری سے اچھی مناسبت تھی ، بلند پایہ مصنف اور خطیب ہونے کے ساتھ آپ قادر الکلام شاعر بھی تھے ، اور جب کبھی کہنے پر آتے تو چار چار پانچ پانچ سو اشعار پر مشتمل نظمیں کہہ ڈالتے تھے جس پر آپ کے شاعری مجموعۂ کلام (1) "عرفان عارف" (2) جنون شباب (3) ارمغان دارالعلوم ، شاھد ہیں۔
آپ کے ہم عصر قریبی ساتھیوں میں مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رح ، حضرت علامہ مولانا محمد ادریس کاندھلوی رح اور محدث کبیر حضرت مولانا سید بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنی رح تھے ۔  
*جلسۂ صد سالہ :* ۱۹۸۰ء میں آپ کے زمانۂ اہتمام میں دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کی چہل پہل آج تک لوگوں کے قلوب میں تازہ ہے ، اس تاریخ ساز اجلاس سے دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ صرف برّصغیر  بلکہ عالم انسانیت پر دارالعلوم دیوبند کے علمی و روحانی فیض کا دائرہ کس قدر وسیع ہے ۔ آپ نے کبر سنی اور انتہائی ضعف باوجود اپنی وسعت فکری اور انتظامی پختگی کو بروئے کار لاتے ہوئے اس عالم گیر اجلاس کے ذریعہ فکر دیوبندیت کو عام کیا اور قومی و بین الاقوامی شھرت یافتہ دنیا بھر کی شخصیتوں سمیت عوام و خواص کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی لہروں کے ذریعہ ثابت کردیا کہ دارالعلوم دیوبند ایک تعلیمی ادارہ ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کی تمناؤں کا مرکز بھی ہے ۔
۱۹۸۰ء کے بعد جب کبر سنی کی وجہ سے اہتمام کی ذمہ داریاں آپ پر گراں ثابت ہونے لگیں تو آپ نے مجلس شوریٰ میں ایک معاون کی ضرورت کا اظہار فرمایا ، چنانچہ حسب درخواست مجلس شوریٰ نے معاون کے طور پر حضرت مولانا مرغوب الرحمٰن صاحب بجنوری رح کو منتخب فرمایا ، لیکن اس کے بعد ہی دارالعلوم میں اہتمام اور مجلس شوریٰ کے درمیان ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوگئی ۔ آخر کار حضرت قاری صاحب رح نے منصب اہتمام سے از خود کنارہ کشی مناسب سمجھی اور اگست ۱۹۸۲ء میں دارالعلوم سے قلبی لگاؤ کے اظہار کے باوجود اہتمام کی ذمہ داریوں سے سبک دوش کردئے جانے کی درخواست کی ۔ آپ کی پیرانہ سالی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ارباب مجلس شوریٰ نے آپ کا استعفا قبول فرمالیا ۔ الغرض آپ نے ساری حیات خدمت اسلام اور خدمت دارالعلوم میں گزاری۔
وفات:
۱۹۸۲ء کے اوائل ہی سے آپ کی صحت دن بدن گرتی چلی گئی ۔
بالآخر 6  شوال 1403ھ مطابق 17 / جولائی 1983ء بروز اتوار 88  سال کی عمر میں دارالعلوم دیوبند اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے قوم و ملت کی عظیم خدمت انجام دے کر آپ اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔
وصیت کے مطابق آپ کی نماز جنازہ احاطۂ مولسری میں ادا کی گئی ، آپ کے جانشین خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب رح نے نماز جنازہ پڑھائی اور قبرستان قاسمی میں اپنے جدّ امجد ججتہ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رح کے پہلو میں مدفون ہوئے۔
آل انڈیا ریڈیو کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی ۔
7 / صفر 1404ھ مطابق 13 نومبر 1983ء کی مجلس شوریٰ میں تعزیت کی تجویز پاس کی گئی جس میں کارناموں کو سراہتے ہوئے آپ کی روح کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔ تجویز کا ایک اقتباس یہ ہے :
"مرحوم و مغفورکو اللہ نے لا تعداد محاسن و مناقب اور فضائل و مکارم سے نوازا تھا ، علوم ظاھری میں وہ امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری 
رحمہ اللہ علیہ کے مایۂ ناز تلمیذ رشید تھے اور علوم باطنی میں ان کو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ علیہ جیسے عظیم المرتبت شیخ کی خلافت حاصل تھی، انہوں نے اپنے سر چشمۂ فیض سے درس و تدریس، موعظت و دعوت اور رشد و صحبت کے مختلف ذرائع سے اپنی طویل عمر میں نہ صرف ہندوستان بلکہ عالم اسلام کو سیراب کیا۔" (تجویز تعزیت، اجلاس مجلس شوریٰ، 7 / صفر 1404ھ مطابق 13 نومبر 1983ء)
(تاریخ دارالعلوم : 235/ 2 ، دارالعلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ : ص 518 ، تذکرۂ اکابر: ص 190، سو بڑے علماء: ص 109، ملت اسلام کی محسن شخصیات: ص 224)
از قلم: احقر محمد طاھر غفرلہ قاسمی دھلوی

No comments:

Post a Comment