اف! .... باطل کو ملا اک نیا شوشا
ایس اے ساگر
عام قاعدہ ہے کہ کھلے میدان میں کوئی شخص کتنی ہی اچھی ڈرائیونگ کیوں نہ کرکے، اس کی اصل آزمائش شہر کی گنجان سڑکوں پر اس وقت ہوتی ہے جب وہ ہر قسم کی بھیڑ بھاڑ، دوسروں کی بے اصولی اور بے ضابطگی کی پروا نہ کرتے ہوئے کمال صبر و تحمل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی گاڑی اور سواریوں کو عافیت کیساتھ منزل مقصود پر پہنچا دیتا ہے. اسی طرح تربیت کے دوران فوجی رنگروٹ اس وقت تک منجھا ہوا شمار نہیں کیا جاتا ہے جب تک کہ محاذ پر اپنی شجاعت اور حکمت عملی کا لوٹا نہ منوالے. کچھ ایسی ہی مثال علمائے کرام، مدارس اور دعوت الی اللہ کے میدان میں نقل و حرکت کی ہے. فراغت کے بعد ایک تا تین سال امت کو دینا، جسے تازہ رکھنے کے لئے مقامی نقل و حرکت اور سالانہ خروج آکسیجن کا درجہ رکھتے ہیں.
یہ تو ہونا ہی تھا
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بہت پہلے ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ ٹی وی بحث میں جانے والے حضرات بورڈ کا نام استعمال نہ کریں، اس کے باوجود کچھ لوگوں کے نام کے ساتھ ٹی وی مباحثہ میں ممبر آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کا لاحقہ استعمال ہوتا رہا ہے، یہ افسوس ناک حقیقت ہے ..... پتہ نہیں کیوں بورڈ کے اکابر نے اب تک اس کی طرف توجہ نہیں کی ـ
اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج کیمرے کے سامنے رکن بورڈ مفتی اعجاز ارشد کے ساتھ اس طرح کا معاملہ پیش ایا،
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے ذمہ دار بڑی حد تک مفتی اعجاز ارشد صاحب خود ہیں ـ اول تو انھیں اس طرح کے مباحثوں میں شریک ہوکر اپنی اور مسلمانوں کی عزت نفس کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیئے تھا، ..... چینل بھی کون سا .... زی نیٹ ورک کا.....! دوسرے بحث کے دوران جب اس میں شامل عورتیں اشتعال انگیزی کرنے لگی تھیں تب انھیں اینکر کو متوجہ کرنا چاہئیے تھا، اس کے بعد بھی اگر اشتعال جاری رہتا تو اسی وقت چینل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پروگرام سے واک آؤٹ کردینا چاہٰئے تھاـ
بہر حال بورڈ کے اعلی ذمہ داروں کو پورے معاملے کی اطلاع ہوچکی ہے امید ہے جلد ہی مناسب اقدام ہوگاـ
دوسرا رخ ......
مگر تصویر کے دوسرے رخ پر بھی نظر ڈالنا ضروری ہے ..... وہ فرح نامی عورت چینل پر آنے سے پہلے پولس تھانے کو مطلع کرتی ہے کہ وہ ٹی وی ڈیبیٹ کے لئے فلاں چینل پر پہنچ رہی ہے اور وہاں اس پر حملہ بھی ہوسکتا ہے، چنانچہ آپ کلپ دیکھیں گے تو وہاں تھپڑوں کے تبادلے سے پہلے ہی پولیس پہنچی دکھائی دے رہی ہے .... غالبایہ ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا جب پولیس واردات سے پہلے ہی مقام واردات پر پہنچ کر واردات ہونے کا انتظار کررہی ہےـ
پھر ڈیبیٹ میں جو کچھ ہوا وہ بھی دیکھنے والوں نے دیکھا ہے، یو ٹیوب وغیرہ پر اس کا مکلمل فوٹیج موجود ہوگا، جس طرح اشتعال انگیزی ہوتی ہے، اینکر صاحبہ خود بھی اس کا حصہ ہوتی ہیں، درمیان ایک صاحبہ دھاڑیں مارکر رونا شروع کرتی ہیں، اینکر سمیت تینوں عورتیں کھڑی ہوجاتی ہیں، پاکھنڈی پاکھنڈی کی گردان کی جاتی ہے اور بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے، اس دوران مفتی صاحب بھی کھڑے ہوجاتے ہیں، چیخ پکار کے دوران فرح مفتی صاحب کو ایک تھپڑ لگادیتی ہے جواب میں مفتی صاحب بھی اس کو لگاتار تین تھپڑ جڑدیتے ہیں، بیچ بچاؤ ہوتا ہے مگر اس دوران بھی اینکر کی زبان مفتی صاحب ہی کو نشانہ بناتی رہتی ہےـ
اسکرین پر یہ سب ہوتا رہتا ہے اسی درمیان پولیس کے نوجوان بھی اسکرین پر دکھائی دیتے رہتے ہیں.ـ
مفتی صاحب کو پولیس حراست میں لے کر چلی جاتی ہے وہ عورت اطمینان سے اپنے گھر چلی جاتی ہےـ
یہ بھی سمجھنے والی بات ہے کہ آج ہی سپریم کورٹ نے ماپ لنچنگ کے خلاف پھٹکارا ہے مگر اس کے باوجود ۸۰ سالہ ایک مذہبی رہنما سوامی اگنی ویش پر بی چے پی ورکروں نے زبردسست حملہ کیا ہے، اس قابل مذمت فعل سے توجہ ہٹانے کے لئے یہ پورا ڈرامہ رچا گیاـ
پرسنل لا بورڈ یقینا اپنے ممبر کے خلاف مناسب اقدام کرے گا، مگر ہم سب کو چاہئے کہ پوری شدت کے ساتھ اس پورے ڈرامے کی غیر جانبدارانہ تحقیق کا مطالبہ کریں، حالانکہ جانچ کا کیا نیتجہ ہوگا ہم سب کو معلوم ہے مگر اپنی طرف سے بالکل کوتاہی نہیں کرنی چاہئے ـ
کاش اس قسم کے مباحثوں میں شریک ہونے والے ہمارے بزرگوں کو موجودہ واقعہ سے عبرت حاصل ہوجائےـ
محمود دریابادی
...........
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بہت پہلے ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ ٹی وی بحث میں جانے والے حضرات بورڈ کا نام استعمال نہ کریں، اس کے باوجود کچھ لوگوں کے نام کے ساتھ ٹی وی مباحثہ میں ممبر آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کا لاحقہ استعمال ہوتا رہا ہے، یہ افسوس ناک حقیقت ہے ..... پتہ نہیں کیوں بورڈ کے اکابر نے اب تک اس کی طرف توجہ نہیں کی ـ
اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج کیمرے کے سامنے رکن بورڈ مفتی اعجاز ارشد کے ساتھ اس طرح کا معاملہ پیش ایا،
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے ذمہ دار بڑی حد تک مفتی اعجاز ارشد صاحب خود ہیں ـ اول تو انھیں اس طرح کے مباحثوں میں شریک ہوکر اپنی اور مسلمانوں کی عزت نفس کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیئے تھا، ..... چینل بھی کون سا .... زی نیٹ ورک کا.....! دوسرے بحث کے دوران جب اس میں شامل عورتیں اشتعال انگیزی کرنے لگی تھیں تب انھیں اینکر کو متوجہ کرنا چاہئیے تھا، اس کے بعد بھی اگر اشتعال جاری رہتا تو اسی وقت چینل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پروگرام سے واک آؤٹ کردینا چاہٰئے تھاـ
بہر حال بورڈ کے اعلی ذمہ داروں کو پورے معاملے کی اطلاع ہوچکی ہے امید ہے جلد ہی مناسب اقدام ہوگاـ
دوسرا رخ ......
مگر تصویر کے دوسرے رخ پر بھی نظر ڈالنا ضروری ہے ..... وہ فرح نامی عورت چینل پر آنے سے پہلے پولس تھانے کو مطلع کرتی ہے کہ وہ ٹی وی ڈیبیٹ کے لئے فلاں چینل پر پہنچ رہی ہے اور وہاں اس پر حملہ بھی ہوسکتا ہے، چنانچہ آپ کلپ دیکھیں گے تو وہاں تھپڑوں کے تبادلے سے پہلے ہی پولیس پہنچی دکھائی دے رہی ہے .... غالبایہ ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا جب پولیس واردات سے پہلے ہی مقام واردات پر پہنچ کر واردات ہونے کا انتظار کررہی ہےـ
پھر ڈیبیٹ میں جو کچھ ہوا وہ بھی دیکھنے والوں نے دیکھا ہے، یو ٹیوب وغیرہ پر اس کا مکلمل فوٹیج موجود ہوگا، جس طرح اشتعال انگیزی ہوتی ہے، اینکر صاحبہ خود بھی اس کا حصہ ہوتی ہیں، درمیان ایک صاحبہ دھاڑیں مارکر رونا شروع کرتی ہیں، اینکر سمیت تینوں عورتیں کھڑی ہوجاتی ہیں، پاکھنڈی پاکھنڈی کی گردان کی جاتی ہے اور بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے، اس دوران مفتی صاحب بھی کھڑے ہوجاتے ہیں، چیخ پکار کے دوران فرح مفتی صاحب کو ایک تھپڑ لگادیتی ہے جواب میں مفتی صاحب بھی اس کو لگاتار تین تھپڑ جڑدیتے ہیں، بیچ بچاؤ ہوتا ہے مگر اس دوران بھی اینکر کی زبان مفتی صاحب ہی کو نشانہ بناتی رہتی ہےـ
اسکرین پر یہ سب ہوتا رہتا ہے اسی درمیان پولیس کے نوجوان بھی اسکرین پر دکھائی دیتے رہتے ہیں.ـ
مفتی صاحب کو پولیس حراست میں لے کر چلی جاتی ہے وہ عورت اطمینان سے اپنے گھر چلی جاتی ہےـ
یہ بھی سمجھنے والی بات ہے کہ آج ہی سپریم کورٹ نے ماپ لنچنگ کے خلاف پھٹکارا ہے مگر اس کے باوجود ۸۰ سالہ ایک مذہبی رہنما سوامی اگنی ویش پر بی چے پی ورکروں نے زبردسست حملہ کیا ہے، اس قابل مذمت فعل سے توجہ ہٹانے کے لئے یہ پورا ڈرامہ رچا گیاـ
پرسنل لا بورڈ یقینا اپنے ممبر کے خلاف مناسب اقدام کرے گا، مگر ہم سب کو چاہئے کہ پوری شدت کے ساتھ اس پورے ڈرامے کی غیر جانبدارانہ تحقیق کا مطالبہ کریں، حالانکہ جانچ کا کیا نیتجہ ہوگا ہم سب کو معلوم ہے مگر اپنی طرف سے بالکل کوتاہی نہیں کرنی چاہئے ـ
کاش اس قسم کے مباحثوں میں شریک ہونے والے ہمارے بزرگوں کو موجودہ واقعہ سے عبرت حاصل ہوجائےـ
محمود دریابادی
...........
ہم بھی کسی سے کم نہیں!
افسوس ہے کہ مفتی اعجاز ارشد صاحب قاسمی ذہین ہونے کے باوجود ماحول بھانپ نہ سکے
دونوں طرف سے بد زبان خواتین کا انہیں نرغے میں یوں لے لینا کسی اوچھے ہتھکنڈے اور سوچی سمچی سازش ومنصوبے کا پیش خیمہ تھا
کیا اچھا ہوتا کہ وہ ٹاک شو چھوڑ کے فورا آجاتے
ایک تو انہوں نے اس نوع کے بھگوائی ڈبیٹ میں شرکت کرکے حماقت کی
دوسرے ماحول کی خطرناکی اور سنگینی کے بروقت ادراک سے وہ یکسر قاصر رہے
دور اندیشی اور حکمت وتدبر کا تقاضہ یہ تھا کہ تھپڑ کھاکے بھی ضبط کرلیتے
تاکہ بھگوائیوں کے سازشی بیل منڈھے نہ چڑھ پائے
جب آپ مبینہ طور پہ کسی ملی ادارے کے ترجمان ،قائد، ممبر یا رہنما کی حیثیت سے کسی ٹاک شو میں شرکت کرتے ہیں تو اب آپ کو شخصی انا کچل کر خود کو اس کوہ گراں سے بھی زیادہ ضبط و برداشت کا مظاہرہ کرنا پڑے گا جو ہر قسم کی زالہ باری سے بے نیاز اپنی جگہ پہ قائم رہتا ہے
ٹاک شوز میں عام حیثیت کا معمولی بندہ بھی ملکی وزراء تک کو طمانچے رسید کردیتا ہے ، لیکن سیاسی سیانے سب کچھ خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرکے سنی ان سنی کردیتے ہیں
حاضر سروس صدر مملکت اور وزرائے اعظم تک کو تمام تر سیکورٹی حصار اور خصوصی پروٹوکول کے باوجود، جوتے، سیاہی، اور لات گھوسوں سے استقبال کیا جاتا رہا ہے
لیکن سیاسی شعور وپختگی رکھنے والے سیانے ان چیزوں کو خاطر میں نہیں لاتے
اشتعال انگیزی سے مشتعل ہوجانے والے اور پٹرول کی آگ کی طرح بھڑک جانے والے دانشوران سیاسی اور مکالمتی جنگ ہار جاتے ہیں
مشتعل ہوکر اور بھڑک کر جل اٹھنا کمال نہیں، سلگتے رہنا کامیاب اور گھاگھ قائدین کا کام ہے۔
پہاڑوں کا شکوہ، زمین کا تحمل اور سمندر کی گہرائی قائد ورہنما کی خصوصیات ہیں
انتقامی جذبات کو راہ ورسید دینے والے زعماء شکست کھا جاتے ہیں
مفتی اعجاز ارشد صاحب قاسمی کے ساتھ خواتین کی طرف سے جو ہاتھا پائی کا دلخراش منظر دیکھنے کو ملا وہ ملک کے موجودہ حالات میں اتنا تکلیف دہ نہیں
جتنا مفتی صاحب کا رد عمل ہم لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث ہے
مفتی صاحب جذباتیت کے شکار ہوگئے اور دور اندیشی کا مظاہرہ بالکل نہیں کیے اور یوں سازشی مہرے اور ان کے تانے بانے کو کامیاب کردیئے ۔
عورتوں کی طرف سے دست درازی کی ابتدا کسی کو بھی نظر نہ آئے گی ، ہاں ڈاڑھی دار ،کلاہ پوش مفتی وعالم دین کی ایک خاتون پہ زیادتی سارے لوگوں کو نظر آئے گی بلکہ چند ساعتوں میں ہی سوشلستان میں یہ خبر مرکز توجہ و موضوع بحث بن گئی
اور میڈیا جو چٹ پٹی خبروں کی تلاش میں رہتا ہے
اسے آج سے ایک نیا شوشہ ہاتھ لگا ہے، خدا جانے اب اس کا اختتام کہاں پہ ہوتا ہے؟
کاش! مفتی اعجاز ارشد صاحب موقع محل کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے بیچ بچائو کی کوئی شکل نکال لیتے تو آج نہ خود خبر بنتے نہ پرسنل لا و علماء دین کے خلاف کتوں کو بھونکنے کا موقع فراہم کرتے!
شکیل منصور القاسمی
دونوں طرف سے بد زبان خواتین کا انہیں نرغے میں یوں لے لینا کسی اوچھے ہتھکنڈے اور سوچی سمچی سازش ومنصوبے کا پیش خیمہ تھا
کیا اچھا ہوتا کہ وہ ٹاک شو چھوڑ کے فورا آجاتے
ایک تو انہوں نے اس نوع کے بھگوائی ڈبیٹ میں شرکت کرکے حماقت کی
دوسرے ماحول کی خطرناکی اور سنگینی کے بروقت ادراک سے وہ یکسر قاصر رہے
دور اندیشی اور حکمت وتدبر کا تقاضہ یہ تھا کہ تھپڑ کھاکے بھی ضبط کرلیتے
تاکہ بھگوائیوں کے سازشی بیل منڈھے نہ چڑھ پائے
جب آپ مبینہ طور پہ کسی ملی ادارے کے ترجمان ،قائد، ممبر یا رہنما کی حیثیت سے کسی ٹاک شو میں شرکت کرتے ہیں تو اب آپ کو شخصی انا کچل کر خود کو اس کوہ گراں سے بھی زیادہ ضبط و برداشت کا مظاہرہ کرنا پڑے گا جو ہر قسم کی زالہ باری سے بے نیاز اپنی جگہ پہ قائم رہتا ہے
ٹاک شوز میں عام حیثیت کا معمولی بندہ بھی ملکی وزراء تک کو طمانچے رسید کردیتا ہے ، لیکن سیاسی سیانے سب کچھ خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرکے سنی ان سنی کردیتے ہیں
حاضر سروس صدر مملکت اور وزرائے اعظم تک کو تمام تر سیکورٹی حصار اور خصوصی پروٹوکول کے باوجود، جوتے، سیاہی، اور لات گھوسوں سے استقبال کیا جاتا رہا ہے
لیکن سیاسی شعور وپختگی رکھنے والے سیانے ان چیزوں کو خاطر میں نہیں لاتے
اشتعال انگیزی سے مشتعل ہوجانے والے اور پٹرول کی آگ کی طرح بھڑک جانے والے دانشوران سیاسی اور مکالمتی جنگ ہار جاتے ہیں
مشتعل ہوکر اور بھڑک کر جل اٹھنا کمال نہیں، سلگتے رہنا کامیاب اور گھاگھ قائدین کا کام ہے۔
پہاڑوں کا شکوہ، زمین کا تحمل اور سمندر کی گہرائی قائد ورہنما کی خصوصیات ہیں
انتقامی جذبات کو راہ ورسید دینے والے زعماء شکست کھا جاتے ہیں
مفتی اعجاز ارشد صاحب قاسمی کے ساتھ خواتین کی طرف سے جو ہاتھا پائی کا دلخراش منظر دیکھنے کو ملا وہ ملک کے موجودہ حالات میں اتنا تکلیف دہ نہیں
جتنا مفتی صاحب کا رد عمل ہم لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث ہے
مفتی صاحب جذباتیت کے شکار ہوگئے اور دور اندیشی کا مظاہرہ بالکل نہیں کیے اور یوں سازشی مہرے اور ان کے تانے بانے کو کامیاب کردیئے ۔
عورتوں کی طرف سے دست درازی کی ابتدا کسی کو بھی نظر نہ آئے گی ، ہاں ڈاڑھی دار ،کلاہ پوش مفتی وعالم دین کی ایک خاتون پہ زیادتی سارے لوگوں کو نظر آئے گی بلکہ چند ساعتوں میں ہی سوشلستان میں یہ خبر مرکز توجہ و موضوع بحث بن گئی
اور میڈیا جو چٹ پٹی خبروں کی تلاش میں رہتا ہے
اسے آج سے ایک نیا شوشہ ہاتھ لگا ہے، خدا جانے اب اس کا اختتام کہاں پہ ہوتا ہے؟
کاش! مفتی اعجاز ارشد صاحب موقع محل کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے بیچ بچائو کی کوئی شکل نکال لیتے تو آج نہ خود خبر بنتے نہ پرسنل لا و علماء دین کے خلاف کتوں کو بھونکنے کا موقع فراہم کرتے!
شکیل منصور القاسمی
.........
مفتی اعجاز ارشد کے سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے جنرل سکریٹری مولانا محمدولی رحمانی کے حکم پر ایک سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو جلد ہی اعجاز ارشد کے معاملے کی تحقیقات کرکے اس کی رپورٹ صدر بورڈ حضرت مولانا رابع حسنی ندوی کو پیش کرے گی جس کی بنیاد پر اراکین عاملہ کے مشورے سے کوئی اہم فیصلہ لیا جائے گا۔ بورڈ کی طرف سے ابھی سکریٹری وسوشل میڈیاڈ یسک کے انچارج مولانا عمرین محفوظ رحمانی نے اپنے ایک تازہ ترین ویڈیو پیغام میں یہ واضح کردیا ہے کہ اعجاز ارشد قاسمی نہ بورڈ کے ترجمان ہیں اور نہی بورڈ کی طرف سے ان کو ٹی وی ڈبیٹ میں جانے کے لیے کہا گیا ہے وہ اپنے عمل کے خود ہی ذمہ دار ہیں.
(تازہ ترین نیوزگروپ)
(تازہ ترین نیوزگروپ)
..........
سوشل نیٹ ورکنگ اور خدمت دین
آج کل ہمارے اس نیک برادری کے ایک بڑے حصے کو دین کی خدمت اور دین کا دفاع صرف یہیں یعنی سوشل نیٹ ورکنگ پر محسوس ہو رہا ہے
جبکہ اس میدان میں کی جانے والی خدمت ہو یا دفاع بہت کم ہی مؤثر ہوتا ہے
کیونکہ اس کی بہت سی چیزیں مزاج اسلام کے بالکل خلاف ہے
مثلا
تصویر کشی
موسیقی
غیر محارم کا سامنا
وغیرہ
جبکہ اسلام کا اس بارے میں بڑا ہی واضح اصول ہے کہ حرام چیز کا استعمال درجہ جواز میں اسوقت آتا ہے جب حلال چیز بالکل ہو ہی نہیں یا حرام کے بغیر چارہ کار نہ ہو یعنی اضطرار کی حالت اور ایسی حالت میں بھی حرام کا استعمال بقدر ضرورت ہی جائز ہے اس سے زیادہ پر گنہگار ہوگا
لیکن کیا کریں سوشل نیٹ ورکنگ کی اس خوبصورت دنیا میں دین کی آڑ لیکر شیطان نے ہمارے علماء کی ایک جماعت کو بھر پور بےوقوف بنایا ہے اور وہ ہیں کہ بنتے بھی جارہے ہیں
اللہ رحم کرے
نیز سوشل میڈیا کے ہمارے شہسوار یہ بھی نہیں دیکھتے کہ میرا جن سے مقابلہ ہے کیا اس کے لئے میرے پاس علمی عقلی سیاسی صلاحیت ہے بھی یا نہیں
بس جذبات کی رو میں بہہ کر مقابلے پر نکل آتے ہیں اور سامنا یا تو وقت کے انتہائی مکار لوگوں سے ہوتا ہے یا جاہلوں سے جن دونوں کے سامنے مباحثے کے لئے بیٹھنا لاحاصل ہے
اور عجیب بات تو یہ ہے کہ
ہمارے یہ مصلحین سوشل میڈیا میں سے ۹۹% اپنے اساتذہ یا شیخ یا پیر و مرشد سے اس معاملے میں مشورہ یا اجازت تک نہیں لیتے....
نتیجے میں اسلام کی اور خود کی بے عزتی کا سبب بنتے ہیں...
مبارک ہو صد مبارک
حضرت جی مولانا سعد صاحب جو اس معاملے میں علماء دیوبند کے فتوے و روش پر خود بھی چلتے ہیں اور مسلمانوں کو چلانے پر پورا زور صرف کرتے ہیں حضرت جی دیوبند ہی کی پیروی کرتے ہوۓ موبائل سے تصویر کشی اور غیر ضروری استعمال کو منع کرتے ہیں
کاش امت کے علماء اس سوشل نیٹ ورکنگ کے معاملے میں اپنے مؤقر ادارے کے فتوے پر عمل کرے ایسے پروگراموں کا کلی بائیکاٹ کرے...... اور شدید ضرورت کے وقت اپنے ان ہی بزرگوں گو آگے کرے.....
...........
مفتی اعجاز ارشد قاسمی صاحب مدظلہ العالی کو بھی دعوت کو اپنی زندگی کا مقصد بنانا ہوگا.... باطل کو توڑنے کے لئے
No comments:
Post a Comment