Tuesday 17 July 2018

آدابِ تبلیغ اور ضرورتِ تبلیغ

آدابِ تبلیغ اور ضرورتِ تبلیغ
آدابِ تبلیغ
”بُلا اپنے رب کی راہ پر پکی باتیں سمجھا کر اور نصیحت سنا کر بھلی کی طرح اور الزام دے ان کو جس طرح بہتر ہو۔تیر ارب ہی بہتر جانتا ہے ان کو جو بھول گیا اس کی راہ اور وہی بہتر جانتا ہے ان کو جو راہ پر ہیں اور اگر بدلہ لو تو بدلہ لواسی قدر جس قدر کہ تم کو تکلیف پہنچائی جائے اور اگر صبر ہو سکے اللہ ہی کی مدد سے اور ان پر غم نہ کھا اور تنگ مت ہو ان کے فریب سے، اللہ ساتھ ہے ان کے جو پرہیز گار ہیں اور جو نیکی کرتے ہیں“۔ (القرآن) 
خلاصہ تفسیر
ربط آیات: سابقہ آیات میں رسول الله ﷺ کی رسالت و نبوت کے اثبات سے مقصود یہ تھا کہ امت آپ ﷺ کے احکام کی تعمیل رسالت کے حقوق ادا کریں۔مذکورہ آیات میں خود رسول کریم ﷺ کو ادائے رسالت کے حقوق و آداب کی تعلیم دی ہے، جس کے عموم میں تمام مومنین شریک ہیں، مختصر تفسیر یہ ہے۔
آپ اپنے رب کی راہ (یعنی دین اسلام) کی طرف (لوگوں کو) حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ بلائیے۔ (حکمت سے وہ طریقہ دعوت مراد ہے جس میں مخاطب سے مراد یہ ہے کہ خیرخواہی ہمدردی کے جذبے سے بات کہی جائے اور اچھی نصیحت سے مراد یہ ہے کہ عنوان بھی نرم ہو،دل خراش توہین آمیر نہ ہو) اور ان کے ساتھ اچھے طریقہ سے بحث کیجیے۔(یعنی اگر مباحثہ کی نوبت آجائے تو وہ بھی شدت اور خشونت سے اور مخاطب پر الزام تراشی میں بے انصافی سے خالی ہونا چاہیے، بس اتنا کام آپ کا ہے، پھر اس تحقیق میں نہ پڑئیے کہ کس نے مانا، کس نے نہیں مانا، یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے، پس) آپ کا رب خوب جانتا ہے اس شخص کو بھی جو اس کے رستہ گم ہوگیا اور وہی راہ پر چلنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے اور اگر کبھی مخاطب علمی بحث و مباحثہ کی حد سے آگے بڑھ کر عملی جدال اور ہاتھ یا زبان سے ایذا، پہنچانے لگے اس میں آپ کو اور آپ کے متبعین کو بدلا لینا بھی جائز ہے اور صبر کرنا بھی) پس اگر پہلی صورت اختیار کرو، یعنی بدلا لینے لگو تو اتنا ہی بدلا لو جتنا تمہارے ساتھ برتاؤ کیا گیا ہے،اس سے زیادہ نہ کرو) اور اگر (دوسری صورت یعنی ایذاؤں پر) صبر کرو تو وہ (صبر کرنا) صبر کرنے والوں کے حق میں بہت ہی اچھی بات ہے (کہ مخالف پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے اور دیکھنے والوں پر بھی اور آخرت میں موجب اجر عظیم ہے) اور (صبر کرنا اگرچہ سبھی کے لیے بہتر ہے، مگر آپ کی عظمت شان کے لحاظ سے آپ کو خصوصیت کے ساتھ حکم ہے کہ آپ انتقام کی صورت اختیار نہ کریں، بلکہ آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر کرنا خدا ہی کی توفیق خاص سے ہے۔ (اس لیے آپ اطمینان رکھیں کہ صبر میں آپ کو دشواری نہ ہوگی)اور ان لوگوں کے (ایمان نہ لانے پر یا مسلمانوں کو ستانے پر) غم نہ کیجیے اور جو کچھ یہ تدبیریں کیا کرتے ہیں اس سے تنگ دل نہ ہو جائیے (ان کی مخالف تدبیروں سے آپ کا کوئی ضرر نہ ہوگا۔کیوں کہ آپ کو احسان اور تقویٰ کی صفات حاصل ہیں اور) اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔(یعنی ان کا مددگار ہوتا ہے) جو پرہیز گار ہوتے ہیں اور نیک کردار ہوتے ہیں۔
معارف ومسائل
اس آیت میں دعوت و تبلیغ کا مکمل نصاب، اس کے اصول اور آداب کی پوری تفصیل چند کلمات میں سموئی ہوئی ہے۔ تفسیر قرطبی میں ہے کہ حضرت حرم ابن حبان کی موت کا وقت آیا تو عزیزوں نے درخواست کی کہ ہمیں کچھ وصیت فرمائیے تو فرمایا کہ وصیت تو لوگ اموال کی کیا کرتے ہیں۔ وہ میرے پاس ہے نہیں ۔لیکن میں تم کو اللہ کی آیات خصوصاً سورہ نحل کی آخری آیتوں کی وصیت کرتا ہوں کہ ان پر مضبوطی سے قائم رہیں۔یہ آیات وہی ہیں جو اوپر مذکور ہوئیں۔
دعوت کے لفظی معنی بلانے کے ہیں۔انبیاء علیہم السلام کا پہلا فرض منصبی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے، پھر تمام تعلیمات نبوت و رسالت اس دعوت کی تشریحات ہیں، قرآن میں رسول اللہ کی خاص صفت داعی الی اللہ ہونا ہے۔
﴿وداعیاًالی الله باذنہ و سراجاً منیرا﴾(احزاب:46)
﴿ویاقومنا اجیبواداعی اللہ﴾(احقاف:31)
اُمت پر بھی آپ کے نقشِ قدم پر دعوت الی اللہ کو فرض کیا گیا ہے۔ سورہ آل عمرانِ میں ارشاد ہے:
﴿ولتکن منکم اُمة یدعون الی الخیر یامرون بالمعروف وینہون عن المنکر﴾(104)
تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونا چاہیے جو لوگوں کو خیر کی طرف دعوت (یعنی) نیک کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے روکیں۔
اور ایک آیت میں ارشاد ہے۔
﴿ومن احسن قولاممن دعا الی اللہ﴾․
گفتار کے اعتبار سے اس شخص سے اچھا کون ہوسکتا ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا؟
تعبیر میں کبھی اس لفظ کو دعوت الی اللہ کا عنوان دیا جاتا ہے اور کبھی دعوت الی الخیر کا اور کبھی دعوت الی سبیل اللہ کا۔حاصل سب کا ایک ہے، کیوں کہ اللہ کی طرف بلانے سے اس کے دین اور صراطِ مستقیم ہی کی طرف بلانا مقصود ہے۔ الی سبیل ربک اس میں اللہ جل شانہ کی خاص صفت ”رب“اور پھر اس کی نبی کریم ﷺ کی طرف اضافت میں اشارہ ہے کہ”دعوت“کا کام صفت ربوبیت اور تربیت سے تعلق رکھتا ہے ۔جس طرح حق تعالیٰ جل شانہ نے آپ کی تربیت فرمائی، آپ کو بھی تربیت کے انداز سے دعوت دینا چاہیے۔ جس میں مخاطب کے حالات کی رعایت کر کے وہ طرز اختیار کیا جائے کہ مخاطب پر بارنہ ہو اور اس کی تاثیر زیادہ سے زیادہ ہو۔خود لفظ دعوت بھی اس مفہوم کو ادا کرتا ہے کہ پیغمبر کا کا م صرف اللہ کے احکام پہنچا دینا اور سنا دینا نہیں، بلکہ لوگوں کو ان کی تعمیل کی طرف دعوت دینا ہے اورظاہر ہے کہ کسی کو دعوت دینے والا اس کے ساتھ ایسا خطاب نہیں کیا کرتا جس سے مخاطب کو وحشت ونفرت ہو۔یا جس میں اس کے ساتھ استہزاوتمسخر کیا گیا ہو۔
بالحکمة: لفظ حکمت قرآن کریم میں بہت سے معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔اس جگہ بعض ائمہ تفسیر نے حکمت سے قرآن، بعض نے قرآن و سنت، ،بعض نے حجة قطعیہ قرار دیا ہے اور روح المعانی نے بحوالہ بحر محیط حکمت کی تفسیر یہ کی ہے۔
انہا الکلام الصواب الواقع من النفس اجمل موقع․(روح)
یعنی حکمت اس درست کلام کا نام ہے جو انسان کے دل میں اتر جائے۔
اس تفسیرمیں تمام اقوال جمع ہوجاتے ہیں اور صاحبِ روح البیان نے بھی تقریباً یہی مطلب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ”حکمت سے مراد وہ بصیرت ہے جس کے ذریعہ انسان مقتضیات احوال کو معلوم کر کے اس کے مناسب کلام کرے، وقت اور موقع ایسا تلاش کرے کہ مخاطب پر بار نہ ہو۔نرمی کی جگہ نرمی اور سختی کی جگہ سختی اختیار کرے اور جہاں یہ سمجھے کہ صراحةً کہنے میں مخاطب کو شرمندگی ہوگی،وہاں اشارے سے کلام کرے۔یا کوئی ایسا عنوان اختیار کرے کہ مخاطب کو نہ شرمندگی ہو اور نہ اس کے دل میں اپنے خیال پر جمنے کا تعصب پیدا ہو۔
الموعظة: موعظت اور وعظ کے لغوی معنی یہ ہیں کہ کسی خیر خواہی کی بات کو ایسی طرح کہا جائے کہ اس سے مخاطب کا دل قبولیت کے لیے نرم ہوجائے۔مثلا اس کے ساتھ قبول کرنے کے ثواب و فوائد اور نہ کرنے کے عذاب و مفاسد ذکر کیے جائیں۔ (قاموس و مفردات راغب)
الحسنة: کے معنی یہ ہیں کہ بیان اور عنوان بھی ایسا ہو جس سے مخاطب کا قلب مطمئن ہو، اس کے شکوک و شبہات دور ہوں اور مخاطب یہ محسوس کرلے کہ آپ کی اس میں کوئی غرض نہیں ۔صرف اس کی خیر خواہی کے لیے کہہ رہے ہیں ۔
موعظت کے لفظ سے خیر خواہی کی بات موثر انداز میں کہناتو واضح ہو گیا تھا، مگر خیر خواہی کی بات بعض اوقات دلخراش عنوان سے یا اس طرح بھی کہی جاتی ہے جس سے مخاطب اپنی اہانت محسوس کرے۔ (روح المعانی)اس طریقہ کو چھوڑنے کے لیے لفظ حسنہ کا اضافہ کردیا گیا۔
وجادلھم باللتی ہی احسن لفظ جادل سے مشتق ہے۔ اس جگہ مجادلہ سے مرادبحث و مناظرہ ہے اور باللتی ہی احسن سے مراد یہ ہے کہ اگر دعوت میں کہیں بحث و مناظرہ کی ضرورت پیش آجائے تو وہ مباحثہ بھی اچھے طریقے سے ہونا چاہیے۔روح المعانی میں ہے کہ اچھے طریقہ سے یہ مراد ہے کہ گفتگو میں لطف اور نرمی اختیار کی جائے۔ دلائل ایسے پیش کیے جائیں جو مشہور معروف ہوں ،تا کہ مخاطب کے شکوک دور ہوں اور وہ ہٹ دھرمی کے راستہ پر نہ پڑ جائے اور قرآن کریم کی دوسری آیات اس پر شاہد ہیں کہ یہ احسان فی المجادلہ صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ۔اہل کتاب کے بارے میں تو خصوصیت کے ساتھ قرآن کا ارشاد ہے: ولا تجادلوا اہل الکتاب الا باللتی ہی احسن اور دوسری آیات میں حضرت موسیٰ و ہارون علیہم السلام کو قولالہ قولالینا کی ہدایت دے کر یہ بھی بتلا دیا فرعون سے سرکش کافر کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنا ہے۔
دعوت کے اصول و آداب
آیت مذکورہ میں دعوت کے لیے تین چیزوں کا ذکر ہے، اول حکمت۔دوسرے موعظت حسنہ۔ تیسرا مجادلہ باللتی ہی احسن۔ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ تین چیزیں مخاطبین کی تین قسموں کی بنا پر ہیں ۔دعوت بالحکمة اہل علم و فہم کے لیے۔دعوت بالموعظت عوام کے لیے۔مجادلہ ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں شکو ک و شبہات ہوں۔یا جو عناد اور ہٹ دھری کے سبب بات ماننے سے منکر ہوں۔
سیدی حضرت حکیم الاُمت تھانوی نے بیان القرآن میں فرمایا کہ ان تین چیزوں کے مخاطب الگ الگ تین قسم کی جماعتیں ہونا سباق آیت کے لحاظ سے بعید معلوم ہوتا ہے ۔انتہی۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ آداب دعوت ہر ایک کے لیے استعمال کرنا ہے کہ دعوت میں سب سے پہلے حکمت سے مخاطب کے حالات کا جائز ہ لے کر اس کے مناسب کلام تجویز کرنا ہے ۔پھر اس کلام میں خیر خواہی و ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ ایسے شوابد اور دلائل سامنے لانا ہے جس سے مخاطب مطمئن ہو سکے اور طرز بیان و کلام ایسا مشفقانہ اور نرم رکھے کہ مخاطب کو اس کا یقین ہو جائے کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے شرمندہ کرنا یا میری حیثیت کو مجروح کرنا ان کا مقصد نہیں۔
البتہ صاحب روح المعانی نے اس جگہ ایک نہایت لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ آیت کے نسق سے معلوم ہوتا ہے کہ اصولِ دعوت اصل میں دو ہی چیزیں ہیں۔ حکمت اور موعظت۔ تیسری چیز اصول مجادلہ اصول دعوت میں داخل نہیں۔ ہاں! طریق دعوت میں کبھی اس کی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ صاحب روح المعانی کا استدلال اس پر یہ ہے کہ اگر یہ تینوں چیزیں اصول دعوت ہوتیں تو مقتضائے مقام یہ تھا کہ تینوں چیزوں کو عطف کے ساتھ اس طرح بیان کیا جاتا بالحکمة و المواعظة الحسنہ والجدال الاحسن مگر قرآن کریم نے حکمت و موعظت کو تو عظف کے ساتھ ایک ہی نسق میں بیان فرمایا اور مجادلہ کے لیے الگ جملہ جادلہم باللتی ہی احسن اختیار کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجادلہ فی العلم دراصل دعوت الی اللہ کا رکن یا شرط نہیں، بلکہ طریق دعوت میں لوگوں کی ایذاؤں پر صبر کرنا ناگزیر ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اصولِ دعوت دو چیزیں ہیں، حکمت اور موعظت، جن سے کوئی دعوت خالی نہیں ہونی چاہیے ،خواہ علماء و خواص کو ہو یا عوام الناس کو البتہ دعوت میں کسی وقت ایسے لوگوں سے بھی سابقہ پڑ جاتا ہے جو شکوک واوہام میں مبتلا اور داعی کے ساتھ بحث و مباحثہ پر آمادہ ہیں ۔تو ایسی حالت میں مجادلہ کی تعلیم دی گئی ،مگر اس کے ساتھ باللتی ہی احسن کی قید لگا کر بتلا دیا کہ جو مجادلہ اس شرط سے خالی ہو اس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں۔
دعوت الی اللہ کے پیغمبر انہ آداب
دعوت الی اللہ دراصل انبیاء علیہم السلام کا منصب ہے ۔امت کے علماء اس منصب کو ان کا نائب ہونے کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں ۔تو لازم یہ ہے کہ اس کے آداب اور طریقے بھی انہیں سے سیکھیں، جو دعوت اُن طریقوں پر نہ رہے وہ دعوت کے بجائے عداوت اور جنگ و جدل کا موجب ہو جاتی ہے، دعوت پیغمبرانہ کے اصول میں جو ہدایت قرآن کریم میں حضرت موسیٰ و ہارون کے لیے نقل کی گئی ہے۔ ﴿قولا لہ قولالینا لعلہ یتذکراو یخشی﴾۔ یعنی فرعون سے نرم بات کرو، شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے۔
یہ ہر داعی حق کو ہر وقت سامنے رکھنا ضروری ہے کہ فرعون جیسا سرکش کا فر جس کی موت بھی علم الہٰی میں کفر ہی پر ہونے والی تھی، اس کی طرف بھی جب اللہ تعالیٰ اپنے داعی کو بھیجتے ہیں تو نرم گفتار کی ہدایت کے ساتھ بھیجتے ہیں ۔آج ہم جن لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ فرعون سے زیادہ گم راہ نہیں اور ہم میں سے کوئی موسیٰ و ہارون علیہم السلام کے برابر ہادی و داعی نہیں تو جو حق اللہ نے اپنے دونوں پیغمبروں کو نہیں دیا کہ مخاطب سے سخت کلامی کریں، اس پر فقرے کسیں، اس کی توہین کریں،وہ حق ہمیں کہاں سے حاصل ہوگیا؟
قرآن کریم انبیاء علیہم السلام کی دعوت و تبلیغ اور کفار کے مجادلات سے بھرا ہوا ہے، اس میں کہیں نظر نہیں آتا کہ کسی اللہ کے رسول نے حق کے خلاف ان پر طعنہ زنی کرنے والوں کے جواب میں کوئی ثقیل کلمہ بھی بولا ہو۔اس کی چند مثالیں دیکھیے۔
سورہٴ اعراف کے ساتویں رکوع میں آیات 59 سے 67 تک دو پیغمبر حضرت نوح اور حضرت ہود علیہم السلام کے ساتھ ان کی قوم کے مجادلہ اور سخت سست الزامات کے جواب میں ان بزرگو ں کے کلمات قابل ملاحظہ ہیں۔
حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے وہ اولوالعزم پیغمبر ہیں جن کی طویل عمر دنیا میں مشہور ہے، ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو دعوت و تبلیغ، اصلاح وار شاد میں دن رات مشغول رہے ۔مگر اس بدبخت قوم میں سے معدودے چند کے علاوہ کسی نے ان کی بات نہ مانی اور تو اور خود ان کا ایک لڑکا اور بیوی کافروں کے ساتھ لگے رہے۔ان کی بات نہ مانی، ان کی جگہ آج کا کوئی مدعی دعوت و اصلاح ہوتا تو اس قوم کے ساتھ اس کا لب و لہجہ کیا ہوتا؟ اندازہ لگائیے، پھر دیکھیے کہ ان کی تمام ہم دردی و خیر خواہی و دعوت کے جواب میں قوم نے کہا: ہم تو آپ کو کھلی ہوئی گم راہی میں مبتلا پاتے ہیں۔ (اعراف)
ادھر سے اللہ کے پیغمبر بجائے، اس کے اس سرکش قوم کی گم راہیوں بدکاریوں کا پر دہ چاک کرتے، جواب میں کیا فرماتے ہیں۔
”میرے بھائیو!مجھ میں کوئی گم راہی نہیں۔ میں تو رب العالمین کا رسول اور قاصد ہوں (تمہارے فائدہ) کی باتیں بتلاتا ہوں“۔
ان کے بعد آنے والے دوسرے اللہ کے رسول حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی قوم نے معجزات دیکھنے کے باوجود ازراہ عناد کہا کہ آپ نے اپنے دعوے پر کوئی دلیل پیش نہیں کی اور ہم آپ کے کہنے سے اپنے معبو دوں (بتوں) کو چھوڑنے والے نہیں ۔ہم تو یہی کہتے ہیں کہ تم نے جو ہمارے معبودوں کی شان میں بے ادبی کی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم جنون میں مبتلا ہوگئے ہو۔حضرت ہود علیہ السلام نے یہ سب سن کر کیا جواب دیا ؟ سنیے:
”میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان بتوں سے بری اور بیزار ہوں، جن کوتم اللہ کا شریک مانتے ہو“۔ (سورہ ہود)
اور سورہٴ اعراف میں ہے کہ ان کی قوم نے ان کو کہا۔”ہم تو آپ کوبے وقوفی میں مبتلا سمجھتے ہیں اور ہمارا خیال یہ ہے کہ آپ جھوٹ بولنے والوں میں سے ہیں“۔
قوم کے اس دل آزار خطاب کے جواب میں اللہ کے رسول ہود علیہ السلام نہ ان پر کوئی فقرہ کستے ہیں اور نہ ان کی بے راہی اور کذب وافتراعلی اللہ کی کوئی بات کہتے ہیں، جواب کیا ہے؟ صرف یہ کہ:
”اے میری برادری کے لوگو،مجھ میں کوئی بے وقوفی یا کم عقلی نہیں، میں تو رب العالمین کا رسول ہوں“۔ (اعراف)
حضرت شعیب علیہ السلام نے قوم کو حسب دستورِ انبیاء اللہ کی طرف دعوت دی اور ان میں جو بڑا عیب ناپ تول میں کمی کرنے کا تھا اس سے باز آنے کی ہدایت فرمائی تو ان کی قوم نے تمسخر کیا اور تو ہین آمیز خطاب کیا۔
”اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور یہ جن اموال کے ہم مالک ہیں ان میں اپنی مرضی کے موافق جو چاہیں کریں ؟واقعی آپ ہیں بڑے عقل منددین پر چلنے والے“۔ (القرآن)
انہوں نے ایک تو یہ طعنہ دیا کہ تم جو نماز پڑھتے ہو یہی تمہیں بے وقوفی کے کام سکھاتی ہے۔دوسرے کہ مال ہمارے ہیں، ان کی خرید و فروخت کے معاملات میں تمہارا یا خدا کا کیا دخل ہے؟ ہم جس طرح چاہیں ان میں تصرف کا حق رکھتے ہیں۔ تیسراجملہ تمسخر و استہزا کا یہ کہا کہ آپ ہیں بڑے عقل مند بہت دین پر چلنے والے ۔ معلوم ہوا کہ یہ لادینی معاشیات کے پجاری صرف آج نہیں پیدا ہوئے، ان کے بھی کچھ اسلاف ہیں، جن کا نظریہ وہی تھا جو آج کے بعض نام کے مسلمان کہہ رہے ہیں، ہم مسلمان ہیں، اسلام کو مانتے ہیں، مگر ہماری معاشیات سوشل ازم سے وابستہ ہے۔ 
بہر حال اس ظالم قوم کے اس مسخرے پن اور دل آزار گفتگو کا جواب اللہ کے رسول کیا دیتے ہیں، سنیے:
اے میری قوم! بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر قائم ہوں اور اس نے مجھ کو اپنی طرف سے عمدہ دولت، یعنی رسالت دی ہو تو پھر میں کیسے اس کی تبلیغ نہ کروں؟ اور میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں۔ جہاں تک میری قدرت میں ہے اور مجھ کو جو کچھ اصلاح اور عمل کی توفیق ہوجاتی ہے، وہ صرف اللہ ہی کی مدد سے ہے۔میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہو ں اور تمام امور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (ہود)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجنے کے وقت جو نرم گفتار کی ہدایت منجانب اللہ دی گئی تھی، اس کی پوری تعمیل کرنے کے باوجود فرعون کا خطاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ تھا۔
”فرعون کہنے لگا (اہا! تم ہو؟) کیا ہم نے تم کو بچپن میں پرورش نہیں کیا؟ اور تم اس عمر میں برسوں ہمارے پاس رہا سہا کیے اور تم نے اپنی وہ حرکت بھی کی تھی (یعنی قبطی کو قتل کیا تھا ) اور بڑے ناشکرے ہو۔ (سورة شعراء)
اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اپنا یہ احسان بھی جتلایا کہ بچپن میں ہم نے تجھے پالا؟ پھر یہ احسان بھی جتلایا کہ بڑے ہونے کے بعد بھی کافی عرصہ تم ہمارے پاس رہے۔پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے جو ایک قبطی بغیر ارادہٴ قتل کے مارا گیا تھا اس پر غصہ اور ناراضی کا اظہار کرکے یہ بھی کہا کہ تم کافروں میں سے ہوگئے۔ یہاں کافروں میں سے ہونے کے لغوی معنی بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی ناشکری کرنے والے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے تو تم پر احسانات کیے اور تم نے ہمارے ایک آدمی کو مارڈالا جو احسان کی ناشکری تھی اور اصطلاحی معنی بھی ہو سکتے ہیں، کیوں فرعون خود خدائی کا دعوے دار تھا تو جو اس کی خدائی کا منکرہو وہ کافر ہوا۔
اب اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جواب سنیے، جو پیغمبرانہ اخلاق کا شاہ کار ہے کہ اس میں سب سے پہلے اس کمزوری و کوتاہی کا اعتراف کرلیا جو ان سے سرزد ہوگئی تھی ۔یعنی اسرائیلی آدمی سے لڑنے والے قبطی کو ہٹانے کے لیے ایک مُکہ اس کے مارا تھا، جس سے وہ مرگیا تو گویہ قتل عمداً ارادہً نہیں تھا، اس لیے پہلے اعتراف فرمایا:
”یعنی میں نے یہ کام اس وقت کیا تھا جب میں ناواقف تھا“۔ (القرآن)
مراد یہ ہے کہ یہ فعل عطائے نبوت سے پہلے سرزد ہوگیا تھا، جب کہ مجھے اس بارے میں اللہ کا حکم معلوم نہ تھا، اس کے بعد فرمایا:
”پھر مجھ کو ڈر لگا تو میں تمہارے یہاں سے مفرور ہوگیا، پھر مجھ کو میرے رب نے دانش مندی عطا فرمائی اور مجھ کو اپنے پیغمبروں میں شامل کرایا“۔ (القرآن)
پھر اس کے احسان جتلانے کا جواب یہ دیا کہ تمہارا یہ احسان جتانا صحیح نہیں ،کیوں کہ میری پرورش کا معاملہ تمہارے ہی ظلم و عدوان کا نتیجہ تھا کہ تم نے اسرائیلی بچوں کو قتل کاحکم دے رکھا تھا ،اس لیے والدہ نے مجبور ہو کر مجھے دریا میں ڈالا اور تمہارے گھر تک پہنچنے کی نوبت آئی۔فرمایا:
(رہا احسان جتلانا پرورش کا) سو یہ وہ نعمت ہے جس کا تو مجھ پر احسان رکھتا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو سخت ذلت میں ڈال رکھا تھا۔ (القرآن)
اس کے بعد فرعون نے جب سوال کیا ﴿وما رب العٰلمین﴾ یعنی ﴿رب العالمین﴾ کون اور کیا ہے؟ تو جواب میں فرمایا کہ وہ رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس سب کا ۔اس پر فرعون نے بطور استہزا کے حاظر ین سے کہا ﴿الا تسمعون﴾ یعنی تم سن رہے ہو ،یہ کیسی بے عقلی کی باتیں کہہ رہے ہیں ۔اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ﴿ربکم ورب آباءِ کم الاولین﴾ یعنی تمہارے اور تمہارے باپ دادوں کا بھی وہی رب پروردگار ہے۔اس پر فرعون نے جھلا کر کہا :﴿ان رسولکم الذی أرسل الیکم لمجنون﴾ یعنی یہ جو تمہاری طرف اللہ کے رسول ہونے کا مدعی ہے وہ دیوانہ ہے۔ مجنون دیوانہ کا خطاب د ینے پر بھی موسیٰ علیہ السلام بجائے اس کے کہ ان کا دیوانہ ہونا اور اپنا عاقل ہونا ثابت کرتے، اس طرف کوئی التفات ہی نہیں کیا، بلکہ اللہ رب العالمین کی ایک اور صفت بیان فرمادی۔
”وہ رب ہے مشرق و مغرب کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے۔ اگر تم کو عقل ہو ۔“ (شعرأء)
یہ ایک طویل مکالمہ ہے، جو فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے درمیان ہو رہا ہے ،جو سورہ شعراء کے تین رکوع میں بیان ہوا ہے۔اللہ کے مقبول رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس مکالمہ کو اوّل سے آخر تک دیکھیے نہ کہیں جذبات کا اظہار ہے ،نہ اس کی بدگوئی کا جواب ہے،نہ اس کی سخت کلامی کے جواب میں کوئی سخت کلمہ ہے،بلکہ مسلسل اللہ جل شانہ کی صفات کمال کا بیان اور تبلیغ کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ مختصر سا نمونہ ہے انبیاء علیہم السلام کے مجادلات کا، جو اپنی معاند اور ضدی قوم کے مقابلہ میں کیے گئے ہیں اور مجادلہ باللتی ہی احسن جو قرآن کی تعلیم ہے اس کی عملی تشریح ہے، مجادلات کے علاوہ دعوت و تبلیغ میں ہر مخاطب اور ہر موقع کے مناسب کلام کرنے میں حکیمانہ اصول اور عنوان و تعبیر میں حکمت و مصلحت کی رعائتیں بھی جو انبیاء علیہم السلام نے اختیار فرمائیں اور دعوت الی اللہ کو مقبول و موثر اور پائیدار بنانے کے لیے جو طرز عمل اختیار فرمایا ہے وہی در اصل دعوت کی روح ہے، اس کی تفصیلات توتمام تعلیمات نبوی علیہ السلام میں پھیلی ہوئی ہیں۔نمونہ کے طور پر چند چیزیں دیکھیے ۔رسول کریم ﷺ کو دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت میں اس کا بڑا لحاظ رہتا تھا کہ مخاطب پر بار نہ ہونے پائے۔
صحابہ کرام جیسے عشاق رسول، جن سے کسی وقت بھی اس کا احتمال نہ تھا کہ وہ آپ کی باتیں سننے سے اکتا جائیں گے ،ان کے لیے بھی آپ علیہ السلام کی عادت یہ تھی کہ وعظ و نصیحت روزانہ نہیں بلکہ ہفتہ کے بعض دنوں میں فرماتے تھے، تا کہ لوگوں کے کاروبار کا حرج اور ان کی طبیعت پر بار نہ ہو۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ ہفتہ کے بعض ایام ہی میں وعظ فرماتے تھے تاکہ ہم اکتا نہ جائیں اور دوسروں کو بھی آپ کی طرف سے یہی ہدایت تھی۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
لوگوں پر آسانی کرو، دشواری نہ پیدا کرو اور ان کو اللہ کی رحمت کی خوش خبری سناؤ ،مایوس یا متنفر نہ کرو۔(بخاری)
حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ تمہیں چاہیے کہ ربانی، حکماء،علماء،فقہاء بنو۔صحیح بخاری میں یہ قول نقل کر کے لفظ ربانی کی یہ تفسیر فرمائی کہ جوشخص دعوت و تبلیغ اور تعلیم میں تربیت کے اصول کو ملحوظ رکھ کر پہلے آسان آسان باتیں بتلائے، جب لوگ اس کے عادی ہوجائیں تو اس وقت دوسرے احکام بتلائے، جو ابتدائی مرحلے میں مشکل ہوئے۔
ضرورتِ تبلیغ
انسان بہت ہی زیادہ خطا کار اوربھول جانے والا ہے ، نفس اسے برائ کا حکم دیتا رہتا ہے اورشیطان اسے معاصی اورگناہوں سے آلودہ کرکے خراب کرتا ہے ، اورجب جسموں کوبیماری لگتی اوراسے کئ قسم کی علتیں اورآفات آتی ہیں تواس کی وجہ سے طبیب اورڈاکٹر بھی ہونا ضروری ہے اوراس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جوکہ اس کے لیے مناسب دوائ اورعلاج تجویز کرتا ہے تاکہ جسم اپنے اعتدال پرواپس آسکے تونفوس کی بھی یہی حالت ہے ۔
اوردلوں کوشبھات اورشہوات کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں تووہ اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاء کا ارتکاب کرتا ہوا کبھی توکسی کا ناحق خون بہاتا اورکبھی زناکاری کا مرتکب ہوتا اورکبھی شراب نوشی کا مرتکب ٹھرتا ہے ، اوربعض اوقات لوگوں پرظلم کرتاہوا باطل اورغلط طریقے سے ان کے اموال ہڑپ کرتا ہے اوراللہ تعالی کے راستے سےروکتا اوراللہ تبارک وتعالی کے ساتھ کفرجیسے شنیع جرم کا مرتکب ہوتا ہے ۔
امراض قلب اوردل کی بیماریاں جسمانی امراض وبیماریوں سے زيادہ خطرناک ہوتی ہيں لھذا اس کے لیے کسی ایسے ماھر طبیب وڈاکٹر کی ضرورت ہے جواس کا علاج کرے اورامراض قلوب کی کثرت اوراس سے پیدا ہونے والے شرو فساد کی بہتات کی بنا پرہی اللہ تعالی نے مومنوں کواس کا مکلف ٹھرایاہے کہ وہ ان بیماریوں کا علاج امربالمعروف وارنہی عن المنکرکے ساتھ کریں فرمان باری تعالی ہے :
{تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہيۓ جوبھلائ کی طرف بلاۓ اورنیک کاموں کا حکم کرے اوربرے کاموں سے روکے ، اوریہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں} آل عمران ( 104 ) ۔
امربالمعروف اورنہی عن المنکر ایک ایسا کام ہے جواسلامی امورمیں سے سب سے اعلی واشرف ہے بلکہ یہ کام توانبیاء رسل کا وظیفہ اورکام تھا جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا ہے :
{ہم نے انہیں رسول بنایا ہے خوشخبریاں سنانے والے اورآگاہ کرنے والے تاکہ رسول بھیجنے کے بعد اللہ تعالی پرلوگوں کی کوئ حجت اورالزام باقی نہ رہ جاۓ} النساء ( 165 ) ۔
اللہ تعالی نے امت اسلامیہ کویہ کام سرانجام دینے کے لیے سب سے بہتراوراچھی امت بنایا ہے جوکہ لوگوں کواس کا حکم دیتی ہے جس طرح کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا ہے:
{تم ایک بہترین امت ہوجولوگوں کےلیے پیدا کی گئ ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اوربری باتوں سے روکتے ہو اوراللہ تعالی پرایمان رکھتے ہو} آل عمران (110)۔
جب امت امربالمعروف اورنہی عن المنکرکے عظیم شعارکومعطل کرکے رکھ دے امت میں ظلم وفساد پھیل جاتا اوروہ امت اللہ تعالی کی لعنت کی مستحق ٹھرتی ہے ۔
اللہ تعالی نے یقینی طورپر ان بنی اسرائیل کے کافروں پرلعنت کی جنہوں نے اس عظیم شعارکومعطل کرکے رکھ دیا تھا ، اللہ تعالی نےاسی کی اشارہ کرتے ہوۓ کچھ اس طرح فرمایا ہے:
{ بنی اسرائیل کے کافروں پرداود (علیہ السلام) اورعیسی بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئ اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے اورحد سے آگے بڑھ جاتے تھے، آپس میں ایک دوسرے کوبرے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتےنہیں تھے جوکچھ بھی یہ کرتے تھے یقینا وہ بہت برا ہے} المائدۃ ( 78-79 )
امربالمعروف اورنہی عن المنکر اصول دین میں سے ایک اصل ہے اوران دونوں کا قیام جھاد فی سبیل اللہ ہے جو کہ تکالیف پر مشقت اورصبرکا محتاج ہے ، جیسا کہ لقمان نے اپنے بیٹے کوکہا:
{اے میرے پیارے بیٹے! نمازقائم کرتے رہنا اوراچھے کاموں کی نصیحت اوربرے کاموں سےروکتے رہنا اورتم پرجومصیبت آجاۓ اس پرصبرکرنا یقین جانو کہ یہ بڑے تاکید کاموں میں سے ہے} لقمان ( 17 ) ۔
امربالمعروف اورنہی عن المنکر ایک عظیم کام اورپیغام ہے اس لیے اس کام کوکرنے والے کے ليے ضروری ہے کہ وہ اخلاق حسنہ سے آراستہ اورمقاصد حسنہ پرعمل پیرا ہو اورلوگوں کو حکمت اورموعظہ حسنہ سے دعوت دے اوران کے ساتھ نرم برتا‎ؤکرے اورمہربانی سے پیش آۓ ہوسکتا ہے اللہ تعالی جسے چاہے اس کے ہاتھ پرھدایت نصیب فرماۓ ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
{ اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کوحکمت اوراچھی نصیحت کے ساتھ بلایۓ اوران سے بہتر اندازمیں گفتگو کیجۓ یقینا آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کوبی بخوبی جانتا ہے اورراہ راست پرچلنے والوں سے بھی پورا پورا واقف ہے } النحل (125) ۔
جوامت اسلامی شعائر پرعمل پیرا ہوتی اورامربالمروف اورنہی عن المنکرکا کام کرتی ہے وہ دنیاوآخرت کی کامیابی وسعادت حاصل کرتی ہے اوراس پراللہ تعالی کی مدد ونصرت اورتائيد کا نزول ہوتا ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے:
{جواللہ تعالی کی مدد کرے گا اللہ تعالی بھی ضرور اس کی مدد کرگا ، بلاشبہ اللہ تعالی بڑی قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے ، یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جمادیں تویہ پوری پابندی سے نمازقائم کریں اورزکاۃ ادا کریں اوراچھے کاموں کا حکم اوربرے کاموں سے روکیں ، تمام کاموں کاانجام اللہ تعالی کے اختیارمیں ہے} الحج ( 40 - 41 ) ۔
امربالمعروف اورنہی عن المنکرایک ایسا پیغام ہے جوقیامت تک کبھی بھی منقطع نہیں ہوگا، اوریہ پوری امت پرواجب ہے اور رعایا میں سے ہرایک مرد وعورت پراوراسی طرح حکام پربھی واجب ہے کہ وہ امربالمروف اورنہی عن المنکرکا کام اپنے حسب حال کريں نبی ﷺ نے کچھ اس طرح فرمایا ہے :
(تم میں سےجوبھی کوئ برائ دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہاتھ سے روکے اگروہ ہاتھ سے روکنے کی استطاعت نہیں رکھتا تواپنی زبان سے اوراگراس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تواپنے دل کے ساتھ روکے ، اوریہ ایمان کا کمزورترین حصہ ہے) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 49 ) ۔
اورامت اسلامیہ ایک ہی امت ہے اگراس میں فساد پھیل جاۓ اوراس کے حالات خراب ہوجائيں توسب مسلمانوں پراصلاح کا کام کرنا واجب ہوجاتا ہے ، اوراسی طرح منکرات کاخاتمہ اورامربالمعروف اورنہی عن المنکر اورہرایک کونصیحت کرنے کی سعی کرنا واجب ہوجاتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
(دین نصیحت وخیرخواہی کا نام ہے، (صحابہ کہتے ہیں) ہم نے عرض کیا اے اللہ تعالی کے رسول کس کے لیے؟
تو نبی ﷺ فرمانے لگے : اللہ تعالی اوراس کی کتاب اوراس کے رسول، اور مسلمانوں کے اماموں اورعام مسلمانوں کے لیے) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 95) ۔
جب مسلمان کسی دوسرے کوکسی کام کا حکم دے تواس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے اس پرعمل کرے اوراگر لوگوں کو کسی چيزسے منع کرے تواسے اس بات کی کوشش کرنی چاہۓ کہ وہ سب لوگوں سے زیادہ اس چيز سے دور رہے ، اس کی مخالفت کرنے والے کواللہ تعالی نے بہت سخت وعید سنائ ہے ، فرمان باری تعالی ہے:
{اے ایمان والو ! تم وہ بات کیوں کہتے ہوجوخود نہیں کرتے، تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالی کوسخت ناپسند ہے} الصف ( 2 - 3 ) ۔
انسان جتنا بھی صحیح اورسیدھی راہ پرہووہ پھر بھی کتاب وسنت کے مطابق نصیحت وراہنمائ اوریاددھانی کا محتاج ہے ، اللہ تبارک وتعالی نے اپنے رسول ﷺ کوجوکہ افضل الخلق اوراکمل الخلق ہيں کچھ اس طرح فرمایا ہے :
{اے نبی (ﷺ) اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا اورکافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آجانا اللہ تعالی بڑے علم والا اوربڑي حکمت والا ہے } الاحزاب ( 1 ) ۔
اس لیے ہم سب پریہ ضروری ہے کہ ہم امربالمعروف اورنہی عن المنکرکا کام کرتے رہیں تاکہ ہم اللہ تعالی کی رضامندی اورجنت حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں ۔

******************************************
ایک مرتبہ مشہور صحابی حضرت ابوالدرداءؓ کا گزر ایک ایسے شخص سے ہوا جس نے کوئی گناہ کیا تھا، اور لوگ اسے برا بھلا کہہ رہے تھے، لوگوں کا یہ طرزعمل آپ کو پسند نہ آیا، آپ نے انہیں نہایت حکیمانہ انداز میں سمجھایا، آپ نے فرمایا: أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَجَدْتُمُوهُ فِي قَلِيبٍ أَلَمْ تَكُونُوا مُسْتخْرِجِيهِ ؟ اگرتم اُسے کسی گڈھے میں گرا ہوا پاتے تو کیا تم اُسے گڈھے سے نکالتے نہیں؟
لوگوں نے کہا: ہاں ضرور، تب آپ نے فرمایا: فَلا تَسُبُّوا أَخَاكُمْ ، وَاحْمَدُوا اللَّهَ الَّذِي عَافَاكُمْ“ تو پھر اپنے بھائی کو برا بھلا مت کہو اور اللہ کا شکر ادا کرو کہ اُس نے تجھے اس بُرائی سے محفوظ رکھا” لوگوں نے کہا:  کیا ہم اسے مبغوض نہ سمجھیں؟ آپ نے فرمایا: إِنَّمَا أَبْغَضُ عَمَلَهُ، فَإِذَا تَرَكَهُ فَهُوَ أَخِي “ میں اس کے عمل کو مبغوض سمجھتا ہوں‘‘ اُسے نہیں’’اگر وہ اپنے عمل سے باز آجائے تو وہ میرا بھائی ہے”۔
[أخرجه ابن عساكر (47/177)، جامع الاحادیث:41517، كنز العمال 8901]
دیکھا آپ نے! اس واقعے میں حضرت ابو الدردءؓ نے ہمیں نہایت پتے کی بات بتائی ہے، وہ یہ کہ جب کبھی کسی سے کوئی خلاف شرع کام سرزد ہوتو اُسے ہم طعن وتشنیع کا نشانہ نہ بتائیں، اُسے سخت سست نہ کہیں، بلکہ ہماری ہر ممکن کوشش یہ ہو کہ اس کے اندر سے وہ برائی ختم ہو جائے۔
گویا کہ اس واقعے میں داعیان دین کے لیے یہ سبق ہے کہ جب کبھی کسی کے اندر کوئی بُرائی دیکھیں تو انہیں چاہئے کہ وہ برائی سے نفرت کریں نہ کہ بُرائی کرنے والے سےاور ان کی کو شش ہو کہ اس کے اندر سے بُرائی ختم ہو جائے، اسی لیے علمائے کرام نے بتایا ہے کہ منکر میں مبتلا شخص کے ساتھ معاملہ ایک بچہ کا سا ہونا چاہئے کہ جب آپ بچے کو پڑھنا سکھانا چاہ رہے ہوں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اُسے حروف پہچاننے کے لیے خوبصورت وسیلہ عطا کریں تاکہ پڑھنے لکھنے سے اس کی دلچسپی بڑھے اور اس کے اندر علم سے نفرت نہ پیدا ہو، بالکل ایسا ہی معاملہ کسی منکر میں مبتلا شخص کا ہے، یہ دراصل بیمار ہے یا جاہل ہے لہذا ہمیں بیماری اور جہالت سے دشمنی ہونی چاہئے نہ کہ بیمار اور جاہل سے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ نے منکر کے سدباب کے لیے تین مراحل کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ داعیان دین کو چاہئے کہ وہ ترتیب وار تین مراحل میں کسی منکر کا ازالہ کریں، پہلے مرحلہ میں اس کے سامنے منکر کی تعریف کی جائے کہ یہ امر واقعی منکر ہے، بالعموم ایک آدمی جہالت کی بنیاد پر ہی کوئی منکر کام کرتا ہے، جب وہ جان لے گا کہ ایسا کرنا غلط ہے تو وہ ضرور اُس سے رُک جائے گا، لہذا ضروری ہے کہ نہایت نرمی کے ساتھ اس کے سامنے منکر کی تعریف کی جائے۔ مثلا یوں کہا جائے کہ:
میرے بھائی! میرے عزیز! انسان دین کا علم سیکھ کر ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوتا، ہم سب شریعت  کی بہت ساری باتیں نہیں جانتے تھے لیکن علماء نے ہمیں سکھایا، شاید آپ کی بستی اہل علم سے خالی ہے، جس کی وجہ سے کسی نے آپ کو اس بُرائی کی بابت نہیں بتایا۔
بہر کیف ایسا اسلوب اپنائے کہ دل شکنی کے بغیر وہ منکر کو منکر سمجھ لے، اگر وہ نہیں سمجھ پاتا ہے تو دوسرے مرحلہ میں اُسے اللہ کا خوف دلایا جائے، اسے منکر سے متعلق قرآن واحادیث کے نصوص بتائے جائیں، سلف صالحین اور اللہ والوں کی زندگی کے عبرت آموز قصے سنائے جائیں یہ سب نہایت نرمی اور شفقت کے ساتھ ہو، اگر اس کے اندر تبدیلی آجاتی ہے اور وہ منکر سے باز آجاتا ہے تو ٹھیک ورنہ تیسرے مرحلے میں اس کے ساتھ سخت کلامی سے پیش آیا جائے، لیکن یہ واضح ہونا چاہئے کہ سخت کلامی کا مطلب فحش گوئی نہیں، بلکہ اس کے سامنے بُرائی کی قباحت کو بیان کرکے اُسے ترک نہ کرنے پر سخت سست کہا جائے۔ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبانی فرمایا: جبکہ آپ نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:

أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (سورہ الانبیاء67)

” تف ہے تم پر اور تمہارے اِن معبُودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کررہے ہو کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے”۔

اگر اب بھی سدھار نہیں ہو رہی ہے تو چوتھے مرحلہ میں طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ اُسے قدرت حاصل ہو، صحیح مسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

مَن رأى مِنكُم مُنكرًا فليغيِّرهُ بيدِهِ ، فإن لَم يَستَطِع فبِلسانِهِ ، فإن لم يستَطِعْ فبقَلبِهِ  وذلِكَ أضعَفُ الإيمانِ. (صحيح مسلم: 49)

“جب تم میں سے کوئی بُرائی کا کام دیکھے تو اُسے چاہئے کہ وہ اپنے ہاتھ سے روکے اگر اس کی طاقت نہیں تو زبان سے، ورنہ دل سے ضرور بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے”۔

حدیث میں ہاتھ کے استعمال کی جو بات کہی گئی ہے یہ آخری علاج ہے اور سب کے لیے نہیں بلکہ جسے اس کی طاقت ہو، ایک شخص نے سمجھانے بجھانے میں پوری کوشش صرف کردی، خیر خواہانہ انداز اپنایا، نرم لب و لہجہ اختیار کیا، حکمت کے سارے اصول کو برتا لیکن سامنے والے میں کوئی تبدیلی نہ آسکی تو اب وہ منکر کے ازالہ کے لیے ہاتھ کا استعمال کر سکتا ہے، لیکن دو شرطوں کے ساتھ پہلی شرط یہ کہ ایسا کرنے پر وہ قادر ہو اور دوسری شرط یہ کہ ظن غالب ہو کہ اس کا کوئی غلط رد عمل سامنے نہ آئے گا۔ 

1- نصیحت تنہائی میں کی جائے :
امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ نصیحت تنہائی میں کی جائے، فطری طور پر ایک انسان کبھی یہ پسند نہیں کرتا کہ سب کے سامنے اس کی کوتاہیاں بیان کی جائیں، اور جو شخص کسی کی کمی کو بھرے مجمع میں بیان کردیتا ہے ایسے شخص سے اس کی طبیعت نفرت کرنے لگتی ہے اور وہ اصلاح کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، گوکہ نقد برمحل ہو اور وہ عیب واقعی اس کے اندر پایا جا رہا ہو۔
ممکن ہے اس اصول سے بعض پاکیزہ طبیعتیں مستثنی ہوں اور حق کو قبول کرلیں لیکن ان کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے عیوب سب کے سامنے بیان نہ کئے جائیں، اسی قبیل سے امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ شعر ہے۔؎
تعمدني بنصحك في انفرادي ….. وجنبني النصيحة في الجماعة
فإن النصح بين الناس نوع ….. من التوبيخ لا أرضى استماعه
وإن خالفتني وعصيت قولي ….. فلا تجزع إذا لم تعط طاعه
اگر تم مجھے نصیحت کرنا چاہتے ہوتو تنہائی میں کرو، اور بھرے مجمع میں نصیحت کرنے سے بچو، کیوں کہ لوگوں کے بیچ نصیحت کرنا ایک طرح کی تو بیخ ہے، جسے میں سننا پسند نہیں کرتا، اگر تم نے اس کے خلاف کیا اور میری بات کی نافرمانی کی تو اطاعت نہ ملنے پر پریشان مت ہونا۔
لہذا اگر ہم کسی کے اندر کوئی کمی دیکھیں اور ہمیں اس کی اصلاح مقصود ہے تو ہمیں چاہئے کہ ہم اسے تنہائی میں لے جاکر سمجھانے کی کوشش کریں، اور سمجھانے کا اسلوب ایسا اچھوتا ہوکہ مخاطب کو بُرا نہ لگے، کچھ حساس طبیعت کے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ تنہائی میں بھی براہ راست نصیحت کو پسند نہیں کرتے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے سامنے ہے آپ کا معمول تھا کہ جب کسی کی اصلاح کرنی ہوتی تو اشارہ اور کنایہ سی اس کی اصلاح کرتے تھے، براہ راست ٹوکتے نہ تھے، چناچہ جب آپ کے سامنے کسی کی بابت کوئی بات پہنچتی تو آپ اُس شخص کو نشانہ بنائے بغیر عام خطاب کے انداز میں کہتے: ما بالُ أقوامٌ يفعلونَ كذا وكذا  کیا بات ہے لوگ ایسا ویسا کرتے ہیں۔
ابن المفلح رحمہ اللہ سے الآداب الشرعیہ (108/2) میں بیان کیا ہے کہ ابراہیم الادہم سے کسی نے پوچھا: ایک شخص کسی دوسرے کے اندر کوئی عیب دیکھتا ہے تو کیا وہ اُسے صراحۃ کہہ دے؟ آپ نے فرمایا: هذا تبكيت ولكن تعريض یہ تو اسے رسوا کرنا ہوا، البتہ اسے چاہئے کہ اشارٰتا اسے بتا دے۔
شاید ہم میں سے ہر ایک نے یہ حدیث سنی ہوگی:
المؤمِنُ مِرآةُ المؤمِنِ  (صحیح الجامع: 6656، حسن)
ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے، مطلب یہ کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے آئینہ کی حیثیت رکھتا ہے، سوال یہ ہے کہ آخر مومن کو آئینہ سے تشبیہ کیوں دی گئی؟ تو اہل علم نے اس کی متعدد توجیہ بیان کی ہے:
1- جس طرح آئینہ چہرے کے داغ اور دھبے کو بتا دیتا ہے اسی طرح ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کے اندر کوئی عیب دیکھے تو خاموش نہ رہ جائے بلکہ اسے بتا دے۔
2- اسی طرح چہرے کے داغ کو آئینہ تنہائی میں بتاتا ہے، آئینہ کے سامنے چہرہ دیکھنے والا ہوتا ہے اور آئینہ ہوتا ہے، تیسرا کوئی نہیں ہوتا، اسی طرح ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے بھائی کو تنہائی میں نصیحت کرے۔
3- جب آئینہ چہرے کا داغ بتاتا ہے تو ہمیں اُس پر غصہ نہیں آتا بلکہ آئینہ سے ہمارا تعلق مزید استوار ہوتا ہے، ویسے ہی ایک مسلمان کو چاہئے کہ اپنے بھائی کے عیب کو نہایت خیر خواہانہ انداز میں، نرمی و شفقت کے ساتھ بیان کرے یہاں تک کہ اس کے دل میں خیر خواہ کی عقیدت ومحبت بیٹھ جائے۔
2- تدریج کو ملحوظ رکھا جائے:
منکر کے ازالے میں دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ تدریج کو ملحوظ رکھا جائے، انسانی طبیعت کچھ ایسے واقع ہوئی ہے، کہ جب وہ کسی چیز کی عادی بن جاتی ہے تو اسے ترک کرنا اس کے لیے مشکل بن جاتا ہے گوکہ وہ چیز اس کے حق میں نقصاندہ ہو، اسلام چونکہ دین فطرت ہے، اور انسان کی طبعی رجحانات کا خیال کرتا ہے اس لیے اُس نے منکر کے ازالے میں بھی تدریج کو ملحوظ رکھنے کی تاکید کی ہے۔
اس نکتے کو سمجھنے کے لیے حرمت شراب کے نزول پر غور کیا جا سکتا ہے، شراب کی حرمت بیک وقت نازل نہیں ہوئی، کیوں؟ اس لیے کہ عرب اس کے رسیا تھے، شراب اس کی گھٹی میں سمائی ہوئی تھی، اس کے بغیر اُن کا جینا دوبھر تھا، چناچہ شروع میں اس وقت ایمان و یقین پر زور دیا گیا، ترغیب و ترہیب کی باتیں بتائی گئیں۔ شراب کے تعلق سے سب سے پہلی آیت اُتری تو اس میں بتایا گیا کہ:
تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا (سورۃ النحل 5)
کہ تم کھجور اور انگور کے درختوں کے پھلوں سے شراب بنا لیتے ہو، گویا اس میں شراب کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا تھا، اس کے بعد دوسرے مرحلہ میں بحالت نشہ نماز ادا کرنے سے روک دیا گیا، چنانچہ فرمایا گیا:
لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ (سورۃ النساء 43)
کہ جب تم نشہ کی حالت میں ہوتو نماز سے قریب مت ہو ۔
جب لوگوں کا ذہن تیار ہو گیا تو تیسرے مرحلہ میں دو ٹوک انداز میں شراب کی حرمت نازل کردی گئی چنانچہ فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ  الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ  (سورہ المائدہ 90)
"اے ایمان والو! یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔"
یہی وہ نکتہ ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جلیل القدر تابعی یوسف بن مالک سے بیان کیا تھا کہ شروع اسلام میں مفصل کی سورتیں اتریں جن میں جنت وجہنم کا تذکرہ ہوتا تھا یہاں تک کہ جب لوگ اسلام پر ثابت قدم ہو گئے تو حلال و حرام کی آیتیں اُتریں، اگر اوائل اسلام میں یہ نازل ہوتا کہ زنا نہ کرو تو لوگ کہتے کہ ہم کبھی زنا ترک نہ کریں گے۔ (صحیح البخاری: 4993)
عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ بات ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ ہم دعوت کے میدان میں تدریج کو ملحوظ رکھیں جی ہاں! اسلام قبول کرنے کے پہلے ہی دن ایک شخص کو ختنہ کروانے کے لیے کہا جائے تو یہ حکمت دعوت کے خلاف ہوگا،  پہلے ایمان پر دھیان دیا جائے جب اس کے دل میں ایمان بیٹھ جائے تو دھیرے دھیرے  احکامات بتائے جائیں، ایسا ہی معاملہ ہر شخص کے ساتھ ہونا چاہئے۔ فرض کیجئے کہ ایک آدمی نماز نہیں پڑھتا اور داڑھی حلق کرتا ہے، ہمارے لیے مناسب ہے کہ ہم اسے  پہلے نماز کی طرف سے دعوت دیں، جب نماز کا پابند ہوجائے گا تو اس کے بعد ہم داڑھی کے موضوع پر اس سے گفتگو کر سکتے ہیں۔
اسی طرح ایک دوسرا شخص ہے جو شرک میں مبتلا ہے اور شراب بھی پیتا ہے، ہمارے لیے مناسب ہے کہ ہم پہلے اسے شرک کی کھائی سے نکالنے کی طرف دھیان دیں، جب وہ شرک سے نکل جاتا ہے تو اسے نماز کا پابند بنائیں پھر اس کے بعد ہم شراب پینے سے روکیں۔
یہیں سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہ کام اسلوب دعوت کے خلاف ہوگا کہ ایک آدمی کسی کو داڑھی نہ رکھنے پر ٹوک دے حالاں کہ وہ جان رہا ہو کہ وہ  نماز نہیں پڑھتا، اسی طرح یہ کام بھی اسلوب دعوت کے خلاف ہوگا کہ ایک آدمی کسی کو بائیں ہاتھ سے کھانے پر ٹوک دے حالاں کہ وہ جان رہا ہو کہ کبھی اس نے مسجد کا منہ نہیں دیکھا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی قاعدہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو سکھایا تھا جب کہ انہیں یمن بھیج رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: معاذ! تم اہل کتاب کے پاس جا رہے ہو جب تم ان کے پاس پہنچنا تو انہیں دعوت دینا کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اگر وہ تیری بات مان لیتے ہیں تو انہیں حکم دینا کہ اللہ تعالی نے اُن پر شب و روز میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالی نے ان کے مالوں میں زکاۃ فرض کیا ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور فقیروں میں تقسیم کر دی جائے گی، اگر وہ اسے مان لیں تو تم زکاۃ میں اُن کا عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی بد دعا سے بچتے رہنا کیوں کہ ان کی بد دعا اور اللہ کے بیچ کوئی پردہ حائل نہیں۔ (صحيح بخارى 1458، صحيح مسلم 19)
دیکھا یہ ترتیب بتائی گئی ہے، پہلے توحید کی طرف دعوت دی جائے اس کے بعد نماز کی طرف بلایا جائے، اس کے بعد زکاۃ اور دیگر احکام بتائے جائیں۔ دعوت میں کامیابی کے لیے ترتیب کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے.
3- نصیحت کے لیے مناسب وقت اختیار کیا جائے:
اسی طرح منکر کے ازالہ کے لیے مناسب وقت کا انتخاب بھی بہت اہمیت رکھتا ہے، مناسب وقت میں جب بات کہی جاتی ہے تو دل کی گہرائی میں اُترتی ہے، لہذا ایسے وقت جب کہ صاحب منکر غصہ میں ہو، یا کسی کام میں مشغول ہو، یا کوئی دوسری گفتگو چل رہی ہو ایسے وقت میں منکر پر نکیر کرنا غیر مناسب ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھئے جب آپ جیل میں تھے تو آپ کے پاس دو شخص خواب کی تعبیر جاننے کے لیے آئے تھے، آپ نے اسے کہا کہ کھانا آنے سے پہلے پہلے میں تجھے خواب کی بالکل صحیح تعبیر بتاؤں گا، دونوں اپنے مقصد کے لیے آئے تھے، ان کے اندر سننے کی قبولیت پائی جارہی تھی، چنانچہ آپ نے مناسب وقت سے فائدہ اُٹھایا اور ان کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کردیا، غرضیکہ جب مناسب وقت میں کوئی بات  کسی کے سامنے رکھی جاتی ہے، تو قبولیت کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
اخیر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو دعوت دین کی عملی اور بصیرت عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔

No comments:

Post a Comment