چاروں اماموں سے پہلے لوگ کس امام کی تقلید کرتے تھے؟
سوال: چاروں اماموں سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں مثلاً صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تک يہ لوگ کس امام کی تقلید کرتے تھے۔ یا اس وقت تقلید واجب نہ تھی؟
الجواب: یہ سوال بھی کسی اہل سنت والجماعت محدث یا فقیہ نے پیش نہیں کیا بلکہ یہ سوال بھی شیعہ کی طرف سے اٹھا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“صحابہ کے دو گروہ تھے۔ مجتہد اور مقلّد” (قرة العینین) یہ سب صحابہ ؓ عربی داں تھے لیکن بقول ابن القیّم ان میں اصحابِ فتوٰی صرف 149 تھے۔جن میں سے سات مکثّرین میں ہیں۔ یعنی انہوں نے بہت (١٠٠٠ سے) زیادہ فتوے دئیے۔ 20 صحابہ متوسّطین میں ہیں۔ جنہوں نے کئی ایک (١٠٠ سے زائد، ١٠٠٠ سے کم) فتوے دئیے۔ اور 122 مقلّین میں ہیں جنہوں نے بہت (١٠٠ سے) کم فتوے دئیے۔ ان مفتی صحابہ کرام ؓ کے ہزاروں فتاوٰی مصنّف ابن ابی شیبہ، مصنّف عبدالرّزاق، تہذیب الآثار، معانی الآثار وغیرہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ جن میں مفتی صاحبان نے صرف مسئلہ بتایا، ساتھ بطور دلیل کوئی آیت یا حدیث نہیں سنائی اور باقی صحابہؓ نے بلا مطالبہ دلیل ان اجتہادی فتاوٰی پر عمل کیا اسی کا نام تقلید ہے۔ ان مفتی صحابہؓ کے بارے میں شاہ ولی اﷲ ؓ فرماتے ہیں:۔
ثم انہم تفرقوا فی البلاد صار کل واحد مقتدی ناحیة منالنواحی
کہ صحابہ متفرّق شہروں میں پھیل گئے اور ہر علاقہ میں ایک ہی صحابی کی تقلید ہوتی تھی۔ ( الانصاف ص ۳)
مثلاً مکّہ میں حضرت ابن عبّاس کی، مدینہ میں حضرت زید بن ثابت، کوفہ میں حضرت عبد اﷲ بن مسعود ؓ، یمن میں حضرت معاذ اور بصرہ میں حضرت انس کی تقلید ہوتی تھی۔ پھر ان کے بعد تابعین کا دور آیا تو شاہ ولی اﷲمحدّث دہلوی فرماتے ہیں:۔
فعند ذالک صار لکل عالم من التابعین مدہب علی حیالہ فانتصب فی کل بلد امام
یعنی ہرتابعی عالم کا ایک مذہب قرار پایا اور ہر شہر میں ایک ایک امام ہوگیا۔ لوگ اس کی تقلیدکرتے۔(الانصاف ص ۶)
صدر الائمّہ مکّی فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے ہاں تشریف لے گئے تو خلیفہ نے پوچھا کہ آپ شہروں کے علماء کو جانتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں !! تو خلیفہ نے پوچھا اہلِ مدینہ کے فقیہ کون ہیں؟ فرمایا نافع، مکّہ میں عطاء،یمن میں یحییٰ بن کثیر، شام میں مکحول، عراق میں میموں بن مہران، خراسان میں ضحّاک، بصرہ میں حسن بصری، کوفہ میں ابراہیم نخعی،(مناقب موفق ص ۷) یعنی ہر علاقہ میں ایک ہی فقیہ کے فقہی فتاوی پر عمل درآمد ہوتا تھا۔ یہ واقعہ امام حاکم نے بھی معرفت علوم حدیث میں لکھا ہے۔ اس لیے امام غرالی ؒ فرماتے ہیں:
”تقلید پر سب صحابہ کا اجماع ہے کیونکہ صحابہ میں مفتی فتوٰی دیتاتھا اور ہر آدمی کو مجتہد بننے کےلئے نہیں کہتا تھا اور یہی تقلید ہے اور یہ عہد صحابہؓ میں تواتر کے ساتھ ثابت ہے“۔ ( المستصفی ج 2 ص385)
علامہ آمدی فرماتے ہیں صحابہ اور تابعین کے زمانے میں مجتہدین فتوٰی دیتے تھے مگر ساتھ دلیل بیان نہیں کرتے تھے اور نہ ہی لوگ دلیل کا مطالبہ کرتے تھے اور اس طرزِ عمل پر کسی نے انکار نہیں کیا، بس یہی اجماع ہے کہ عامی مجتہد کی تقلید کرے۔ شاہ ولی اﷲ ؒ شیخ عزالدین بن سلام ؒ سے نقل کرتے ہیں۔
انا الناس لم یزالوا عن زمن الصحابة ؓ الی ان ظہرت المذاہب الا ربعة یقلدون من اتفق من العلماءمن غیر نکیر میں ایع یعتبر انکارہ، ولو کان ذالک باطلا لا نکروہ (عقد الجید ص 36)
اور خود فرماتے ہیں:۔
فہذا کیف ینکرہ احد مع ان الاستفناءلم یزل بین المسلمین من عہد النبی ﷺ والا فرق بین ان یستفتی ہدا دائما ویستفتی ہذا حینا بعد ان یکون مجمعا علی مادکرناہ (عقد الجید ص39)
یعنی دور صحابہ ؓ وتابعین سے تقلید تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور اس دور میں ایک شخص بھی منکرِ تقلید نہ تھا چونکہ ان صحابہؓ اور تابعین ؒ کی مرتّب کی ہوئی کتابیں آج موجود نہیں جو متواتر ہوں۔ہاں ان کے مذاہب کو ائمّہ اربعہ نے مرتّب کردایا تو اب ان کے واسطہ سے ان کی تقلید ہو رہی ہے جیسے صحابہؓ و تابعین ؒ بھی یہی قران پاک تلاوت فرماتے تھے مگر اس وقت اس کا نام قراةِ حمزہ نہ تھا۔ صحابہؓ وتابعین ؒ بھی يہی احادیث مانتے تھے مگر رواہ البخاری اور رواہ مسلم نہیں کہتے تھے۔یہ سوال سائل کا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کیا دس قاریوں سے پہلے قرآن نہیں پڑھاجاتا تھا؟ یا صحابہؓ وتابعین ؒ میں نہ کسی نے بخاری پڑھی نہ مشکٰوة۔ کیا اس زمانہ میں حدیث کا ماننا اسلام میں ضروری نہ تھا؟
No comments:
Post a Comment