Thursday 19 July 2018

وہ ایک تھپڑ

وہ ایک تھپڑ
بتاریخ 17 جولائی 2018 زد و کوب کے دو واقعات پیش آئے۔ ایک ملک کے قلب دہلی میں اور دوسرا جھارکھنڈ کے پاکوڑ علاقے میں۔ دہلی میں ایک ٹی وی چینل زی ہندوستان کی مذاکراتی نشست میں مسئلہ طلاق اور دیگر عائلی مسائل پر ایک زوردار بحث چلی جو دست و گریباں تک پہنچ گئی۔ مولانا اعجاز ارشد قاسمی اسلامی ترجمان کے طور پر، جب کہ فرح فیض اور دیگر خواتین عالمِ کفر کی نمائندگی کے لئے شریکِ مجلس تھے۔ بحث نے طول پکڑا تو فریقین اپنا تحمل کھو بیٹھے۔ بحث افہام و تفہیم سے بڑھ کر زبانی جنگ، اس سے گزر کر دست درازی، پھر طمانچے تک پہنچ گئی۔ فرح فیض نے اقدامی تھپڑ لگایا، مولانا اعجاز ارشد جلال میں آگئے اور جوابی کارروائی میں انہوں نے بھی تین تھپڑ رسید کردیے۔ پولیس موقع پر ہی پہنچ گئی اور مولانا اعجاز ارشد نذرِ زنداں کردئے گئے۔
ان تھپڑوں کی گونج:
تھپڑوں کا یہ تبادلہ کچھ اس شان سے ہوا کہ یہ دھماکے کی شکل اختیار کر گیا۔ اس کی گونج سے سارے ذرائعِ ابلاغ میں کھلبلی مچ گئی۔ اس گونج میں ہجومی تشدد کی وہ اندوہناک خبر بھی دب گئی جو سوامی اگنی ویش پر حملے کے حوالے سے اسی دن پیش آئی تھی۔ اب سب کا موضوعِ بحث یہی تھپڑ بازی ہے۔ برقی ذرائعِ ابلاغ ہوں یا ورقی ذرائعِ ابلاغ، سب اسی گونج میں گم سم ہیں۔ لوگ اپنے اپنے تجزیے پیش کررہے ہیں۔ کسی کی نظر میں مولانا اعجاز ارشد موردِ ملامت ہیں تو کسی کی نظر میں مستحقِ مدحت۔ جب کہ بعضوں کا زاویہ نظر فرح فیض کو مظلومین کے خانے میں رکھتا ہے۔
مولانا اعجاز ارشد اور فرح فیض پر ایک طائرانہ نظر:
یہاں مباحثے کے ان دونوں کرداروں پر ایک سرسری نظر ڈال لینا قطعاً بے جا نہ ہوگا۔ مولانا اعجاز ارشد بہار کے ضلع مدھوبنی سے تعلق رکھتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند سے فضیلت حاصل کی۔ وہ دارالعلوم کے خادم بھی رہے۔ شعبہ انٹرنیٹ سے برسوں وابستہ۔ دہلی وقف بورڈ کے رکن رکین بھی ہیں۔ ادھر چند سال سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فعال اراکین میں ہیں۔ پیس فاؤنڈیشن کے نام سے ایک عدد تنظیم کے بھی بانی ہیں۔ کئی اچھی کتابیں بھی ان کے قلم سے آئیں۔ دارالعلوم میں میرے ہم عصر رہے۔
رہی فرح فیض، تو وہ سپریم کورٹ کی وکیل ہے۔ طلاقِ ثلاثہ کے مسئلے پر ملتِ اسلامیہ کی سخت حریف۔ اس نے عدالت میں مسلم پرسنل لا کے خلاف عرضی بھی دائر کی۔ اس کا مذہبی پس منظر روایتی اسلام سے الگ ہے۔ ملحدانہ اور لبرلانہ۔ اس نے ایک غیرمسلم سے شادی رچائی۔ شوہر کا نام ونود ورما ہے۔ فرح فیض کا ایک نام شادی کے بعد سے لکشمی ورما بھی ہے۔ یہ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم 'راشٹریہ مسلم مہیلا سنگھ' کی صدر بھی ہے۔ قاتلِ گاندھی ناتھو رام گوڈسے کی ضرورت سے زیادہ مداح۔ لبرل ازم پر ریجھی ہوئی اور اسلامی روایات سے سرتابی کرتی ہوئی۔
کیمرے کے حریص علما:
تصویر کشی اسلام میں سخت حرام ہے۔ اس کی حرمت پر امت کا اجماع ہے۔ احادیث میں سخت ترین وعیدیں آئی ہوئی ہیں۔ فوٹو بازوں کے لئے عبرت آموز سزاؤں کا اعلان بھی ہے۔ تصویر کی ہر قسم حرام ترین ہے۔ یہ بات اتنی کھلی ہوئی ہے کہ اسلامی ماحول کا ہر ذی شعور جانتا ہے، مگر ہمارے لوگ سنگین تر حرمت کے باوجود اس کے دیوانے بنے ہوئے ہیں۔ تصویر کھنچوانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اخبارات میں خبروں سے زیادہ تصویریں چھپانے کا شوق غالب ہے۔ اخبارات سے گزر کر برقی ذرائعِ ابلاغ تک ہر ہر مقام تصویروں سے معمور ۔ عبادات تک محفوظ نہیں۔ انفاق فی سبیل اللہ بھی انہیں کی زد میں۔ ادھر چند برسوں سے کچھ لوگوں میں ٹیلی ویژن کا شوق چڑھا ہے۔ لبرل اور ملحد مسلمان ہی کیا، مذہبی مسلمان بھی اس کے نشے میں مبتلا۔ اور تو اور، خود علما حضرات بھی اس کی زلفِ پیچاں کے اسیر۔ وہ بھی پوری طرح بن سنور کر۔ ٹیپ ٹاپ کو مدِ نظر رکھے ہوئے۔ جب کہ یہی لوگ مسجد میں جائیں گے تو میلی کچیلی حالت میں۔ سادگی کا پیکر بن کر،  مگر کیمرے کی بات آتے ہی نوشاہ بن جائیں گے۔
ٹی وی محادثے بدی کے محور:
کیمرے تو یوں بھی حرام ہیں، ان پر مستزاد اسلام دشمنوں کا اس پر غلبہ۔ کسی بھی چینل کو دیکھئے تو بے تکلف بدی کا محور دکھائی معلوم ہوگا۔ محادثے میں شریک بیشتر افراد دروغ گوئی کے خوگر۔ اخلاقی دیوالیہ پن میں مبتلا۔ اسلام پر اعتراضات کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اسلامی نمائندوں کے لئے بولنا محال۔ ایسے اذیت ناک تبصرے کرتے ہیں کہ مولوی اشتعال میں آجائے۔ عربی فارسی ناموں والے مرد و خواتین اسلام کے خلاف زہر فشانی میں مصروف۔ یہ در اصل الحاد زدہ اور دہریے ہوتے ہیں، ان کا اسلام سے تعلق محض دعوے تک محدود ہے اور دنیا سمجھتی ہے کہ جب خود مسلمان ہی اسلام سے مطمئن نہیں تو دوسرے کیوں کر مطمئن ہوں گے؟  مجلس کا مقصد افہام و تفہیم نہ رہا۔ خالص الزامات و اتہامات۔ اس پر خواتین بھی شریکِ بحث۔ کسی بھی زاویے سے دیکھئے تو حرام کو چھوڑکر اس پر اور کوئی حکم نہیں لگاسکتے۔ اسی لئے اربابِ نظر اہلِ علم نے ٹی وی مباحثوں میں شرکت سے منع کر دیا تھا۔ دارالعلوم دیوبند نے تو باقاعدہ اخبارات میں اپیل بھی جاری کی تھی، مگر چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ اپنی شکل دکھانے کا جنون، شہرت کی طمع اور روپوں کی کھنک بزم ہائے رسوائی میں لے جاتی رہی۔ شاید اب بھی انہیں یقین نہیں کہ ٹی وی مباحثے مخالفین کو مضبوط کرنے کے علاوہ برائی کا مرکز بن چکے ہیں۔
یہ پہلا تھپڑ نہیں:
جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا محاورہ ایک زمانے سے سن رہا ہوں، مگر اس کے مظاہرے بہت کم دیکھنے میں آئے تھے ۔ ادھر جب سے بھاجپا کی حکومت ہے، یہ ضرب المثل آئے دن کی کہانی بن چکی ہے۔ ہجومی تشدد کے یہ واقعات اسی ضرب المثل کے تازہ مظاہرے ہیں۔ ہجومی تشدد میں عام شخصیات کے علاوہ بڑی شخصیات بھی نشانہ بننے لگیں۔ پرسوں ہی معروف دھارمک پیشوا سوامی اگنی ویش پر بھیڑ نے حملہ کر دیا اور ایسی ضربیں لگائیں کہ الامان و الحفیظ! لاتوں گھونسوں کے ساتھ گالیاں بھی۔ کپڑے بھی پھاڑ دئے۔ پگڑی بھی نوچ لی۔ یہ کام انجام دینے والے کوئی اور نہیں،  بھاجپا ہی کے لوگ تھے۔ کچھ دیر یہی موضوع آگ کی طرح گرم رہا، امید یہی تھی کہ اگلے تین چار روز اسی پر بحث چلے گی، مگر ایسا نہیں ہوا، مولانا اعجاز ارشد صاحب کے واقعے نے اسے طاقِ نسیاں کی یادگار بنادیا۔ ٹی وی مباحثے کے دوران مار پیٹ کا یہ واقعہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک سوامی کے ساتھ وہی ہوا جو آج مولانا کے ساتھ پیش آیا ہے۔ وہاں بھی اقدامی تھپڑ خاتون ہی کی جانب سے تھا اور جوابی تھپڑ سوامی کی طرف سے۔ ان دونوں واقعات میں فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور یہاں جھٹ پٹ میں پولیس بھی آگئی۔ مقدمات بھی چلے اور مولانا کی گرفتاری بھی۔
قصور کس کا؟
یہاں ایک عام سا سوال گردش میں ہے کہ تھپڑ بازی کے تازہ سانحے میں قصور کس کا ہے؟ کچھ لوگ مولانا کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں اور کچھ فرح فیض کو۔ یہ محقق ہے کہ پہلا تھپڑ فرح نے ہی رسید کیا تھا اور مولانا کا اقدام عمل کا ردِعمل تھا۔ اولاً تو مولانا کا جانا ہی محلِ نظر ہے۔ شریعت کسی بھی طرح اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر وہ چلے ہی گئے تھے تو جوں ہی مباحثہ شدت اختیار کرنے لگا تھا مولانا کو مجلس چھوڑکر آجانا تھا، اس میں ان کا بھرم بھی رہ جاتا اور منکرینِ اسلام کے خلاف اسے احتجاج بھی سمجھا جاتا۔ کاش کہ یوں ہی ہوجاتا!! بعض ناتجربہ کار خدامِ دین کا کہنا ہے کہ مولانا پر تھپڑ پڑ ہی گیا تو انہیں اپنا ردِ عمل ایسا نہیں دینا چاہئے تھا، وہ مار کھالیتے اور اخلاقِ حسنہ کا مظاہرہ کرتے۔ عورت پر ہاتھ اٹھاکر انہوں نے سنگین جرم کیا۔ ان نادان دوستوں نے فرح کو مظلوم اور مولانا کو ظالم بناکر پیش کردیا، جب کہ معاملہ برعکس ہے۔ بہتوں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ سارا ڈرامہ منصوبہ بند طریقے سے تھا۔ فرح نے سارا انتظام پہلے ہی کرلیا تھا، بس اسے اشتعال دلاکر اگلی کارروائی کرنی تھی۔ بہرحال، جو ہوا، غلط ہوا۔ مولانا اس وقت ہماری مدد کے محتاج ہیں، ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہئے اور ان کی رہائی کی کوشش کرنی چاہیے۔ فرح فیض کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی ضروری ہے۔
بورڈ سے برطرفی کا مطالبہ عاجلانہ:
اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا اعجاز کو لگنے والا طمانچہ در اصل ملتِ اسلامیہ کی جگ ہنسائی ہے، لیکن افسوس اس کا ہے کہ بعض احباب مولانا کو موردِ الزام تو ٹھہرا ہی رہے ہیں، ساتھ ہی انہیں بورڈ سے نکالے جانے کے حق میں ہیں۔ میں مولانا اعجاز ارشد کے چینلانہ جنون سے بیزار ہوں اور اس کی حمایت کبھی نہیں کرتا، مگر لوگوں کے اس مطالبے کو ہرگز قبول نہیں کرتا کہ انہیں مسلم پرسنل لا بورڈ سے نکال دیا جائے۔ اگر بورڈ سے اخراج ان باتوں پر ہونے لگے تو بورڈ میں باستثنائے چند شاید ہی کوئی بچے گا۔ معصوم کوئی بھی نہیں ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ انہیں برقرار رکھا جائے اور چینلی عشق سے ان کی توبہ کروائی جائے۔ ان کے اخراج کا مطالبہ نہایت عاجلانہ اور دور اندیشی سے قطعاً پرے ہے۔
چینلوں سے دور رہیے:
کچھ لوگ تصویر کشی جیسی حرام شے کو بھی اسلام کی اشاعت کا ایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں، جب کہ تصویر کشی حرام ہے اور اللہ نے حرام شے میں شفا نہیں رکھی۔ چینلوں اور ویڈیو سے کوئی صالح انقلاب نہیں آنے والا۔ شہرت ہوجائے گی۔ لوگ چہرے سے پہچان بھی لیں گے، مگر خوش گوار اسلامی انقلاب صبحِ قیامت تک نہیں آسکتا۔ یہ اچھا ہوا کہ گرفتارانِ چینل نے زی میڈیا کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا، مگر یہ کافی نہیں ہے۔ جب تک چینل بازی کا مطلقاً مقاطعہ نہیں ہوگا ذلت و رسوائی تعاقب نہیں چھوڑے گی۔
(علامہ) فضیل احمد ناصری

No comments:

Post a Comment