نکاح کا وکیل نامحرم ہوسکتا ہے
سؤال: کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے مجلس نکاح میں موبائل فون پر لڑکی سے ایجاب وقبول کروایا تو کیا موبائل فون پرایجاب وقبول سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے یا نہیں؟
(۲) لڑکی کیلئے اپنا وکیل اور گواہ محارم میں سے مقرر کرنا ضروری ہے یا غیر محرم کو بھی نکاح کا وکیل اور گواہ بناسکتی ہے؟
الجواب بعون الملک الوھاب:
گواہوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ متعاقدین (یعنی نکاح کرنے والے مرد اور عورت) میں سے ہر ایک کے الفاظ (یعنی ایجاب وقبول) کو ایک ساتھ سنیں نیز متعاقدین اور گواہوں کی مجلس بھی ایک ہونی چاہیئے اگر مجلس ایک نہ ہو تو نکاح منعقد نہیں ہوتا لہٰذا فون وغیرہ سے جوایجاب وقبول کیا جاتا ہے اس سے مجلس ایک نہ ہونے کی وجہ سے نکاح منعقد نہیں ہوتا چنانچہ اگر متعاقدین دور دراز علاقہ میں ہوں تو نکاح کی بہتر صورت یہ ہے کہ لڑکا کسی ایسے شخص کو جو لڑکی کے شہر میں رہتا ہو وکیل بنا دے اور وکیل اس کی جانب سے گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرے نیز لڑکی کے لئے وکیل وگواہ غیر محرم بھی بن سکتے ہیں البتہ نامحرم کولڑکی سے اجازت لینے کا وکیل بنانا خلافِ مروت ہے بہتر یہ ہے کہ لڑکی کا محرم یا ولی اقرب خود جا کر لڑکی سے اجازت لے۔
از نجم الفتاوی
سؤال: کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے مجلس نکاح میں موبائل فون پر لڑکی سے ایجاب وقبول کروایا تو کیا موبائل فون پرایجاب وقبول سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے یا نہیں؟
(۲) لڑکی کیلئے اپنا وکیل اور گواہ محارم میں سے مقرر کرنا ضروری ہے یا غیر محرم کو بھی نکاح کا وکیل اور گواہ بناسکتی ہے؟
الجواب بعون الملک الوھاب:
گواہوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ متعاقدین (یعنی نکاح کرنے والے مرد اور عورت) میں سے ہر ایک کے الفاظ (یعنی ایجاب وقبول) کو ایک ساتھ سنیں نیز متعاقدین اور گواہوں کی مجلس بھی ایک ہونی چاہیئے اگر مجلس ایک نہ ہو تو نکاح منعقد نہیں ہوتا لہٰذا فون وغیرہ سے جوایجاب وقبول کیا جاتا ہے اس سے مجلس ایک نہ ہونے کی وجہ سے نکاح منعقد نہیں ہوتا چنانچہ اگر متعاقدین دور دراز علاقہ میں ہوں تو نکاح کی بہتر صورت یہ ہے کہ لڑکا کسی ایسے شخص کو جو لڑکی کے شہر میں رہتا ہو وکیل بنا دے اور وکیل اس کی جانب سے گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرے نیز لڑکی کے لئے وکیل وگواہ غیر محرم بھی بن سکتے ہیں البتہ نامحرم کولڑکی سے اجازت لینے کا وکیل بنانا خلافِ مروت ہے بہتر یہ ہے کہ لڑکی کا محرم یا ولی اقرب خود جا کر لڑکی سے اجازت لے۔
از نجم الفتاوی
.............
وکالتِ نکاح پر گواہی ضروری نہیں، زیادہ سے زیادہ مستحب ہے؛ اس لیے اگر اجازت لینے والے شخص نے اس لڑکی کا باقاعدہ مجلسِ نکاح میں گواہوں کی موجودگی میں نکاح پڑھوادیا تو نکاح صحیح اور درست ہوگیا:
وکالتِ نکاح پر گواہی ضروری نہیں، زیادہ سے زیادہ مستحب ہے؛ اس لیے اگر اجازت لینے والے شخص نے اس لڑکی کا باقاعدہ مجلسِ نکاح میں گواہوں کی موجودگی میں نکاح پڑھوادیا تو نکاح صحیح اور درست ہوگیا:
قال في الہندیة: یصح التوکیل بالنکاح وإن لم یحضرہ الشہود․ (الہندیة: ۱/۲۹۴)
از دارالعلوم دیوبند
.........
لڑکے کی عدم موجودگی میں دُوسرا شخص نکاح قبول کرسکتا ہے
س… کیا لڑکے کی عدم موجودگی میں اس کا والد یا وکیل لڑکے کی جانب سے نکاح قبول کرسکتا ہے؟ جبکہ ہمارے علاقے میں ایسا عام کیا جاتا ہے، بعد میں وہ لڑکے سے قبول کروالیتا ہے۔
ج… کسی دُوسرے کی جانب سے وکیل بن کر ایجاب و قبول کرنا صحیح ہے، اب اگر لڑکے نے اس کو ”نکاح کا وکیل“ بنایا تھا تب تو وکیل کا ایجاب و قبول خود اس لڑکے کی طرف سے ہی سمجھا جائے گا، بعد میں لڑکے سے قبول کرانے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر لڑکے نے وکیل مقرّر نہیں کیا تھا، کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر ہی وکیل بن گیا اور اس نے لڑکے کی طرف سے ایجاب و قبول کرلیا تو اس کا کیا ہوا نکاح لڑکے کی اجازت پر موقوف ہے، اگر لڑکا اس کو برقرار رکھے تو نکاح صحیح ہوگا، اور اگر مسترد کردے تو نکاح ختم ہوگیا۔
دُولہا کی موجودگی میں اس کی طرف سے وکیل قبول کرسکتا ہے
س… اگر کوئی شخص اپنے نکاح کے وقت موجود ہو اور وہ نکاح کی مجلس میں نہ بیٹھے تو اس شخص کا نکاح اس کا بھائی یا کوئی سرپرست اس کی طرف سے وکیل بن کر قبول کرسکتا ہے؟
ج… اگر کوئی شخص اس کی طرف سے وکیل بن کر قبول کرلے تو نکاح ہوجائے گا۔
کیا ایک ہی شخص لڑکی، لڑکے دونوں کی طرف سے قبول کرسکتا ہے؟
س… اگر کسی شادی میں لڑکی کا باپ نکاح میں کہے کہ: ”میں لڑکی کے والد کی حیثیت سے اپنی لڑکی کا نکاح فلاں لڑکے سے کرتا ہوں“ پھر کہے کہ: ”لڑکے کے سرپرست کی حیثیت سے میں قبول کرتا ہوں“ تین بار کہے تو کیا نکاح ہوگیا یا کہ نہیں؟
ج… جو شخص لڑکے اور لڑکی دونوں کی جانب سے وکیل یا ولی ہو، اگر وہ یہ کہہ دے کہ: ”میں نے فلاں لڑکی کا فلاں لڑکے سے نکاح کردیا“ تو نکاح ہوجاتا ہے۔ یعنی اس بات کی بھی ضرورت نہیں کہ ایک بار یوں کہے کہ: ”میں فلاں لڑکی کا فلاں لڑکے سے نکاح کرتا ہوں“، اور دُوسری بار یوں کہے کہ: ”میں اس لڑکے کی طرف سے قبول کرتا ہوں“، اور تین بار دہرانے کی بھی ضرورت نہیں، صرف ایک بار گواہوں کے سامنے کہہ دینے سے نکاح ہوجائے گا۔
..............
سوال: کچھ دن پہلے میرا نکاح مکۃ المکرمہ میں ہوا الحمداللہ۔ اس بارے میں چند سوالات میرے ذہن میں ہیں میرے والد کےدوست کو میری طرف سے گواہ بننا تھا لیکن کسی وجہ سے وہ نہیں آسکے تو پھرمیرے والد میری طرف سے گواہ بن گئے اور لڑکی کی طرف سے لڑکی کے چاچا گواہ تھے۔ کیا والد گواہ بن سکتے ہیں؟نکاح کے وقت کمرے میں قاضی کے ساتھ دو اورسعودی بھی تھے جبکہ میری اور لڑکی کی والد بھی موجود تھیں۔ لڑکی کے والد ولی تھے اور لڑکی بھی موجود تھی۔قاضی نے نکاح پڑھادیا میں نے قبول کرتےوقت یہ الفاظ کہے
نعم انا موافق
ایک ہی مرتبہ کہے۔ نیت میری قبول کرنے ہی کی تھی۔ عربی زبان میں مجھے میں نے قبول کیا کے الفاظ بولنا نہیں آتےتھے۔ پھرنکاح کے بعد میرے، لڑکی اوراس کے والد اور دونوں گواہوں کے دستخط لیےگئے۔ کیا نکاح صحیح ہے؟
1۔ والد گواہ بن سکتا ہے۔
2۔ قبول کرتے وقت نعم کہنا گویا کہ ہاں میں نے قبول کیا ہی کا معنیٰ ومفہوم ومطلب نکلتا ہے۔ بناء برایں ان الفاظ کا معنیٰ کہنے سے نکاح منعقد ہوجائے گا۔ الغرض یہ نکاح صحیح ہے البتہ تجدید کرنے میں کچھ حرج بھی نہیں، کرلینا بہتر ہے تاکہ تردد وشک دل میں نہ رہے۔
No comments:
Post a Comment