Friday, 20 July 2018

قرآن اور حدیث کی رو سے کیا تقلید ضروری ہے؟

قرآن اور حدیث کی رو سے کیا تقلید ضروری ہے؟ 
سوال # 32604
(۱) مفتی محمود حسن کیا فرماتے ہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں کہ کیا تقلید قرآن اور حدیث کی رو سے ضروری ہے؟ 
(۲) چاروں اماموں سے کسی ایک کی ہی کیوں ضروری ہے؟ 
(۳) تقلید کا معنی کیا ہے؟
Published on: May 30, 2011 
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی (ھ): 1148=412-6/1432
(۱) جو شخص مجتہد نہ ہو اور دلائل کی گہرائی میں اترکر مسائل کے استنباط کی صلاحیت نہ رکھتا ہو اس کے لیے تقلید واجب ہے، بجز تقلید کے اس کو کچھ چارہٴ کار نہیں، اللہ پاک کا ارشاد ہے: ”وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ “ کے مصداق ہیں، بس ان کے سبیل ومذہب کا اتباع (تقلید) بھی واجب ہوا۔
(۲) رہا یہ امر کہ چاروں میں سے ایک ہی کا اتباع وتقلید کیوں واجب ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیک وقت چاروں کی تقلید تو نہیں ہوسکتی جس طرح غیرمقلدین بھی نہیں کرسکتے، مثلاً ایک ہی مسئلہ لکھا جاتا ہے اگرچہ غیرمقلدین علماء کا بے شمار مسائل میں خود آپس میں اختلاف ہے۔ (الف) مویوی نورالحسن غیرمقلد عالم فرماتے ہیں ”مشت زنی جائز ہے“ (العرف الجادی: ۲۱۴) اس کے برخلاف (ب) مولوی عبدالجلیل سامرودی غیر مقلد عالم کہتے ہیں کہ ”مشت زنی جائز نہیں“ (العذاب المہین:۸۳) اب ظاہر ہے کہ عامی غیرمقلد بیک وقت اپنے دونوں عالموں کے قول پر تو عمل نہیں کرسکتا لامحالہ ایک ہی پر کرے گا تو ایک ہی کی تقلید ہوگی، اگر ایک کی تقلید شرک ہے تو یہ عامی غیرمقلد بھی مشرک قرار دیا جانا چاہیے اور اگر کوئی عامی غیرمقلد یہ کرے کہ جب جی چاہا مولوی نورالحسن کا قول اختیار کرلیا اور دل کا تقاضا دوسری طرف ہو اتو سامرودی صاحب کے قول کو اپنالیا تو یہ دین پر عمل نہ ہوا؛ بلکہ اتباعِ ہویٰ وخواہشات کا اتباع کرلیا تو تمام مسائل میں اسی امام کے مذہب کے مفتی بہ مسائل کا اتباع لازم ہوگیا، اگر عام مسلمانوں کو اس کا حق دیدیا جائے کہ جب جس امام کے قول کو چاہیں اختیار کریں اور جب چاہیں چھوڑیں تو یہ دین پر عمل نہ ہوگا؛ بلکہ خواہشات کا اتباع ہوگا؛ بلکہ بعض مرتبہ دین ہی منہدم ہوجائے گا، مثلاً ایک شخص نے وضو کیا اور اس کے جسم سے خون نکلا وہ کہتا ہے کہ اس مسئلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کا مقلد ہوں اُن کے یہاں اس سے وضو نہیں ٹوٹتا، پھر کچھ دیر بعد بیوی کو چھولیا جب اس سے کہا گیا کہ بیوی کو چھونے سے امام شافعی رحمہ اللہ کے یہاں وضو ٹوٹ جاتا ہے ، وہ جواب دے کہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مقلد ہوں انکے یہاں نہیں ٹوٹا، اگر یہ شخص اسی وضو سے نماز پڑھے گا تو اس کا بے وضو نماز پڑھنا ظاہر ہے اور نماز کا نہ ہونا بھی ظاہر ہی ہے اور دونوں امام یہی فرمائیں گے کہ اس کی نماز نہ ہوئی، مگر یہ شخص بغل بجاتا پھرے گا کہ میری ہی نماز اعلیٰ درجہ کی ہے تو یہ صورت دین نہیں بلکہ دین کا کھلونا بن جانا ظاہر ہے، اس کے علاوہ ایک ہی امامِ مجتہد کی تقلید کے ضروری ہونے کی اصل بخاری شریف میں بھی ہے: ”اہل مدینہ نے اس عورت کے متعلق حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ جس کو طوافِ فرض کے بعد حیض (ماہواری) آگیا (یعنی طوافِ وداع کیے بغیر وہ اپنے وطن واپس ہوسکتی ہے یا نہیں؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جاسکتی ہے، اہل مدینہ نے کہا کہ ہم آپ کے قول (فتوی) پر عمل کرکے زید ابن ثابت رضی اللہ عنہما کے قول (فتوی) کو نہیں چھوڑسکتے“ (بخاری شریف: ۱/۳۳۷) اس سے صاف ثابت ہے کہ اہل مدینہ حضرتِ زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کی تقلید کرتے تھے، پھر اہل مدینہ کے اس جواب پر حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی نکیر نہ فرمائی کہ تم تو زید ابن ثابت کی تقلیدِ شخصی اختیار کرکے مشرک یا گمراہ ہوگئے ہو (جیسا کہ آج کل کے غیرمقلدین کا طریقہ ہے) رہا یہ اشکال کہ حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی تقلید کیوں اختیار نہیں کی جاتی؟ حالانکہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا افضل ہونا ثابت ومحقّق ہے، اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے مذاہب مدون نہ ہوئے اس لیے حضراتِ ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ کی تقلید کی طرف احتیاج واقع ہوئی ورنہ اہل سنت والجماعت میں کوئی مسلمان حضرات ائمہ اربعہ مجتہدین رحمہم اللہ تعالیٰ رحمة واسعہ کو حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے افضل نہیں سمجھتا۔
(۳) تقلید کا مطلب یہ ہے کہ کسی امام مجتہد یا پیشوائے دین کے کسی قول کو اِس حُسن پر قبول کرلینا کہ جو کچھ وہ ارشاد فرماتے ہیں، قرآن وحدیث کے مطابق ہی فرماتے ہیں اور اس تسلیم وعمل کو دلیل معلوم ہونے پر معلق نہ کرنا، الغرض تقلید میں مطالبہٴ دلیل شامل نہیں اور دلیل کا علم ہوجانا اس کے معارض نہیں، درحقیقت دین نام ہے اعتماد وانقیاد کا، اگر دنیا سے یہ دونوں صفات معدوم ہوجائیں تو دین کا نام اور نشان ہی باقی نہ رہے گا، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
”أن الأمة اجتمعت علی أن یعتمدوا علی السلف فی معرفة الشریعة فالتابعون اعتمدوا فی ذلک علی الصحابة وتبع التابعین اعتمدوا علی التابعین وہکذا فی کل طبقة اعتمد العلماء علی من قبلہم والعقل یدل علی حسن ذلک لأن الشریعة لا تعرف إلا بالنقل والإستنباط والنقل لا یستقیم إلا بأن تأخذ کل طبقة عمن قبلہا بالإتصال“ إھ (عقد الجید: ۳۶) 
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ کی عبارت بالا کا حاصل یہی ہے کہ عہد رسالت سے لے کر اب تک سلسلہ بہ سلسلہ اعتماد وانقیاد جاری ہے، اور اسی پر شریعت کا مدار ہے اور غیر مقلدیت کا سب سے پہلا وار ہی سلف سے اعتماد وانقیاد پر ہوتا ہے، اللہ پاک ان لوگوں کو ہدایت نصیب فرمائے آمین۔ قاضی عبدالواحد مرحوم غیرمقلد عالم اپنے فرقہ کے ایک غیرمقلد عالم مولوی ثناء اللہ امرتسری پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”اسی طرح ان جہال بدعتی کاذب اہل حدیثوں میں ایک دفعہ رفع یدین کرے اور تقلید کا رد کرے اور سلف کو ہتک کرے، مثل امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے کہ جن کی امامت فی الفقہ اجماع امت کے ساتھ ثابت ہے، اور پھر جس قدر کفر بداعتقادی اور اِلحاد اور زندیقیت ان میں پھیلادے بڑی خوشی سے قبول کرتے ہیں اور ایک ذرہ چیں بجبیں بھی نہیں ہوتے، اگرچہ علماء اور فقہائے اہلِ سنت ہزار دفعہ اُن کو متنبہ کریں، ہرگز نہیں سنتے“ إھ (اظہار کفر ثناء اللہ بجمیع اصول آمنت باللہ: ۲۶۲) 
کاش! غیرمقلدین بھائی اپنے گھر کی اِس شہادت کے ایک ایک لفظ کو پڑھ کر اپنے اپنے دلوں سے محاسبہ کرکے صلاح وتقویٰ اختیار کیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

No comments:

Post a Comment