Friday 13 July 2018

صحرا کا شیر؛ عمر مختار

عُمَرْ الْمُخْتَارْ مُحَمَّدْ بِنْ فَرْحَاتْ الْمَنِفِي
عمر مختار لیبیا پر اطالوی قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت کے معروف رہنما تھے۔ وہ 1862ء میں جنزور نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1912ء میں لیبیا پر اٹلی کے قبضے کے خلاف اگلے 20 سال تک تحریک مزاحمت کی قیادت کی۔ آپ کی پیدائش 20 اگست 1858  کی ہے جبکہ وفات 16 ستمبر 1931 (73 سال) کو لیبیا میں ہوئی .... وجۂ وفات پھانسی تھی. آپ کی کنیت صحرا کا شیر ہے. آپ مدرس قرآن تھے.
اطالوی حملہ:
اکتوبر 1911ء میں اٹلی کے بحری جہاز لیبیا کے ساحلوں پر پہنچے۔ اطالوی بیڑے کے سربراہ فارا فیلی نے مطالبہ کیا کہ لیبیا ہتھیار ڈال دے بصورت دیگر شہر تباہ کر دیا جائے گا۔ حالانکہ لیبیائی باشندوں نے شہر خالی کردیا لیکن اٹلی نے ہر صورت حملہ کرنا تھا اور انہوں نے تین دن تک طرابلس پر بمباری کی اور  اس پر قبضہ کرلیا۔ یہیں سے اطالوی قابضوں اور عمر مختیار کی زیر قیادت لیبیائی فوجوں کے درمیان میں جنگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
دستخط
گوریلا جنگ:
عمر مختار جو معلم قرآن تھے صحرائی علاقوں سے بخوبی واقف تھے اور وہاں لڑنے کی حکمت عملیوں کو بھی خوب سمجھتے تھے۔ انہوں نے علاقائی جغرافیہ کے بارے میں اپنی معلومات کا اطالوی فوجوں کے خلاف بھرپور استعمال کیا۔ وہ اکثر و بیشتر چھوٹی ٹولیوں میں اطالویوں پر حملے کرتے اور پھر صحرائی علاقے میں غائب ہوجاتے۔ ان کی افواج چوکیوں، فوجی قافلوں کو نشانہ بناتی اور رسد اور مواصلات کی گذرگاہوں کو کاٹتی۔
عقوبت گاہیں:
عمر مختار کی زیر قیادت مزاحمتی تحریک کو کمزور کرنے کے لئے اطالویوں نے نئی چال چلی اور مردوں، عورتوں اور بچوں کو عقوبت گاہوں میں بند کردیا۔ ان عقوبت گاہوں کا مقصد یہ تھا کہ مزید لیبیائی باشندوں کو عمر مختار کی مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے سے روکا جائے۔ ان کیمپوں میں ایک لاکھ 25 ہزار باشندے قید تھے جن میں سے دو تہائی شہید ہوگئے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو قید کرنے کے باوجود عمر مختار کی تحریک رکی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ملک اور عوام کی آزادی کے لئے مسلح جدوجہد جاری رکھی۔
گرفتاری و شہادت:
عمر مختار کی 20 سالہ جدوجہد اس وقت خاتمے کو پہنچی جب وہ ایک جنگ میں زخمی ہوکر اطالویوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے۔ اس وقت ان کی عمر 70 سال سے زیادہ تھی اور اس کے باوجود انہیں بھاری زنجیروں سے باندھا گیا اور پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ ان پر تشدد کرنے والے فوجیوں نے بعد ازاں بتایا کہ جب انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا یا تفتیش کی جاتی تو وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قرآن مجید کی آیتیں تلاوت کرتے۔ ان پر اٹلی کی قائم کردہ ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور سزائے موت سنادی گئی۔ تاریخ دان اور دانشور ان پر عائد مقدمے اور عدالت کی غیر جانبداری کو شکوک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان سے جب آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے "انا للہ و انا الیہ راجعون" پڑھا۔ انہیں 16 ستمبر 1931ء کو سرعام پھانسی دے دی گئی کیونکہ  اطالوی عدالت کا حکم تھا کہ عمر مختار کو پیروکاروں کے سامنے سزائے موت دی جائے۔ صحرا کا شیرفلم "صحرا کا شیر" کا سرورق آج کل ان کی شکل لیبیا کے 10 دینار کے نوٹ پر چھپی ہوئی ہے جبکہ دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت ہالی ووڈ نے 1981ء میں ان کی زندگی پر ایک فلم "The Lion of Desert" یعنی "صحرا کا شیر" بنائی۔ اس فلم کے ڈائریکٹر مصطفٰی العقاد تھے۔ فلم میں عمر مختار کا کردار انتھونی کوئن نے ادا کیا۔
The Italian Invasion
عمر مختار (رحمہ اللہ) ایک ایسے لیبیائی مجاہد آزادی کا قصہ جو بیس سال تک اٹلی کی فوجوں کے ساتھ پرسر پیکار رہے جو معلم قرآن بھی تھے. آپ کو ستر سال کی عمر میں ایک معرکے میں زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا.
افسر پوچھتا ہے:
کیا تم نے اٹلی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا؟
عمر مختار:
ہاں!
کیا تم نے لوگوں کو اس جنگ پر ابھارا
ہاں!
کیا تمہیں احساس ہے کہ تمہیں اپنے کئے کی کیا سزا ملے گی؟
ہاں!
کیا یہ تمہارا اعتراف ہے جو تم کہہ رہے ہو
ہاں!
تم کتنے سال سے اٹلی کی فوجوں سے جنگ کررہے ہو؟
بیس سالوں سے.
کیا تمہیں اپنے کیے پر پچھتاوا ہے
نہیں.
کیا تمہیں احساس ہے کہ تمہیں پھانسی دی جائے گی؟
ہاں.
جج اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:
مجھے تمہارے اس طرح کے انجام پر دکھ اور افسوس ہے
عمر مختار جواب دیتا ہے:
نہیں! بلکہ یہ میرے زندگی کا حسین اختتام ہے
جج اُسے لالچ دینے کی کوشش کرتا ہے
وہ اُسے مکمل معافی کی پیشکش کرتا ہے اس شرط پر کہ وہ مجاھدین کو لکھ دے کہ وہ اٹلی کے خلاف جہاد روک دیں
عمر مختار اُسے دیکھتا ہے،
اور اپنا مشہور زمانہ قول کہتا ہے:
جو انگلی ہر نماز میں اللہ کی وحدانیت کی اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتی ہو اُس انگلی سے باطل کلمہ نہیں لکھا جاسکتا.
امریکی ریاست فلوریڈا میں ایک مسجد کا نام "مسجد عمر المختار” رکھا گیا ہے. جبکہ کویت، غزہ، قاہرہ، دوحا، تنزانیہ، ریاض اور اربد میں عمر مختار نامی شاہراہیں موجود ہیں. جبکہ 17 فروری 2011ء میں شروع ہونے والی "لیبیا سول جنگ” کے دوران مختلف، پوسٹروں اور نوجوانوں کی شرٹوں پہ عمر مختار کی تصاویر ہوتی ہیں. 2009ء میں لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی مرحوم روم کے سرکاری دورے پہ گئے تو انکی قمیض پہ عمر مختار کی تصویر پرنٹ تھی. لیبیا کے دس ریال کے نوٹ پہ بھی عمر مختار کی تصویر ہوتی ہے. انتھونی کوئن، اولیور ریڈ اور ائرین پاپ کی مشہور فلم Lion Of Desert بھی عمر مختار کی زندگی اور جدوجہد پہ مبنی ہے. یہ عمر مختار تھا کون؟
Omar Mukhtar with the Libyan Senussi fighters.
1931ء میں عمر مختار اطالوی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور اُسی سال 16 ستمبر کو پھانسی چڑھ گیا. پھانسی سے ایک روز قبل عمر مختار نے کہا تھا: "میں نے کبھی اٹلی کی حکومت کی اطاعت کی ہے نہ کروں گا. میں نے اطالوی فوجوں کے خلاف تمام جنگوں میں حصہ لیا ہے، جب کسی معرکے میں میری شمولیت نہیں تھی تب بھی وہ معرکہ میری کمان و احکامات کے تحت ہی ہوتا تھا. مجھے فخر ہے. میں ایک شاندار مثال پیش کرنے جارہا ہوں، فتح یا شہادت”. اس طرح عمر مختار کی تیس سالہ جنگِ مزاحمت کا خاتمہ ہوگیا.
اکتوبر 1911ء میں اٹلی کی رائل میرین نے لیبیا پہ حملہ کرکے تین دن طرابلس اور بن غازی پہ مسلسل بمباری کی اور قبضہ کر لیا. ترکی کی فوجیں مقابلہ کرنے کی بجائے پسپا ہو گئیں. لیبیا کا اکثریتی اور اہم ترین علاقہ اٹلی کے قبضے میں چلا گیا لیکن جلد ہی اطالوی فوج کو لیبیا میں شدید گوریلا جنگ کا سامنا کرنا پڑا. لیبیا میں اطالوی فوج کو سب سے زیادہ نقصان اور سب سے زیادہ شدید مزاحمت کا سامنا عمر مختار کے گروہ کی طرف سے کرنا پڑا.
طبروک کے چھوٹے سے گاؤں میں ایک انتہائی غریب گھرانے میں 1858ء میں پیدا ہونے والے عمرمختار اپنی اوائل عمری میں ہی باپ کے سائے سے محروم ہوگئے تھے. آپ کی تمام تعلیم علاقائی مساجد اور مدرسوں میں مکمل ہوئی. جب اطالوی فوجوں نے لیبیا پہ قبضہ کیا تو 52 سالہ عمر مختار ایک مسجد میں قرآن کا معلم تھے لیکن آپ کو افریقی ملک چاڈ میں فرانسیسی فوج کے خلاف گوریلا جنگ کا تجربہ حاصل تھا. آپ صحرائی جنگ کی بہترین حکمت عملیوں کے ماہر تھے. وہ اطالوی فوجوں کے مقابلے میں مقامی جغرافیہ سے بھی واقف تھے لہذا آپ نے استعماریوں کو انتہائی زک پہنچائی. وہ انتہائی مہارت کے ساتھ بار بار اطالوی فوجوں پہ حملہ کرتا، انکو شدید نقصان پہنچاتے اور پھر صحرا میں روپوش ہوجاتے تھے. اُس نے گھات لگاکر دشمن کی سپلائی لائن کو برباد کردیا، اطالوی بہت حیران و پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت خوفزدہ بھی ہوئے. 1924ء میں جبلِ اخدار کے پہاڑی علاقہ میں اطالوی گورنر ارنسٹو بمبیلیلی نے ایک انسداد گوریلا فورس بنائی جس نے اپریل 1925ء میں مزاحمتی فورسز کو شدید نقصان پہنچایا جس کے بعد عمر مختار اپنی حکمت عملی میں تبدیلی پہ مجبور ہوگئے. اسی اثناء میں وہ مصر سے امداد حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے. 1925ء سے لیکر 1928ء تک عمرمختار کی جدوجہد کا عروج تھا، لیبیا میں جہاں جہاں بھی اطالوی فوج موجود تھی، وہاں وہاں عمر مختار نے حملے کئے. حتی کہ اطالوی جنرل ٹیروزی یہ کہنے پہ مجبور ہوگیا کہ "مختار غیر معمولی استحکام اور طاقت کا حامل صحرائی شیر ہے”.
عمر مختار کی گرفتاری کا منظر
فروری 1929ء میں اطالوی گورنر اور عمر مختار کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا مگر نومبر 1929ء میں وہ معاہدہ ختم کرتے ہوئے دوبارہ جنگ شروع کر دی. پھر اطالوی حکومت نے لیبیا میں اپنی فوج کو بے پناہ جنگی وسائل سے لیس کرتے ہوئے جبل اخدر کا مکمل گھیراؤ کا پلان دیا. پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا، حتی کہ غیرمسلح عام شہریوں میں سے بھی کوئی آ جا نہیں سکتا تھا. مزاحمتی مجاہدین ہر قسم کی مدد اور کمک سے عاری ہوگئے. مقامی غداروں اور مخبروں کی مدد سے گیارہ ستمبر 1939ء میں صحرا کا شیر حالتِ جنگ میں گرفتار ہوا. تہتر سالہ عمر مختار کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا اور پھر پورے شہر پہ ہوائی جہازوں سے بمباری کی گئی. اطالوی جنرل روڈالفو گریسیانی نے اٹلی حکومت کو بھیجی گئی رپورٹ میں لکھا کہ درمیانی قد کا سفید باریش بوڑھا عمرمختار انتہائی چست، چالاک اور ذہین ہونے کے ساتھ باکردار اور بہادر بھی ہے.
Bust of Omar Mukhtar
‘Omar al-Mukhṫār Muḥammad bin Farḥāṫ al-Manifī,  20 August 1858– 16 September 1931), called The Lion of the Desert, known among the colonial Italians as Matari of the Mnifa,[6] was the leader of native resistance in Eastern Libya under the Senussids, against the Italian colonization of Libya. Omar was also a prominent figure of the Senussi movement, and he is considered the national hero of Libya and a symbol of resistance in the Arab, Arab and Islamic worlds. Beginning in 1911, he organised and, for nearly twenty years, led native resistance against the colonial Italians. After many attempts, the Italian Armed Forces managed to capture Al-Mukhtar near Solonta and hanged him in 1931. Omar al-Mukhtar also fought against the French colonization of Chad and the British occupation of Egypt.

No comments:

Post a Comment